کب آرہے ہو تم۔۔؟؟
کارلس نے پاپ کارن منہ میں بھرتے ہوئے ڈیوڈ سے پوچھا۔
پتہ نہیں۔۔ابھی سوچا نہیں۔۔
اسنے لاپروائی سے کہا۔
جین فکرمند ہے تمہارے لیے۔ اسلیے بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ کب تک لوٹوگے۔۔
اوہ ڈیڈ ممی کو بتا دیں کہ میں اب بےبی نہیں رہا۔۔وہ پریشان ہونا چھوڑ دیں۔۔
اسکا موڈ خراب ہوا۔۔
یہ بات وہ نہیں سمجھتی ۔۔
کمپنی نے ایک ہفتے کے لیئے بھیجا ہے اسکے بعد ایک دو دن رک جاونگا۔یا زیادہ ابھی پتہ نہیں ہے۔۔
وہ بیزار ہوا۔۔
چلو ٹھیک ہے۔ ٹوکیو انجوائےکرو۔۔اپنا خیال رکھنا۔
اوکے ڈیڈ۔۔ گڈ نائٹ
اسنے ویڈیو کال کاٹ دی۔۔اسے آگے کا پلان بنانا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادو آپ بابا کو منع کردیں۔
وہ منہ بنائے بیٹھی تھی
کیسے منع کردوں۔وہ ٹکٹ بھیج چکا ہےتمہاری۔
صبیحہ بیگم نے سمجھانے کی کوشش کی۔۔
مٰیں دس سال سے انکوملی تک نہیں۔۔ میں کیسے رہونگی انکے پاس۔۔اور ویسے بھی میں آپکو چھوڑ کر نہیں جانے والی۔۔
وہ رونے والی ہوگئی۔۔
دیکھو میری بوڑھی ہڈیوں میں اتنا دم نہیں رہا کہ اب مزید تمہارا خیال رکھ سکوں ۔اب تمہارا اپنے بابا کے ساتھ رہنا ہی بہتر ھے۔۔
دادو پلیززززز نا۔۔ میں آپکو کبھی تنگ نہیں کرونگی۔۔ نہ ہی ضد کرونگی۔۔پلیز پلیز پلییییییییییز۔۔
اسنے پلیز کو لمبا کیا۔۔وہ انہیں مکھن لگا رہی تھی۔
تم مجھے اب بھی تنگ کر رھی ہو۔۔ جاؤ جا کر پیکنگ شروع کرو۔۔
انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔۔
میں کیسے جاؤنگی اتنا لمبا سفر اکیلے کیسے کرونگی۔۔۔
اسنے انکی بات نظر انداز کی۔۔
تم اب بچی نہیں ہو۔۔ تم نے کونسا اونٹوں پہ سفر کرنا ہے۔۔یہاں سے بیٹھنا استنبول اترنا ہے۔وہاں سے وہ تمہیں لے لیگا۔۔
دادو کے پاس ہر مسئلے کا حل تھا۔۔نتیجا وہ منہ بسورتی ہوئی اٹھ گئ۔۔ ترکی جانے کا اسکا زرا بھی موڈ نہیں تھا۔۔ اور وہ بھی ہمیشہ ک لیے ۔نمرہ احمد کے ناول پڑھ پڑھ کر چاہے اسے ترکی پسند تھا لیکن ہمیشہ کے لیے وہاں جانا قبول نہیں تھا۔
دادو مجھ سے زرا بھی پےار نہیں کرتیں اسیلیے اتنا دور بھیج رہی ہیں۔۔وہ بےدلی سے سے پیکنگ میں لگ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے ایک ہفتے کا کہا تھا اور تمہیں دو ہفتے ہو چکےہیں۔۔
جین نے غصے سے کہا۔۔
اوہ مام ٹوکیو ہے ہی اتنی خوبصورت ۔۔ یہاں سے واپس آنے کا دل نہیں کر رہا۔۔
ڈیوڈ نے مزے سے کہا۔۔
مجھے تو سمجھ نہیں آرہا یہ تمہا ری کس قسم کی کمپنی ہے جس نے اتنا آزاد چھوڑا ہوا تمہیں۔۔
انکے ایمپلا ئی نے انکو اتنی اچھی ڈیل کر کے دے رہی ہے تو وہ اتنی آزادی تو دے ہی دیں گے۔۔
ڈیوڈ نے کا لر اچکائے۔۔
