’’خان پور میں اردو غزل کی روایت کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘نذیر بزمی کے ایم فل کے مقالہ کاموضوع ہے۔’’نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس،بہاول پور‘‘کے شعبہ اردو و اقبالیات کی طرف سے اس مقالہ کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر نواز کاوش ان کے نگران تھے۔۲۰۱۴ء تا ۲۰۱۶ء کے دورانیہ میں لکھا جانے والا یہ مقالہ مکمل ہو کر نہ صرف منظور ہو چکا ہے بلکہ اس کی الیکٹرونک کاپی بھی مجھ تک پہنچ چکی ہے۔میں نے اس مقالہ کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا ہے۔نذیر بزمی نے اپنی حد تک کافی محنت کے ساتھ اپنا کام مکمل کیا ہے۔ انہوں نے’’انتہائے نگارش‘‘کے عنوان سے ابتدا کی ہے۔اس ’’انتہائے نگارش‘‘ کا آخری حصہ یہاں پیش کرتا ہوں۔
’’میرا یہ مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول، تعارف کا ہے جس میں اردو غزل کے تعارف کے ساتھ خان پورشہر کا تاریخی،ثقافتی اور ادبی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔باب دوم میں ۱۹۰۱ء سے ۱۹۴۷ء کے دوران خان پور کے غزل گو شعراء کے حالاتِ زندگی،نمونہ کلام اور اس پر مختصر تبصرہ پیش کیا ہے۔باب سوم میں ۱۹۴۸ء سے ۱۹۸۰ء کے شعراء کے حالاتِ زندگی،نمونہ کلام اور اس پر مختصر تبصرہ شامل ہے۔باب چہارم میں ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۶ء تک کے شعراء کے حالاتِ زندگی،نمونہ کلام اور تبصرہ شامل ہے۔باب پنجم محاکمہ ہے جس میں پورے مقالہ کا مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
میں نے اس مقالہ کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کی ہے،مگر کوئی بھی کام مکمل نہیں ہوتا،اس میں خامیاں رہ جاتی ہیں جن کو آنے والے لوگ دور کرتے ہیں۔میرا یہ مقالہ اپنی نوعیت کی ابتدائی کوشش ہے۔ اس لیے اس میں کچھ کمی کوتاہی لازمی رہ گئی ہو گی،اس کی نشان دہی کرنے والے احباب کا میں شکر گزار رہوں گا۔‘‘
اس مقالہ میں۱۹۰۱ سے ۱۹۴۷ء تک کے پہلے دور میں چھ شعرائے کرام شامل ہیں۔حضرت خواجہ غلام فرید،محسن خان پوری،خواجہ محمد یار فریدی،عبدالرحمن آزاد،علامہ ظہور احمداور سید مغفورالقادری ۔۱۹۴۸ء سے ۱۹۸۰ء تک کے دوسرے دور میں ۳۰ شعراء شامل ہیں۔جبکہ ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۶ء تک کے تیسرے دور میں ۳۹ شعراء شامل ہیں۔مجموعی طور پر خان پور میں ۷۵ شعراء دریافت ہوئے ہیں۔ان میں سے بعض شعرائے کرام سے میں واقف ہوں اور بہت سارے میرے لیے نیا اور خوشگوار تعارف ثابت ہوئے ہیں۔ چونکہ میرا تعلق خان پور؍رحیم یار خان سے ہے اس لیے اپنے علاقہ کے کئی انجان یا نئے ناموں سے متعارف ہو کر دلی خوشی ہوئی ہے۔
مقالہ کی کسی خامی،کمی یا کوتاہی کی نشان دہی تو نذیر بزمی کے مطابق’’آنے والے لوگ‘‘ ہی کریں گے۔میں’’جانے والے لوگوں‘‘کے ایک فرد کی حیثیت سے یہاں اپنی یادوں سے منسلک بعض باتیں،اسی مقالہ کے تسلسل کے طور پر بیان کروں گا۔
