سوچ دا کیڑا اندروں اندری
پورا بندہ ٹُک جاندا ای
سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور خاموشی کا تو یوں راج تھا گویا یہاں کبھی کوئی بولا ہی نہ ہو۔ ناشتے کے بعد زہرہ بی بھی آرام کا کہہ کر کمرے میں بند ہو گئی تھیں اور آمنہ بیگم سے کہہ دیا تھا کہ کسی کو ان کے کمرے میں جانے دیا جائے۔ چونکہ آج دھوپ بھی نہ تھی سو وہ کمرے میں ہی تھیں۔
سر جھکائے اور بیڈ سے ٹیک لگائے کمبل میں وہ بوڑھو وجود بیٹھا تھا جس نے ان سے امیدیں وابستہ کی تھیں جو کھوٹے سکے تھے۔ایک عمر گزار لی تھی مگر اتنی مایوسی کبھی ا س وجود نے نہ سہی تھی جتنی ان کچھ دنوں میں سہہ لی تھی۔
سوچیں تھیں کہ وجود کو ہچکولوں میں لیے جاتی تھیں اور آنکھیں تھیں کہ خشک ہونے میں نہ آتی تھیں۔
زندگی گزر گئی مگر کسی کی جرات نہ ہوئی تھی کہ ان کا ایک حرف بھی جھٹلا جاتا۔ اور اب وہ وقت تھا جب مان بھروسہ سب کرچی کرچی ہوا چاہتا تھا۔
صبح سے دوپہر ہونے کو آئی تھی اور دوپہر سے سہ پہر۔ مگر اس کا کوئی پتہ تھا اور نہ ہی انہوں نے اس کے متعلق کسی سے پوچھا تھا۔
اور اب وقت وہ تھا کہ جہاں دو زندگیاں خراب کرنے کا سوال تھا وہاں انہوں نے ایک اور موقع دینے تک بات کو اپنے ذہن میں کہیں دور ہی دفنایا ہوا تھا۔
ان کو اگر وہ پیارا تھا تو اس لیے کہ ان کا خون تھا ۔ اور اگر وہ پیاری تھی تو اس لیے کہ وہ ان کی دھڑکن بنتی جا رہی تھی۔
نہ تو وہ اس خون کے لیےسیا ہ بن سکتی تھیں اور نہ ہی اس دھڑکن کے لیے رکاوٹ۔
فیصلہ بہر حال ہو چکا تھا۔ اب چاہے کوئی ٹس ہوتا یا مس۔ ان کو اب اس بات پر سب کو یکتا کرنا تھا۔
اپنی شال سے اپنی آنسو صاف کر کے انہوں نے سائیڈ ٹیبل سے عصا اٹھایا اور پاؤں قالین پر دھرے تھے۔
انہیں اسے ایک اور موقع دینا تھا کہ بہر حال زندگی تو اس کی ہی تھی جیسی بھی گزارنا چاہتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مرنے سے عار ہے مجھے، جینے کو میرا جی نہیں
دونوں میں کوئی چیز بھی، میرے مزاج کی نہیں
ایک تو دن ہی بہت عجیب تھا کہ سورج آج دور بدلیوں ہی میں منہ چھپائے بیٹھا تھا ۔ دوسرا دل بھی ایسا عجیب تھا کہ رات سے اب تک بے چین تھا۔
کل تک اسے بے چینی تھی کہ زوئنہ کو جو آس کی ڈوری تھما آیا ہے اسے ٹوٹنے نہیں دے گا۔
آج اسے رات کی سنی گئی آواز نے بے چین کر رکھا تھا۔
فخر زمان کی نکاح والی بات سے اٹھ کر آنا اسے اب شرمندگی میں چھپا رہا تھا۔
اسے سمجھ نہ آئی وہ کہاں جا کر رُوپوش ہو جائے کہ جہاں کوئی زوئنہ ہو اور نہ کوئی گھر بار۔ بس وہ ہو اور وہ آواز ہو۔
وہ آواز جس کی نہ تو لے سمجھ آئی تھی نہ ہی الفاظ ، مگر یوں ذہن میں گڑ گئی تھی جیسے کبھی مٹ ہی نہ پائے گی۔
اس کا دل کیا وہ اس لڑکی سے فرمائش کرے۔ وہ لڑکی اس کے لیے وہی الفاظ اسی لے میں گائےجس میں اسے یوں ہی بے چینی سی ملے۔
وہ اس بے چینی کو بھلانے پھر سے اس کہے اور وہ پھر سے گائے۔
دور افق پر آنکھیں چھوٹی چھوٹی کیے وہ دیکھ رہا تھا اور وہ آواز اسے لے کے ساتھ کانوں میں گونج رہی تھی۔ دل کی بے چینی حد سے سوا ہونے لگی تھی جب فون کال نے اس کا دھیان اپنی طرف مبذول کیا۔
جیب سے موبائل نکال کر دیکھا۔ ‘مائی فرسٹ لیڈی’ کا نام دیکھا تو یک دم ایک آنسو آنکھ سے لڑھک کر گریبان میں گم ہوا تھا۔
“ہائے ! کیسے ہو؟” آواز ابھری تھی۔
آنسوؤں کا پھندہ گلے سے گزارا اور بازو سے آنکھ صاف کی۔
“تم کیسی ہو؟” الٹا اس سے سوال کیا۔
“میں ہمیشہ کی طرح بہت پیاری” کھلکھلاتی آواز آئی۔
“کیا کر رہی تھیں؟” اس نے بات بڑھائی۔
“تمہیں یاد کر رہی تھی ۔ کب آرہے ہو؟” زوئنہ اچھے موڈ میں لگتی تھی۔
“جب کہو” ہمیشہ کی طرح اب بھی وہی بولا تھا جو وہ سننا چاہتی تھی۔
“آجاؤ پھر۔ بہت دن ہو گئے ملے ہوئے۔”اس نے زور دیتے ہوئے کہا تو سجاول نے خود کو بے بس پایا۔
“ہاں بس آ ہی جاؤں گا اب میں” اس نے جانے کس رو میں بہہ کر یہ جواب دیا تھا۔ دوسری طرف غور کرنے والی ہستی ہوتی تو جان جاتی وہ کس کرب سے گزر رہا ہے۔
“اوکے میں اب شاپنگ کے لیے جا رہی ہوں ممی کے ساتھ۔ بعد میں بات کرتی ہوں” اس نے جیسے جان چھڑائی اور بنا کچھ کہے سنے کال بند کر دی۔ وہ خاموشی سے موبائل کو دیکھنے لگا۔
