ان تین ماہ میں وہ نہ صرف مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا تھا بلکہ اس کی شخصیت میں بھی کافی بدلاو آچکا تھا،، اُس کے بیمار رہنے سے لے کر اب تک, ژالے اُس کے کمرے میں شفٹ نہیں ہوئی۔۔۔۔ یہ دوری اب تیمور خان کو کھلنے لگی تھی، اُن دونوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود ژالے نہ جانے کیا سوچ کر اپنے الگ کمرے میں رہتی تھی۔۔۔ تیمور خان اُسے کسی نہ کسی اپنے کام سے کمرے میں بلاتا وہ بغیر نخرے دکھائے اُس کے بولے سارے کام کر دیتی
تیمور خان نے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی بڑھی ہوئی شیو دیکھی،، کل ہی اُس کے کمرے کی بیڈ کور چینج کرتے ہوئے ژالے نے اُسے شیو بنانے کو کہا تھا،،
تیمور خان ژالے کو یاد کرتا ہوا اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اُسے ہال میں حازم کے رونے کی آواز آئی،، تیمور خان ہال میں موجود حازم کے باؤنسر کے پاس آیا، تو روتا ہوا حازم تیمور خان کے آگے اپنے ہاتھ بڑھانے لگا تیمور خان سمجھ گیا وہ اُس کے پاس آنا چاہ رہا تھا مگر چند ہفتوں پہلے ہی روشانے نے اُسے سختی سے منع کیا تھا کہ وہ حازم کو گود میں نہیں اٹھایا کرے
“کسی کو سنائی نہیں دے رہا حازم ہو رہا ہے”
تیمور خان بلند آواز میں بولا تاکہ وہاں موجود کوئی ملازم حازم کو اٹھا کر روشانے کو دے دے
“آپ کو سنائی دے رہی ہے حازم کی روتی ہوئی آواز تو آپ ہی اٹھا لیں”
روشانے کچن سے باہر آکر تیمور خان کو دیکھتی ہوئی بولی تو تیمور خان حیرت سے روشانے کو دیکھنے لگا
“اب کھڑے ہوکر مجھے کیا گھور رہے ہیں میرا بیٹا ابھی تک آپ کا منتظر ہے”
روشانے کے دوبارہ بولنے پر تیمور خان نے جھک کر جلدی سے حاذم کو گود میں اٹھایا حازم اُسکی گود میں آ کر خاموش ہو گیا تھا روشانے دوبارہ کچن میں جانے لگی
“شکل میں تو پورا ہی اپنے باپ پر چلا گیا ہے”
تیمور خان کی بات سن کر روشانے پلٹ کر اُسے دیکھنے لگی
“میرا مطلب ہے ماشاءاللہ بہت پیارا اور معصوم بیٹا ہے تمہارا”
روشانے کے دیکھنے پر تیمور خان جلدی سے بولنے لگا تیمور خان کی کوئی بات کا جواب دیے بغیر ایک بار پھر وہ کچن میں جانے کے لیے مڑی
“ویسے اگر دیکھا جائے تو باپ بھی اتنا برا نہیں ہے حازم کا”
روشانے ایک بار پھر پلٹی اور تیمور خان کے پاس آنے لگی
“آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں خان”
روشانے تیمور خان کے پاس آتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی
“کہنا نہیں پوچھنا چاہ رہا تھا حازم کو دیکھ کر اِس کے بابا کی تو یاد آتی ہوگی تمہیں”
تیمور خان حازم کو گود میں اٹھایا سنجیدگی سے روشانے سے پوچھنے لگا
“اچھا اگر یاد آتی ہے تو پھر کیا کریں گے آپ”
روشانے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر تیمور خان سے پوچھنے لگی جبکہ روشانے کو دیکھ کر حازم اپنی ماں کے پاس جانے کے لیے ہمکنے نے لگا
“چلو آج میں تمہیں اور حازم کو چھوڑ آتا ہوں، حازم کے بابا کے پاس ویسے بھی یہ کام میں نے ہی بگاڑا تھا تو اب مجھے ہی سنوارنا چاہیے”
تیمور خان سنجیدگی سے اپنا ارادہ بتانے لگا تو روشانے نے آگے بڑھ کر حازم کو اُس کی گود سے لیا
“زیادہ ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو جو بگڑے کام سنوارنے نکل جائیں۔ ۔۔ میں کوئی گری پڑی نہیں ہوں کہ کوئی بھی مجھے اپنے گھر سے نکل جانے کہہ دے اور میں خود ہی منہ اٹھا کر اُس کے پاس چلی جاؤ”
