دائی ماں کو اللّٰہ حافظ کہتی وہ وہ تقریباً دوڑتی ہوئی گھر سے نکلی تھی۔ حسب معمول وہ دفتر کے لیے لیٹ ہوچکی تھی۔ابھی وہ بس اسٹاپ تک پہنچی بھی نہ تھی کہ اس کی نگاہ سڑک کے دائیں طرف فٹ پاتھ کی خستہ حالت پر پڑی تھی۔ایسا معلوم ہںو رہا تھا گویا کوئی تیز رفتار گاڑی سیدھے اس ٹکرا گئی ہو۔فٹ پاتھ پر بنی کچھ جھگیوں کی حالت بھی خراب لگ رہی تھی ۔ انہی میں سے ایک جھگی کے باہر بیٹھی ایک ادھیڑ عمر عورت با آواز بلند رو رہی تھی۔ آس پاس کے لوگوں سے پوچھنے پر اسے محض اتنی معلومات حاصل ہوئی تھی کہ کل رات تین بجے کے قریب ایک تیز رفتار گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ گئ تھی ۔ نتیجتاً روتی ہوئی عورت کے شوہر کے دونوں پیر متاثر ہوئے تھے۔ گاڑی چلانے والے کے تعلق سے کسی کو کوئی معلومات نہیں تھی۔ بقول اس عورت کے حادثہ کے کچھ ہی منٹوں بعد کچھ لوگ کار اور ڈرائیور کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔جائے واردات پر موجود پولیس کانسٹيبل سے بس یہ جانکاری مل سکی تھی کہ حادثہ کو انجام دینے والاcare hospital میں ایڈمت تھا۔روتی ہوئی عورت کے قریب پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس دو بچوں کو اپنی ماں کی تقلید کرتا دیکھ اس کا دل لرز گیا ۔ اس نے اپنے قدم ہاسپٹل کی سمت بڑھا دیے وہ اس خبر کو گوانا نہیں چاہتی تھی۔
وہ جوں ہی مطلوبہ ایڈریس پر پہنچی care hospita کی شیشوں سے بنی چمکتی عمارت کو دیکھ کر اسے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ حادثہ کو انجام دینے والا کوئی رئیس شخص تھا۔
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتی اس اونچی کشادہ عمارت کی چوکھٹ کو عبور کر گئی۔ریسیپشن کاؤنٹر پر پہنچتے ہی وہ کل رات ایڈمیٹ ہوئے پیشنٹ کے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کی کوششیں میں جٹ گئی۔
مگر ریشپسنسٹ کے دوسرے جملے پر ہی اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔کار ڈرائیو کرنے والے کا نام “شاہ زر آفریدی ” تھآ۔
” کیا آپ سے مراد ہے شاہ زر آفریدی ،راشد آفریدی کے بیٹے شاہ زر آفریدی؟
اس نے حیرانی سے استفار کیا۔
” میڈم کیا آپ پیشنٹ کی ریلیٹیو نہیں ہیں۔؟”
لڑکی نے ابرواٹھائے۔
“نہیں میں ایک رپورٹر ہوں۔اس پیشنٹ کے متعلق معلومات حاصل کرنے آئی ہوں۔جس وقت انہیں یہاں لایا گیا تب ان کی حالت کیسی تھی ؟ ”
اس نے الٹا لڑکی سے سوال کیا۔
” دیکھئے میڈم ہم کسی بھی آؤٹ سائڈر کو پیشنٹ کے متعلق کوئی معلومات نہیں دے سکتے یہ ہاسپٹل کے رول کے خلاف ہے۔”
لڑکی نے ناک چڑھا کر ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا۔
” دیکھئے پلیز میں آپ سے درخواست کرتی ہوں میرے لیے جاننا بہت ضروری ہےکہ پیشنٹ کی کنڈیشن کیا ہے حادثہ کی وجہ کیا تھی۔”
وہ ملتجی لہجے میں گویا ہوئی۔
” آپ چاہیں تو ڈاکٹر یوسف سے کنسلٹ کر سکتی ہیں ۔وہ اکثر اوقات میڈیا کو پیشنٹس کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مگر ایسا وہ صرف ریلیٹیو اور اس کی فیمیلی کی رضامندی ملنے کے بعد ہی کرتے ہیں ۔آپ بھی کوشش کر کے دیکھیں ۔ ڈاکٹر یوسف وارڈ نمبر 13 میں ملیں گے۔”
لڑکی کو اس پر ترس آہی گیا تھا۔
وہ فوراً سے پیشتر وارڈ نمبر 13 کی طرف بھاگی تھی۔تبھی اس کے قدم رکے تھے۔
وارڈ کے باہر راہ داری میں اشعر اور راشد صاحب کسی ڈاکٹر سے محو گفتگو تھے۔ اس نے اپنے کان کھڑے کر لیئے۔
” پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔آپ خوامخواہ ٹینشن لے رہیں ہیں ۔ بس چند معمولی خراشیں آئ ہیں۔ اس کےدیر سے ہوش میں آنے کی وجہ حادثہ نہیں اس کی ذہنی حالت ہے ۔وہ کافی نشے میں تھا۔ہوش میں آنے کے لئے وقت درکار ہونا لازمی ہے۔ بلڈ ٹیسٹ سے ثابت ہوا ہے کہ وہ نشے میں تھا جبکہ شاہ زر اس بات سے انکاری ہے۔”