“بھائی! زہرہ بی نے پیغام بھیجا ہے کہ گھر آجائیں آپ سے بات کرنی ہے ” وہ ڈیرے کے پچھلے حصے میں بیٹھا تھا جہاں کچھ ملازموں کے علاوہ کوئی نہیں آتا تھا، جب ایک چھوٹی عمر کا لڑکا اسکے پاس زہرہ بی کا پیغام لایا تھا۔
“کوئی کام ہے؟” سر جھکائے ہوئے وہ اکتایا سا بیٹھا تھا۔
“معلوم نہیں بھائی” اس نے کہا اور واپس مڑ گیا۔
سجاول نے بدقت تمام پچھلی بات کو پسِ پشت ڈالا اور زہرہ بی سے ایک بار پھر بات کرنے کی ٹھانی۔ موبائل واپس جیب میں رکھتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا جانئے ــــ ــــکہ چھاتی جلے ہے یا داغِ دل
آج آگ سی لگی ہے، کہیں کچھ دھواں سا ہے
بہت دیر اس کا انتظار کر کے جب وہ اٹھنے لگیں تو انہیں وہ لاؤنج میں داخل ہوتا نظر آیا۔
“رانی پتر جا کر بھائی کے لیے لسی اور آلو کا پراٹھا بنا لا” انہوں نے اس دیکھتے ہی رانی کو آواز دی تھی۔ وہیں پاس کھڑی کشور بیگم آمنہ بیگم اور قدسیہ بیگم نے نظروں کا تبادلہ کیا تھا۔
یہ وہی پوتا تھا جو کچھ دن سے ان سے اکھڑا اکھڑا تھا ۔ صبح بھی یوں میز سے اٹھ کے چلے جانے سے جیسے زہرہ بی نے نظریں جھکائی تھیں، کچھ بعید نہیں تھا کہ زہرہ بی اسے بے نکت سناتیں۔
لیکن بلاشبہ وہ ایک اچھی ماں رہی تھیں اور جانتی تھیں کہ اتھرے گھوڑے کو کیسے سدھایا جاتا ہے۔
رانی نے ان کی بات پر ‘ہیں’ والا دیا تو زہرہ بی نے ایک گھوری سے نوازا۔
“اللہ تیرے اچھے بخت کرے کم عقل لڑکی! میرے بچے نے صبح ناشتہ نہیں کیا تھا”
سجاول جو ان کی طرف آرہا تھا۔ اس کادل ایک دم سے تیز دھڑکنے لگا ۔ جو بھی تھا مگر زہرہ بی کا یہی پیار ان کے سامنے جھک جانے پر مجبور کرتا تھا۔اور پچھلے کچھ دن سے وہ ان کی ہر عنایت بھلائے اپنی ہی مرضی پر اڑا ہوا تھا۔
“آجاؤ سجاول پتر” انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے کہا اور اپنے عصا کو تخت کے نیچے رکھ کر اس کے لیے جگہ بنائی۔
“زہرہ بی آپ کے لیے بھی لاؤں کچھ؟” قدسیہ بیگم نے سجاول کو قطعاً نظر انداز کرتے ہوئے زہرہ بی سے بات کی اور ان کے اشارے سے انہی قدموں پر مر گئی تھیں کہ اس وقت انہیں سجاول کے ساتھ اکیلے میں باتیں کرنی تھیں۔
آمنہ اور کشور بیگم کچن کی طرف چلی گئیں اور قدسیہ بیگم اپنے کمرے کی طرف مڑ گئیں تو زہرہ بی کھنکاریں۔
سجاول جو گردن جھکائے ان کے سامنے تخت پر بیٹھا تھا ، ان کے کھنکارنے پر سیدھا ہو بیٹھا۔ اندازہ تو اسے بھی تھا کہ یقینی طور پر وہ کچھ الگ کہنے والی ہیں تبھی سب کو وہاں سے آگے پیچھے کیا تھا۔
“نام کیا ہے بچی کا؟” ان کے لہجے میں حلاوت گھلی ہوئی تھی۔
“زوئنہ” اس کا گلا بیٹھا ہوا تھا بمشکل اس نے جواب دیا تھا۔
“ماشااللہ نام تو بہت پیارا ہے۔مطلب کیا ہے؟”
“پتہ نہیں زہرہ بی۔ آسٹریلوی نام ہے۔ ” وہ ہچکچاتا ہوا گویا ہوا تو وہ ہنس دیں۔
“عربی نام بھی ہے بیٹا جی۔ مگر ماخذ اس کا انگریزملکوں سے ہی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے اس کا مطلب ہے ‘پُر اسرار’۔ باقی واللہ اعلم” وہ ابھی بھی مسکرا رہی تھیں۔
“آپ مجھ سے زیادہ جانتی ہیں” وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔
“ہاں ظاہر ہے عمر بھی تو تم سے زیادہ ہے نا”
رانی ٹرے میں ایک پلیٹ اور اس میں ٹشو بچھائے پراٹھا اور آملیٹ کے ساتھ لسی لیے چلی آئی تو زہرہ بی نے اس کے سامنے رکھنے کا اشارہ کیا اور آنکھوں سے وہاں سے ‘غائب’ہونے کا اشارہ دیا۔
“شروع کرو”
سجاول نے نہ چاہتے ہوئے بھی لقمہ توڑا۔
وہ خاموشی سے اسے لقمہ لقمہ کھاتی ہوئی دیکھتی رہیں۔اس نے کھانا ختم کیا تو زہرہ بی نے رانی کو آواز دی۔ سجاول اٹھ کر ہاتھ دھونے چلا گیا اور رانی بھی برتن اٹھا کر کچن میں غائب ہوگئی۔ ان کے وہاں سے ہٹنے کی دیر تھی کہ زہرہ بی کی آنکھ سے آنسو نے باہر کا راستہ دیکھاجسے انہوں نے فوراً سے پہلے اپنی شال سے صاف کیا تھا۔ یہ اور بات کہ بوڑھی آنکھوں کی سرخی ابھی بھی دیکھنے والی آنکھ کو دِکھ جاتی تھی۔
وہ واپس آکر بیٹھا تو وہ ایک بار پھر سے مسکرا دیں۔