روشانے تیمور خان کو بولتی ہوئی حازم کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی
“ویسے بات تو ٹھیک ہے”
تیمور خان منہ میں بڑبڑایا
“ژالے بی بی کو زرا میرے کمرے میں بھیجو”
وہاں سے گزرتی ہوئی ملازمہ کو دیکھ کر تیمور خان بولا اور اپنے کمرے میں جانے لگا،، تیمور خان نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ ژالے کو اپنے کمرے میں اسکے تمام سامان کے ساتھ شفٹ ہونے کا کہے گا۔۔۔ یقینا وہ اُسی کے بولنے کی منتظر ہو جیسے روشانے دوبارہ اپنے شوہر کی آمد کی منتظر تھی
“پر چھوٹے خان وہ تو اس وقت حویلی میں موجود نہیں ہیں بلکہ آج صبح ہی اپنی خالہ کی طرف چلی گئی تھی”
ملازمہ کے بتانے پر تیمور خان ایک دم خاموش ہوا اور سامنے ڈائننگ ٹیبل پر رکھے کٹلری سیٹ میں سے سب سے بڑی چھری نکالنے لگا
“فون کرو اُسے اور کہو خان نے فورا بلایا ہے”
تیمور خان ملازمہ کو حکم دیتا ہوا چھری لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا
****
“کہاں ہے خان”
ژالے گاڑی سے اتر کر تیز قدم اٹھاتی ہوئی حویلی کے اندر آئی اور راستے میں آتی ہوئی ملازمہ کو مخاطب کرتی ہوئی پوچھنے لگی
“وہ جی بڑی چھری لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے ہیں اور اندر سے کمرے کا دروازہ بند کر لیا ہے،، میرے دروازہ کھٹکھٹانے پر کھول بھی نہیں رہے ہیں آپ چل کر دیکھیں میں زرین بی بی کو بلا لیتی ہو”
ملازمہ حواس باختہ سی ژالے کو بتانے لگے، اُسی کے فون کرنے پر ژالے دس منٹ کے اندر حویلی پہنچ چکی تھی
“نہیں رہنے دو آنٹی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے میں خود دیکھ لیتی ہوں، ضرورت پڑے گی تو بول دو گی،، جاؤ تم اپنا کام کرو”
ژالے بولتی ہوئی تیمور خان کے کمرے کے پاس آئی اور دروازہ بجانے لگی
“خان دروازہ کھولو” ژالے کے ایک بار کہنے پر دروازہ کھل چکا تھا،، ژالے کمرے کے اندر داخل ہوئی سامنے میز پر چھری اور فروٹ باسکٹ میں سے فروٹ کٹا ہوا دیکھ تو تیمور خان کو گھورنے لگی
“یہ کیا بچوں والی حرکت ہے خان میں کتنے دنوں بعد اپنی خالہ سے ملنے گئی تھی یہ کون سا طریقہ ہے مجھے وہاں سے بلوانے کا”
ژالے تیمور خان پر بگڑتی ہوئی پوچھنے لگی
“میں بچوں والی حرکتیں تب تک کرتا رہوں گا جب تک تم اماؤں والی حرکتوں سے باز نہیں آؤ گی،، مجھے بتا کر نہیں جا سکتی تھی میں کونسا روک لیتا”
تیمور خان اُس کے غصے کی پرواہ کیے بغیر اطمینان سے بولا
“تمہارا مطلب ہے میں تم سے پوچھ کر تمہیں بتا کر تمہاری اجازت لے کر جاتی”
ژالے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر ابرو اچکاتی ہوئی تیمور خان کے قریب آ کر پوچھنے لگی
“ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے بیوی ہو تم میری تو پھر مجھ سے اجازت لیتے ہوئے جھجھک کیسی”
تیمور خان اُس کا شفاف چہرہ دیکھتا ہوا بولا جس کے بناء اب اُس کا گزارا نہیں تھا
“میں کیو جھجھکنے، لگی تمہاری باتوں اور حرکتوں سے۔۔۔ فضول میں مجھے پریشان کرکے رکھ دیا”
ژالے اُس سے شکوہ کرتی ہوئی بولی اور کمرے سے جانے لگی تب تیمور خان نے اُس کی پشت سے ژالے کو اپنے حصار میں لیا
“ابھی میں نے وہ باتیں اور حرکتیں کی ہی کہاں ہیں جس سے تم مجھ سے شرماؤ”
تیمور خان نے بولتے ہوئے اپنے ہونٹ اُس کے گال پر نرمی سے رکھے
“مجھے شرماتا ہوا دیکھ کر تمہاری کون سی حسرت پوری ہونے والی ہے خان،، پیچھے ہٹو مجھے بے وقوفوں کی طرح شرمانا ورمانہ بالکل نہیں آتا”
