کافی دیر انتظار کے بعد بھی جب کوئی بلاوا نہیں آیا تو حمائل نے سہمے سے انداز میں عصمت کی طرف دیکھا تھا۔ ” چلو چلتے ہیں ۔” اسے اب الجھن ہو رہی تھی ۔” فضول میں رکشے کو یہاں تک آنے کا کرایہ دے دیا ۔ کم از کم آج شام کو تو بچے کچھ اچھا کھا لیتے اور اب خالی ہاتھ لوٹوں گی تو ان کو کیا جواب دوں گی ؟ اس نے جھنجھلا تے ہوئے سوچا تھا ۔
“تمہیں کیا جلدی ہے ؟” عصمت نے حمائل کو گھورا۔
“بچے پریشان ہورہے ہوں گے ” وہ دھیمے انداز سے بولی اور عصمت نے تعجب سے اس کو دیکھا۔
” مجھے نہیں لگتا تم ان بچوں کی سوتیلی ماں ہو۔” عصمت اب اس فیشن ایبل خاتون کا چھوڑا ہوا میگزین اٹھا کر اس کے اوراق پلٹنے لگی۔
” تم کیا جانو کہ میرے اندر کی ساری نفرتیں تو ختم ہو چکی ہیں ۔ یہ ایک چیز تھی جس سے میں ساری زندگی لوگوں کو نوازتی رہی ۔ سوتیلی ماں اپنے سوتیلے بچوں کو نفرت دیتی ہے پر وہ تو میرے پاس ہے ہی نہیں ۔۔۔ ختم ہو چکی ہے ۔ صرف محبت بچی ہے میر ے پاس ۔۔۔ اور اب ان بچوں کو میں یہ بچی ہوئی چیز ہی دے سکتی ہوں، پر یہ بات تم کیسے سمجھو ؟ ایک طویل سوچ کے بعد وہ پھر سے عصمت کی جانب متوجہ ہوئی جوکہ اس فیشن میگزین کو بڑے شوق سے دیکھ رہی تھی ۔
” عصمت؟” اس سے پہلے کہ حمائل مزید کچھ کہتی ، عصمت نے میگزین صوفے پررکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اچھا پتا کرتی ہوں ۔” کہہ کر وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھی ، کاؤنٹر پہ بیٹھی لڑکی سے کچھ کہا اور وہ ریسیور اٹھا کر بات کرنے لگی ۔
” اوکے آپ سر سے مل سکتی ہیں ۔” اس لڑکی نے عصمت کو بتایا اور عصمت جلدی سے حمائل کی جانب بڑھی تھی ۔” چلو۔ بلا رہے ہیں تمہیں !” عصمت نے حمائل کو خبر دی تھی اور وہ تھکے سے انداز میں صوفے سے اٹھی تھی۔” اٹھتے وقت اس کی پیشانی پر کتنی شکنیں بن جاتی ہیں ۔” عصمت نے ہمدردی سے حمائل کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ حمائل اب اٹھ کر جانے لگی تھی جب عصمت نے اسے پکارا۔” حمائل ! پریشان نہ ہو۔ انشااللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔” حمائل کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر عصمت نے اسے دلاسا دیا تھا اور حمائل صرف خاموشی سے اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی تھی ۔” بعض دفعہ، بعض لوگوں کے ساتھ ہمارا کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا، وہ بس ہمارے ساتھ کسی دور کے تعلق سے جڑے رہتے ہیں ۔ وہ ہمارے اندر نہیں جھانکتے ، نہ ہمیں کریدنے کی کوشش کرتے ہیں ، نہ ہمارے بارے میں کھوجتے ہیں ۔ ہم ان کو اپنے آپ کا ، اپنی ذات کا جتنا حصہ دکھانا چاہیں ، دکھا دیں اور باقی حصّہ چُھپا لیں تو وہ ہماری ذات کے چھپے حصے کو دیکھ لینے کی جدوجہد کبھی نہیں کرتے ۔ وہ بس اس دور کے تعلق کو ہی کافی سمجھ کر ہم سے جڑے رہتے ہیں ۔ ہمارے لیے ہر وقت حاضررہتے ہیں ۔ ان کے لیے خونی رشتے کوئی معنی نہیں رکھتے وہ بس انسانیت کے رشتے سے ہمارے رشتہ دار ہوتے ہیں ، ہمارے اپنے ہوتے ہیں ۔” عصمت کے پاس سے آفس تک جاتے جاتے اس نے سوچا اور آفس کا دروازہ کھولنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” عرینہ کا یوں چلے جانا پورے خاندان کا مسئلہ ہے صرف تمھار ا نہیں ۔ اس لیے اس بارے میں اکیلے کوئی فیصلہ لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں ”
