جنڈ کے درخت تلے علی تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ سورج اچھا خاصا چڑھ آیا تھا۔ جس کی روشنی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ احمد بخش ابھی تک گھر سے نہیں آیا تھا، جبکہ درویش بابا فجر پڑھنے کے بعد نجانے کہاں چلا گیا تھا۔ وہ ساتواں دن تھا، علی یوں ہی تنہا بیٹھا رہتا۔ کوئی مزدور یا کاریگر وہاں پر نہیں آیا تھا۔ ایک طرح سے سارا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔ خان محمد کی ناگہانی موت کے بعد پورے علاقے میں جیسے سناٹا چھا گیا تھا۔ علی نے اس کا جنازہ پڑھا تھا، پورے علاقے سے لوگ جمع تھے۔ سب کا یہی مطالبہ تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ وہاں پر اس نے رفاقت باجوہ سمیت بہت سارے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا تھا، جن کا تعلق شہر سے تھا اور وہ انہیں جانتا بھی تھا۔ لیکن اس کا مقصد فقط جنازہ پڑھنا تھا۔ اس لئے وہ فرض کفا یہ ادا کر کے واپس آ گیا تھا۔ اس دن کوئی بھی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو اس سے باتیں کرنے آتے تھے۔ پہلے دن وہ تینوں بیٹھے رہے۔ پھر یہ معمول بن گیا۔ احمد بخش آتا ہی دیر سے، درویش بابا صبح ہی صبح کہیں نکل جاتا اور دن چڑھے واپس آتا۔ تب اس کے پاس تھوڑا بہت کھانا ہوتا، جسے وہ خود بھی کھاتے اور علی کو بھی کھلاتا۔ ایک دن علی نے پوچھ ہی لیا۔
’’بابا جی۔۔۔ یہ آپ کھانا لاتے ہیں۔ یہ کہاں سے آتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں کہ آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ فکر نہ کریں فقیر سائیں۔ میں کھانا بھیک میں لے کر نہیں آتا، بس اللہ دیتا ہے اور میں لے آتا ہوں۔‘‘
’’کب تک چلے گا یہ۔ ہمیں خود اپنا بندوبست کرنا ہو گا۔‘‘ علی نے فکر مندی سے کہا۔
’’فقیر سائیں۔۔۔ توکل بھی تو کوئی چیز ہے۔ جس نے یہاں رکھا ہے، وہ بندوبست بھی کر دے گا۔‘‘
’’درویش بابا۔۔۔ توکل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پیر جوڑ کر یہاں بیٹھ جائیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
’’کیا آپ نہیں سمجھتے کہ میرا یہاں ہونا ہی ایساکوئی بندوبست ہے۔ آپ فکر نہ کریں فقیر سائیں۔ آپ نے جب میرے ذمے یہ فرض لگا دیا ہے تو یہ میری ذمے داری ہے۔‘‘
درویش بابا نے مسکراتے ہوئے کہا تو علی نے مزید کوئی بات نہیں کی۔
اسی طرح اس دن ساتواں دن تھا۔ دور دور تک مزدوروں کا پتہ نہیں تھا۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا۔ مسجد کی دیواریں ہو چکی تھیں اور مدرسے کی بنیادیں بھری جا چکی تھیں۔ خود ساختہ نقشے کے مطالق زمین کو ہموار کر لیا گیا تھا۔ پھر اس جگہ کا تعین بھی کر لیا گیا تھا جہاں حجرے تعمیر ہونے تھے۔ اب تک وہ سب کھلے آسمان کے تلے ہی رہ رہے تھے۔ علی نے آسمان کی طرف منہ کیا اور پھر دل ہی دل میں کہا۔
’’اے اللہ۔۔۔ توہی سب جانتا ہے۔ تیرے لئے کوئی شے غیب نہیں ہے۔ تجھے علم و خبر ہے یہاں پر میرے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے، میں نہیں جانتا، مگر تمہیں سب علم ہے، اسے اللہ۔۔۔ تو بہتر معاملہ فرمادے، تو قادر ہے۔‘‘
اس نے پورے خلوص سے دعا مانگی تو دل کو سکون ملا۔ وہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔ کتنی ہی دیر یونہی گزر گئی۔ تب اسے یوں لگا جیسے کسی نے اسے پکارا ہو۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو سامنے مہرو کھڑی تھی۔ اپنی طرف متوجہ پاکر مہرو بولی۔
’’میں تو سمجھی تھی کہ تم سو رہے ۔‘‘
’’آؤ مہرو بیٹھو‘‘ علی نے صف کے دوسرے کنارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو مہرو اس پر بیٹھ گئی اور ساتھ میں لائی ہوئی پوٹلی کھولتے ہوئے بولی۔
’’آج میرا دل کیا کہ میں تجھے کھانا دے کر آؤں۔‘‘
’’آج تمہارا دل کیوں کیا۔‘‘ علی نے قدرے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’اس لئے کہ رات سانول میرے خواب میں آیا تھا۔ اس سے بہت ساری باتیں ہوئی تھیں۔ انہی باتوں کے دوران اس نے مجھے کہا تھا کہ میں تمہارا خیال رکھا کروں۔ کیونکہ تم اس کے مہمان ہو۔ سانول کے مہمان کا میں خیال نہ رکھوں، یہ کیسے ہو سکتا ہے اس لئے میرا دل کیا کہ میں تجھے کھانا دے آؤں۔‘‘مہرو اپنی ہی دھن میں کہتی چلی گئی۔ علی نے بغور اس کو دیکھا تو پریشان ہو گیا۔ مہرو وہ پہلے والی مہرو نہیں رہی تھی۔ وہ کئی دنوں سے یہ اڑتی ہوئی باتیں سن رہا تھا کہ مہرو پاگل ہو گئی ہے مگر اس کا دل نہیں مانا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اس لئے کبھی اس نے توجہ نہیں کی تھی۔
’’میری بھی سن رہے ہو یا پھر سو گئے ہو۔‘‘ مہرو نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا تو علی اپنے حواسوں میں آ گیا۔ اس نے خود پر قابو پایا اور لمحوں میں فیصلہ کر لیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اسلئے مسکراتے ہوئے بولا۔
’’میں سوچ رہا ہوں کہ بس میرے بارے میں اتنی سی بات کی تھی اس نے؟‘‘
’’تو اورکیا؟ ہماری باتیں ہی ختم نہیں ہوتی ہیں۔ ویسے جب مجھے وہ اغواء کر کے لے گیا تھا، اس وقت مجھے بہت ڈر لگا تھا۔ لیکن اب اس سے ڈر نہیں لگتا۔ اب تو وہ مجھے اچھا ہی بہت لگتا ہے۔ میں تو اب اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔‘‘
’’اچھا، اتنا پیار ہو گیا ہے اس کے ساتھ۔‘‘
’’پیار نہیں عشق ہو گیا ہے ۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے تم سے عشق ہے۔ وہ خواجہ سائیں کی کافی بھی گاتاتھا نا کہ عشق اولڑی پیڑوو۔ لوکاں خبر نہ کائی۔ اب مجھے خبر ہو گئی ہے کہ عشق کیا ہوتا ہے۔ اس مجھے اسے زیادہ عشق ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ اب مجھے بتا دو اورکیا کیا باتیں کرتا ہے۔‘‘
’’چند دن ہوئے تھے۔ اس نے مجھے چراغ جلانے سے روک دیا تھا کہ شام کے وقت قبرستان نہ جایا کرو۔ اب میں نہیں جاتی۔‘‘ اس نے بھولپن سے کہا۔
’’مہرو۔۔۔ مجھے ایک بات تو بتا، تمہیں پتہ ہے کہ سانول اس وقت کہاں ہے۔‘‘
’’پتہ ہے مجھے۔‘‘ اس نے پورے اعتماد سے کہا، پھر علی کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولی۔ ’’وہ اللہ سائیں کے پاس ہے۔‘‘
’’اللہ سائیں اسے ٹھیک تو رکھتا ہو گا؟‘‘ علی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ وہ بتا رہا تھا کہ وہ اللہ سائیں کے پاس بہت خوش ہے۔ بس مجھے ملنے آتا ہے۔‘‘
’’تو پھر تم اللہ سائیں کا شکر ادا کرتی ہو۔‘‘ علی نے وہ بات کہہ دی جس کے لئے اس نے تمہید باندھی تھی۔ اس پر مہرو نے غورسے اسے دیکھا اورکہا۔
’’کیسے۔میں اللہ سائیں کا شکریہ کیسے ادا کروں۔‘‘
’’دیکھو اگر کوئی تم پر احسان کرے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تم نماز پڑھا کرو۔‘‘
