سلیم آغاقزلباش(سرگودھا)
بچپن میں جب کبھی وہ پتنگ یا کاغذی ہوائی جہاز اڑاتا یا چیل کو فضا میں تیرتے ہوئے دیکھتا تو اس کے دل میں پرواز کرنے کی خواہش پر تولنے لگتی تھی۔ خاص طور پر سُپر مین کی مہمات پر مبنی کارٹون فلمیں دیکھنے کے بعد اس کا جی ہوا میں اڑنے کے لیے مچل اٹھتا تھا۔ اس خواہش کی مضبوط جکڑ میں آکر ایک مرتبہ اس نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر چھ سات فٹ اونچی دیوار سے فضا میں چھلانگ لگا دی تھی، وہ توخدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اسے کوئی خاص چوٹ نہیں آئی تھی ورنہ کچھ بھی ہو سکتاتھا۔
عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد، ہوا باز بننے کی آرزو دوبارہ پوری توانائی سے جاگ اٹھی، چنانچہ اس نے ہوابازی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے ایک فلائنگ کلب کی ممبر شپ اختیار کر لی۔ تربیت کے تمام مراحل اس نے خوش اسلوبی سے طے کر لیے۔ اس کا انسٹرکٹر اس کی خود اعتمادی اور شوقِ پرواز سے کافی متاثر ہوا۔ اس نے مختصر مدت میں اتنی مہارت حاصل کر لی جو کافی ’’فلائنگ آورز‘‘ کی تربیت مکمل کرنے کے بعد ایک ہوا باز کو حاصل ہوتی ہے۔آخر وہ گھڑی بھی آگئی کہ جس کا اسے بے چینی سے انتظار تھا۔ اس روز اس کی سولو فلائیٹ تھی۔ انسٹرکٹر نے ضابطے کے مطابق اسے تمام ممکنہ خطرات ، حفاظتی تدابیر اور دیگر ضروری ہدایات سے بخوبی آگاہ کردیا تھا مگر جب تربیتی طیارہ اس کے قبضۂ قدرت میں آیا تو اس نے اڑان بھرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد مقررہ فضائی روٹ سے روگردانی کرتے ہوئے طیارے کا رخ اپنے آبائی گاؤں کی جانب موڑ دیا۔ اتفاق سے اس روز موسم بڑی حد تک صاف تھا۔ تاہم دور افق پر بادلوں کے گل گتھونے ابر پارے نیلگوں سمندر کی سطح پر آئس برگ کی بڑی بڑی قاشوں کی صورت میں تیرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اور نیچے زمین ، بادل میں منہ چھپائے تاحدِ نگاہ پھیلی ہوئی تھی مگر جب کبوتروں کی ایک ٹکڑی اس کے طیارے کے پہلو میں سے گزری تو اسے دیکھتے ہی اس کے ذہن نے قلا بازی کھائی اور یادیں اس کے ذہن کی سکرین پر یکے بعد دیگرے پنکھ پھیلائے نمودار ہونے لگیں۔ اسے یاد آیا کہ آبائی گاؤں کی حدود سے باہر ایک ٹیلہ نما پہاڑی تھی، وہاں وہ اکثر اپنے ہمجولیوں کے ہمراہ کبڈی کھیلنے جایا کرتا تھا۔ بعض دفعہ وہ آپس میں شرطیں بَد کر ٹیلے پر سب سے پہلے چڑھنے کی کوشش کیا کرتے ۔ جب وہ اس کھیل سے اکتا جاتے یا تھک جاتے تو کچھ دور بیری کے رسیلے بیر توڑ توڑ کر جیبیں بھر لی جاتیں۔اس کا طیارہ جب گاؤں کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو اسے گاؤں کے پاس سے گزرنے والی نہرمیں ڈبکیاں لگاتے ہوئے کچھ لڑکے اورآس پاس چرتے ہوئے ڈھور ڈنگر اور بھیڑ بکریاں صاف دکھائی دیں اور انہیں دیکھتے ہی اس کے ذہن نے دوبارہ ماضی میں غوطہ لگایا۔ اسے یاد آیا کہ ایک مرتبہ وہ اسی نہر میں ڈوبتے ڈوبتے بچ گیا تھا۔ اگر چاچا کرم دین نہر کنارے مویشی نہ چرا رہا ہوتا تو اس کا زندہ بچ نکلنا محال ہوتا۔ اتنے میں اس کا طیارہ برگد کے گرانڈیل پیڑ کی پھننگوں کو چھوتا ہوا گزرا تو اچانک طوطوں کی ایک ڈار فضا میں بلند ہوئی۔ تب یکبارگی اسے کسی نے جھنجھوڑدیا، اس کا تربیت طیارہ مقرر بلندی سے کافی نیچے پرواز کر رہا تھا۔ اس نے طیارے کو دوبار ہ مناسب بلندی پر پہنچا دیا ۔ سنِ بلوغت کے آغاز کے ۔۔ زمانے میں وہ ۔۔ چلچلاتی دوپہروں کو اپنے چند ہم عمر دوستوں کے ساتھ اسی برگد کے نیچے بیٹھ کر تاش کھیلا کرتا تھا اور گھروالوں سے چھپ چھپا کر سگریٹ نوشی کا پہلا تجربہ بھی اس نے اسی برگد کے زیر سایہ کیا تھا۔ اس کو دھواں منہ میں بھر کر اور پھر اس کے چھلے سے بنا کر فضا میں بکھیرنے کے عمل میں ایک جادوئی کھیل کا سا لطف آتا تھا۔ مگر پھر نجانے کیسے گھر والوں کو اس کی اس حرکت کا پتہ چل گیا ۔ اس کی سخت سرزنش کی گئی اور دوپہر کو اکیلے گھر سے باہر نکلنے پر روک ٹوک بھی لگا دی گئی۔ جب اس کا طیارہ ہائی اسکول کی سفید براق عمارت پر سے گزرا تو اس کے ذہن کے پردہ ٔسیمیں پر بھولی بسری یادوں کے کئی اور پرانے عکس نمودار ہونے لگے ۔ یہ وہی سکول تھا جہاں سے اس نے میٹرک کیا تھا۔ اس کے بعد اس کا گاؤں سے رابطہ بتدریج منقطع ہو تاچلا گیا تھا۔اب تو فقط پرانی یادوں کی صورت اس تعلق کی چند باقیات اس کے پاس پرانے سکول کی طرح باقی بچی رہ گئی تھیں گو کہ ان میں سے بیشتر کو وقت کی گزران نے زنگ آلود کر دیا تھا جس کے باعث ان کی پہچان کے نقوش بھی مدھم پڑھ چکے تھے۔ نجانے کیوں طیارہ اڑاتے ہوئے وہ بار بار اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھتا کہ وہ ایک طیارے میں اڑان بھر رہاہے اور اڑان کے دوران ذہن کو میکانکی انداز میں چوکس رکھنا پڑتا ہے ۔ کسی قسم کی آزاد تلازمۂ خیالی کسی ہولناک حادثے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ طیارے کے ایندھن ، رفتار، بلندی وغیرہ کی نشاندہی کرنے والی سوئیوں کی جانب سے اس کا دھیان بار بار ہٹ جاتا تھا ، کیونکہ اس کے ذہن کی سوئی تو ماضی میں کہیں اٹکی ہوئی تھی۔ معاًاسے ایک کنویں کی منڈیر نظر آئی ۔ واقعی اسے اپنی تیز نگاہی پر حیرت ہونے لگی ۔ ہاں یہ وہی کنواں تھا ، کھارے پانی کا کنواں،جس سے شمو نے شادی کے دن لال جوڑے سمیت کودکر جان دے دی تھی۔ لال عروسی جوڑے میں لپٹی، کنویں کی سطح پر تیرتی ہوئی نعش کی تصویر اس کی آنکھوں کے آگے سرخ دھبے کی طرح گھوم گئی اور عین اس لمحے اسے طیارے کی ونڈ سکرین پر لحظے بھر کے لیے سرخ دھجیاں لپٹی دکھائی دیں۔ وہ غالباً کوئی لال کاغذی پتنگ تھی جو ونڈ سکرین سے ٹکرا کر تار تار ہو گئی تھی۔ ۔۔ اس اندوہناک حادثے سے نتھی کئی اور باتیں اسے یاد آنے لگیں۔شمو کی موت کے بعد کافی عرصہ تک اس بات پر چہ میگوئیاں ہوتی رہی تھیں کہ کیا اس نے خود کشی کی تھی یا اس کا قتل ہوا تھا! یہ معمہ حل نہ ہو سکا تھا۔البتہ یہ افواہ عام ہو گئی تھی کہ وہ کسی کو چاہتی تھی اور کسی دوسری جگہ شادی کرنے پر ہرگز راضی نہ ہوتی ۔وہ کون تھا؟یہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکاتھا ۔البتہ ایک دوسری طرح کی کہانی نے اس کی موت کے کچھ عرصہ بعد جنم لیا تھا جس کے مطابق گاؤں کے بعض افراد نے چاند کی پچھلی راتوں میں اتفاق سے اس کنویں والے راستے سے گزرتے ہوئے کنویں کی منڈیر کے آس پاس کسی عورت کے سسکیاں لے کر رونے کی آوازیں بھی سنی تھیں۔۔ اس کے طیارے نے گاؤں کے اوپر گول دائرے میں دو تین چکر مزید لگائے اور پھر اچانک اسے گاؤں کی مسجد کے عقب میں اس لڑکی کا مکان دکھائی دیا۔ اس کی پہچان یہ تھی کہ اس کے صحن میں نیم کا ایک کافی پرانا درخت تھا جس کی چھاؤں پورے گاؤں میں مشہور تھی ۔ اس نے پہلی بار شمو کو تب دیکھا تھا جب وہ سر پر گا گر اٹھائے اس کے گھر کی بیٹھک کے سامنے سے گزری تھی۔ وہ اس وقت بیٹھک میں بیٹھا سالانہ امتحان کی تیاری میں مصروف تھا۔ دیکھنے میں وہ بڑی خاموش طبع نظر آئی تھی۔ اس کے بعد جب کبھی اس کی بیٹھک کے سامنے سے گزری ، اسے بڑی گہری گہری نظروں سے دیکھتی تھی۔ اس وقت نجانے کیوں اس کی آنکھوں میں چمک سی نمودار ہو جاتی تھی۔ چند ایک بار وہ اس کے گھر بھی آئی تھی، وہ آم کا اچار بڑا اچھا ڈالتی تھی، شایدا سی لئے اسے بلایا گیا تھا۔ اسے یاد آیا کہ ایک مرتبہ بیٹھک میں بیٹھے پڑھائی کرتے ہوئے اسے زوروں کی پیاس لگی تھی، چنانچہ اس نے اونچی آواز میں پینے کے لیے پانی مانگا تھا، اتفاق سے اس روز وہ اس کے گھر میں موجود تھی، کسی کے کہنے پر یا پھر خود ہی، پانی کا گلاس لئے بیٹھک میں آگئی ، اسے وہاں اپنے سامنے پاکر لحظے بھر کے لیے وہ گھبرا گیا ، مگر پھر بغیر کچھ کہے ، پانی سے بھرا گلاس اس کے ہاتھ سے لے کرایک ہی سانس میں غٹاغٹ پی گیا اور خالی گلاس واپس کر دیا۔ اس حرکت پر وہ زیرِلب مسکراتے ہوئے بولی:’’لگتا ہے بہت پیاسے ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ ٹھہرے ٹھہرے انداز میں واپس چلی گئی۔
میٹرک کے امتحان کا نتیجہ نکلا وہ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ شہر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ کالج میں اس کے داخلے کا فارم جا چکا تھا۔ اسی عرصے میں وہ دو تین دن بلا ناغہ اس کے گھر آتی جاتی رہی، اس کے بشرے سے بے چینی اور بے قراری ٹپک رہی تھی، یہ بات اس نے محسوس تو کی مگر اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی تھی جس روز وہ گاؤں سے رخصت ہونے والا تھا ، وہ صبح صبح اس کے گھر آئی اور پھر موقع پاکر جاتے جاتے اتنا کہہ گئی:’’جب شہر سے آؤ تو ہمارے گھر ضرور آنا۔