شہریار لب بھینچے سنجیدگی سے ڈرائیو کرتے ہوئے اپنے فارم ہاؤس پر پہنچا باہر نصب سیکیورٹی سسٹم میں پاس ورڈ ڈالا تو بڑا سا گیٹ کھلتا چلا گیا وہ گاڑی اندر لیجا کر ڈرائیو وے میں پارک کرکے اترا خود کار دروازہ بند ہو چکا تھا وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا اندر کی طرف بڑھ رہا تھا جب اسے پائیں باغ سے کسی لڑکی کے دھیمے سروں میں کھلکھلا کر ہنسنے کی آواز سنائی دی وہ چونک کر پائیں باغ کی جانب بڑھا ۔۔۔
گلابی کرتے میں گلے میں اسٹالر ڈالے وہ سویرا ہی تھی جو کھلکھلا کر ہنس رہی تھی اس کے لمبے سلکی بال پونی میں قید ہوا سے لہراتے ہوئے ایک الگ ہی نظارہ پیش کررہے تھے ایک لمحے کو وہ ٹھٹھک سا گیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ماتھے پر بل پڑنے شروع ہو گئے سویرا کے پیچھے وہ مال والا لڑکا بھاگ رہا تھا ۔وہ مٹھیاں بھینچتے ہوئے آگے بڑھا ۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے ؟؟ ” وہ غرایا
بریڈلی اس کی آواز سن کر چونک کر رہا تو دوسری طرف تیزی سے بھاگتی سویرا اس کی آواز سن کر بوکھلا گئی اور رکتے رکتے سامنے لگے سنگ مرمر کے مجسمے سے اس کا پیر زور سے ٹکرایا ۔وہ زور سے گھاس پر گری
” افف اللہ ۔۔۔۔۔” وہ پیر پکڑ کر کراہ کر رہ گئی
” سویرا ہنی !! آر یو اوکے ۔۔۔۔” بریڈلی تیزی سے سویرا کے پاس آکر زمین پر بیٹھتے ہوئے شہریار کو آگ لگا گیا
” دور رہو اس سے ۔۔۔۔۔” شہریار کف اڑاتا ہوا آگے بڑھا اور بریڈلی کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا
” کیوں ؟؟؟ کیوں دور رہوں ؟؟ میری دوست ہے وہ اور تمہیں کیا تکلیف ہے ؟؟ ” بریڈلی نے اپنا گریبان چھڑوایا
شہریار نے ایک زور دار پنچ بریڈلی کے منھ پر مارا سویرا کے حلق سے چیخ نکل گئی جبکہ بریڈلی بڑی ڈھٹائی سے پنچ کھا کر بھی مسکرا رہا تھا ۔
سویرا کی چیخ سن کر سیخوں کو بھوننے میں لگی اینا تیزی سے بھاگتی ہوئی آئی اور شہریار کو بریڈلی کی طرف بڑھتا دیکھ کر تیزی سے ان دونوں کے درمیان میں آگئی ۔۔۔۔
” سر !! یہ میرا بوائے فرینڈ ہے ۔۔۔۔” وہ شہریار سے بولی
” بوائے فرینڈ ہے تو بھی !! اسے بولو کہ اپنی لمٹ میں رہے۔۔۔۔” وہ پیچھے ہٹا اور زمین پر بیٹھی سویرا کی طرف متوجہ ہوا
” تم !! پاگل ہو گئی ہو کیا ؟؟ تمہارا دوپٹہ کدھر ہے ۔؟؟ ” وہ اپنی ہڈی اتار کر اس پر پھینکتا ہوا غصہ سے اردو میں بولا
” اٹھو یہاں سے اور اندر جاؤ !! میں آئندہ تمہیں اس طرح نا دیکھوں ۔۔۔”وہ سر جھکائے اس کی ہڈی کو خود پر لیتی ہوئی سویرا کو دیکھ کر اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا
سویرا نے کھڑے ہوئے کی کوشش کی لیکن کراہ کر رہ گئی اس کے پیر پر ٹھیک ٹھاک چوٹ لگی تھی ۔
” بریڈلی میری ہیلپ کرو سویرا کو اندر لیکر چلتے ہیں ۔۔۔۔” اینا نے سویرا کی سمت بڑھتے ہوئے کہا
” کسی کی ہیلپ نہیں چاہئیے ۔۔۔۔۔” شہریار نے دونوں کو ٹوکا اور پھر ایک جھٹکے سے سویرا کو بازوؤں سے پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا
” چلو ۔۔۔۔” وہ اسے اپنے مضبوط بازوؤں کا سہارا دیتے ہوئے اندر بڑھا
اینا اس کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھی ہی تھی کہ بریڈلی نے اسے روک لیا
” سوئیٹ ہارٹ ابھی اندر مت جاؤ کچھ دیر کے لئیے انہیں اکیلا چھوڑ دو ۔۔۔۔”
***********************
شہریار اس کا سارا وزن اپنے بازوؤں پر سہارتے ہوئے اسے اندر لیکر آیا ۔
” کون سے روم میں ٹہری ہو تم ؟؟ ” اس نے سیڑھی کے پاس رک کر سوال کیا
” وہ !!! ” سویرا ہچکچائی
” وہ کیا ؟؟ سنو لڑکی مجھ سے سیدھی بات کیا کرو ۔۔۔۔”
“وہ اوپر سارے روم لاک ہیں اس لئیے میں اینا اور بریڈلی لیونگ روم شئیر کریں گئے ۔۔۔”
” تمہارا دماغ درست ہے ؟؟ اوہ گاڈ یعنی اگر میں نہیں آتا تو تم ایک نامحرم کے ساتھ روم شئیر کرتی ۔۔۔۔” وہ غرایا اور ایک جھٹکے سے اسے اٹھا کر سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے لئیے مخصوص کمرے میں لا کر اسے صوفے پر بٹھایا
” تم ایک نہایت ہی بیوقوف لڑکی ہو !! ” وہ اسے کہتا ہوا اندر کیبنٹ کی طرف بڑھا اور فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اس کے پاس آیا جو لنگڑاتے ہوئے صوفے سے اٹھ کر بڑی مشکل سے خود کو گھسیٹتے ہوئے باہر جا رہی تھی
” کہاں جا رہی ہو ؟؟ ” وہ اس کے سامنے آکر رستہ روکتے ہوئے بولا
” پلیز میرا راستہ چھوڑیں !! مجھے یہاں نہیں رکنا ۔۔مجھے ۔۔۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے ۔۔۔۔” وہ روتے ہوئے بضد ہوئی
شہریار نے بغور اس کو دیکھا بنا دوپٹہ کے بنا سر ڈھکے وہ پہلی بار اس کے سامنے کھڑی تھی ریشمی سلکی بال پونی سے پوری طرح سے کھل اس کی کمر کو ڈھکے ہوئے تھے اس نے میکانیکی انداز میں سویرا کے بالوں کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔
” تم نے کس کی اجازت سے بال کٹوائے ۔۔۔۔” وہ اس کی سرخ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھ رہا تھا
” بال تو نہیں کٹوائے ۔۔۔۔” وہ بوکھلائی
” پہلے تماری بال کمر سے نیچے تک آتے تھے اور اب صرف کمر تک آرہے ہیں ۔۔۔۔” وہ بولنے کے بعد خود بھی حیران رہ گیا اس نے بھلا سویرا کے بال کب نوٹ کئیے کہ ذرا سی تبدیلی بھی بھانپ گیا تھا
