اچانک گھر میں فلک شگاف چیخ کی آواز گونجی ؛ فریال کے ہاتھوں سے گلاسوں کی ٹرے گرتے گرتے بچی تھی۔۔۔۔اس نے فورا عروہ کے کمرے کا رخ کیا۔۔۔۔جہاں عروہ بیڈ پر چڑھی ہوئی تھی اور ہاتھ میں پکڑا جھاڑو اس بات کا ثبوت تھا کہ اس نے آج ضرور پھر کسی کیڑے مکوڑے کو بے گھر کیا ہے۔۔۔۔جھاڑو سے مار کر نہیں ۔۔۔بلکہ اپنی چیخ سے مار کر-
عروہ کوئی تمیز ہوتی ہے یہ کیا طریقہ ہے نیچے اترو بیڈ سے کون پاگل تمہیں کہے کہ تم ایک بہترین سکول میں ٹیچر ہو۔۔۔۔۔بچے تمہارے بیگ میں چھپکلی رکھ کر ایڈونچر کرتے ہیں۔۔۔۔چچی دن رات تمہاری بڑائیاں کرتی نہیں تھکتی۔۔۔
اگر میرے پر آپکی پی ایچ ڈی ختم ہوگئی ہو تو میں کچھ ارشاد کروں۔۔۔۔عروہ نے آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا۔
آپ میری بڑی بہن کم ساس زیادہ بنتی ہو کاکروچ تھا اسی لیے ڈر گئی میں ڈر میں پتا نہیں کیسے زیادہ ہی زور سے چیخ مار دی پر آپ تو نان سٹاپ شروع ہوجاتی ہو۔۔۔۔عروہ نے منہ بناتے ہوئے کہا-
اس سے پہلے کہ فریال کچھ کہتی احمر کمرے میں آگیا۔۔۔۔کیا ہوا میڈم آپکا منہ کیوں پھلا ہوا ہے۔۔۔۔احمر نے شرارت سے عروہ سے پوچھا۔۔۔۔۔۔اسے پتا تھا عروہ کو کچھ کہنا مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا تھا پر ہاتھ تو وہ اب ڈال چکا تھا۔
فریال نے آرام سے وہاں جانے میں ہی عافیت سمجھی-
تمہیں کوئی تمیز ہے جب دل چاہا کمرے میں آجاتے ہو کچھ ایٹی کیٹس بھی ہوتے ہیں۔۔۔عروہ ہمیشہ کی طرح احمر کو دیکھتے ہی غصہ میں آگئی
“تم کو اتنا گھمنڈ کس بات کا ہے؟ ”
احمر نے پوچھا۔۔۔۔
“اسی بات کا جس پر تم مر مٹے ہو” عروہ نے آرام سے جواب دیا۔۔۔۔جو احمر کو لاجواب کر گیا-
———————–
احمر اور عروج دونوں چچازاد تھے احمر شروع دن سے عروہ کو پسند کرتا تھا ماں باپ کا اکلوتا تھا اس لیے جب دل کی خواہش کا اظہار ماں باپ سے کیا تو وہ انکار نہ کر سکے ۔۔۔۔ایسے ہی عروہ کے ہاتھ میں وہ ایک دن اپنے نام کا رشتہ جوڑ آیا سبکی رضامندی سے۔۔۔عروہ کے لیے کچھ بھی نیا نہیں تھا۔۔۔۔پر چچی دل سے یہ رشتہ نہیں چاہتی تھی پر بیٹے کی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوگئیں تھیں۔۔۔۔۔عروہ سدا کی لاابالی سی طبیعت والی تھی شوخ و چنچل ۔۔۔۔۔پر عروہ کے دل میں احمر کے لیے کوئی پسندیدگی نہیں تھی۔ فریال جتنی سمجھ دار تھی عروہ اتنی ہی لاپرواہ تھی-
—————————-
—————————–
