گھر آتے ہی اسنے انابیہ کو کال کی۔۔موبائل چارج پر تھا۔۔وہ دیکھ نہیں پائی۔۔اسنے عائشہ کے نمبر پر کال کی ۔۔جو عامر نے پک کی۔۔انابیہ وہی ہے۔۔جی یہاں ہے۔۔میری بات کرواو۔وہ غصے میں بولا۔۔انابیہ آپ کے لیے کال ہے۔۔کون ہے انابیہ نے پوچھا۔۔ عاشر کی کال ہے۔۔اسنے سنتے ہی کال کاٹ دی اور اپنا موبائل اٹھایا۔۔دیکھا تو بیس مس کالز شو ہورہا تھا۔۔اسنے کال ملائی۔۔عاشر نے کال پک کی۔کہاں ہو تم ۔۔میں عائشہ کے گھر ہوں۔میں لینے آرہا ہوں وہ غصے میں بولا۔عاشر میں نہیں آسکتی۔آنٹی نہیں آنے دے رہی اور رات کافی ہو گئی ہے۔وہ بیچارگی سے بولی۔۔۔مجھے کچھ نہیں سننا میں آرہا ہوں۔۔میں نہیں آونگی۔صبح آجاؤں گی۔وہ غصے میں کہتی کال کاٹ گئی۔۔مجھے پتا ہے کیوں نہیں آنا وہاں عامر کے ساتھ گلچھرے أڑا رہی ہوگی۔عاشر نے سوچتے ہی موبائل اٹھا کر دور پھینکا ۔۔اگلے دن عائشہ پارلر جا رہی تھی تو اس نے انابیہ کو روﮈ تک ﮈراپ کردیا انابیہ گھر کی طرف آرہی تھی۔۔جہاں عاشر پہلے سے اسکا منتظر تھا اسکو دیکھتے ہی آگے بڑھا۔۔انابیہ نے اسمائل پاس کی۔۔قریب آتے ہی اسنے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر رسید کیا۔۔وہ ابھی سمبھل ہی نہیں پائی تھی کہ ایک اور تھپڑ۔عاشر نے پاگلوں کی طرح اس ہر تھپڑوں کی بارش کر دی وہ نیچے گر گئی انابیہ چلانا چاہ رہی تھی لیکن اسکی آواز حلق میں اٹک گئی۔۔اب لوگ جمع ہونے شروع ہوگئے۔آﺫر ابھی گھر سے نکلا تھا۔عاشر کو دیکھا تو بھاگتا ہوا آیا۔امی۔۔۔۔۔۔انابیہ پوری قوت سے چلائی تھی۔۔ابو ۔۔۔آﺫر نے اسکی آواز سنی لوگوں کو ہٹاتا ہوا آیا عاشر کو دور دھکا دیا۔۔اور ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر دے مارا۔۔انابیہ بے سدھ پڑی تھی۔۔جو اکا دکا لوگ تھے۔ان میں سے ایک نے جا کر انابیہ کے گھر خبر دی۔۔زینب بیگم سر پر دوپٹہ لیتی بغیر جوتوں کے گھر سے باہر نکلی اور چلاتی ہوئی انابیہ کے پاس آئی اسے اٹھانے کی کوشش کی۔انھیں دیکھتے ہی عاشر بھاگ کھڑا ہوا۔انابیہ انابیہ آﺫر اور زینب بیگم اس پر جھکے ہوۓ تھے۔۔آﺫر نے انابیہ کو بازوں میں اٹھایا اور گھر لے آیا زینب بیگم مسلسل روۓ جا رہی تھیں۔۔ماہین ماہین وہ چلائی سلیم کو کال کرو شارم کو بلاؤ۔میری بیٹی کیا ہوگیا ہے یہ۔۔وہ روتے ہوۓ اسکو سینے سے لگائی بیٹھی تھیں۔ آﺫر نے فورا ایمبولینس منگوائی اور انابیہ کو لے کر اسپتال گئے۔۔