رات آدھی سے زيادہ گزر چکی تھی کہ اچانک انکے کمرے کی کھڑکی پر ہلکا سا کھٹکا ہوا۔
کھڑاک کی آواز پر نائل کی آنکھ ايسے کھلی جيسی وہ جاگ ہی رہا ہو۔
آہستہ سے يماما کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا۔
دبے قدموں اٹھ کر وہ يماما والی سائيڈ پر گيا۔ نيچے پڑے اپنے بيگ سے فورا ريوالور نکالی۔ اسی طرح دبے قدموں کھڑکی کے پاس گيا۔
دوسری جانب موجود بندے نے کھڑکی کی جانب کسی کی موجودگی محسوس کرلی۔
نائل کو ايک مخصوص خوشبو محسوس ہوئ۔ اور دوسری جانب والے بندے کوبھی مخصوص خوشبو محسوس ہوئ۔
“باس”دوسری جانب سے آہستہ سے کوئ بولا۔
نائل کو تسلی سی ہوئ۔
“راشد يہاں کيا کررہے ہو؟” وہ آہستہ آواز ميں غرايا۔
“سر جی باس نے مجھے آپکی حفاظت کے لئے واپس بھيجا ہے۔ آپ نے تو منع کرديا اور باس سے ہميں ڈانٹ پڑوا دی۔ خير ۔۔ اب آپ سکون سے سوجائيں۔ ہم چار لوگ اس گھر کے اردگرد ہيں۔” راشد نے اسے تسلی دلوائ۔ نائل نے ايک نظر يماما پہ ڈالی۔
“اور ہاں باس نے کہا ہے جس کے گھر آپ رکے ہيں۔ اس بندے کا بھائ وہاج کا بندہ ہے ۔۔ اور اس کے گوداموں سے بھی واقف ہے” راشد کی بات پر وہ ہولے سے مسکرايا۔
“تم اپنے باس کو کہنا ميں اس فيلڈ ميں گھاس چرنے نہيں آيا تھا۔ ميں جانتا ہوں۔ اسی لئے يہاں ٹہرنے کو ترجيح دی۔ ورنہ ايسی بارشيں ہمارے لئے کوئ معنی نہيں رکھتيں۔” اس کا معنی خيز لہجہ دوسری جانب کی خاموشی کو طويل کرگيا۔
“اور ہاں۔ميں نے اسے جال ميں پھسنا ليا ہے۔ اپنے اڈوں کا وہ بتا چکا ہے۔ بس کل يہاں سے نکلتے ہی وہاں جانے کی تياری کرو” نائل اتنا کہہ کر واپس اپنی جگہ پر آکر ليٹ گيا۔صبح انہيں يہاں سے جلدی نکلنا تھا۔
نائل نے فون پر ہونے والی جو گفتگو ٹريس کروائ تھی۔ وہيں سے اسے اس بندے کا پتہ چل گيا تھا۔
فورا اس کا ڈيٹا پتہ کروايا۔ تو اس گھر کا علم ہوا۔
واپسی پہ تيز بارش کا بہانہ بنا کر وہ جان بوجھ کر اس گھر پر رکا تھا۔
تاکہ ہئيروئن کے ان اڈوں سے واقف ہوسکے۔
اسکی توقع کے عين مطابق۔ اس نے خود کو شہنشاہ کا بندہ ظاہر کرکے۔ اس سے اڈوں کی ساری معلومات لے کر اسے يہ يقين دہانی کروائ کہ اسکا مال رائيگاں نہيں جاۓ گا۔ بلکہ شہنشاہ اسے خريدنا چاہتا ہے۔
نہ صرف يہ بلکہ نائل نے اسے ايڈوانس پيسے بھی دے دئيے۔
پيسے کے لالچ ميں وہاج کو بتائے بغير اس بندے نے ڈيل کرلی۔
يہ جانے بغير کے جو پيسے نائل نے اسے دئيے تھے وہ سب کے سب جعلی نوٹ تھے۔ مگر شايد ہی کوئ ماہر بھی ان کے نقلی نوٹ ہونے کی نشاندہی کرسکتا ہو۔
