آیت نے اپنی ساس کو اپنے امید سے ہونے کا بتا دیا۔وہ بہت زیادہ خوش تھی ۔یہ بات سب کو پتا چل گئی حویلی میں ۔بابا جانی نے باقاعدہ صدقہ خیرات کی کہ اگلا حویلی کا وارث آنے والا ہے۔ولید جب رات کو حویلی آیا تو اسے سب سے یہ بات پتا چلا۔یہ کمرے میں گیا تو آیت لیٹی ہوئی تھی۔ولید چلتے ہوئے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔
“اتنی بڑی خوشی پر سب سے پہلے میرا حق تھا وہ تم نے لوگوں کو بتا دی کیوں آیت ۔”
آیت نے ولید کی طرف رخ موڑا۔
“تو ایسا کریں اس بات پر بھی دو چار لگا دیں ۔آپ یہی تو کرتے آئے ہیں اس کے علاوہ آپ کر بھی کیا کرسکتے ہیں ۔مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ کو ہر بات میں اعتراض ہے اب اس بات کو لے کر بھی مجھے ماریں گے آپ۔”
“مجھے غلط مت سوچو خان بیگم۔میں اس خوشی کو تمہارے ساتھ ماننا چاہتا تھا۔تمہیں میری ہر بات ہی غلط لگتی ہے کبھی میری باتوں کو سیدھے طریقے سے بھی لے لیا کرو۔”
“آپ نے کوئی راستہ چھوڑا ہے۔خیر میں اس وقت بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔اگر آپ کو بھوک لگی ہے تو باہر جائیں چچی سے کہہ دیں وہ آپ کو کھانا دے دیں گی مجھ سے کچھ نہیں ہوگا آج۔طبیعت ٹھیک نہیں میری۔”
ولید نے آیت کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
“تم نے کھانا کھایا ہے خود۔”
“میرا موٹ نہیں ہے۔”
“یہ کیا بات ہوئی اٹھو کھانا کھائو میرے ساتھ۔تمہیں پتا ہے مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں اور یہ تو میرا بہت پیار بچہ ہوگا ۔”
ولید نے آیت کے پیٹ پر ہاتھ رکھنا چاہا۔
“خبردار جو مجھے چھوا بھی تو۔میرے بچے تک بھی تو وہ احساسات پہنچنے چاہیں نہ جو میں محسوس کرتی ہو۔مجھے ہاتھ بھی مت لگانا اب آپ خان۔”
“کیوں میرا بھی بچہ ہے یہ۔تم اپنے گھر سے لائی تھی اسے۔”
“جیسے میں تو جانتی ہی نہیں نہ یہ سارا پیار محبت بیٹے کے لیئے ہے اگر بیٹی ہوگئی تو اسکا نصیب بھی دوسری آیت کی طرح ہوجائے گا۔”
“فضول باتیں مت کیا کرو آیت۔اٹھو میں تمہیں کھانا کھائے بغیر نہیں سونے دوں گا۔کل ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔”
آیت خاموشی سے اٹھی اور ہلکا پھلکا کھا لیا ۔سونے کے وقت ولید کی عادت تھی یہ آیت کو اپنے ساتھ لگا کر سوتا تھا ۔اس نے آیت کو اپنے قریب کرنا چاہا مگر آیت نے پھر اس کا ہاتھ جھٹکا دیا ۔
“کہا ہے نہ قریب مت آئیں سمجھ نہیں آتی ۔نہیں اچھا لگتا مجھے جب آپ آتے ہیں میرے قریب۔”
“یہ کیا حرکت ہے آیت ایسے کوئی کرتا ہے ۔”
“ایسا ہر اس عورت کو کرنا چاہیے جس کا شوہر بے حس لوگوں کی خاطر اسے بات بات پر مارتا ہے۔”
آیت پلیز میں نے سوری کی ہے نہ۔”
“مجھے فرق بھی نہیں پڑتا ۔”
آیت نے کروٹ بدل لی اور تکیہ بازو میں کھینچ کر تھوڑی ہی دیر میں سو گئی۔ولید نے آیت کے بال پیچھے کیئے پھر اس کی نیند کا فائدہ اٹھا کر اسے اپنے سینے سے لگایا ۔
“بے بی ماما بہت زیادہ غصہ ہیں نہ۔بابا مانا لیں گے آپ جلدی سے آجائو۔آپ تو مجھے جانتے ہو نہ۔ماما آپ کو مجھ سے دور نہیں کر سکتی آپ تو میرے چھوٹے سے چمپ ہوگے نہ۔ آپ چھوٹی سی گڑیا بھی تو ہوسکتے ہو نہ ننھی سے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں والی ۔”
