روحیل اور ارشاد صاحب کے پہنچنے سے قبل ہی اہل خانہ کو باخبر کر دیا گیا کہ فون ٹریس ہو چکے ہیں اور تینوں لاپتہ افراد کی موجودگی سو فیصد ہے ۔۔
یہ دن اس مختصر سے خاندان پر بہت بھاری تھے۔۔۔
اکلوتے بیٹے کی موت کا سن کر ماں دل کے دورے سے چل بسی۔۔۔
ملبے تلے دبی لاشوں کا حصول فی الحال مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔۔ بڑی مشینری کے بغیر ٹنوں کے حساب سے ملبے کو ہٹانا اور پھر کسی وجود کا زندہ نکالنا ناممکن سی بات تھی۔۔۔
روحیل کو تو گویا سانپ سونگھ گیا تھا ۔۔۔۔ دل میں پچھتاوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔۔۔
پائیدار کوٹھی کسی ویران کھنڈر کا منظر پیش کر رہی تھی۔۔۔ ٹیڑھے میڑھے لٹکتے لوہے کے سریے رب ذوالجلال کی پکڑ کا منہ بولتا ثبوت تھے۔۔۔
انتھک کوششوں کے بعد ملبے کو بھاری مشینری سے ہٹایا گیا مگر لاشوں تک رسائی تاحال مشکل تھی۔۔۔
روحیل کے دل کی حالت عجیب تھی۔۔۔پچھتاوے اور گزشتہ دنوں میں سرزد ہونے والے کبیرہ گناہ بےچینی اور بے سکونی میں دن بدن اضافہ کر رہے تھے۔۔اس ہولناک کھنڈر نما کوٹھی کے احاطے میں
یکدم شور مچ گیا۔۔۔
ملبے کی اس ڈھیری پر کھوجی کتوں نے دھاوا بول دیا ہے…
ملبے کو ہٹاتے ہی لاشوں سے اٹھتی بدبو نے آس پاس کھڑے لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔۔۔
چہروں کو کپڑے کی موٹی تہوں سے ڈھانپ کر چار و ناچار مسخ شدہ لاشوں کو نکالا گیا۔۔۔
لاشوں کی حالت اس قدر خوفناک منظر پیش کر رہی تھی کہ انہیں دیکھ کر بہادر سے بہادر مرد کا دل بھی دہل جائے۔۔۔
کھلے منہ ، اکڑے بدبودار جسم اور باہر کو ابلتی آنکھیں روحیل کا دل دہلا گئیں۔۔۔
چہروں کی شناخت کے لئے ڈی این اے کا سہارا لینا پڑا۔۔۔
ایک ہفتہ قبل یہ چہرے سینہ پھیلائے اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلنے والے ، آئے دن نئی لڑکیوں سے منہ کالا کرنے والے ، آج یہی شرابی ٹولہ جنکے ہاتھوں میں آخری وقت بھی جام تھے اپنی سیاہ کاریوں سمیت منوں مٹی تلے دفنائے جانے لگے۔۔۔
******************************************
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جب جنازہ تیار ہوتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو نیک آدمی کہتا ہے: مجھے جلدی لے چلو، اور اگر نیک نہ ہو تو کہتا ہے: ہائے ہلاکت ، مجھے کہاں لے جا رہے ہو۔ میت کی آواز انسانوں (اور جنوں ) کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے، اگر انسان سن لے تو بیہوش ہو جائے”۔(صحیح بخاری:1314).
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی، ہائے افسوس کاش کے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔”(سورة الفرقان:27؛28)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے‘‘۔(سورة محمد:27)
******************************************
اس تاریخی زلزلے کی وجہ سے روحیل کی راتوں کی نیند مکمل طور پر رخصت ہو گئی۔ بار بار منیب، مانی اور عامر کے مسخ شدہ خوفناک چہرے آنکھوں کے سامنے آتے۔۔
روحیل کا وجیہہ چہرہ شدت خوف سے سیاہی مائل ہونے لگا، قلت نیند کی وجہ سے آنکھوں کے ارد گرد سیاہ کھڈے اسکے اندر کی بے چینی اور بے کلی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔۔۔۔
نڈھال ماموں نے کمرے میں داخل ہوتے روحیل کو تشویش ناک طریقے سے مخاطب کیا۔۔
روحیل تمہیں کچھ پتا ہے کہ منیب اس کوٹھی پر کیوں تھا ؟؟! مجھے تو آج مالک مکان نے بتایا ہے کہ وہ کوٹھی منیب نے اپنے نام پر چھ مہینے کا پیشگی کرایا دے کر حاصل کی ہوئی تھی۔۔۔ ماموں طاہر کے اچانک انکشاف نے روحیل کے چھکے چھڑا دیئے۔۔۔۔
واقعی ماموں؟؟؟
ہاں ہاں مالک مکان نے بتایا ہے کہ اس نے چند ہفتے قبل ہی کوٹھی کی چابی حاصل کی تھی۔۔
ماموں مجھے کچھ خاص اندازہ نہیں ہے۔۔ روحیل نے جان چھڑانی چاہی۔۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اسے کونسی ایسی ضرورت آن پڑی کہ وہ بنا ہمیں بتائے یہ سب کرنے لگ گیا۔۔۔؟؟ ماموں طاہر سرد آہ بھر کر رہ گئے۔۔۔
روحیل نے تھوک نگلا۔۔۔
ماموں میں کیا کہہ سکتا ہوں۔..
بھئی جب اپنا عالیشان گھر موجود ہے تو کرائے پر ایک اور لے لینا ، بہت عجیب لگ رہا ہے۔ بہرحال تم اسکی یونیورسٹی جاؤ اور اسکے ملنے جلنے والوں سے پوچھو کہ اس کے ذمے کسی کا لین دین تو نہیں بنتا ہے۔؟
باقی یہ کرائے کی کوٹھی والا معمہ میں خود حل کر لوں گا۔۔۔
جوان بیٹے کی اچانک موت باپ کو جیتے جی مار دیتی ہے۔۔۔ بولتے ساتھ ماموں طاہر زار و قطار رونے لگے۔۔ جبکہ روحیل اور ارشاد صاحب انکی دل جوئی میں لگ گئے۔۔۔
طرح طرح کی سوچوں اور بھاری دل کے ساتھ روحیل منیب کے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا ۔۔۔
چند ایک طلباء سے بات چیت کے بعد اندر کی گھٹن کو کم کرنے کے لیے باہر سنگی بینچ پر آن بیٹھا۔۔۔
مسلسل ایک ہی نقطے کو مختلف پہلوؤں سے سوچتے ہوئے وہ تھک چکا تھا۔ دل بہلانے کے لیے کتنے دنوں بعد اپنے اور منیب کے درمیان ووٹس ایپ پر ہونے والے پرانے مکالمے کو پڑھنے لگا ۔۔۔ مکالمے کو اوپر نیچے کرتے ہوئے منیب کا بھیجا گیا ویڈیو کھول لیا۔۔۔
دل میں ایک ٹھیس اٹھی۔ زینہ کا آنسوؤں سے تر چہرہ اور لاچارگی روحیل سے دیکھی نہ گئی۔۔۔ فوراً ویڈیو بند کر کے فون جیب میں ڈال دیا۔۔۔۔
ہم کس قدر سفاک تھے منیب۔ کاش تم اس راستے پر نہ چلتے اور نہ مجھے اس راستے پر چلنے کے لئے اکساتے۔۔۔
یا اللہ ایک مرتبہ میرا سامنا اس لڑکی سے کروا دے ، میں اپنے اور منیب کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے اس سے اور اسکے گھر والوں سے بھی معافی مانگ لوں گا۔۔۔ یا اللہ میرے دل کا سکون لوٹا دے۔۔۔
یہ اسی لڑکی کی بد دعائیں ہیں شاید جس کی سزا آج مجھے مل رہی ہے اور نجانے قبر میں منیب کس حال میں ہو گا۔۔ روحیل کے اندر کی ویرانی اسے کسی مقام پر چین نہ لینے دے رہی تھی۔۔ کچھ سوچ کر یونیورسٹی کے دوسرے احاطے کی طرف چل پڑا۔۔
سامنے ہال سے نکلتی بےشمار لڑکیوں میں سے دو باپردہ لڑکیاں دیکھ کر روحیل کے دل کو تو جیسے قرار آ گیا۔۔
ایک منٹ کی تاخیر کیے بنا انکے پاس جا پہنچا۔۔۔
گلا کھنکار کر گویا ہوا۔۔
مجھے معاف کیجئے گا۔ آپ میں سے زینہ حیات کون ہیں۔؟؟
دونوں لڑکیاں حیرت سے پیچھے مڑیں ۔۔
آپ سے مطلب۔؟؟؟
دیکھیں مجھے آپ غلط نہ سمجھیں ،مجھے صرف زینہ حیات سے دومنٹ کے لیے بات کرنی ہے۔۔
آپ کون ہیں؟؟ اور آپ زینہ حیات کو کب سے جانتے ہیں؟؟ سامعہ کا پارہ چڑھنے لگا۔۔ جبکہ زینہ کا حال کاٹو تو خون نہ نکلے۔۔۔
یہ لمبی کہانی ہے مگر میں زینہ حیات سے معافی کا طلبگار ہوں۔!