ڈاکٹر کی بات سن کر اس کے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔اسے مجرم ثابت کرنے کے لئے یہ وجہ کافی تھی۔آج کا دن بہت خاص تھا قدرت اس پر مہربان تھی۔مزید ایک لفظ بھی سنے بغیر وہ اس عمارت سے باہر نکل آئی۔اس خبر کو کل کے اخبار کا حصہ بننا تھا۔
****
شاہ زر ہاسپیٹل سے ڈسچارج ہںو کر گھر آچکا تھا۔حادثے کو لے کر راشد صاحب کافی پریشان تھے۔ایسا پہلی بار ہںوا تھا کے شاہ ذر کے ہاتھوں کوئی ایکسیڈینٹ ہںوا تھا۔
وہ ایک ماہر ڈرایٔںور تھا۔اور شراب تو اس نے آج تک کبھی نہیں پی تھی۔جب کہ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ شاہ ذر نشے کی حالت میں گاڑی چلارہا تھا۔وہ کشمش میں مبتلا تھے کہ شاہ ذر کایقین کرے یہ ڈاکٹرس کی باتوں کا۔
گزشتہ ایک ماہ سے شاہ زر کی ہر حرکت پر میڈیا کی نظر تھی۔انہیں یہ تصور تک ڈرارہا تھا کہ اگر میڈیا کو اس حادثے کی بھنک پڑ گئی تو وہ آفریدی خاندان کی عزت کو سر عام نیلام کردینگے۔
“بھاںٔی کیا آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہںے۔؟
اس گھر کے ساتھ سبھی افراد واقف میں کہ میں شراب نہیں پیتا۔گوا سے نکلنے وقت میں مکمل طور پر ہںوش و حواس میں تھا۔مجھے لگتا ہںے کہ میں Drink spiking کا شکار ہںوا ہںوں۔”
اشعر کے بغل میں صوفے پر براجمان شاہ زر نے کہا۔
“کیا تم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہںو؟
Are you sure?”
اشعر متحیر تھا۔
“Yes I am absolutely sure.”
پارٹی سے نکلتے وقت آخری جوس جو میں نے پیا تھا
اس کا ذائقہ مختلف تھا۔I think کسی نے میرے ساتھ واحیات مذاق کیا ہںے۔”
ایک جھماکے کے ساتھ اس کی ذہںن کی پلیٹ پر لیزا کا چہرا روشن ہںوا تھا۔ان سلجھی گتھی سلجھ گئی تھی۔لیزا کا ذکر گول کرتے ہںو کے اس نے آدھی بات بتائی تھی۔ اس کا ذکر شرمندگی کا باعث بن سکتا تھا-
“تمھارے آوارہ دوستوں کے لیے تمھاری جان کو خطرے میں ڈالنا مذاق ہںے؟
“راشد صاحب دھاڑے۔وہ اپنی جگہ چور سا بن گیا۔
“ڈیڈ پلیز مجھے بات کرنے دیں۔شاہ ذر تم ٹینشن نہ لو ۔زخمی کو ہاسپیٹل میں ایڈمیٹ کیا جا چکا ہںے اور اس کی ہر لحاظ سے مالی امداد کی جا رہی ہے۔تمہیں فی لحال آرام کی ضرورت ہںے۔ تم آرام کرو۔ سب ٹھیک ہںو جائے گا۔”
اشعر کی بات پر شاہ زر نے مرعوب ہوتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔بعض اوقات اسے اشعر بہت بہادر معلوم ہوتا تھا ۔وہ اپنے باپ سے اوروں کی طرح بات کر سکتا تھا-اس کے لیے یہ ناممکن تھا راشد صاحب کے سامنے وہ خاموش سامع بن جایا کرتا صرف سننے والا۔
اس اثناء میں دروازے پر ہںوئی دستک نے سب کی توجہ اپنی طرف کرلی۔
اشعر نے دروازہ کھولا تھا۔دروازے کے عین وسط میں پولیس کمیشنر کو دیکھ اشعر حیران ہںوا۔
“آئے کمیشنر صاحب۔ آپ یہاں کیسے؟
کوئی خاص بات ہںے؟”کمیشنر صاحب خاموشی سے قدم اٹھاتے ہںوئے راشد صاحب کے پاس جا رکے۔راشد صاحب نے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا۔کمیشنرصاحب کی خاموشی انہیں کسی طوفان کا پیش خیمہ معلوم ہںو رہی تھی۔کسی انہونی کے احساس سے ان کا دل دھڑک اٹھا۔
“راشد صاحب ہمیں نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کے چھوٹے بیٹے کے خلافArrest warrant جادی ہو چکا ہںے۔کل رات آپ کے بیٹے کے خلاف F.I.R درج کروائی جا چکی ہے۔نتیجتا ہمیں آپ کے بیٹے کو فی الحال پولیس سٹیشن لے جانا ہںو گا۔”
اشعر اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔راشد صاحب کی نگاہیں فرش پرثبت تھیں۔
کمیشنر صاحب نے اپنے قدم ساکت کھڑے شاہ زر کی طرف بڑھائے۔
“مسٹر شاہ زر آفریدی نشے کی حالت میں گاڑی چلانے اور حادثے کو انجام دینے کے جرم میں ہم آپ کو گرفتار کرتے ہیں۔”
شاہ زر کی ایک ہارٹ بیٹ(Heart beat)مس ہںوئی تھی۔ڈائنیگ ٹیبل سے ناشتے کے برتن اٹھاتی خواتین کے ہاتھ ہںوا میں معلق رہ گیے۔وہ آواز گویا صور پھونکنے کی آواز تھی۔گھر کا ہر فرد ساکت رہ گیا۔
