“گھر تو بلکل خالی ہی ہوگیا”
ددو نے اداسی کہا۔۔۔
“ہاں اماں۔۔تینوں ہی چلے گئے۔۔۔میرا تو بلکل ہی دل نہیں لگ رہا۔۔” شائستہ بیگم نے کہا۔
“میں تو کہ رہی تھی کچھ ٹائم کے بعد لے جائے حور کو ساتھ۔۔۔پتا نہیں اس بچی کا دل بھی لگے گا یا نہیں۔۔”
ددو نے فکرمندی سے کہا۔۔
“لگ جائے گا دل رہے گی تو۔۔۔ویسے بھی اماں یہی دن ہیں گھومنے پھرنے کے۔۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا
“ہاں کہ تو ٹھیک رہی ہو۔۔۔”
ددو نے سادہ لہجے میں کہا ۔
“اماں۔۔دوا لے کر سوجائیں اب آپ۔۔”
شائستہ بیگم نے اٹھ کر انہیں دوا دی۔۔
شفی آنکھیں موندیں سیٹ سے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔۔
پاس بیٹھا وصی بھی اپنے موبائل میں گم تھا۔۔
حور کی نظریں شفی پرتھی۔۔
“میرا کھڑوس ہسبنڈ۔۔۔۔”
حور نے مسکرا کر دل میں کہا۔۔
پھر اس کے کاندھے پرسر رکھ لیا۔۔۔
شفی فوراً آنکھیں کھول اسے دیکھا۔۔
اور مسکرا دیا۔۔
“مجھے پتا ہے آپ ناراض ہو۔۔۔جلد ہی تمہاری ساری ناراضگی ختم کردوں گی۔۔۔مگر میں کیا کروں۔۔۔جب جب آپ میرے قریب آتے ہو پتا نہیں کیا ہوجاتا۔۔۔”
حور نے دل میں سوچا۔۔اور آنکھیں موند لی۔۔
“بیسٹ کپل۔۔” وصی نے انہیں دیکھتے ہی بے ساختہ کہا۔۔
حورجواس کی آواز سن چکی تھی ہڑبڑا کر سیدھی ہوکربیٹھی۔۔
اور اس کی ہڑبڑاہٹ دیکھ وصی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔
گھر پہنچے تو گھر تھوڑا گندا تھا۔۔۔
جاتے تو وہ لوگ بیٹھ گئے اور گھر کاجائزہ لیا۔۔
وہ دو کمروں کا گھرتھا۔۔
“دیکھو بھئی سفر کی تھکان تب ہی اترے گی جب آرام کریں گے۔۔تو میں تو سورہا ہوں۔۔”
وصی نے کہا۔۔ اور کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔
“تم بھی آرام کرلو۔۔۔صفائی بعد میں کریں گے۔۔۔”
شفی نے حورکے قریب آکر کہا۔۔
“نہیں ایسے نیند آئے گی کیاگندے گھرمیں۔۔”
حور ےسنجیدگی سےکہا۔۔
“تو کیا صفائی کرنا شروع ہوجاؤ گی۔۔تھکی نہیں تم اتنے لمبےسفر سےبھی۔۔۔”
شفی نے ہنس کر کہا۔۔
“نہیں” حور نے مختصر کہا۔۔
“میں کروا دوں ہیلپ۔۔؟” شفی نے مسکرا کر پوچھا۔۔
“نہیں میں کرلوں گی۔۔۔” حور نے ہنس کر جواب دیا۔۔
“کروالو مدد اسی بہانے تمہارے ساتھ تو رہو گا ورنہ تو میری بیوی مجھے لفٹ نہیں کرواتی۔۔۔”
شفی نے خفگی سے کہا۔۔
“نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔” حور نے نظر جھکائی۔۔
“ابھا پھر کیسی بات ہے؟”
شفی نے قریب آکر کہا۔۔
اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی مگر خاموش رہی۔۔
“میں تم سے بہت محبت کرتاا ہوں حور ۔۔”
شفی نے اس کاچہرہ اپنے ہاتھوں میں سمویا۔۔