” پلیز میرا راستہ چھوڑیں مجھے جانا ہے ۔۔۔۔۔” وہ اس کی خود پر جمی نظروں کے ارتکاز کو برداشت نہیں کر پارہی تھی
” سنو لڑکی !!! ” وہ اس کے قریب ہوا
” تمہارا پر راستہ مجھ سے شروع ہو کر مجھ پر ہی ختم ہوتا ہے اس بات کو اپنے دماغ میں اچھی طرح سے بٹھا لو ۔۔۔۔۔” اس نے سویرا کو جکڑ کر اپنے بازوؤں میں سنبھالا اور اسے بیڈ پر تقریباً پٹخنے والے انداز میں لٹایا ۔۔
” اب اگر تم ادھر سے ہلی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دونگا ۔۔۔۔” وہ غرایا
سویرا اس کا غصہ دیکھ کر چپ چاپ ہو گئی اب شہریار نے اس کا پیر تھام کر جوتا اتارا اس کا پیر سوج رہا تھا اس نے تاسف سے اس کے سوجے ہوئے پیر کو دیکھا اور فرسٹ ایڈ باکس سے مرہم نکلا۔
____________
وہ بہت تاسف سے اس کا سوجا ہوا سرخ پیر دیکھ رہا تھا اس نے فرسٹ ایڈ باکس سے ڈھونڈ کر پین گے کریم اور درد کی گولی نکالی ۔۔
“تم کب میچیور ہو گی؟ دیکھو ہماری کچھ خاندانی روایات ہیں۔ ہمارے گھر کی لڑکیوں کو سات پردوں میں رکھا جاتا ہے۔ میں سب سے لڑ کر تمہیں پڑھا رہا ہوں کہ تم اپنی لائف بناؤ ، خاندان کی آنے والی لڑکیوں کیلیے مثال بنو لیکن تم! مجھے یہ دوستی وغیرہ پسند نہیں ہے آئندہ خیال رکھنا۔” وہ نرمی سے مرہم اس کے پیر پر لگا کر سیدھا ہوا اور ٹیبلٹ اس کی سمت بڑھائی جسے سویرا نے چپ چاپ تھام لیا۔
اس نے خاموشی سے دوا کھاتی سویرا کو بغور دیکھا۔ اس کا چہرہ نکھرا نکھرا سا لگ رہا تھا۔ خوبصورت بال ترتیب سے کٹے ایک آبشار کا سا منظر پیش کر رہے تھے۔
” اچھی لگ رہی ہو لیکن اپنی یہ خوبصورتی کو صرف مجھ تک محدود رکھو ، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔” وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اس کے گلے میں پڑا اسٹالر اتار کر اسے لٹاتا ہوا باہر نکل گیا۔
اب اس کا رخ باہر کی جانب تھا وہ اینا کی کلاس لینے کا موڈ بنا چکا تھا۔
باہر باغیچہ میں اینا اور بریڈلی میز سجائے باتوں میں مصروف تھے، جب شہریار ان کی طرف آیا۔
” سر! آئیے آپ کا ہی انتظار کررہے تھے ہم، ڈنر شروع کریں۔” اینا خوشدلی سے مسکرائی۔
” سویرا سس کدھر ہے؟ ” بریڈلی نے اس کے پیچھے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“وہ آرام کررہی ہے۔” شہریار کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے روکھے لہجے میں بولا۔
“سر! ”
اینا جو اس کا موڈ بھانپ چکی تھی۔ اس سے پہلے وہ اس کی کلاس لیتا وہ اسے مخاطب کر گئی۔
” سر! آپ کی منگنی کی خوشی میں ہم میں سے کسی نے بھی لنچ تک نہیں کیا تھا بلکہ آپ کی تقریب میں ، میں اور مس سویرا سب سے اچھے لگیں، اس لیے ہم دونوں پارلر چلی گئی تھیں۔”وہ فر فر رپورٹ دے رہی تھی۔
” مس اینا! یہ آپ مجھے کیوں بتا رہی ہیں؟ ” اس نے اینا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔
” وہ سر! بل تو آپ کے کارڈ سے پے کیا تھا نا ، تو اس لیے سوچا آپ کو بتا دوں ویسے آپ نے نوٹ کیا۔
Miss Sawera is looking very Gorgeous after that۔”
” ہمم ! ” وہ ہنکارا بھر کر خاموش ہو گیا۔
” مسٹر شہریار! آپ یہ فوڈ اوپر لے جائیں۔ سویرا صبح سے بھوکی ہے۔ اسے بھی کھلائیں اور خود بھی ٹرائے کریں۔ اپنی فیملی کے ساتھ انجوائے کریں اور میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ انجوائے کرتا ہوں۔ ویسے تکلف مت کریں۔ سب آپ کا ہی مال ہے۔” بریڈلی مسکراتے ہوئے ایک پلیٹ میں لوازمات رکھ کر اس کی سمت بڑھاتے ہوئے بولا۔
شہریار نے خاموشی سے پلیٹ تھامی اور کھڑا ہوا۔
” ویسے برو! آپ کا ہاتھ بہت سخت ہے۔” بریڈلی نے شرارت سے کہا۔
” کیوں دوبارہ کھانے کا موڈ بن رہا ہے کیا؟ ” شہریار نے گھورا۔
بریڈلی نے ہنستے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ شہریار ان دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اندر چلا گیا۔
“ہے اینا! تم کیا کررہی ہو۔” وہ سیل فون پر نمبر لگاتی اینا سے مخاطب ہوا۔
“ششش” اینا نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
” ہیلو مادام عروہ! کیسی ہیں آپ؟ ”
” اینا تم اس وقت! کیا مصیبت ہے میں کلب میں ہوں لے کر ڈسٹرب کردیا۔” عروہ ڈانس فلور سے اتر کر نیچے آئی۔
” مادام مجھے آپ سے گیسٹ لسٹ چاہیے تھی۔”
” تو کیا تم صبح کا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ میں کیا گیسٹ لسٹ گلے میں لٹکا کر گھومتی ہوں۔ ” عروہ تپی۔
” مادام! سر شہریار خود گیسٹ لسٹ لکھوا رہے تھے۔ پھر مس سویرا کو چوٹ لگ گئی تو وہ انہیں اپنے بیڈ روم میں لے گئے۔ اب آپ خود دیکھیں اتنی رات ہو گئی ہے۔ میں کب تک ان کے روم سے آنے کا ویٹ کروں۔ اس لیے سوچا آپ سے ہی پوچھ لیتی ہوں۔” اینا معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے بولی۔
” شیری کدھر ہے۔” عروہ کے تو سر پر لگی تلوؤں پر بجھی۔
” میم وہ ادھر فارم ہاؤس میں اپنے بیڈروم میں ہیں مس سویرا کے ساتھ۔”
ٹو ٹو ٹو، لائن کٹ چکی تھی۔ اینا نے فون بند کرکے بریڈلی کو دیکھا۔