ژالے اُس کا حصار توڑتی ہوئی بولی مگر دوسرے ہی پل تیمور خان اُسے کھینچ کر اپنی گرفت میں لے چکا تھا وہ اُس کی گردن پر جھکتا ہوا اپنی دیوانگی دکھانے لگا
“کیا ہو گیا ہے خان تمہیں اچانک۔۔۔ چھوڑو مجھے”
ژالے اُس کے اِس قدر جذباتی اقدام پر اچھی خاصی بوکھلاتی ہوئی بولی،، زمین پر اپنے گرے ہوئے دوپٹے کو دیکھ کر وہ تیمور خان کے پیچھے ہٹنے کا انتظار کیے بنا اُسے پیچھے دھکیلنے لگی
“تو آہی گئی تھوڑی بہت شرم”
تیمور خان اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے ژالے کا سرخ چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا
“جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے،، یہ جو تم نے اپنے چہرے پر جنگل اگایا ہوا ہے نہ،، یہ چبھ رہا تھا مجھے۔۔۔ میں نے کل بھی کہا تھا تم سے شیو بنا لینا مگر میری تو کوئی بات ماننی ہی نہیں ہے تم نے۔۔۔ اچھا ہی ہوگا جو میں تمہیں چھوڑ کر دور چلی جاؤ”
ژالے اپنی شرم ظاہر کئے بنا تیمور خان پر سارا ملبہ گراتی ہوئی اُسے دھمکی دینے لگی
“دور جانے کی دھمکی مت دیا کرو میری جان،، تمہارے خان کا مضبوط دل اِس معاملے میں بالکل کمزور ہے وہ تمہاری دوری بالکل برداشت نہیں کر پائے گا،، ایک بار پھر بستر سے لگانا چاہتی ہوں اپنے خان کو”
تیمور خان اُسے دوبارہ اپنے حصار میں لے کر پوچھنے لگا
“زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے،، آپنے اِس کمزور دل کو تھوڑا مضبوط بناؤ۔۔۔ جاؤ جا کر شیو بناؤ”
ژالے ایک بار پھر اس کا حصار توڑتی ہوئی تیمور خان سے بولی
“بڑھی ہوئی شیو سے تمہیں پرابلم ہے، شیو تمہیں چھبتی ہے اس لیے تم ہی بنا دو۔۔۔ ورنہ مجھے تو یونہی مجنوں بنے رہنا پسند ہے”
تیمور خان بولتا ہوا جا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔ ژالے تیمور خان کو گھورنے لگی
“جس کے لیے تم مجنوں بنے ہوئے ہو وہ تمہیں اپنے بیٹے کا ماموں بنا چکی ہے”
ژالے تیمور خان کے پاس آکر اُس سے مذاقا بولی یقینا اُس کا اشارہ روشانے کی طرف تھا
“خان کیا کر رہے ہو چھوڑو مجھے”
ژالے واش روم میں شیونگ کٹ لینے جانے لگی اُس سے پہلے تیمور خان اُس کی کلائی پکڑ چکا تھا
“پہلے بتاؤ کس کے لئے مجنوں بنا ہوا میں”
سختی سے کلائی پکڑے ہوئے وہ بہت نرمی سے ژالے سے پوچھنے لگا۔۔۔ جس پر ژالے کو ہنسی آگئی
“میرے سر کے تاج آپ مجھ ناچیز کے لیے ہی مجنوں بنے ہوئے ہیں۔۔۔ اگر اپنی کنیز کو اجازت دیں تو وہ آپ کی شیو بنا دے، تا کہ آپ کا چاند چہرہ صاف دکھنے میں نظر آئے”
ژالے کی بات سن کر تیمور خان اُس کی کلائی چھوڑ چکا تھا۔۔ مگر ایک بار پھر وہ اُس کی گرفت میں موجود تھی
“روشانے مجھے اپنے بیٹے کا ماموں بنا چکی ہے اور تم جلدی سے مجھے اپنے بچوں کا باپ بنانے کا سوچو۔۔۔ اس لئے شرافت سے اپنے سارے سامان کے ساتھ آج رات ہی میرے کمرے میں شفٹ ہو جاؤ”
تیمور خان اب سنجیدگی سے اُسے دیکھتا ہوا بولا
“آپ کا حکم سر آنکھوں پر میرے پیارے خان۔۔۔ اور کچھ کہنا چاہے گیں یا پھر میں شیونگ کٹ لے کر آ جاؤ”
ژالے جس اندز میں بولی تیمور خان کو ہنسی آنے لگی
“نہیں،، اب جو بھی کہنا یا حکم دینا ہوگا وہ رات میں،، جب تم میرے کمرے میں ہمیشہ کے لئے آ جاؤں گی”
تیمور خان نے کہتے ہوئے ژالے کو اپنی گرفت سے آزاد کیا۔۔وہ مسکراتی ہوئی پیچھے ہٹی تیمور خان بھی مسکرانے لگا