‘‘ اور اس نے کہا تھا: ’’آؤں گا‘‘۔ شہر کے کالج کی نئی زندگی اور شہر کے پر کشش ماحول اور دیگر دلچسپیوں اور مصرفیات نے اسے ایک اور ہی دنیا میں پہنچا دیا تھا ایک بار تو وہ گاؤں کی زندگی او رماحول کو جیسے فراموش ہی کر بیٹھا تھا لیکن جب موسمِ گرما کی تعطیلات ہوئیں تو اسے گھر واپس جانا پڑا۔ جس دن وہ گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ کل ہی شمو نے کنویں میں کود کر جان دے دی تھی۔ دفعتاً طیارہ ایک عجیب انداز سے ڈولا اور تبھی بجلی کے کوندے کی طرح یہ خیال اس کے دل و دماغ سے ٹکرایا اور ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا کہ جس کی خاطر اس لڑکی نے جان دی ، کہیں وہ !!۔۔عین اس وقت طیارے کے انجن میں زور کی گڑگڑاہٹ ہوئی، طیارے کے کَل پرزوں کی نشاندہی کرنے والی جملہ سوئیاں تیزی سے گردش کرنے لگیں۔ یہ دیکھ کر اس کا دل بری طرح پھڑپھڑانے لگا اور سانس اس کے حلق میں گٹھلی کی طرح اٹک کر رہ گیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ بے قابو ہو کر زمین کی طرف یوں لپکا جیسے کوئی بچھڑا ہوا اپنے کسی عزیز سے گلے ملنے کے لیے اس کی جانب دیوانہ وار بڑھتا ہے۔ مگر دوسرے ہی پل اسے یوں لگا کہ جیسے کسی نادیدہ ہستی نے اس کے بے قابو طیارے کی باگ ڈور سنبھال لی ہو۔ جب اس کے اوسان قدرے بحال ہوئے تو اس نے دیکھا کہ اس کا طیارہ گاؤں کے پاس پھیلے ہوئے طویل و عریض چٹیل میدان پر لینڈ کر کے تیزی سے گاؤں کی جانب دوڑتا چلا جا رہا تھااور اس وقت اس کی حیرت کی کوئی انتہا ہی نہ رہی جب طیارہ کھارے پانی کے اس کنویں کے قریب پہنچ کر خود بخود رک گیا کہ جس میں آج سے کئی سال قبل، شادی کے لال جوڑے میں لپٹی ہوئی شمو کی لاش تیرتی ہوئی پائی گئی تھی۔ ٭٭٭
ایک تو۔۔۔سلیم آغا قزلباش کے یہاں موضوعاتی انتخاب نہ صرف غیر مشروط ہے بلکہ نہایت متنوع ہے۔حالانکہ برصغیر اصلاَ اپنے دیہاتوں میں بسا ہوا ہے،دوسرے حالانکہ ہمارے بہتر افسانوی ادب میں عام طور پر شہری زندگی پر ہی زور دیا گیا ہے،مگر اس تعلق سے سلیم آغا قزلباش کی آبادکار دیہاتی ترجیحیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ اور تیسرے ہمارے نوجوان کہانی کار نے کہانی کے وسائل کو کہیں بھی غیر مقامی جبر کے مانند اپنی کہانی پر مسلط نہیں ہونے دیا،بلکہ اُس کے یہاں ہر وسیلہ اپنے مقامی تقاضوں کے مطابق جنم لیتا ہے،کسی کہانی کے داخلی اسباب اگر اس کے تجریدی اساطیری،علامتی یا بیانیہ اسلوب کے محرک ہوں تو اس کے اپنے پورے قد تک پنپ پانے کا امکان زیادہ غالب رہتا ہے۔
(سلیم آغاقزلباش کے افسانوی مجموعہ انگور کی بیل کے پیش لفظ از جوگندر پال سے اقتباس)