” حق نہیں فرض ہے ۔۔
” وہ ہم سے سارے رشتے توڑ کے گئی ہے ”
” پر میں اس کے چھوڑے ہوئے رشتوں کو نبھاؤں گی ” اصغر کو اتنی سختی سے جواب دینا بڑا مشکل تھا۔۔۔پر وہاں ایک اجڑے خاندان کی بات تھی ۔ عزت کی بات تھی ۔ دینا سعید صرف ایک محبت کی خاطر باقی سبھی رشتوں اور خاندان کو اجڑتا نہیں دیکھ سکتی تھی، یہ اس کی فطرت کے خلاف تھا ۔
” اور مرینہ سے شادی کی بات۔۔۔میں ایسے نہیں کر سکتا ۔
” وہ محبت کرتی ہے آپ سے۔۔ قدر کریں اس کی محبت کی ۔” وہ اب سمجھا رہی تھی اصغر کو ۔” محبت تو میں بھی کرتا ہوں تم سے ۔ پھر تم قدر کیوں نہیں کرتی میری محبت کی ؟” اصغر کی اس بات سے وہ سٹپٹا گئی تھی۔ وہ وہاں سے کہیں بھاگ جانا چاہتی تھی ۔ اب وہ اس سے کیا چاہتا تھا َ؟ کیوں کرید رہا تھا وہ اس کو ؟ اس گھر میں پریشانی کو ختم کرنے کیلئے ہی تو وہ ایسا فیصلہ کر چکی تھی ۔سبھی رشتوں کو پھر سے جوڑنے کی کوشش ہی تو کی تھی اس نے ۔۔۔ پھر سب کے حقوق کی ادائیگی کرتے کرتے اس سے اصغر حمید کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو گئی تو کیا ہوا؟ قصور اس کا تھوڑی تھا؟ وہ سب کا بھلا سوچنے والی ، اس نے اس معاملے میں بھی اپنی ذات کو نظر انداز کر دیا تھا اور ہمیشہ کیطرح اور اگر وہ خود سے پوچھتی تو یقینا وہ یہ فیصلہ نہ کرتی ۔ دل تو اس کا بھی تھا ۔کتنی آسانی سے اس نے سوچا تھا ، اصغر اس کا ہو جائے گا پر قربانی دینے کے وقت اس نے اپنی محبت نہیں ، خاندان کی عزت کو ترجیح دی تھی ۔
” دینا اپنا فیصلہ واپس لے لو۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، ایسا مت کرو پلیز” وہ سایہ دھیرے دھیرے اس کی جانب قدم بڑھا رہا تھا اور دینا کا دل اس کے حلق تک آگیا تھا ۔ وہ اس کی منتیں کرے اور وہ نا” کہے۔ بے انتہا مشکل تھا ۔ میرے لیے آپ کی خوشی سے زیادہ اس خاندان کی عزت اور خوشی عزیز ہے ۔ اور رہی بات آپ کی، تو آپ مرینہ سے شادی کرلیں، خوشی بھی ملے کی اطمینان بھی۔ سراب کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں ۔ محبت وہیں سے ملتی ہے جہاں ہم ڈھونڈتے ہیں ۔” وہ واپس جانے کو مڑی تھی ۔” میں محبت تمہارے پاس ڈھونڈ رہا ہوں ۔ نہیں مل رہی مجھے۔۔۔۔ وہ چند قدم مزید اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا۔”بات اپنی اپنی سوچ اور نظریے کی ہوتی ہے۔” سپاٹ لہجے میں جواب دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی سیڑھیوں کی جانب چل پڑی تھی ۔ اصغر سے اتنی لمبی اور سنجیدہ گفتگو اس سے پہلے زندگی میں کبھی نہیں ہو ئی تھی ۔ وہ اس سے محبت مانگ رہا تھاپر وہ اس کو محبت نہیں دے سکتی تھی کیونکہ وہاں خاندان کی عزت کیلئے ، رشتوں کی نبھا کیلئے قربانی کی ضرورت تھی اور۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی اس کی چھوٹی بہن اصغر سے محبت کرتی ہے وہ کیسے اس کو اپنا سکتی تھی ؟ مرینہ دنیا بھر میں واحد دلچسپی تھی دینا سعید کے لیے۔۔۔۔میری گڑیا ! میری دوست!اس نے ان کو تمہارے حصے میں ڈال دیا ۔ کمرے میں داخل ہو کر وہ مرینہ کے پلنگ کے پاس گئی تھی اور اپنی سوئی ہوئی بہن کے گال کا بوسہ لے کر وہ اپنے پلنگ پہ دراز ہو ئی تھی ۔اس رات اس کی آنکھوں میں خوابوں کی بجائے ماضی کے واقعات اترنے لگے ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کل کا پورا دن اور پھر آج بارہ بجے تک وہ ٹرسٹ کے کاموں میں مصروف تھا اور بے حد تھکا ہواتھا لیکن وہ جانتا تھا اس کوآرام کرنے کے لیے ایک بھی لمحہ میسر نہیں تھا ۔ آفس میں داخل ہوتے ہی اس نے میز پہ کئی فائلز دیکھیں ۔ ان کو پڑھ کر سائن بھی کرنا تھا اور پھر اسما سے کل کے کن کی میٹنگز کی لسٹ بھی لینی تھی ۔