****
اس دن وہ حویلی سے کشمالا کو معاف کرکے واپس آ گئی تھی مگر دو دن بعد ہی کشمالا کی فوتگی کی خبر سن کر اُسے واپس جانا پڑا۔۔۔۔ حازم کی طبیعت خرابی کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں پائی تھی۔۔۔۔ دل آویز، پلورشہ، آرزو اور شمشیر جتوئی سے مل کر واپس آ چکی تھی۔۔۔ اُس کی نظروں نے ضیغم کو تلاش کرنا چاہتا تھا مگر ضیغم اُسے کہیں دکھائی نہیں دیا۔۔۔ آج اِس بات کو پورے دو ہفتے گزر چکے تھے
جب اُس نے کشمالا کو معاف کر دیا تھا تو پھر تیمور خان سے وہ کیا گلہ رکھتی۔۔۔۔ آج صبح تیمور خان ژالے کے ساتھ چند دن چھٹیاں گزارنے شہر کے لیے روانہ ہوا تھا جبکہ سردار اسماعیل خان اور زرین اپنے کسی جاننے والے کی طرف گئے تھے تھوڑی دیر تک وہ کبری خاتون کے پاس بیٹھ کر،، حازم کو لے کر واپس اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔۔۔ حازم کا پیٹ بھر کر اُس کو سلانے کے بعد وہ شاور لینے چلی گئی۔۔۔ تب اُسے محسوس ہوا جیسے کمرے میں کوئی آیا ہے
“کمرے میں کون موجود ہے ذرا میرے کپڑے تو دو”
کمرے میں موجود ملازمہ کے خیال سے روشانے اُس سے اپنے کپڑے مانگنے لگی،،
تھوڑی دیر بعد اُسے کپڑے پکڑا دیے گئے،، مگر یہ اُس کے منتخب کردہ کپڑے ہرگز نہیں تھے، جو اُس نے بیڈ پر شاور لینے سے پہلے رکھے تھے۔۔۔ یہ لائٹ پرپل کلر کا ڈریس تھا یعنی وہ کلر جو ضیغم کو اُس کے اوپر اچھا لگتا،، جس سے شہر میں اس کا وارڈروب بھرا ہو تھا، ، بےخیالی میں سوچتی ہوئی وہ کپڑے پہن کر واش روم سے باہر نکلی
بیڈ پر سوتے ہوئے حازم کے قریب وہ ضیغم کو بیٹھا دیکھ کر ایک دم ڈر گئی، ساتھ ہی ٹاول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا
“کک کیوں آئی ہیں آپ یہاں پر”
روشانی کے پوچھنے پر ضیغم چلتا ہوا اُس کے پاس آیا جو بغیر دوپٹے کے گیلے بالوں میں حیرت زدہ سی اُس کے سامنے کھڑی تھی
“یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ کیوں آیا ہوں میں یہاں پر پہلے آپ نے دوپٹہ تو لو”
وہ روشانے کے قریب آکر جس طرح اُس کے سراپے کو نظر بھر کر دیکھتا ہوا بولا تو روشانے فورا بیٹھ کر موجود اپنا دوپٹہ پھیلا کر اڑھنے لگی
“فیڈ کروایا ہے حازم کو”
وہ روشانے کو دیکھے بغیر بیڈ پر سوئے حازم کی طرف بڑھتا ہوا روشانے سے پوچھنے لگا
“جی تھوڑی دیر پہلے ہی۔۔۔ یہ، یہ کیا کر رہے ہیں آپ سائیں۔۔۔ حازم کو چھوڑیں”
وہ دوپٹہ اوڑھتے ہوئے ضیغم کو جواب دے رہی تھی اچانک ضیغم حازم کو گود میں اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکلنے لگا تو روشانے دوڑ کر ضیغم کے پیچھے آئی۔۔۔ اب روشانی کو سمجھ میں آیا تھا وہ اس کے بیٹے کو لے جانے آیا تھا
“سائیں ایسا نہیں کریں پلیز میں اس کے بغیر کیسے رہو گی مر جاؤں گی میں”
روشانے روتی ہوئی التجائی انداز میں ضیغم کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی بولی مگر ضیغم اسے دیکھے بغیر حازم کو گود میں اٹھائے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا حویلی سے باہر نکل چکا تھا
“آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی”
ضیغم گاڑی کے پاس پہنچ کر گاڑی کا دروازہ کھولنے لگا تو روشانے بولتے ہوئے حازم کو اُس کی گود سے لینا چاہا
“خاموشی سے گاڑی میں بیٹھو”
وہ روشانے کے ہاتھ جھٹک کر حازم کو دیے بغیر روشانے کو حکم دیتا ہوا بولا۔۔۔ روشانے نے اُس کی بات کا کوئی رسپانس نہیں دیا تو ضیغم نے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔۔ ضیغم کو گاڑی اسٹارٹ کرتے دیکھ کر روشانے روتی ہوئی دوڑ کر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر آئی اور جلدی سے بیٹھ گئی