“کچھ بتاؤ اس کے اور اپنے بارے میں” وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
“زیادہ نہیں بتا پاؤں گا زہرہ بی۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ میں اس سے بے پناہ محبت کرتا ہوں”وہ بدقت تمام بولا۔
“جو تم کرتے ہو نا سجاول پتر! اسے پسند کہتے ہیں۔ جو ہم تم سے کرتے ہین وہ ہوتی ہے محبت” لہجہ اب بھی مسکرا رہا تھا۔ اسے کدشہ ہوا وہ اب بھی اسے نامراد بھیجیں گی۔
“پسند جو ہوتی ہے نا سوہنے پتر! بدل جایا کرتی ہے۔اور جو محبت ہوتی ہے نا وہ یوں دیکھو ذرا مجھے۔۔” انہوں نے اس کا چہرہ اٹھا کر اپنی طرف کیا۔
بھوری چادر کے ہالے میں مقید ان کا سرخ و سفیدچہرہ ، سرخ ناک اور آنکھیں چھلکنے کو تھیں مگر ضبط تھا کہ اب تک بھرم رکھے ہوئے تھا۔ سجاول نے نگاہیں چرائیں۔
“پسند ہو تو ہماری رائے کسی آنے والے دن میں بدل جایا کرتی ہے۔ مگر محبت کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ کوئی متبادل نہیں ہوتا” انکی آواز کانپی۔
“پسند کا رشتہ ظاہر سے ہوتا ہے۔ باطن سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ محبت کا رشتہ باطن سے ہوتا ہے جو ظاہر کو بھی سنوار دیتی ہے پتر!” آنسو چھلکنے لگے تھے اور سجاول تھا کہ اب بھی نگاہیں چرائے اور گردن جھکائے بیٹھا تھا۔
اور ان کے اوہام تھے کہ سچ ہوئے چاہتے تھے۔
“میرا فرض بنتا تھا جتنا سمجھا سکتی تھی سمجھا لیا۔ باقی اب تیری مرضی ہے۔ جیسے کہے گا میں کرنے کو تیار ہوں۔ ” اس سے کہتے ہوئے انہوں نے پاؤں فرش پر جمائےاور نیچے سے اپنا عصا اٹھایا۔
“زہرہ بی! میں اس سے محبت ہی کرتا ہوں” اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔
“بے شک کرتے ہو گے۔ اب میں اس حد تک تو نہیں جانتی نا تمہیں” وہ گیلی آنکھوں سے مسکرائیں تو سجاول کے دل کو کچھ ہوا۔ فوراً سے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے۔
“ہاں ٹھیک ہے میرے شہزادے۔ لے جاؤں گی تیری بارات” انہوں نے اس کے سر پر پیار دیا ۔ یہ اور بات کہ دل یوں تھا جیسے حبس زدہ ہو چکا ہو۔
“تھینک یو زہرہ بی” اس نے بیٹھے بیٹھے ہی ان کی گود میں سر رکھا تھا۔ ایک دم سے اس کا موڈ بحال ہو چکا تھا۔ وہ مسکرا کر اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں جبکہ اپنے کمرےکی کھڑکی کے پاس جمی قدسیہ بیگم نے آنکھیں سکتی سے بند کی تھیں۔ آج وہ اپنا بیٹا مکمل طور پر دور ہوتا دیکھ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دور افق پر سورج کی روشنی انڈے کی زردی کی طرح پھیلی اپنی رخصتی کا پیغام دے رہی تھی جب شیر زمان صاحب گھر میں داخل ہوئے تھے۔
کشور بیگم نے ان کے آتے ہی انکے کپڑے بیڈ پر رکھے اور ان کو اشارہ دے کر باہر چلی گئیں۔
باہر لاؤنج میں آؤ تو سب نو جوان پارٹی محفل جمائے بیٹھی تھی۔ سب اپنی اپنی سارے دن کی مصروفیات سنانے میں مگن تھے۔ حبل اور جبل اپنے ‘اعلیٰ پائے’ کے کارنامے سنا رہے تھے۔
“جبل browser کام نہیں کر رہا تمہارا” نمل منہ بناتی جبل سے مخاطب ہوئی ۔
“او خدو کا خوف کر بہن میرا براؤزر (Browser)کب بنا؟” جبل اٹھ کر اس کے پاس آیا ۔
وہ جبل کے لیپ ٹاپ پر جانے کیا کام کر رہی تھی۔
“یہ فائر فاکس (Fire Fox)ہے اس میں مر کے بھی تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز نہیں ملے گی لڑکی” وہ ہنس کر گویا ہوا اور اسے اس کی سیٹنگ سمجھانے لگا۔
“بھیا آپکو پتہ ہے یہ فائر فاکس ہے کیا چیز؟” منال نے ناک پر عینک ٹھیک کرتے ہوئے سجاول سے پوچھا۔
“سرچ براؤزر (Search Browser)ہے” حبل ہنستے ہوئے بولا۔
“اوہ پلیز حبل بھائی آپ تو کچھ بولا ہی نہ کریں۔ سجاول بھیا آپ بتائیں ” اس نے خاموشی سے لڑکیوں کے گروپ پر نظر دوڑاتے سجاول کو مخاطب کیا۔ وہ چونکا۔
“دوبارہ پوچھو”
“موزیلا فائر فاکس کا لوگو جو ہے اس میں گلوب(نقشہ) کے گرد کیا چیز لپٹی ہوئی ہے” اس نے دہرایا۔
“یہ چیٹنگ ہے تھیٹے! پہلی بار سوال اور تھا ” حبل غصے سے اسے دیکھنے لگا۔
“چپ آپ” منال نے ہاتھ جوڑے۔
“دفعہ دفعہ!” حبل اٹھ کر کچن کی طرف چلا گیا تو وہ سجاول کی طرف متوجہ ہوئی۔
