مئی کی شعلے اگلتی دو پہر تھی وہ بس میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے اس نے اپنے چہرے پر رو مال باندھ رکھا تھا۔ کھڑکی کے باہر سٹی بس اسٹینڈ کے وسیع احاطے میں تیز و تند دھوپ کسی عفریت کی طرح چنگھاڑ رہی تھی کچھ ہی مسافر تھے جو خود کو دھوپ کی گرفت سے بچاتے ہوئے بس کی طرف لپک رہے تھے معاً کوئی اس کی بغل میں آ کر بیٹھا تو اس نے مڑ کر دیکھا اسے لگا کہ باہر کی چنگھاڑتی ہوئی دھوپ اندر داخل ہو گئی ہے اور اس کے پورے وجود کو جھلسا گئی ہے۔
’’ریحانہ! ‘‘ وہ زیر لب بڑبڑایا
اسے ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا تھا کہ اس چھوٹی سی دنیا میں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں وہ اپنی اداس آنکھوں میں ڈھیر سارے سوالات لے کر اس کے سامنے آ کھڑی ہو گی۔ وہ اس صورت حال سے بچنا چاہتا تھا کیونکہ اس کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا اس نے اپنی عینک کو ناک پر درست کرتے ہوئے اسے غور سے دیکھا۔ گزرے ہوئے کئی برسوں کا غبار بھی اس کے حسین چہرے کی جاذبیت پر کوئی پرت نہ ڈال سکا تھا۔ قدرے فربہی کی طرف مائل اس کا پر کشش جسم ہلکے دھانی رنگ کے شلوار سوٹ میں کسا ہوا تھا۔ اس کی سحر انگیز غزالی آنکھیں دھوپ کی عینک کے عقب میں پوشیدہ تھیں۔ اس کے سرخ و سپید چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے جنہیں وہ ایک تولیہ نما چھوٹے سے رو مال میں جذب کرتی جا رہی تھی۔ چہرے پر رو مال ہونے کی وجہ سے وہ اسے شناخت نہیں کر سکی تھی ورنہ شاید وہ اس کے قریب بیٹھنا گوارا نہ کرتی۔ وہ خود بھی شدید بے سکونی محسوس کرنے لگا تھا۔ اس نے بس کے اندر نگاہیں دوڑائیں۔ تمام سیٹیں پر ہو چکی تھیں خاصا طویل سفر تھا اس ناقابل برداشت گرمی میں کھڑے ہو کر جانا بے وقوفی ہوتی وہ دم سادھے بیٹھا رہا اور باہر کے سلگتے مناظر سے ذہن کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ بس میں کچھ اور سواریاں آ گئیں تو کنڈکٹر نے آواز دی اور بس چل پڑی کچھ نسوانی آوازوں کا بے ترتیب شور ابھرا تو اس نے اندر کی طرف دیکھا نو عمر اور نو خیز اسکولی طالبات تھیں جو بس کی چھت پر لگی ہینڈل تھامے ہوئے آپس میں چہلیں کر رہی تھیں انہیں تکتے ہوئے اس کا ذہن برسوں پہلے کی گل ریز شاہراہ پر سرپٹ دوڑنے لگا
وہ بی۔ کام فائنل ائر کا طالب علم تھا۔ اکنومکس، اکاؤنٹنسی اور بزنس میتھ پڑھتے پڑھتے اس کی ذہنیت تاجرانہ ہوتی جا رہی تھی اور وہ ہر کام میں نفع نقصان پر گہری نگاہ رکھنے لگا تھا کہ اسی وقت ریحانہ سے ملاقات ہو گئی۔ تب اس نے جانا کہ علم معاشیات ہو یا علم الحساب، دلوں کے معاملے میں ان سے کوئی مدد نہیں مل سکتی من کی تو الگ ہی لگن ہوتی ہے جو سود و زیاں سے ماورا ہوتی ہے۔ وہ پلس ٹو کی طالبہ تھی اور کچھ دنوں سے اس کے بھائی جان کے پاس ٹیوشن پڑھنے آنے لگی تھی۔ پہلی نگاہ میں ہی وہ آنکھوں کی راہ دل میں براجمان ہو گئی۔ جب اس کے آنے کا وقت ہوتا وہ سارے کام تج کر اس کا منتظر رہتا۔ جیسے ہی سادے لباس میں اس کا دلآویز سراپا نظر آتا اس کے دل کے تمام خوابیدہ ملائم تار تن جاتے اور اس کی رگوں میں موسیقیت بھر جاتی وہ اس کے مخفی جذبوں سے بے نیاز اپنے گل نو شگفتہ جیسے چہرے پر ایک ہلکی سی معصوم مسکان لاتی اور اسے سلام کرتی ہوئی اندر ہال میں چلی جاتی جہاں بھائی جان دیگر لڑکیوں کو درس دے رہے ہوتے آہستہ آہستہ اس کے لطیف جذبے اس پر آشکار ہوتے گئے اور بھائی جان کی نگاہ بچا کر سلام کے ساتھ کلام بھی ہونے لگا اس کی آواز میں غضب کی نغمگی اور آہنگ تھا۔ سخن کرتی تو لگتا کوئی گیت گنگنا رہی ہو یا دور اونچائی سے کوئی آبشار گر رہا ہو۔ کل۔ کل۔ کل۔۔۔ وہ چلی بھی جاتی تو اس کی آواز کا فسوں دیر تک اس کے تمام وجود کو اپنی گرفت میں لیے رہتا
اس دوران بھائی جان کی شادی کی طے شدہ تاریخ قریب آ گئی۔ صرف ہفتے بھر کا وقت رہ گیا تھا۔ شادی کی تیاری زور شور سے جاری تھی بیشتر سامان کی خریداری اسی کے ذمے تھی سب کچھ تو ٹھیک تھا لیکن دلہن کے لیے ملبوسات خریدنا ٹیڑھا مسئلہ تھا وہ ریحانہ سے مدد کا طلب گار ہوا تو وہ فوراً تیار ہو گئی۔ وہ پہلی بار اس کے ساتھ بازار گیا زنانہ ملبوسات کی دکانوں کا چکر کاٹتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ کپڑوں کا بے حد نفیس ذوق رکھتی تھی اس کے منتخب کردہ ملبوسات یقیناً قابل تعریف تھے خریداری کے بعد وہ اسے ایک اچھے ریسٹورنٹ میں لے گیا ناشتے اور ٹھنڈے مشروب کا لطف اٹھاتے ہوئے ڈھیر ساری باتیں ہوئیں اچانک اس نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مجھے یقین تھا کہ آپ دلہن کے ملبوسات کی خریداری کے لیے مجھے ساتھ چلنے کو کہیں گے‘‘
’’کیوں؟ تمہیں اس کا یقین کیوں تھا؟‘‘
اس نے قدرے تعجب سے پوچھا تو وہ گہری مسکان بکھیرتی ہوئی خاموش رہی۔
وہ گھر واپس آئے تو وہاں ٹیوشن پڑھنے والی لڑکیاں بھائی جان پر دباؤ ڈال رہی تھیں کہ گیتوں کی محفل سجائی جائے ریحانہ بھی ان میں شامل ہو گئی بالآخر بھائی جان راضی ہو گئے اور شام ہوتے ہی ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ گیتوں کے مدھر بول ابھرنے لگے مختلف نوخیز اور الھڑ آوازوں کے درمیان ایک ایسی نرم اور شیریں آواز لہرائی جس میں غضب کی کشش اور غنائیت تھی
’’موہے چاندی کی پائل منگا دو سجن
خالی پیروں سے پنگھٹ کو میں چلوں
اپنی سکھیوں کو دیکھوں تو میں جلوں
وہ تو ناچیں میں شرما کے منھ پھیروں
موہے پنگھٹ کی رانی بنا دو سجن ’’