“دیکھیئے کمیشنر صاحب شاہ زر نشے کی حالت میں نہیں تھا۔اس حادثے میں وہ قصور وار نہیں victim ہے۔FIR کس نے درج کروائی ہے کن ثبوتوں کی بنا پر اور،”
آپ اسے لے جائیں کمیشنر صاحب میں سمجھ سکتا ہںوں کہ آپ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔میں ابھی پولیس سٹیشن پہنچتا ہوں”۔
اشعر کی بات درمیان سے کاٹ کر راشد صاحب سنجیدگی سے بولے تھے۔شاہ زر نے اپنے والد کی طرف دیکھا تھا۔
ہمیشہ ایک رعب و دبدبے کے ساتھ جینے والا شخص آج بہت مختلف لگ رہا تھا۔لٹکے ہوئے کاندھے ،جھکا ہوا سر، شرمندہ نگاہیں یہ وہ راشد آفریدی نہیں تھے جنہیں وہ جانتا تھا ۔اس کے سامنے کھڑا شخص کوئ اور تھا ۔وہ اس شخص کو نہیں جانتا تھا۔ان کی حالت دیکھ اس کے دل پر پیر پڑا تھا۔اس نے اپنی نگاہوں کا رخ بدلا۔
کمیشنر صاحب ہتکڑی پہنانے کی نیت سے آگے بڑھے تھے ۔اشعر کا خون کھول اٹھا۔اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا شاہ زر نے ہاتھ اٹھا کرانھیں روک دیا ۔
” میں کہیں بھاگ نہیں رہا کمشنر صاحب اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
وہ آگے بڑھ گیا۔
فضاء کے سکوت کو کانچ کے توٹنے کی آواز نے توڑا۔گھر کی کسی خاتون کے ہاتھ میں تھامی پلیٹ زمین بوس ہوئی تھی۔کچن سے کسی کے باہر کے سمت روڑ لگانے کی آواز اور پھر کسی جسم کے زمین بوس ہونے کی آواز کو وہ سن سکتا تھا ۔
زندگی میں پہلی بار اپنے ہی گھر والوں کی طرف پلٹ کر دیکھنا ناممکن لگا تھا۔
وہ مڑ نہ سکا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا چوکھٹ عبور کر گیا۔آفریدی ولا سے کچھ فاصلوں پر واقع ولاس کی ہر بالکنی سے لوگ جھانک رہے تھے۔
راشد صاحب جیسے سفید پوش شخص کے بیٹے کا گرفتار ہوجانا چٹپٹی خبر تھی ۔تماشہ لگ چکا تھا اور ہمسائے کے افراد تماشائی بنے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ذلت کے شدید احساس سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔بعض الفاظ محض الفاظ نہیں ہوتے کیفیات ہوتے ہیں اور ان کے معنی ہمیں تب سمجھ آتے ہیں جب ہم ان کیفیتوں سے گزرتے ہیں۔آج اسے احساس ہوا تھا کہ ذلت کیا ہوتی ہے۔آج اس کی بدولت آفریدی خاندان کی تذلیل ہوئ تھی۔ایسے میں دل کے کسی کونے میں ایک خواہش نے سر اٹھایا کہ
” اے کاش اس حادثہ میں میری موت ہو جاتی۔”
***
پولیس اسٹیشن پہنچتے ہی اس کے ذہن میں کوندا سا لپکا۔
” کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے خلاف FIRکس نے درج کروائی ہے ؟”
اس کے سوال کے جواب میں کمشنر نے دائیں سمت اشارہ کیا تھا۔جہاں ایک سنگی بینچ پر بیٹھیں دو عورتوں میں سے ایک عورت کو وہ پہچان نہ سکا مگر دوسری شخصیت کو دیکھ وہ سکتے میں آگیا۔اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک عام سی لڑکی ایسی جرات کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔
کیا وہ اس کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئی تھی، اس کی جاسوسی کر رہی تھی۔ اس لڑکی کی اس سے کیا دشمنی تھی جووہ اس حد تک چلی گئ تھی۔اسے اپنے سمت دیکھتا پاکر وہ شان سے قدم اٹھاتی اس کے عین مقابل آکر رک گئی۔
“مسٹر شاہ زر آفریدی آپ کا کیا خیال تھا کہ میں بس اخباروں میں آپ کے کارنامے شائع کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں ۔مجرموں کی جگہ اخباروں میں نہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔
کیسا محسوس کررہںے ہو آپ؟The shazar Aafredi آپ اپنے خیالات کا اظہار کر نا پسند کرینگے؟
اس کی مسکراہٹ شاہ زر کے غصہ کو غیض و غضب میں بدلنے کے لئے کافی تھی۔ضبط کے طنابیں اس کے ہاتھوں سے سرکنے لگیں۔وہ پلٹی تھی۔وہ آگے بڑھا تھا اور اس کے بازو کو تھام کر اسکا رخ اپنی جانب کیا تھا۔
“تم نے یہ ٹھیک نہیں کیا لڑکی۔کن گواہںوں اور ثبوتوں کی بنا پر تم نے یہF.I.R درج کروائی؟تم جانتی کتنا ہںو اس حادثے کے متعلق؟
How dare you do this to me bloody insane.”