’’وہ تو میں پڑھتی ہوں۔ میں صبح صبح قرآن بھی پڑھتی ہوں۔ تمہیں پتہ ہے میں نے میاں جی سے بچپن میں ہی قرآن پاک پڑھ لیا تھا۔ ہاں۔۔۔ میں میاں جی سے نہیں بولتی، وہ مجھے کبھی ملنے نہیں آئے وہ تمہیں کبھی ملیں نا تو میرا بتانا، میں انہیں ملنا چاہتی ہوں۔ بتاؤ گے نا۔‘‘ مہرو نے پرشوق انداز میں کہا تو علی نے سر ہلا دیا۔ اسے افسوس ہو رہاتھا کہ اتنی اچھی لڑکی کس طرح اپنا آپ کھو چکی ہے۔ سانول کے بعد وہ اس کی محسن تھی۔ ایک رات اس کی چیخ نے ہی دشمنوں کا نشانہ خطا کر دیاتھا۔ اگر چہ یہ اللہ کی طرف سے ہی تھا لیکن وسیلہ وہی بنی تھی۔ وہ خاموش ہوا تو بولی۔
’’لو۔۔۔ اب کھا بھی لو۔۔۔ تمہارے لئے پراٹھا بنایا ہے شکر ڈال کے ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ پھر گھڑے پر نگاہ پڑی تو اس جانب بڑھ گئی۔ پانی کا پیالہ بھر اور اس کے قریب لا کر رکھ دیا۔ علی پراٹھا کھانے لگا۔ وہ جب کھا چکا اور پانی بھی پی چکا ، تب مہرو خوش ہو گئی۔
’’اب خوش میں نے کھا لیا۔‘‘ علی نے اس سے پوچھا۔
’’ہاں۔ میں خوش۔۔۔ سانول بھی خوش ہوگا کہ میں تمہارا خیال رکھتی ہوں۔ خوش ہو گا نا؟‘‘ اس نے تصدیق چاہی۔
’’ہاں خوش ہوگا۔‘‘ علی نے دکھتے ہوئے دل سے کہاتو اچانک مہرو نے ایک انجانا سوال کردیا۔
’’تم نے کبھی کسی سے عشق کیا ہے؟‘‘
’’ہاں۔ اللہ سائیں سے کیا ہے۔‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ تیزی سے بولی۔
’’نہیں۔۔۔ جیسا سانول مجھ سے کرتا تھا۔‘‘
ایک لمحے کے لئے علی چونک گیا۔ یہ کیابات کہہ دی ہے اس نے کیونکہ اس کے کہنے کے ساتھ ہی فرزانہ خاں کا چہرہ ا سکی نگاہوں میں گھوم گیا تھا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ اسے کہنا چاہتا تھا کہ نہیں، مجھے نہیں ہوا، تب وہ بولی۔
’’نہیں ہوا تو جسے ہوا ہے، اس کی قدر کرو، مجھے دیکھو، میں نے قدرنہیں کی نا، تو اب پچھتا رہی ہوں۔‘‘
پتہ نہیں اس نے یہ بات پاگل پن میں کہی تھی یا ذی ہوش لوگوں کی طرح دانائی کی بات کہہ دی تھی۔ جو بھی تھا، ایک دفعہ علی کی کیفیت بالکل اجنبی ہو گئی تھی۔ وہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ ایسی کوئی بات اس کی زندگی میں آئے گی۔ وہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا۔ اس لئے مہرو کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔تب مہرو بولی۔
’’تم تو پھر سو گئے ہو۔ اچھا تم سو جاؤ، میں اب چلتی ہوں۔‘‘ اس نے کہا، وہ کپڑا اٹھایا جس میں پراٹھا بندھا ہوا تھا اور واپس چل دی۔ علی اسے دور تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
مہرو انجانے میں اسے وہ بات کہہ گئی تھی جس پر اس نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس کا وجدان اسے بہت کچھ کہہ رہا تھا۔ وہ جب بھی کبھی فرزانہ کے چہرے کہ دھیان میں لاتا۔ ہر بار اس میں تبدیلی دکھائی دیتی تھی۔ ہوا کے دوش پر جو باتیں اس تک پہنچ رہی تھیں ا ن میں وہ ساری خوشخبریاں تھیں، جیسی وہ فرزانہ کے لئے دعائیں کیا کرتاتھا۔ یہی سوچتے ہوئے اچانک اسے خیال آیا کہ کہیں مہرو کے ذریعے اسے آگاہ تو نہیں کر دیا گیا۔ چونکہ بات واضح نہیں تھی، اس لئے علی نے سر کو جھٹک دیا۔ ممکن ہے، اسے راہ سے بھٹکایا جا رہا وہو۔ وہ اٹھا اور ایک طویل چکر لگایا۔ وہ پہلے کنویں تک گیا، پھر مدرسے کے اطراف گھوما اور دوبارہ جنڈ کے تلے آ کر بیٹھ گیا۔ ابھی اسے بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ احمد بخش آ گیا۔ سلام و دعا کی بعد وہ بھی خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں اس کی نگاہ کچی بستی کے باہرے والے راستے پر پڑی۔ وہاں سے کوئی جیپ آ رہی تھی۔ وہ جیپ بستی میں نہیں مڑی بلکہ آگے تک آ گئی تھی۔ جو لمحہ بہ لمحہ ان کے نزدیک آتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ان کے قریب آ کر ر ک گئی۔ ان میں سے تین نوجوان لڑکے اور دولڑکیاں باہر آئیں۔ آخر میں درویش بابا بھی باہر آ گئے۔ علی اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھاکہ وہ سب اس کے قریب آ گئے۔ تب درویش بابا نے تعارف کراتے ہوئے علی کی جانب اشارہ کیا۔
’’یہ ہیں ہمارے فقیر سائیں۔ یہ آپ کو یہاں کے ماحول کے بارے میں بہتر بتاسکیں گے۔ آپ تشریف رکھیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے صف سیدھی کی اور انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گئے تو سلام دعا کے بعد رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ تب علی نے پوچھا۔
’’آپ کون ہیں اور کہاں سے تشریف لائے ہیں۔‘‘
’’ہم شہرسے آئے ہیں، ہمارا تعلق ایک فلاحی تنظیم سے ہے اور ہم یہاں سروے کے لئے آئے ہیں۔‘‘
سروے۔۔۔؟‘‘ علی نے وضاحت چاہی تو گفتگو طویل ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ دوپہر سر پر آ گئی ۔ علی نے بہت اچھے انداز میں ان کی راہنمائی کی تھی۔ وہ بہت شکرگزار تھے۔ پھر بہت جلد دوبارے ملنے کا وعدہ کر کے وہ چلے گئے۔ علی کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے ایک دربند ہو جانے کے بعد دوسراکھل گیا ہے۔ وہ مطمئن ہو گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شام ہونے کو آ گئی تھی۔ سورج مغرب کی جانب جھک کر اپنی آب و تاب کھو چکا تھا۔ ایسے وقت میں سیدن شاہ حویلی کے کاریڈور میں دھیرے دھیرے ٹہل رہا تھا، اس کے انداگز میں بے چینی تھی۔ بلاشبہ اس کے ذہن میں کوئی الجھن تھی۔ ذرا ساوقت گزرا ہو گا کہ پیراں دتہ آ گیا۔ اس نے ایک ہی نگاہ میں سیدن شاہ کی بے چینی بھانپ لی تھی۔
’’جی پیرسائیں، حکم، میں حاضر ہوں۔‘‘ پیراں دتے نے انتہائی ادب سے کہا تو سیدن شاہ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
’’کچھ پتہ چلا، وہ رب نواز اورسیدو کہاں ہیں؟‘‘
’’نہیں، پیر سائیں۔‘‘
’’تمہیں پتہ ہے نا کہ ان کے ساتھ ڈرائیور بھی ہے اور جو گاڑی تھی وہ میرے نام ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے دھیرے سے کہا۔
’’جی سائیں۔۔۔‘‘ پیراں دتے نے دبی آواز میں کہا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ سیدن شاہ کی یہ پریشانی کیوں ہے۔ خان محمد کی موت اگرچہ ان کے لئے خوشی کی بات تھی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ تینوں غائب تھے۔ پہلے پہل انہوں نے یہی خیال کیا تھا کہ وہ کہیں فرار ہو گئے ہیں۔ وہ واپس آ جائیں گے یاان سے رابطہ کریں گے۔ مگر ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود ان کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں تھی۔
’’ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود تمہیں کوئی پتہ نہیں ہے کہ وہ کدھر ہیں۔ انہیں زمین کھا گئی ہے یا آسمان نگل گیا ہے؟‘‘ سیدن شاہ نے کہا تو وہ خاموش رہا اس کے پاس کوئی جواب ہوتا تو کہتا۔ وہ چند لمحے خااوش رہا پھر بولا۔