گیت کے مدھر شبد، انوکھی طرز اور مقناطیسی آواز کا مجموعی تاثر اسے کھینچتا ہوا اندر لے آیا اس نے دیکھا کہ گیت کے بول ریحانہ کے ہونٹوں سے پھوٹ رہے ہیں اور دوسری لڑکیاں ٹیپ کا مصرعہ اٹھا رہی ہیں۔ اس پر نگاہ پڑی تو ریحانہ کی آواز کسی قدر دھیمی پڑ گئی لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس کے لہجے میں کچھ اور سوز و گداز گھل گیا۔ اور پھر ہر شام اسی طرح کے طربیہ اور عشقیہ گیت گائے جاتے رہے جن میں سب سے نمایاں اور مترنم آواز اسی کی ہوتی تھی۔ دوسری لڑکیوں کی بہ نسبت اسے گیت بھی خوب یاد تھے۔ غیر فلمی گیت جن کی طرزیں بھی جیسے وہ خود ہی بناتی تھی۔ رات گہری ہوتے ہی گیتوں کی محفل ختم ہو جاتی لیکن وہ رات بھر اس آواز کی ڈور تھامے آسمان پر جھلمل تاروں کے درمیان بھٹکتا رہتا۔ بھائی جان کی شادی ہونے تک وہ اس کے عشق کے دریا میں گلے تک ڈوب چکا تھا۔
یکایک بس کو زور کا جھٹکا لگا اور اس کی یادوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا جھٹکے کے اثر سے ریحانہ کا گداز بدن اس کے جسم سے ٹکرایا تو رگ و پے میں بجلی سی دوڑ گئی اس نے دزدیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا جو سرعت سے الگ ہو کر اپنے بدن کو اس طرح سمیٹ رہی تھی جیسے اسے سخت کوفت ہوئی ہو۔ وہ افسردہ سا ہو کر کھڑکی کے باہر تکنے لگا۔ بس عریض و ہموار سڑک پر تیز رفتار سے بھاگی جا رہی تھی یہ بائی پاس کی قومی شاہراہ تھی جو کچھ ہی عرصہ قبل تعمیر ہوئی تھی۔ اس کے بننے سے گاڑیوں کی آمدورفت میں بے حد آسانی ہو گئی تھی لیکن حادثوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا تھا سڑک کی دونوں جانب گاؤں آباد تھے جہاں کے لوگ گاڑیوں کی رفتار اور سڑک کی وسعت سے اکثر دھوکہ کھا جاتے جدید موٹر گاڑیوں اور ویگنوں کی قوت رفتار اس قدر بڑھا دی گئی تھی کہ اس قومی شاہراہ پر ہوا سے باتیں کرتیں ذرا سی غفلت ہوتی کہ انسانوں کے ساتھ ان کے بھی کل پرزے بکھر جاتے یکلخت اس کے اندر ایک عجیب سی خواہش جاگی کہ کاش کوئی بھاری بھرکم ٹرک اس کی بس کو ایسی ٹکر مارے کہ سب کچھ سڑک پر بکھر جائے۔
بس ایک اسٹاپ پر رکی کچھ سواریاں نیچے اتریں کنڈکٹر بھی نیچے اتر کر چلایا۔
’’رانی گنج۔۔۔۔۔ رانی گنج آئیے۔۔۔۔۔! ‘‘
دوچار افراد بس کے اندر آئے اور بس پھر چل پڑی۔
رانی گنج۔۔۔۔ حضرت شمس الدین بابا عرف غوث بنگالہ کا شہر۔ فروری کے مہینے میں ان کا عرس لگتا دور دور سے زائرین آتے اور ان کے مزار اقدس پر گلہائے عقیدت پیش کرتے۔ ہفتہ بھر ٹرینوں اور بسوں میں کافی بھیڑ رہتی قرب و جوار کے شہروں میں قوالیاں ہوتیں اور مزار شریف کے لیے چادریں لے جائی جاتیں۔ ہندو مسلم سبھی شریک ہوتے ان دنوں اسے یہ سب بے حد اچھا لگتا تھا اسے قوالی کی محفلیں اچھی لگتی تھیں۔ انہیں سننے کے لیے شب بھر گھر سے غائب رہتا۔ اسے قوالیوں میں دو چیزیں خاص طور سے پسند آتیں قوال جب بھی کوئی کلام گاتا تو درمیان میں اس کلام سے مناسبت رکھتے ہوئے بڑے اور معتبر شعراء کے مشہور قطعات اور اشعار بھی سناتا جاتا اس کا اصل کلام تو اوسط درجے کا ہوتا لیکن ان اشعار کی وجہ سے اس کی وقعت اور اثر انگیزی میں خاصا اضافہ ہو جاتا عمدہ قوالوں کو بہت سارے معیاری اشعار یاد ہوتے جن کا وہ برمحل استعمال کرتے رہتے مثلاً کوئی استاد قوال ایک مصرع گانا شروع کرتا۔
تیری یادوں کے چراغوں کو جلا رکھا ہے
الگ الگ طرز پر کئی بار اس مصرعے کی تکرار کرتا رہتا۔
تیری یادوں۔۔۔۔۔۔۔ تیری یادوں۔۔
ہاں تو جناب بشیر بدر فرماتے ہیں
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
اور فیض احمد فیض کچھ یوں فرماتے ہیں
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
جبکہ محترمہ کشور ناہید فرماتی ہیں
تمہاری یاد میں ہم جشن غم منائیں بھی
کسی طرح سے مگر تم کو یاد آئیں بھی
اور نکہت بریلوی کہتی ہیں
قربت میں بھی اکثر ہمیں یاد آتا رہا ہے
وہ لمحہ جو فرقت میں ترے ساتھ گزارا
تیری یادوں۔۔۔۔۔۔۔ تیری یادوں۔۔۔۔۔۔
قوالی میں جو دوسری بات اسے پسند تھی، اسے لچھا کہا جاتا تھا۔ کوئی کہنہ مشق قوال کسی کلام کے وسط میں چھوٹی بحر کی کوئی طویل نظم یا غزل مسلسل چھیڑ دیتا ڈھولک کی تھاپ اور قوال کی آواز بتدریج رفتار پکڑتی جاتی اور پھر ایسا سماں بندھتا کہ محفل پر وجد طاری ہو جاتا کسی کسی سامع پر تو ‘‘حال‘‘ آ جاتا۔
ریحانہ نے ایک روز فرمائش کی تھی۔
’’مجھے رانی گنج ‘‘غوث بنگالہ‘‘ کے دربار میں لے چلئے‘‘
’’لیکن ابھی تو عرس میں کافی دن باقی ہیں۔‘‘
اس نے کچھ حیرت سے کہا۔
’’عرس میں جانے کے لیے نہیں کہ رہی یوں ہی کسی جمعرات کو چلتے ہیں۔‘‘
اگلی جمعرات کو ہی وہ اس کے ساتھ بابا کے دربار میں حاضر ہو گیا تھا۔ زائرین کی خاصی تعداد موجود تھی مزار شریف کے باہر بائیں سمت بنے ہوئے حوض میں دونوں نے وضو کیا تھا اور ایک دکان سے شیرینی اور اگر بتی لے کر مزار کے اندر داخل ہو گئے تھے صحن میں قوالی کی محفل جمی تھی ایک خوش گلو قوال نغمہ سرا تھا اور امیر خسرو سوز ہجر میں غلطاں مزار شریف کے در و دیوار پر سر پٹخ رہے تھے
کہ تاب ہجراں ندارم اے جان نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
کسے پڑی ہے جو سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
نہ نیند نینا نہ رنگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
سپت من کے در آئے راکھوں جو جائے پاؤ پیا کی کھتیاں