وہ اسکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھاڑا تھا۔غم و غصہ کے باعث اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔گہری کتھئ آنکھیں گویا انگارے اگل رہی تھیں۔زرمین کو لگا وہ اس آگ میں جھلس کر راکھ ہو جائے گی۔
“میں ایک صحافی ہںوں ۔بناثبوتوں اور گواہںوں کے کام کرنا میری سرشت میں نہیں۔
گواہ ہںے یہ عورت جس نے اپنی آنکھوں سے تمہیں اپنی کار اس کی جھونپڑی پر چڑھاتے ہںوئے دیکھا تھا۔اور ثبوت ہںے تمھاری میڈیکل رپورٹ جو ظاہر کرتی ہںے کہ تم نشے میں تھے۔اور اگر میں غلط ہوں تو اپنی میڈیکل رپورٹ کو منظر عام پر لا کر یہ ثابت کردو کے تم نشے میں نہیں تھے۔”
اپنا بازو چھڑانے کی سعی کرتے ہںوئے وہ کپکپاتی آواز میں چینخی تھی۔
“تم اپنی ہی بربادی کا سامان کررہی ہںو۔تم حساب دوگی۔
You will pay for this.
اپنی غلطی کے نتائج تمہیں بھگتنے ہںو نگے۔”
وہ جنونی انداز میں چینخ رہا تھا ۔اس کی پانچوں انگلیاں اس کے بازو میں دھستی چلی جا رہںی تھیں۔درد کی شدت سے دو آنسوں اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر رخسار پر بکھر گئے
۔ایک جھٹکے سے اس نے اس کے بازو کو اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا۔نتیجتا وہ کچھ قدم کی دوری پر جا گری۔
رگڑ کی وجہ سے دائیں ہتھیلی کی جلد چھل گئیں۔اس کے لبوں سے ایک سسکی نکلی تھی۔حسب عادت پوری بات ختم ہںو جانے پر چند کانسٹیبلس نے شاہ زر کو قابو میں کیا تھا۔ ان کانسٹیبلس کو جھٹکتا ہوا وہ کھلی جیل کی چوکھٹ عبور کر جیل کی چار دیواری میں جا کھڑا ہںوا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔
وہ سو کھے پتے کے مانند لرزرہی تھی۔اس اپنا جسم بے جان محسوس ہںو رہا تھا۔بچی کھچی ساری طاقت لگا کر وہ کرسی کے سہارے سے اٹھی تھی۔
خوف کے مارے اس کے جسم کا سارا خون مانو چہرے پر سمٹ آیا تھا۔وہ اپنے ہںی پیروں کی لرزش کو واضح طور پر محسوس کر سکتی تھی۔کھڑے ہںوکر اس نے پولیس اسٹیشن سے باہر نکلنے کے لیئے قدم اٹھائے۔لاشعوری طور پر اس کی نگاہ حوالات کی طرف اٹھی تھی۔
حوالات کی سلاخوں کو مٹھیوں میں جکڑے لہو رنگ آنکھوں سے وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔وہ دہل کر بھاگتے ہںوئے پولیس اسٹیشن کے باہر نکلی تھی۔اسے لگا جیسے کچھ بہت غلط ہںو گیا ہںو۔
******
دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تھا۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہںوئی اپنے کمرے کی طرف جا نے لگی تھی۔تبھی دائ ماں کچن سے باہر نکلی تھیں۔
“کیا ہوا ہے میری چڑیا ؟گھر میں داخل ہوکر تم نے سلام تک نہ کیا اور اب سیدھے اپنے کمرے میں جا رہی ہو۔تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا میری بچی؟۔”
اس کا ہاتھ تھام کر دائی ماں نے فکر مند لہجہ میں کہا۔
“سوری دائی ماں میں سلام کرنا بھول گئ ۔کچھ نہیں ہوا ہے بس ذرا تھکن ہو رہی ہے ،سر میں درد ہے ۔میں سونے جا رہی ہوں ۔”
اس نے دوپٹہ سے پسینہ پوچھتے ہوئے کی کہا۔
“ٹھیک ہںے میرا بچہ میں ابھی تمھارے لئے اچھی سی چائے بنادیتی ہںوں سر درد چٹکی میں دور ہںو جائےگا”۔
“جی۔”