اے سی کا ریموٹ اٹھا کر اس نے اے سی آن کیا اور کرسی پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑے سے توقف کے بعد اس نے ایک فائل اپنے سامنے کھسکا لی اور اس کو پڑھنا شروع کیا ۔ وہ دو فائلز کو پڑھ کر سائن کر چکا تھا اور ابھی تیسری فائل کی تفصیلات پڑھنے میں مصروف تھا کہ انٹر کام کی گھنٹی بجی۔ “جی اسما! لیکن اس وقت میں بہت بزی ہوں ۔ تم انہیں بٹھاؤ ، میں فارغ ہوتے ہی ان کو بلا لوں گا ۔” اس نے اپنی سیکرٹری کو جواب دے کر ریسیور کریڈل پر رکھا تھا ۔ وہ اس وقت واقعی تھکا ہوا تھا ۔ ٹرسٹ کے ساتھ ساتھ آفس کے کام اکیلے سنبھالنا واقعی مشکل تھا ۔ ڈیڈ نے اس کو پہلے سے سمجھایا تھا کہ وہ ٹرسٹ کا کام کسی با اعتماد انسان کے حوالے کر دے لیکن یہ ٹرسٹ اس نے اپنی ماں کے نام سے بنایا تھا اور اس کا ہر کام وہ خود اپنے ہاتھوں سے کر دینا چاہتا تھا اور یہ کام وہ بڑے شوق اور لگن سے کررہاتھا بالکل اس طرح جس طرح اس کی ماں اپنے N.G.O میں محنت اور لگن سے کام کرتی تھی ۔ لیکن اس وقت واقعی اس کو جھنجھلاہٹ کا احساس ہورہا تھا “یہ لوتھوڑی دیر پہلے آجاتیں تو جلدی سے ان کا کام بھی ہو جاتا اور مجھے بھی سانس لینے کو وقت مل جاتا ” اس کواب انتہائی بے زاری ہورہی تھی وہ پھر سے فائل پر جھکا تھا ۔ ان دنوں وہ کسی مشین کی طرح کام کرتا تھا اور اس حد تک تھک جاتا تھا کہ آدھی آدھی رات تک و ہ تھکن سے سو نہیں پاتا تھا ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا پریکٹیکل لائف اس قدر بورنگ ہوگی۔ پوری لائف بچپن سے لے کر جوانی تک کا عرصہ بڑا بے فکر اور سنہرا ہوتا ہے ، مزے ہوتے ہیں ، مستیاں ہوتی ہیں ، دوست ہوتے ہیں اور ۔۔۔محبتیں ۔۔۔۔ ” وہ اکثر سوچتا اور اس کی آنکھوں میں ماضی کے سایے لہرانے لگتے۔” یہیں تو تھے سب۔۔۔۔نہ جانے کہاں چلے گئے؟ میرے بغیر کہاں ان کی زندگیا ں مکمل ہیں ؟ “کسی دور میں جو دوست اس کے لیے خوشی کا باعث تھے، ان دنوں ان کے بارے میں سوچ کر وہ واقعی دکھی ہو جاتا تھا ۔ دوستوں کے بغیر اس کی زندگی خالی تھی ، بے رنگ تھی ، بے مزہ تھی ۔
وہ آخری فائل پر جھکا ہی تھا کہ انٹر کام کی گھنٹی پھر سے بجی ۔
” سر ! مس حمائل کافی دیر سے آپ کا انتظار کررہی ہیں ۔”
” اوکے ۔ سینڈ ہر ٹو مائی آفس۔” اپنی سیکرٹری کے منہ سے جو نام اس نے ابھی ابھی سنا تھا اس کو وہ صدیوں بعد بھی نہیں بھول سکتا تھا۔
” میں جانتا ہوں یہ تم نہیں ہو سکتی لیکن تمہارے ہم نام سے مل لینے میں کیا حرج ہے ؟” تھوڑی دیر پہلے وہ بے زاری کی انتہا پر تھا ۔” حمائل کے نام نے اس کے اندر بے پناہ توانائی پیدا کر دی تھی ۔ “یہ” حمائل اصغر” نہیں ” حمائل” ہے ، تو پھر میں اتنا پر جوش کیوں ہوں ؟ یہ جان کر بھی کہ یہ ،وہ نہیں ہو سکتی ۔ اس کو اب خود پر حیرانی ہورہی تھی۔” پر نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے یہ نام اس کے علاوہ کسی او ر کا نہیں ہو سکتا۔” وہ بڑبڑایا اور سامنے میز پڑی فائل پہ ایک بار پھر جھک گیا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
