” بھائی پلیز یہ شرٹ پیک کر دیں” فاطمہ نے سلیزمین سے کہا
” سوری میم یہ تو سیل ہوچکی ہے، آپ اپنے لیے کوئی اور پسند کر لیں ”
” نہیں پلیز آپ یہ پیک کر دیں، جن نے بھی یہ شرٹ خریدی ہے، آپ انھیں کوئی اور شرٹ دکھا دیں”
” سوری میم، مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے، اگر آپ کو یہ شرٹ لینی ہے تو آپ ان صاحب سے بات کریں جو اس کو خرید چکے ہیں ”
” نہیں میں ان سے کیا بات کروں گی، آپ پلیز یہ شرٹ پیک کر دیں، آج میرے بھائی کی سالگرہ ہے اور میں نے ان کو یہی شرٹ گفٹ کرنی ہے” فاطمہ نے موبائل پر رانیہ کو میسچ کرتے ہوئے کہا
” سوری میڈم ہم اس طرح بنا اجازت کسی کی چیز آپ کو نہیں دے سکتے ”
ابھی فاطمہ اس کی مزید منتیں کرنے ہی والی ہوتی ہے کہ کاؤنٹر پر ایک لڑکے کو آتا دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی فاطمہ سامنے رکھے گے بینچ پر بیٹھ جاتی ہے.
” شرٹ پیک کر دی آپ نے”
” جی سر، مگر لیکن میڈم کو یہ شرٹ پسند آگئی ہے، ان کے بھائی کی سالگرہ ہے، ان نے یہ شرٹ اپنے بھائی کو گفٹ کرنی ہے، اگر آپ برا نہ مانیں تو ہم ان کو یہ شرٹ دے دیں”
” کونسی میڈم”
” یہ جو سامنے بینچ پر بیٹھی ہیں”
تابش نے جب بینچ پر بیٹھی لڑکی کو دیکھا تو وہ دیکھتے ساتھ ہی اُس لڑکی کو پہچان گیا، اور وہ پہچانتا بھی کیوں نہ، ایک دن پہلے ہی تو اس کو یہ لڑکی ملی تھی. تابش شرٹ کاؤنٹر پر رکھ کر فاطمہ کے پاس چلا گیا
” السلام علیکم”
” وعلیکم السلام، سوری میں میں نے آپ کو پہچانا نہیں”
فاطمہ کی بات سن کر تابش اُُس کی یادداشت پر ماتم کرتا رہ گیا
” میں رانیہ کا بھائی، اگر آپ کو یہ شرٹ چاہیے تو آپ لے سکتی ہیں”
” اچھا” فاطمہ نے اٹھتے ہوۓ کہا
تابش نے حیرانگی سے فاطمہ کو دیکھا جس نے مڑ کر بھی اس کو نہیں دیکھا، بس کاؤنٹر سے شرٹ لی اور نظروں سے اوجھل ہوگئی
**************************
” ہیلو فاطمہ کہاں ہو تم، آج کالج کیوں نہیں آئی ”
” میں شاپنگ مال آئی ہوں”
” مال کیوں آئی ہو، خیر تو ہے”
” یار آج سالار بھائی کی سالگرہ ہے تو ان کے لیے گفٹ لینی آئی ہوں”
” او، واؤ، میری طرف سے ان کو ہیپی برتھ ڈے کہنا ”
” تھینک یو، یار مجھے تم سے ایک کام تھا”
” اگر تم برا نہ مانوں تو کیا تم مجھے حیا کی ماما کا نمبر دے سکتی ہو ”
” حیا کی ماما کا نمبر، وہ کیوں”
” یار وہ میری امی کو چاہیے تھا” فاطمہ نے رانیہ کو ابھی کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا
” ہاں کیوں نہیں، میں تمھیں ابھی میسچ کر دیتی ہوں ”
” شکریہ، اچھا میں اب فون رکھتی ہوں ”
” اوکے اللہ حافظ”
” اللہ حافظ”
” مجھے معاف کرنا حیا، ایک دوست ہونے کی خاطر میرا یہی فرض بنتا تھا”
ایک منٹ کے اندر ہی رانیہ نے فاطمہ کو حیا کی ماما کا نمبر بھیج دیا جس کے جواب میں فاطمہ نے اسے تھینک یو کہا
**************************
” کہاں مر گئی تھی تم” حیا نے رانیہ کو اپنی طرف آتا دیکھا تو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے لگی
” یہ لانے گئی تھی” رانیہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کرکرے کے دو بڑے پیکٹ کی طرف اشارہ کیا