“فائر فاکس ہے یار ۔ ظاہر ہے فاکس (لومڑ) بنا ہوا ہے۔ اور اس کی سپیڈ کی وجہ سے فائر(آگ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے” وہ کندھے اچکاتے ہوئے اپنا علم جھاڑ رہا تھا اور منال کا منہ بنتا جا رہا تھا۔
“مجھے ویسے آپ سے ایسی امید ہر گز نہیں تھی بھیا” منال سر افسوس میں ہلاتی اسے شرم دلا رہی تھی ۔ وہ ابرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔
“موزیلا فائر فاکس ۔۔ بھیا ایک آن لائن ادارہ یعنی انٹرنیٹ پر کچھ حصے بنائے گئے تھے۔ کمپیوٹر ایپلیکشنز کے لیے۔جیسے ہمارے موبائلز کے لےPlay Storeمیں ایپلیکشنز ہوتی ہیں اسی طرح اس میں بھی تھیں۔ انہوں نے بنایا تھا یہ سرچ براؤزر۔ ” وہ ہاتھ ہلا ہلا کر اسے بتا رہی تھی۔ سب باتیں کرتے رک کر اسے دیکھنے لگے تھے۔
“اور ایک لاطینی پرندہ تھا’myth’ ۔ لاطینی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پرندہ اپنے آباؤاجداد کی راکھ سے آگ کی طرح پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ہم بولتے ہیں نا راکھ سے چنگاری اٹھنا۔ بالکل ویسے ہی” بولتے ہوئے چوٹی میں سے نکلے ہوئے بال بھی منہ سے ہٹائے جاتی تھی۔
سب چپ تھے یوں جیسے کوئی بزرگ بیان دے رہے ہوں۔
“اور اس کے Logoمیں جو جانور ہے اسے یہ اصل میں Red Pandaہے۔ لومڑ نہیں ہے” اس نے بات کے اختتام پر اپنی پھسلتی ہوئی عینک درست کی اوروہاں سے اپنی کتابیں لے کر اٹھ گئی۔
اس کے جانے کے بعد بھی وہاں سب خاموش تھے۔ حبل جو کچن کے دروازے میں کھڑا اس کی باتین سن رہاتھا ایک دم قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
“پوری بات تو بتا کر نہیں گئی ۔ ہاگل بنا گئی سب کو” وہ جو آگے بڑھ گئی تھی واپس مڑی۔
“باقی آپ لوگ خود سرچ کریں ہنہ!” اس نے حبل کو گھورتے ہوئے کہا اور دوبارہ کمرے کی جانب چل دی۔
نمل اور فجر نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کی ذرا سی بھی سعی نہیں کی تھی۔ جبکہ سجاول اور جبل بھی قہقہہ لگا کر ہنس دئیے تھے۔
آج تو سجاول کا انداز ہی اور تھا۔ حبل اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سب لاؤنج میں بیٹھے تھے تبھی کشور بیگم نے غنویٰ کی تلاش میں نظریں دورائیں۔ وہ کہین نظر نہ آئی تو زہرہ بی کی کمرے کی جانب چلی گئیں۔
وہ انہیں وہین ان کے پاس بیٹھی باتیں کرتی ملی تھی۔
“زہرہ بی! غنویٰ کوشیر زمان صاحب بلا رہے تھے” انہوں نے غنویٰ کے بجائے زہرہ بی ہی کو مخاطب کیا۔
“ہاں ہاں جاؤ بیٹا بات سن آؤ۔ اور کشور تم ذرا پانی دیکھو اگر گرم ہے تو میں وضو کر لوں” غنویٰ نے ان کی اتنی بات سنی تھی اور جوتا پاؤں میں اڑستی کمرے سے نکل آئی تھی۔ سامنے لاؤنج میں سبھی کسی بات پر اونچے قہقہہے لگاتے ملے تو وہ بھی نمل اور فجر کو مسکراہٹ پاس کرتی کشور بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
شیر زمان صاحب ایک طرف کونے میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھے تھے۔ شال کندھوں ہر پھیلا رکھی تھی۔ وہ انہیں دیکھ کر پہلے تو گھبرائی ۔ پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ان کی طرف بڑھی تھی۔
شیر زمان ، فخر زمان یا حیدر زمان صاحب ہوتے، جس دن سے وہ آئی تھی اب تک ان سے گھبراتی تھی۔
وہ آنکھیں بند کیے کرسی سے ٹیک لگاے بیٹھے تھے ۔ وہ آہستہ سے ان کے سامنے والی کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔
کسی کے ہونے کے احساس سے انہوں نے آنکھیں کھولی تھیں۔ سامنے اسے بیٹھا دیکھ کر وہ مسکرا کر سیدھے ہو بیٹھے۔
“کیسی ہے ہماری بیٹی؟” اس کے سر پر پیار دے کر انہوں نے پوچھا۔ وہ سر جھکائے بیٹھی تھی بس ہاں میں گردن ہلا دی ۔
“میں نے سوچا آج اپنی بیٹی سے بھی باتیں کر لیں بھئی جب سے آئی ہیں ہم تو حال بھی نہیں پوچھ پائے” جواب میں وہ پھر سے ہلکا سا مسکرا دی تھی۔
“بیٹا مجھے آپ ابا، بابا، پاپا، ابو ۔۔۔ جو بھی کہنا چاہیں کہہ سکتی ہیں۔ انکل چاچو تایا میں اپنے لیے آپ کے منہ سے سنوں گا تو برا لگے گا۔ آخر کو اتنے عرصے بعد اپنی بیٹی ملی ہے” وہ ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے۔ وہ جو ڈر خوف اور رعب میں بیٹھی تھی ،اب ریلیکس تھی۔