____________________
فاران اگلے دن جيسے ہی آفس پہنچا۔ چند پوليس آفسر اس بندے ک ہمراہ پہلے سے وہاں موجود تھے۔
مصافحہ کے بعد فاران اس بندے کی جانب متوجہ ہوا۔ جس کے منہ پر کالا کپڑا ڈال کر وہ لوگ وہاں لائے تھے۔
“آپ سب بيٹھيے پليز” فاران نے ان سب کو سامنے پڑے صوفوں پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ خود اپنی ٹيبل کے قريب رکھی کرسی کا رخ انکی جانب کرکے بيٹھ گيا۔
“کچھ بولا يہ؟” فاران نے ايک آفيسر کی جانب ديکھا۔ جو کہ غالبا کاشف تھا۔
“نہ صرف بولا۔ بلکہ اس کا بيان بھی ہم نے ريکارڈ کرليا ہے۔ اس بيان کی کاپی آپ اپنے کيس کے ساتھ لگا کر آج کورٹ ميں پيش کريں” اس نے ہاتھ ميں موجود ايک فائل فاران کی جانب بڑھائ۔
“ديٹس فنٹاسٹک” وہ بيان پڑھتے ہوۓ وہ مطمئن سا ہوا۔
“يہ تو سيدھا سيدھا ثابت کرتا ہے کہ اس قتل کے پيچھے وقار کا ہی ہاتھ ہے” وہ رپورٹ ٹيبل پر رکھتے ہوۓ وہ دوبارہ آفيسرز کی جانب مڑا۔
“بالکل اور اب اس سے پہلے کے وہ خود پر سے کيسيز ختم کروانے کے لئے کوئ اور حربہ اختيار کرے ہميں اس انداز ميں اسے پھنسانا ہوگا” کاشف کی بات پر باقی سب نے بھی ہاں ميں ہاں ملائ۔
“ليکن کيا جس بندے نے يماما کی گاڑی کو ٹکر ماری تھی اور جو ہاسپٹل لے کر گيا تھا۔ اسکے بارے ميں اس نے کچھ خاص نہيں بتايا” فاران نے ايک اہم پوائنٹ کی جانب نشاندہی کی۔
“سر ابھی تو يہ اہم ہے کہ وقار نے ہی يہ سب کروايا تھا۔ ان شاءاللہ اس بندے کا بھی پتہ چل جاۓ گا” ايک اور تفتيشی آفيسر نے اس کی توجہ پہلے ہی پوائنٹ کی جانب رہنے دی۔
ليکن آخر وہ وکيل تھا۔ اور کہتے ہيں نا کہ ڈاکٹر اور وکيل کو جب تک ہر بات سے باخبر نہ کردو۔ دونوں علاج تک نہيں پہنچ پاتے۔
فی الحال تو فاران خاموش ہو گيا۔
___________________
اگلے دن صبح ہی وہ دونوں وہاں سے روانہ ہوگۓ۔
“اب ہم کہاں جائيں گے؟” يماما نے گاڑی ميں بيٹھتے ہی سوال کيا۔
“کہکشاں کے اس پار ۔۔۔ اس دنيا سے کہيں بہت دور۔۔ جہاں تمہارے اور ميرے سوا کوئ نہ ہو” نائل نے مسکراتے ہوۓ اسکے سوال کا بڑی تفصيل سے جواب ديا۔
“پليز ميں نے دوبارہ اس کاٹيج ميں نہيں جانا” يماما کی برجستگی پر نائل نے بھرپور قہقہہ مارا۔
“تمہيں پتہ ہے ميں نے بہت محبت سے وہ کاٹيج بنايا تھا” نائل نے اپنے لہجے کو حتی المقدور جذباتی بنايا۔
