وہ بنا کچھ خریدے مارکٹ سے یونی پہنچیں ۔۔۔
پورے راستے انکے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی سوائے خاموشی ہی خاموشی ۔۔۔
امل تو خوف زدہ تھی مگر تابین کو کوئی فرق نہ پڑا یہ صرف اسی کا کہنا تھا مگر دل میں کہیں نہ کہیں اسے بھی کسی گہرے خوف نے اپنی مٹھی میں لے لیا ۔۔۔
وہ دونوں گم سم یونی میں داخل ہوئیں جبھی ظفر نے بھوکے شیر کی طرح انکا راستہ کاٹا ۔۔
ظفر کے ساتھ باقی دو ٹوک لڑکوں کو دیکھ کر اسکے پسینے چھوٹ گئے ۔۔
دیکھو مجھ سے منہ مارنے کی ضرورت نہیں ایک تو پہلے سے دماغ گھوما ہے دوسرا تم نہ گھماؤ ۔۔۔تابی اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے بامشکل ہی بول پائی ۔۔
ایسے کیسے ۔۔۔ابھی تو تم سے حساب لینا باقی ہے ۔۔۔وہ ڈیٹھائی کے ساتھ دو قدم آگے آتے ہوئے بولا ۔۔۔
وہ سمجھ نہ پائی ۔۔۔۔امل نے تابی کے پیچھے چھپتے ہوئے آنکھیں میچی ۔۔۔
۔*********************۔
یار تم اتنے بڑے گھر سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک سائیکل پر آتے ہو ۔۔ناک کٹا دی میری سچ میں ۔۔۔حدید نے حزیفہ سے کہا جو منہ پر ہاتھ رکھے اسے سننے میں مصروف تھا ۔۔
پتا ہے تابی مجھے چڑاتی ہے یہ کہہ کر کے ویسے تو میں بڑی بونگیاں ما رتا ہوں مگر میرے دوست کے پاس ایک اچھی سی گاڑی بھی نہیں ۔۔۔
ہم جو ہیں وہیں اچھے ہیں ۔۔دکھاوا ہمیں پسند نہیں ۔۔۔حزیفہ نے ٹانگ پر ٹانگ جماتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
آہ ہاں ۔۔فلاسفی ۔۔۔کیا بات ہے جگرے ۔۔حدید داد دیئے بنا نہ رہ سکا ۔۔
بڑے اچھے ہو یار تم تو ۔۔۔۔یہاں مزے سے بیٹھے ہو اور وہاں تابین بیچاری پٹ رہی ہے ۔۔۔پاس سے گزرتے ہوئے کامران نے حدید سے کہا ۔۔۔
نا ممکن ۔۔۔۔بیچاری تو وہ ہے نہیں ۔۔اور مار کھائے ایسا ہو سکتا نہیں ۔۔۔
اوہ ۔۔۔فراز کے بھائی جا کر خود دیکھ ۔۔۔یقین نہیں آتا تو ۔۔۔
حزیفہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔۔جاؤ یار جاکر دیکھو ۔۔۔اسنے حدید کو حکم دیا ۔۔
جارہا ہوں یار ۔۔وہ انگڑائی لیتے ہوئے بولا ۔۔
سستی کی بھی حد ہوتی ہے ویسے ۔۔۔حزیفہ نے اسے شرمندہ کرنا چاہا ۔۔۔
ہاں سستی تو بہت اچھی چیز ہوتی ہے خاص کر میرے جیسے بندوں کے لئے ۔۔جو پانی کا گلاس بھی خود بھر کر نہیں پی سکتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں دوسروں پر روعب جمانا امپریشن جمانے کے برابر ہوتا ہے ۔۔۔اس لئے کبھی کسی کو سستی کا تعنہ نہ دینا بس دیکھتے ہی سمجھ جانا ۔۔اور ۔۔۔۔حدید کی بک بک سے اسنے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ۔۔یہ بہانے نہ جانے کے تھے اس لئے وہ اسے بولتا ہوا چھوڑ کر خود تابی کی مدد کرنے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
وہ اسے اگنور کرتی ہوئی آگے بڑھی جبھی ظفر نے اسے کلائی سے تھام لیا ۔۔۔
بد تمیز انسان چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔وہ چیخی ۔۔
ظفر ڈیٹھائی سے ہنستا ہوا اس پر جھکا ہی تھا کے ایک جھٹکے سے حزیفہ کے مکے نے اسے دور جا پھینکا ۔۔۔
کمینے انسان تیری ہمت کیسے ہوئی تابین کو ہاتھ لگانے کی ۔۔میں تیرے ہاتھ توڑ دونگا ۔۔۔غصے کی وجہ سے حزیفہ کی آنکھیں لال ہو گئیں وہ ظفر کو دبوچے ہوئے زاروقطار اس پر مکے برسا رہا تھا ۔۔۔
آس پاس سب حیران ہوتے ہوئے دور ہو گئے ۔۔۔اور ظفر کے منہ سے خون بہنے لگا ۔۔۔
ہٹ جاؤ ۔۔۔چھوڑو اسے حزیفہ ۔۔۔حدید نےاسے بازوؤں سے پکڑ کر چھڑانا چاہا ۔۔
حزیفہ کیا ہو گیا ہے ۔۔۔پاگل تو نہیں ہو گئے ۔۔حدید اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے چلایا ۔۔۔
چھوڑو میں جان لے لوں گا اس کمینے کی ۔۔۔وہ غصے میں حدید سے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے بولا ۔۔۔
کیا ہو رہا ہے یہاں ۔۔۔۔؟ اچانک پروفیسر سلیم ہاتھ میں فائل لئے نمودار ہوئے ۔۔