“آپ کی امی سے کہا تھا کافی دے جائیں ۔ دیکھ لیں ہمیں تو بھلا ہی دیتی ہیں وہ۔ حالانکہ گھر میں ہم زیادہ ہوتے ہی کب ہیں ”
“میں بنا لاتی ہوں” وہ اٹھنے لگی تو انہوں نے اسے روک دیا۔
“ارے یوں ہی کہا تھا۔ آرہی ہوں گی۔ آپ بتائیں بھائیوں نے موبائل دلایا؟” شال کندھوں پر درست کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا تو ایک بار پھر سے وہ مسکرا دی۔
“بیٹا میں نے آپ کو بلایا اس لیے تھا کہ آپ کچھ بولیں تو میں بھی سن لوں آپ کی آواز۔ زہرہ بی تو بہت تعریفیں کرتی ہیں۔ سوچا میں بھی سن لوں میری بیٹی کتنی سیانی ہے”
“زہرہ بی کا بڑا پن ہے یہ تو” وہ مسکرا دی۔
“بے شک ہے مگر بیٹا جی ہماری زہرہ بی کسی کی یوں ہی تعریف نہیں کر دیا کرتی ہیں۔ ہماری تو کبھی نہیں کی آج تک” و ہ ہنتے ہوئے گویا تھے۔
“نہیں تو۔ ایک دن آپ سب کی بہت تعریف کر ہی تھیں۔ بتا رہی تھیں کہ کس بچے سے مجھے کتنا پیار ہے”
اور انہوں نے آپا کا بتایا ہو گا کہ بڑی بیٹی ہے نا وہ اس لیے اس سے زیادہ پیار کرتی ہوں” انہوں نے ہوبہو زہرہ بی کی لائن دہرائی تو وہ حیرانی سے انہیں دیکھنے لگی تھی۔
“ارے بھئی ہماری اماں ہیں ہم اچھے سے جانتے ہیں کب کیا بولتی ہیں اور کچھ فقرے تو ان کے پسندیدہ اور تکیہ کلام ہیں۔ جیسے ابھی یہی والا فقرہ” قہقہہ لگا کر بتاتے ہوئے وہ اسے بہت ہی اچھے لگے۔
ابا کو اس نے نہیں دیکھا تھا مگر اتنا شفیق انسان بھی اس نے نہیں دیکھا تھا۔ آج دوپہر میں بھی وہ اکرم چاچا کی طرف ان سے ملنے ہی کی غرض سے گئی تھی مگر وہاں نہ تو وہ مل پائے تھے اور نہ ہی فجر اور نمل نے زیادہ دیر وہاں ٹھہرنے دیا تھا۔
وہ سوچوں میں گم تھی جبکہ شیر زمان صاحب جانے کیا کیا قصے سنانے میں مصروف تھے۔ وہ بس مسکرا رہی تھی ۔ دماغ کچھ سوچ رہا تھا اور دل کچھ بُن رہا تھا۔
“آپ کوکوئی سامع چاہیے اور بس۔۔ آپ شروع” کشور بیگم کی آواز نے اسے سوچوں سے نکالا تو وہ مڑ کر ان کی طرف دیکھنے لگی جو ٹرے میں دو مگ رکھے ان کی طرف آرہی تھیں۔
“آپ جو نہیں سنتیں ایک بھی بات۔” وہ شرارت سے مسکرا دئیے۔
“یہ کافی لیں آپ۔ ایک غنویٰ کا مگ ہے اور ایک آپ کا۔ دونوں خود ہی نہ چڑھا لیجیے گا۔ ” کشور بیگم نے بات ہی بدل دی تھی۔ وہ ہنس دئیے۔
“پھوپھو میں نہیں پیوں گی ابھی۔ آپ پی لیں”
“لو جی۔ کچھ کھا پی بھی لیا کرو تم” کشور بیگم نے پیار سے اس کے سر پر چپت لگائی۔
“میں پھر کچھ کھا ہی لیتی ہوں جا کر ” وہ اٹھ گئی تو کشور بیگم اور شیر زمان مسکرا دئیے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کے کمرے سےباہر جانے اور دروازہ بند کرنے کی دیر تھی کہ کشور بیگم کی مسکراہٹ لمحے میں غائب ہوئی۔
شیرزمان جو انہی کی طرف دیکھ رہے تھے بے چین سے ہوئے۔
“کیا ہوا ہے بیگم صاحبہ؟”
” زہرہ بی نے سجاول کی پسند پر ہاں کہہ دی ہے” وہ کرسی پر ڈھے سی گئیں۔
“تو اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟” ہاتھ میں پکڑا ہوا مگ واپس ٹرے میں رکھتے ہوئے وہ گویا ہوئے۔
“شیر زمان صاحب میں نے اپنی بیٹی کو بے مول نہیں کروانا ۔” وہ سختی سے بولیں۔
“کشور زمان صاحبہ !وہ میری بھی بیٹی ہے۔ ” انہوں نے منہ بنایا۔
“سوچ لیجیے صاحب ۔ بیٹیوں والا مان بھی دیجیے گا۔ وہ وقت دور نہین جب ہمارا حق سچ پر ہونا بھی ہمیں ہرا دے گا” کشور بیگم نے انہیں طنزیہ نظروں سے دیکھا اور اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گئیں۔
کافی وہیں پڑی سرد ہوتی رہی تھی ۔
جیسے شیر زمان کا دل اور کشور زمان کا لہجہ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات کے کھانے کے بعد جب سب اپنے کمروں میں بند ہو چکے تھے اور زہرہ بی باہر لان میں رانی کے ساتھ ہلکی پھلکی واک کر رہی تھیں تب اچانک ہی ان کے ذہن میں جانے کیا خیال کوندا تھا کہ رانی کو سب بڑوں کو بلانے بھیج دیا کہ وہ زہرہ بی کے کمرے میں جمع ہو جائیں۔ رانی کے جانے کے بعد زہرہ بی یوں ہی سوچوں میں گم، ہلکے قدم اٹھا تیں واک کرتی رہیں۔