” یہ کیا کیا تم نے؟ اب وہ چڑیل شہریار کو فون کرکے ڈسٹرب کریگی۔” بریڈلی ابھی بول ہی رہا تھا کہ گھاس پر سے کسی فون کی بیل سنائی دی۔ اس نے آگے بڑھ کر گرا ہوا فون اٹھایا۔ جس پر عروہ کالنگ لکھا ہوا آرہا تھا۔
” سر جب چیئر پر بیٹھے تھے۔ یہ فون ان کی پاکٹ سے گر گیا تھا۔ اس لیے میں نے سوچا عروہ میڈم پر تھوڑا نمک ہی چھڑک دوں۔ ” اینا کھلکھلا کر ہنسی۔
” سویٹ ہارٹ تم نے تھوڑا نمک نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی مرچیں لگا دی ہیں۔” بریڈلی اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے بولا۔
” اب صبح مزا آئیگا دیکھنا یہ صبح ہوتے ہی پہنچ جائے گی۔” اینا کی آنکھیں چمک رہی تھی۔
*******************
شہریار سیڑھی کے پاس پڑا سویرا کا بیگ اٹھاتے ہوئے ایک ہاتھ میں پلیٹ پکڑے ہوئے اوپر روم میں آیا۔ دروازہ لاک کرکے بیگ ایک کونے پر ڈالتے ہوئے وہ بیڈ کی سمت آیا تو سویرا سو چکی تھی۔ اس نے پلیٹ میز پر رکھی اور لائٹ آف کر کے زیرو بلب جلا کر خود بھی صوفے پر سونے لیٹ گیا۔ اس کا چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا وجود کسی بھی طرح صوفے پر فٹ نہیں ہو رہا تھا۔ اس پر بار بار سویرا کا بریڈلی کے ساتھ کھلکھلا کر ہنسا ہوا چہرہ اس کی نگاہوں میں آرہا تھا۔ وہ تنگ آکر اٹھا اور بیڈ پر جا کر تکیہ سیدھا کرکے لیٹ گیا۔
برابر میں لیٹا نازک وجود اس کی توجہ کھینچ رہا تھا۔ اس نے سویرا کی جانب کروٹ لی ، پنک کرتی میں بنا دوپٹے کے اس کا خوبصورت و دلکش وجود بے حد نمایاں تھا۔
گلابی رنگت پر گھنی سیاہ پلکوں سے سجا خوبصورت چہرہ ، اس کے کالے سیاہ گھنے بال بستر پر بکھرے ہوئے تھے ، اسکی مدھم سانسوں کا زیر و بم اور جوانی کی سرحدوں کو چھوتا نازک سراپا شہریار کے ہوش اڑائے دے رہا تھا۔ وہ ایک دلکش دوشیزہ کے روپ میں اس کے سامنے تھی ، اس کی ملکیت تھی۔ وہ اس پر سارے حق رکھتا تھا۔اس نے دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے مضبوط بازوؤں کی آغوش میں لیا۔
سویرا نیند میں گم تھی۔ جب اسے اپنے وجود پر کسی کی نرم گرفت اور گرم سانسوں کا احساس ہوا۔ وہ کسمسائی، اس سے پہلے وہ مکمل ہوش میں آکر چیخ مارتی شہریار نے تیزی سے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا۔
” ششش! میں ہوں۔” وہ اس کے کانوں میں بولا۔
وہ تیزی سے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس سے دور ہونے لگی تھی کہ وہ بڑے آرام سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوا اس کے اٹھنے کی کوشش ناکام کر گیا۔
” پلیز ہاتھ چھوڑیں۔ ” وہ منمنائی۔
” آپ ادھر کیا کررہے ہیں۔ ” وہ پریشان ہوئی۔
” اپنی بیوی کے ساتھ ٹائم اسپینڈ کررہا ہوں کوئی پرابلم؟ ” اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
” آپ شاید بھول رہے ہیں میں! میں عروہ نہیں ہوں۔ ” اس کی آواز بھرا گئی۔
” نہیں! مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ میں کس کے ساتھ ہوں اب بس نو مور آرگومنٹ۔ ”
” عروہ جی خفا ہونگیں دو روز بعد آپ کی ان سے منگنی ہے، پلیز ایسا مت کریں۔ وہ، وہ مجھے الزام دیں گی۔” سویرا کا ضبط جواب دے گیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
” عروہ! تمہارا مسئلہ نہیں ہے انڈر اسٹینڈ! اور ویسے بھی جب یہ طے ہے کہ تمہیں میرے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو پھر تمہیں میرے اصولوں پر چلنا ہوگا۔ تم وہ کرو گی جو میں کہوں گا دیٹس فائنل۔ ” وہ سختی سے بولا۔
” آپ ! آپ!!؛سمجھ کیوں نہیں رہے میں، میں نہیں چاہتی آپ! آپ!! ” وہ سسک اٹھی۔
” سنو لڑکی! مجھے اس حد تک تم خود لائی ہو۔ ویسے بھی میں اپنی بے جان چیزوں کو کسی کو ہاتھ لگانے نہیں دیتا اور تم! تم تو میری بیوی ہو۔ میرے نکاح میں ہو۔ میں تم پر ، تمہاری سانسوں پر ، تمہارے وجود پر مکمل ملکیت کا حق رکھتا ہوں۔ ” وہ حتمی انداز میں بولا۔
” ممم میں ایسا نہیں۔ ”
” مگر میں ایسا چاہتا ہوں۔ ” اس نے نرمی سے اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا۔
” سنو لڑکی! میں ان آنسوؤں سے پگھلنے والا نہیں ہوں۔ بیوی ہو، بیوی بن کر رہو ۔ اب بس۔۔۔ ” وہ اسے ٹوکتے ہوئے دوبارہ اپنی آغوش میں لے چکا تھا۔۔
*****************
عروہ پوری رات شہریار کا فون ملاتی رہی تھی۔ اس کا ایک ایک پل جیسے انگاروں پر کٹ رہا تھا۔ اگر رات میں فارم ہاؤس کو جانے والا رستہ بند نہیں ہوتا تو وہ رات ہی ادھر جا چکی ہوتی۔ صبح ہوتے ہی وہ تیزی سے لباس تبدیل کر کے فارم ہاؤس روانہ ہو چکی تھی۔
سویرا اور شہریار ایک ساتھ، یہ سوچ اس کا فشار خون بلند کررہی تھی۔ وہ بدلہ، انتقام اور سویرا کو اذیت دینے کے طریقے سوچ رہی تھی۔
” شہری اگر تم نے مجھے چیٹ کیا تو، تو میں تمہاری اس سو کالڈ دیسی بیوی کا وہ حشر کرونگی کہ ” سوچتے سوچتے اس کا دماغ پھٹنے لگا تھا۔ اس نے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا۔ صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ وہ ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھاتے ہوئے گاڑی دوڑا رہی تھی۔