فضا میں ایک پاکیزہ اور پر سکون اداسی چھائی ہوئی تھی دل تھا کہ امڈا چلا آتا تھا اس نے پہلی بار جانا کہ اداسی کا بھی اپنا رنگ ہوتا ہے، اپنا آہنگ ہوتا ہے جس میں ڈوب کر تمام وجود میں ایک عجیب سی سرشاری اور مخموری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے وہ دونوں لرزتے قدموں سے روضۂ اقدس والے حجرے میں داخل ہوئے تھے روضے کی جالی چوم کر انہوں نے سلام عقیدت پیش کیا تھا۔ روضے کی دائیں طرف بیٹھے ہوئے مجاور کے سامنے شیرینی کے دونے اور اگر بتیوں کے پیکٹ رکھے ہوئے تھے انہوں نے بھی اپنا دونا وہیں رکھ دیا تھا روضے سے ذرا دور ہٹ کر اس نے فاتحہ پڑھا تھا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے تھے دعا سے فارغ ہو کر اس نے ریحانہ کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں روضے کی دوسری جانب جہاں چراغ روشن کیے جاتے تھے اور اگر بتیاں جلائی جاتی تھیں، وہ دکھائی دی تھی۔ وہ جگہ منت مانگنے والوں کے لیے مخصوص تھی وہ اس کے قریب چلا آیا دیکھا کہ وہ بھی منت کا دھاگہ جالی سے باندھ رہی ہے کافی دیر تک وہ دونوں وہاں موجود رہے تھے بھیڑ ہونے کے باوجود چہارسمت ایک با ادب خاموشی چھائی ہوئی تھی بس صحن سے آتی ہوئی قوالی کی آواز سماعتوں میں رس گھول رہی تھی۔
وہ دونوں مزار شریف سے نکلے تو شام کے سائے پنکھ پسارنے لگے تھے چلتے چلتے اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’تم نے کیا منت مانگی؟‘‘
اس نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر پر اسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’منت کے بارے میں کسی کو بتایا نہیں جاتا ورنہ وہ پوری نہیں ہوتی۔‘‘
اسے یقین تھا کہ وہ اس کے ذریعہ مانگی گئی منت کے متعلق جانتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد وہ اس کے تعلق سے شبہے میں پڑ گیا تھا۔
اس کے فائنل امتحان جاری تھے۔ دو پرچے ہو چکے تھے تیسرے پر نظر ثانی کر رہا تھا کہ وہ دبے پاؤں چلی آئی اس کے چہرے پر حزن و یاس کی گہری پرتیں دیکھ کر وہ بے قرار ہو اٹھا اور سرعت سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
وہ خاموش کھڑی ہوئی اپنے دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے پختہ فرش کو کریدنے کی ناکام کوشش کرتی رہی دوبارہ استفسار کرنے پر اس نے مضمحل آواز میں رک رک کر کہا۔
’’ابو۔۔ نے۔۔ میری۔۔ شادی۔۔ طے۔۔ کر دی ہے۔‘‘
اسے لگا کہ امتحان کے لیے یاد کیے ہوئے تمام جوابات اس کے ذہن سے یک لخت محو ہو گئے ہیں۔
’’یہ کیسے ممکن ہے؟ تم نے بتایا نہیں کہ۔۔۔۔۔۔‘‘
اس نے ڈوبتی ہوئی آواز کہا
’’آپ میرے ابو کو نہیں جانتے؟ بے حد سخت گیر اور ضدی آدمی ہیں اس زمانے میں بھی ذات برادری کے قائل ہیں انہیں اپنی برادری کا کوئی برسر روزگار لڑکا مل گیا تو موقع غنیمت جان کر تاریخ تک مقرر کر دی دس دنوں کے بعد ہی شادی ہے‘‘
وہ بے جان مجسمے کی مانند بیٹھا رہا قدرے توقف کے بعد ریحانہ فیصلہ کن لہجے میں بولی۔
’’اب ایک ہی راستہ بچا ہے۔ ہم دونوں گھر سے بھاگ چلیں اور کسی دوسرے شہر میں جا کر شادی کر لیں‘‘