حور نے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
وہ آنکھوں میں محبت لیے اسے تک رہا تھا۔۔
چونکے وہ لوگ تب جب پیچھے سے وصی کے کھنکارنے کی آواز آئی۔۔
“کنوارہ ںچہ گھر میں ہے۔۔۔۔کچھ تو شرم کرو۔۔۔کیا اثر پڑے گا مجھ پر۔۔۔”
وصی نے شرارت سے کہا۔۔
حور ہڑبڑا کر پیچھے ہٹی۔۔۔
“اس بچے کو میں سدھارتا ہوں۔۔۔۔”
شفی اس کے پیچھے بھاگا۔۔۔اور وہ سیڑھیا چڑھتا چھت پر۔۔
حور انہیں دیکھ مسکرا دی۔۔
پورے گھر کی صفائی کرکے وہ تھک گئی تھی۔۔
کھانا باہر سے آرڈر کرلیا تھا انہوں نے۔۔
کھانے کے بعدوہ آرام کی غرض سے کمرے میں آئی۔۔
وہ بیڈپر لیٹتے ہی سوگئی۔۔
تھکاوٹ کی وجہ سے اسے پتا ہی نہیں لگا۔۔
کہ اسے کب نیند آگئی۔۔
شفی جب کمرے میں آیا تو وہ گہری نیند سورہی تھی۔۔
وہ مسکرایا۔۔
پھرجاکر بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔
کہنی بیڈ پر جمائے سر اٹھائے اسےدیکھنےلگا۔۔
سفیدچہرے پر پر سکون نیند تھی۔۔
کھلے بال جو ایک طرف تکیے پر پڑے تھے۔۔
ایک دوآوارہ لٹیں جو اس کے چہرے کو چھو رہی تھی۔۔
شفی نے ہاتھ بڑھا کر ان لٹوں کو پیچھے کیا۔۔
“کتنی معصوم ہو تم یار۔۔۔”
شفی بڑبڑایا۔۔۔
اس نے حورکی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کی۔۔
پورا دن کام کر کے وہ تھک چکی تھی۔۔
تبھی اسے گہری نیند سوتا دیکھ شفی کو ہنسی آئی۔۔
وہ دونوں ڈیوٹی پرچلے گئےتھے۔۔اور حور گھر میں اکیلی تھی۔۔
اس سارا کام کیا جو کل ادھورا رہ گیا تھا۔۔
کپڑے وغیرہ پریس کیے۔۔۔
ابھی وہ لچن کی طرف جا ہی رہی تھی کہ اس کافون بجنے لگا۔۔
اس نے ٹیبل پر رکھا فون اٹھایا۔۔
اسکریں پر شائستہ بیگم کانمبر جھلملا رہا تھا۔۔
“اسلام علیکم مما” حور نے کال رسیو کرتے ہی خوش ہوکر کہا۔۔
“وعلیکم السلام۔۔۔کیسی ہے میری بیٹی؟”
انہوں نے پیار سےپوچھا۔۔
“میں ٹھیک ہوں۔۔آپ سب کیسے ہیں؟”
“ہم بھی ٹھیک ہیں۔۔۔دل لگ رہاہے؟”
“نہیں۔۔بلکل بھی نہیں۔۔بلاوجہ لائے ہیں شفی مجھے۔۔۔
خود تو دونوں ڈیوٹی پر چلے گئے۔۔میں اکیلی۔۔”
حور نے اداسی سے کہا۔۔
“حور اب تمہارے لیے وہ ڈیوٹی تونہیں چھوڑ سکتے”
شائستہ بیگم نے ہنس کر کہا۔۔
“تو پھر مجھے لائے کیوں۔۔پتا ہے مجھے آپ کی کتنی یاد آرہی ہے۔۔اس وقت میں نانو سےمالش کروا رہی ہوتی۔۔۔”
حور نے کہا۔۔اور شائستہ بیگم ہنس دی۔۔
پھر تھوڑی دیر یہاں وہاں کی باتیں کر کےفون بند کردیا اور کام میں مصروف ہوگئی۔۔
وہ دونوں کھڑے کوئی باتوں میں مصروف تھے۔۔
کہ ڈاکٹر حمنہ قریب آئی۔۔
“ہاؤ آر یو۔۔۔مسٹر شفی۔۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے شفی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