آپ ہیں کون جو اتنے مہربان بنے پھر رہے ہیں۔۔۔؟؟؟
وہ ممممں میرا مطلب ہے زینہ حیات مجھے جانتی ہیں۔!!
آپ کا دماغ ٹھکانے پر نہیں ہے۔!! پتا نہیں کدھر سے آ جاتے ہیں آوارہ لفنگے۔!
آپ کا دماغ ٹھکانے پر نہیں ہے۔!! پتا نہیں کدھر سے آ جاتے ہیں آوارہ لفنگے۔!
سامعہ ٹکا سا جواب دے کر لرزتی زینہ کی کلائی کھینچ کر چند لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔۔
روحیل نے پھرتی سے انکی پیروی میں لمبے لمبے ڈگ بھرنا شروع کر دیئے مگر عقب سے آتی نسوانی آواز پر پلٹ کر دیکھا ۔۔۔
دعوت نظارہ دیتی چست لباس میں ملبوس ایک دوشیزہ اسکی طرف تیزی سے بڑھتی چلی آ رہی تھی۔۔۔
روحیل چونکہ اس یونیورسٹی میں کسی کو بھی نہیں جانتا تھا سوائے زینہ کے غائبانہ تفصیلی تعارف کے جو منیب کے سلسلہ کلام میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔۔۔
روحیل ہال کے برآمدے میں حیرت سے اس بےباک دوشیزہ کا منتظر تھا۔۔۔
قریب آتے ہی سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔
اچھا تو تم ہو منیب کے ہمدرد کزن جو آج یونیورسٹی میں اسکی موت کے بعد اسکا حساب کتاب چکتا کرنے آئے ہو۔؟؟
لڑکی نے آتے ساتھ روحیل کو آڑھے ہاتھوں لیا۔۔۔
جی میں منیب کا پھپھی زاد روحیل ہوں۔!
منیب نے آپ سے کوئی قرض وغیرہ تو نہیں لیا تھا۔؟؟؟
جی نہیں روحیل صاحب۔! آپ کا وہ کزن اس دنیا سے تو اچانک چلا گیا ہے مگر اپنے پیچھے بہت ساری ناجائز یاداشتیں چھوڑ کر گیا ہے۔
جی۔؟؟؟ روحیل نے شرمناک لہجے میں پوچھا۔۔
آپ ملیں ان تمام لڑکیوں سے جنہیں وہ سبز باغ دکھا کر اپنی ہوس پوری کرتا رہا ہے اور ان میں سے میں بھی ایک بدنصیب ہوں جو اسکے ساتھ منہ کالا کر چکی ہوں اور نہ صرف منہ کالا کر چکی ہوں بلکہ اسکی ناجائز اولاد کا بوجھ بھی اٹھا رہی ہوں۔ اس نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ گزشتہ ماہ اپنے والدین کو ہمارے گھر لائے گا مگر وہ جھوٹا ، فراڈیا ، نجانے کتنی لڑکیوں کو جھانسہ دے کر دل لگی کرتا رہا ہے ۔۔۔
اب منیب کے پھپھی زاد روحیل کے پاس اس کا حل ہے تو بتا دے۔۔۔!! لڑکی کے کاٹ دار لہجے میں چھپا کرب روحیل کو لرزا گیا۔۔۔
شرمندگی اور گھبراہٹ سے روحیل کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا اور افسوس سے گردن جھکا لی۔۔
آپ تو منیب کا حساب چکتا کرنے آئے ہیں نا ؟ اب میرا حساب برابر کریں۔!!!
لڑکی غم و غصّے سے پھٹ پڑی۔۔۔
دیکھیں۔! میری بات سنیں۔! منیب اب اس دنیا میں نہیں رہا ہے تو آپ پلیز اسے معاف کر دیں۔۔۔!
معاف ۔؟؟؟
آپ کے خیال میں یہ سب بکواس ہے جو میں ابھی کر رہی تھی۔؟؟
ارے نہیں .!! میرا مطلب وہ نہیں ہے ۔۔۔ آپ نے جو بھی بولا ہے وہ سب ٹھیک ہے ، منیب کو آپکے ساتھ جھوٹے عہد و پیماں نہیں کرنے چاہیئں تھے۔۔۔! اور جو بھی اس نے آپ کے ساتھ کیا ہے وہ سب بہت غلط تھا۔۔۔!
مگر اب کیا ہو سکتا ہے؟؟ وہ تو ہمیشہ کےلئے چلا گیا ہے۔۔۔ روحیل نے جھکے سر کے ساتھ شرمندگی سے بولا۔۔ اس وقت روحیل کو اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا۔۔ یہ وہ روحیل بول رہا تھا جو اس میدان یعنی لڑکی بازی میں کھلاڑی مانا جاتا تھا مگر آج اسکی زبان اور حواس ساتھ نہیں دے رہے تھے۔۔۔
دیکھو مسٹر تم جو بھی ہو ، میں تم پر واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ صرف میں ایک لڑکی نہیں ہوں جو اس کے دھوکے میں آئی ہے بلکہ ہمارے آرٹس ڈیپارٹمنٹ کی اور بہت ساری لڑکیاں ہیں جنہیں وہ شادی کے جھانسے دیتا رہا ہے، اور یہ باتیں اسکی موت کے بعد منظر عام پر آئی ہیں کہ وہ کس قدر نیچ اور گھٹیا انسان تھا۔۔۔
تم چونکہ اسکا پھیلایا ہوا گند سمیٹنے آئے ہو تو بتاتی چلوں کہ جس سے بھی ملو گے تمہیں تازیانے ہی ملیں گے۔۔۔
تم اسکے قریبی ہو، یقیناً سن کر اذیت سے دوچار ہو گے۔!