******************
نہ جانے کب اپنی سسکیاں دباتے ہوئے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ لیکن فجر کے وقت معمول کے مطابق اس کی آنکھ کھل چکی تھی۔ وہ اس وقت بھی شہریار کے حصار میں قید تھی۔ وہ پرسکون گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ آہستگی سے اس کی گرفت سے نکلتے ہوئے فریش ہونے چلی گئی۔ نہا دھو کر وضو کرنے کے بعد وہ فجر کی نماز پڑھنے کے لئے کمرے میں آئی۔
بڑی مشکل سے کمرے میں جائے نماز برآمد کرکے وہ نماز کی نیت باندھ چکی تھی۔ نماز پڑھنے کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اس کا دماغ خالی تھا۔ لب ساکت تھے اب شاید کوئی دعا اثر نہیں کرنے والی نہیں تھی ، وہ دونوں ہاتھ بارگاہِ الٰہی میں پھیلائے بس آنسو بہا رہی تھی۔ اس نے زندگی کے ایسے رخ کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ شہریار اس کے سر کا سائیں تھا لیکن وہ کئی بار اس کی ، اس کی ذات کی نفی ببانگ دھل کر چکا تھا اور رات بھی اس نے اپنے رویہ سے اچھی طرح واضح کر دیا تھا کہ وہ اس کے لیے بس ایک ملکیت ہے۔ یہ دل کا سودا کم از کم اس کی نظر میں ہر گز نہیں تھا۔
” یا اللہ میں نے اپنا ہر معاملہ تجھ پر چھوڑ دیا ہے۔ ” وہ سسک اٹھی۔
شہریار نے نیند میں سویرا کو اپنی آغوش میں لینا چاہا تو وہ بستر پر نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں جھٹ سے کھل گئیں۔ رات کی بے اختیاری کے کئی مناظر اس کی نظروں میں گھوم گئے تھے۔ یہ کوئی لمحاتی فیصلہ نہیں تھا۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر سویرا کی جانب بڑھا تھا۔ ابھی وہ تکیہ سے ٹیک لگا کر اٹھا ہی تھا کہ اس کی نظر سامنے جائے نماز پر دونوں ہاتھ اٹھائے ساکت بیٹھی سویرا پر پڑی۔ وہ آرام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ سویرا کی شدت گریہ سے سرخ آنکھیں اور ان آنکھوں سے روانی سے بہتے ہوئے آنسو کچھ بھی اس کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا۔
سویرا جائے نماز سمیٹ کر اٹھی ہی تھی کہ شہریار نے اسے آواز دی۔
” سنو لڑکی! ادھر آؤ۔”
وہ چپ چاپ سر جھکائے کھڑی رہی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہیں غائب ہو جائے۔
” کیا کانوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے؟ ادھر آؤ۔ ” وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
سویرا نہ چاہتے ہوئے بھی مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بستر سے اترا اور اس کے نزدیک پہنچ کر نماز کے اسٹائل میں بندھا دوپٹہ کھول دیا۔ جس سے اس کے گیلے خوشبودار بال ایک جھٹکے سے اس کے کندھوں پر پھسل گئے۔
” یہ رونا دھونا، یہ بلاوجہ کی افسردگی یہ کیا ہے؟ ” وہ اس کے گیلے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے گویا ہوا۔
وہ لرز کر پیچھے ہوئی۔
” تمہاری ہر ذمہ داری میری ہے۔ بس تم اس بات کا خیال رکھنا کہ تمہاری زندگی میں مجھ سے زیادہ ضروری کوئی کام ، کوئی انسان نہیں ہونا چاہیے۔” وہ اسے باور کروا رہا تھا۔
“اب تمہارا پیر کیسا ہے؟” اس نے کسی بےجان گڑیا کی طرح ساکت کھڑی سویرا سے پوچھا۔
” جی ٹھیک ہے۔ ” وہ ناگواری دباتے ہوئے آہستگی سے بولی۔
” اوکے! تو جاؤ نیچے دائیں ہاتھ پر کچن ہے۔ میرے لیے ایک اسٹرانگ سی کافی تیار کرو۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔ ” وہ اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے پیچھے ہٹا اور واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
سویرا اس ایک لمحے کے حصار میں قید ہو گئی تھی۔ شہریار نے جو اس کی پیشانی پر نرمی سے اپنا لمس چھوڑا تھا۔ اس لمس میں اسے عزت کا احساس ہوا تھا۔ ایک مان ایک عقیدت کا احساس ہوا تھا۔ ایسے تو سالوں سے کسی نے اسے پیار نہیں کیا تھا۔ جب بابا زندہ تھے تب وہ روز اس کی پیشانی چوم کر دعا دیا کرتے تھے۔
” اففف!! ” وہ جھرجھری لیکر اس لمحے کی قید سے آزاد ہوئی اور سر پر دوپٹہ اوڑھتی ہوئی نیچے کچن کی تلاش میں چلی گئی۔
****************
دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ فارم ہاؤس پہنچ چکی تھی۔ بڑا سا آہنی دروازہ کھلا ہوا تھا م۔ اندر مالی پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ بڑے سے لاونج میں صوفے پر اینا سو رہی تھی اور نیچے کشن رکھ کر کوئی لڑکا سویا ہوا تھا۔ وہ نخوت سے ان دونوں کو دیکھتی ہوئی آگے بڑھی۔ ابھی اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ اسے کچن میں سے کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی۔ وہ اوپر جانے کا اردہ ترک کر کے کچن کی طرف بڑھی۔ سامنے ہی نہائی دھوئی گیلے بال پشت پر ڈالے سویرا بڑے انہماک سے کافی بنا رہی تھی۔ وہ دبے قدموں چلتی ہوئی سویرا کے پاس آئی اور اس کے بالوں کو بے دردی سے اپنی مٹھی میں جکڑ کر ایک زور دار جھٹکا دیا۔
” ہائے اللہ۔۔۔ ” سویرا کے منھ سے فلک شگاف چیخ نکلی۔
شہریار کے واش روم میں جانے کے بعد وہ دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی سامنے ہی داہنی جانب کافی کشادہ اٹالین طرز کا بنا ہوا کچن تھا۔ وہ اندر داخل ہوئی پورا کچن صاف ستھرا تھا۔ بڑے سے سلیب پر کافی میکر ، ٹوسٹر اور ہر طرح کی جدید مشینری موجود تھی۔ اس نے ایک دو درازیں کھول کر کافی کا سامان برآمد کیا اور پانی ابلنے رکھ کر مگ میں کافی پھیٹنے لگی۔