” چلو پھر تمھیں معافی مل سکتی ہے” حیا نے ایک پیکٹ رانیہ کے ہاتھ سے چھینا
” تمھیں ہی دے رہی تھی بھوکی”
” ہاہاہا، جیسا پتا نہ ہو مجھے تمہارا، ابھی جمیل انکل آۓ تھے وہ کہہ رہے تھے کہ آج ملک میں ہڑتال ہونے کی وجہ سے ہمیں کالج سے چھٹی دے دی گئی”
” یہ تو اچھا ہوگیا، چلو اب ہم گھر چلتے ہیں ”
” ہاں چلو” حیا نے بھی اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا
**************************
” السلام علیکم امی” فاطمہ نےعالیہ بیگم سے کہا جو کہ آج اپنے اکلوتے بیٹے کی سالگرہ کے موقعے پر بریانی بنا رہی تھی
” وعلیکم السلام، تم آج جلدی کیسے آگئی”
” آج ہڑتال تھی تو کالج سے جلدی چھٹی دے دی گئی، آپ یہ چھوڑیں مجھے یہ بتائیں کہ یہ شرٹ کیسی لگی آپ کو بھائی کے لیے” فاطمہ نے شرٹ شاپر سے نکالتے ہوئے کہا
” ارے واہ فاطمہ، یہ تو بہت پیاری ہے، سالار کو ضرور پسند آئیگی، اب جاؤ اس کو اندر رکھ کر آؤ اور کھانا بنانے میں میری مدد کرو ”
” افففف امی ابھی تو آئی ہوں، تھوڑا آرام تو کرنے دیں”
” تم آرام کرنے بیٹھ گئی تو صبح سے شام ہو جاۓ گی” عالیہ بیگم نے منہ بناتے ہوئے کہا
” اچھا ناراض نہ ہوۓ امی، منہ ہاتھ دھو کر آتی ہوں بس، آپ یہ بتائیں کہ زوہیب بھائی کب آرہے ہیں ”
” وہ کل آرہا ہے، تم جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر آؤ، میں تمھارے لیے کھانا ڈالتی ہوں”
” بس آتی ہوں پانچ منٹ میں ”
**************************
” ہیلو سدرہ، یار ایک مسئلہ ہوگیا ہے”
” کیا مسئلہ ہوا ہے”
” حیا کو سب پتا چل گیا ہے”
“ککککک…. کیا، یہ کیا کہہ رہے ہو تم”
” میں سچ کہہ رہا ہوں”
” ہاۓ اب کیا ہوگا، اگر چاچو کو پتا چل گیا تو وہ تو مجھے مار ہی دیں گے، مجھے تم پر بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا، تمھارا کیا ہے، تم نکل جاؤ گے بیچ سے، جان تو میری ہی جائیگی ”
” اس کی نوبت ہی نہیں آئیگی”
” کیا مطلب”
” مطلب حیا کا منہ بند کرنا مجھے آتا ہے، اب ہم وہی کریں گے جو ہم نے سوچا تھا، تم پریشان نہ ہو”
“کیسے پریشان نہ ہو میں، اگر ہمارا پلین کامیاب نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا ”
” میں کہہ رہا ہوں نہ کچھ نہیں ہوگا، بس تم ریلکیس ہو جاؤ”
” حیا کو یہ سب پتا کیسے چلا ”
” مجھے خود یہ سمجھ نہیں آرہی اُس کو کیسے پتا چلا، شاید اُس نے اُس دن ہماری باتیں سن لی ہونگی، بس تم فکر مت کرو ایک دو دن میں یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ”
” ہممم چلو مجھے کوئی کام ہے، بعد میں بات کرتے ہیں ، باۓ”
” باۓ” شہریار نے سدرہ کو باۓ کہہ تو دیا تھا مگر وہ آج پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ سدرہ نے بغیر مطلب کے کبھی اُس سے بات نہیں کی، ہمیشہ شہریار ہی اُسے فون کرتا ہے مگر تقریباً ہر بار سدرہ ہی باۓ کہتی ہے، کہی سدرہ اس کو دھوکا تو نہیں دے رہی، نہیں مگر سدرہ ایسا کیوں کرۓ گی، اب تو ہماری منگنی بھی ہوگئی ہے، شاید اُس کو واقعی میں کوئی کام ہو. یہ سوچ کر شہریار مطمئن ہو کر ایک بار پھر سے لیپ ٹاپ پر جھک گیا.