’’پیر سائیں۔۔۔ ممکن ہے وہ شہر میں کہیں چھپے ہوئے ہوں۔ میں وہاں ان کا پتہ کرواتا ہوں۔‘‘ پیراں دتے نے دھیمی آواز میں کہا۔
’’پیراں دتہ، مجھے نہیں لگتا کہ وہ خود کہیں غائب ہوئے ہیں۔ ضرور انہیں غائب کر دیا گیا ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا۔ پھر ذرا توفق کے بعد بولا۔ ’’خیر۔۔۔ اس کے بارے میں تم نہیں اب میں خود معلوم کروں گا، تم مجھے یہ بتاؤ۔۔۔ وہ رب نواز کی بہن مہرو کیسی ہے؟‘‘ جس انداز میں سیدن شاہ نے پوچھاتھا پیراں دتہ اندر سے کانپ گیا۔ اس کے من کا چور اسے خوف زدہ کر رہا تھا۔ مگر جواب تو دینا تھا۔
’’سائیں بہت خوبصورت ہے۔ لیکن۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’لیکن کیا؟‘‘ سیدن شاہ نے دھیرے سے پوچھا۔
’’سنا ہے کہ وہ آج کل پاگل ہو گئی ہے۔ وہ اپنے آپے میں ہی نہیں۔‘‘ پیراں دتہ جلدی سے بولا۔
’’دیکھو۔۔۔ سیدہ کا تو کوئی نہیں۔ لیکن رب نواز کی بہن ہے۔ ہم نے کہا تھا کہ اگر اس نے وہ بھیرے سے شادی نہ کی تو اسے حویلی میں رکھا جائے ، جاؤ، اسے حویلی میں لے آؤ۔‘‘
’’سائیں وہ پاگل۔۔۔‘‘
’’جیسا کہہ رہا ہوں، ویساکرو۔ اس کا حویلی میں ہونا ضروری ہے۔ اسے لانا بھی اس طرح کہ پوری کچی بستی کے لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ مہرو حویلی میں ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے ذرا سختی سے کہا۔
’’جیسے حکم سائیں کا۔‘‘ پیراں دتے نے کہا اور واپس مڑ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مہرو جیسی پاگل لڑکی کو حویلی میں لاکر رکھنے کا مقصد کیا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ نجانے کتنی لڑکیوں کی عزت اس حویلی میں پامال ہو چکی تھی اور اب بھی حویلی میں ا تنی لڑکیاں تھیں کہ سیدن شاہ کا دل ان سے بھرا نہیں ہو گا۔ مگر ا یسے میں ایک پاگل لڑکی۔۔۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا۔
’’مگر سیدن شاہ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ ا س کی چھٹی حس تبا رہی تھی کہ ان لوگوں کے بارے میں اتنی خاموشی بلاشبہ پراسرار ہے۔ اس نے دو دن انتظار کیا تھا پھر اس کے بعد اس نے اپنے ذرائع آزمانا شروع کر دئیے تھے مگر اتنی کوشش کے باوجود اسے کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ پھر آج دوپہر کے وقت اسے فون کال موصول ہوئی تھی، جس نے خطرے کی شدت کا اعلان کر دیاتھا۔ سیدن شاہ کے اپنے ذرائع نے اسے بتایاتھا کہ اس کے خلاف ہوم سیکرٹری کے پا س ایک درخواست آ گئی ہے جس میں اس کے بارے میں تفتیش کے خصوصی احکامات درکار تھے۔ مزید تفصیلات کیا تھیں یہ اسے نہیں معلوم تھا۔ اتنی ذرا سی خبر کے ساتھ ہی ا س نے محسوس کرلیا کہاس کے اردگرد کہیں خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ان لوگوں کا غائب ہونا اورخصوصی احکامات ان میں کہیں نہ کہیں تعلق ضرور ہے۔ اس نے اس خطرے سے نپٹنے کے لئے پیش بندی شروع کر دی تھی۔
’’سائیں۔۔۔ علاقے کا تھانیدار حاضر ہوا ہے۔‘‘ ایک ملازم نے تقریباً جھکتے ہوئے کہا تو سیدن شاہ اپنے خیالات سے چونکا اور پھر دھیرے سے کہا۔
’’اسے بٹھاؤ۔‘‘
یہ سنتے ہی ملازم واپس چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سیدن شاہ اس کمرے میں چلا گیا جوہاں تھانیدار بیٹھا ہوا تھا۔ وہ سیدن شاہ کو دیکھ کر احترام سے کھڑا ہو گیا تو سیدن شا نے پوچھا۔
’’وہ۔۔۔ تمہیں جو کہا گیا تھا، اس کا پتہ چلا۔‘‘
’’جی سائیں۔۔۔ جس رات خان محمد قتل ہوا ہے، اس رات میرے تھانے میں تو کوئی نہیں آیا مگر میں نے پتہ کروایاہے، صرف اتنا پتہ چلا ہے کہ اس رات آپ کی گاڑی شہر والے تھانے میں دیکھی گئی ہے۔ وہیں خان محمد کی نعش لائی گئی تھی۔ پھر اس کے بعد کسی کو کچھ پتہ نہیں۔‘‘ تھانیدار نے اپنی طرف سے تفصیل بتا دی۔
’’تم نے میری طرف سے گا ڑی چوڑی ہونے کی ایف آئی آر درج کر لی ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے پوچھا۔
’’جی۔۔۔ میں سارا معاملہ سمجھ گیا ہوں سائیں۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں نے ایک دن پہلے کی ا یف آئی آر درج کر دی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، شہر والے اس تھانے کے کسی بندے کو بھی، کسی بھی قیمت پر خریدو، اور اس سے پوری تفصیل معلوم کرو۔ ان بندوں کا پتہ چلنا چاہیے۔ جتنی جلدی یہ سب ہو گا۔ اتنازیادہ تمہیں مالا مال کر دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے سائیں۔۔۔ میں کل شام دوبارہ آؤں گا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ تم نہیں آؤ گے، فون کرو گے مجھے۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا تو تھانیدار نے سر ہلا دیا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ تمام تر معاملات میں راز داری چاہیے تھی۔ تھانیدار چلا گیا اور سیدن شاہ سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے جو خطرہ محسوس کیا تھا وہ درست تھا۔ اسے پورا یقین ہو گیاتھا کہ بندے خود غائب نہیں ۔ا نہیں غائب کر دیا گیا ہوا ہے۔ ایسا کون کرسکتا ہے؟ اور اتنی تیزی سے یہ سب کیسے ہو گیا۔ یہ سوچنے کا ابھی وقت نہیں تھا۔ اس لئے وہ فوراً اپنے کمرہ خاص میں گیا۔ اسے کچھ ایسے لوگوں کوفون کرنا تھے۔ جس سے وہ پوری تفصیلات سے آگاہو سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے ہی وہ اپنے بچاؤ کے انتظامات کر سکتاتھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
روہی کے وسیع صحرا میں رات اتر چکی تھی۔ جنوب سے چلنے والی ہوا تھم چکی تھی۔ دن بھر کی تلخی ختم ہو چکی تھی اور موسم خوشگوار ہو گیاتھا۔ جنڈ کے درخت سے ذرا دور کھلے میں جہاں سے مددسے کی بنیاد شروع ہوتی تھی، وہاں صف بچھائے علی، احمد بخش اور درویش بابا بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ ہی دیر پہلے انہوں نے عشاء کی نماز پڑھی تھی۔ کچھ دیر معمولات کے ذکر و اذکار کے بعد احمد بخش نے یونہی بات چھیڑ دی۔
’’علی بھائی۔۔۔کیا مہرو سچ مچ پاگل ہو گئی ہے؟‘‘ احمد بخش کے لہجے میں دکھ تھا جیسے مہرو کے پاگل ہو جانے کا اسے بہت افسوس ہو رہاہو۔ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ درویش بابا نے لاشعوری طور پر کہا۔
’’نہیں بابا۔۔۔ وہ پاگل نہیں ہوئی۔ ہاں تھوڑی دیر کے لئے مد ہوش ضرور ہو گئی ہے۔‘‘ یہ کہنے کے ساتھ ہی اسے جیسے غلطی کا احساس ہو گیا۔ وہ فوراً ہی کھڑا ہوا اور علی کے سامنے ہاتھ باندھ دئیے۔’’ گستاخی ہو گئی فقیر سائیں، معاف کر دیں۔‘‘
’’درویش بابا کیاہو گیاہے آپ کو، کون سی گستاخی کر لی ہے آپ نے، آپ بیٹھیں ، کیوں گنہگار کرتے ہیں مجھے۔‘‘ علی نے تیزی سے اس کے ہاتھ پکڑ کربٹھاتے ہوئے کہا۔
’’یہی غلطیاں ہوجاتیں ہیں ورنہ ہم بھی کہیں سکون سے نہ بیٹھے ہوتے۔‘‘ درویش بابا نے روہانسے ہوتے ہوئے کہا۔