ولید نے جھک کر آیت کی پیشانی پر بوسہ دیا پھر سکون سے سو گیا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے اپنے ہی رویے سے آیت کو خود سے بہت دور کر دیا ہے۔
_________________________
مہر آج جلدی فارغ ہوگئی تھی ہسپتال سے تو اس نے شاہ بخت کے آفس میں آنے کا سوچا۔یہ آفس آئی تو اسے بہت سے لوگ جانتے تھے۔اسے شاہ بخت کا آفس بھی پتا تھا۔یہ سیدھے آفس میں چلی گئی۔مگر آفس کا دروازہ کھولتے ہی اس کا خون کھول اٹھا۔شاہ بخت کو ایک لڑکی اس پر جھکی ہوئے کچھ کہہ رہی تھی۔شاہ بخت کی ٹائی بھی اس وقت کھلی ہوئی تھی۔
“شاہ بخت۔۔۔۔۔۔۔”
لڑکی پیچھے مڑی تو مہر اسے فورا پہچان گئی۔یہ شاہ بخت کی سیکرٹری تھی۔
“اچھا تو میرے پیچھے یہ سب کام بھی ہوتے ہیں ۔”
“مہر تو غلط سمجھ رہی ہو آئو یہاں پر واپس۔”
شاہ بخت اپنی جگہ سے نہیں اٹھا جبکہ اس نے لڑکی کو اشارہ کیا کہ۔یہ باہر چلی جائے۔مہر اندر آئی اور آتے ہی سب سے پہلے اس نے باہر جاتی لڑکی کے چہرے پر تھپڑ لگائے۔
“شرم نہیں آتی کسی شادی شدہ مرد کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے۔اگر اتنی ہی آگ لگی ہوئی تھی تو کوئی ڈھونڈ لیتی نہ جو تمہاری قیمت اچھی ادا کر دیتا۔”
سیکرٹری بھی کافی ڈھیٹ تھی۔
“ارے جتنی قیمت آپکے شوہر ادا کرتے ہیں اور کوئی کرسکتا ہے کیا میڈیم۔ اب سر اتنے ہینڈسم ہیں تو ان پر صرف آپ کا ہی حق نہیں ہے باقی لڑکیوں کو بھی ان سے فائدہ حاصل کرنے دیں ۔”
“شٹ اب۔”
مہر نے ایک اور تھپڑ اسے مارا۔شاہ بخت کھڑا ہوگیا۔
“مہر یہ کیا حرکت ہے ۔وہ صرف میری جاننے والی ہے سیکرٹری ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔”
“بس کر دیں شاہ بخت نظر آرہا ہے یہ مجھے آپ کی کیا لگتی ہے۔آپ کو ذرا احساس نہیں ہوا کہ میں آپ سے کتنی محبت کرتی ہوں۔میں نے آپ کے لیئے سارے خاندان کی مخالفت مول لی اور آپ یہاں یہ سب کرتے پھر رہے ہیں ۔شرم آنی چاہیے آپ کو۔”
“دیکھو مہر ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں اس قسم کی دوستیاں عام ہوتی ہیں ۔تمہیں اب ان سب چیزوں کی عادت ڈال لینی چاہیے ۔”
“میں کیوں ڈالوں ان سب چیزوں کی عادت۔آپ یہ مت بھولیں کہ آپ کی بہن میرے بھائی کی بیوی ہے آپ میرے ساتھ یہ سب کریں گے تو اسے بھی میں حویلی میں راج نہیں کرنے دوں گی۔”
مہر واپس چلی گئی۔شاہ بخت بے شک مہر سے بہت محبت کرتا تھا مگر یہ اپنی ایسی زندگی چھوڑ نہیں سکتا تھا اور اسکو لگتا تھا کہمہر اسے سمجھے گی۔کچھ دنوں سے مہر نے یہ ظاہر کیا تھا کہ یہ بھی حویلی کی عورتوں کی طرح ہے تنگ نظر مگر ایسا نہیں تھا وہ ٹھیک تھی مگر کہتے ہیں جب آپ کسی کو تکلیف دے کر آگے آتے ہیں تو پھر کامیابی کیسی ۔
__________________
آیت چچی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔حویلی میں کچھ عورتیں آئی تھی کچھ ہاتھ سے کڑھائی ہوئے کپڑے لے کر ۔ آیت چچی کے ساتھ ان میں سے سوٹ پسند کر رہی تھی۔ویسے بھی اب تو ظاہر ہونے لگا تھا کہ یہ امید سے ہے اور اس کا وجود بھاری ہوگیا تھا۔
“بی بی جی آپ تو بڑی پیاری ہوگئی ہیں ۔بہت خوبصورت ہوتی جارہی ہیں جی دن بدن۔”