رات شہریار کے رویے نے اسے بہت ہرٹ کیا تھا۔ لیکن، ابھی وہ اس لمحہ کے حصار میں قید تھی۔ جب شہریار نے پیار سے ، عزت سے اس کی پیشانی پر اپنا لمس چھوڑا تھا۔ اس نے مگ رکھ کر دھیرے سے اپنی پیشانی کو چھوا۔ جو بھی تھا شہریار میں تھوڑی انسانیت باقی تھی۔ وہ تو ویسے بھی زبردستی اس کے گلے پڑے تھی اور پھر مفت میں گلے پڑی ان چاہی ذمہ داری کو کون نبھاتا ہے۔ دل میں شہریار سے شدید ڈر اور خوف رکھنے کے باوجود وہ اس کی مشکور تھی کہ وہ اسے اس زندان سے نکال کر لایا تھا۔ پڑھنے کا کیریئر بنانے کا موقع دے رہا تھا۔ مگر بہت سے سوال اس کے ذہن میں اٹھ رہے تھے۔ وہ ایک مشرقی لڑکی تھی۔ جو بچپن سے اپنے ساتھ شہریار کا نام سنتے ہوئے جوان ہوئی تھی اور اب۔۔۔
“اس سب کے بعد کیا واقعی شہریار دوسری شادی کرینگے؟ ” یہ سوچ اسے لرزنے پر مجبور کر رہی تھی۔
ابھی وہ کافی مگ میں ڈال رہی تھی۔ جب کسی نے بے دردی سے اس کے بال پکڑے۔ ڈر اور تکلیف کی شدت سے اس کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔
سویرا کی چیخ سنتے ہی ایک زور دار جھٹکا دیتے ہوئے عروہ نے اس کے بال اپنی مٹھی سے بڑی بے رحمی سے نوچنے کے بعد آزاد کردیے تھے۔
******************
شہریار فریش ہو کر آفس جانے کیلئے تیار ہو چکا تھا۔ اب وہ اپنا سیل فون پورے کمرے میں تلاش کررہا تھا۔ فون کی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد وہ بیڈروم سے باہر نکلا۔ اس کا رخ کچن کی طرف تھا۔ وہ نپے تلے قدم اٹھاتا کچن کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ اندر سے آتی عروہ کی آواز سن کر چونک گیا۔ اس کے ماتھے پر بل پڑنے شروع ہو چکے تھے۔
“مجھے تو پہلے ہی تم پر شک تھا۔ تمہاری نظر ہمیشہ سے ہی شیری پر تھی بولو؟ جواب دو؟ کس کی اجازت سے تم ادھر آئی؟ کس کی اجازت سے تم شیری کے کمرے میں رکی؟ ” وہ غرائی۔
وہ جواب دینا ہی چاہتی تھی کہ عروہ نے قریب آکر اس کا چہرہ اپنی انگلیوں کی گرفت میں جکڑا۔
” میرا شیری تو تمہیں گھاس تک نہیں ڈالتا یو بلڈی بچ! تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے اور شیری کے بیچ میں آنے کی؟ ” وہ اپنی انگلیوں کا دباؤ بڑھاتے ہوئے بولی۔
” یہ کیا ہو رہا ہے؟ ” شہریار یکدم سے کہتا ہوا عروہ کے سامنے آیا اور اس کی گرفت سے سویرا کا چہرہ چھڑوایا۔
” یہ تو تم بتاؤ گے ادھر کیا ہو رہا ہے؟ تم نے مجھے چیٹ کیا ہے شیری! میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کرونگی۔” وہ شہریار کے سینے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔
وہ نرمی سے عروہ کے ہاتھ تھام کر گردن موڑتے ہوئے فق کھڑی سویرا کی طرف متوجہ ہوا۔
” تم ادھر کھڑی کیا کررہی ہو؟ جاؤ یہاں سے۔” وہ سویرا کی نم آنکھوں کو گھورتے ہوئے بولا۔
سویرا تیزی سے اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئی۔
” How could you do this too me? ”
عروہ نے زخمی لہجے میں شہریار سے سوال کیا۔ جو سویرا کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
” تم ادھر کیوں آئی ہوں؟ اور تمہیں جو بھی بات کرنی تھی مجھ سے کرتیں۔ ” وہ خشک لہجے میں بولا۔
” اوکے تو تم بتاؤ وہ لڑکی رات بھر تمہارے روم میں کیوں تھی؟ “عروہ چیخی۔
“وہ بیوی ہے میری اور ظاہر ہے بیوی اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ ” وہ لاپرواہی سے کہتا ہوا کچن کاؤنٹر پر رکھی کافی مگ میں انڈیل کر باہر کی طرف مڑا۔
“کہاں جا رہے ہو؟ ” عروہ نے پیچھے سے آواز دی۔
“آفس” بغیر پلٹے وہ جواب دیتا ہوا آگے بڑھا۔
” تم ایسے کیسے جا سکتے ہو؟ ” وہ اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔
” میں تمہارا پابند نہیں ہوں ۔” وہ تلخ ہوا۔
” جو دھوکہ تم نے مجھے دیا ہے۔ اس کے بعد تم اپنے آپ کو ، اپنے کردار کو کیسے جسٹی فائی کروگے؟ بولو؟؟ “وہ پھٹ پڑی۔
“میں آفس جا رہا ہوں تم ساتھ چلو راستے میں بات کرتے ہیں۔ ” وہ سنجیدگی سے بولا۔
عروہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے باہر نکل گئی۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر شہریار نے عروہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر آکر سن گلاسز آنکھوں پر لگاتے ہوئے، وہ گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔ گاڑی مین سڑک پر پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی اور گاڑی کے اندر دو نفوس کی موجودگی کے باوجود سناٹا چھایا ہوا تھا۔
******************
آفس کی پارکنگ میں گاڑی روک کر شہریار باہر نکلا اور نپے تلے قدم اٹھاتے ہوئے عمارت کی جانب بڑھا۔ عروہ بھی کلستے ہوئے زور سے دروازہ بند کر کے اس کے پیچھے دانت پیستے ہوئے چل پڑی۔
گیٹ پر موجود دربان نے شہریار کو دیکھتے ہی تکریم کے ساتھ دروازہ وا کیا۔ وہ بڑے گریس کے ساتھ سب اسٹاف کے سلام پر سر ہلاتے ہوئے اپنے روم میں پہنچ چکا تھا۔
” رابرٹ! دو کافی لیکر آؤ۔ ” اس نے انٹر کام اٹھا کر اینا کے اسٹنٹ کو حکم دیا۔
” Have a seat Urwa! ”
