خاص باغ میں جشن کا سامان ہونا، شیریں کا نہایت تزک و احتشام سے آ کر شریک محفل ہونا
ہوائے چمن دنیا آج کل سرور افزا ہے۔ ساکنان فلک کو مسرت ہے۔ مقیمان زمین کو فرحت ہے۔ عجب مزا ہے۔ ہر سو مژدۂ تہنیت کو بکو غلغلۂ مبارکباد ہے، جو ہے خرم و شاد ہے۔ نرگس ہمہ تن گوش برآواز ہے۔ درِعیش و عشرت باز ہے طاؤس رقص پر آمادہ زمین کے رخسار پر سبزہ آغاز ہے۔ کوہ و صحرا میں سنبل و ریاحین لالہ و نسرین کی نشو نما ہے۔ دامن دشت و جبال پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ گل رعنا کس زیبائی سے شگفتہ ہو کے سراپا گوش ہے۔ بلبل شیدا پھولا نہیں سماتا، چہک رہا ہے۔ خوف خزان گلزار جہاں سے فراموش ہے۔ نالہ نوازانِ گلشن حمد خالق میں ترانہ سنج ہیں۔ وحشیانِ صحرا بصد تمنا متلاشیِ گنج ہیں۔ باغبانِ قدرت نے دفینۂ چمن نکالا ہے۔ پتا پتا جوبن سنبھالتا ہے۔ غنچہ مسکرا کر پھولا ہے۔ دل تنگی بھولا ہے۔ فراش صبا گل کا دستہ کبھی باندھتا کبھی کھولتا ہے۔ نہروں کے متصل سر و پا بگل لڑکھڑا کر ایک پاؤں سے عازم رفتار ہے۔ فاختہ کوکو قمری حق سرہ کہتی جلوہ دار ہے۔ سبزۂ خط سے گلعذاروں کا رخ پر نور ہوتا ہے۔ بقائے بہار سے ہر شاخ پر بار کس سبکی سے سجدہ کرنے کو جھکی ہے۔ ہر کیاری عنبر سے زیادہ معطر خاک رکھتی ہے۔ قوت نامیہ کا ایسا جوش ہے کہ کوہ بھی لباس کاہی سے زمرد پوش ہے۔ شبنم کو خدمت آبداری ہے۔ گلعذاروں کے چہرے سے گردِ کلفت دھوتی ہے۔ مشاطۂ بہار دایہ وار گیسوئے سنبل مسلسل کر کے دلجمعی سے پریشانی کھوتی ہے۔ سبز ٹہنیوں سے نئی نئی کوپل پھوٹتی ہے۔ نسیم سحر چل پھر کر کیا کیا مزے لوٹتی ہے۔ نرگس بیمار مشہور ہے کہ علیل ہے اس پر فرط شوق سے عصا ٹیکے بر سر سبیل ہے۔ آب جو کے قہقہے سے نارسیدہ پھل امرودوں کی روش شرما کے پتوں میں منہ چھپاتے ہیں۔ گلوں کے غنچے دام گلچین میں کھل کھلا کر ٹوٹے جاتے ہیں۔ گل کے بناؤ پر بلبل سے بگاڑ ہے، ہر وقت چھیڑ چھاڑ ہے۔ گلشن میں گل و خار کبک کے مانند قہقہہ زن ہے، بے قرار ہے۔ ہنسانے کو گیندے کا تختہ رشک زعفران زار ہے۔ رنج و ملال کا نام چمن دہر سے مثل حرف غلط کے مٹ گیا ہے۔ ہر عاشق مزاج فراق یار میں منہ لپیٹے پڑا ہے۔ غنچہ دہنوں کو گل اشرفی کی تلاش بلند صدائے دور باش ہے۔ ماہرو عنبرین مو دام زلف بردوش مرصع پوش طائر دل عشاق پھنسانے کی فکر میں نکھرے ہیں، کوئی چمک چکا کسی کے جلدی کے جنجال میں بھیگے بال شانوں پر بکھرے ہیں۔ کسی نے سنگ گہر پر مسی مل کر رنج کے جوبن سے نیلم کو ہیرا کیا ہے۔ کسی نے قتل عالم پر بیڑا اٹھا کر لاکھ دو لاکھ انداز سے لاکھا جمایا ہے۔ یہ ہنگامہ اُسی شاہانہ جشن کا ہے جو شیریں کے حکم سے ہونے والا ہے۔ فرہاد اپنے عشق میں پورا نکلا۔ اس کی خوشی ہے شیریں کی دل لگی ہے۔ نسترن بو خاص باغ میں جشن کے اہتمام میں سرگرم ہے۔ اس باغ کی تعریف میں یہ نظم کافی ہے۔ نظم :
باغ تھا وہ تمام معدن نور
اور تجلی میں رشک گلشن حور
خوش قرینے وہ نقرئی ناندے
وہ درخت ان میں سب جواہر کے