اکنومکس، اکاؤنٹنسی، بزنس میتھ۔۔۔۔ اس کے ذہن میں سارے مضامین گڈمڈ ہونے لگے فائنل اکزام، کیریئر بلڈنگ، اچھی ملازمت، اونچی تنخواہ۔۔۔۔۔ بہت دنوں کے بعد اس کی تاجرانہ ذہنیت از سر نو بے دار ہوئی کیا اسے یہ خسارے کا سودا منظور ہے؟
نہیں نہیں! وہ امتحان بیچ میں چھوڑ کر اپنا مستقبل تاریک نہیں کر سکتا اس نے اس قدر محنت کی ہے کیا اسے رائگاں جانے دے۔
ریحانہ دیر تک اس کے جواب کی منتظر کھڑی رہی اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ خاموشی سے مڑی اور بوجھل قدموں سے باہر نکل گئی
بی۔ کام کرنے کے بعد وہ اسکول سروس کمیشن میں بیٹھا اور منتخب ہوا ایک اچھے گھرانے کی لڑکی سے شادی کی، بچے ہوئے بظاہر وہ ایک مطمئن اور آسودہ زندگی گزارنے لگا تھا لیکن ازدواجی زندگی کی تکرار اور بچوں کے شور کے درمیان اکثر اس کی سماعتوں میں ایک خوش آہنگ آواز لہراتی،
موہے چاندی کی پائل منگا دو سجن۔۔۔۔
اور آنکھوں میں ریحانہ کا حسین اداس چہرہ ابھر آتا اس کا سارا وجود ایک عجیب سے درد و کرب میں ڈوب جاتا اور وہ پہروں بے چین اور مضطرب رہتا اسکول میں علم معاشیات کا درس دینے کے باوجود وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ حیات نفع بخش رہی یا سراسر خسارے میں گزری۔
لا شعوری طور پر وہ ریحانہ کے تئیں احساس جرم کا شکار تھا اس لیے چاہتا تھا کہ اس کا کبھی سامنا نہ ہو لیکن آج وہ اس کی عین بغل میں بیٹھی تھی۔ بس کی طویل مسافت کے دوران اس نے طے کیا کہ ریحانہ کا سامنا کیا ہی جائے، اپنی بزدلی پر اس کے طعنے سنے، اور اس کی تلخی سخن کو برداشت کرے بنا کسی تاویل کے اس سے معذرت کرے تاکہ اس کا برسوں کا اضطراب ختم ہو۔
بس رانی گنج کے بس اسٹینڈ پر رکی تو باقی ماندہ مسافر اترنے لگے ریحانہ بھی اس کی بغل سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی وہ بھی اس کے عقب میں موجود تھا۔ بس سے نیچے اتر کر وہ آگے بڑھ گئی اس نے اپنے چہرے سے رو مال ہٹایا اور اس کے تعاقب میں لپکتے ہوئے آواز دی
’’سنئے! ‘‘
وہ چونک کر پلٹی اور حیرانی سے اس کی طرف دیکھا
’’ریحانہ۔۔۔۔۔ مجھے پہچانا۔۔۔۔ میں۔۔ میں ہوں۔۔ طفیل احمد۔۔۔‘‘
اس نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر بے حد سنجیدہ اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی
’’لگتا ہے کہ آپ کو کوئی شدید غلط فہمی ہوئی ہے میں ریحانہ نہیں اور نہ ہی آپ کو پہچانتی ہوں‘‘
وہ متانت سے مڑی اور بے نیازی سے آگے بڑھ گئی وہ ٹھگا سا کھڑا رہ گیا بہت دیر بعد اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ آج ہی اپنی عینک کا نمبر درست کروائے گا
لیکن یکایک اس خیال سے گہرے تذبذب میں پڑ گیا کہ وہ اپنی سماعت کا کیا کرے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...