پہلے دور کے شعراء میں سے حضرت خواجہ غلام فرید سے اپنے قلبی تعلق کا احساس نئے سرے سے محسوس کیا ہے۔محسن خان پوری کے دیوانِ ریختی پر میں نے ایک تعارفی مضمون لکھا تھا’’اوراقِ گم گشتہ‘‘۔یہ مضمون جدید ادب خان پور کے شمارہ نومبر ۱۹۸۰ء میں پہلی بار شائع ہوا تھا۔میرے تنقیدی مضامین کے پہلے مجموعہ’’حاصلِ مطالعہ‘‘(مطبوعہ دہلی ۔۲۰۰۸ء)میں شامل تھا۔اور میری کتاب’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘(مطبوعہ اسلام آباد۔۲۰۱۴ء میں بھی شامل ہے۔ عبدالرحمن آزاد سے براہ راست رابطہ نہیں ہوا تھا لیکن وہ محسن خان پوری کے صاحب زادے تھے اور یارِ عزیزجمیل محسن کے والدِ گرامی تھے۔سو ان کے ساتھ ایک غائبانہ تعلق ہمیشہ محسوس کیا ہے۔اس حصہ کے باقی تینوں ناموں کی غزل گوئی میرے لیے انکشاف یا اولین تعارف ہے۔پڑھ کر خوشی ہوئی۔
دوسرے دور کے شعراء میںعارف عزیزی سے اپنی ملاقاتیں یاد آئیں۔وہ غلہ منڈی خان پور میں آڑھت کی ایک دوکان کے اوپر چوبارے میں قیام پذیر تھے۔جہاں تک یاد داشت کام کرتی ہے ہم لوگ بزم فرید خا پور کا ایک بروشر شائع کر رہے تھے اس کے لیے ان سے کلام حاصل کرنا تھا۔انہوں نے شفقت کا سلوک کیا۔اپنا کلام عنایت کیا۔اگر وہ غزل بزمِ فرید کے ۱۹۷۳ء یا ۱۹۷۴ء کے بروشرمیں مل جائے تو میری یادداشت کی بھی تصدیق ہو جائے گی۔اس سے مقالہ نگار کی یہ بات وضاحت چاہتی ہے کہ عارف عزیزی ۱۹۶۷ء تک خان پور میں رہے تھے۔میں ان سے ۱۹۷۳ء یا ۱۹۷۴ء میں ملا تھا اور دو تین بار ملا تھا۔
مسعود نقوی کو میں ان کی دو بلکہ تین حیثیتوں سے جانتا ہوں۔(۱)ان کی خان پور میں میڈیکل پریکٹس کی دوکان تھی۔اسے کلینک کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہر حال وہ دوکان تھی۔ ویسے خدا جانے انہوں نے میڈیکل کے شعبہ میں کوئی ڈگری لی تھی یا ویسے ہی اپنے تجربے کی بنیاد پر کام چلاتے رہے۔(۲)نذیر بزمی نے مسعود نقوی کی ادارت میں نکلنے والے جرائد کے ذکر میں’’صدائے عوام‘‘کا ذکر نہیں کیا۔مسعود نقوی نے غالباََ ۱۹۶۸ء سے ایک سال آگے پیچھے یا اسی سال یہ ہفت روزہ جاری کیا تھا۔اس اخبارکا دفتران کی ڈاکٹری والی دوکان میں ہی تھا۔یہ اخبار بھی زیادہ عرصہ چل نہیں پایا۔(۳)خان پورکی ثقافتی تقریبات میں اعلیٰ افسران کی آوٗ بھگت میں پیش پیش رہتے تھے۔اس معاملہ میں انہیں کوئی زیر نہیں کر سکا۔ بے شک وہ ایسی ثقافتی تقریبات میں رونق پیدا کردیتے تھے۔میں ان کو ادبی حوالے سے نہیں جان سکا تھا۔ان کے طبی،صحافتی اور مجلسی حوالے ہی میرے علم میں تھے۔
گلزار نادم صابری سے ایک دو بار ہی ملنا ہوا تھا لیکن ان کے ساتھ ہمارا ایک بالواسطہ تعلق بھی تھا۔ادبی لحاظ سے بلاشبہ وہ قادرالکلام استاد شاعر تھے۔ان کے ساتھ ایک ادبی ملاقات بھرپور ثابت ہوئی۔ایک نعتیہ مشاعرہ میں مجھے بھی بلا لیا گیا۔میں نے ایک نعت لکھی ہوئی تھی جو اسی دوران ’’نوائے وقت‘‘ ملتان یا شاید ’’امروز‘‘ملتان میں شائع ہوئی تھی۔
نعتِ ختم المرسلیںؐ اور میرے جیسا بد چلن
خاک کے ذرے کو گویا آسمانوں کی لگن