نور میں ہر چمن تھا صبح امید
پھول اک ایک تھا گل خورشید
مثل خط شعاع سنبل تر
رشک رخسار حور عین گل تر
حسن میں وہ ہر اک گل سوسن
مسی آلودہ گل رخوں کا دہن
جلوہ گر پٹریوں پہ اس کی وہ دوب
صورت سبزہ رخ محبوب
سب چمن اُس کے نور آگیں تھے
پھول پھل رشک ماہ و پروین تھے
اگر ایک تختہ کی صفت تحریر کروں تو ہزار تختۂ کاغذ پر بخط ریحان اس گلزار کی تعریف نہ لکھ سکوں۔ نسترن بو اپنے اہتمام ہی میں تھی کہ شیریں کی سواری کا سامان نظر آیا۔ ادب اور ملاحظہ کا غل بلند ہوا۔ سہیلیوں کا غول سامنے آیا۔ انیسیں جلیسیں پری زاد حوروش غیرت سرو خجلت دہ شمشاد زریں کمر نازک تن سیم بر چست و چالاک کمسن پیادہ اور ہوادار پر شیریں سوار، گرد پریوں کی قطار باغ میں آئی۔ سارے گلشن کی رونق بڑھائی۔ خود بھی اہتمام کرتی ہوئی بارہ دری میں داخل ہوئی۔ نظم :
قصر تھا وہ نئے وطیرے کا
صاف ترشا ہوا تھا ہیرے کا
کاخ گردوں سے بھی وہ اعلی تھا
ہمسر قصر دُر بیضا تھا
ساق سمیں حور تھے وہ ستوں
غیرت شمع طور تھے وہ ستوں
در فردوس سے بھی تھے خوش در
رشک آغوش حور عین ہر در
سقف نقاش چین اگر دیکھیں
دنگ ہوں آنکھیں چھت سے لگ جائیں
دیکھ کر وہ بہار گل کاری
عقل نقاش فکر ہو عاری
شیشہ آلات وہ لگا تھا تمام
صبح جنت بھی جن سے نور لے دام
وہ دو شاخے کنول تھے دست دعا
صاف صبح اجابت آئینہ تھا
طرفہ فرشی کنول پہ جوبن تھا
نور و نار ایک جا پہ روشن تھا
شمع فانوس میں تھی یوں روشن
جیسے حجرے میں پہلی شب کی دلہن
کیا کہوں تھا جو نور فرش کا روپ
چاندنی ملگجی تھی میلی دھوپ
غرض شیریں بصد ناز و ادا زیب انجمن ہوئی۔ شراب ارغوانی کا دور ہوا۔ بحر مدہوشی میں غوطہ زن ہوئی۔ ایک طرف جام و سبو ایک سمت نغمۂ سرایان خوب رو و خوش گلو سفید صوفیانی پوشاک سر سے پاؤں تک الماس کا زیور دو رویہ صف باندھ کر کھڑی ہوئیں۔ ناچ گانا شروع ہوا۔ سارنگی کی سُر کی صدا چرخ پر زہرہ کے گوش زد ہوتی تھی۔ طبلے کی تھاپ پائیں کی کمک خفتگان خاک کا صبر و قرار کھوتی تھی۔ ہر تان تان سین پر طعن کرتی باربدو نگیسا کے ہوش پران ہوتے ناچنے کو حسین پری وش آئے۔ خوب ناچے، گھنگرو بجائے، ٹھوکر مردہ دلوں کی مسیحائی کرتی۔ گت کے ہاتھ پر یہ گت تھی کہ مجلس کف افسوس ملتی تھی۔ زمین سے آسمان تک غلغلۂ شادی تھا۔ ہر طرف شور مبارکبادی تھا۔ خاص باغ جنت کا عالم دکھاتا تھا، ہر ایک کو محو حیرت بناتا تھا۔ ایک مشتری خصال زہرہ جمال نے یہ غزل گائی، اپنی استادی دکھائی۔
غزل حضرت بے تاب فرنگی محلی لکھنوی
حسینوں کے تصور ہر گھڑی یاں دل میں رہتے ہیں
ہزاروں غیرت لیلی اس اک محمل میں رہتے ہیں
ذرا سی عمر میں نکلیں تو سب کس طور سے نکلیں
ہزاروں حسرت و ارمان مرے اک دل میں رہتے ہیں
نہ آتی ہے اجل ہم کو نہ وصل یار ہوتا ہے
نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں بڑی مشکل میں رہتے ہیں
حسینوں میں یہ کیا خانہ براندازی کی خصلت ہے
اُسی کو کرتے ہیں برباد جس کے دل میں رہتے ہیں
قصور آنکھوں کا ہے اپنی نہ دیکھیں کیا خطا ان کی