ویسے آپ پریشا ن نہ ہوں میں کل کمپنی کو بولتا ہوں واپسی کی فلائٹ کا۔۔
وہ جین کا چہرہ دیکھ کر بولا۔۔
تھینک گاڈ۔ہمیں تمہارا اانتظار رہےگا۔تمہارا ڈنرہمارے ساتھ کرنا۔
جین کھل اٹھی۔
کوشش کرونگا ابھی پتہ نہیں ہے کمپنی کونسی فلائٹ دیتی۔۔
ڈیوڈ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔۔ وہ اب رسمی باتیں کر رہے تھے۔۔وہ جانتا تھا جین اس سے بہت محبت کرتی ہے۔۔اسلئے وہ اب تک اسکی بات مانتا تھا۔۔ورنا اسکی سوسائٹی میں بھی والدین سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوتی تھی۔۔اسکے علاوہ جین اور کارلس دونوں کا تعلق ایسی جرمن فیملیز سے تھا جن میں جرمن روایات کو برقرار رکھنے کی وجہ سے خاندانوں کا احترام باقی تھا۔۔ اسلیۓ وہ نا چاہتے ہوئے بھی واپس آرہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
۔پتہ نہیں اور کتنی دیر ہے۔۔؟؟
اس ںے گھڑی دیکھی۔۔ اسکا جہاز لاہور رکا ہوا تھا۔۔ وہاں آدھا گھنٹہ سٹے تھا۔۔سٹاف فلائٹ ہونے کی وجہ سے انہیں لاؤنج میں جانے کا نہیں کہا گیا تھا۔۔اسکی اگلی منزل استنبول تھی ۔اسے جین کی وجہ سے اس فلائٹ سے آنا پڑ رہا تھا ورنہ برلن ڈائریکٹ فلائٹ کے لیے اسے رکنا پڑتا۔۔
اسنے ادھر ادھر دیکھا۔کافی سیٹوں پر لوگ آچکے تھے۔۔ اسکے ساتھ والی سیٹ ابھی تک خالی تھی۔۔ اسنے سکون کا سانس لیا۔۔ اسے زیادہ باتیں کرنے والوں سے الجھن ھوتی تھی۔۔وہ اٹھ کر باتھ روم چلاگیا۔۔واپس آیا تو اسکے ساتھ والی سیٹ پر کوئی آچکا تھا۔۔۔اسکا موڈ خراب ہوا۔۔وہ بیٹھا تو اسکی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے وجود نے اسے گردن موڑ کر دیکھا۔۔
وہ نقاب پہنے کوئی لڑکی تھی۔۔ وہ اسے ایک نظر دیکھ کر پھر رخ موڑ گئی۔۔ ڈیوڈ دیکھ چکا تھا۔ وہ رو رہی تھی۔۔
ڈیوڈ دیکھ چکا تھا وہ رو رہی تھی۔۔ اسکو افسوس ہوا۔۔بےچاری کیسے کالے کپڑے میں بند ہے۔۔ اسی لیے رو رہی ہوگی۔۔ وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے اندازے لگا رہا تھا۔وہ مسلمانوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا اور کسی عبائے والی لڑکی کو اتنے قریب سے دیکھنا اسکا پہلا تجربہ تھا۔۔
پتہ نہیں کون ہوگی۔؟ اسطرح کہاں جا رہی ہوگی۔۔ القاعدہ ،طالبان اور داعش سب اسکے ذہن میں گھوم گئے۔۔وہ پریشان بھی ہو رہا تھا اور متجسس بھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسمت ہی خراب ہے ایک تو پہلے ہی دادو نے زبردستی بھیج دیا اب دیکھو سیٹ کس کے ساتھ ملی۔۔
اسکے رونے میں اضافہ ہوگیا۔۔وہ سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔
اللہ میاں جلدی سے استنبول آجائے اور میں یہاں سے اٹھ جاؤں۔۔