بڑی پھوپھی شروع ہی سے عرینہ میں گہری دلچسپی لیتی تھیں اور اس کی بڑی وجہ ان کا بیٹا علی تھا جو عرینہ کو پسند کرتا تھا اور اس سے شادی کا خواہش مند تھا۔
اس بار عید الفطر میں جب سب جمع تھے تو بڑی پھوپھی نے عرینہ کا باقاعدہ رشتہ مانگا تھا جس پر سبھی راضی تھے۔ عرینہ سے اس کی مرضی پوچھی گئی اور اس نے ” مجھے آپ کا ہر فیصلہ قبول ہے “کہہ کر بات ختم کر ڈالی۔
عید کے ایک ہفتے بعد اصغر کو انگلینڈ جانا تھا اس لیے اس کی موجودگی میں اس کی بہن کی منگنی علی سے طے ہو گئی اور اس موقع پر فرحت نے اپنے مرحوم شوہر کے بے پناہ یاد کیا تھا اور کئی بار ان کی پلکیں بھیگ گئیں۔ ان کی بیٹیاں دینا اور مرینہ بھی تو جوان تھیں ، خوب صورت تھیں اور عرینہ سے کہیں زیادہ سلجھی ہوئی اور فرماں بردار تھیں لیکن ان کی نند نے اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا اور فرحت کو اس بات کا دکھ تھا کہ جانے ان کی بیٹیاں اپنے گھروں کی خوشیاں دیکھ سکیں گی کہ نہیں ؟ ” سر پہ باپ کا سایہ نہیں ہوتا تو دنیا والے عزت نہیں دیتے ۔۔” انہوں نے تاسف سے سوچا اوراپنی بھیگی پلکیں خشک کرنے لگیں ۔
ان کے شوہر کو مرے ہوئے مدت بیت چکی تھی اور اس لمبی مدت میں اس گھر کے ہر فرد نے ان کو عزت دی تھی ۔ ان کو اپنا سمجھا تھا ۔ ان کے شوہرکے نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی ہر ضرورت پوری کی تھی ۔ ان کی جٹھانی نے کبھی ان کو کسی چیزکا طعنہ نہیں دیا اور اصغر نے ان کو کبھی بیٹا نہ ہونے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔ وہ انہی کی گود میں آکے سررکھ کر کچھ کھانے کی ضد کرتا اور وہ بڑی چاہت سے اس کے لیے وہی چیز بنا کر لاتیں اور اپنے ہاتھوں سے کھلاتیں ۔ اس گھر کے ہر فرد نے ان پر اور ان کی بیٹیوں پر بے پناہ احسانات کیے تھے۔۔ محبتیں، اپنائیت اور نجانے اور کیا کیا مقدس رشتے تھے ان کے اس گھر کے ہر فرد کے ساتھ۔ لیکن پھر بھی آج وہ دل سے ان کی خوشی میں شامل نہیں تھیں ۔ اپنی جوان بیٹیوں کے مستقبل کی فکر کا ان کو گھلائے جارہی تھی اور آج انہیں خوشی کی یہ محفل ذرا بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ دو جوان بیٹیوں کی بیوہ ماں کبھی خوشیاں منا سکتی ہے بھلا؟ انہوں نے سوچا تھا اور اپنی جٹھانی کے پاس سے اٹھ کر باورچی خانے کی سمت گئیں تھیں ۔ اب اشکوں کو روکنا ناممکن تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” مے آئی کم ان پلیز؟ آواز سپاٹ اور بے تاثر تھی۔۔۔۔۔ وہ سیاہ چادر اوڑھے ، اس کے آفس کا دروازہ پکڑے ہوئے کھڑی تھی ۔
” یس کم ان پلیز۔” فائل پہ جھکا وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا تھا ۔ لیکن اس کی طرف دیکھے بنا بھی وہ یہ بات یقین سے کہہ سکتا تھا کہ صبح سے اب تک آنے والی عورتوں میں یہی ایک مہذب اور شائستہ لہجے والی خاتوں ہے۔ حالاں کہ زیادہ تر بیوہ عورتوں کے مزاجوں میں خشکی اور غصہ نمایاں ہوتا ہے جو کہ ” اس ” خاتون میں نہیں تھا ۔