جنھیں ہم ڈھونڈھتے ہیں وہ ہمارے دل میں رہتے ہیں
جدا ہوتے نہیں عاشق سے ہاں اتنا تو ہوتا ہے
کبھی آنکھوں میں پھرتے ہیں کبھی وہ دل میں رہتے ہیں
گدا کو اپنے کیا کیا نعمتیں دیتا ہے وہ رازق
مزے سو سو طرح کے کاسہ سائل میں رہتے ہیں
سمجھ تکلیف دینا فارغ البالی ہے عقبیٰ کی
انھیں آسان ہے واں سب کچھ جو یاں مشکل میں رہتے ہیں
کمال اُن کا کوئی دیکھے تو یہ طرفہ تماشا ہے
وہ یکتا ہیں مگر سب عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
یقینی پائیں گے حصہ برابر اپنی قسمت کا
کہ اے بے تابؔ ہم ملک شہ عادل میں رہتے ہیں
پھر دوسری نے نقشہ جمایا، اپنا ہنر دکھا کر اہل محفل کا دل لبھایا۔ غزل:
عاشق نہ ہوں تو شہرہ ترا اے حسین نہ ہو
ممکن نہیں کہ نام کہہ دے گر نگیں نہ ہو
قاتل نہ قتل کر مجھے گھبرا کے اس قدر
رنگین مرے لہو سے تری آستین نہ ہو
مدت کے بعد ہم نے کیا ہے سوال وصل
او بت! خدا کے واسطے اب تو نہیں نہ ہو
افسوس سے نہ ہاتھ ملو مرگِ غیر پر
منہدی کا رنگ ہاتھ سے غائب کہیں نہ ہو
بوسہ جو میں نے وصل میں رخسار کا لیا
جانے دو یار دور کرو خشمگیں نہ ہو
چھلنی جگر ہے زخم ہے سینہ میں دل اداس
مجھ سا جہاں میں کوئی اندوہ گیں نہ ہو
مانگو جو مفت جان تو دے دیں ابھی تمھیں
ہم سے تمھاری طرح سے ہرگز نہیں نہ ہو
اللہ کو ہمارے ہمارا خیال ہے
تجھ کو صنم جو دھیان ہمارا نہیں نہ ہو
روکیں گے تیری تیغ نظر کو جگر پہ ہم
او ترک پاس اپنے سپر گر نہیں نہ ہو
آدم کی نسل سے اسے اے دل نہ جانیے
جس شخص کو محبت خلد بریں نہ ہو
اپنے کلام کی جو برائی سمجھ سکے
اشعار غیر پر وہ رضاؔ نکتہ چیں نہ ہو
الغرض تمام رات اسی طرح بسر ہوئی، ناچ رنگ کی صحبت میں سحر ہوئی۔ شیریں کو فرہاد کی دھن ہوئی، نیا سودا ہوا مثل مشہور ہے۔ شعر :
وعدۂ وصل چوں شود نزدیک
آتش شوق تیز تر گردد
نسترن بو کو تخلیہ میں بلایا، اپنا پورا رازدار بنایا. کہنے لگی او محرم راز! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس خانماں برباد فرہاد نے کیا جادو کیا ہے کون سا منتر پڑھا ہے کہ دل تو قابو سے جا ہی چکا، ہوش و حواس بھی کنارہ کرتے ہیں آج نہیں معلوم کون پر اثر آہ اُس کے منہ سے نکلی ہے کہ جذب مقناطیسی کی طرح مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ رہ رہ کر دل گھبراتا ہے، یہی خیال آتا ہے کہ کسی طرح بے ستون پر جاؤں، اس کی صورت اور تباہ حالت دیکھ آؤں۔ لیکن یہ وہ خیال ہے کہ اگر ظاہر ہوا عزت پر حرف آئے گا، رسوائی کا دھبہ پیشانی پر لگائے گا۔ پس مناسب یہ ہے کہ ایک صبا رفتار گھوڑے پر میں سوار ہوں اور یہاں سے نکل کر فرار ہوں۔ بے ستون پر جاؤں، اُسے دیکھ کر فوراً واپس آؤں تاکہ خسرو کو خبر نہ ہو، یہ واقعہ مشتہر نہ ہو اور تو اسی باغ میں رہ جب تک میں نہ آؤں، کہیں نہ جانا اور یہ راز کسی پر کھلنے نہ دینا۔ رقص کی محفل اسی طرح جاری رہے، ہر طرف بزم طرب کی تیاری رہے۔ یہ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہو کر بے ستون کی طرف روانہ ہوئی۔