وہ سنجیدگی سے عروہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود بھی بیٹھ چکا تھا۔ چند لمحوں میں دروازہ ناک کر کے رابرٹ کافی لیکر داخل ہوا اور شہریار کے حکم پر دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔
” کیا تم مجھے بتانا پسند کرو گے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ ” تم فارم ہاؤس میں اس چڑیل سویرا کے ساتھ کیا کررہے تھے؟ ” عروہ دروازہ بند ہوتے ہی پھٹ پڑی۔
” لسن کیئر فلی مس عروہ! وہ لڑکی میری وائف ہے اور سب سے بڑھ کر مجھے یہ سب کرنے پر تم نے مجبور کیا ہے۔ ” وہ دونوں ہاتھ میز پر ٹکاتے ہوئے بولا۔
“میں نے؟ اوہ کم آن! سیدھا سیدھا کہو نا اس کی کم عمری پر، اس کے حسن پر مر مٹے ہو۔ اتنے سالوں سے میرے ساتھ تھے۔ اس وقت تو تمہیں اپنی بیوی یاد نہیں آئی۔” وہ زہرخند لہجہ میں بولی۔
” عروہ انف! ” وہ دھاڑا۔
” تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں نے کبھی بھی تمہاری حوصلہ افزائی نہیں کی۔ تم خود میری طرف بڑھی تھی اور جب میں نے تمہیں شادی کی آفر کی تھی تو اس وقت تم نے انکار کردیا تھا۔ تم میرے اسٹیبلش ہونے کا ویٹ کرنا چاہتی تھی۔ تمہیں مجھے خالی ایک ماڈل کی حیثیت سے تسلیم کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ ” وہ اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔
“جو بھی تھا لیکن میرے اور تمہارے بیچ میں اس لڑکی کو نہیں آنا چاہئے تھا۔ ” وہ اپنی ضد پر اڑی ہوئی تھی۔
” مرد، مرد ہوتا ہے اور تم لڑکیاں اپنی بےباک اداؤں سے اسے خود اکساتی ہو۔ میں جیسا بھی ہوں، مگر گناہ اور ثواب کے فرق کو سمجھتا ہوں۔ میں نے کئی بار تمہیں شادی سے پہلے بے تکلف ہونے پر منع کیا مگر تم!
کل شام تم میرے جذبات کو بھڑکا گئی تھی۔ میں نے بمشکل اپنے نفس پر قابو پایا اور تمہیں گھر سے جانے کو کہا۔ ”
” شیری ہماری شادی ہونے والی ہے۔ تم نے خود کو کیوں روکا؟ جب مجھے کوئی ایشو نہیں تھا تو تم نے مجھے دور کیوں کیا؟ ” وہ بے باکی سے سوال کررہی تھی۔
” کیونکہ میں ایک مسلمان مرد ہوں ، گناہ گناہ ہی ہوتا ہے اور میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا کہ عزت صرف عورت کی میراث نہیں۔ بلکہ مرد کی بھی ہوتی ہے۔ تم نے میرے اندر طلب جگائی اور میں نے وہ طلب اپنے حلال رشتے سے بجھا لی۔ ” وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔
” شیری! مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ تم، تم اس لڑکی کو واپس پاکستان بھجوا دو یا کچھ بھی۔ بس اسے ہمارے درمیان سے نکال باہر کرو۔ ” وہ روہانسی ہوئی۔
” سچ یہ ہے کہ وہ نہیں، بلکہ تم درمیان میں آئی ہو۔ وہ تو اپنے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی میری زندگی میں آچکی تھی۔ لیکن میں اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ پھر بار بار اس کو جوان کہنا ، اس کے حسن کی تعریف کرنا یہ سب کر کے تم نے خود میری توجہ اس کی طرف مبذول کرائی اور اب سمپل سی بات ہے۔ وہ میری پہلی بیوی ہے۔ خاندانی ہے، میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ ”
” اور میں؟ میرا کیا ہوگا؟؟ ” عروہ نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
” تم! اپنی لائف میں آگے بڑھ سکتی ہو۔ کسی بھی اچھے آدمی کے ساتھ سیٹ ہو سکتی ہو۔ ”
” شیری کل ہماری منگنی اناؤنس ہو چکی ہے اور تم اب مجھ سے بریک اپ کررہے ہو؟ میرے پیرنٹس رشتے دار سب۔ او گاڈ! میرے ڈیڈ کو تو ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے۔ نہیں مسٹر شیری! تم ایسا نہیں کر سکتے۔ تم نے مجھے زبان دی تھی۔ اگر مرد ہو تو اپنی زبان نبھاؤ۔ ” عروہ نے اس پر پریشر ڈالا۔
” اوکے اگر تمہیں میری دوسری وائف بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور تم سویرا کو میری پہلی وائف کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ” وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سرد انداز میں بولا۔
” ٹھیک ہے۔ ” وہ بددقت مسکراتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔
” اپنے آفس ڈرائیور سے کہو مجھے میرے گھر ڈراپ کر دے۔ کل شام میں ملتے ہیں اپنی انگیجمنٹ پارٹی میں۔ ” وہ باہر نکل گئی۔ اس کے چہرے پر گہری سوچ کی پرچھائیاں تھیں۔ اس کی انگلیاں چلتے ہوئے ڈاکٹر اینڈریو کا نمبر ڈائل کررہی تھی۔
******************
اینا کی آنکھ لاونج میں شیشے کی دیوار سے آتی سورج کی تیز کرنوں سے کھلی۔ جو اس کے چہرے پر چمک رہی تھیں۔ ایک بھرپور انگڑائی لے کر وہ صوفے پر اٹھ کر بیٹھ گئی ، نیچے ہی کشن کو منھ پر رکھے بریڈلی گہری نیند میں مگن تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بریڈلی کو دیکھنے لگی۔ تبھی اسے باہر گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی۔ وہ تیزی سے اٹھ کر شیشے کی وال کے پاس آئی۔ سامنے ہی باس اور مس عروہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ دونوں کے چہروں پر بلا کی سنجیدگی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر شہریار کے کمرے میں آئی۔ دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا اور سویرا چپ چاپ کسی پتھر کی مورت کی طرح کارپٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے گالوں پر انگلیوں کے نشان تھے۔ جیسے کسی نے بے رحمی سے اس کا چہرا دبوچا ہو۔