“زہرہ بی فخر چاچو گھر پر نہیں ہیں باہر گئے ہیں۔ باقی سب آگئے ہیں ” رانی نے آکر پیغام دیا تو وہ اسی کے ساتھ قدم بڑھاتی اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سب اجر کے کمرے میں بیٹھے مووی دیکھ رہے تھے جب وقفہ لینے کو سب نے کافی پینے کا سوچا۔ غنویٰ اور منال اٹھ کر کافی بنانے چلی گئیں جبکہ باقی سب وہیں بیٹھے باتیں ہانک رہے تھے۔
“اجازت ہو تو کچھ عرض کروں؟” حبل موڈ میں تھا سو بولا۔
“بالکل نہیں ! ہمیں نہیں سننے تمہارے بے ہودہ شعر ” فجر نے نمل کی طرف داری کرنے کو کہا۔ جانتی تھی کہ نمل کو تنگ کرنا چاہتا ہے۔
“تم پہلے اپنے گانوں کا بھی سوچ لیا کرو فجر زمان! انتہائی بے ہودہ اور بھونڈی آواز ہے تمہاری” وہ تنک کر بولا تو فجر لاجواب ہوئی تھی۔
“بکواس نہ کرو تم ” فجر چلائی اور پاس پڑا کشن اٹھا کر اسے دے مارا۔
“اب لڑنے بیٹھ جانا تم لوگ ” اجر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
“میں نے آپ سے اجازت مانگی تھی اس کا بولنا بنتا تھا کیا؟” وہ غصے میں تھا۔
“اچھا تم ارشاد کرو ” سجاول نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے اسےنارمل کیا تو وہ مسکرا دیا اور گلا کھنکارا۔
“عرض کیا ہے ۔۔۔
دل سے آتی ہے صدا۔۔ ”
اس نے داد لینے کے لیے سب کی طرف دیکھا سب واہ واہ کرنے لگے مگر نمل منہ بنائے بیٹھی رہی۔
“دل سے آتی ہے صدا
کسے نال تے چکر چلا۔۔”
اس نے نمل کی طرف شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا توا س کا چہرہ ایک دم سرخ ہوا تھا۔ وہ کھڑی ہوئی اور ایک طرف پڑے ہوئے جوتوں میں سے اپنی چپل تلاش کی پہنی اور باہر نکل گئی۔
سب جو ایک دم ہنسنے لگے تھے اس کے یوں اٹھ کر جانے اور ردعمل کے طور پر دروازہ کھینچ کر کھولنے اور بند کرنے سے سب حبل کی طرف ملامتی نظروں سے دیکھنے لگے ۔
“کیا؟” اس نے یوں دیکھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
“تمہیں اچھی طرح پتہ ہے وہ کتنا چڑتی ہے پھر بھی یہ فیس بک سے اٹھائے ہوئے فضول شعر اس پر کستے ہو” اجر نے غصے سے اسے دیکھا تھا۔
“میں منا بھی لیتا ہوں اسے” اس نے ناک سے مکھی اڑائی۔
“کب؟ ” جبل نے سوالیہ انداز میں ابرو اچکے۔ وہ اس وقت نمل ہی کا بھائی تھا۔
“خوابوں میں ” جواب حبل کی بجائے سجاول نے دیا تھا۔
“اچھا جا رہا ہوں اسی کے پاس۔لیکن اب اگر اس نے نخرہ دکھایا تو میں بتا رہا ہوں میں نے زہرہ بی سے کہ کر آپ کے ساتھ اپنا نکاح رکھوانا ہے۔ پھر دیکھتا ہوں کیسے نخرے دکھاتی ہے” اس نے اٹھ کر چپل پہنتے ہوئے اجر کو گھورتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا۔
اب کمرے میں موجود افراد ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“زہرہ بی خیریت؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ میں قہوہ بنا دوں” زہرہ بی تھکی سی کمرے میں آئیں تو آمنہ بیگم نے فوراً پوچھا تھا۔
“ارے نہیں بہو۔ میں تو بس اپنے بچوں کے ساتھ مل بیٹھ کر باتیں کرنا چاہتی تھی بس” انہوں نے عصا سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بیڈ پر بیٹھ گئیں۔ قدسیہ بیگم ـــ جو پہلے ہی بیڈ پر بائیں طرف کشور بیگم کے ساتھ بیٹھی تھیں ــــ نے کمبل ان کی ٹانگوں پرٹھیک کیا۔
شیر زمان اور حیدر زمان ایک ساتھ بیڈ کے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھے تھے جب کہ آمنہ بیگم نے کرسی بیڈ کے پاس کی ہوئی تھی۔
“کوئی خاص بات ہے زہرہ بی؟” شیر زمان تھوڑا غیر آرام دہ سے بیٹھے تھے۔ ان کی بات پر وہ بولے تو زہرہ بی مسکرا دی تھیں۔
“ارے فکر نہ کرو بھئی وہ میری بھی بیٹی ہے” ماں تھیں آخر، ان کاہر انداز پہچانتی تھیں۔ وہ شرمندہ سے ہوئے اور کشور بیگم نے بھی گردن جھکائی تھی۔
“میری شہناز اور مہناز سے بات ہوئی تھی آج” انہوں نے اپنی بیٹیوں کے نام لیے جو لاہور میں مقیم تھیں۔
“شہناز کی تانیہ واپس پاکستان آ رہی ہے۔ کل پہنچ جائیگی شائد۔اس کے بچوں کی چھٹیاں ہیں۔ اور سانول کا بھی ویزہ لگنے والا ہے ایک آدھ ماہ ہی رہ گیا ہے ۔ تانیہ بھی کچھ عرصہ رہے گی ۔ ” بات کے دوران وہ سب کے چہروں کا جائزہ بھی لے رہی تھیں۔