آج عروہ کے سکول کا ٹرپ جانا تھا ۔۔۔جس کے لیے وہ صبح سے ہی تیاری کر رہی تھی۔۔۔۔جب فریال اندر آئی تو عروہ کی تیاری دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔عروہ نے سیاہ نیٹ جارجٹ کا جدید ڈیزائن والا سوٹ زیب تن کیا تھا۔۔۔۔۔۔تنگ پاجامے اور لمبی سی فراک جس پر سلور رنگ کا کام جھلمل کر رہا تھا۔۔نازک سا سلور کلر کا لاکٹ سیٹ پہنا تھا سلور اور سیاہ رنگ کی انگوٹھی اور بریسلٹ ۔۔۔۔بالوں کا جوڑا بنائے سیاہ اسڑپ والی جوتی پینے اور پرفیوم سے مہکتی وہ کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔۔۔۔۔عروہ تم اتنا تیار ہوکر سکول ٹرپ پر جاوگی ۔۔۔۔اگر امی نے دیکھ لیا تو وہ باہر قدم بھی نہیں رکھنے دیں گئ ۔۔۔۔بس کرو فریال سب ٹیچرز ایسے ہی تیار ہوکر آتی ہیں ۔۔۔۔اگر کچھ تیار ہوگئ ہوں تو امی سے پہلے تم اماں نہ بنو میری۔۔۔۔۔اتنے میں بس کے ہارن کی آواز آئی کیونکہ انکو چھے بجے نکل جانا تھا لاہور سے۔۔۔۔۔اس سے پہلے کے زہرابیگم کی نظر پڑے وہ نکل جانا چاہتی تھی۔۔۔۔پر وہ تو ماں تھی اسکے لیے چادر لے کر آئی کہ یہ لو یہ اوڑھ لینا نافرمان اولاد۔۔۔۔ماں باپ کا لیکچر برا لگتا ہے اولاد کے لیے یہ راتوں کو دعا ماں باپ ہی کرتے ہیں ۔۔۔۔پر یہاں کسے قدر ہے۔۔۔۔وہ واقعی دکھی تھیں۔۔۔۔۔عروہ کو یک دم شرمندگی نے آن گھیرا۔۔۔۔سوری امی معاف کردو۔۔۔اس نے کان پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔جو زہرا بیگم کو اداکاری ہی لگی۔۔۔۔پر اولاد تھی اسکو دعاوں کے سایہ میں بھیج دیا۔۔۔۔
————
زہرا بیگم کا دل کسی انہونی کے ہونے کی پیشگوئی کررہا تھا جو عروہ کی آنے والی زندگی کے ہر رنگ کو مسخ کردے گا۔اور ماں کا دل بے وجہ نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔۔۔اور بہت جلد یہ ڈر انکی زندگی پر اپنا رنگ چھوڑنے والا تھا۔
“زندگی کی کتاب سے”
“مسکرانا چرا لیا کسی نے”
یہی اب عروہ کے ساتھ ہونے جارہاتھا۔
کیسے سنبھال پائیں گے خستہ بدن کی راکھ
ہم لڑتے لڑتے تھک گئے ہیں اپنے بخت سے ۔۔
یہ عروہ کی زندگی کا بہترین ایڈونچر تھا۔۔۔۔۔ہر ایک چہرہ کھلا اور خوش تھا۔۔۔۔وہ لوگ سارے سفر میں خوب ہلہ گلہ کرتے ہوئے آئے تھے۔۔۔۔۔وہ سب لوگ بس سے اتر کر فریش ہونے کے لیے راستے میں رکے۔۔۔۔عروہ کو نہ جانے کیوں محسوس ہوا کہ کوئی اسکے پیچھے ہو۔۔۔۔پر مڑ کر دیکھنے پر کوئی نہیں تھا۔۔۔۔وہ اپنا سر جھٹکا کر باقی سٹاف کے ساتھ چل دی۔۔۔۔۔!