میں اس بات کا بدلہ قیامت والے دن منیب سے لوں گی۔۔۔لڑکی جتنی پھرتی سے آئی تھی ویسے ہی ٹک ٹک کرتی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔۔۔جبکہ روحیل کے لئے ایک نیا اذیت ناک باب کھل گیا۔ اندر کی گھٹن بڑھنے لگی۔۔۔
******************************************
“انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو انہوں نے اس کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہو گئی )، پھر ایک اور جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں ،اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کے لئے واجب ہو گئی )،تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: “کیا واجب ہو گئی”؟ آپ نے فرمایا: ( جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور جس کو تم نے برے لفظوں سے یاد کیا اس کے لئے آگ واجب ہو گئی، تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔”( صحیح بخاری:1367؛صحیح مسلم:949)
******************************************
روحیل جو کہ حجاب میں لپٹی زینہ کی جھلک پر کچھ اطمینان محسوس کر رہا تھا مگر وہ وقتی اطمینان اس تلخ حقیقت کو سن کر غارت ہو گیا۔۔۔
اگر منیب کی موت کے بعد لوگ اس کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں تو میں بھی تو اسی باغ کی مولی ہوں۔ میں بھی اسی گناہ میں ملوث تھا ، میں بھی تو منیب کے دکھائے گئے راستے کا راہی ہوں۔۔۔ اس وقتی لذت نے میرے نامہ اعمال میں سیاہ کاریوں کے پلندے بنا دیئے ہیں ۔۔۔۔ نجانے میری وجہ سے کتنی لڑکیاں اس اذیت سے دوچار ہوئی ہوں گی ۔۔۔
۔روحیل کا سر درد سے پھٹنے لگا ، اندر کی گھٹن بڑھنے لگی۔۔۔
جی چاہا کہ زور زور سے روئے چلائے مگر اسکے گناہوں کا مداوا کسی کے پاس نہ تھا۔۔۔۔
تن تنہا اپنے اندر کی گھٹن سمیت خالی ہاتھ یونیورسٹی کے خارجی دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
شدت سے دل سے دعا نکلی ۔ یا اللہ اس لڑکی زینہ کا ایک مرتبہ سامنہ کروا دے شاید اسکی معافی سے میرے بے چین ضمیر کو اطمینان مل جائے۔۔۔
سست روی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگا تو عقب سے آواز آئی۔۔۔
برائی کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔۔۔
گناہوں کی کاشتکاری پر جنت کے انعام کی امید رکھنا بیوقوفی نہیں بلکہ دھوکہ دہی ہے۔۔۔
اس نے تو جو کرنا تھا وہ کر گیا ہے مگر تمہارے پاس سنبھلنے کا موقع ابھی بھی ہے۔ سنبھل جاؤ۔!!!
پاس سے گزرتے لڑکیوں کے ٹولے میں سے کسی ایک نے بڑی جی داری سے بولا۔۔۔
دروازہ کھول کر لٹے ہوئے مسافر کی طرح روحیل ڈرائیونگ سیٹ پر ڈھے سا گیا۔ پیشانی سٹیرنگ ویل کے ساتھ ٹکا کر پرانی سوچوں میں گم ہو گیا۔۔ سر میں درد کی ٹھیسیں بڑھنے لگیں ۔۔۔۔
کچھ سوچ کر باہر نکل آیا اور یونیورسٹی کی کینٹین کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
پانی کی بوتل اور سر درد کی گولی لے کر باہر نکل آیا۔۔۔۔
دل ابھی بھی اس حجابی سے ملاقات کا خواہشمند تھا۔۔۔
گولی نگل کر ادھر ہی بینچ پر بیٹھ گیا کہ شاید وہ دوبارہ اس طرف سے گزرے۔۔۔۔
اور یہ شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔۔۔
ہائے زینہ ہماری پسندیدہ جگہ پر وہی آوارہ لڑکا بیٹھا ہوا ہے۔۔۔
دیکھو نا کس قدر اچھی دھوپ ہے وہاں پر ، آج میں گھر سے تلوں کے مرنڈے لائی تھی کہ دونوں دھوپ میں بیٹھ کر کھائیں گے۔۔ پر چلو ہم کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ رہنے دو اس نئے آوارہ مزاج کو ۔۔۔
زینہ اور سامعہ بدمزہ ہو کر داخلی میدان کی طرف بڑھنے لگیں۔۔۔
روحیل کو اس ویران احاطے میں عقب سے کھسر پھسر کی آواز آئی تو فوراً پلٹ کر دیکھا۔۔
جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔ سر درد کو بھول کر بینچ سے فوراً اچھل کر کھڑا ہو گیا اور ان دونوں لڑکیوں کی پیروی میں چلنے لگا۔۔۔
زینہ میری بات سنیں۔!
آپ دونوں میں سے زینہ کون ہے ؟؟؟
پلیز مجھے صرف دو منٹ دے دیں۔!
روحیل لمبے لمبے ڈگ بھرتا دونوں سہیلیوں کے سامنے راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ چہرے پر بلا کی تھکان اور بے کلی جھلک رہی تھی۔۔۔
دونوں سہیلیاں اس اچانک دیدہ دلیری پر دہل گئیں۔ پھر سامعہ نے ہمت جمع کرکے روحیل کو مزید کھری کھری سنانے کی ٹھان لی۔۔
دیکھیں الف ب ت صاحب آپ جو بھی ہیں ہماری پیروی ترک کر دیں کیونکہ ہم آپ جیسوں کے عزائم کو بہت اچھے سے سمجھتے ہیں۔۔۔۔
آپ یہ چھچھروی حرکتیں چھوڑ کر کسی مفید سرگرمی کو اپنائیں تاکہ آپ کی دنیا و آخرت سنور سکے۔۔۔
روحیل خاموشی سے سر جھکائے سن رہا تھا۔۔۔
آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں محترمہ۔۔! پلیز میری صرف دو منٹ کے لئے بات سن لیں۔!!!
دیکھیں الف ب ت صاحب آپ کے مزاج جیسی لڑکیوں سے یونیورسٹی بھری پڑی ہے، آپ ایک اشارہ کریں ، وہ اپنا سب کچھ آپ پر وار دیں گی۔۔!!!
برائے مہربانی زیادہ نہیں صرف ایک منٹ دے دیں۔۔۔!روحیل نے عاجزانہ لہجے میں ترلا کر ڈالا۔۔
روحیل کے منت طلب لہجے پر زینہ سامعہ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔
صرف بتا دیں آپ میں سے زینہ کون ہے ۔؟
پہلے بتائیں آپ کون ہیں ؟؟! سامعہ نے دانت پیس کر پوچھا۔۔
میرا نام روحیل ہے اور میں منیب کا پھپھی زاد ہوں جس نے دسمبر کی ایک سہہ پہر زینہ کا راستہ روکا تھا۔۔۔!!
سنتے ساتھ ہی غم و غصّے سے زینہ کی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔
سامعہ کے بولنے سے قبل ہی زینہ پھٹ پڑی۔۔۔
روحیل صاحب جتنی تکلیف آپ مجھے پہنچا چکے ہیں وہ میری برداشت سے باہر تھی۔۔۔
آپ کا چہیتا تو معافی تلافی کر کے گیا تھا تو پھر آپ نے دوبارہ زحمت کیوں کی ہے۔۔؟؟؟
زینہ نے تڑپ کر پوچھا۔۔۔
روحیل نے اپنی شکستہ حالت کو سنبھالتے ہوئے کرب سے زینہ کو دیکھا۔۔
وہ تو دنیا سے چلا گیا ہے پر میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں۔! روحیل ٹوٹے لہجے میں گویا ہوا۔۔۔
جب تک آپ مجھے معاف نہیں کریں گی میرے دل کو سکون نہیں ملے گا۔۔شکست خوردہ روحیل نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے سر جھکا دیا۔
روحیل صاحب میں چاہتی ہوں جب میں یہاں سے کوچ کروں تو میرے نامہ اعمال میں سیاہ کاریوں کے بجائے اللہ کی رحمت سے میری محنت شاقہ رنگ لے آئے۔ میری زبان ذکر خیر سے تر ہو ۔
میرے سے جڑے تمام رشتے اس بات کے گواہ ہوں کہ میں نے ہمیشہ ان کی خیر چاہی ہے ۔۔
روحیل صاحب مجھے میری نیت کا اجر ضرور ملے گا البتہ آپ اپنی شر انگیزیوں سے باز رہیں تو آپ کے لئے بہتر نہیں بلکہ بہترین ہو گا ۔۔۔
بہت معزرت کے ساتھ روحیل صاحب!
مجھے اپنا راستہ بدلنے پر مجبور نہ کریں ورنہ آپ اور گلی کے آوارہ کتے میں فرق باقی نہیں بچے گا۔!
دوسروں کی بہن بیٹیوں کو تاڑنے والے غیرت سے پیدل ہوتے ہیں، جن میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔!”