وہ بے حد ان کمفرٹیبل تھی۔۔جہاز پرواز کر رہا تھا ۔۔ وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔اس نے ایک دفعہ کے بعد دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔۔ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے اکڑ رہی تھی۔۔ رخ موڑے موڑے اسکی گردن درد کرنے لگ گئی تھی۔۔۔
اچانک جھاز کو ایک جھٹکا لگا ۔جہازلرز کر رہ گیا۔اسکی چیخ نکل گئی۔۔مسافروں میں سراسیمگی پھیل گئی۔۔
سب ٹھیک ہے۔۔سب ٹھیک ہے۔۔آپ لوگ اپنی سیٹوں پہ بیٹھے رہیں اور سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔۔
ائرہوسٹس نے اْانکو تسلی دی۔۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا وہ لڑکا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
آپ ٹھیک تو ہیں۔۔؟؟
وہ اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر بولا۔
ہممم
وہ ہنکارا بھر کر رخ موڑ گئی۔۔ ڈیوڈ کا دل کیا وہ اس سے بات کرتی یا کم از کم اسکی طرف دیکھ ہی لیتی۔۔ وہ اسے خطرناک نہیں لگی تھی۔۔اسکی صرف آنکھیں ظاہر تھیں۔۔ آوازسے لگتا تھا وہ زیادہ بڑی عمر کی نہیں ہے۔
وہ ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ جہاز کو ایک اور جھٹکا لگا۔
اسکے بعد ایک اور۔۔۔ مسافروں کی چیخیں نکل گئیں
اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ۔۔
ڈیوڈ نے آواز سن کر حیرانی سے اپنے ساتھ بیٹھے وجود کہ دیکھا۔۔وہ خود بھی گھبرایا ہوا تھا۔۔جھاز ڈول رہا تھا۔۔ جیسے جیسے جھٹکے تیز ہوتے اسکے پڑھنے میں تیزی آجاتی۔۔ انکے سامنے سکرینز پر پیرا شوٹ اور لائف جیکٹ کے استعمال کا طریقہ چلنے لگا تھا۔۔۔آکسیجن ماسک چلنے لگے تھے۔الارم بج رہا تھا۔۔ ائرہوٹس سب کو پرسکون رہنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
اچانک انکا جہاز سیدھا زمین کی طرف ہوگیا۔۔ ڈیوڈ نے آنکھین بند کر لیں۔۔انہوں نے سیٹ بعلٹ نا باندھی ہوتی تو وہ سیٹوں سے اڑ چکے ہوتے۔جہاز تیزی سے نیچے جا رہا تھا مسافروں کی چیخ و پکار اونچی ہو گئی تھی۔۔۔ ایک جھٹکے سے جہاز سیدھا ہوگیا۔۔
کتنی ہی دیر وہ اپنے آپ کو یقین ہی نی دلا سکا کہ وہ زندہ ہے۔۔ تھڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھو لیں
تو وہ لڑکی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے اسکے کوٹ کا کف مٹھی میں بھنچا ہوا تھا۔۔وہ ابھی تک سخت ڈری ہوئی تھی۔۔ شاید اسے خیال نہیں رہا تھا کہ اسنے اسکا بازو پکڑا ہوا ہے۔۔
یہ۔یہ کیا ہوا تھا۔۔؟؟
وہ اردو میں بولی۔
واٹ۔
ڈیوڈ نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔وہ دوبارہ رونے لگ گئی تھی۔۔
یہ کیا ہوا تھا۔۔وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔۔ جھٹکا پھر لگا ۔وہ سہم گئی۔۔