“ہاں۔۔ بالکل مجھے اغوا کروا کے وہاں رکھنے کے لئے” يماما نے منہ پھلا کر کہا۔
نائل سر کو جھٹک کر مسکرايا۔
“يماما تم کتنی ذہين ہوگئ ہو۔۔” اس نے مسکراہٹ دبا کا حيرت کا اظہار کيا يا اس کا مذاق اڑايا۔۔ يماما کو سمجھ نہيں آئ۔
“اور آپ ۔۔۔۔ آپ بے حد عجيب ہوگئے ہيں۔ ہر بات کو مذاق ميں اڑانے والے۔۔۔کيا فيصل آباد ميں رہے ہيں۔ وہاں کے لوگوں کی طرح ہر بات پر جگتيں مارنے لگے ہيں” يماما نے تيکھے چتونوں سے اسے ديکھا۔
نائل کتنی ہی دير ہنستا رہا۔
“يار سئريس ہوکر بات کروں تو تم کہتی ہو کہ کيسی عجيب باتيں کررہے ہيں۔ ايسی گفتگو سے پرہيز کريں۔ جب اس طرح کی باتيں کرتا ہوں تو تم کہتی ہو بدل گۓ ہيں۔ اب ميں جاؤں تو جاؤں کہاں” نائل کی بات پر اب وہ چپ ہی رہی مگر ماتھے پر بل لاتعداد آچکے تھے۔
“اچھا سنو ہم اسلام آباد جارہے ہيں۔ وہاں سے ہماری فلائٹ ہے واپسی کی۔ اور پھر ميں تمہيں اپنے گھر لے کر جاؤں گا۔” نائل نے اب کی بار سنجيدگی سے اسے اگلا لائحہ عمل بتايا۔
يماما بھی سيدھی ہو کر اسکی جانب متوجہ ہوئ۔
“جس طرح تمہيں وہاں سے کسی نے يتيم خانے پہنچايا اور ايک فيملی نے تمہيں ايڈاپٹ کيا۔ ويسے ہی سمجھو مجھے بھی ايک فيملی نے ايڈاپٹ کيا۔ فرق صرف يہ تھا کہ ميں يتيم خانے نہيں گيا۔
بلکہ ايک ورکشاپ پر جاکر ميں نے کام شروع کيا۔ کيونکہ ميںی ميٹرک اور ايف اے کی ڈگری ميرے پاس نہيں تھی۔ لہذا ميں اسے دکھا کر کہيں جاب نہيں کرسکتا تھا۔ چاہے چپڑاسی کی ہی کيوں نہ ہوتی۔
مجھے کام کرتے ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ايک بے حد شاندار سے صاحب وہاں اپنی گاڑی ٹھيک کروانے آۓ۔ ميرے لب و لہجے کو ديکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس بلايا۔
“پڑھتے ہو؟” انکے سوال پر ميں چند لمحے خاموش رہا۔
“کبھی پڑھتا تھا۔ اب نہيں” ميں نے سر جھکا کر جواب ديا۔
“ميرے ساتھ چلو گے؟” انہوں نے ايک اور سوال کيا۔
ان کو لوگ ميجر صاحب کہہ کر بلا رہے تھے۔ جس سے اندازہ ہوا کہ وہ فوج ميں ہيں۔
اتنا تو اندازہ ہوگيا کہ وہ کوئ غلط بندے نہيں ہيں۔
“کيوں سر؟” ميں نے بھی آخر سوال کيا۔ ايسے کيسے ان کے ساتھ چل ديتا۔
“بس تم سے کچھ کام کروانا ہے” انکی بات پر ميں نے ہامی بھر لی۔
اور يماما پتہ ہے انہوں نے کيا کام ليا؟” نائل نے گردن موڑ کر اس سے سوال کيا۔ جو خاموشی سے اسکی ايک ايک بات کو غور سے سن رہی تھی۔
يماما نے نائل کی آنکھوں ميں چںد جگنو ديکھے۔