زینہ میں آپ کی ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں۔! روحیل نے بندھے ہاتھوں کے ساتھ بولا۔۔۔
اپنی گندی زبان سے میرا نام نہ پکاریں۔۔! زینہ نے دانت پیسے۔۔۔
یہاں سے ہٹ جائیں ، دائیں بائیں جاتے طلباء ہمیں گھور رہے ہیں اور برائے مہربانی ہمیں سب کے سامنے تماشا نہ بنائیں۔۔! ہمارے راستے سے ہٹیں ، ہمیں جانا ہے ۔۔!! زینہ نے کاٹ دار لہجے میں بولا۔۔۔
سامعہ زینہ کی اس دیدہ دلیری پر دل ہی دل میں داد دے رہی تھی۔۔۔
زینہ میں اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک آپ مجھے معاف نہیں کریں گی۔۔۔ روحیل نے ضدی بچے کی طرح منت سماجت شروع کر دی۔۔
کوئی زبردستی ہے کیا ۔؟؟؟
آپ کے کرتوت معاف کرنے کے قابل ہیں۔۔۔؟؟ زینہ کا کاٹ دار لہجہ روحیل کو پستی میں دھکیلنے لگا۔۔
نہیں ہیں مگر آپ میرے سے بہتر انسان ہیں ، اس لیے مجھے معاف کر دیں گی اور میں آپ کے پیچھے آؤں گا جب تک معافی نہیں مل جاتی ہے۔
زینہ نے گھبرا کر سامعہ کی طرف دیکھا جس نے آنکھ سے اشارہ کیا۔۔۔
زینہ نے لمبی سانس کھینچی اور بولی۔۔۔
میں نے آپ کو آپکی سیاہ کاریوں سمیت معاف کیا ہے ۔مگر آئندہ میں آپ کو ہمارے ارد گرد منڈلاتا نہ دیکھوں۔۔۔!
زینہ نے بولتے ساتھ سامعہ کو کھینچا اور آنسو صاف کرتے ہوئے یونیورسٹی کے خارجی دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔
شاباش میری شیرنی۔! آج تو نے میرے کلیجے میں ٹھنڈ ڈال دی ہے ۔ یقین کرو آج مجھے تم پر بہت فخر محسوس ہو رہا ہے ۔۔
سامعہ تمہیں تو پتا ہے میں اس لڑکے کی وجہ سے کس قدر اذیت کا شکار رہی ہوں۔۔۔
کتنے ہفتوں سے میں مسلسل بے چین ہوں۔۔
زینہ حیات کو میرے سے زیادہ اور کون جانتا ہے ۔؟؟؟خیر اب پریشان نہ ہو۔! تم نے جو کھری کھری سنائی ہیں اب دوبارہ تمہارے راستے میں آنے کی جراءت نہیں کرے گا۔۔۔
ویسے زینہ یہ وہی لڑکا تھا کیا ؟؟
سامعہ میں نے صرف اسکی آنکھیں اور پیشانی دیکھی تھی ، چہرہ تو اس نے رومال سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔
مگر ابھی اسکی آنکھیں تو بہت عبرتناک لگ رہیں ۔۔ شاید اپنے گناہوں پر پچھتا رہا ہے۔۔
زینہ وہ دیکھو زید پہلے سے ہی تمہارا منتظر ہے اور ادھر ہمارے ڈرائیور چاچا تنخواہیں لے کر بھی وقت پر نہیں پہنچتے ۔۔۔سامعہ نے گیٹ کے قریب کھڑے زید کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
الوداعی کلمات کے بعد زینہ اپنا لباس سمیٹ کر بھائی کے عقب میں سوار ہو گئی مگر دماغ میں اس اجنبی کا خوف ابھی بھی باقی تھا۔۔۔۔
شاید سامعہ کی موجودگی اسے ہمت دلا گئی وگرنہ اکیلی ہوتی تو صرف رو دیتی۔۔
پتر ان لوگوں نے یہ حجاب والی شرط نامنظور کر دی ہے ۔اب آگے تمہاری مرضی ہے۔لڑکی نے صاف لفظوں میں حجاب پہننے سے انکار کردیا ہے ۔۔۔
زید نے سرد آہ بھری اور بھولا ۔ امی انہیں انکار کر دیں۔۔۔۔
زید باؤلا ہو گیا ہے کیا ۔؟؟ ہم کونسے اتنے مالدار ہیں جو ہمیں کوئی رشتہ دے گا ۔۔۔ پتر لڑکی میٹرک پاس ہے اور ذیشان کی رشتہ دار ہے ، ہماری طرف سے انکار ہوا تو ذیشان شہلا کا جینا حرام کر دے گا۔۔
امی اگر انکار نہیں کرنا تو فی الحال خاموش ہو جائیں۔۔۔۔
زید نے فوراً موضوع بدلتے ہوئے بولا:
امی آپکو پتا ہے عاصم بھائی سے میرا رابطہ ہوا ہے ۔! زید نے روٹی کا آخری لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے ماں کو خوش خبری سنائی۔۔
واقعی زید .؟؟
جی امی ۔!!
جلدی بتا کیسے کب رابطہ ہوا ہے تیرا ۔؟؟؟
امی آپ سنیں گی تو خوشی سے پھولی نہیں سمائیں گی۔۔۔اب بتا بھی دے ۔! کیوں پہیلیاں بھجوا رہا ہے ۔!
امی جی ان سے میرا رابطہ فیس بک پر ہوا ہے۔۔۔
کیسا ہے .؟؟؟ کدھر ہے ؟؟؟
امی نے تڑپ کر پوچھا۔۔
امی جی بھائی دبئی میں مقیم ہیں ،
بالکل خیریت سے ہیں اور بہت جلد پاکستان آ رہے ہیں ۔۔۔
ہائے اس معصوم کو دیکھنے کے لیے تو آنکھیں ترس گئیں تھیں۔۔ ۔۔
تو نے دیکھا ہے اسے ؟؟
جی امی ۔!! یہ دیکھیں بھائی کتنے پیارے ہیں۔
ماشاءاللہ بہت ہی پیارا ہو گیا ہے۔۔۔
ماں بیٹے کی خوشی سن کر زینہ بھی بھاگی چلی آئی۔۔۔عاصم کی خبر سن کر زینہ کے دل میں اطمینان سا اتر آیا۔۔۔
زینہ تو ادھر کیوں کھڑی ہے ؟ ادھر آ تو بھی عاصم کو دیکھ لے۔!!
زینہ بھی فرحت جذبات میں بھاگی چلی آئی چونکہ آج گھر میں عرصہ دراز کے بعد اس طرح کی اچھی خبر سننے کو مل رہی تھی۔۔۔
______
امی پتا ہے بھائی نے مجھے کیا بولا ہے ۔؟
کیا بولا ہے .؟؟
امی وہ بول رہے ہیں کہ اب وہ پاکستان سے مجھے بھی اپنے ساتھ دبئی لے کر جائیں گے۔۔۔
اے باؤلا ہو گیا زید؟؟
تم کیسے جا سکتے ہو۔؟ گھر میں بوڑھی ماں اور جوان بہن کو اکیلے چھوڑ کر جانا بیوقوفی ہے ۔۔۔!