روشانے نے روتے ہوئے ایک بار پھر حازم کو ضیغم سے لینا چاہا جس پر ضیغم نے حازم کو اُس کے حوالے کر دیا،،، وہ روتی ہوئی حازم کا چہرا چومنے لگی اُسے لگ رہا تھا جیسے آج اُس کا سینے سے کسی نے دل ہی نکال لیا ہو۔۔۔۔۔ ضیغم گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا
“یہ کیا کر رہے ہیں آپ سائیں گاڑی کا دروازہ کھولیں پلیز”
روشانے نے بولنے کے ساتھ ہی اپنی طرف کا دروازہ کھولنا چاہا مگر وہ لاک تھا
“سر ڈھکو اپنا”
ضیغم اُس کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا روشانے کو اُس کے دوپٹے کا ہوش دلانے لگا کیونکہ اُس کی گاڑی حویلی کے مین گیٹ سے باہر نکل چکی تھی اور روشانے کو اُس نے گھر سے باہر نکلتے ہوئے کبھی کھلے سر نہیں دیکھا تھا
“آپ سمجھنے کی کوشش کریں سائیں بڑے خان پریشان ہوں گے”
روشانے ضیغم کو دیکھ کر پریشان ہوکر بولی
“بڑے خان کو میں دو گھنٹے پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ آج میں اُن کی بیٹی کو اٹھا کر اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤں گا”
ضیغم اُسے دیکھے بغیر ڈرائیونگ کرتا ہوا بولا
“بڑے خان کی بیٹی کو نہیں آپ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ لے کر جانے کے لیے آئے تھے یہاں پر”
روشانے حازم کو خود سے بھینچتی ہوئی ضیغم کو جتا کر بولی، حازم کو خود سے جدا کرنے کا تصور سے ہی وہ بری طرح تڑپ گئی تھی
“کیا کر رہی ہو یار اتنی زور سے اُسے سینے سے چپکا کر جگا دیا۔۔۔ اتنی محبت کا مظاہرہ تو تم نے آج تک حازم کے بابا کے ساتھ بھی نہیں کیا”
جتنا سیریز ہوکر وہ ڈرائیونگ کرتا ہوا بول رہا تھا اتنی ہی شوخیاں اُس کی آنکھوں میں امڈ رہی تھی،، روشانے گھور کر ضیغم کو دیکھنے لگی
“ویسے میں تمہیں یہی کلیئر کر دیتا ہوں آج میں یہاں سے اپنے بیٹے کو لے جانے کے لئے نہیں آیا تھا مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ اُس کی ماں کی بھی ضرورت ہے۔۔۔ اپنے دل سے خیال نکال دو کہ میرا بیٹا ہی میرے لئے اہم ہے اگر صرف اِسے لے جانا ہوتا تو واش روم سے تمہارے باہر آنے کا انتظار نہیں کرتا”
روشانے کے گھورنے پر ضیغم اُس کو دیکھتا ہوا بولا تو وہ خاموش ہو گئی
“کچھ بات تو کرو ناں یار ایسے خاموش بیٹھی رہوں گی تو میں بور ہو جاؤں گا”
تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ضیغم روشانے کو خاموش دیکھ کر بولا جبکہ حازم روشانے کے کندھے پر سر رکھا ہوا ضیغم کو ڈرائیونگ کرتا ہوا دیکھ رہا تھا
“نانا سائیں اور ماموں سائیں کیسے ہیں”
ضیغم کے بولنے پر وہ شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کے بارے میں پوچھنے لگی
“دونوں ہی ٹھیک ہیں، دونوں ہی بضد تھے کے تمہیں اپنے ساتھ حویلی لے کر آؤں لیکن میں نے اُن دونوں کو سمجھا دیا کہ پہلے میں اپنی بیوی کو شہر میں جا کر مناؤں گا،، اُس کے تھوڑے ناز نخرے اٹھاو گا جب وہ مجھ سے سیٹ ہو جائے گی تب اسے آپ لوگوں سے ملواؤں گا”
ضیغم ڈرائیونگ کرتا بتا روشانے کو رہا تھا جبکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مسکرا کر حازم کو دیکھ رہا تھا
“دل آویز آپی اور پلورشہ آپی وہ دونوں کہاں پر ہیں حویلی میں،، میرا مطلب ہے ٹھیک ہیں وہ دونوں”
روشانے جو ضیغم سے پوچھنا چاہ رہی تھی وہ صحیح سے نہیں پوچھ پائی۔۔۔ مگر ضیغم اُس کی بات سمجھ چکا تھا اس لئے روشانے کو بتانے لگا