**************************
” شکر ہے تم آگئی ہو، میں اور تمھارے بابا اتنا پریشان ہو رہے تھے تمھارے لیے، کب سے تمھیں فون کر رہی تھی مگر تمھارا نمبر بند جارہا تھا، ابھی کچھ دیر پہلے ہی تمھارے بابا تمھیں لینے کالج گے ہیں ” آسیہ بیگم نے موبائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا
” سوری ماما، وہ فون کی بیٹری ختم ہوگئی تھی، میں ابھی بابا کو فون کرتی ہوں کہ میں گھر آگئی ہوں ”
” وہ میں خود کر لوں گی، تم فریش ہو کر آؤ، میں سلیمہ سے کہہ کر تمھارے لیے کھانا لگواتی ہوں ”
” اوکے، پھر میں فریش ہوکر آتی ہوں ”
**************************
“رانیہ، تم نے بتایا نہیں، وہ لڑکی کون تھی” تابش نے کتاب میں کھوئی ہوئی رانیہ سے کہا
” کون لڑکی” تابش نے جان بوجھ کر یہ سوال پوچھا حالانکہ وہ جان چکی تھی کہ وہ فاطمہ کے بارے میں پوچھ رہا ہے
” وہی جو کل شام کو آئی تھی”
” دوست تھی میری بتایا جو تھا تمھیں، مجھے پتا نہیں کیوں، تمھارے ارادے صیح نہیں لگ رہے شیخ صاحب”
” چار سال بڑا ہوں تم سے، کبھی تو عزت کر لیا کرو میری”
” شیخ صاحب انسان اپنی عزت خود کرواتا ہے. عمر کوئی میڈل نہیں ہے جسے آپ دوسروں کو عزت کروانے پر استعمال کرسکیں”
” افففف، تم اور تمھارے افسانے، نام کیا تھا تمھاری دوست کا”
” تم کیوں پوچھ رہے ہو، کل تک تو تمھیں میری دوستوں میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا”
” وہ بات یہ ہے کہ وہ پاگل لڑکی مجھے آج مال میں ملی، میں نے ایک شرٹ پسند کی، قسمت سے اس پرنٹ کی لاسٹ شرٹ تھی اور محترمہ کو وہی شرٹ پسند آگئی، اپنے بھائی کے لیے، پھر میں نے اپنی پسند کی ہوئی شرٹ اُس کو دے دی، اور پتا ہے اتنا سب کرنے کے باوجود بھی اس نے مجھے تھینک یو تک نہ کہا”
” تم کب سے اتنے اچھے ہوگے ہو، کہ اپنی پسند کی ہوئی چیزیں کسی لڑکی کی خاطر چھوڑ دو ”
” یار وہ اتنی معصوم نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی کہ مجھے اس سے دینا پڑا، اور شرٹ لینے کے بعد اُس احسان فراموش نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا”
” تابی وہ ایسی ہی ہے، لڑکوں سے بات نہیں کرتی وہ”
” مجھے تھینک یو بول دیتی تو کیا ہوتا، میں کھا تھوڑا ہی جاتا اُسے ”
” افففف کتنا بولتے ہو تم، تمھیں نام سننا تھا تو سنوں، فاطمہ آفتاب ہے اس کا نام، اب دفعہ ہو جاؤ میرے کمرے سے، سر میں درد کردیا ہے تم نے”
” فاطمہ آفتاب…. اچھا نام ہے” تابش نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا
__________________________________
شام چار بجے کا وقت تھا جب دروازے پر دستک ہوئی، فاطمہ نے جوتیاں پہنے بغیر ہی بھاگ کر دروازہ کھولا مگر دروازے پر سالار کے ساتھ کھڑے شخص کو دیکھ کر حیران رہ گئی، زوہیب، اُس کے بچپن کا دوست اس کے سامنے تھا.