ہم اس کم آمدن سے روکھی سوکھی کھانے پر مطمئن ہیں۔۔ میں تمہیں پردیس نہیں بھجوا سکتی ہوں زید ۔۔! امی نے آبدیدہ ہوتے ہوئے حتمی فیصلہ سنا دیا ۔۔۔
امی آپ خود سوچیں اس محدود آمدن پر بمشکل ہماری گزر بسر ہوتی ہے کل کو زینہ آپا کو بھی رخصت کرنا ہے۔۔۔ بعض اوقات جہیز اچھا ملنے کی امید پر لوگ رشتہ منظور کر لیتے ہیں۔۔
زینہ اپنی شادی کا ذکر سنتے ہی خاموشی سے اپنے کمرے میں کھسک گئی۔۔۔ زید نے ماں کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔ جبکہ امی چارپائی پر بیٹھی بیٹے کی باتوں پر خاموش تھیں۔۔۔
امی آپ خود سوچیں ہمارا یہ گھر کس قدر پرانا ہے ، مستقبل میں اگر ایک اور زلزلہ آیا تو ہمارا گھر زمین بوس ہو جائے گا۔۔۔
اللہ نہ کرے زید ۔ اچھی بات منہ سے نکالتے ہیں۔۔! ماں نے تڑپ کر بولا۔۔۔
امی آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ہے۔۔
ہمارے مالی حالات اس نہج پر نہیں ہیں کہ ہم زینہ آپا کو اچھے جہیز کے ساتھ رخصت کر سکیں گے، امی دنیا میں لوگ مادہ پرست ہو چکے ہیں ، انسان سے زیادہ ضرورتوں کو عظمت حاصل ہے اور میں شادی کے بعد احسن طریقے سے گزر بسر کیسے کر سکوں گا ۔۔۔؟؟؟ ابھی تو آپ ہیں پیسوں کی بچت کے لیے کتنی چیزیں گھر پر تیار کر لیتی ہیں ، آپا کپڑے سی لیتی ہے مگر یہ طریقہ کار لمبے عرصے تک نہیں چل سکتا ہے ، امی میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔ کل کو پتا نہیں مجھے کیسی بیوی ملتی ہے۔؟؟ آپ نے خود اس میٹرک پاس کے خیالات سن لیے ہیں۔۔۔
امی لڑکیاں تو لڑکیاں انکے والدین کے نخرے ہی نہیں سنبھالے جاتے ہیں۔۔ ہمارے ملک میں غریب کی تو ویسے بھی کوئی وقعت نہیں ہے۔۔ غریب انسان کو کاٹھ کباڑ سمجھا جاتا ہے۔۔ زید کے لب و لہجے میں لاچارگی پنہاں تھی۔۔۔
زید میرے بچے مجھے تیری ساری باتیں سمجھ آ رہی ہیں پر میرا بچہ گھر میں مرد کی موجودگی اشد ضروری ہے۔۔۔ تو دبئی چلا گیا تو زینہ کو کون یونیورسٹی لائے چھوڑے گا۔؟؟
میں اکیلی بوڑھی عورت نجانے کب سانس پرواز کر جائے، پتر تیری بہن کو تیری بہت ضرورت ہے۔۔۔!
اسکا ویسے بھی آخری سال ہی رہ گیا ہے، اوکھے سوکھے وہ بھی گزر جائے گا ، ہو سکتا ہے اسے سرکاری یا پھر غیر سرکاری سکول میں نوکری مل جائے۔۔۔ جلد بازی نہ کر میرا بچہ۔!! پہلے بھی عزت سے وقت پاس ہوتا رہا ہے آگے بھی اللہ مالک ہے۔۔
اور ویسے بھی عاصم نے صرف سرسری سی بات کی ہے ، کونسا تیرا ٹکٹ کروا کے لا رہا ہے۔۔ پتر ہمارا اور اس کا ساتھ صرف دس سال کی عمر تک ہی رہا ہے ۔ سب بھول بھال گیا ہو گا۔۔۔ ماں نے لجاجت بھرے لہجے میں تمام حقائق بیٹے کو سمجھائے۔۔
ارے نہیں امی۔! بھائی کچھ بھی نہیں بھولے ہیں۔ اور میرے ساتھ رابطے پر بہت خوش بھی تھے۔۔۔
کہہ رہے تھے تمہارے گھر اچانک چھاپہ ماریں گے ، میں نے بھی ورکشاپ اور گھر کے دونوں پتے بھیج دیئے ہیں۔ زید نے جوشیلے انداز میں تمام باتیں ماں کے گوش گزار کر دیں۔۔
امی بلکہ وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے ہمیں بہت ڈھونڈا بھی تھا مگر ہمارا پرانے گھر کو چھوڑ دینا ان کے لیے مشکلات پیدا کر گیا اور پھر وہ لوگ بھی اسلام آباد چلے گئے۔۔۔
بس بیٹا وہ حالات ہی ایسے تھے کہ ہمیں اس گھر کو خیر باد کہنا پڑا ۔۔۔ بہرحال جب وہ ہمیں ملنے آئے تو تم اپنے مالی مسائل اور مشکلات کی پٹاری نہ کھول کر بیٹھ جانا۔۔!
ارے نہیں امی۔! میں پاگل تھوڑی ہوں ۔!
انہوں نے خود ہی میری تعلیم اور کام کے بارے میں پوچھا تھا تو پھر میں نے بھی جو سچ تھا ، بغیر کسی لگی لپٹی کے بتا دیا۔۔ زید نے امی کو یقین دہانی کروائی۔۔۔
اللہ اسے خوش رکھے۔۔۔ دیکھنے میں تو بہت پیارا گھبرو جوان لگ رہا ہے ماشاءاللہ۔
باقی گھر والوں کا حال احوال پوچھا تھا کیا ؟
جی امی انکے ابو کی ایک ٹانگ کار کے حادثے میں ناکارہ ہوگئی تھی مگر باہر علاج کے بعد کافی بہتری آئی ہے۔ بھائی بتا رہے تھے کہ اکیلے چل پھر لیتے ہیں۔۔۔
اور اس بڑے والے کا کیا حال احوال بتاتا ہے ۔؟؟
امی صرف چچا تک ہی پوچھ پایا تھا کہ انہیں کسی کام سے جانا پڑ گیا تو وہ چلے گئے۔۔۔
اب جب آئیں گے تو پھر تفصیلی بات چیت کریں گے ان شاءاللہ۔۔۔
زید میں تجھے بول رہی ہوں دبئی جانے کا نام بھی مت لینا ۔!! امی نے دھمکایا۔۔۔
امی بول دیا ہے نہیں لیتا، جب تک زینہ آپا اپنے گھر والی نہیں ہو جاتی ہے۔۔۔
میں بس چاہتا ہوں کہ انہیں اچھے طریقے سے رخصت کروں۔۔۔ !!
ہاں پتر.!! میری بھی یہی خواہش ہے اور میں ہر وقت دعاگو رہتی ہوں کہ اللہ میری بچی کے نصیب میں اسکی سوچ کے مطابق بندہ دے آمین۔امی نے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے تنبیہہ کی۔اب میرا بچہ سو جا۔! صبح بہن کو بھی چھوڑنا ہے اور کام پر بھی جانا ہے۔۔۔
جی امی کمرے سے نکلتے ہوئے بتی گل کرتی ہوئی جانا۔۔۔
ہاں ہاں میرا بچہ آرام کر ۔! اللہ تجھے اپنے بھرے خزانوں سے رزق حلال کی فراوانی دے آمین۔۔
******************************************
ہائے اللہ آج پھر سامعہ نہیں آئی ہے۔! زینہ نے بے دلی سے فون نکال کر سامعہ کو کال کی ، کال موصول نہ ہونے پر ووٹس ایپ پر پیغام بھیجا اور جواب کے لیے انتظار کرنے لگی۔۔۔
باقی طلباء طالبات ٹولیوں کی شکل میں ہال سے نکلتے جا رہے تھے اور زینہ اپنے خیالوں میں مگن ادھر ہی ڈیسک پر پیشانی ٹکائے بیٹھی تھی کہ اچانک کسی مرد کے گلا کھنکارنے کی آواز پر چونکی ، بمشکل اپنی چیخ روک پائی۔۔۔
دل دھک دھک کرنے لگا۔۔
دائیں بائیں نظریں گھمائیں تو ہال خالی پڑا تھا۔۔۔
گلا خشک ہونے لگا۔۔۔ لرزتے ہاتھوں سے فوراً اپنی کتابیں سمیٹیں اور باہر نکلنے لگی۔۔۔
وہ شخص ٹکٹکی باندھے زینہ کی ہر حرکت کو ازبر کر رہا تھا گویا اسے اس کام پر ماہانہ تنخواہ ملتی ہو۔۔۔
زینہ لرزتی ٹانگوں اور خشک گلے کے ساتھ دروازے پر پہنچی تو اسی آوارہ روحیل کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔۔۔
زینہ شکر ہے آج آپکی محافظ سہیلی نہیں آئی ہے۔۔وگرنہ مجھے اتنا پرکیف منظر دیکھنے کو نہ ملتا۔۔۔ زینہ بنا جواب دیئے تقریباً دوڑنے والے انداز میں سیڑھیاں پھلانگنے لگی۔۔۔
ڈھیٹ روحیل بھی اسکی پیروی میں ساتھ ساتھ چلنے لگا۔۔۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ زینہ اس ویران برآمدے سے نکل کر کینٹین والے احاطے کی طرف بڑھنے لگی جبکہ روحیل بھی چند قدموں کے فاصلے پر اسکا پیچھا کرنے کے فرائض نبھا رہا تھا۔۔۔
زینہ بات سنیں پلیز۔!!