“شہناز کہہ رہی تھی کہ اجر کا نکاح اسی ماہ میں رکھا جائے ۔ ظاہر ہے ابھی نکاح کریں گے تو سال تک اس کا ویزہ بن کر آجائیگا پھر آکے سانول اپنی بیوی کو خود لے جائیگا” وہاں بیٹھے ایک بھی فرد کو اجر سے متعلق بات میں دلچسپی نہیں تھی حتیٰ کہ قدسیہ بیگم کو بھی نہیں کیوں یہ سب طے شدہ باتیں تھیں۔
“میں صبح سے فخر زمان کی بات پر غور کر رہی تھی کہ کیوں نا سجاول پتر کا بھی نکاح ساتھ میں کر دیا جائے۔ تو یوں کرتے ہیں ہم کہ سجاولے کی شادی کر دیتے ہیں اور اسی کے نکاح کےدن ہم اجر کا بھی نکاح رکھ دیتے ہیں” وہ پیار سے سجاول کو ‘سجاولا،سجاولے’ کہتی تھیں۔اب بھی لہجہ بہت ملائمت لیے ہوئے تھا۔
سب نے بات سے اپنے مطابق مطلب اخذ کیے ۔ کوئی مسکرا دیا تو کسی کی گردن مزید جھک گئی۔
کوئی بے چین ہوا تو کوئی سوچوں میں گم۔
“ہم وہیں لاہور میں دونوں فنکشن رکھیں گے۔ سجاول کی شادی بھی ۔اور اجر کا نکاح بھی” زہرہ بی اپنے فیصلے سے مطمئن لگتی تھیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس کے پیچھے گیا مگر تب تک وہ جانے کس طرف غائب ہو چکی تھی۔ اس کے کمرے اور لان میں ہر جگہ ڈھونڈ کر وہ کچن میں کافی بناتی غنویٰ اور اسے باتوں میں لگائے بیٹھی منال کے پاس چلا آیا۔
“کیا کر رہی ہو لیڈیز؟” کرسی کھینچ کر وہ بیٹھا تو منال اسے گھورنے لگی۔
“اب کچن بدر بھی کرنا ہے مجھے کیا؟” وہ اس کے گھورنے پر بولا۔
“آپ میری بہن کو تنگ کرنے سے باز آجائیں ورنہ میں جوتا چھپائی کے وقت معاف نہیں کروں گی” وہ ہنوز اسے گھور رہی تھی۔
“چلو جی۔ وہ یہاں بھی قصہ سنا گئی ہے۔ بڑی ہلکی ہے بھئی پیٹ کی ” منال کے سامنے پڑے ہوئے سنیکس سے کچھ اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے وہ بولا۔
“حبل اٹھ کر اس کے پیچھے جاؤ۔ ہر بار اس کے ساتھ یوں ہی کرو گے تو متنفر ہو گی وہ” غنویٰ ، جو خاموشی سے کھڑی تھی آگے بڑھی اور اس کے سامنے سے سنیکس کا باؤل اٹھایا۔ وہ منہ دیکھتا رہ گیا۔ نہ بھائی نہ بھیا سیدھا حبل۔ اور اگلا فقرہ۔۔۔
“یہ غنویٰ ہی ہے نا؟” حیرانی سی حیرانی تھی اس کے سوال میں۔ غنویٰ اور منال نے اپنی مسکراہٹ روکی۔
“جی میں غنویٰ ہی ہون۔ اور اس وقت میں نمل کی سائڈ پر ہوں۔ جا کر مناؤ اسے” غنویٰ نے اس کا بازو کھینچنے کی بجائے اس کی پہنی ہوئی جرسی کو کھینچا تھا۔ حبل بھی اٹھ کھڑاہوا۔
“اچھا کچھ میٹھا بنا لینا صبح۔ مجھے اور جبل کو ای میل آگئی ہوئی ہے ۔صبح سب کو سرپرائز دیں گے ” اس نے مسکراتے ہوئے کہا، غنویٰ کے سر پر چپت لگائی اور منال کی پونی کھینچ کر آگے بڑھ گیا۔
منال پہلے تو اس کی بات پر غور کرتی رہی پھر چیخ کر چھلانگ لگائی تھی۔ غنویٰ جو بہت سکون سے کھڑی دودھ ابلنے کا انتظار کر رہی تھی اچھل ہی پڑی۔
“کیا ہو گیا ہے ” وہ دہلی ہوئی تھی۔
“بھائی کی جاب فکس ہو گئی ہے یاہو!” وہ بہت خوش دکھائی دیتی تھی۔
“جبل کی یا حبل کی؟”
“ارےدونوں کی ہی۔ ” وہ خوشی سے غنویٰ کے ساتھ لپٹ گئی۔
“ابھی اندرجا کر چپ رہنا۔ اس نے کہا سرپرائز دیں گے۔ سمجھ گئی نا” غنویٰ کو اس کی عادت کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک کی بات دوسرے تک سیکنڈوں میں پہنچاتی تھی۔
“اب اتنی بھی چغلیاں نہیں لگاتی میں” اس نے منہ بنایا۔
“میں نے چغلیوں کا نہیں کہا بہن۔ ان کا سرپرائز نہ خراب ہو اس لئے کہا ہے” اس نے ٹرے میں مگ رکھے اور ہر مگ میں پھینٹی ہوئی کافی ڈال کر گرم دودھ ڈالا، مکس کیا اور جھاگ سی بننے پر اس نے ایک دراز میں سے ایک پیک شدہ چاکلیٹ کا ریپر نکالا، چھری سے بہت ہی باریک باریک پاؤڈر کی طرح بنایا اور کافی کی جھاگ پر ڈال دیا۔
اب کافی کی خوشبو کے ساتھ چاکلیٹ کی خوشبو بھی آرہی تھی۔
وہ ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئیں تو صرف ایک فرد تھا جس نے منال کے پیچھے غنویٰ کو تلاش کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس وقت اپنے بیڈ کی پشت کے پیچھے چھپی بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی۔بھورے بال پونی سے باہر تھے اور چہرہ آنسوؤں سے بھیگنے کی وجہ سے ماتھے اور گالوں پر چپکے ہوئےتھے۔