شارم اور سلیم صاحب وہی پہنچے تھے۔آﺫر نے سجاد صاحب کو بھی کال کر کے وہی بلوا لیا تھا ﮈاکٹر ابھی باہر آیا تھا ۔۔کیا ہوا ہے انابیہ کو۔شارم نے ﮈاکٹر سے پوچھا تھا۔۔دیکھیں پیشنٹ کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔انکا کان کا پردہ اور ٹشوز بری طرح متاثر ہوۓ ہے۔۔اور جسم پر کچھ چوٹ کے نشانات ہیں۔یہ پولیس کیس ہے۔۔ہمیں پولیس کو انفارم کرنا ہوگا۔۔باقی بات ہم انھیں بتائیں گے۔دیکھیں یہ ہمارا گھر کا مسئلہ ہے ہم پولیس کو انوالو نہیں کرنا چاہتے سلیم صاحب نے اپنی عزت بچانے کے لیے پولیس کو انوالو نا کرنے کا فیصلہ کیا۔دیکھیں سر ہم پولیس کو انفارم کیے بغیر انکا ٹریٹمنٹ اسٹارٹ نہیں کر سکتے۔میری بیٹی کی شادی ہے نیکسٹ منتھ۔ہماری بہت بدنامی ہوگی سجاد صاحب نے سلیم کو سمبھالتے ہوۓ کہا۔۔ائی ایم سوری۔بٹ آئی تھنک آپکو انفارم کرنا چاہیے۔آج جو ہوا ہے دوبارہ بھی ہو سکتا ہےاینی وے ہم ٹریٹمنٹ اسٹارٹ کرتے ہیں۔۔۔کچھ دوائیاں منگوائیں آپ ۔۔ﮈاکٹر نے سلیم صاحب کو پپر تھمایا اور آگے چلا گیا۔۔کس نے کیا ہے یہ۔شارم نے آﺫر کو جھنجھوڑ کر پوچھا اسکا غصے سے برا حال تھا۔۔شارم تھوڑا صبر رکھو پلیز گھر جا کر بات کرتے ہیں۔۔امی بتائیں مجھے کس نے کیا ہے۔زندہ نہیں چھوڑو گا اسے۔۔شارم قابو رکھو خود پر ۔سلیم صاحب اور سجاد صاحب نے اسے سمجھایا عاشر بھاگتے ہوئے دوستوں کے پاس گیا تھا۔۔تھوڑا معاملہ ٹھنڑا ہوا تو گھر آیا تھا اور کمرے میں جا کر خود کو لاک کردیا تھا۔۔فاخرہ بیگم نے اسے ایسے آتے دیکھا تو پریشان ہو گئیں۔۔انھوں نے فورا آﺫر کو کال کی اور صورتحال سے آگاہ کیا۔۔امی آپ اسے گھر روک کر رکھنا میں آرہا ہوں۔۔بلکہ ایسا کریں باہر سے روم لاک کریں فورا جائیں۔ہوا کیا ہے آﺫر مجھے بتاو۔۔امی جو کہا ہے وہ کریں میں اور ابو آرہے ہیں آکر بتاتا ہو اس نے کیا کیا ہے۔۔اچھا جاتی ہو۔۔فاخرہ بیگم نے وہی کیا جو آﺫر نے کہا تھا۔وہ بیٹھی خیر کی دعائیں کرنے لگی
انابیہ کا علاج مکمل ہوا تو اسے ﮈسچارج کر دیا گیا۔وہ سب اسے لے کر گھر آۓ۔۔ﮈاکٹر نے آرام کا کہا تھا۔۔اور زیادہ بات کرنے سے منع کیا تھا۔۔اسکا آدھے سے زیادہ چہرہ سوج گیا تھا۔۔کان کے ساتھ ساتھ آنکھ کے ٹشو اور ناک کی ہڑی بھی متاثر ہوئی تھی۔۔ماہین نے اسکا چہرہ دیکھا تو اپنے آنسوں پر قابو نا رکھ سکی۔۔انابیہ کیا ہوا میری جان وہ انابیہ کے پاس آکر تڑپ کر بولی۔