’’بابا افسوس نہ کریں آپ، کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ نے تو بیٹھے بٹھائے ہمارا مسئلہ حل کر دیا۔‘‘ علی نے اسے ڈھارس دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں آپ سے سچ کہہ رہاہوں۔ اللہ کے لئے آپ بتائیں یہ سارا معاملہ کیا ہو رہا ہے اس کے ساتھ۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا تو درویش بابا چونک گیا۔
’’فقیر سائیں۔۔۔ پہلے آپ مجھے بتائیں۔ آپ نے معاف کر دیا ہے۔‘‘ اس کی یہی رٹ تھی۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں معاف کیا؟ اب آپ بولو۔‘‘
’’فقیر سائیں۔۔۔ آپ بہتر جانتے ہیں۔ پرآپ کا حکم ہے تو جو اس نا چیز کو پتہ ہے عرض کر دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے توقف کیا۔ علی خاموش رہا تو وہ بولا۔ ’’سائیں۔۔۔ جیسے بارش سے پہلے حبس چھا جاتا ہے نا، سکون کی قدر و قیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے جب بے سکونی چھا جائے۔ یہ معاملہ تو ایک طرف لیکن آپ جانتے ہیں کہ عشق کوئی معمولی شے تو ہے نہیں۔ جس پر اترتا ہے، پتہ تو اسے لگتا ہے۔ پوری جان سے زیادہ وزن سر پر آ جائے تو پھر کچھ بھی نہ ایسا کیسے ممکن ہے فقیر سائیں۔ کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے درویش بابا کہ شیر خوار بچہ، مرغن غذا؟‘‘ علی نے تصدیق چاہی۔
’’سائیں۔۔۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ اس میں نہ ابھی جذب کی صلاحیت ہے اور نہ برداشت کی قوت۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے خلاء میں گھورا اور پھر کہا۔ ’’میں نے سنا ہے فقیر سائیں کہ اس مہرو کا عاشق سانول حضرت خواجہ سائیںؒ کی ایک کافی کے بول پڑھتا تھا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ وہ تھے عشق او لڑی پیڑوو۔ لوکاں خبر نہ کائی۔‘‘ احمد بخش نے تیزی سے کہا۔
’’بالکل۔۔۔ اللہ تمہارا بھلا کرے۔ یہی بول تھے۔ لوگوں سے سنا ہے، اسے یہ بول بڑے پسند تھے۔ اس میں عشق کو پیڑ کہا گیا ہے اور وہ بھی اولڑی۔۔۔ پیڑ۔۔۔ درد، انوکھا درد۔۔۔ساری بات اسی درد میں ہے خواجہ سائیںؒ نے عشق کو درد کہا ہے تو کیوں کہا ہے؟‘‘
’’سیدھی سی بات ہے درویش بابا کہ جب بھی بدن میں کوئی اچھی یا بری تبدیلی آتی ہے تو درد محسوس ہوتا ہے، اس سے انسان اپنی طرف متوجہ ہوتا ہے۔‘‘ علی نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔
’’اللہ آپ کا بھلا کرے، آپ نے میری مشکل حل کر دی۔ تو عشق جب کسی من میں بسیرا کرتا ہے تو کیا اسے اپنی جگہ بنانے کے لئے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرتا۔ ایک نگاہ ناز پورے جسم کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، یہ تو عشق ہے جسے خواجہ سائیں نے انوکھا ہے، اس کا انوکھا پن یہی ہے کہ جس پر بھی یہ وارد ہوتا ہے اسے خود سے بے حال کر دیتا ہے۔‘‘
’’درویش بابا، کیسے؟‘‘ علی نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا تو درویش بابا نے فوراً علی کے پاؤں پر ہاتھ رکھ دئیے اور پھر لرزتی ہوئی آواز میں بولا۔
’’نہ فقیر سائیں۔۔۔ میرا امتحان مت لو، پرانے زخم کھل جائیں گے۔ اس بار اگر میں مدہوش ہو گیا تو پھر موت بھی ہوش میں نہیں لا سکے گی۔‘‘
’’تو پھر کمائی کیا کی ہے آپ نے؟‘‘ اس بار علی نے سنجیدگی سے کہا تو درویش بابا دھیرے دھیرے اپنی جگہ سیدھا ہو گا۔ اس نے سر جھکا لیا۔ کافی دیر تک یونہی مراقبے میں بیٹھا روہا اور پھر سر اٹھا کر علی کی طرف دیکھا اور پھر کہتا چلا گیا۔
’’دور کے ایک شہر میں شہزادہ رہتا تھا۔ بڑا ہی بانکا اور سجیلا تھا۔ وہ جب بھی کسی محفل میں جاتا، ساری محفل کی جان بن جاتا۔ حسن اس کے سامنے خود کو قربان کر دینے کے لئے بے تاب رہتا جبکہ اس کی بے نیازیاں کسی کو التفات کے قابل ہی نہ سمجھتی تھیں۔ وہ شہزادہ مغرور ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ حسن مایوس ہوتا گیا۔ اس کے مغرور ہونے میں زیادہ قصور حسن کا بھی تھا، جو خوامخواہ اس کی وجاہت پر مٹنے کو تیار رہتا تھا اور پھر ایک دن حضرت عشق آن وارد ہوئے۔ تھی تو وہ بھی بڑی حسین مگر گدڑی میں ہوا لعل تھی۔ وہ شہزادہ ووہیں کا ہو کر رہ گیا۔ نہ اپنا ہوش نہ دوسرے کی خبر۔۔۔ یہی آروز اس کی زندگی کا مقصد بن گئی کہ اسے حاصل کر لوں اور اس نے اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اس شہزادے کو دھتکار دیا۔ وہ جس سے عشق کرتی تھی وہ اندھا تھا، وہ اس کی بیساکھی بن چکی تھی۔ اس کے آخری لفظ آج بھی مجھے یاد ہیں۔ ’’جاؤ۔۔۔ جا کر دو آنکھیں لے آؤ، جو اس کی بیساکھی بن جائیں۔ میں تیرا عشق قبول کر لوں گی۔‘‘
’’میں اپنی آنکھیں دے دیتا ہوں۔‘‘
’’یہ تیرا عشق نہیں، ہوس ہو گی، اور اس سے بڑھ کر لالچ، میں تو بیساکھی ہی رہی کیا فرق پڑا۔‘‘
’’اور میں آنکھوں کی تلاش میں نکل پڑا، پھر لوٹ کر گھر نہیں گیا۔‘‘
’’تو پھر آنکھیں ملیں۔۔۔‘‘ علی نے قدرے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ملیں۔۔۔ جو آنکھیں مجھے ملیں، وہ آنکھیں کسی کو دینے والی ہی نہیں تھیں۔ وہ تو امانت ہیں۔‘‘ درویش بابا نے چھلکتی آنکھوں سے علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے پوچھا۔
’’اور حضرت عشق۔۔۔؟‘‘
’’سلامت ہے، اسی کے صدقے تو امانت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوا ہوں ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔‘‘
’’بابا۔۔۔ اپنی بساط سے بڑھ کر بوجھ اٹھا لینا، کیا یہی انوکھا پن نہیں، جسے خواجہ سائیںؒ نے اولڑا کہا ہے۔‘‘ علی نے درویش بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بالکل۔۔۔ میں شاید اس طرح اولڑے کی تشریح نہ کر سکتا، انسان وہ کچھ کر جاتا ہے جو عام حالات میں نہیں کر پاتا، پیڑ تو تبدیلی کی طرح ہوتی ہے۔ ہزاروں خواہشیں پل رہی ہوتی ہیں۔ نفس کو مارنا اور ایک اس خالق کے تابع کرنا معمولی بات تو ہے نہیں، پتہ نہیں کتنی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔‘‘ بابا نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے باابا، وہ جو پاکیزہ دل ہ دماغ رکھتے ہیں۔ انہیں تو پیڑ کم ہوگی، کیوں کیاخیال ہے؟‘‘ علی نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔
’’ظاہر ہے فقیر سائیں۔۔۔ جہاں گندگی کا ڈھیر ہو گا۔ وہاں صفائی میں وقت تو لگتا ہے۔ اور جہاں پاکیزگی ہوتی ہے پیڑ وہاں بھی ہوتی ہے لیکن یہ پیڑاس دردزہ کی مانند ہوتی ہے جہاں تخلیق ہوتی ہے۔ ماں درد سہتی ہے اور جنت اس کے قدموں میں آ جاتی ہے اور جب بچہ پہلا سانس لیتا ہے تو وہ قہقہہ نہیں لگاتا، وہ روتا ہے۔ اسکی جو وجہ بھی آپ بیان کریں وہ سر آنکھوں پر، لیکن پیڑ وہ بھی محسوس کرتا ہے۔ پیدائش سے موت تک زندگی پیڑ سے خالی نہیں اور پیڑ، درد، اذیت زندگی میں تبدیلی کا باعث ہے اور عشق تو سب کچھ بدل کے رکھ دیتا ہے۔‘‘ درویش بابا نے شدت سے کہا۔