یک لفظی جواب دیتے ہںوئے اپنے کمرے میں آکر اس نے دروازہ مقفل کرلیا۔اور اسی دروازے سے ٹیک لگائے دمے کے مریض کی طرح سانس اندر کھینچی تھی۔وہ اپنی حالت دائی ماں پر عیاں کرکے انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔کپڑے تبدیل کر وہ بستر پر لیٹ گئی۔لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
وہ بزدل نہیں تھی مگر نجانے کیوں ایک انجانہ سا خوف اسے حصار میں لئے ہںوئے تھا۔اس شخص کا آگ برساتا ہںوا لہجہ،لہو رنگ آنکھیں اس کے ذہںن سے چپک سے گئے تھے۔
ایسا محسوس ہںو رہا تھا کہ جیسے وہ کہیں سے وارد ہںو کر اس کا گلا گھونٹ دےگا۔
اس رات وہ سو نہیں پائی تھی۔ہںر پانچ منٹ بعد وہ چونک کر اٹھ جاتی جیسے کوئی انہونی ہںو جانے کا خوف لاحق ہںو۔
****
محض ایک گھنٹے بعد وہ حوالات سے باہر تھا۔راشد صاحب کاغذی کارروائی ہںوتے ہںی گھر لوٹ گئے تھے۔وہ اشعر کے ساتھ گھر آیا تھا۔راستے میں اشعر اس سے کافی نارمل انداز میں بات کررہاتھا۔اس کا یہ برتاؤ دیکھ کر شاہ زر کو ازحد حیرانی ہوئی تھی۔گھر پہنچا تو آفریدی ولا کے سبھی مکین سوائے راشد صاحب کے اس کے استقبال میں کھڑے مسکرا رہے تھے۔
گویا وہ برسوں بعد گھر لوٹ کر آیا ہںو۔عالیہ بیگم بظاہر مسکرا رہی تھی لیکن ان کی سوجی ہںوئی آنکھیں چغلی کھا رہی تھیں کہ وہ مسلسل روتی رہی ہیں۔
“چلو یار شاہ زر ایک گھنٹے بعد واپس آیا ہے ایک صدی بعد نہیں۔یہ Melodrama بند کرو اور سب اپنے اپنے کام سنبھالو”۔
ماحول کو خوش گوار بنانے کے لئے شاہ میر نے ایک جملہ اچھالا تھا۔
اس کی بات پر سبھی مسکرا دیئے سوائے شاہ زر کے۔سبھی خود کو مصروف ظاہر کرتے گھر کے کسی کونے میں غائب ہوگئے۔جب کے اشعر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہںوا مخاطب ہںوا۔
“تمھاری طبعیت ٹھیک نہیں ہںے۔تم آرام کرو”۔
“بھائی مزنی؟”
اس سے قبل کے اشعر اپنے کمرے کا رخ کرتا شاہ زر نے اسے روکا تھا۔
“تم مزنی کی طرف سے بے فکر ہںو جاؤ وہ کالج ٹور پر اپنے دوستوں کے ساتھ ملیشیا گئی ہںوئی ہںے۔اسے کچھ خبر نہیں ہے۔اسے کوئی کچھ نہیں بتائیگا۔ خواہ مخواہ وہ تمھارے لئے پریشان ہںوگی۔اس اخبار کے علاوہ کسی اخبار میں یہ خبر نہیں شائع ہوگی اس کا انتظام میں نےکر لیا ہے۔اور جس اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی وہ از خود اپنی غلطی کے لیئے کل معذرت کریں گے”۔
اشعر کی بات سن کروہ زخمی سا مسکرا دیا۔اپنے کمرے میں آتے ہی وہ بستر پر ڈھے گیا۔وہ دن بہت سخت تھا اور رات بہت طویل۔
وہ رات اس نے آنکھوں میں کاٹی تھی۔
*****
اگلے دن کی صبح اس کے دل کے موسم کی طرح اداس وسوگوار تھی۔ چڑیوں کے چہچہہانے کہ بجائے کوؤں نے شور ڈال رکھا تھا۔ایک نحوست سی چار سو پھیلی تھی ۔اس کی طبیعت بوجھل تھی۔
دائی ماں کے منع کرنے کے باوجود وہ دفتر کے لئیے نکلی تھی۔
سر زیدی،عائشہ ،حسین سب کے روکنے پر بھی اس نے F.I.R درج کروائی تھی۔
دفتر نہ جا کر وہ خود کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس کی غیر حاضری کا وہ لوگ یہی نتیجہ نکالتے کہ رئیسوں سے دشمنی مول لینے کے بعد وہ ڈر کر گھر پر بیٹھ گئی ہںے۔
وہ بس اسٹاپ سے کچھ ہی قدموں کی دوری پر تھی کہ سیاہ چمچماتی کار نے اسکا راستہ روکا۔وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی تھی۔دفعتا کار کا دروازہ کھلا اور کار سے نکلنے والے شخصیت کو دیکھکر وہ ساکت رہ گئی۔