“انہوں نے گھر لے جاکر مجھے کہا کہ آج سے تم ميرے اور مہک کے بيٹے کی نوکری کروگے۔ انکی کوئ اولاد نہيں تھی۔ اور پھر ان دونوں نے مجھے اولاد کی طرح سميٹ ليا۔ ميرے ہر دکھ اور درد پر پھاۓ لگاۓ۔ وہ تمہارے بارے ميں بھی جانتے ہيں۔ ماما کو تو تمہارے بارے ميں صرف اتنا پتہ ہے کہ ميری ايک منکوحہ تھی جو شايد زندہ نہيں ہے۔ مگر ڈيڈی جانتے ہيں کہ تم زندہ ہو۔ انفيکٹ تمہارا اغوا بھی ميں نے انہی کے ساتھ مل کرکروايا تھا۔
ماما کو اسی لئے نہيں بتايا کہ وہ اينج ای او کی کافی فعال رکن ہيں۔ اگر ذرا سی بھی بھنک وہاج تک پہنچ جاتی کہ جس خاندان کو وہ مروا چکے ہيں اس کا کوئ بندہ ابھی بھی زندہ ہے تو وہ مجھے اور تمہيں مارنے ميں لمحے کی بھی تاخير نہ کرواتے۔
اسی لئے ابھی بھی تم ميری دوست کی حيثيت سے وہاں رہو گی۔ ايک بار يہ سب جيل ميں پہنچ جائيں تب ميں اور ڈيڈی ماما کو تمہارے بارے ميں بتا دين گے۔”نائل نے تفصيل سے اسے بہت سی وہ باتيں بتائيں۔ جنہيں جاننے کے لئے وہ بے چين تھی۔
“اور۔۔ اورميرے بارے ميں آپ کيسے جانتے تھے؟” يماما نے سوچا اب جب وہ بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا رہا ہے تو ايک يہ بھی سہی۔
“دھيرج ميری جان جلد ہی بتاؤں گا” نائل کے موبائل پر آنے والی کال نے اسے بات ختم کرنے پر مجبور کيا۔
يماما نے چہرہ کھڑکی کی جانب موڑ ليا۔
_____________________
فاران پوليس اسٹيشن سے باہر نکل رہا تھا کہ يکدم سامنے سے آتی ايک لڑکی سے اسکی بری طرح ٹکر ہوئ۔ حالانکہ وہ اپنے حساب سے بالکل ٹھيک آرہا تھا۔
مگر وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ لڑکی نے ٹکر ماری ہے يا پھر يہ محض اتفاق تھا۔
“سوری” غلطی نہ ہونے کے باوجود وہ سامنے والے وجود سے معافی کا طلبگار ہوا۔
لينن کے ديدہ زيب سوٹ ميں دوپٹہ ايک جانب ڈالے۔ شولڈر سے ذرا سے نيچے آتے بالوں کی پونی بناۓ۔ اس نے جھٹکے سے گردن موڑ کر لمحہ بھر کو فاران کو ديکھا۔
فاران تو اس لمحہ بھر کے تصادم ميں ہی اپنی جگہ ششدر کھڑا رہا۔
وہ لڑکی تو ہوبہو يماما تھی۔
يکدم وہ اسکے پيچھے لپکا۔
“جی” لڑکی نے پيچھے مڑ کر ديکھا۔
مگر آواز مختلف تھی اور چہرہ بھی لمحہ بھر کے لئے ديکھنے پر يماما جيسا لگا تھا۔ مگر بحرحال شکل مختلف ہی تھی۔
مگر پہلی نظر پڑنے پر يماما کا ہی گمان ہوتا تھا۔
“کچھ نہيں۔۔ سوری اگين” فاران نے شرمندہ وہ کر قدم واپس موڑے۔
وہ بھی سر جھٹک کر چل پڑی۔
____________________________