بابا جی۔۔۔ کچھ عشق کے بارے میں کلام ہو جائے۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا تو درویش بابا جھوم گیا اور پھر دوزانوں ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’فقیر سائیں۔۔۔ یہ آپ کا حکم ہے؟‘‘ بابا نے کہا تو علی تڑپ گیا اور پھر تیزی سے بولا۔
’’نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ بابا۔۔۔ میں کون ہوتا ہوں حکم دینے والا۔ یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ ہمیں عنائت کردیں تو۔‘‘
فقیر سائیں۔۔۔ آپ کی خواہش ہے تو عرض کرتا ہوں لیکن پوری بات نہیں کہوں گا۔ عشق کی ایک بات میں پھر کبھی کہوں گا، لیکن وعدہ رہا کہ کہوں گا ضرور لیکن اس وقت آپ کی خواہش کا احترام تو مجھ پر واجب ہے نا۔‘‘ درویش بابا نے تحمل اور ادب سے کہا۔
’’جیسے آپ کی مرضی درویش بابا اسرار الٰہی میں سے ایک مخصوص راز ہے۔ حضرات اہل طریقت تو فرماتے ہیں کہ العشق ھواللہ، یہ تو راب العزت کے اسمائے حسنی میں سے۔ یوں کوئی کہے کہ وہ عشق کی تشریح و توضیح کر سکتا ہے تو یہ ناممکنات میں سے ہے۔ ہاں۔۔۔ مگر وہ لوگ جو صاحب اسرار ہیں۔۔۔ جن پر عنایت باری تعالیٰ ہے۔ جو محرم راز ہیں۔جو مقام رضا سے بھی آ گے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کوئی اس کی تشریح کر دیں تو بعید نہیں۔‘‘
’’پھر بھی۔۔۔ کچھ تو سمجھ میں آنے والی بات ہو۔‘‘ علی نے اصرار کیا تو درویش بابا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
’’فقیر سائیں۔۔۔ بندہ کسی امتحان کے لائق نہیں ہے۔ اللہ کے لئے اپنے اندرجھانکیے اور سب جان جائیے حضور۔۔۔‘‘
درویش بابا، آپ تو بار بار شرمندہ کر رہے ہیں۔ ممکن ہے میں نے دیکھ لیا ہو، لیکن کیا آپ تصدیق بھی نہیں کریں گے۔‘‘
’’فقیرسائیں۔۔۔ یہ تو میرے لئے اعزاز ہوگا۔‘‘ درویش بابا نے چونکتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کہیں کہ میں اپنا سبق دہرا دوں آپ کے سامنے۔‘‘
’’بابا۔۔۔ دیکھو احمد بخش کیا سوچے گا، شاید وہ سمجھے گا کہ ہم اسے بتانا ہی نہیں چاہتے۔‘‘ علی نے اشارے میں کہا تو درویش بابا سمجھ گیا اور پھر جذب سے بولا۔
’’عشق کیا ہے تو اسرار الٰہی کا ایک راز ہے۔ لیکن۔۔۔ جو صاحب عشق ہوتے ہیں وہ تو نگاہ میں ہوتے ہیں۔ جملہ صفات عاشقی یہی ہے کہ عاشق کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کی پوری توجہ ہدف پر رہتی ہے۔ سارا بدن ، رکی ہوئی سانس ٹھٹھری ہوئی سوچ ، آواز سے نا آشنا کان، قوت گویائی نہ ہونا سب اس ہدف کے لئے مخصوص ہوجاتا ہے۔ گویا کہ وہ خود نشانے پر پڑا ہوا ہے۔‘‘ درویش بابا نے کہا تو احمد بخش بولا۔
’’یہ عشق حقیقی و عشق مجازی۔۔۔؟‘‘
’’دونوں ایک ہی ہیں۔ سردیوں میں دھوپ بڑی اچھی لگتی ہے نا، سورج نہیں ہو گا تو دھوپ کہاں سے آئے گی۔ خوشبوں پیاری لگتی ہے، تو پھول کی و جہ سے، یہ پھول اور سورج کس کی تخلیق ہے اصل میں سارے راستے خالق حقیقی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ ہماری سمجھ کا فرق ہے۔ یہ عشق ہی ہے جوساری عقل سمجھ پیدا کرتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ عشق عقل کو ماؤف کر دیتا ہے۔ اصل میں وہ عقل کو بھی اپنے تابع کر لیتا ہے اور اس سے ہی سارے راستے کھلواتا ہے۔ عشق بس عشق ہے، مجازی یا حقیقی نہیں ہوتا۔ یہ تو ان لوگوں کی تقسیم ہے جنہیں عشق نہیں ہوتا۔ کیونکہ عشق جمع تفریق سے ماورا ہے۔‘‘
درویش بابا۔۔۔ وعدہ رہا کہ عشق کے بارے میں ایک بات میں بھی آپ کو بتاؤں گا۔‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے کہا تو بابا بھی مسکرا دئیے اور بولے۔
’’ٹھیک ہے، آپ دونوں جب چاہے ایک دوسرے کو بات بتائیں لیکن یہ بات مہرو سے چلی تھی، کبھی ٹھیک بھی ہو گی؟‘‘ احمد بخش نے دکھ بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’وہ ٹھیک ہے احمد بخش۔۔۔ کنند بننے کے لئے بھٹی میں آنا پڑتا ہے۔‘‘ علی نے گہری سنجیدگی سے کہا، ایک لمحہ ٹھہر کر بولا۔ ’’کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو پردہ غیب میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ وہ سامنے آ جائیں تو یہ کائنات بالکل پھیکی ہو جائے۔ اس میں سے سارے رنگ ، رعنائیاں اورخوبصورتیاں ختم ہو کر رہ جائیں۔ اس کی رضا میں رہنا ہی بندگی ہے۔‘‘
’’علی بھائی۔۔۔ ا گر گستاخی نہ ہو تو ایک بات پوچھوں۔‘‘ احمد بخش نے جھجکتے ہوئے کہا، علی خاموش رہا تو وہ بولا۔ ’’کیا یہ کام یونہی رکا رہے گا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ بالکل نہیں۔۔۔ مجھے اس کے مکمل ہونے کا اتنا ہی یقین ہے، جتنا کہ میں اور تم اس وقت سامنے بیٹھے ہیں اور درویش بابا ہماری باتیں سن رہے ہیں۔ کیوں درویش بابا۔‘‘
’’جی فقیر سائیں۔۔۔ ایسا ہی ہے۔ تم حوصلہ مت ہار احمد بخش۔۔۔ دیکھو کیاہونے والا ہے۔ اس کاانتظار کرو۔‘‘ درویش بابا نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلا نے لگا جیسے ساری سمجھ آ گئی ہو۔ احمد بخش بے چارہ بھی کیا سمجھتاکہ قدرت کے فیصلے کیا ہوتے ہیں۔ رات کے اس پہر روہی کے وسیع صحرا میں موجود ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ اپنے گھر چلا گیا تو یہ دونوں اپنے اپنے معمولات میں کھو گئے۔ جیسے ہی ان کی مزدوری ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
مقصدیت نہ صرف انسان کو توانا کر دیتی ہے بلکہ اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بھی بیدار کر دیتی ہے۔ منزل چاہے ان دیکھی ہو لیک جب منزل کا تعین کر کے اس کی راہ پر گامزن ہوا جاتا ہے تو پھر راد راہ کی سمجھ بھی آ جاتی ہے اور راستوں کی رکاوٹ بھی خودبخود دور کرنا آ جاتاہے۔ مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو شے چاہیے ہوتی ہے وہ خلوص ہوتا ہے یہ عنقاہوں تو پھر ہر کوشش بے مقصد ہو جاتی ہے۔ جب تک فرزانہ خاں کے پاس کوئی مقصد نہیں تھا، اس کی زندگی کا محورا ایسی کاوشیں تھیں جن کا حاصل کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن جونہی اس نے اپنے لئے مقصدیت کو چنا، اسے اپنی تمام تر کاوشوں اورکوششوں میں ایک زندگی دکھائی دینے لگی۔ فرزانہ خاں کی اک سب سے اچھی عادت یہی تھی کہ اسے مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ مگر مقصد کے بغیر مطالعہ کی اہمیت کا بھی اسے اندازہ نہیں تھا۔ جب سے اس نے اپنی پرخلوص کوششوں کا آغاز کیا ہوتا۔ تب سے اسے معلوم ہوا تھا کہ مطالعہ میں صرف کیا گیا وقت، کتنا بارآور ہو گیا ہے۔ اس کا ذہن بنجر نہیں تھا، علمیت نے اسے بہت زرخیز بنا دیا ہوا تھا۔ مسائل کے حل میں اسے مشکل نہیں ہوتی تھی اور نئی راہوں کی تلاش اس کے لئے بہت آسان ہو رہی تھی۔