سب نے مری کی سڑکوں پر چڑھتے ہوئے ایک ہی رائے دی کہ وہ مال روڈ کی شام کی رونقیں دیکھنا چاھتے ہیں۔۔۔۔۔سب کی رضامندی سے بس مال روڈ کی طرف چل دی ۔۔۔۔جیسے ہی بس نے بریک لگائی سبکی خوشی دیدنی تھی۔۔۔وہ سب مل کر چلنے لگے سب مال روڈ کی رونقوں میں اتنے مگن تھے کہ کسی نے غور ہی نہیں کیا کہ کوئی اور بھی انکے ساتھ شامل ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔اور انکے کسی اپنے کو وہ ان سے دور کرنے والا تھا۔۔۔۔۔سب کی یہ خوشی وقتی ثابت ہونے والی تھی۔۔۔اور کسی کے لیے یہ سفر صرف پچھتاوا بننے والا تھا۔۔۔۔۔
وہ شخص جیسے چپ چاپ آیا ویسے ہی چل دیا۔۔۔۔پر اب واپسی کے سفر میں وہ کسی اور کو بھی ساتھ ملا چکا تھا۔۔۔۔
—————-
عالیان مرزا اور زاور شاہ اپنے آپ میں دو الگ الگ شخصیات تھیں۔۔۔اگر کچھ مساوی تھا تو وہ تھا پیسا خوبصورتی اور دوسری جانب ایک کا رعب ‘ اٹھنا ‘بیٹھنا اور اسکی شخصیت اپنے نام کی طرح اپنی طرز کا ایک مکمل جہاں تھا۔۔۔۔۔۔
جب وہ شلوار قمیض پہن کر مضبوط کندھوں پر چادر ڈال کر نکلتا تو کون تھا جو اسکو مڑ کا نہ دیکھتا ہوگا۔۔۔۔۔۔زاورشاہ کا نام اور اسکا کام اپنی مثال آپ ہوا کرتا ہے۔۔۔۔۔وہ ڈر کا دوسرا نام تھا اور رعب وہ تو لگتا تھا بنا ہی اس شخص پر ججچنے کے لیے ہے۔۔۔یہ نہیں کہ وہ پڑھ لکھا نہیں تھا ۔۔۔اس نے زندگی کا ہر میدان جیتا تھا۔۔۔۔۔دولت’ علم ‘ شہرت’ خوبصورتی اور شخصیت۔۔۔اور وہ کسی کے دل کی دھڑکنوں میں مدغم بھی تھا۔۔۔۔
دوسری طرف عالیان مرزا بھی اپنے آپ میں ایک نام تھا۔۔۔۔کم گو۔۔محبتیں باٹنے والا۔۔سمیٹنے والا۔۔ ماں کا فرمانبردار ۔۔۔ معصومیت سے بھرپور چہرہ ۔۔۔۔جسکو دیکھتے ہی پیار امڈ آتا تھا۔۔۔وہ تھا ہی ایسا پر قسمت نے اسکے ساتھ اسکے پیار کا ساتھ شاید لکھا ہی نہیں تھا۔۔۔یہ اسکو جلدبدیر پتا چلنے والا تھا۔۔
عروہ کی جب آنکھ کھولی تو اسنے خود کو بندھا ہوا محسوس کیا۔۔۔کمرے میں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔اس نے کچھ سوچنے کی کوشش کی کہ آخر وہ ہے کہاں اور کیسے آئی پر اسکے حواس اسکا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔۔۔اس نے چیخنے کی کوشش کی پر بے سود ۔۔۔۔آنکھیں درد سے کھول نہیں رہی تھیں ۔۔۔اور حلق اتنا خشک ہوا تھا ۔۔۔کہ آواز کا نکلنا ممکن نہیں تھا۔۔۔۔یہ کیسی اذیت تھی۔۔۔کیسی تکلیف تھی جو اس کو دی جا رہی تھی۔۔۔۔
——————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...