“اب بس بھی کرو یار میں نے اتنا بھی کیا فضول شعر بول دیاتھا”
روتی ہوئی نمل نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں۔ وہ بھوت کی طرح جانے کب وہاں آکر بیٹھا تھا۔
اس کے اس طرھ دیکھنے پر وہ بےبسی سے کندھے اچک کر رہ گیا۔
“سوری”گرے ٹی شرٹ پر لیدر کی بھوری جیکٹ اور جینز کی نیلی پینٹ پہنے وہ کان پکڑے ، آلتی پالتی مارے اس کے سامنے بیٹھا تھا۔
دل میں آیا ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے ۔
“تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے؟”دل کو بھاڑ میں بھیج کر اس نے ماتھے پر تیوری ڈالتے ہوئے پوچھا۔
“لو بھئی۔ ایک تو تمہاری ایک ہی سیکرٹ جگہ ہے جہاں ہر لڑائی جھگڑے کے بعد تم آ کر چھپتی ہو۔ و ہ بھی گھر میں ایک ہی شخص کو پتہ ہے۔ اور وہ شخص بھی میں خود ہوں۔ اب مجھے اور کون بھیج سکتا ہےمیرے نواسوں کی نانی اماں؟” حبل کا چہرہ تو سنجیدہ تھا مگر آنکھیں ابھی بھی شرارت سے مسکرا رہی تھیں۔
“تم دفعہ ہو اسی کے پاس جس کے ساتھ چکر چلانا ہے” اس نےرخ موڑ لیا۔
“اسی کے پاس ہوں میں سمجھیں تم۔اور پہلے میری بات سن لو بعد میں صلح صفائی والا کام بھی کر لیتے ہیں۔ ” حبل نے اس کا رُخ اپنی طرف موڑا۔
نمل کا منہ ابھی بھی بنا ہوا تھا۔
“مجھے ای میل آگئی ہے۔ انشااللہ اگلے ماہ کی پانچ کو جوائن کرنا ہے ” وہ بہت خوش تھا۔ نمل جو اسے دیکھ بھی نہیں رہی تھی ایک دم پریشان سی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔
“میرا خیال ہے ایسے موقع ہر تمہیں شرمانا چاہیے تھا۔ نہیں؟”
وہ فوراً گڑبڑا گئی۔
“یعنی اب تو شادی قریب آتی نظر آرہی۔ اب تو شرمانا چاہیے نا تمہیں مجھ سے” اسے خود میں سمٹتا دیکھ کر وہ بولا۔
“صبح دیکھنا تم۔زہرہ بی کو ہم دونوں سرپرائز دیں گے۔ پھر آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا” حبل کی آواز تک مسکرا رہی تھی۔
“دونوں؟” وہ الجھی۔
“جبل کو بھی آگئی ہے ای میل” وہ مسکرایا۔
“کیا جادو کیا تھا ان لوگوں پر تم دونوں نے؟” وہ مشکوک ہوئی۔
“جادو نہیں میڈم قابلیت۔ ٹیلنٹ کہتے ہیں اسےانگریزی میں” وہ اترایاتھا۔
” ما ر لی شوخی؟ اب نکلو یہاں سے” نمل نے اسکے سینے پر دباؤ ڈالتے ہوئے اسے دھکا دیا۔
“ارے ابھی تو صلح کرنی ہے ہم نے” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر شرارت سے مسکرایا۔
“تم نا میرے سامنے بنا مت کرو۔ سب جانتی ہوں میں کتنی لڑکیاں پٹا تے ہو” اس نے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔
“اوہ ہیلو میڈم نمل زمان ! ایک ہی لڑکی اتنی کوششوں کے بعد ملی تھی اسے بھی جس دن اتنی شاپنگ کروائی اسی دن تمہارے بھائی نے بھگا دیا۔ میری زندگی تو ویران کی پڑی ہے یار ۔ نہ تم کبھی سیدھے منہ بات کرتی ہو نا وہ تمہارا چھچھورا بھا ئی کسی کو سیٹ ہونے دیتا ہے ۔ خود تو عبادت کو شودھوں کی طرح دیکھتا ہے جیسے ہم تو جانتے ہیں نہیں کہ بچہ جوان ہو گیا ہے”
“شرم کرو” اس کی اتنی لمبی تقریر کے جواب میں نمل نے بس اتنا کہا تھا۔
“ہائے شرم کا تو پوچھو ہی مت۔ بہت آتی ہے خود کو ‘غیرشادی شدہ ‘دیکھ کر” اس نے غیر شادی شدہ پر خصصی زور دیا تھا۔ نمل نے بمشکل اپنی مسکراہٹ روکی تھی مگر حبل دیکھ چکا تھا۔
“اسی بات پر ایک اور بات کہوں؟”
“بالکل نہیں ۔ ” نمل بوکھلائی۔
“کہنے دو تو۔ تمہیں کونسا ٹیکس آجانا ہے” وہ مُصر ہوا۔
“کشور چچی!” نمل نے ایک دم اٹھتے ہوئے کہا تو وہ بھی بوکھلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
اس کے اس طرح کھڑے ہونے اور جیکٹ میں ہاتھ پھنسانے سے نمل قہقہہ لگا کر ہنس دی تھی۔
“ہائے میری پھوٹی قسمت۔ میں تو تمہاری ہنسی کو تھال میں گرتے ہوئے سکوں کی آواز سے بھی مشابہت نہیں دے سکتا جتنا گلا پھاڑ کر تم ہنستی ہو” حبل نے بدلہ لینے کوکہاتو نمل نے ادھر ادھر کوئی چیز اٹھا کر مارنے کو نظریں دوڑائیں۔
اس نے ایک دم سے دروازے کی طرف دوڑ لگائی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...