اس صبح جب وہ اپنے آفس میں آئی تو اس کا مزاج خاصا خوشگوار تھا۔ پچھلی شام اسے معلوم ہو گیا تھا کہ روہی جانے والی ٹیم واپس آ گئی ہے اور صبح وہ اپنی رپورٹ دے گی۔ اس دن اسے کچھ اہم فیصلے کرنا تھا۔ وہ اپنے طور پر بہت کچھ سوچ چکی تھی۔ لیکن کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے کے لئے اسے بہرحال ان لوگوں کی بات تو سننا تھی جو سروے پر نکلے ہوئے تھے۔
اس وقت وہ اسی ہال میں بیٹھے ہوئے تھے جو اس طرح کی میٹنگ کے لئے مخصوص تھا رسمی سی گفتگو جاری تھی۔ وہ لوگ سروے کے دران ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات بیان کر رہے تھے۔ تب فرزانہ خاں نے کہا۔
’’یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ وہ ٹیم جو رو ہی گئی تھی۔ انہیں آپ موقع دیں کہ وہ ہمیں اپنے تاثرات اور مشاہدات بتا سکیں۔‘‘
’’اس کااتناہی کہنا تھاکہ سب خاموش ہو گے اور ان لوگوں کی طرف دیکھنے لگے جو رہی گئے تھے۔ اس ٹیم کا ہیڈ حامد بہت سمجھ دار نوجوان تھا۔ اس نے اپنے سامنے رکھے نوٹس سیدھے کیے اور بولا۔
’’ہم شہر میں رہنے والے بہت ساری آسائشیں اور سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ لیکن ہمیں احساس نہیں ہے کہ ہمیں کس قدر نعمتیں میسر ہیں۔ شہر سے تھوڑی دور صحرائی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہاں بھی زندگی ہے، لیکن بہت کٹھن ہے۔ یو کہیں کہ زندگی وہاں سسک رہی ہے۔ میں یہ بات ان معنوں میں نہیں کہہ رہا کہ انہیں شہری سہولتیں میسر نہیں، بلکہ وہ بنیادی انسانی حقوق، جو انہیں حاصل ہونا چاہیے تھے وہ نہیں ہیں۔‘‘
آپ کے خیال میں وہاں پر سب سے اہم ترین مسئلہ کیا ہے۔‘‘ فرزانہ نے پوچھا۔
’’وہاں سب سے بڑا مسئلہ جہالت کا ہے۔ بحث اس سے نہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک لمبی بحث ہو گی میڈم۔ ا سکے کئی سارے آپشن ہیں۔ وجووہات ہیں ان کے بارے میں گفتگو کرناوقت کا ضیاع ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جہالت سے جو برائیاں پیدا ہوتی ہیں وہ سب وہاں موجود ہیں۔ سب سے بڑی تذلیل وہاں عورت کی ہے۔ اسے حقوق توکیا ملنے ہیں، وہاں اسکی حیثیت کا ہی ادراک نہیں کیا جاتا۔ ایک جانور اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ فرق کیسے واضح ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے علم کی بدولت۔ ان لوگوں کو علم ہو گا تو ہی اس کی اہمیت کا احساس کریں گے۔‘‘
’’تو آپ کے خیال میں کیا ہم وہاں کوئی اپنی سروسز دے سکتے ہیں؟‘‘فرزانہ خاں نے پوچھا۔
’’وہاں ہمارے لئے بہت زیادہ سپیس ہے۔ لیکن وہاں پر ہماری خدمات بزنس کی بنیاد پر نہیں ہوں گی۔ پہلے ہمیں ان لوگوں کو شعور دینا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں سمجھیں، ہمیں ان کی مدد کرنا ہو گی۔ پھر اس کے بعد سوچا جا سکتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘‘
’’مسٹرحامد۔۔۔ وہ لوگ آخر شہر کا رخ کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘ ایک لڑکی نے سوال کیا تو حامد مسکرا دیا اور پھر دھیرے سے بولا۔
’’یہ سوال تو ایساہی ہے نا کہ روٹی نہیں ملتی ہے تو کیک کھا لیں۔ وہ وہاں پرکھوں سے رہ رہے ہیں ان کا لائف سٹائل ہی یہی ہے۔ ممکن ہے وہ اپنا لائف سٹائل بدل دیں اگر انہیں شعور آ جائے۔ شاید میں اپنا مدعا آپ پرواضح نہیں کر سکا۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے انہیں ا حساس دلایا جائے کہ انسان کیاہے، انسانیت کیا ہے اور سب سے بڑھ کر احترام انسانیت کیا ہوتا ہے۔ خدا نخواستہ وہ وحشی نہیں ہیں۔ مگر وہ ابھی تک صدیوں پرانے دور میں رہ رہے ہیں۔‘‘
’’آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسٹر حامد کہ پہلے ان کے لئے سکول کھولے جائیں۔ انہیں تعلیم یافتہ بنایا جائے اور پھر اس کے بعد بزنس کی بنیاد پر سروسز کا آغاز کیا جائے۔‘‘
’’بالکل میڈم۔۔۔ اگرچہ یہ کام حکومت کا ہے، وہاں پر کچھ حکومتی سکول بھی ہیں لیکن ان پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ حامد نے کہا تو ایک دوسرے لڑکے نے کہا۔
’’اس کے لئے تو بہت بڑے بجٹ کی ضرورت ہو گی۔ انوسٹمنٹ کا دورانیہ بہت طویل ہو گا۔ ایسے وقت میں کہ جب ہم اپنے کام کا آغاز کر رہے ہیں یہ ممکن نہیں ہوگا۔ جہاں حکومت کچھ نہیں کر پا رہی وہاں ایک نوزائیدہ فلاحی تنظیم کیا کر پائے گی۔‘‘
’’آپ نے ٹھیک کہا لیکن وہاں پھر ایک ایسی مثال بھی ہے کہ ایک فرد واحد کسی صلے کے بغیر ایک مدرسہ تعمیر کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹ وہی لوگ ہیں جن کے لئے وہ یہ سب کچھ کر رہا ہے لیکن وہ حوصلہ مند ہے اور کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میں خود اس سے مل کر آیا ہوں۔ ہم تو پھر ایک فلاحی تنظیم ہیں۔ اگر وہاں پیسہ نہیں لگا سکتے توکم از کم حکومت کو تو اس کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی سب سے بڑی مدد ہو گی۔‘‘ حامد نے جذباتی انداز میں کہا تو فرزانہ چونک گئی۔ تب اس نے عام سے انداز میں پوچھا۔
’’جس شخص کا تم ذکر رہے ہو وہ یہ کوشش کہاں پر کر رہا ہے؟‘‘
’’روہی میں ایک جگہ کچی بستی ہے وہاں پر۔ المیہ یہ ہے کہ چند دن پہلے تک اس کی مدد جو شخص کر رہاتھا وہ قتل ہو گیا ہے۔ اب وہاں پر کام رکا پڑا ہے۔ میرے خیال میں اگر وہاں کے لوگوں کو شعور ہوتا کہ یہ ان کے مفاد میں ہے تو وہ مدد کرتے لیکن سب سے بڑی رکاوٹ یہی لاعلمی ہے۔‘‘
’’سوال یہ ہے مسٹر حامد کہ جو شخص وہاں پر کوشش کر رہا ہے کیا وہ وہاں کا رہائشی ہے۔ اسے یہ شعور کیسے آیا۔۔۔ ‘‘ فرزانہ نے تجسس سے پوچھا۔
’’میڈم۔۔۔ وہ وہاں کا باشندہ نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ ہے۔ مگر وہیں کا ہو کر رہ گیا ہے۔ وہ کسی بزرگ کی وصیت پوری کرنا چاہتا ہے۔ دریش منش انسان ہے وہ اور فقیر سائیں کے نام سے مشہور ہے۔‘‘ حامد نے تفصیل بتائی تو نہ جانے کیوں فرزانہ کو علی یاد آ گیا۔ دل ایک بار زور سے دھڑکا تھا جس کی لرزش کتنی دیر تک اس کے من میں ہی رہی تھی۔ وہ لوگ آپس میں بخث کرتے چلے جا رہے تھے۔ جس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا تھا۔ تب اچانک اس نے کہا۔
’’مسٹر حامد۔۔۔ جس طرح کہ آپ نے کہا کہ وہ درویش منش آدمی ہے۔ تو کیا وہ ہماری مدد قبول کرلے گا۔‘‘
’’یقیناًوہ ہماری مدد قبول کر لے گا۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ وہ کوئی اپنا ذاتی پراجیکٹ لے کر نہیں بیٹھا۔ ہم اگر اس کی مدد کرتے ہیں تو ہمیں روہی کے اس علاقے میں ایک مرکز مل جائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔ آپ جس قدر ممکن ہو وہاں جائیں۔ یہ سب طے کریں اور انہیں جتنی مدد کی ضرورت ہے انہیں دیں۔ وہاں پر وہ مدرسہ بننا چاہیے اور جدید انداز میں بننا چاہیے۔ جدید انداز سے میری مراد عمارت کی چاہے شان و شکوت ویسی نہ ہو لیکن وہاں پر جو پڑھایاجائے وہ انہیں باشعور بنانے میں مدد دے۔‘‘