وہ اپنی آخری فائل کی تفصیلات پڑھنے میں مصروف تھا ۔ بس چند منٹ میں اس آخری فائل کو نپٹا کے وہ اس خاتون کا مسئلہ بھی حل کر دے گا۔ ” پلیز سٹ ڈاؤن۔” اس بار پھر صبار نے اس کی جانب نہیں دیکھا تھا ۔ وہ جلدی جلدی فائلز کی مصیبت سے چھٹکارا پا کر ایک لمبی سانس بھرنا چاہتا تھا ۔
اب تقدیر نے کون سا کھیل کھیلنا ہے ؟ میں نے زندگی کی کہانی کو اپنے ہاتھوں سے لکھا ہے ۔ تمہارا کردار میں نے اُس وقت اپنی کہانی سے نکا ل دیا تھا جب میری زندگی میں ذوالکفل آگیا ۔ اور میں تمہیں اپنی آخری بازی میں ہار گئی۔ تم۔۔۔ جو کہ میری پہلی محبت تھے۔۔۔۔۔ اب جب تم لوٹ آئے ہو تو میں تمھارا کردار کہاں ڈالوں ؟ اس کے دل کی دھڑکنیں ساکت تھیں اور وہ یک ٹک سامنے کرسی پہ بیٹھے اس شخص کو دیکھ رہی تھی، جو کسی زمانے میں اس کا بہترین دوست ہوا کرتا تھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ سر اُٹھا کر اس کو دیکھ کر پہچان جاتا وہ ایک جھٹکے سے باہر نکلی تھی اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ وہ اس بلندعمارت سے نکل کر فٹ پاتھ پر چلنے لگی تھی ۔ وہ تقریباً بھاگتی جارہی تھی اور اس وقت اسے یہ خیال تک نہیں رہا تھا کہ اس حالت میں اتنا تیز چلنا کتنا تکلیف دہ اور مشکل ہوتا ہے ۔
” تقدیر انسان کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔ آپ کو بار بار یہ احساس دلاتی ہے کہ ماضی میں آپ کیا تھے؟ آپ نے کیا کیا تھا؟ ماضی کی جھلکیاں آتی ہیں اور آپ کو تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہیں اور پھرآپ سانس بھی نہیں لے سکتے ” ۔وہ اب مزید تیز رفتاری سے چلی جارہی تھی ۔ اسے اب اپنی جسمانی تکلیف سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا ۔ اس کی روح تکلیف میں تھی ۔ اسے لگ رہا تھا ارد گرد کے لوگ اسی کو دیکھ رہے ہیں ۔ اسی پہ ہنس رہے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ وہ صبار قاسم سے بھا گ کر جارہی ہے ۔ اس سے چھپ رہی ہے ۔ اور پھر و ہ بھاگنے لگی تھی ۔اس کی آنکھون سے موٹے موٹے آنسو گر کر اس کے گالوں کو تر کررہے تھے۔ کتنے برسوں بعد اس نے صبارقاسم کو دیکھا تھا ۔ جس کو نہ دیکھنے کی بے شمار دعائیں کی تھیں۔ ” جب میں تم سے الگ نہیں ہونا چاہتی تھی تو تم چلے گئے اور اب جب میں تمہیں دیکھنا نہیں چاہتی تو تم آگئے ۔۔۔ تم کیوں آئے صبار! میر ا سکون برباد کرنے تم کیوں آگئے ؟ آنسوؤں کی ایک لکیر تھی جو بہتی چلی جار ہی تھی اور حمائل اصغر دیوانہ وار تنگ گلیوں سے اس ڈربے نما مکان کی سمت بھاگتی چلی جارہی تھی ۔ ان تینوں بچوں میں پناہ لینے جارہی تھی ۔ وہ جانتی تھی وہ اس کو پنا ہ دیں گے۔۔۔ میں ۔۔۔ چھپ جاؤں گی صبار سے ۔۔۔وہ مجھے نہیں ڈھونڈ پائے گا ” ۔ وہ دیوانہ وار سوچتی جارہی تھی۔ اب اس کی سانس پھولی ہوئی اور ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں۔۔ جسم اورروح دونوں انتہائی تکلیف میں تھے۔ گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر وہ ایک جھٹکے سے اندر داخل ہوئی تھی وہ اپنی پناہ گا ہ میں پہنچ چکی تھی اور اب کوئی صبار قاسم اس کو نہیں ڈھونڈ سکتاتھا ۔ بچے جاگ چکے تھے ۔ اس کو گھر میں آتا دیکھ کر وہ تینوں اس کی سمت دوڑے تھے اور اس کو اپنی پناہ میں لیا تھا ۔ اب وہ محفوظ تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