” زوہیب بھائی آپ یہاں… آپ تو کل آنے والے تھے، آج کیوں آگے” خوشی میں فاطمہ کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا بولے تو اس نے جلدی جلدی میں جو منہ میں آیا بول دیا
” کیوں میں نہیں آسکتا، یہ میرا اپنا گھر ہے” زوہیب نے وہی بچپن والا رویہ اپنایا
” اگر اپنا ہی گھر تھا تو گے کیوں تھے اپنا گھر چھوڑ کر ” فاطمہ نے اپنے سے چار سال بڑے کزن کو غصے سے کہا
” اب آگیا ہوں نہ چندا، اب نہیں جاؤں گا پکا”
” فاطمہ کون ہے دروازے پر” سعدیہ بیگم نے چھت سے فاطمہ کو آواز دی
” زوہیب بھائی، تائی امی”
” کیا سچ میں، زوہیب آگیا اور تم مجھے اب بتا رہی ہو، ادھر ہی روکوں میں ابھی آتی ہوں”
” یہ دیکھوں ذرا ان سب کو، کوئی برتھ ڈے بواۓ کو پوچھ ہی نہیں رہا ” سالار نے کہا جو کہ کب سے ان کے ایموشنل ڈرامے دیکھ رہا تھا
” او بھائی، سوری میں بھول ہی گئی تھی، کب سے آپ کا ویٹ کر رہی تھی اور آپ ابھی آئے ہیں، چلیں سب مل کر اندر جاکر کیک کاٹتے ہیں” فاطمہ نے دروازے کو کنڈی لگاتے ہوئے کہا
ابھی وہ اندر جانے ہی والی ہوتے ہیں کہ سعدیہ بیگم نیچے آجاتی ہیں زوہیب سعدیہ بیگم کو دیکھتے ساتھ ہی ان کے گلے لگتا ہے.
” کتنا کمزور ہوگیا ہے میرا بچہ، پتا نہیں امریکہ میں کچھ کھانے کو ملتا بھی ہوگا کہ نہیں ”
” اففف تائی امی، کیا فاطمہ کم تھی جو آپ بھی شروع ہو گئی ہیں” سالار نے کہا جو کہ اب واقعی میں یہ خاندانی ڈرامہ دیکھ کر بیزار ہو گیا تھا
جب سے عالیہ بیگم نے حیا کے گھر رشتہ لے کر جانے کی بات کی تھی تب سے سالار بہت خوش رہنے لگ گیا تھا.
” ارے کیا ہوگیا ہے، سالار میرا بچہ چار سالوں بعد اپنے گھر واپس آیا ہے، اور تم کہتے ہو میں اُسے ملوں بھی نہ” تائی امی نے سالار پر خفا سی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا
” اففف میرے خدایہ، تائی امی، میں نے کب کہا ہے کہ آپ زوہیب سے نہ ملیں، ضرور ملیں، مگر میری سالگرہ کا کیک کاٹنے کے بعد”
” کیا ہوا اتنا شور کیوں مچا رہے ہو ” عالیہ بیگم نے کہا جو کہ ان سب کا شور سن کر جاگ گئی تھی.
” زوہیب میرے بچے ادھر آؤ ذرا، ماشااللہ اتنا بڑا ہوگیا ہے میرا بچہ” عالیہ بیگم نے کہا جو کہ زوہیب کو دیکھ کر کھل اٹھی تھی.
” اففف امی،آپ بھی، پہلے اندر چلیں اور میرا کیک کاٹیں پھر باقی باتیں بعد میں کرنا”
” چلو عالیہ اندر ہی چلتے ہیں، یہ سالار ندیدہ کہی بھوک سے مر ہی نہ جائے ”
” شاباش ہے تائی امی، ایک بیٹا آیا تو دوسرے والے کو بھول گئی”
سالار کی بات سن کر ہنسنے لگے، جب کہ فاطمہ گھر کے اندر چلی گئی تاکہ کھانے کا انتظام کر سکے.