“فائن۔۔۔واٹ اباؤٹ یو؟ شفی نے خوشدلی سے پوچھا۔۔
وصی خاموش کھڑا ڈاکٹر حمنہ کو نوٹس کر رہا تھا۔۔
“شفی آپ نے جو ہمارے وطن کے لیے کیا۔۔۔سلیوٹ ہے یار سیریسلی۔۔۔مجھے بہت خوشی ہوئی آپ کو دیکھ کر”
ڈاکٹر حمنہ نےمسکرا کر کہا۔۔
“ارے آپ۔۔کو اور بھی خوشی ہوگی یہ جان کر کہ شفی کی شادی ہوگئی۔۔”
وصی نے ہنسی دباتے ہوئےکہا۔۔
“واٹ۔۔؟” وہ چونکی۔۔
“جی بلکل سچ کہ رہا ہوں۔۔۔”وصی نے پھر کہا۔۔۔
“شفی۔۔۔” ڈاکٹر حمنہ نے سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔
“ہاں وہ سب جلدی میں ہوگیا۔۔۔تو۔۔۔” شفی نے مسکرا کر کہا۔۔
“کیا ہوا ڈاکٹر حمنہ لگتا ہے آپ کوکوئی خاص خوشی نہیں ہوئی۔۔” وصی نے اسے نوٹس کرتے ہوئے کہا۔۔
“نہیں ایسی بات نہیں۔۔
Congrats
”
ڈاکٹر حمنہ نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگی۔۔
“تھینک یو۔۔” شفی نے خوش دلی سے کہا۔۔
حور کی روٹین اسی طرح گزر رہی تھی۔۔
سارا دن یا تو کام کرتی یا بس گھر فون کرلیتی۔۔
ورنہ بوریت زے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔۔
کتنے ہی دن ہوگئے تھے۔۔۔
مگر وہ لوگ کہیں گھومنے نہیں جاسکے تھے۔۔
آج بھی وہ لوگ دعوت پر گئے ہوئے تھے۔۔
اور وہ اکیلی تھی۔۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔
حور نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک لمبی پتلی دبلی سی لڑکی کھڑی تھی۔۔
جو جنس پر شرٹ پہنے ہائی پونی بنائے اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔
حور اسے دیکھ چونکی۔۔
“اسلام علیکم۔۔۔ہاؤ آر یو؟” اس نے مسکرا کر کہا۔۔
“وعلیکم السلام۔۔۔۔” حور نے سلام کا جواب دیا
“ایم ڈاکٹر حمنہ۔۔۔اینڈ یو۔۔۔حورین شفی درین۔۔۔رائٹ؟”
ڈاکٹر حمنہ نے یک دم سے کہا اور حور اس کا چہرہ تکنے لگی۔۔
“اندر نہیں بلائیں گی۔۔۔؟” ڈاکٹر حمنہ نے پھر کہا۔۔
“اوہ سوری۔۔۔آئیں نا” حور نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
اور اندر بلایا۔۔
وہ اندر جا کر صوفے پر بیٹھی۔۔
اس نے پاس کھڑی حور کا جائزہ لیا۔۔
جو سادہ سے بلو رنگ کے سوٹ میں بالوں کو چٹیا کی صورت میں لیفٹ سائیڈ پر ڈالے کھڑی تھی۔۔۔
“میں آرمی میں ڈاکٹر ہوں۔۔۔اور شفی کی بہت اچھی دوست۔۔” حمنہ نے اپنا تعارف کروایا۔۔
“اچھا۔۔۔لیکن وہ تو گھر پر نہیں ہیں۔۔۔”
حور نے مسکرا کر کہا۔۔
“میں آپ سے ہی ملنے آئی ہوں۔۔۔میں دیکھنا چاہتی تھی۔۔
اور۔۔۔۔” حمنہ بھر رکی پھر اٹھ کر اس کے قریب آئی۔۔
“میں شفی کو پسند کرتی ہوں۔۔۔آج سےنہیں کافی ٹائم سے مگر کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ یوں بنا بتائے اچانک سے شادی کرلےگا۔۔