” سویرا! سوئیٹ ہارٹ کیا ہوا ہے؟ ” وہ پریشانی سے اس کا سرد ہاتھ سہلاتے ہوئے بولی۔
سویرا نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ جو اس وقت شہریار کے بے گانگی سے اسے کچن سے نکالنے والے رویے اور عروہ کو نرمی سے ہاتھ پکڑ کر سمجھاتے دیکھ کر شاکڈ تھی۔ اینا کو دیکھ کر بکھر گئی۔اینا تاسف سے سب کچھ سن رہی تھی۔ اس کے آنسو پونچھ رہی تھی۔ اس کا اپنا دل اس معصوم کے نقصان پر رو رہا تھا ۔
” سویرا بس کرو! اب تم ایک آنسو بھی نہیں بہاؤ گی اور اٹھو یہاں سے۔ اب چاہے کچھ بھی ہو جائے تم اس ظالم انسان کے کمرے میں نہیں رہو گئی اور نا ہی اسے اپنے پاس آنے دو گی۔ ” اینا نے اسے کھڑا کیا۔ سارے ملازمین آچکے تھے۔ ایونٹ آرگنائزر بھی آچکے تھے۔ اینا، بریڈلی اور سویرا تینوں خاموشی سے سب کو اپنا اپنا کام کرتے دیکھ رہے تھے۔ دن ڈھلنے لگا تھا۔ بریڈلی نے زبردستی اینا اور سویرا کو کھانا کھانے پر مجبور کیا۔
اینا ہاؤس کیپر سے سارے کمرے بھی کھلوا چکی تھی۔ وہ تینوں دن بھر کے تھکے ہارے اب سونا چاہتے تھے۔
” سویرا تم اس سب سے کونے والے روم میں رہو گی۔ میں نے تمہارا سامان ادھر شفٹ کروادیا تھا۔ ” اینا نے اسے روم دکھایا۔
” سویرا! ” بریڈلی چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔
” سسٹر! تم یہ وقت حوصلے سے گزار لو۔ تین دن بعد یونیورسٹی کھلنے ہی والی ہے۔ میں تمہارا انتظام کیمپس میں کرواتا ہوں۔ تمہیں اس سنگدل انسان کے گھر رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ”
**************
اپنے تمام کام اور میٹنگز نبٹا کر اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا تو سوئی شام کے چھ بجا رہی تھی۔ وہ کمر سیدھی کر کے اٹھا اور آفس سے باہر نکلا۔ اس کا رخ جیولری شاپ کی طرف تھا۔ وہ سویرا کیلئے انگوٹھی لینا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ سویرا اور عروہ میں کوئی فرق رکھا جائے۔ ایک مشہور شاپ پر رک کر وہ سویرا کے لیے ڈائمنڈ رنگ پسند کر رہا تھا۔ جب اس کی نظر ڈسپلے پر موجود ایک خوبصورت سی چین پر پڑی۔
سویرا کی نازک سی گردن اس کی آنکھوں میں لہرائی۔ وہ مسکراتے ہوئے چین اور رنگ نکلوا چکا تھا۔ پیمنٹ کرنے کے بعد اب اس کا رخ فارم ہاؤس کی جانب تھا۔ رات گئے جب وہ اپنے فارم ہاؤس پہنچا تو باہر کا بڑا باغیچہ سجا ہوا تھا۔ ہر طرف ریشمی پردے ، فینسی لائٹس اور خوبصورت للی کے پھول سج چکے تھے۔ وہ تمام ڈیکیوریشن پر نظر ڈالتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ چاروں جانب سناٹا چھایا ہوا تھا۔ شاید سب تھک ہار کر سونے چلے گئے تھے۔ وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنے کمرے میں آیا۔ لائٹ آن کی۔سویرا کمرے میں نہیں تھی۔ اسے کمرے میں نا پا کر اسے شدید غصہ آیا تھا۔ وہ اسے ڈھونڈتے ہوئے باہر نکلا۔ لاؤنج، کچن اور گیسٹ روم، وہ کہیں بھی نہیں تھی۔ اس کا میٹر گھوم چکا تھا۔ اتنے بڑے فارم ہاؤس میں وہ احمق لڑکی نا جانے کہاں تھی۔ اس نے اپنا سیل فون نکالا اور سویرا کا نمبر ڈائل کرکے اوپری منزل کے کمرے چیک کرنے لگا۔ تبھی راہدری کے سب سے آخری سرے والے کمرے سے اسے فون کی بیل بجتی سنائی دی۔ وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے غصہ سے لب بھینچے سنجیدہ اور تیکھے نقوش کے ساتھ کمرے_ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا
__________________
میں وہ ہستی ہوں جو محسوس کرتی ہے
تیری کمی سائیاں
میں وہ ہستی ہوں جو رل جاتی ہے
تیری کمی کے باعث
میں وہ ہستی ہوں جو بکھر جا تی ہے
تیری کمی کے باعث
میں وہ ہستی ہوں جو بکھر جاتی ہے
تیری کمی کے باعث
میں وہ ہستی ہوں جو روندی جاتی ہے
تیری کمی کے باعث
میں وہ ہستی ہوں جو توڑی جاتی ہے
تیری کمی کے باعث
میں وہ ہستی ہوں جو ہے لاوارث
تیری کمی کے باعث
میں وہ دنیا ہوں جہاں تیری کمی ہے
بابا!!
میں وہ دنیا ہوں جہاں تیری کمی ہے
بابا!!( شزا خان )
وہ اکیلی اس کمرے میں بیٹھی اپنے بابا کو یاد کررہی تھی۔ اینا اور بریڈلی دونوں کافی دیر تک اس کے پاس بیٹھے اس کا دل بہلاتے رہے تھے۔ اب وہ دونوں بھی سونے کے لیے جاچکے تھے۔
” بس ایک اور رات، پھر کل آپ کی زندگی میں عروہ آ جائے گی اور میں نکل جاؤنگی۔ میں اب کسی کو اپنے اوپر ترس کھانے نہیں دونگی۔ چاہے آپ ہی کیوں نہ ہوں۔ ” وہ بڑبڑائی۔
” کتنی لمبی کتنی سیاہ رات ہے میری قسمت کی طرح۔ سچ کہتے ہیں سب جن کے سر پر باپ کا سایہ نہ ہو۔ وہ ایسے ہی روندے جاتے ہیں۔ ” اس نے سسکی بھری۔ جو بھی تھا شہریار نے اسے برت لیا تھا۔ اب وہ کرے تو کیا کرے۔ سسکیاں لیتے لیتے وہ کب نیند کی وادیوں میں اتر گئی اسے خود بھی پتا نہیں چلا۔شہریار اپنا فون بند کرکے تیزی سے لب بھینچے اندر داخل ہوا۔ کمرے میں نائٹ بلب کی نیلگوں سی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے دیوار کی سائڈ پر نصب سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لائٹ جلائی۔ پورا کمرہ جگمگا اٹھا تھا۔ سامنے ہی بیڈ پر سویرا محو خواب تھی۔ اس کا سیل فون بیڈ کی سائیڈ پر رکھا ہوا تھا۔ وہ مضبوطی سے قدم اٹھاتے ہوئے بیڈ کے پاس آیا۔ اس کا ارادہ سویرا کو جگانے کا تھا۔ لیکن وہ اس کا چہرہ دیکھ کر چونک گیا۔ سرخ و سفید نازک سے چہرے پر انگلیوں کے نشانات تھے۔ چہرے پر ایک تکلیف دہ اداسی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے جھک کر دھیرے سے اپنی شہادت کی انگلی اس کے چہرے پر ثبت انگلیوں کے نشانات پر پھیری۔ اس کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو گئیں تھی۔