رات کا کھانا کھالینے کے بعد سب ہال میں جمع تھے اور حسب معمول بڑے ابا کو قہوے کی طلب ہورہی تھی۔” دینا بیٹا ! قہوہ بنے گا ناں۔۔۔؟ روز مرہ کی طرح انہوں نے دینا کو پکارا تھا اور وہ مسکراتی ہوئی اٹھی تھی ۔” بڑے ابا جب مجھے ” دینا” کہہ کے بلاتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔ اہم ہونے کا احساس ہوتا ہے مجھے۔۔۔۔اور ایک خاص اور الگ نام تو ان کو دیا جاتا ہے جو ” اہم ” ہوتے ہیں ۔” اس نے باورچی خانے کے اندر داخل ہو کر بلب آن کیا اور چولہے کی سمت بڑھ گئی ۔
” عرینہ واقعی خوش قسمت ہے ایف ۔اے میں وہ اتنے اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی اور اب اس کو علی بھائی جیسا اچھا انسان بھی مل گیا ۔” اس نے کیتلی میں ابلتے پانی کو دیکھا ۔ عرینہ اس سے صرف دو ماہ چھوٹی تھی ۔ وہ اس کی بہت اچھی دوست بھی تھی ۔ دونوں ایک ساتھ پڑھی بھی تھیں اور آج عرینہ کی منگنی ہو گئی تو دینا واقعی بے حد خوش تھی ۔ اچھا گھر، اچھا خاندان اور ایک اچھا انسان مل گیا اسے ۔ علی پڑھا لکھا تو تھا پر ملازمت کی بجائے وہ زمینوں کی دیکھ بھا ل کرتا تھا ۔
قہوہ بن گیا ۔ وہ ٹرے میں پیالیاں اور تھرموس رکھنے لگی کہ اچانک بجلی چلی گئی ۔” افوہ۔۔۔” وہ بڑ بڑائی اور ٹرے اٹھا کر دروازے کی سمت بڑھ گئی ۔ ” مرینہ ! موم بتی جلا ؤ ۔۔۔۔” تاریکی میں اسے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔ وہ دروازے میں کھڑی ٹرے پکڑی رہی۔ ” کہاں مر گئی ہے یہ مرینہ؟” وہ بڑبڑائی تھی اور دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی وہ تاریکی میں راستہ تلاش کرنے لگی کہ اچانک کسی مردانہ ہاتھ نے اس کی کلائی کو مضبوطی سے پکڑا اور وہ ڈر کے مارے چیخ بھی نہیں سکی ۔ انتہائی خوف کے سبب اس کا دل دھڑکنابھی بھول گیا تھا ۔
” دینا تم جانتی ہو ۔۔۔۔؟ وہ اس کے کان میں بولا تھا اور دینا ایک لمحے کے اند ر اندر اس آواز کو پہچان گئی تھی ۔ صبح شام یہی آواز تو گونجتی اس گھر میں ۔۔۔” آپ نے ڈرا دیا مجھے ۔۔۔۔۔”وہ اپنی کلائی چھڑانے لگی ۔
” وہی تو کرنے آیا ہوں ۔” اس کی آواز میں شرارت تھی ۔
” کیا مطلب ؟ وہ جھنجلائی۔
” میں چلا جاؤں گا تو تم کسی اور کے بارے میں ہرگز مت سوچنا۔ سمجھ گئی ناں ؟
اس نے دینا کی کلائی پہ اپنی گرفت ڈھیلی کی ۔
سوچوں کا کیا ؟ وہ کبھی بھی گھس آتی ہیں ذہن میں ۔۔۔ چاہے وہ سوچیں آپ کی ہوں یا کسی اور کی ۔۔۔ بڑی شائستگی ، بڑی نرمی ، بڑی ادا سے ادا کیا گیا وہ جملہ کتنا صحیح اور سچ تھا! وہ لڑکی بچپن سے ہی ایسی تھی لا جواب کر دینے والی ، ذہین اور ایک خاص سوچ رکھنے والی ۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکراتا تھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے لائیٹر کو آن کرکے اس نے دینا کا چہرہ دیکھا تھا ۔ ” تم بے شک بے مثال ہو ۔۔۔” اصغر کے دل نے دینا کو دل کی گہرائیوں سے سراہا تھا اور دینا روشنی دیکھتے ہی باورچی خانے سے نکلی تھی ۔۔ اصغر اپنا پیغام اسے دے چکا تھا اور وہ جانتا تھا اس وقت اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا ہوگا ۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ اپنے سامنے پڑی فائل سے سر اٹھا ہی رہا تھا کہ اس کے آفس میں کچھ دیر پہلے موجود خاتون تیزی سے باہر آ گئی تھی۔ صبار نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا وہ جا چکی تھی ۔ ” پر کیوں ؟” وہ حیران تھا ۔ شاید وہ اس کی مصروفیت سے اکتا گئی تھی ۔ ” پریوں جاہلوں کی طرح چلے جانے کی کیا تک بنتی ہے؟ اس کو اب غصہ آرہا تھا ۔۔” حمائل ۔۔۔” اس کے کان میں کسی نے وہ نام دہرایا جس کے بارے میں وہ کچھ دیر پہلے سوچ رہا تھا ۔