“ارے کیوں نہیں ہوگی ولید خان اتنا خیال جو رکھتے ہیں اس کا۔دیکھنا میری بہو بہت پیاری ہے کیسے اس حویلی کو بچوں کی قلقاریوں سے بھرے گی۔”
چچی نے آیت کے سر پر ہاتھ پھیرا۔آیت سوٹ دیکھ رہی تھی جب مہر حویلی میں آئی ۔اس کے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا۔
“ارے مہر بیٹا ۔”
چچی کھڑیں ہوگئی۔مہر نے انہیں دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا اور ان کے گلے لگ کر ایسے برے طریقے سے روئی کے پاس بیٹھی عورتیں بھی ڈر گئی ۔آیت نے فورا ہی انہیں باہر پیچھا۔
“بتائو تو بیٹا ہوا کیا ہے ۔”
“مورے شاہ بخت کے اور لڑکیوں سے تعلقات ہیں ۔وہ کہتے ہیں وہ ان کی زندگی ہے نہیں بدل سکتے وہ ۔میں نے خود انہیں ایک لڑکی کے ساتھ پکڑا پے۔”
آیت تو اسکی بات سنتے ہی حیران ہوگئی۔کہاں وہ مہر تھی جو شاہ بخت کے پیچھے پاگل تھی اور کہاں یہ مہر تھی۔
“اس نے ہی ضرور شاہ بخت کو ولید کے رویے کے بارے میں کچھ کہا ہوگا۔اس سے تو میری خوشیاں دیکھی نہیں جاتی نہ۔میرا بھائی اسے منہ نہیں لگاتا۔دیکھنا آنے دو میرے بھائی کو اسے بھی گھر سے نکلواتی ہوں ۔”
خیر آیت کو مارنے کے لیئے آگے آئی۔چچی نے فورا اسے پکڑ لیا ۔
“دماغ خراب ہے تمہارا ۔امید سے ہے وہ ولید کو پتا چل گیا تو تمہاری کھال الھاڑ کر رکھ دے گا۔وہ اس کا بہت خیال رکھتا ہے اور تم اسے مارنے چلی ہو۔ تم نے خود ہی شاہ بخت کو پسند کیا تھا۔اس وقت کتنا منع کرتے تھے سب تمہیں تو اب کس بات کا شور ہے۔”
“ارے مورے آپ نہیں جانتی میں اس ڈائین کو اچھے سے جانتی ہوں۔خود کی شادی چھوٹے لڑکے سے ہوگئی نہ جو اس کو اہمیت نہیں دیتا آخر کو بوڑھی جو ہورہی ہے اس لیئے اس نے شاہ بخت کو میرے خلاف لیا ہے۔میں اسے اس گھر میں برداشت نہیں کروں گی۔ کہیں ولید سے اسے گھر سے باہر کرے۔”
“آیت بیٹا تم کمرے میں جائو یہ تو پاگل ہوگئی ہے۔”
آیت جو حیرانی سے اتنی دیر سے سب دیکھ رہی تھی وہ چچی کے کہنے پر فورا کمرے میں چلی گئی۔اس وقت یہ اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ دو جانیں تھی۔اسے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اس کے دو بچے ہیں جس کی وجہ سے اسے بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ۔اس عرصے میں ولید نے اسے اپنا ایک الگ ہی روپ دیکھایا تھا۔وہ سختی کرتا تو اس لیئے کہ یہ اپنا خیال نہیں رکھ رہی تھی۔مگر اب آیت کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا وہ جو مرضی کرے کیونکہ اب اس کے پاس اس کے بچے آنے والے تھے جو اس کی گل کائنات تھی۔مگر مہر کی باتوں نے اسے ڈرا دیا تھا اگر آیت کو مہر کے کہنے پر ولید نے نکال دیا تو جیسے مہر کے کہنے پر ہی ولید نے اس سے شادی کی تھی ۔کمرے میں بیٹھے ہوئے آیت کا سوچ سوچ کر بڑا حال تھا۔اس نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا جو یہ اکثر دو بار کھاتی تھی ایک پہلے اور ایک ولید کے ساتھ ۔
آیت کو سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیا کرے۔آج ولید کا امتحان تھا کہ وہ کیا کرتا بہن کی خاطر بیوی کو میکے چھوڑ آتا یا اس کا مان رکھ لیتا ۔آیت کا مان کسی نے نہیں رکھا تھا مگر اسے ولید سے امید تھی کہ شاید وہ اس کا مان رکھ لے.ولید حویلی آیا تو اسے حویلی میں خاموشی کا احساس ہوا۔یہ ابھی اپنے کمرے کی طرف ہی جارہا تھا کہ اسے اپنی ماں کی آواز آئی۔