سرخ آنکھیں اور چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ سجائے شاہ زر اس کے عین مقابل آکر کھڑا ہوا۔ان دونوں کے درمیان محض ایک قدم کا فاصلہ رہ گیاتھا۔اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہںوا۔
“کیسی ہںو تم مس زرمین فاروقی؟یقینا بہت خوش ہںوگی۔اپنے ارادوں کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب جوہںو گئی۔
غالباً کل رات یہاں Celebration party منائی گئی ہںو گی۔آخر ایک عام آدمی کی جیت ہوئی تھی۔مگر میں تمھیں آگاہ کردوں کہ تمھاری اتنی کاوشوں کے باوجود محض ایک گھنٹے بعد میں جیل سے باہر تھا۔
اور وہ عورت جیسے انصاف کا سبق پڑھا کر تم پولیس اسٹیشن لے گئی تھی۔اسے انصاف سے زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی۔معاوضہ کا لفظ سنتے ہی اس نے جھٹ سے کمپلین واپس لے کر معافی مانگنے سے تک گریز نہ کیا۔”
کار سے ٹیک لگائے اس نے طنزاً کہا تھا۔
اس کے لہجے کے پیچھے چھپی نفرت کو وہ واضح طور محسوس کر سکتی تھی۔اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔جیسے اچھل کر حلق کے راستے باہر آجائےگا۔اس سے قبل کہ وہ بھی اس کے ڈر وگھبراہٹ کو بھانپ جاتا اسنے اپنے لہجے کو بظاہر مضبوط بناتے ہںوئے کہا۔
”
تم نے درست کہا خوش تو میں یقیناً تھی البتہ سلیبریٹ نہیں کیا میں نے ۔ایک پورے خاندان کے مستقبل کو تباہ کرنے کی سزا صرف ایک گھنٹے کی جیل ۔ایسا قانون بھی ہمارے ملک میں رائج ہے جو باالخصوص تم جیسے عیاش رئیس زادوں کے لیے بنا ہے۔سیلیبریشن کا موقع تو تب آئےگا۔جب میں تم جیسوں کو ہمیشہ کے لیے جیل کا مکین بنادوں گی۔”
وہ جلد از جلد اس شخص سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی۔وہ دونوں اس کے جاننے والوں کے درمیان کھڑے تھے۔ ان کے اطراف دھیرے دھیرے مجمع لگ رہا تھا۔
یہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے رآئی کا پہاڑ بنانا بخوبی جانتے تھے۔
وہ اپنے اور دائی ماں کے لیے کوئی مصیبت مول نہیں لینا چاہتی تھی۔اپنی بات ختم کر وہ بھاگ جانے کے انداز میں پلٹی تھی۔اسی لمحے ان کے درمیان حائل ایک قدم کے فاصلے کو مٹاتے شاہ زر نے اس کی کلائی تھام کر کھینچنے کے انداز میں اس کا رخ اپنی طرف کیا تھا۔ نتیجتاً جھٹکا کھاتی زرمین کا سر اس کے کشادہ سینے سے ٹکرایا ۔
سر پر ٹکی چادر کندھوں پر ڈھلک آئ ۔اس کی اس حرکت پر وہ ساکت رہ گئی۔
“تو تم اپنی کارکردگی پر زرا سی بھی نادم نہیں ہو۔تمھاری جرات پر میں حیران ہوں کہ تم میرے سامنے کھڑی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لفاظی کر رہی ہو جبکہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ تم نے میرے خاندان کی عزت کا جنازہ نکلوایا تھا۔
میرے گھر کے مکینوں کی نیند اڑا کرکل رات بڑی ہی پرسکون نیند آئ ہوگی تمھیں ۔am i right۔تمھاری بدولت میرا جیل جانا ۔پورا ایک گھنٹہ حوالات میں گزارنا۔سارے شہر کے سامنے میرے خاندان کی تذلیل ہونا،تمھیں ” صرف” لگ رہا ہے ۔”
شاہ زر نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔وہ غصہ ضبط کئے دانت چبا کر بولا تھا۔
اس کی گرم سانسوں کی تپش وہ اپنے چہرے پر محسوس کرسکتی تھی ۔
بھیڑ کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔وہ کسی شکاری کے پنجے میں پھنسی فاختہ کی مانند پھڑپھڑا رہی تھی۔
اسے خود سے اتنے نزدیک پاکر پوری جان سے شاہ زر کو دھکیل کر اس نے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کرایا تھا۔