ساری نعت اسی انداز کی تھی لیکن آخر میں ایک تضمینی ٹچ تھا۔
حُسنِ یوسف اور دمِ عیسیٰ میں اب کیا تاب ہے
’’صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہِ ذقن
واں مسیحِ ناصری شد از دمِِ او بے شمار‘‘
میری نعت تو بہت ہی کمزور سی تھی لیکن تضمین کے فارسی شعر نے گلزار نادم صابری پر عجیب سی کیفیت طاری کر دی۔انہوں نے دو تین بار اسے سنا اور ہر بار جھومنے کے انداز میں سر ہلاتے اور اپنی ٹانگ پر زور زور سے ہاتھ مارتے ہوئے داد دیتے۔بس یہی ان سے ایک یادگار ملاقات رہی۔
محمود قریشی کے تعارف میں بھارتی موسیقار انو ملک کی خان پور میں آمد کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کی آمد کا سبب نہیں بتایا گیا۔انڈیا کے پرانے موسیقارسردار ملک میرے پسندیدہ موسیقاروں میں شامل ہیں۔ ان کے بہت سارے دیگر گیتوں کے ساتھ ان کاکمپوز کیا ہوا گیت’’سارنگا تیری یاد میں نین ہوئے بے چین‘‘میرے بہت زیادہ پسندیدہ گانوں میں شامل ہے۔ سردار ملک نئے موسیقارانوملک کے والد تھے۔سردار ملک اور گلزار نادم صابری سگے بھائی تھے اور انو ملک گلزار نادم صابری سے،یعنی اپنے چچایا تایا سے ملنے کے لیے آئے تھے ۔تب وہ محمود قریشی کے ساتھ حئی سنز شوگر ملز خان پور میں بھی آئے تھے۔لیبارٹری میں آئے تو ان کے ساتھ ہلکی پھلکی سی گپ شپ ہوئی تھی۔ہم متفکر تھے کہ انڈیا میں مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ اور وہ وہاں سب اچھا ہے جیسی بات کرکے بڑے مطمئن اور خوش باش لگ رہے تھے۔یہاں تک تو دو بھائیوں کا تعارف ہو گیا۔ان دونوں بھائیوں یعنی سردار ملک اور گلزار نادم صابری کی ایک بہن برکت بی بی تھیں۔نہایت نفیس اور پاکیزہ شخصیت کی مالک تھیں۔بیوہ تھیں۔ دائی کا کام کرتی تھیں۔ان کے اٹھنے بیٹھنے اور آنے جانے میں ایک وقار جھلکتا تھا۔میں نے گھریلو دائیوں میں ایک بھی دائی میں برکت بی بی جیسی نفاست،تمکنت اور پاکیزگی نہیں دیکھی۔ہماری فیملی کے بچوں کی پیدائش برکت بی بی کے ذریعے ہوئی تھی۔ میرے بیٹے عثمان حیدرکو گلوکاری کا شوق ہے۔وہ ہماری گھریلو محفلوں میں اپنے گانوں سے ہمیشہ رونق پیدا کرتا رہتا ہے۔ایک بار یونہی انو ملک کا ذکر ہوا اور اسی حوالے سے ان کے والد اور چچا کا ذکر ہوا اوران کی پھوپھی برکت بی بی تک بات چلی گئی۔عثمان یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ انو ملک، برکت بی بی کے بھتیجے ہیں۔پھر اس کے من میں موج سی آئی اور کہنے لگا برکت بی بی میری رضاعی ماں ہیں۔اس لحاظ سے انوملک میرا ماموں زاد بھائی اور میں اس کا پھوپھی زاد بھائی ہوں۔بس اب میں اپنے گمشدہ کزن انو ملک سے مل کر رہوں گا۔لیکن یہ ساری گپ شپ فیملی لیول پر ہوئی اور ہنسی مذاق میں ختم ہو گئی۔تو یہ تھا گلزار نادم صابری کے ساتھ ہمارے بالواسطہ تعلق کا قصہ۔
رفیق راشد کے تعارف میں جو کچھ لکھا گیا ہے سب درست ہے لیکن استاد کی حیثیت سے وہ پہلے رحیم یار خان میں تعینات ہوئے تھے۔تب ہم لوگ بھی رحیم یار خان میں ہی تھے۔میں محلہ قاضیاں کے قریب جس گورنمنٹ اسکول میں داخل ہوا تھا۔رفیق راشد اسی اسکول میں پڑھاتے تھے۔بالکل بچپن میں انہیں دیکھنے کے بعد جب خان پور میں غالباََ۱۹۶۷ء میں انہیں دیکھا توفوراََ پہچان لیا۔