شارم انابیہ کے چہرے کو کیا ہو گیا ہے۔ماہین سمبھالو خود کو کچھ نہیں ہوا۔۔شارم نے اسے آنکھیں دکھائی اور چپ کروایا۔۔۔زینب بیگم تو مسلسل روۓ جا رہی تھی۔۔انابیہ سے چلنا مشکل ہو رہا تھاصدمہ اور افسوس سے اسکا ایک ایک قدم بھاری ہو گیا تھا۔شارم اسے اٹھا کر کمرے تک لایا تھا۔۔۔اسے کمرے میں سلا کر زینب بیگم باہر آئی تو آﺫر سلیم سجاد اور شارم نیچے ﮈرائنگ روم بیٹھے تھے۔۔آﺫر یہ کس نے کیا ہے کچھ بتاؤ گے۔۔آﺫر اورزینب بیگم ابھی تک خاموش تھے۔۔انھوں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔۔سجاد صاحب اب اس پر دباؤ ﮈال رہے تھے۔۔ابو یہ عاشر نے کیا ہے۔۔آﺫر سر جھکا کر بولا۔۔کیا ۔۔سجاد صاحب کھڑے ہوگئے۔۔عاشر نے کیا ہے یہ۔۔چھوڑوں گا نہیں میں اسے ۔اسکی جرأت کیسے ہوئی۔وہ دروازے کی طرف بڑھے تو سلیم صاحب نے انھیں روک دیا۔بھائی جان جو تماشا ہونا تھا ہوگیا ۔۔ہمارے خاندان کی عزت خراب ہوگی۔وہ التجائی ہوۓ۔۔اسے میں زندہ نہیں چھوڑو گا شارم چلایا۔۔چپ رہو شارم سلیم صاحب نے اسے آنکھیں دکھائی تو وہ با مشکل انکی مان کر بیٹھ گیا۔۔۔زینب بیٹا میں معافی مانگتا ہو آپ سے۔۔زینب کو آتا دیکھ کر وہ انکی طرف بڑھے۔بھائی جان ایسا نہیں کہیں انابیہ آپکی بیٹی ہے۔بس عاشر سے اتنا پوچھوں گی میں اس نے کیوں کیا ایسا کوئی بات تھی تو گھر آجاتا بات کرکے غلط فہمی دور کر لیتا۔وہ روتی ہوئی بولیں۔۔۔۔میں اسکی جا کر خبر لیتا ہوں ابھی۔۔۔
آﺫر عاشر ہے کہاں اس کو بلاؤ وہ گھر ہے شاید آﺫر نے بتایا۔اسے لے کر آؤ ابھی سجاد صاحب نے اسے حکم دیا۔۔وہ جی ابو کہتا گھر آگیا۔۔۔آﺫر کو گھر آتا دیکھ کر فاخرہ بیگم اسکی طرف بھاگی۔۔کیا یوا ہے آﺫر۔۔ امی عاشر کہاں ہے۔۔کمرے میں ہے۔۔تم بتاؤ ہوا کیا ہے۔۔امی عاشر نے بیچ بازار انابیہ کو مار مار کر زخمی کیا ہے۔اسکا چہرہ دیکھیں جا کر۔۔پورے محلے کو پتا ہے آپ کو نہیں پتا۔۔وہ چلایا۔۔آﺫر آرام سے بیٹا۔۔اسکی طبیعت خراب ہو جاۓ گی۔وہ التجائی ہوئیں۔۔ مر جاۓ تو اچھا ہے اسنے خاندان عزت کا جنازہ نکال دیا ہے۔وہ کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔عاشر عاشر۔دروازہ کھولو اسنے دروزہ کو دھکے مار مار کر کھولوایا۔۔عاشر کے دروازہ کھولتے ہی اسے گریبان سے پکڑ کر سیڑھیوں سے گھسیٹا ہوا سلیم صاحب کے گھر لے آیا۔۔پیچھے فاخرہ بیگم بھی روتی روتی آئیں۔