“جاوید بھائی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا،، اس لیے ماں کے سوئم والے دن وہ دل آویز آپی اور بچیوں کو واپس اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے تھے۔۔۔ جبکہ پلورشہ آپا کے شوہر مبین بھائی سے اُن کی دوسری بیوی کی زیادہ دن تک نہیں بن سکی،، جس کی وجہ سے وہ خود مبین بھائی کو چھوڑ کر چلی گئی،، مبین بھائی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ پلورشہ آپا کو منا کر اپنے ساتھ گھر لے گئے تھے،، یہ بات غالبا ماں کے انتقال سے ایک دن پہلے کی ہے”
ضیغم روشانے کو تفصیل سے بتانے لگا۔۔۔ ضیغم کی بات سن کر روشانے کو خوشی ہوئی تھی کہ اُس کی دونوں نندیں اپنے اپنے گھر واپس چلی گئی تھیں
“نانا سائیں اور ماموں سائیں اکیلے کیسے رہ رہے ہوں گے”
اب اُسے شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کی فکر لاحق ہونے لگی اس لئے وہ ضیغم سے پوچھنے لگی
“ماں کے انتقال کے بعد سے رمشا چچی کا قیام چند ماہ کے لیے حویلی میں ہی ہے،، اسد اور وفا کی وجہ سے دادا سائیں اور بابا سائیں کا دل دل کافی حد تک بہلا رہتا ہے”
ضیغم ڈرائیونگ کے دوران روشانے کو بتانے لگا جس پر اُسے کچھ تسلی ہوئی ساتھ ہی وہ خاموش ہوگئی
“سب کے بارے میں جان چکی ہو تو اب اپنے سائیں کا بھی حالِ دل پوچھ لو”
ضیغم نے کہتے ہوئے روشانے کا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا
“اففف کیا کر رہے ہیں سائیں، یہ بیڈ روم نہیں ہے آپ کا”
روشانے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کرکے ضیغم کو ٹوکتی ہوئی بولی
“تمہیں کیا لگ رہا ہے اپنے بیڈ روم میں جا کر یہ چھوٹی موٹی کروائیوں پر گزارا کرو گا”
ضیغم معنی خیز نظروں سے اُسے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس پر روشانے بغیر کوئی جواب دیئے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ضیغم اب ڈرائیونگ کرنے کے ساتھ ساتھ حازم سے باتیں کر رہا تھا
****
“اففف اس لفٹ کو بھی آج ہی خراب ہونا تھا”
چار گھنٹے کا سفر کر کے مسلسل گاڑی میں بیٹھے بیٹھے وہ تھک چکی تھی، لفٹ کو خراب دیکھا تو روشانے اچھا خاصہ چِڑ کر بولی
“تو اتنا چڑ کیوں رہی ہو آجاو اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی گود میں اٹھا لیتا ہوں”
ضیغم جو کہ حازم کو گود میں اٹھائے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہا تھا روشانے کے پاس آتا ہوا بولا
“کیا کر رہے ہیں سائیں میں بالکل ہی مذاق کے موڈ میں نہیں ہو”
ضیغم کو اپنے قریب آتا دیکھ کر روشانے ایک دم پیچھے ہوئی اور سنجیدگی سے ضیغم کو بولی
“اور میری سنجیدگی کا عالم تو تم اب ہمارے بیڈ روم میں جا کے دیکھ لوں گی”
ضیغم حازم کو گود میں اٹھائے سیڑھیاں چڑھتا ہوا بولا تو روشانے بلش کرنے کے باوجود اُسے گھورنے لگی
“فری مت ہو آپ زیادہ میں ناراض ہوں آپ سے ابھی تک”
سیڑھیاں چڑھنے کے ساتھ ساتھ روشانے اُس کی شوخ طبیعت کو صاف کرتی ہوئی بولی
“ساری رات اپنے آپ سے تھوڑی ناراض رہنے دوں گا منالوں گا،، چلو ایسا کرتے ہیں آج پھر ریس لگاتے ہیں”
ضیغم سیڑھیاں چڑھنے کے ساتھ ساتھ روشانے کو مشورہ دیتا ہوا بولا جس پر روشانے ضیغم کو دیکھ کر تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگ گئی۔۔۔ مگر تھکن کے باعث اس کا سانس پھولنے لگا اور آج جیت باپ اور بیٹے کے نام ہوئی
****
“دیکھ لو تمہارے جانے کے بعد ذرا بھی گھر میں بے ترتیبی نہیں پھیلنے دی، نہ کوئی سیٹنگ چینج کی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے”