” خبردار جو تم نے مجھے چھونے کی کوشش کی۔یہ شریفوں کی رہائش گاہ ہے ۔ یہاں تم جیسے عیاش رئیس زادے نہیں پلتے ۔اسلیے یہاں تماشہ کرکے ہجوم اکٹھا کرنے کی کوشش مت کرو۔ میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے جو مجھے نادم نظر آنا چاہیے۔
میں نے تمھاری ساتھ وہی کیا جو ایک مجرم کے ساتھ کیا جانے چاہیے۔تمھارے منہ سے عزت کا لفظ سنکر مجھے ہنسی آتی ہے۔
تمھاری اب تک کی زندگی میں تم نے کتنی عزت کمائ ہے۔ اپنی عیاشیوں کو انجام دینے کے لیے اپنے باپ کے نام کا ناجائز استعمال کر تم نے صرف اور صرف ان کی عزت پر بٹہ لگایا ہے۔
عزت وراثت میں نہیں ملتی earn کی جاتی ہے ۔کل پہلی بار جب اپنی کارکردگی کے ایوز تمہیں جیل کیا جانا پڑا تمھارے خاندان کی عزت کا جنازہ نکل گیا۔گر تمھیں اپنے خاندان کی عزت ک کی اتنی ہی پرواہ تھی تو نشے کی حالت میں گاڑی چلانے سے قبل ان کے متعلق سوچنا تھا۔یاد رکھنا شاہ زر آفریدی اس دنیا میں کبھی نہ کبھی ہر ایک کو اپنے کیئے کی سزا بھگتنی پڑتی سو تم بھگت رہے ہو۔”
وہ پوری قوت سے چیخ چیخ کر بولی تھی۔
” تم نے درست کہا every one has to pay for their sins سو تمھیں بھی اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہوگی۔آج تم حساب دوگی میرے باپ کی تذلیل کا میری ماں کے آنسوؤں کا۔جیل میں گزارے میرے ایک گھنٹے کے ہر ایک سیکنڈ کا۔
کیا کہاتھا تم نے ” صرف” ایک گھنٹہ ۔صرف ایک گھنٹے سے میری زندگی میں کیا کچھ بدل گیا ہے اس کا اندازہ آج تمھیں بخوبی ہو جائے گا۔پورے چوبیس گھنٹوں میں سے محض ایک گھنٹہ جو ہمارے موافق نہ گزرا ہو جس کی ہوا مخالف سمت میں چلی ہو وہ ایک گھنٹہ ہماری زندگی کتنی بدل دیتا ہے اس کا احساس آج ہوگا تمہیں۔
ایک گھنٹے کے اندر انسان کیا کچھ کھو سکتا اس کی حیثیت کتنی بدل جاتی ہی تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔”
وہ پھنکارتا ہوا اس کے قریب آیا تھا۔
” میرے مولا رحم کر ”
اس لمحے اس کا ہر رووا دعاگو تھا۔خوف کے مارے اس کا حلق خشک ہو گیا۔زندگی میں پہلی دفعہ اسے کسی سے اس قدر ڈر لگا تھا۔
شاہ زر نے اس کی کلائی تھامی اور اسےگھسیٹا ہوا کار کی طرف بڑھا۔
” یہ کیا کر رہے ہو تم ،؟
کہاں لے جا رہے ہو مجھے میرا ہاتھ چھوڑوں”.
وہ بدحواس سی چیخی تھی۔
کار کے نزدیک پہنچ کر اس نے دروازہ کھولا تھا۔یہ منظر دیکھ خوف کے مارے اس کا چہرہسفید پڑگیا۔وہ کیا کرنے جا رہا تھا۔اسے کہاں لے جا رہا تھا۔
” رحمت چاچا میری مدد کریں پولیس کو بلائے،سفدر بھائی جلدی کریں مجھے بچا لیں.”
اس نے کار کے دروازے کو سختی سے تھامے خود کو اندر دھکیلے جانے سے باز رکھا تھا۔اس نے اپنے جاننے والوں کو پکارا تھا۔مگر ان سبھی نے نظریں جھکا لیں ۔یہ وہی افراد تھے جن میں سے کئیوں کی مدد کے لیے اس نے تھانے سے کورٹ تک کے چکر کاٹے تھے ۔مگر آج جب اسے ان کی ضرورت تھی وہ لوگ خاموش کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اسے مدد کے لیے چیختا دیکھ شاہ زر نے سختی سے اس کے ہاتھوں کی گرفت سے دروازے کو آزاد کرتے ہوئے کسی سامان کی طرح اسے سیٹ پر دھکیلا تھا۔وہ روتی چیختی کھڑکی کا شیشہ پیٹتے ہوئے لوگوں کو آوازیں دیں رہی تھی مگر مجمع چھٹنے لگا ۔
” آج تمہیں احساس ہوگا کے ذلیل ہونا کسے کہتے ہیں”.