میں خود نہیں جانتا۔۔
وہ بھی خوفزدہ تھا۔۔ جہاز کی ایک طرف سے عجیب سی آوازیں آنے لگ گئی تھیں۔۔جیسے کوئی مشینری خراب ہوگئی ہو۔ مسافروں مین خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔۔بچے اور خواتین نے رونا شروع کر دیا تھا۔۔
معزز مسافرین۔۔
پائلٹ کی آواز گونجی۔۔ جہاز میں خاموشی چھا گئی۔
جہاز کے انجن سے پرندہ ٹکرا نے کے باعث ہمارا ایک انجن کام کرنا چھوڑ چکا ہے۔۔اور ریڈار سے رابطہ منقطع ہوجانے کی وجہ سے ھم اپنی ڈائریکشن کھو بیٹھے ہیں۔۔ پر سکون رہیں۔۔ مسئلے پر جلد ہی حل پا کر جہاز کو لینڈ کیا جائے گا۔۔شکریہ۔۔
مسافروں کی دعاؤں میں شدت آگئی۔۔ وہ دونوں ہاتھ باندھے دعا کرنے لگا۔۔ اسے ابھی مرنا نہیں تھا۔۔۔ اسکے ساتھ بیٹھاوجود مسلسل وہی الفاظ دہرانے میں مشغول تھا۔۔خوف سے سب کے خون خشک ہوچکے تھے۔۔ کوئی مسافر بےہوش ہو گیا تھا۔۔ ائرہوسٹس اسکو سنبھالنے میں لگی تھیں۔۔موت کا خوف انکے حواسوں پہ چھایا ہوا تھا۔۔
معزز مسافرین۔۔ریڈار سے رابطہ بحال ہوگیا ہے۔۔ ہم جلد ہی قریبی جگہ باکو ائرپورٹ پر لینڈ کرینگے۔۔براہ کرم
اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہئیے۔شکریہ۔۔
پا ئلٹ کا اعلان ختم ہو گیا۔۔مسافروں میں اضطراب کم ہوا لیکن خطرہ ابھی بھی تھا۔۔۔کوئی نہیں جانتا تھا وہ باکو ائیرپورٹ تک بھی پہنچ سکیں گے یا نہیں۔
”””””””””””””””””””””””””””””’؎
اب کیا ہوگا۔۔
وہ خود کلامی کر رہی تھی۔جہاز میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔جہاز اب لینڈ کر رہا تھا۔رن وے پراترتے ہی اسکے ٹائر زور سے زمین سے ٹکرائے۔۔ اور جہاز دوبارہ ہوا میں بلند ہوگیا۔۔ایک بار پھر چیخیں بلند ہوگیئں۔۔سیٹ بیلٹ باندھے ہونے کے باوجود وہ سب اچھل پڑے تھ
کیاآپکو باکو کا پتہ ہے۔۔؟؟
ڈیوڈ نے اس سے پوچھا۔۔ وہ نفی میں سر ہلا گئی۔۔ خوف سے اسکی آواز نہیں نکل رہی تھی۔۔جہاز ابھی بھی لرزرہا تھا۔۔
ے۔۔جہاز دوبارہ رن وے پر ٹکرایا اور گھسیٹنے لگا۔۔ اسکا ایک پر زمین کو چھو رہا تھا۔۔اس نے آنکھیں بند کر کے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔اسکے ہاتھ میں جو آیا وہ اسے پکڑ کر سر جھکاگئی۔۔ لاشعوری طور پر اس نے چھپنے کی کوشش کی تھی۔۔اسکے ذہن میں ہر رشتہ گھوم گیا۔۔ جنکو دیکھنے کی امید ختم ہو گئی تھی۔۔جہاز دور تک گھسٹتا چھلا گیا تھا۔ مسافروں کی چیخیں اب پھٹی پھٹی ہو گئیں تھیں۔۔ خوف سے انکے سانس تک رک گئے تھے۔۔ پا ئلٹ نے بمشکل جہاز روکا۔۔کیتنی ہی دیر سب اپنی جگہ ساکت رہے ۔۔ خوف نے انہیں منجمد کر دیا تھا۔۔ کسی کو بچ جانے کا یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔ تھو ڑی دیر میں انکے حواس بحال ہوئے جہا ز کا انجن آگ پکڑ چکا تھا۔فا ئربرگیڈیر کی گا ڑیوں نے جہاز کو گھیر لیا تھا۔