روشانے رات کے کھانے کے برتن دھو پر روم میں آئی تو حازم بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اور ضیغم اپنے بیٹے سے کھیل رہا تھا۔۔۔ روشانے کو کمرے میں آتا دیکھ کر وہ بیڈ سے اٹھ کر آیا اور روشانے کو اپنے حصار میں لیتا ہوا بولا
“پیچھے ہٹیں سائیں کیا کر رہے ہیں حازم دیکھ رہا ہے”
روشانے اُس کے حصار سے نکلتی ہوئی حازم کو دیکھ کر بولی جو روشانے کو کمرے میں آتا دیکھکر خوشی سے گلکاریاں مار رہا تھا
“اچھا ہے نا اُسے بھی معلوم ہونے دو اس کے بابا کتنے رومینٹک ہیں”
ضیغم دوبارہ روشانے کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کرتا ہوا بولا جبکہ بیڈ پر لیٹا ہوا حازم اپنے ننھے ننھے ہاتھ پاؤں چلانے لگا
“لیکن مجھے آپ کے رومینس کے مظاہرے نہیں دیکھنے، میں کافی تھکی ہوئی ہوں اور اب ریسٹ کروگی”
وہ اپنی کمر سے ضیغم کے ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی اور بیڈ کے قریب آ کر حازم کو گود میں اٹھانے لگی
“تم ریسٹ کرو گی تو پھر میں کیا کروں گا”
ضیغم برا مانتے ہوئے روشانے سے پوچھنے لگا تو روشانے نے حازم کو ضیغم کی گود میں دے دیا
“آپ اپنے بیٹے کو دوسرے کمرے میں جاکر سلا دیں”
روشانے کے بولنے پر ضیغم اُسے گھورتا ہوا حازم کو واقعی دوسرے کمرے میں لے کر چلا گیا جبکہ روشانے اپنی مسکراہٹ رکتی ہوئی بیڈ پر لیٹ گئی
“سو جا میرے چھوٹے سائیں اب تو تیرے سونے کے بعد ہی تیرے بابا سائیں کی کوئی بات بن سکتی ہے”
ضیغم حازم کو گود میں اٹھائے مسلسل ٹہلے جا رہا تھا مگر حازم سونے کی بجائے منہ بسور بسور ضیغمم کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ ضیغم کو لگا وہ تھوڑا بے چین ہے اور ابھی رو دے گا۔۔۔ حازم کے پاس سے آنے والی اسمیل سے ضیغم اُس کی بے چینی کی وجہ سمجھ گیا، اِس لیے اُسے واپس روشانے کے پاس جانا پڑا
“یار روشی حازم کا ذرا ڈائپر تو چیک کرو لگ رہا ہے کوئی بڑا کام کر کے بیٹھا ہے ہمارا شہزادہ”
ضیغم بیڈروم میں آ کر بیڈ پر لیٹی ہوئی روشانے کو دیکھ کر بولا
“بیس منٹ بھی نہیں سنبھال سکے آپ اپنی اولاد کو سائیں”
روشانے منہ بنا کر بولتی ہوئی ضیغم سے حازم کو لینے لگی
“یار ابھی کچھ کام تو اِس کے ایسے ہیں جو تم ہی کر سکتی ہو، اس کو فیڈ بھی کروا دینا تاکہ آرام سے سو جائے”
ضیغم کی بات سن کر روشانے اُس کو گھورنے لگی جبکہ ضیغم نے الماری کھولی جس کے ایک پورشن نے حازم کے استعمال کا سارا سامان رکھا ہوا تھا۔۔۔ روشانے ڈائپر کا پیکٹ نکال کر اُسے چینج کروانے کے بعد روتے ہوئے حازم کو دیکھنے لگی
“میرا بیٹا کیا ہوگیا جانو”
ضیغم اُسے پیار سے بہلاتا ہوا پوچھ رہا تھا
“بھوک لگ رہی ہے اسے فیڈ کرکے سوئے گا آپ دوسرے کمرے میں جائے”
روشانے حازم کو گود میں لے کر بیڈ پر بیٹھتی ہوئی ضیغم سے بولی
“مجھ سے کونسا پردہ ہے تمہارا جو میں دوسرے کمرے میں چلا جاؤ”
ضیغم وہی روشانے کے سامنے بیڈ پر پھیلتا ہوا لیٹ کر بولا۔۔۔ روشانے لمبا سانس کھینچ کر حازم کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
حازم کو پیٹ بھرتا دیکھ کر، روشانے کے گھورنے کی پرواہ کیے بغیر۔۔ ضیغم حازم کے ننھے ہاتھ پاؤں چومنے لگا۔۔۔ روشانے کے مزید بڑی بڑی آنکھیں دکھانے پر اب وہ روشانے کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر لگا چکا تھا۔۔۔ آج وہ روشانے اور اپنے بیٹے کو اپنے گھر میں دیکھ کر بہت خوش تھا
“آپ اسے گود میں اٹھا کر ٹہلتے رہے گے تو یہ خود ہی تھوڑی دیر میں سو جائے گا”