منور نقوی کے تعارف میں جو کچھ درج ہے اس سے پہلے سے واقف ہوں۔ ادب،صحافت،تدریسی فرائض،ہومیوڈاکٹری،سے لے کرتقریبات برپا کرنے تک وہ متحرک شخصیت رہے۔تاہم ان کی شخصیت کا ایک آرٹسٹک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے فوٹو گرافی بھی کی تھی۔خان پور کے پرانے سینماہاؤس پنجند ٹاکیزکے دائیں ؍شرقی جانب چند دوکانیں چھوڑ کرمسعود نقوی کی ڈاکٹری کی دوکان تھی۔جبکہ سینما ہاؤس مذکور کے بائیں؍غربی جانب چند دوکانوں کی جگہ چھوڑ کر منور نقوی کی فوٹوگرافی کی دوکان تھی۔میں نے اپنی ایک دو تصویریں ان سے کھنچوائی تھیں۔ نقوی فیملی کے ایک اور صاحب کا نام اب بھول رہا ہوں لیکن ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ انہوں نے ’’تھری سٹار لائبریری‘‘قائم کی تھی۔یہاں سے کرایا پر کتابیں ملتی تھیں۔میں نے اوائل عمری میں یہاں سے بہت سی کتابیں کرایا پر لے کر پڑھ ڈالی تھیں۔میرے پڑھنے کے ذوق و شوق میں اس لائبریری کا بڑا حصہ سمجھا جانا چاہئے۔لائبریری اچھا بزنس نہ بن سکی تو تھری سٹار والوں نے لائبریری کے ساتھ فوٹو گرافی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔میں نے یہاں سے بھی چند تصویریں بڑے پوز بنا بنا کر کھنچوائی تھیں۔میرے لڑکپن کی وہ تصویریں اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں اور ان میں سے بعض یادگار قسم کی تصویریں میں نے ادھر اُدھر شائع کرانے کے ساتھ انٹرنیٹ پر بھی دے رکھی ہیں۔یہ لائبریری اور فوٹو گرافی کی دوکان منور نقوی کی دوکان کے بالمقابل،سڑک کی دوسری جانب ،مغربی طرف تھوڑا سا آگے جا کر تھی۔گویا تینوں نقوی صاحبان کی دوکانیں پنجند ٹاکیز کے قریب قریب تھیں۔
اسد حسین ازل کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ان کے بارے میں معلومات اور کلام کہیں سے نہیں مل سکا۔اسد حسین ازل،ان کے چھوٹے بھائی(نام یاد نہیں آرہا)،حفیظ سوز اور خان پور کے ایک دو مزید دوستوںکا ایک گروپ تھا جو مل کر فلم انڈسٹری میں داخل ہونے کے لیے کوشاں تھا۔ازل ؔبطور شاعر،ان کے بھائی بطور گلوکار،حفیظ سوز بطور کہانی کار اور ڈائریکٹرتگ و دو کر رہے تھے۔ازل ؔکے بھائی کی آواز کافی اچھی تھی۔گورنمنٹ گرلز ہائی سکول خان پور کے کے مرکزی دروازے سے شرقی جانب دو تین دوکانوں کے بعد ’’حیدر کا ہوٹل‘‘تھا۔وہاں سے ریکارڈ کی ہوئی ایک کیسٹ اکثر سننے میں آتی رہتی تھی۔یہ اسد حسین ازلؔ کے چھوٹے بھائی کے گانوں کی کیسٹ تھی جو انہوں نے اپنے شوق کے باعث خود ہی تیار کی تھی ۔اس میں شامل سارے گانے رفیع صاحب کے گائے ہوئے تھے اورازلؔ کے بھائی نے بھی وہ گانے اچھے انداز میں گائے گئے تھے۔ان میںسے ’’میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا‘‘میں نے پہلے بار ازل ؔکے بھائی کی آواز میں سنا تھا۔یہ باصلاحیت دوستوں کا اچھا گروپ تھا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور سب کے سب ہی ناکام ہو کر دنیا کی بھیڑ میں کھو گئے۔اسد حسین ازل کے مجموعہ’’دشتِ انا‘‘کا ایک شعر میرے ذہن میں کچھ اس طرح سے رہ گیا ہے۔