صرف دو منٹ کےلئے میری بات سن لیں پلیز۔۔وہی التجائیہ لب ولہجہ زینہ کو لرزا گیا ۔۔ اللہ جانے یہ میرے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے۔؟؟
ہائے سامعہ تم کیوں نہیں آئی ہو۔ زینہ اپنی برق رفتاری کے ساتھ ساتھ آنسو بھی لٹا رہی تھی۔۔۔
آس پاس سے گزرتے طلباء و طالبات اپنی اپنی خوش گپیوں میں محو تھے جبکہ زینہ کا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔۔۔ سوائے سامعہ کے کسی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ نہ بڑھایا چونکہ اکثریت زینہ کے مکمل پردے اور خیالات سے شکوہ کناں ہی رہتے تھے۔۔اسلامیات کو صرف ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھا جاتا مگر اس پر عمل گویا وقت کا ضیاع اور بوسیدہ و پسماندہ تفکیر تھی۔۔۔
زینہ کے آنسوؤں کی لڑیاں اس کا نقاب بھگونے لگیں۔۔۔
یا اللہ میں کدھر جاؤں؟؟ کس کو بتاؤں ۔؟ یہ شخص میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا ہے۔؟! پہلے اسکا لفنگا ماموں زاد تھا اور اب یہ اسکی جگہ لے چکا ہے ۔ زینہ دل ہی دل روحیل کو کوسنے لگی۔۔
زینہ کے اندر چھڑی جنگ کا مداوا اس یونیورسٹی میں کسی کے پاس نہ تھا۔۔
دیکھیں آپ میری بات سن لیں پھر میں چلا جاؤں گا وگرنہ جدھر آپ جائیں گی ادھر ہی میں ہوں گا۔۔! روحیل عقب میں چلتے ہوئے زینہ کو گاہے بگاہے دھمکا رہا تھا۔۔۔۔
زینہ بنا پلٹے کندھوں پر لٹکے بستے کو جکڑے ہوئے اپنی برق رفتاری میں اضافے کے لیے کوشاں تھی کہ اچانک پاؤں گھاس میں مڑا اور دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔۔۔
گرتے ساتھ ہی آنکھوں کے سامنے تارے ٹمٹمانے لگے۔۔۔
روحیل نے فوراً آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ بڑھایا جسے زینہ نے نخوت سے جھٹکا اور روتے روتے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
آپ نہایت گھٹیا انسان ہیں۔! بول کر زینہ چلنے لگی جبکہ روحیل بھی اسکے پیچھے پیچھے ہو لیا۔۔۔
آپ کو میں نے بولا ہے دو منٹ بات سن لیں تو میں چلا جاؤں گا مگر آپ چاہتی ہیں کہ میں سارا دن آپ کے ساتھ گزاروں۔۔۔!!
روحیل کا تیر ٹھیک نشانے پر جا بیٹھا۔
آپ گھٹیا انسان میرے جوتے کی نوک پر ہو۔۔! زینہ نے فوراً پلٹ کر اپنے اندر کی آگ برسائی۔۔۔
جوتے کو خیر اس وقت بھول جائیں اسکا نمبر بعد میں بھی لیا جا سکتا ہے۔۔صرف یہ بتا دیں کہ جب کوئی آپ کے دروازے پر دستک دے تو اس مجبور سائل کے لیے دروازہ کھول دینا چاہیئے۔۔۔
روحیل نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے پراعتماد لہجے میں بولا۔۔۔
“ذلیل کی دستک سے انکار میری غیرت کا حسن ہے” ۔ !!جائیں کہیں اور جا کر دستک دیں جو آپ کا شیوہ ہے۔! معافی تلافی کے باوجود بھی اپنی آوارہ عادتوں سے باز نہیں آئے گھٹیا انسان۔۔۔! زینہ سوں سوں کرتی دوبارہ چلنے لگی اور روحیل کو کڑوی کسیلی سنانے کی ٹھان لی جبکہ آس پاس سے گزرتے چند ایک طلباء نے رک کر حیرت سے دیکھا۔۔۔
مجھے تماشا نہ بنائیں۔!! مجال ہے جو اپنے اس ماموں زاد کی موت سے کچھ سیکھا ہو۔ ! زینہ نے تڑخ کر بولا۔۔۔ اسکا پتا نہیں قبر میں کیا حال ہو رہا ہو گا مگر ادھر آپ کو اپنی آوارگیوں سے فرصت نہیں ہے۔۔!
آپ اس طرح چلتے چلتے جو اپنی توانائی ضائع کر رہی ہیں اس سے بہتر ہے کہ چند منٹ رک کر میری بات سن لیں۔۔!!
میں کیوں سنوں آپ کی بات ؟؟؟
آپ میرے کیا لگتے ہیں ؟؟؟
“کچھ لگنا چاہتا ہوں اسی لئے تو بات کرنے آیا ہوں”۔!
گزشتہ ایک مہینے سے آپ سے بات کرنے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔
اتنی تگ و دو کے بعد آج موقع ملا ہے۔!
بات تو آپ کے گھر آ کر بھی کی جاسکتی تھی مگر میں اس سے پہلے آپ سے رضا مندی چاہتا ہوں۔۔۔!!
یہ تو مجھے پکا یقین ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی اور نہیں ہے۔!! روحیل نے زینہ کے عقب میں چلتے ہوئے تمام حقائق گوش گزار کرنا ضروری سمجھا۔۔۔
یکدم زینہ نے قدم روک لئے اور پلٹ کر دیکھا۔۔۔
آپ ہوتے کون ہیں میرے ساتھ اس طرح کی گفتگو کرنے والے۔؟؟؟ کوئی شریف انسان کسی بھی شریف لڑکی سے اس طرح کی نازیبا گفتگو نہیں کرتا ہے۔۔
میں روحیل ہوں۔! زینہ کی بات سن کر روحیل نے معصومیت سے جواب دیا۔۔۔
روحیل گھٹنا ترین انسان اپنے کان کھول کر سن لو۔!!
مجھے لفنگے لوگوں سے شدید نفرت ہے ۔۔۔
“مگر اب میں لفنگا نہیں رہا ہوں”۔۔! روحیل نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے بولا۔
ہونہہہہہہ۔!! لفنگے نہیں رہے ہیں اسی لئے گزشتہ پانچ منٹ سے میری پیروی کر رہے ہیں؟!
آپ جیسے لوگ اپنے نفس کی تسکین کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔! زینہ کا غصہ ہنوز برقرار تھا۔۔
ناچاہتے ہوئے بھی مجبوراً روحیل کو آئینہ دکھانا ضروری سمجھا۔
وفا اور حیا میں یکجا ان تین حرفوں کی طاقت کو سمجھنے والے مات نہیں کھاتے ہیں۔ وفا والے “نبھا” اور “حیا” والے “تقوی و ایمان” جانتے ہیں۔
اس تین حرفی کہانی میں آپ کے کردار کو کیسے پرکھوں ؟
بے حیا یا پھر بے وفا؟ میرے خیال میں دونوں سجتے ہیں۔!
آپ نے اپنے لفظوں سے بے وفائی کی ہے ۔ کیا فائدہ اس معافی تلافی کا جو آج آپ اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔؟؟زینہ نے بنا پلٹے روحیل پر اپنے اندر کا ابال نکالا۔۔۔
مجھے قاعدوں سے کوئی سروکار نہیں مجھے صرف زینہ حیات کا ساتھ چاہیئے۔! لا پرواہی کی حدوں کو چھوتا وہ مخمور لہجے میں اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔
پتا ہے آپ جیسوں کی سوچ نہایت خود پسند ہوتی ہے، جنہیں اپنے ذاتی مفاد کےعلاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
مقدس علم کا اثر اعلیٰ دماغ پر نہیں پاکیزہ دل پر ہوتا ہے، جس سے آپ قطعی پیدل ہیں۔! زینہ نے دانت پیس کر بولا اور تقریباً دوڑنے والے انداز میں کینٹین کے اندر گھس گئی۔۔۔
اس وقت بحث نہیں کروں گا۔! آپ سے آپ کے گھر ملاقات ہو گی ان شاءاللہ۔! روحیل نے کانپتی زینہ کے عقب میں کھڑے ہو کر دھیمے لہجے میں بولا۔۔۔۔
خبردار جو آگے ایک لفظ بھی بولا تو۔!!