آﺫر نے اسے ﮈرائنگ روم لا کر چھوڑا کیا کیا ہے تم نے ہاں اسے دیکھتے ہی سجاد صاحب اس پر برس پڑے ۔۔سلیم صاحب اور شارم نے انھیں سمبھالا۔۔فاخرہ بیگم بیٹے کو بچاتی رہیں۔۔
کیوں کیا ہے تم نے اس بچی کے ساتھ ایسا۔۔ایک ماہ بعد شادی ہے تمھاری ۔۔بتاو اب وہ باقاعدہ ہاتھ چلا رہے تھے۔۔وہ سر جھکاۓ ملزموں کی طرح کھڑا رہا۔۔سجاد کیا کر رہے ہیں آپ جوان بیٹے پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں ہوچھ تو لیں اس سے ۔۔اسکی بات تو سنیں۔۔خاموش رہیں آپ۔۔آپ کے لاﮈ پیار نے بگاڑا ہے اسے۔۔آج تھوڑا قابو میں رکھتیں تو یہ دن نا دیکھنا پڑتا۔۔جا کر اس بچی کی حالت دیکھیں۔۔اسکا چہرہ دیکھیں۔۔۔سجاد صاحب غصے میں چلا کر بولے۔۔۔بھائی پلیز سلیم صاحب انہیں چپ کروا رہے تھے۔۔۔ارے جو اس لڑکی کے کرتوت ہیں۔یہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔فاخرہ بیگم بھی چلائیں۔۔میں کہہ رہا ہوں آپ کو اپنی حد میں رہیں۔۔مجھے میری حد پتہ ہے آپ کو اپنی بیٹی کے کرتوت پتا ہے۔وہ سلیم صاحب کی طرف پلٹی۔۔جو میرے بیٹوں کو پھنسا سکتی ہے۔ان کے ساتھ گھومتی پھرتی ہے۔ملاقاتیں کرتی ہے۔۔وہ لڑکی اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ نہیں کرتی ہوگی ۔۔میں تو بیٹے کے ہاتھوں مجبور تھی ورنہ ایسی آوارہ لڑکی کو کون بہو بناتا ہے۔جیسی ماں ویسی بیٹی لڑکوں کو قابو کرنے والیاں۔ایک زور دار تھپڑ فاخرہ بیگم کا منہ بند کرا گیا۔۔میں نے کہا کہ بس۔۔اب اور ایک بھی لفظ نہیں۔۔ سجاد صاحب کا ہاتھ اٹھا تھا۔زینب بیگم سمیت سب کے سب منہ پر ہاتھ رکھے سن کھڑے تھے۔۔فاخرہ بیگم گال پر ہاتھ رکھے صرف سجاد صاحب کو دیکھتی رہیں۔۔پتہ چل گئی آپکو اپنی بھتیجی کی اوقات ۔۔یہ میرے منع کرنے کے باوجود کیوں گئی تھی وہاں۔عامر کے ساتھ گلچھرے اڑانے۔۔ عاشر نے آگے بڑھ کر ماں کو سمبھالا اور چلایا۔بکواس بند کر بےغیرت شارم نے آگے بڑھ کر اسکا گریبان پکڑ لیا۔۔پہلے سن لے اپنی بہن کی اوقات بہت پارسا نہیں ہے میرے ساتھ منگنی سے پہلے چھتوں پر ملنے آتی تھی ۔میرے ساتھ گھومتی پھرتی رہی ہے۔۔ایک دونا جانے کتنے تھپڑ شارم نے اس کے منہ پر جڑ دیے۔۔چھوڑو میرے بیٹے کو فاخرہ بیگم نے اسکا گریبان چھڑوایا اور شارم کو دور دھکا دیا۔۔۔زینب بیگم جو منہ پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی ۔۔دھڑام سے نیچے ﮈھیر ہوگئیں۔ماہین بھاگتی ان کے پاس آئی امی ۔۔۔