’’کیا اس سے ہم حکومتی حلقوں سے مدد لے سکتے ہیں۔‘‘ ایک لڑکی نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں۔ آپ اسے ایک پراجیکٹ کے طور پر لیں۔ اس پراجیکٹ کو بنائیں۔ ان لوگوں کو ہماری زیادہ ضرورت ہے مسٹر حامد آپ اس پراجیکٹ کو دیکھیں گے اور مجھ سے رابطہ رکھیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے میڈم۔۔۔ میں ایک دو دن میں آپ کو ساری تفصیلات سے آگاہ کر دوں گا۔‘‘ حامد نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
وہ میٹنگ ختم کرنے کے بعد اپنے آفس میں چلی گئی تھی۔ نجانے کیوں رو ہی کے حوالے سے اسے علی یاد آ گیاتھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ وہ جو پراجیکٹ کرنے جا رہی ہے اس میں اس کی فلاحی تنظیم کو ذرا بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہی باتیں اسے سننے کو بھی ملیں گی کہ وہ غلط کر رہی ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے ہٹ کر، سارے فائدے نقصان ایک طرف تھے کہ اس نے اس پراجیکٹ کوکرنے کا حکم دے دیاتھا۔ ایساکیوں ہوا تھا اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
’’کہیں علی کے حوالے سے کوئی کمزور لمحہ تو نہیں آ گیا جس نے تمہیں ایسا احمقانہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا ہو۔‘‘ اس کے دماغ نے اسے سرزنش کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نہیں۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ اس کے دل نے کمزور سی مزاحمت کی۔
’’تو پھر اس کام کے لئے تمہارے پاس آخر مضبوط جواز کیا ہے۔‘‘ دماغ نے پھر پوچھا۔
’’وہ انسان جو وہاں پر بس رہے ہیں۔ ان کے لئے بھی تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ کون کرے گا ان کے لئے۔‘‘ اس نے ایک مضبوط دلیل دی۔
’’کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ تم نے علی کو اس روہی کے صحرا میں گنوایا ہے۔ تم نے ہی تو اسے وہاں پھنکوایا تھا، کیا اس کا ازالہ کرنا چاہ رہی ہو۔‘‘ دماغ نے طنزیہ انداز مایں پوچھا تو اس کا دل ایک لمحے کودھڑکنابھول گیا۔ کیا واقعی جو وہ غلطی کر چکی ہے، اس کے ازالے کے لئے ایسا کر رہی ہے۔ کتنے ہی لمحے یونہی گزر گئے جیسے وہ خلا میں ہو۔ ہر طرف سناٹا تھا، پھر دھیرے سے اسے اپنے اردگرد کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تب اس نے صدق دل سے کہا۔
’’ہاں میری غلطی تھی کہ میں نے علی کو اس صحرا میں گنوایا لیکن مجھے میرے اللہ پر پورا بھروسہ ہے۔ وہ مجھے اسی صحرا میں سے میراعلی مجھے واپس کرے گا۔ میرا کوئی تعلق صحرا سے ہو گا تو ہی بات بنے گی۔‘‘ فرزانہ کے دل نے جیسے بغاوت کر دی۔ اس نے پوری قوت سے اپنی دلیل دی تو دماغ خاموش ہوگیا۔ اس کے با س کہنے کے لئے اب کچھ نہیں بچا تھا۔ وہ مطمئن ہو کر پرسکون ہو گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دوپہر ڈھل چکی تھی۔ لیکن سورج نے اپنی آب و تاب نہیں چھوڑی تھی مہرو اس وقت عصر پڑھنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی۔ گامن تھوڑی دیر پہلے گھر آیا تھا۔ اس نے جو سارا دن گھاس پھوس اکٹھی کی تھی، وہ جانوروں کو ڈال کر ایک شکستہ چارپائی پر آرام کر رہا تھا۔ جنداں اس وقت شام کے کھانے کے لئے چولہے کے قریب بیٹھی ہوئی تھی۔ گھر میں خاموشی تھی۔ کبھی کبھار کوئی جانور بولتا تو زندگی کا احساس ہوتا۔ کئی دن سے رب نواز گھر نہیں آیا تھا۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔ پہلے بھی وہ کئی کئی دن تک گھر نہیں آتا تھا اور پھر جب سے وہ سیدن شاہ کی پناہ میں چلا گیاتھا۔ اس کے بعد تو اس کے آنے جانے کی کوئی خبر نہیں رہتی تھی۔ وہ کب گھر آتا اور کب چلا جاتا تھا اس بارے میں احساس ہی نہیں تھا۔ گامن کبھی کبھی اپنی بیوی سے کہا کرتا تھا کہ رب نواز نے تو اس کا سہارا بننا تھا۔ ان بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی جان کہاں ہے کہ ان جانوروں کے ساتھ پورا اتر سکے جو ان کا ذ ریعہ معاش ہے۔ مگر اس نے سہارا کیا بننا تھا۔ ہر وقت کھو جانے کا دکھ اس نے دے دیا تھا۔ وہ پاگل پن پراتر آئی تھی۔ ساری بستی اسے پاگل کہتی تھی لیکن جنداں کا دل نہیں مانتاتھا۔ وہ نماز پڑھتی اور قرآن پاک کی تلاوت کرتی اور اس کے لئے وہ اپنی پاکیزگی کا پورا پورا خیال رکھتی تھی۔ بعض اوقات وہ بڑی اچھی باتیں کرتی، کئی دفعہ تو اس کی باتوں کی سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔ وہ دونوں میاں بیوی خود چاہتے تھے کہ اس کی شادی بھیرے سے ہو جاتی تو کم از کم یہ بوجھ تو ہلکا ہو جاتا۔ اب اس پاگل لڑکی کو کس نے بیاہنے آنا تھا۔ اولاد کے دکھ نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر کے رکھ دیا تھا۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ یہی سوچتے رہتے لیکن اس مسئلے کا حل کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔
مہروتلاوت کرچکی تو اس نے قرآن پاک کو جزدان میں رکھا اور صحن کے کونے میں پڑا ہوا گھڑا اٹھا لیا۔ یہی اس کا معمول تھا۔ وہ نئے کھدے ہوئے کنویں تک جاتی، وہاں سے پانی بھرتی اور واپس آجاتی۔ کبھی دل کیا تو علی سے بات کر لی ورنہ وہ خاموشی سے واپس آ جاتی۔ اس دن بھی پانی بھرنے کے لئے جانے والی تھی کہ اس کے گھر کا دروازہ کھلا اور پیراں دتہ اندر آ گیا۔ گامن اسے دیکھتے ہی چارپائی پر سے اٹھ بیٹھا۔
’’سلام چاچا گامن۔‘‘
’’وعلیکم السلام کیسے آئے ہو پتر۔۔۔‘‘ گامن نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا تو پیراں دتہ نے ایک نگاہ مہرو پرڈالی۔ وہ پانی بھرنے کے لئے جانے کو تیار کھڑی تھی۔
’’بتاتا ہوں چاچا گامن۔۔۔ پہلے مہرو سے کہو کہ گھڑا یہیں رکھ دے اور بیٹھے یہیں پر۔‘‘
’’کیوں پتر۔۔۔؟‘‘ گامن نے لرزتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں پتہ نہیں ہے کہ پیرسائیں کا حکم کیا تھا۔ جب تم اس کی شادی بھیرے سے نہیں کر واسکے تو تم خود کیوں نہیں لے کر گئے اسے حویلی۔‘‘
’’پیراں دتہ۔۔۔ ہم کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
’’تم نے کیا خاک کوشش کرنی تھی۔ تمہاری بیٹی نے خود انکار کر دیاتھا۔ تیرے بیٹے کو پویس سے بچایا اور پھر بھی تم پیر سائیں کے حکم کاانکار کرتے ہو۔‘‘
’’دیکھو۔۔۔ یہ سمجھ دار ہوتی تو اسے حویلی چھوڑ آتا، یہ پاگل نمانی ہے، وہاں کوئی نقصان کرے گی۔‘‘
’’اس کا علاج تو حویلی میں ہو جائے گا۔ پیر سائیں کے حکم کے مطابق ، ہم اسے لینے کے لئے آئے ہیں۔‘‘ اس نے انتہائی سختی سے کہتے ہوئے مہرو کو دیکھا جو بے حسی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’نہ پیراں دتہ نہ۔۔۔ اس پاگل نمانی کو رہنے دے میرے پاس۔ یہ حویلی میں جا کر کیا کرے گی۔‘‘ گامن نے منت سماجت کرتے ہوئے مہرو کو روکنے کی کوشش کی۔