” حمائل؟؟؟” وہ بڑ بڑایا اور اپنی کرسی سے اٹھ کر وہ تیزی سے باہر آیا تھا۔ اس کا دل زندگی میں پہلی بار اتنا زور سے دھڑک رہا تھا ۔ وہ دیوانوں کی طرح اسما کے پاس آگیا تھا جو کہ اس کی سیکرٹری تھی۔
” اسما! وہ لیڈی کہاں چلی گئی ؟”
” آئی ڈونٹ نو سر !” اسماء کاؤنٹر پر پڑے کاغذات میں سے کچھ ڈھونڈرہی تھی اور اپنے باس کی آواز سن کر وہ سیدھی کھڑی ہو کر مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہو گئی۔
” اوکے ۔ کال سکیورٹی ٹو سٹاپ ہر” صبار کی اس بات سے اسما نے تعجب سے اس کی جانب دیکھا اور ریسیور اٹھا کر کان سے لگا کر بات کرنے لگی ۔
” وہ اپنا موبائل فون آفس کی میز پر چھوڑ آیا تھا ۔ اپنا فون لینے وہ واپس آفس کی طرف گیا تھا ۔ ” یہ کون تھی جو اس طرح بغیر بتائے چلی گئی؟ میر ا دل نہیں مانتا کہ یہ حمائل اصغر ہو سکتی ہے ۔ تو اگر یہ حمائل اصغر نہیں تھی تو پھر چلی کیوں گئی ؟ َِ؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ میں اسے پہچان لوں۔
لیکن وہ یہاں آئی کیوں تھی ؟ صرف چند ہزار روپے کے وظیفے کے حصو ل کے لیے َ؟؟؟ذہن میں سوالات کی بھر مار تھی ۔ ایک کے بعد ایک سوال۔۔۔ جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ الجھتے ذہن کے ساتھ میز کی جانب بڑھا اور اپنا موبائل اٹھا کر اس نے پینٹ کی جیب میں رکھا ہی تھا کہ انٹر کام کی گھنٹی بج اٹھی ۔ اس نے لپک کر ریسیور اٹھایا تھا ” ہاں اسما کچھ پتا چلا ؟ کھڑے کھڑے اس نے پوچھا تھا ۔
نو سر وہ جا چکی ہے ۔ اسما کے لہجے سے مایوسی ٹپک رہی تھی ۔ ” اوہو ۔ بٹ آئی وانٹ ہر ایڈریس۔” وہ تھکے سے انداز میں کرسی پرگرا تھا ۔ وہ اب مکمل مایوس ہو چکا تھا ۔ اتنے بڑے شہر میں وہ ” حمائل” نامی لڑکی کو کیسے ڈھونڈے گا ؟ اس نام کی ہزاروں لڑکیا ں ہو ں گی پھر کس کس کے گھر جا کے وہ اسے پوچھے گا کہ اس کے آفس سے بنا بتائے چلے آنے کی یہ عجیب و غریب حرکت کس نے کی ؟
” سر ایک راستہ ہے ہمارے پاس۔۔۔” اسما کی آواز ابھری تھی۔
” کیا ؟ ” وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اماں کے کمرے میں بڑی پھوپھی کا بستر لگانے کے بعد وہ دیر تک بڑی ماں کا سر دبانے میں مصروف تھی۔ ” ہر کام اتنے سلیقے سے کرتی ہے ۔ حتیٰ کہ سر اتنا اچھا دباتی ہے کہ درد کہیں غائب ہو جاتا ہے۔” تبسم آنکھیں بند کیے سوچتی رہیں۔” ویسے مجھے اس بات سے بڑی حیرانی ہورہی ہے کہ صالحہ کی نظر عرینہ کی بجائے اس کی طرف کیوں نہیں اٹھی ؟ پر خیر اچھا ہے ۔ بیٹی کا رشتہ اچھی جگہ ہو گیا ۔ اور اصغر کے لیے دینا ہی بہتر ہے۔ سلجھی ہوئی اورسلیقہ مند ۔۔۔ وہ دھیمے سے مسکرائیں اور اپنی خوابیدہ آنکھوں کو نیم وا کر کے انہوں نے دینا کے اطمینان اور مگن چہرے کو غورسے دیکھا۔ وہ لڑکی اپنا ہر کام لگن اور محبت سے کرتی تھی ۔تبسم کو اس پر بے پناہ پیار آرہا تھا ۔ وہ پورے دل سے اس کا ہر کام کردیا کرتی تھی، اس وقت جب سب گھر والے سونے کی تیاری کررہے تھے ، وہ ان کا سر دبانے میں مصروف تھی ۔ اچانک ان کو احساس ہوا کہ وہ کافی دیر سے اس کا سر دبا رہی ہے ۔” بس بیٹا! ،مجھے آرام آگیا ہے ۔ اب جا کے سوجاؤ۔” انہوں نے نرمی سے کہا اور دینا دھیرے سے ان کے پلنگ سے اتر کر کمرے سے باہر آگئی ۔