خیر میں تو یہ بھی نہیں بول سکتی کہ آپ شفی کی لائف سے چلی جائیں۔۔کیوں کہ آپ تو اس کی بیوی ہیں۔۔۔”
حمنہ نے اداسی سے کہا۔۔
حور منہ کھولے ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
“ویل۔۔۔میں چلتی ہوں۔۔۔اسٹے ہیپی۔۔ٹیک کیئر۔۔”
ڈاکٹر حمنہ کہ کر وہاں سے چلی گئی۔۔
اور حور الجھ گئی۔۔
وہ کب سے سوچوں میں گم تھی اسے بار بار ڈاکٹر حمنہ کی باتیں یاد آرہی تھی۔۔
وہ کتنا کچھ کہ کر چلی گئی تھی مگر حور نے جواب کیوں نہیں دیے آخر کو اس نے حور کے شوہر کے بارے میں پسندیدگی ظاہرکی تھی۔۔
مگر وہ اسے کیا جواب دیتی اس نے تو کبھی کسی کو جواب دیا ہی نہیں۔۔۔
تبھی دروازہ بجا اور حور کی سوچوں کا مہور ٹوٹا۔۔
اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔۔
سامنے ہی شفی اور وصی کھڑے تھے۔۔
حور نے انہیں سلام کیا۔۔
کھانا وہ لوگ کھا کر آئے تھے۔۔رات کا وقت ہورہا تھا۔۔
تھوڑی ہی دیر یہاں کی باتوں کے بعد وہ لوگ اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔
باہر برسات شروع ہوگئی تھی۔۔
اور ٹھنڈ کافی بڑھ چکی تھی۔۔
“شفی چینج کر کے کمفرٹر لیے موبائل میں گم تھا۔۔
جبکہ پاس بیٹھی حور ابھی بھی سوچوں میں گم تھی۔۔
“کیا ہوا حور۔۔۔لب سے نوٹس کر رہا ہوں چپ چپ ہو”
شفی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
“نہیں کچھ نہیں بس سر میں درد ہے۔۔”
حور نےکہا۔۔
“اچھا آج سردی زیادہ ہے نا۔۔شاید ٹھنڈ کی وجہ سے ہورہا ہے۔۔ٹیبلیٹ لی تم نے؟”
شفی نے پوچھا۔۔
“نہیں اتنا نہیں ہے۔۔آرام کروں گی تو ٹھیک ہوجائے گا”
حور نے کہا اورلیٹ گئی۔۔
“ٹھیک ہے۔۔۔” شفی بھی لائٹ آف کر کےسوگیا۔۔
مگر نیند حور کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔
وہ چاہ کر بھی ڈاکٹرحمنہ کے بارے میں شفی کو نہیں بتا پائی۔۔
فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی۔۔۔اس نے ایک نظر پاس سوئے ہوئے شفی پر ڈالی۔۔
جو گہری نیند میں تھا۔۔
(میں شفی کو پسندکرتی ہوں آج سے نہیں کافی ٹائم سے)
حمنہ کاجملہ اسے یاد آیا۔۔
“کیا مجھے شفی کو بتا دینا چاہیے ؟”
اس نے خود سے سوال کیا۔۔
“نہیں۔۔۔خوامخواہ شفی پریشان ہوگا۔۔۔اور وہ لڑکی ان کی نظروں سے گر جائے گی۔۔ویسے بھی اس نے تو کچھ بس اپنے دل کی بات شیئر کی ہے۔۔”
اس نے خود ڈے جواب دیا۔۔۔
اس نے شفی کو دیکھا جو ابھی بھی سورہا تھا
پھر ہاتھ بڑھا کر شفی کے چہرے کو پیار سے چھوا۔۔
اور مسکرانےلگی۔۔
“کیا بات ہے بیگم کو بڑاپیار آرہاہے آج۔۔؟” شفی نے یک دم آنکھیں کھولی۔۔
اورحور نے ہڑبڑا کر ہاتھ پیچھے کیا۔۔