زینہ نے پلٹ کر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔
شادی کرنا کوئی جرم تو نہیں ہے۔!! روحیل کا شریفانہ لہجہ زینہ کو مذید تپا گیا۔۔
اُدھر چلیں کونے والے میز پر آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔روحیل نے اشارہ سے بولا۔۔۔
مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے ۔! میری طرف سے انکار ہے ۔۔!
زینہ کا نروٹھا لہجہ ہنوز برقرار تھا جبکہ روحیل بھی آج خالی ہاتھ لوٹنا نہیں چاہتا تھا۔۔
ٹھیک ہے پھر آج سارا دن میں آپ کے ساتھ ہی ہوں ، میرے ہونے والے سالا زید جب آپکو لینے آئیں گے تو پھر انکے ساتھ ہی آپ کے گھر چلوں گا ۔۔۔!
چند قدموں کے فاصلے پر کھڑا روحیل مطمئن لہجے میں زینہ کو ہراساں کرنے کی ٹھان چکا تھا۔۔۔ جبکہ زینہ کا دماغ شدت غم سے پھٹا جا رہا تھا۔۔۔
اس کمینے کو تو میرے بھائی کا نام بھی پتا ہے۔۔!
دل میں طرح طرح کے وسوسے ستانے لگے۔۔۔ یہ کیوں مجھے بدنام کرنے پہ تلا ہوا ہے۔؟
گھبراہٹ جو کہ پہلے ہی عروج پر تھی یہ سب سن کر دل ڈوبنے لگا۔۔۔
زینہ میں تاعمر تمہارا ہاتھ تھام کر نہیں چل سکتی ہوں۔! تمہیں خود اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔سامعہ کے بارہا بولے گئے جملے دماغ کی تختی پر تکرار کرنے لگے چنانچہ کچھ سوچ کر کونے میں پڑے میز کی طرف بڑھنے لگی۔ ہاتھوں میں کپکپاہٹ واضح تھی مگر اب اس شخص سے جان چھڑانے کا واحد حل یہی بچا تھا۔۔۔
میں کینٹین میں تنہا نہیں ہوں ، لوگ اندر باہر آ جا رہے تھے، اگر یہ چاہتا تو مجھے اکیلے ہال میں نقصان پہنچا سکتا تھا۔۔زینہ نے خود کو طفل تسلی دی۔۔۔
زینہ کے بیٹھتے ہی روحیل بھی سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
شرم وحیا کی پیکر زینہ آج اپنی بے بسی اور لاچارگی پر اشکبار تھی۔۔۔ گردن جھکائے اپنے حجاب میں چھپے ہاتھوں کو مسلنے لگی۔۔۔
یا اللہ مجھے اس عذاب سے نکال ،مجھے اس نامحرم کے غلیظ نظریات سے محفوظ رکھ آمین۔۔۔
چند لمحے خاموشی کی نظر ہو گئے۔
روحیل نے گلا کھنکار کر بات کا آغاز کیا۔۔۔
زینہ میں آپکو کبھی بھی اس طرح تنگ نہیں کرتا مگر ہمارے درمیان جو حادثات رونما ہو چکے ہیں ان کی وضاحت دینا بہت ضروری سمجھتا تھا جس کے لئے مجھے گزشتہ ایک ماہ سے آپ کے گھر تک بھی جانا پڑا ہے ۔۔۔
چند ماہ قبل جس روحیل سے آپ کا آمنا سامنا ہوا تھا وہ روحیل اب بدل چکا ہے ، وہ روحیل اس غلاظت کے ڈھیر سے بچنے کے لیے ہر وقت اپنے نفس کو مارتا ہے۔
زینہ مجھے آپ کا ساتھ چاہیئے۔ مجھے اجازت دو کہ آپ کا نام میرے نام سے جڑ جائے پلیز۔۔۔!
مجھے آپ کے کردار سے محبت ہو گئی ہے۔۔۔! آپ ہی وہ واحد لڑکی ہو جو مجھے ثابت قدم رہنے میں مدد کر سکتی ہو۔۔۔
زینہ مجھے آپ کے کردار سے عشق ہو گیا۔۔۔!! روحیل نے بنا سانس روکے اپنے دلی جذبات زینہ کے گوش گزار کر دیئے۔۔۔
زینہ گردن جھکائے اپنی بےبسی پر اشکبار تھی، یکدم نظر اٹھا کر اوپر دیکھا۔۔
اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے کچھ دیر سوچا کہ آج اس شخص کو آر یا پھر پار لگا کر چھوڑے گی ۔۔ آنکھوں کو حجاب میں چھپے ہاتھوں سے رگڑا اور مضبوط لہجے میں روئی روئی آواز میں گویا ہوئی۔
یہ آپ کے اندر پنپنے والے عشق کی سازش بھی تو ہو سکتی ہے۔ آپ کی عاشقانہ زبان کی پھسلن میں نجانے کتنے دل مچلتے پھرتے ہیں۔
خیال رکھیئے گا کہیں اس عاشقی کی پھسلن میں آپ کی اپنی ہڈیوں کا سرمہ نہ بن جائے۔!
میرے بھائی نے جیسے آپ کے ماموں زاد کو پیٹا تھا ویسے آپ کا بھی یہی حال ہوگا۔!! اور ہاں
سفید چمڑی والے سیاہ اور داغ دار سوچ کے حامل ہیرو کی کبھی بھی تمنا نہیں رہی ہے۔
اپنی اس اجڑی اور بوسیدہ گفتگو کو کسی اور دوشیزہ پر وار دیجئے۔! میں ایسی تکرار کی دلدادہ نہیں ہوں ۔! دل پھینک لوگ مجھے زہر سے بھی کڑوے لگتے ہیں۔!
میرا نام زینہ حیات ہے۔! غیر ذمہ دار اور مردہ دلوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔!
زینہ نے بولا اور پھرتی سے روحیل کا جواب سنے بغیر کرسی چھوڑ کر کینٹین سے باہر نکل آئی۔۔۔
لرزتے ہاتھوں سے بستے میں پڑا فون نکالا ہی تھا کہ عقب سے روحیل نے اچک لیا۔۔۔
زینہ ہقا بقا رہ گئی۔ اتنی جرآت ؟؟؟ الفاظ گویا ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔
روحیل زینہ کا فون ہاتھ میں تھامے متوازن چال چلتے ہوئے یونیورسٹی کے خارجی احاطے کی طرف بڑھنے لگا جبکہ زینہ ہنوز کھڑی اس دیدہ دلیری پر حیران و پریشان تھی۔۔
سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ روحیل سے فون کے حصول کے لیے اسکی پیروی کرے یا پھر ادھر ہی خاموش ہو جائے۔۔۔
چند لمحوں کی سوچ بچار کے بعد اپنے اگلے سبق کے لیے داخلی ہال کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔
جی چاہ رہا تھا کہ اس آوارہ مزاج کا سر پھاڑ دے مگر زینہ کی بےبسی اپنے عروج پر تھی۔۔ دماغ میں چھڑی جنگ نے صرف ایک ہی حل نکالا کہ اس آوارہ کے پیچھے کبھی بھی نہیں جانا ، فون جاتا ہے تو جائے، میں کونسا فون کے بغیر فوت ہو جاؤں گی۔۔۔
گھٹیا انسان چاہتا ہے کہ میں اس کے پیچھے جاؤں اور اسکی منتیں سماجتیں کروں۔۔۔ یہ سب میری جوتی کی نوک پر ہے۔۔۔۔ غنڈہ گردی دکھانے کی کوشش کر رہا ہے، جو مرضی آئے کر لو میں کبھی بھی تمہاری اس سازش کا حصہ نہیں بنوں گی۔۔۔
ہائے اگر امی نے فون کر دیا تو اس نے کچھ غلط بول دیا تو میرا کیا بنے گا۔؟؟؟
امی کیا سوچیں گی میں یونیورسٹی آ کر لڑکوں سے دوستانے گانٹھ رہی ہوں۔
اگر ذیشان بھائی کو بھنک بھی پڑ گئی تو شہلا آپا کا جینا دوبھر کر دیں گے اور جو میرے اوپر حجاب کے حوالے سے لعن طعن کریں گے وہ الگ سے ہو گا۔۔۔(اعوذ باللہ من ذلک)۔ زینہ نے سوچ کر جھر جھری لی۔۔
ہائے میں کیا کروں۔؟
زینہ نے فوراً قدم خارجی احاطے کی طرف موڑ لیے۔۔۔
تقریباً بھاگنے والے انداز میں یونیورسٹی کے کار پارک تک پہنچ پائی تھی کہ اس آوارہ کو گاڑی میں سوار ہوتے دیکھا۔۔
سرعت سے بھاگ کر چند گز کا فیصلہ طے کیا اور روحیل کی گاڑی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔۔
روحیل نے شیشہ نیچے اتار کر گردن باہر نکال کر ہٹنے کا اشارہ دیا۔۔
جب تک میرا فون واپس نہیں کرتے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گی۔۔! زینہ نے حتمی فیصلہ سنایا۔۔۔
تم پاگل تو نہیں ہو۔۔؟؟
میرے ساتھ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے فون واپس کرو۔! میرا فون چرانے سے تم کروڑ پتی نہیں بن جاؤ گے جو دس ہزار کے فون کے لئے مرے جا رہے ہو۔!!