” نہیں سالار ایسا نہیں ہے، تم اور زوہیب دونوں میری جان ہیں، اور اللہ میرے شہزادوں کو بری نظر سے بچاۓ”
” آمین ” زوہیب اور سالار نے ایک ساتھ کہا اور سامان لے کر گھر کے اندر چلے گے.
**************************
” سدرہ مجھے حیا کی کچھ پیکچرز چاہیے تھی”
” کیوں پیکچرز کا کیا کرو گے تم”
” بس تم دیکھتی جاؤ، اس حیا کے ساتھ میں کرتا کیا ہوں، بہت اڑ رہی ہیں نہ ہواؤں میں، ابھی اس کے پر کاٹتا ہوں”
” پہلے بتاؤ تو سہی کرو گے کیا”
” وہی جو ہم دونوں نے مل کر صباحت کے ساتھ کیا تھا ”
” واؤ، اب اصلی مزا آۓ گا، بےچاری صباحت کی تو منگنی بھی ٹوٹ گئی تھی، مجھے تم صرف دس منٹ دو، میں ابھی ہی تمھیں اس کی پیکچرز بھیجتی ہوں ”
” ہاں جلدی جلدی بھیجوں، میں ویٹ کر رہا ہوں تمھارا ”
” ہممم بس دس منٹ”
دس منٹ کے اندر ہی حیا کی پیکچرز شہریار کے پاس تھی
” گفٹ کب بھیجوا رہے ہو حیا کے گھر”
” کل، اور مجھے پورا یقین ہے کہ حیا کو یہ گفٹ بہت پسند آۓ گا”
” ہاہاہاہا، چلو میں فون رکھتی ہوں، باۓ”
” باۓ” شہریار نے اداس ہوتے ہوئے کہا
آج پھر اپنا مطلب پورا ہو جانے کے بعد سدرہ نے اسے باۓ کہہ دیا تھا. اسے حسرت تھی کہ کبھی سدرہ اس کو بولے کہ آؤ شہریار دس منٹ بات کرتے ہیں
**************************
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کی آواز سے پورا گھر گونج اٹھا. سالار نے کیک کاٹنے کے بعد سب سے پہلے کیک زوہیب پھر عالیہ بیگم اور سعدیہ بیگم کو کھلایا اس کے بعد آفتاب اور فرقان صاحب کو، جو کہ آج سالار کی سالگرہ کی وجہ سے گھر جلدی آگے تھے. اور سب سے آخر میں فاطمہ کو کھلایا، جس نے یک سب آرگنائزر کیا گھا.
” اب بھائی صاحب، آپ پچیس سال کے ہوچکے ہیں، شادی کرنے کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟” زوہیب نے سالار سے پوچھا جو کہ اس بات سے بے خبر تھا کہ سالار نے لڑکی پسند کر لی ہے
” امی اب تو زوہیب بھائی بھی آگے ہیں، اب ہم کب جائیں گے سالار بھائی کا رشتہ لے کر حیا کے گھر، میں حیا کی امی کا نمبر بھی لے آئی ہوں ”
” ایک منٹ یہ حیا… کون ہے… کوئی مجھے بھی بتاۓ گا”
” اس گھر کی ہونے والی بڑی بہو” عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” زوہیب، حیا فاطمہ کی کلاس فیلو ہے، امی اور باقی گھر والوں نے اس کو میرے لیے پسند کیا ہے”
” افففف اتنا کچھ ہوگیا اور آپ لوگوں نے ابھی تک مجھے کچھ بتایا ہی نہیں ”
” آپ ادھر تھے کہ ہم آپ کو بتاتے ” فاطمہ نے چار سالوں کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا
” امریکہ ہی گیا تھا، اوپر نہیں گیا تھا، جو کہ مجھے نہیں بتا سکتے تھے ”
” بری بات، ایسی بات نہیں کرتے ” سعدیہ بیگم نے غصے سے کہا
” کل ہم جائیں گے، حیا کے گھر، تب تم دیکھ لینا” فرقان نے مسئلہ ختم کرنے کے لیے کہا
” ہمممم اوکے، اگر مجھے پسند آئی تو ٹھیک ورنہ انکار ہی سمجھو”
” او بھائی، شادی میری ہوگی اس کے ساتھ،. تمہاری نہیں ”
” یہ دیکھ لو اس کو، شادی ہوئی ہی نہیں اور ابھی سے بیوی کی طرفداری کر رہا ہے” زوہیب نے منہ بناتے ہوئے کہا
زوہیب کی بات سن کر سب ہنسنے لگا جب کہ سالار نے غصے میں آکر تھوڑا سا کیک اس کے منہ پر لگا لیا.