دل کو ہی دشتِ انا ،دل کو اجل کہتے ہیں ہم قلندر ہیں جو کہتے ہیں اٹل کہتے ہیں
یہ اس زمانے کی غزل ہے جب قتیل شفائی کی یہ غزل بے حد مقبول ہو رہی تھی۔
حُسن کو چاند ، جوانی کو کنول کہتے ہیں اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
اسد حسین ازل اور ان کے احباب کا کہنا تھا کہ ازلؔ کی غزل دیکھنے کے بعد قتیل شفائی نے اسی زمین میں غزل کہہ دی اور وسائل کی فراوانی کے باعث اسے جلد فلم کا گیت بھی بنا دیا ۔لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ازلؔ نے ایک پاپولر ہوتی غزل سے متاثر ہو کر اپنی غزل کہی ہو۔واللہ اعلم بالصواب۔
مقالہ کے اسی حصہ میںحفیظ شاہد،آسی خان پوری،نردوش ترابی،الفت کریم الفت،صفدر صدیق رضی،قیس فریدی،جمیل محسن،خلیل قیصر،محمود قریشی، فرحت نواز،پروین عزیز،شمسہ اختر ضیاء،سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔ان سب کے ساتھ میری تلخ و شیریں یادیںوابستہ ہیں۔کہیں تلخی زیادہ ہے تو کہیں شیرینی زیادہ ہے۔لیکن اتنی مدت کے بعد تو تلخی والے احباب بھی شیریں لگنے لگتے ہیں۔ان سب کو دیکھ کردلی خوشی ہوئی ہے۔مذکورہ بالا سارے ناموں کے علاوہ باقی جتنے بھی شعرائے کرام ہیں،میں ان سے ناواقف ہوں۔ان سے اس مقالہ کے ذریعے تعارف ہوا ہے تو اچھا لگ رہا ہے۔
تیسرے دور کے شعراء میں نوجوانوں کی پوری کھیپ موجود ہے۔ان میں سے سعید شباب،نصرت جہاں،نذر خلیق،ایوب ندیم،اظہر عروج،میرے لیے اجنبی نہیں ہیں لیکن باقی سارے ۳۴ شعراء میرے لیے بالکل اجنبی ہیں۔تاہم مجھے خوشی ہے کہ میرے آبائی شہر خان پور کی علمی و ادبی فضا میں گہما گہمی موجود ہے۔رونق میلہ لگا ہوا ہے۔مرزا حبیب شاعر تو نہیں ہیں لیکن علمی و ادبی ذوق رکھنے والے انتہائی فعال اور سرگرم نوجوان ہیں۔ان سے سکائپ کے ذریعے دو تین بار رابطہ ہوا تھا اور ان کا جوش و جذبہ دیکھ کر اچھا لگا تھا۔اب نذیر بزمی نے ’’انتہائے نگارش‘‘ میں مقالہ کی تکمیل میں بہت سارے دوسرے احباب کے تعاون کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ مرزا حبیب کا بھی خاص شکریہ ادا کیا ہے تو اس نوجوان کو اس طرح بے لوث طور پر متحرک دیکھ کر مزید خوشی ہوئی ہے۔
نذیر بزمی کے مقالہ ’’خان پور میں اردو غزل کی روایت کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘کو پڑھتے ہوئے مجھے اپنی آبائی زمین اور اپنے گزرے زمانے کو ایک بار پھر یاد کرکے ان یادوں کے گلشن میں گھومنے پھرنے کی توفیق ملی ہے اورایک بار پھراس زمین اور ان زمانوں کو محسوس کرنے کا موقعہ ملاہے۔یہ میرے لیے علمی و ادبی لحاظ سے ایک اچھا مطالعہ ثابت ہوا ہے اور ذاتی طور پر بھی ایک خوشگوار تجربہ رہا ہے۔
؎ کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...