روشانے اونگتے ہوئے حازم کو دوبارہ سے ضیغم کو تھماتی ہوئی بولی
“اسے تو میں سلا دوں گا لیکن ابھی تمہیں سونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”
ضیغم حازم کو گود میں اٹھائے، بیڈ پر لیٹتی ہوئی روشانے سے بولا
حازم اپنی ننھی ننھی سے ہاتھ کی مٹھیاں بنا کر آنکھیں مسلنے لگا تو ضیغم نے کمرے کی لائٹ بند کر دی
اب وہ حازم کو آغوش میں لئے کمرے میں ہی ٹہل رہا تھا جبکہ نائٹ بلب کی روشنی میں بیڈ پر لیٹی ہوئی روشانے کے لبوں پر یہ منظر دیکھ کر مسکراہٹ آئی، وہ آنکھوں پر اپنا بازو رکھ کر سوتی ہوئی بن گئی تھی تھوڑی دیر بعد روشانے اپنا ہلکا سا ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو ضیغم سوئے ہوئے حازم کو کاٹ میں لٹا کر اُسے پیار کر رہا تھا
روشانے جلدی سے آنکھوں پر دوبارہ بازو رکھ لیا
تھوڑی دیر بعد روشانے کو محسوس ہوا کہ ضیغم بیڈ پر اس کے برابر میں آ کر لیٹا ہے۔۔۔۔ ابھی روشانے ضیغم کی طرف پشت کر کے کروٹ لینے کا سوچ ہی رہی تھی مگر عمل کرنے سے پہلے ضیغم اس کا نازک وجود اپنی طرف کھینچ چکا تھا روشانے نے اُس کے اقدام پر اپنی آنکھوں سے بازو ہٹایا تو ضیغم نے فوراً اُس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے گرفت میں لیا۔۔۔۔ اس سے پہلے روشانے اُسے پیچھے کرتی وہ روشانے کی دونوں کلائیاں قابو کر چکا تھا
کتنے ہی پل یونہی گزر گئے مگر اُس کے تشنہ لب ابھی بھی پیاسے تھے۔۔۔۔ وہ روشانے کا ایک ایک نقش چومتا ہوا اب روشانے کی گردن پر جھک چکا تھا۔۔۔۔ اُس کے والہانہ پن کو دیکھتے ہوئے روشانے بوکھلا چکی تھی۔۔۔ اب ضیغم نائٹ بلب کی روشنی میں روشانے کا چہرا دیکھ رہا تھا
“سوتی ہوئی بیوی پر اِس طرح حملہ آور ہوتے ہیں”
روشانے ضیغم کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگی جس پر وہ ہلکا سا مسکرایا
“ہاں، اگر بیوی سونے کا ڈرامہ کر رہی ہو تو ایسے ہی حملہ کرتے ہیں۔۔۔ اب بڑے والے حملے کے لئے تیار ہو جاؤ”
وہ روشانے کے بالوں میں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں پھنسا کر اُس کا چہرہ اوپر کرتا ہوا بولا
“آئندہ زندگی میں، کبھی بھی مجھے اپنے آپ سے دور مت کرئیے گا”
روشانے کی بات سن کر ضیغم اپنے ہونٹ روشانے کی پیشانی پر رکھتا ہوا بولا
“ایسا اب کبھی بھی نہیں کر سکتا، چاہو تو کتنی ہی بڑی قسم لے لو”
روشانے کو محسوس ہوا جیسے ضیغم اُس کو سزا دے کر خود بھی پچھتا رہا تھا
“میری ایک بات مانیں گے”
روشانے اُس کے گال پر ہاتھ رکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔۔ ضیغم اس کا ہاتھ چوم کر روشانے کا نازک سراپا اپنے حصار میں لے لیتا ہوا بیڈ پر لیٹ گیا
“کچھ بھی کہہ دو مان لوں گا مگر یہ مت کہنا کہ ابھی نیند آ رہی ہے”
ضیغم اُسے آنکھیں دکھاتا ہوا بولا تو روشانے ہنسنے لگی
“کیا آپ خان کو معاف کر سکتے ہیں”
روشانے بولنے کے بعد ضیغم کے تاثرات دیکھنے لگی جو کہ بالکل خاموش ہو گیا تھا، وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اُن دونوں کے بیچ دوستی ہو جائے۔۔۔ بس اُن دونوں خاندانوں کے بیچ کی دشمنی ختم ہو جائے یہی اُس کے لیے بہت تھا
“جب تم ماں کو معاف کر سکتی ہو تو میں بھی تیمور خان کو معاف کر سکتا ہوں”
ضیغم کے بولنے پر روشانے مسکرا کر اُس کے سینے پر سر رکھ دیا۔۔۔ ضیغم اُس کو اپنے حصار میں لے لیتا ہوا اپنے اور روشانے کے درمیان دوریاں مٹانے لگا
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...