*************************
” اففف بابا، اتنی دیر کہاں تھے آپ، کب سے کالز کر رہی ہوں، ماما بھی اتنی پریشان ہیں ”
” تمھیں لینے تمھارے کالج گیا تھا تو پتا چلا کہ تم گھر جا چکی ہو، واپسی پر دن کو ہڑتال ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کا کافی رش تھا، اس لیے لیٹ ہوگیا”
” اچھا، ہم تھوڑے پریشان ہوگے تھے”
” آسیہ کدھر ہیں ”
” ماما ابھی میڈیسن لے کر سوئی ہیں ”
” میڈیسن…. کیوں کیا ہوا ہے آسیہ کو”
” سر میں درد تھا”
” اچھا، تم نے کھانا کھایا ہے”
” نہیں بابا، آپ کے بغیر کیسے کھا سکتی تھی ”
” چلو آؤ پھر مل کر کھاتے ہیں ”
**************************
” السلام علیکم”
” وعلیکم السلام، میں نے پہچانا نہیں، آپ کون”
” آپ حیا کی ماما بات کر رہی ہیں”
” جی، مگر آپ کون”
” میں اس کی دوست فاطمہ کی امی بات کر رہی ہوں”
” او اچھا، کیسی ہیں آپ”
” جی الحمدللہ، میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں”
” جی بس اللہ کا شکر ہے”
” میں کل آپ کے گھر آنا چاہ رہی تھی”
” جی ضرور آئیں، آپ کا اپنا ہی گھر ہے”
” میں اپنے بڑے سالار جو کہ ڈاکٹر ہے، اس کا رشتہ حیا سے کرنا چاہتی ہوں ”
سالار کا نام سن کر آسیہ بیگم کا دل زور سے مچلا، وہ دعائیں مانگنے لگیں کہ اللہ کرۓ وہ اس کا بھتیجا سالار آفتاب ہو، مگر ساتھ میں یہ خوف بھی کھانے لگا کہ کہی وہ مجھے دیکھنے کے بعد انکار نہ کر دیں. آسیہ نے ہمت کر کے مرجھائی ہوئی آواز میں فاطمہ کی امی سے اس کا نام ہوچھا
” جی میرا نام عالیہ آفتاب ہے، باقی باتیں کل ہونگی، میں نماز پڑھ لوں ذرا، اللہ حافظ”
لفظ عالیہ سن کر آسیہ بیگم کے سالوں سے تڑپتے ہوئے دل کو قرار آیا. اسے اب پورا یقین ہونے لگا کہ اس کی سزا اب ختم ہوگئی ہے. اس نے ہمت کرتے ہوئے کہا
” اللہ حافظ”
فون بند ہونے کے بعد بھی وہ کافی دیر ایسے ہی ہاتھ میں فون پکڑے ہوئے فون کو دیکھتی رہی. اسے اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا، اتنے سالوں کے بعد وہ آج دل سے مسکرائی تھی، مگر پتا نہیں کیوں ایک انجانا
سا خوف اسے اندر ہی اندر کھاۓ جا رہا تھا. وہ بھاگتے ہوئے سلیم کے پاس پہنچی.
” سیلم” اسیہ نے ٹی وی لاؤنچ میں قدم رکھتے ہوئے کہا
” آسیہ شکر ہے کہ تم جاگ گئی ہو، میں کچھ دیر پہلے ہی گھر آیا ہوں، آؤ کھانا کھاتے ہیں”
” نہیں مجھے کھانا نہیں کھانا، مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے” آسیہ بیگم نے حیا کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا
” تو ماما ادھر ہی بات کر لیں نہ، میں اپنے کمرے میں چلی جاتی ہوں” حیا نے اٹھتے ہوئے کہا
” نہیں حیا تم ادھر ہی بیٹھی رہوں، میں تمہاری ماما کی بات سن کر آتا ہوں ”
” اچھا بابا”
**************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...