امی آنکھیں کھولیں۔۔وہ اور آﺫر انہیں سمبھالنے لگے۔۔۔آﺫر نکالو ان دونوں کو یہاں سے میں شکل نہیں دیکھنا چاہتا ان دونوں کی۔۔سجاد صاحب نے دونوں ماں بیٹے کو دکھے دے کر دور کیا۔۔سلیم صاحب جہاں بیٹھے تھے وہی بیٹھے رہ گئے۔ان کی نازوں پلی۔لاﮈلی بیٹی کی عزت ایسے سر عام اچھالی گئی تھی۔۔وہ دل پکڑ کر رہ گئے ایسی بے غیرت لڑکی کو کبھی میں اپنی بیوی نہیں بناؤں گا عاشر نے انگلی سے انگوٹھی اتاری اور سلیم صاحب کے سامنے پھینک کر ماں کو لیے چلتا بنا۔۔سجاد صاحب جان چکے تھے۔ان کے بیٹے کے دماغ میں فطور ﮈالنے والی صرف اور صرف فاخرہ ہے۔۔سلیم صاحب انگھوٹھی کو گھورتے رہے۔۔۔سجاد صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گۓ۔۔سلیم مجھے معاف کردے میرے بھائی ۔۔میری چپ کی وجہ سے یہ سب ہوا۔۔میں پہلے ہی بیوی بیٹے کو قابو کرتا تو یہ دن ناں دیکھنا پڑتا۔وہ ہاتھ جوڑے چھوٹے بھائی کےسامنےبیٹھےتھے۔۔سلیم ۔۔۔سلیم۔۔۔انھوں نے سلیم کو پکڑ کر ہلایا۔انکی آواز منہ میں رہ گئ تھی۔۔سلیم صاحب صوفہ پر ﮈھیر ہوگئے انھیں فورأ اسپتال لایا گیا۔سلیم صاحب کو ہارٹ اٹیک آیا تھا۔۔ﮈاکٹر نے انھیں ٹینشن پریشانی سے دور رکھنے کا کہا۔۔اگلے ماہ انابیہ کی شادی تھی سب کو پتہ تھا وہ لوگ جس دھوم دھام سے تیاریاں کر رہے تھے۔۔عائشہ کی شادی میں کسی نے شرکت نہیں کی تھی۔۔سلیم صاحب کی طبیعت کا بہانہ بنایا گیا تھا۔۔۔اگلے دن ولیمہ تھا ۔۔مریم آنٹی ولیمہ میں جانے سے پہلے ان سے ملنے آئی۔۔سلیم صاحب اور زینب کی حالت دیکھ کر ان سے رہا نہیں گیا۔۔۔ماہین نے ساری بات ان کو بتا دی تھی۔۔۔وہ بت بنی سنتی رہیں۔۔۔اگلے ماہ شادی تھی۔۔لوگوں کو کیا جواب دیں گے زینب۔وہ زینب کی بہترین دوست تھی اور کوئی بات ان سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔۔۔وہ برداشت نہیں کر پائی اور رو دیں۔۔زینب کیا ہوگا اب مجھے بتاو۔۔وہ خود پر ضبط کرتے ہوۓ بولیں۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔میری بیٹی کا چہرہ دیکھو مریم۔۔میرا شوہر اسپتال میں ہے۔۔اللہ کی کیسی آزمائیش ہے ہم پر۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔۔زینب شادی۔۔انھوں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔وہ بے غیرت انگوٹھی پھینک گیا ہے۔۔۔زینب نے جواب دیا۔۔انابیہ اور سلیم ٹھیک ہو جائیں پہلے۔۔ پھر جو اللہ کو منظور ہو۔۔