اسنے سر اٹھا کر دیکھا وہ اپنے ساتھ بیٹھے لڑکے کا بازو پکڑے ہوئے تھی۔وہ بھی جھکا ہوا تھا۔ اس نے جھینپ کر بازو چھوڑ دیا۔۔اسے سخت گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
آپ ٹھیک تو ہیں ۔؟؟
ڈیوڈ نے دوبارہ پوچھا۔۔
جی اور آپ۔۔؟؟
اس نے مروتا پوچھ لیا ورنہ اسکا بازو پکڑنے پر اسے اچھی خاصی شرمندگی ہو رہی تھی۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں۔
وہ مسکرایا۔۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی کہ اتنی افرا تفری میں سب کی طرح اسکا حلیہ خراب ہو گیا تھا لیکن اسکا چہرہ نظر نہیں آیا تھا۔۔جہاز کا سسٹم بند ہونے کی وجہ سے حبس ہوگیا تھا۔۔ انہیں جہاز سے اترنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔۔ آگ اگر فیول ٹینک تک پہنچ جاتی تو جہاز دھماکے سے اڑ جاتا۔۔خطرہ ابھی بھی ٹلا نہیں تھا۔۔ بچے گلا پھاڑ پھاڑ کر رو رہے تھے۔دس منٹ میں وہ سب پسینے میں بھیگ چکے تھے۔۔وہ سوچ رہا تھا اسکت ساتھ بیٹھی لڑکی سانس کیسے لے رہی ہوگی۔۔ وہ مسلسل لا الہ کا ورد کر رہی تھی۔۔الفاظ اجنبی تھے لیکن ان سے ڈیپریشن کم ہو رہی تھی۔۔
ائر ہوسٹس انکو پانی کی بوتلیں دے گئی تھی۔۔ڈیوڈ نے اپنے سر پر پانی ڈالا۔۔گرمی سے برا حال تھا۔وہ پینے لگا جب اسکی نظر پڑی وہ لڑکی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ پانی کم پڑ رہا تھا اسلئے ان دونوں کو ایک ہی بوتل ملی تھی۔۔
اوہ سوری۔۔ آپ پانی پینا چاہیں گی۔۔؟؟
وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔ ڈیوڈ نے پا نی اسکی طرف بڑھا دیا۔۔ وہ دوسری طرف منہ کر کے پینے لگ گئی۔۔ ڈیوڈ آدھی بوتل خالی کر چکا تھا۔۔ اسکے باوجود اس لڑکی نے تھوڑآ سا پانی پی کر باقٰی اسکی طرف بڑھا دیا تھا۔۔وہ دیکھ چکی تھی کہ اسنے ابھی پانی نہیں پیا تھا۔ ڈیوڈ کو اسکی معصو م سی قربانی اچھی لگی تھی۔وہ خطرناک نہیں تھی۔
آدھے گھنٹے بعد انہیں اترنے کی اجازت مل گئی تھی۔۔وہ کھڑی ہوئی تو اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ۔۔ لرزتے قدموں سے وہ جہاز سے اتری۔۔آگ سے دروازے جام ہوگئے تھے۔ انہیں کاک پٹ کے دروازے سے اتارا گیا تھا۔۔
وہ لاؤنج میں آئی اسنے کوئی پاکستانی فیملی ڈھونڈنے کی کوشش کی۔۔ خوف اور گھبراہٹ میں اسے کوئی نظر بھی نہیں آئی۔۔ وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔۔ اچھی طرح رو لینے کے بعد اسنے خود کو سنبھالا وہ اب اتنی کمزور بھی نہیں تھی۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...