مجمع نے شاہ زر کے آخری الفاظ سنے تھے کہ کار چل پڑی تھی۔
****
وہ راستہ بھر اس کی منت کرتی رہی اسنے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کی اتنی منت نہیں کی تھی۔ کسے کے سامنے گڑگڑائ نہ تھی۔مگر مقابل کے سر پر خون سوار تھا۔
چند گھڑیاں گزر جانے کے بعد گاڑی ایک عمارت کی سامنے رکی تھی۔بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر اس نے زرمین کو باہر گھسیٹا تھا۔وہ اسے گھسیٹتا ہوا عمارت کی سیڑھیاں چڑھتا جا رہا تھا۔وہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی ناکام سعی کرتی رہی ۔
ایک نازک سی لڑکی کے لیے6فٹ کے مضبوط مرد کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑا پانا ناممکن تھا۔ایک فلیٹ کے دروازے پر پہنچ کر وہ رکا تھا۔زرمین نے وحشت زدہ نظروں سے پہلے دروازے کی سمت پھر شاہ زر کے چہرے کو دیکھا۔
” میرا ہاتھ چھوڑو مجھے جانے دو۔میں اس دروازے کی چوکھٹ کو عبور نہیں کرونگی۔تم کیا کرنا چاہتے ہو ۔خدا کے غضب سے ڈرو ایسا ظلم نہ کرو۔”
اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے وہ پھٹی پھٹی آواز میں چینخی تھی۔اس کی بات پر طنزیہ مسکراتے ہوئے اسنے اپنے چمکتے جوتے میں جکڑے پیر سے دروازے کو زوردار ٹھوکر ماری تھی۔دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازوہ کھلا تھا۔اس نے اسے اندر دھکیلا تھا وہ بری طرح لڑکھڑاتی ہوئی زمین بوس ہوئی تھی۔
“انسان سے ڈروں یا نہ ڈروں خدا سے میں بے شک ڈرتا ہوں۔میں کوئی ظلم نہیں کر رہا تم پر بس انتقام لے رہا ہوں جس کی اجازت مجھے خدا نے دی ہے۔تم اس قدر پریشان کیوں ہو رہی ہو محض ایک گھنٹہ کا سوال ہےاس کے بعد میں ازخود تمہیں تمھارے گھر چھوڑ آؤں گا۔
اور گھبراؤ نہیں یہ گھنٹہ تم تنہا انجوائے کرنے والی ہو ۔مقررہ وقت پورا ہوتے ہی میں حاضر ہو جاؤنگا۔تب تک کے لیے اجازت چاہتا ہوں۔have a nice hour
ماتھے تک ہاتھ لےجاکر سلام کرتا وہ جانے کے لئے پلٹا تھ۔
وہ فرش سے اٹھ کر بجلی کی تیزی سے اس کی راہ میں حائل ہوئی تھی۔
” مجھے جانے دو،خدارا مجھے جانے دو ۔تم مجھ سے انتقام لینا چاہتے ہو نا تو کوئی اور طریقہ سوچ لو مگر یہ ظلم نہ کرو۔میرے حصہ کی سزا میرے عزیزوں کو نہ دو ۔ایک اور منٹ کے لیے گر میں یہاں رکی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔میری دائی ماں مر جائینگی۔”
وہ گڑگڑائی تھی ۔
” کیا تم نے میرے حصے کی سزا میرے عزیزوں کو نہیں دی۔دی تھی نا پھر حساب برابر ہوا۔ میری کالر پکڑ کر مجھ پر چیخو چلاو اور پوچھو how dare you do this to me تم اس طرح رو رو کر منتیں کر سارا کھیل بگاڑ رہی ہو۔مقابلہ برابری والوں میں ہوتا ہے۔ کیا میں جیل میں رو رہا تھا کیا میں تمھاری منت کر رہا تھا ۔میں تمہیں مضبوط اعصاب کی مالک سمجھ بیٹھا
تھا۔مگر تم تو ایک عام کمزور سی لڑکی ثابت ہوئی ہو۔کہاں گئی حق کے لیے لڑنے والی زرمین فاروقی۔”
اس نے تاسف سے کہا تھا۔اس کے جواب میں کہنے کو زرمین کے پاس کچھ نہ تھا فی الوقت وہ ہر دوسری عام لڑکی کی طرح بے بس تھی ۔اسوقت میڈیا پولیس ،قانون کچھ بھی اس کے کام نہ آیا تھا۔وہ جرنلسٹ زرمین فاروقی نہیں بنا ماں باپ کے پلی بڑھی اپنی دائی ماں کے ساتھ رہنے والی عام سی لڑکی تھی۔اسے آنسوں بہاتا چھوڑ فلیٹ کے دروازے کو لاک کرتا وہ چلا گیا۔وہ ٹوٹی عمارت کی مانند زمین پر ڈھے گئی۔
طوفان کی اس ادا میں بھی کتنا خلوص تھا
ساحل تک آگیا وہ مجھے ڈھونڈتا ہںوا
*****