” یہ کیسے ہوا؟ ” وہ پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
صبح جب وہ تیار ہو کر کچن میں آیا تھا تو عروہ نے سویرا کے چہرے کو پکڑا ہوا تھا۔ اس وقت اسے اندازہ نہیں ہوا کہ وہ اتنی بے رحمی سے سویرا کے چہرے پر اپنی انگلیوں سے دباؤ ڈال رہی تھی، وہ تو اس وقت عروہ کو وہاں سے ہٹا دینا چاہتا تھا تاکہ عروہ اپنی زبان سے سویرا کو مزید ہرٹ نہ کرے۔ ویسے بھی وہ عروہ کو اپنے اور سویرا کے رشتے کی حقیقت بتا دینا چاہتا تھا۔ اسی لیے وہ عروہ کو آفس لے گیا تھا۔ تاکہ کھل کر بات کر سکے۔ لیکن عروہ تو جونک کی طرح اس سے چمٹ گئی تھی۔ حتیٰ کہ دوسری بیوی تک بننے کو تیار تھی۔ سویرا نیند میں تھی۔ جب اسے اپنے چہرے پر کسی مردانہ لمس کا احساس ہوا۔ کوئی اس کے چہرے کو بڑے پیار سے سہلا رہا تھا۔ جیسے بابا بچپن میں اسے اسکول کے لیے جگاتے وقت کرتے تھے۔ وہ بابا کی یاد آتے ہی نیند میں مسکائی اور اپنی مندی مندی آنکھیں کھولیں۔
” آپ! ” وہ خود پر شہریار کو جھکے دیکھ کر تیزی سے پیچھے سرک گئی۔
“تم ادھر کیا کررہی ہو؟ ” وہ اسے گھور رہا تھا۔
” میں! ” وہ بوکھلائی ، دور جانے کا دعویٰ کرنا الگ بات۔ لیکن شہریار کو سامنے دیکھ کر وہ ہمیشہ گھبرا جاتی تھی۔
” تمہیں سارے فارم ہاؤس میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گیا میں اور تم ادھر آرام سے سو رہی ہو۔ زندگی اجیرن کر دی ہے میری ، اب میرا منھ کیا دیکھ رہی ہو؟ اٹھو اپنے کمرے میں چلو۔ ” وہ اس پر غصہ ہونے لگا۔
” میرا کوئی کمرہ نہیں ہے اور پلیز آپ جائیں یہاں سے۔ ” سویرا نے بڑی ہمت سے بیٹھتے ہوئے اسے جواب دیا۔
” ہمم ہوگیا تمہارا؟ ” اس نے بازو سے پکڑ کر اسے کھڑا کیا اور اسے ہاتھ سے پکڑے گھسیٹتا ہوا اپنے کمرے میں لایا۔
” جہاں میں رہونگا وہی تمہارا کمرہ ہوگا انڈر اسٹینڈ؟ ” وہ اس کا ہاتھ آزاد کرتے ہوئے بولا۔
سویرا اپنی کلائی مسلتے ہوئے دوبارہ دروازے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ الماری سے فرسٹ ایڈ باکس نکالتا ہوا شہریار غضب ناک انداز میں اس کی طرف بڑھا۔ ایک ہاتھ سے اس کے بازو کو جکڑ کر دوسرے ہاتھ سے زور سے دروازہ بند کر کے لاک لگایا۔
” تمہیں ایک بار کی کہی بات سمجھ نہیں آتی کیا؟ ” وہ غرایا۔
” مم مم۔۔۔ ”
” یہ کیا بکریوں کی طرح منمنا رہی ہو؟ سیدھی طرح سے اپنی جگہ پر جاؤ۔ ” وہ بیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
“میری جگہ ادھر نہیں ہے۔ میں یہاں سے، آپ کی زندگی سے ،آپ کے گھر سے کہیں دور جانا چاہتی ہوں۔ ” وہ ہمت مجتمع کر کے بولی۔
” کہاں جاؤ گئی ؟ ” شہریار کے ماتھے پر رگیں تن گئی تھیں۔
” کسی بھی ہاسٹل میں ، ویسے بھی آپ کب تک اس مجبوری کے زبردستی کے رشتے کو نبھائیں گے۔ ” اس کی آواز نہ چاہتے ہوئے بھی بھرا گئی۔
” اپنے دماغ سے الٹے سیدھے فتور نکال کر باہر پھینک دو۔ مسز شہریار! میری اجازت کے بنا گھر سے باہر جانا تو دور کی بات، تم سانس تک نہیں لے سکتی ہو۔ یہ بات اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو۔ ” وہ اسے شانوں سے تھامتا ہوا اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سرد لہجے میں بولا۔
شہریار کا سرد لہجہ اور شانوں پر سخت گرفت نے سویرا کو سر جھکانے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ اس کو اپنی گرفت میں لیے بیڈ تک آیا۔ اسے آرام سے بٹھا کر فرسٹ ایڈ باکس میں سے ایلوویرا جیل کی ٹیوب نکال کر اس کے پاس آکر بیٹھا۔ وہ جھجک کر پیچھے ہوئی تو اس نے گھور کر اسے دیکھا۔ پھر اس کے چہرے کو اپنے بائیں ہاتھ سے نرم گرفت میں لیکر مرہم لگانے لگا۔
” یہ کیسے ہوا؟ اور تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ ”
“وہ صبح عروہ جی۔۔ ”
” سنو لڑکی! مجھے تم پر شدید غصہ ہے۔ وہ تمہیں باتیں سنا رہی تھی اور تم! ” اس نے غصہ سے ہنکارا بھرا۔
“تم اس کی باتیں سن رہی تھی۔ کیا تمہارے منھ میں زبان نہیں تھی؟ کیا تم اسے منھ توڑ جواب نہیں دے سکتی تھی؟ میرا نام نہیں لے سکتی تھی؟ کم آن گرو اپ۔ ” وہ ٹیوب کی شیشی بند کرکے اسے گھورتے ہوئے بولا۔
ہاتھ دھو کر وہ واش روم سے واپس آیا۔ بیڈ پر لیٹ کر ہاتھ بڑھا کر سویرا کو اپنی گرفت میں لیکر اس نے لائٹ آف کی اور آنکھیں موند لیں۔
” سنیے ” اندھیرے میں سویرا کی جھجکتی ہوئی آواز ابھری۔
” ہمم۔۔۔ ”
“کیا آپ کل واقعی منگنی کررہے ہیں؟ ” اس کی لرزتی ہوئی آواز میں ہزاروں اندیشے تھے۔
” یہ تمہارا پرابلم نہیں ہے۔ آنکھیں بند کرو اور مجھے بھی سونے دو۔ ” وہ اسے ٹوکتا ہوا آنکھیں بند کر گیا تھا۔
********************