“بیٹا کمرے میں آئو تم سے کوئی بات کرنی ہے۔”
ولید اپنی ماں کے کمرے کی طرف چلا گیا۔یہاں آیت کی والدہ اور والد بھی تھی۔ساتھ میں بابا جانی اور مہر کے والدین بھی تھے۔
“کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ ۔آیت تو ٹھیک ہے۔”
“آیت ٹھیک ہے مگر تمہاری بہن ٹھیک نہیں ولید۔تم جانتے ہو ولید،شاہ بخت نے مجھے دھوکا دیا ہے اس کے اور گئی لڑکیوں سے تعلقات ہیں ۔میں اس کا گھر چھوڑ کر آئی ہوں۔ تم بھی اس کی بہن کو واپس گھر بھیجو تاکہ اس کی عقل ٹھکانے آئے۔”
ولید پہلے تو مہر کی بات سن کے خاموش رہا۔
“تمہیں کس نے کہا دیا کہ میں اپنی دل جان سے عزیز بیوی کو تماری خاطر چھوڑوں گا وہ بھی اس وقت جب اسے میری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔”
“کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ولید۔بھائی تو بہنوں کی خاطر کچھ بھی کرجاتے ہیں ۔تمہاری بیوی اپنے ماں باپ اور بھائی کو تمہاری باتیں بتاتی ہے جس کی وجہ سے شاہ بخت مجھ سے بدلہ لے رہا ہے۔یہ تائی بھی سب میں شامل ہیں ۔”
بابا جانی اور سب حیران ہو رہے تھے کہ مہر کیسے الزام لگا رہی ہے۔
“اپنی زبان کو قابو میں رکھو مہر ہماری تو بات ہی نہیں ہوئی اپنی بیٹی سے پچھلے چھ سات ماہ سے جب سے اس کی شادی ہوئی ہے۔شاہ بخت سے وہ پہلے بھی بات نہیں کرتی تھی اب کیا کرے گی۔ولید بیٹا ہماری بیٹی کا کوئی قصور نہیں ۔”
آیت کی والدہ نے ولید کو سمجھانا چاہا کہ کہیں ولید غصے میں ان کی بیٹی کو مارنے ہی نہ لگ جائے۔
“تائی آپ آیت کو لے کر آئیں ۔”
آیت کی والدہ فورا اٹھی اور اپنی بیٹی کو لے آئی ۔
“لو آگئی ہے یہ ولید اس سے پوچھو کیا پٹیاں پڑھاتی ہے میرے شوہر کو کہ وہ مجھ سے اس قدر بد گمان ہوگیا ہے۔”
مہر پھر آیت کو مارنے اٹھی اب کی بار ولید نے اسے بازو سے پکڑا اور زوردار طمانچہ مارا۔
“خبردار جو آئیندہ میری بیوی کے بارے میں اپنی غلیظ زبان سے ایک لفظ بھی کہا تو۔تم نے خود اپنی پسند سے اس شخص سے شادی کی ہے۔یاد ہے کتنا سمجھایا تھا تمہیں میں نے کہ وہ بدکردار آدمی ہے تمہارے قابل نہیں مگر تمہارے سر پر عشق کا بھوت سوار تھا۔اب بھگتو میں آپ سب کو پتا دینا چاہتا ہوں کہ آیت اور میں جیسے مرضی رہیں مگر کسی کو حق نہیں کہ میری خان بیگم کو کچھ کہے یا اس کی طرف قدم بھی بڑھائے۔ میں لحاظ نہیں کروں گا کسی کا بھی اگر کوئی میری دل جان کے خلاف بولا۔آیت آئیندہ مہر تمہیں کچھ بھی کہے تو میرے کہے بغیر اسے اس حویلی سے باہر پھینک دینا۔شادی اس نے اپنی مرضی سے کی تھی اب ہم ذمہ دار نہیں ہیں اس کے۔چلو آیت میری جان نے اپنا حال خراب کر لیا ہے۔”
ولید آیت کو اپنے حصار میں لے کر اپنے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا۔مہر نے تو رو رو کر حویلی سر پر اٹھا لی۔بابا جانی یہی کہہ کر گئے تھے کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے۔ جب شادی اپنی پسند کی لی ہے تو نبھائے بھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...