’’دیکھ چاچا گامن۔۔۔ میں تجھے سمجھا رہا ہوں۔ مہرو اگر پیر سائیں کی حویلی میں جائے گی تو تجھے وہ چھ ایکڑزمین مل جائے گی۔ اس پر تیرے بیٹے رب نواز پر بھی پیر سائیں کا ہاتھ رہے گا۔ وہ تو تیرا بھلا سوچ رہے ہیں۔ وہ اپنے مریدین کا بھلا نہیں سوچیں گے تو اور کون سوچے گا اورتم ہو کہ انکار کر رہے ہو۔ بولو کیا جواب ہے تمہارا۔‘‘
’’پیراں دتہ۔۔۔ اس عمر میں چھ ایکڑ زمین لے کر میں نے کیا کرنا ہے۔ مجھ سے تو کوئی کام نہیں ہوتا۔ تو بس ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے۔‘‘
’’تو انکار کر یا اقرار۔۔۔ ہمیں تو پیر سائیں کا حکم ماننا ہے۔ میں مہرو کولے کر جا رہا ہوں۔ تم خود آ کر پیر سائیں سے بات کر لینا۔‘‘ پیراں دتے نے لاپرواہی سے کہا اور مہرو کی جانب بڑھا تو وہ ہذیانی انداز میں بولی۔
’’خبردار اگر مجھے ہاتھ لگایاتو۔۔۔ دفع ہوجاؤ یہاں سے۔‘‘
’’تو چلو تم خود اپنے آپ میرے ساتھ دفع ہو جاؤ۔ میں کیوں تمہیں ہاتھ لگاؤں گا۔‘‘پیراں دتے نے کمال دھٹائی سے ہنستے ہوئے کہا۔
’’جب وہ جانا نہیں چاہتی تو تم کیوں لے کر جا رہے ہو۔‘‘ گامن نے سختی سے کہا۔
’’چپ کر بڈھے۔۔۔ ورنہ ہمیشہ کے لئے تیری آواز بند کر دوں گا۔‘‘ پیراں دتے نے غصے میں اونچی آواز سے کہا تو باہر موجود اس کے ساتھی جلدی سے اندر آ گئے۔ گامن خوف زدہ ہو گیا۔ جنداں بھی ایک طرف کھڑی کانپنے لگی۔
’’خدا کے لئے ہم پر رحم کرو پیراں دتہ۔۔۔ میری بیٹی کو نہ لے جاؤ۔ ہم تیری منت کرتے ہیں۔ یہ پاگل ہے۔ چھوڑ دو اسے۔ جنداں نے آخری کوشش کی۔ لیکن اس وقت تک پیراں دتہ مہرو کی کلائی پکڑ چکا تھا۔ اور پھر گھسیٹتے ہوئے باہر جانے لگا۔ مہرو چیختی رہی، چلاتی رہی مگر اس کا دل ذرا نہ پسیجا۔ مہرو کی چیخوں میں، گامن اورجنداں کی آہ و بکا بھی شامل تھی۔ جس کا کوئی اثر پیراں دتہ پر نہ ہوا۔ وہ مہرو کو گھسیٹتا ہوا گھر سے باہر لے آیا۔ جہاں کچی بستی کے کئی لوگ کھڑے تھے۔ کسی میں ہمت نہ ہو سکی کہ وہ یہی پوچھ لے کہ وہ اسے یوں کیوں لے کر جا رہا ہے، جیپ دروازے کے باہر کھڑی تھی۔ اس نے مہرو کوہ اٹھایا اور جیپ میں پھینک دیا۔ اب اس کی مزاحمت بے کار تھی۔ مگر پھر بھی وہ تڑپتی اور مچلتی رہی۔ جیپ سے باہر نکلنے کی کوشش میں وہ بے دم ہو چکی تھی۔ تبھی پیراں دتے نے غراتے ہوئے کہا۔
’’خاموش۔۔۔ تجھے ہر حال میں حویلی جانا ہے۔ یہی تیری سزا ہے۔‘‘
’’پیراں دتہ۔۔۔ تجھ پر خدا کا قہر نازل ہو گا۔ بچ جا، چھوڑ دے مجھے۔‘‘ مہرو نے انتہائی بے بسی سے کہا تو وہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’میری بات مان جاتی تو سدا عیش کرتی، لیکن اب تجھے روز مرنا ہوگا اورروز جینا ہوگا۔ میری بات نہیں مانی ہے نا، اب تیری زندگی اجیرن کر دوں گا۔‘‘ اس نے خباثت سے کہا۔ اس وقت تک اس کے دوسرے ساتھی بھی جیپ میں بیٹھ چکے تھے۔ ڈرائیور نے جیپ بڑھا دی۔ جو سیدھی حویلی جا کر رکی۔ اس دوران مہرو مچلتی رہی۔ لیکن اس کے دل میں ذرا بھی رحم نہیں آیا۔
’’چلو اترو۔۔۔ پیراں دتہ نے مہرو سے کہا اورپھر خود ہی اس کا بازو پکڑ کر نیچے اتار لیا۔ پھر اس وقت پیراں دتہ خود حیران رہ گیا جب مہرو نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اوریوں ہو گئی جیسے اسے یہاں گھسیٹ کر نہیں اس کی اپنی مرضی سے لایا گیا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر عجیب قسم کی مسکراہٹ آ گئی تھی۔ جیسے خیالوں ہی خیالوں میں اس نے بہت کچھ دیکھ سوچ لیا ہو۔ پیراں دتہ کی حیرت ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ اس نے پوچھا۔
’’کدھر جانا ہے؟‘‘
’’اب آئی ہے نا تمہیں عقل، چلو میں تمہیں لے چلتا ہوں۔‘‘ اس نے حویلی کی طرف اشارہ کیا تو وہ بڑھ گئی۔ پیراں دتہ اس کے آگے آگے تھا۔ کئی راہداریاں عبور کر کے وہ حویلی کے ایک الگ سے حصے کی طرف آ گئے۔ یہاں کی دنیا ہی کچھ اور تھی۔ وہاں پر کئی لڑکیاں تھیں اور ان کے درمیان میں ایک بوڑھی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ پیراں دتے نے مہرو کو دھکا دیتے ہوئے اس کے سامنے کیا اوربولا۔
’’داراں مائی۔۔۔ یہ مہرو ہے، یہ یہاں ایسے ہی نہیں لائی گئی۔ یہ وہ لڑکی ہے جس نے پیر سائیں کے حکم سے انکار کیا ہے۔‘‘
’’میں نے سنا ہے کہ یہ پاگل ہو چکی ہے۔ تو پھر اس۔۔۔‘‘
’’کوئی پاگل نہیں ہے۔ اس نے ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ یار کی قبر پر چراغ جلانا یاد رہتا ہے اسے۔ تیرے پاس اس لئے لایا ہوں کہ اس کا سارا پاگل پن ختم کرو۔‘‘ پیراں دتے نے غصے میں کہا اور پھر رک کر بولا۔ ’’دیکھ نہیں رہی ہو داراں مائی۔۔۔ اس کا بن ٹھن کر رہنا، اس کا بدن دیکھو، اس کی جوانی دیکھو۔۔۔ خود کو سجا سنوار کے رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ پاگل ہے۔ اسے سمجھاؤ کہ اس نے یہیں رہنا ہے اور اس کی۔۔۔‘‘ پیراں دتے کی بات کاٹتے ہوئے مہرو نے کہا۔
’’اب بھونکتے ہی رہو گے یا یہاں سے دفع بھی ہو جاؤ گے۔ بہت بھونک لیا تم نے، جاؤ اب دفع ہو جاؤ۔‘‘ اس نے کہا تو وہاں پر موجود ہر لڑکی چونک گئی۔ داراں مائی نے بھی غور سے دیکھا۔
’’دیکھا۔۔۔ دیکھا داراں مائی۔۔۔ اس کا دماغ دیکھو، جوانی کا جوش دیکھو۔‘‘ وہ تیزی سے بولا۔
’’میں کہا نا، بھونکنا بند کرو، میں دیکھتی ہوں کہ وہ ہوتا ہے جو تم لوگ چاہتے ہو، یا پھر وہ جو میرا اللہ چاہتا ہے۔‘‘ مہرو نے کچھ اس انداز سے کہا کہ پیراں دتہ کو اس سے پہلی بار خوف محسوس ہوا۔ اسے لگا جیسے اس نے مہرو کو یہاں لا کر غلطی کی ہے۔ پھر اس سے وہاں کھڑا نہیں رہا گیا۔ وہ چلا گیا تو داراں مائی نے اس سے کہا۔
’’بیٹھو مہرو۔۔۔‘‘
’’داراں مائی۔۔۔ میں وہ نہیں ہوں جو یہ ہیں۔‘‘ اس نے دوسری لڑکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم چاہو تو کوشش کر سکتی ہو لیکن ہو گا کچھ نہیں یہ میرا یقین ہے۔‘‘ مہرو نے کھڑے کھڑے کہا تو داراں مائی بولی۔
’’جو تم چاہو گی وہی ہو گا۔ میری طرف سے تم ابھی واپس جا سکتی ہو مگر یہاں حویلی میں اپنی کوئی مرضی نہیں ہے۔ اُن کی اجازت کے بغیر جاؤ گی تو خودکشی ہو گی۔ تم وہی کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے۔‘‘
مہرو چند لمحے کھڑی سوچتی رہی۔ جیسے کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہو۔ پھر اس نے یوں سر جھٹکا جیسے کوئی حتمی فیصلہ کر چکی ہو۔ وہ قدرے مسکرائی اور پھر داراں مائی سے بولی۔
’’وضو کے لئے پانی اور نماز پڑھنے کے لئے جائے نماز چاہیے۔‘‘
’’ابھی لو۔۔۔‘‘ داراں مائی کی دور رس نگاہوں نے بہت کچھ بھانپ لیا تھا۔ اس نے کسی لڑکی سے نہیں کہا بلکہ خود اٹھی اور وضو کے لئے پانی لینے چلی گئی۔ جبکہ مہرو ان لڑکیوں کے درمیان زمین پر بیٹھ چکی تھی۔ اس کا امتحان شروع ہو چکا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...