” آج کا پورا دن انتہائی مصروف رہا تھا ۔ وہ واقعی تھک چکی تھی ۔
” یہ کیا ؟ تم یہاں کیوں لیٹی ہو؟ کمر ے کے اندر آتے ہیں اس نے عرینہ کو اپنے پلنگ پر لیٹے پایا۔
” میں تمہارے ساتھ سوؤں گی ۔ ” عرینہ نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔
” کیوں؟؟؟ ” دینا نے تعجب سے اسے دیکھا۔
”آج مجھے تم پر پیا رآرہا ہے !” عرینہ کے لہجے میں شوخی تھی۔
” کیوں بھئی!آج ایسی کیا خاص بات ہوئی ہے ؟ دینا نے عرینہ کے ساتھ پلنگ پر اپنی جگہ بنالی اور کمبل کھینچ کر اس میں منہ چھپا لیا ۔
” آج تم نے میرے حصے کے سارے کام کرلیے ۔” عرینہ نے دینا کی طرف منہ کرکے کہا۔
تو اس میں نئی بات کون سی ہے ؟ وہ تو میں ہمیشہ کرتی ہوں ۔ کاہل لڑکی ! بڑی پھوپھی کی تو قسمت ماری گئی جو تمہیں بہو بنا لیا ۔” دینا بولی!
” ویسے ایک بات کہوں؟ دینا پوچھ رہی تھی ۔۔
” کیا؟” دینا اب مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ تھی ۔
تجھے میر ی جٹھانی ہونا چاہیے۔ مزہ آئے گا۔” عرینہ کے لہجے میں بے پناہ شوخی تھی۔
لیکن تمہارے جیٹھ صاحب تو شادی شدہ ہیں ۔بھئی! میں سوکن شوکن کے بکھیڑے نہیں پال سکتی۔ ہاں! اگر تم اپنا میاں مجھے دو تو پھر بات بن سکتی ہے ۔” دینا بھی مکمل شوخی پر اتر آئی تھی۔
” ہٹو۔ بے شرم ! تجھے اپنا میاں دے دوں تو خود کیا کنواری رہ جاؤں؟ ”
عرینہ نے اسے ٹہوکااور وہ کروٹ بدل کر لیٹ گئی ۔ اس کے لبوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ تھی۔ میں تم سے تمہارا میاں کیوں لے لوں؟ مجھے تو آج ہی کوئی ملا ہے ۔ اس کے لبوں پہ پھیلی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ۔ اتنی تو مصروف رہی تھی وہ کہ سوچنے تک کی فرصت نہیں ملی تھی اور اب جو فارغ ہو کے بستر پہ آلیٹی تھی تو مسلسل ” اس ” کے بارے میں سوچے جارہی تھی ۔” یہ بھی عجیب بات ہے۔ آج سے پہلے کبھی ان پہ اتنا نہیں سوچا اور آج تو ان کی سوچیں سونے بھی نہیں دے رہیں۔”
اس کے وجود کی تھکن دور ہو چکی تھی اور آنکھیں۔۔۔ ان سے تو نیند نہ جانے کتنے میلوں دور بھاگ گئی تھی۔ ” ارے بھئی میں مسلسل ان ہی کو سوچے جارہی ہوں۔۔۔ تو کیا مجھے بھی ۔۔۔؟؟؟ اس نے تعجب سے سوچا اور مارے حیا کے اس کی آنکھیں بھینچ لیں اور جلد ی سے کمبل میں منہ چھپا لیا ۔
” دینو؟” اس کی آنکھ لگتے ہی عرینہ نے اسے پکارا۔
” ہاں۔ کیاہے؟ اس نے بیزاری سے اسے جواب دیا ۔
” مجھے نیند نہیں آرہی ۔” عرینہ کے لہجے میں معصومیت تھی۔
” نیند کیسے آئے گی تمہیں۔ آج منگنی جو ہو گئی ہے ۔آنکھوں میں علی بھائی کا چہرہ ہوگا۔ پراب میں کہاںسے لاؤں ان کو؟ اب آرام سے سو جاؤ۔کل چپکے سے کہیں ملوا لوں گی ان سے۔ اب چپ کر کے سو جاؤ ورنہ تو مرینہ ہم دونوں کو باہرنکا ل دے گی ۔ ” عرینہ کو ایک لمبی تقریر سنا کر اس نے پھر سے آنکھیں بند کردیں۔ عرینہ نے اس کی کمر پہ ہلکا سا مکا جمایااور کروٹ بدلی۔ نہ جانے وہ سو گئی تھی یا نہیں لیکن اس کے بعد اس کی کوئی آواز نہیں ابھری تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...