“کیا ہوا؟ رک کیوں گئی۔۔میں پھر سے سورہا ہوں۔۔”
شفی نےشرارت سے آنکھیں بند کی۔۔
“نہیں۔۔۔وہ میں تو بس۔۔۔” حور نے بات ادھوری چھوڑی۔۔
“چوری تو پکڑی گئی اب۔۔۔”
شفی اٹھ بیٹھا۔۔اور شانوں سے تھام کر قریب کیا
“میں نماز پڑھنے جارہی ہوں۔۔۔”
حور نے مسکرا کر نظریں چرائی۔۔
شفی نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔۔
پھر نرمی سے اس سے الگ ہوا۔۔۔
“جاؤ۔۔۔” شفی نے مسکرا کر کہا۔۔
اور حور جلدی کھڑی ہوئی۔۔
اور واشروم کی جانب بڑھ گئی۔۔
شفی اور وصی کے جانے بعد حور گھر کے کاموں میں لگ گئی۔۔
رات بارش کےبعد ٹھنڈ کافی بڑھ گئی تھی۔۔
مگر موسم ابھی بھی بہت خوشگوار تھا۔۔
وہ کام سے فارغ ہوکر سیدھی چھت پرچلی گئی تھی۔۔
جہاں ہر طرف بہت خوبصورت مناظردکھ رہے تھے۔۔
اس کابے اختیار دل کیا کہ وہ گھومنے جائے ۔۔
کتنی ہی دیر وہ وہاں کھڑی رہی پھر نیچے آگئی۔۔
اس کا فون بج رہا تھا۔۔
اسکرین پرشفی کا نمبرجھلملا رہا تھا..
“ہیلو۔۔” حورنے کال رسیوکی۔۔
“کہاں تھی یار کب سے فون کررہا ہوں”
شفی نے کہا
“وہ میں۔۔۔اوپرچھت پر چلی گئی تھی”
حورنے بتایا۔۔
“اچھا تیار رہنا شام کو گھومنے چلیں گے۔۔”
شفی کی بات سن اس کےچہرے پرمسکراہٹ آگئی۔۔
“سچ میں۔۔۔”
حور نے خوشی سے پوچھا۔۔
“ہاں۔۔۔آج ہم اپنی بیگم کو گھومائیں گے۔۔
جب سے آئی ہو کہیں نہیں لے جا پایا”
شفی نے کہا۔۔
“میں تیار ہوجاؤں گی۔۔”
حور نے کہا اور فون بند کردیا۔۔
،
شام ہوگئی تھی وہ جلدی جلدی تیار ہوئی۔۔
وہ بہت خوش تھی۔۔۔
آئینے کے سامنے کھڑی وہ خود کو تکنے لگی۔۔
“وہ بلیک شلوارقمیض پہنے ،بالوں کو ہلکا سا کیچر میں قید کیے۔۔میک اپ کرنے میں مصروف تھی۔۔
تبھی دروازےپر دستک ہوئی۔۔
“شفی ہوگا” وہ بڑبڑائی
پھراسنےبیڈ پر سے شال اٹھائی اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔
سامنے وصی کھڑا تھا۔۔۔
“اسلام علیکم۔۔” وصی اندر داخل ہوا
۔
“شفی۔۔نہیں آئے۔۔؟” حور اسے دیکھ پوچھا۔۔
“نہیں وہ تو رات تک آئےگا۔۔۔”
وصی مےبتایا۔۔
اورصوفے پر بیٹھ جوتے اتارنے لگا۔۔
“مگر مجھے انہوں نے کہا کہ وہ آجائیں گے شام تک گھومنے جاناتھا”
حور نے معصومیت سے کہا۔۔
وصی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
جوتیار تھی۔۔۔
“اچھا توگھومنے جانا ہے تم نے۔۔۔چلو میں لے چلتا ہوں۔۔۔”
وصی نےہنس کر کہا۔۔
“آپ تو ابھی آئےہیں۔۔۔کوئی بات نہیں پھر کبھی چلی جاؤں گی” حور نے سادگی سے جواب دیا۔۔
“ارے نہیں کوئی بات نہیں بس دس منٹ میں چینج کر کے ابھی آیا پھر چلتے ہیں۔۔”
وصی کہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