زینہ ہنوز کھڑی روحیل کے صبر کا امتحان لینے پر تل گئی۔۔۔
پانچ منٹ کے انتظار کے بعد
آخر تنگ آکر روحیل کو ہی گاڑی سے نیچے اترنا پڑا۔۔۔
یہ لو فون۔! اور اس پر پاسورڈ لگا لو۔!! ویسے میں نے تمہارا نمبر محفوظ کر لیا ہے۔۔۔! اور اگر پاسورڈ ہوتا بھی تو میرے لیے تمہارا نمبر حاصل کرنا مشکل نہیں تھا ۔۔۔ !! روحیل نے فون تھماتے ہوئے ٹھہرے لہجے میں بولا۔۔۔
اگر مجھے ضرورت پیش آئی تو میں تمہیں فون کروں گا لہٰذا بنا تاخیر کے میری کال اٹھانی ہے۔۔!!!
زینہ نے فون جھپٹا اور تڑخ کر بولی۔۔.
“اس سے بڑا واعظ کیا ہو گا کہ تم اپنے ہم عمروں کو مرتا اور اپنے ہم نشینوں کو دنیا چھوڑتے ہوئے دیکھ لو ، اور اپنے پیاروں کی قبروں سے گزر لو.
تب جان جاؤ کہ تھوڑے دنوں بعد تم بھی انہی کی طرح ہونے والے ہو ، لیکن تم اُن سے سبق نہی لیتے ، یہاں تک کہ تمہارا دوسروں کےلیے سبق بننے کا وقت آجاتا ہے”.
(ابن جوزی صید الخاطر: 335)
زینہ بولتے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔
پتا نہیں کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔؟ اسکی اتنی چھترول کی ہے مگر رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا۔۔۔! میری طرف سے جائے بھاڑ میں۔زینہ نے کھولتے دماغ کو قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔
بنا پلٹے سرعت سے چلتی اپنے مطلوبہ ہال کی طرف بڑھنے لگی تو روحیل اسی سمت کھڑا ہاتھ ہلاتا دکھائی دیا۔۔
ہونہہ۔!! مجھے ڈرانا چاہتا ہے۔؟
اس گھٹیا انسان سے میں کبھی بھی نہیں ڈروں گی۔۔جو ڈرنا تھا وہ ڈر لیا ہے۔۔۔ روحیل کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے گردن جھکائے اپنے مطلوبہ ہال میں داخل ہو گئی۔۔۔
ہال کی نشست پر براجمان ہونے سے قبل ہی فون تھر تھرایا۔۔
“یونیورسٹی کے بعد ملاقات ہو گی۔! پریشان نہیں ہونا ،اپنا بہت سارا خیال رکھنا۔! تمہارا ہونے والا روحیل”۔!!!
پڑھتے ساتھ ہی زینہ کے دل کی دھڑکن منتشر ہونے لگی، لزرتے ہاتھوں سے فوراً نمبر بلاک کیا اور مطلوبہ کتاب نکال کر ورق گردانی کرنے لگی۔۔۔
سارا دن اس دشوار گزار صورتحال پر دل بے چین رہا۔۔۔۔
سامعہ رہ رہ کر یاد آ رہی تھی۔ پتا نہیں آج کیوں نہیں آئی ہے ؟ ابھی تک جواب بھی نہیں دیا ہے ۔۔۔زینہ نے دکھی دل سے سوچا اور آنکھوں میں آئی نمی کو رگڑ ڈالا ۔۔
******************************************
آپا آج گھر میں آپ کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری منتظر ہے۔! زید نے زینہ کے سوار ہوتے گویا بم پھوڑ دیا۔۔۔
یکدم گلہ خشک ہو گیا۔۔ کیسی خوش خبری زید ؟؟ ابھی بتا بھی دو۔! مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔
آپا خوش خبری پر کون گھبراتا ہے بھلا۔۔۔
دس منٹ میں گھر ہونگے ، خود ہی دیکھ لینا۔! زید بتا دو ۔۔!
آپا بےصبری نہ بنو! خود ہی دیکھ لینا۔!!
زینہ کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔
خوف سے ہتھیلیاں عرق آلود ہونے لگیں۔۔۔
گھر کے قریب پہنچ کر زینہ نے لکڑی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔
پہلی دستک پر دروازے پر اجنبی کو دروازہ کھولتے دیکھ کر گھبرا کر پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئی اور زید سے سوالیہ نظروں سے تصدیق چاہی۔۔
زید کے جواب دینے سے قبل ہی اجنبی بول پڑا۔۔۔
چڑیل پہچانا نہیں ہے مجھے .؟؟؟
زینہ بت بنی اجنبی کو اپنے گھر کی چوکھٹ پر کھڑی گھورے جا رہی تھی۔۔۔
نفی میں گردن دائیں بائیں جھٹکنے لگی۔۔۔
بار بار روحیل کی باتیں دماغ پر ہتھوڑے کی طرح وار کر رہی تھیں۔۔اللہ جانے اب میرے ساتھ کونسی نئی چال چل رہا ہے۔؟! شش و پنج میں مبتلا زینہ بےبسی سے کھڑی زید اور اجنبی کی منتظر تھی کوئی ایک تو بولے۔۔۔
آپا یہ ہمارے ویر عاصم ہیں۔۔۔
دبئی سے پرسوں ہی واپسی ہوئی ہے اور آج ہمیں ملنے چلے آئے ہیں۔۔۔
آ آ آ ویرے تم کتنے بڑے ہو گئے ہو ماشاءاللہ۔ زینہ نے حیرت سے بولا۔۔۔
اور تم چڑیل کتنی بدل گئی ہو۔۔
ارے چہرہ تو دکھاؤ۔! عاصم نے زینہ کو محبت اور احترام سے اپنے ساتھ لگا کر سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
نہیں ادھر باہر تو نہیں دکھانا ہے ویرے ۔۔!
پکے والا پردہ کرتی ہوں۔۔
اچھا بڑی سمجھدار ہو گئی ہو ماشاءاللہ۔۔۔
پہلے سے بتا رہی ہوں ابھی میرے چہرے کو چھیلا تو ادھیڑ کر رکھ دوں گی۔۔! زینہ نے گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے کھلکھلا کر بولا۔۔۔یاد نہیں بچپن میں تم کس طرح ناخنوں سے میرے چہرے کا حشر نشر بگاڑ دیتے تھے۔۔۔
بھول گئے ہو ۔؟؟ نہیں میں بالکل بھی نہیں بھولا ہوں ۔! بچپن کی بہت ساری باتیں یاد ہیں۔۔ یاد ہے تم کتنی کپتی ہوا کرتی تھی۔! میرے بال پکڑ کر کھینچتی تھی۔!