سر ۔۔یہ شخص پاگل ہے دیکھیں اس نے بلاوجہ کیا حال کیا ہے میرا ۔۔۔ظفر نے کمال کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔۔
جھوٹ بول رہا ہے یہ ۔۔۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ظفر کو مار ڈالے ۔۔
دیکھا سر آپ نے کس طرح یہ اب بھی مجھے مارنے پر تلا ہوا ہے ۔۔۔وہ میسنے انداز میں بولا ۔۔
جو حزیفہ کو تپانے کے لئے کافی تھا ۔۔
آپ دونوں آفس میں تشریف لائیں ۔۔۔اب وہاں بات ہوگی ۔۔۔وہ آس پاس کا جائزا لیتے ہوئے کڑک انداز میں کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔۔
ظفر ڈیٹھائی سے ہنستا ہوا چلا گیا ۔۔۔مگر تابی کے غصے کی انتہا نہ رہی ۔۔
ہیرو بننے کا شوق ہے ۔۔کس نے کہا تھا مار دھاڑ کرنے کو ۔۔میں نے تم سے مدد کی اپیل نہیں کی تھی جو تم منہ اٹھا کر ظفر کو مارنے پہنچ گئے ۔۔۔وہ غصے میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب کی منتظر تھی ۔۔۔
میں تمہیں جواب دہ نہیں ہوں ۔۔۔وہ بھی اسکو اسی انداز میں جواب دیتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔
۔******************۔
یونی میں قدم رکھتے ہی اسے عجیب قسم کا احساس ہوا ۔۔۔
اس نے آس پاس نظر دوڑا کر کسی کو ڈھونڈنا چاہا ۔۔۔کسی کو نا پاکر وہ خاموشی سے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ دیا ۔۔۔
۔*****************۔
آپ لوگوں کی بڑھتی لڑائی کو دیکھتے ہوئے ہم آپ لوگوں کو ریسٹیگیٹ کر سکتے ہیں ۔۔آپ کو ایک دوسرے سے معافی مانگنی ہوگی جبھی آپ کو ایگزیم حال میں بٹھایا جاسکتا ہے ۔۔پروفیسر نے کڑک لہجے میں کہتے ہوئے انکی جانب دیکھا ۔۔
میری غلطی نہیں لہٰذا میں معافی بھی نہیں مانگوں گا ۔۔۔حزیفہ نے جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔
میں اسکا منہ توڑ دونگی بڑا آیا تیس مار خان ۔۔اسکو بولو کہ معافی مانگے ورنہ اسکے نتیجے میں ہم بھی مارے جائیں گے ۔۔۔تابی نے غراتے ہوئے حدید سے کہا ۔۔جو حزیفہ نے با آسانی سن لیا تھا۔۔
جیسی آپ کی مرضی ۔۔۔جونہی پروفیسر نے یہ کہتے ہوئے اپنے سامنے پڑے کاغذوں پر قلم گھمائی تھی جبھی تابی نے چیخ کرتے ہوئے انھیں روک دیا ۔۔
سر ۔۔آپ بات سنیں ۔۔اس میں ہماری غلطی نہیں ۔۔ساری غلطی اسکی ہے تو آپ اسکو ہی سزا دیں نہ ہم ہی کیوں ۔۔اس نے حزیفہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
اس بے بنیاد لڑائی کی وجہ ہی آپ تھیں ,۔۔حزیفہ نے ہاتھ باندھتے ہوئے رسانیت سے کہا ۔۔
تابی دانت چبا کر رہ گئی ۔۔
پانچ منٹ ہیں آپ لوگوں کے پاس ۔۔فیصلہ کر لیں معافی مانگنی ہے یا نہیں ۔۔۔
میں نے فیصلہ کر لیا ۔۔میں معافی نہیں مانگوں گا ۔۔تابی کچھ بولتی اس سے پہلے حزیفہ رعب دار لہجے میں کہتا ہوا چلا گیا ۔۔۔
ارے پر ۔۔۔وہ حزیفہ کے پیچھے لپکی ۔۔
سنو ۔۔۔وہ اسے پیچھے سے پکارتی رہی ۔۔مگر وہ ہنسی دباتے ہوئے انجان بن کر یونہی چلتا رہا ۔۔۔
اچانک اس نے اپنے بازو پر کسی کا لمس محسوس کیا ۔۔اسکے قدم تھم گئے ۔۔۔تابی کے ہاتھ میں اپنا بازو دیکھ کر وہ حیران ہو گیا ۔۔
کیا مسلہ ہے ۔۔تمہارے معافی نہ مانگنے سے ہمارا مستقبل خراب ہو جائے گا ۔۔۔لہٰذا تمہیں معافی مانگنی ہوگی ۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی ۔۔
میں معافی نہیں مانگوں گا ۔۔۔حزیفہ نے بھی اسی کے انداز میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
کیوں نہیں مانگو گے ۔۔تمہاری انا کچل جائے گی اس لئے ۔۔۔؟وہ اس پر چیخی ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔میں معافی مانگنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔کچھ لمحے سوچنے کے بعد وہ بولا ۔۔۔
تابی کی جان میں جان آئی ۔۔۔
لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔جونہی حزیفہ نے بولنا شروع کیا ۔۔تابی کے چہرے کی خوشی پھیکی پڑ گئی ۔۔
کیسی شرط ۔۔۔۔؟
حزیفہ نے خالی پیج اور ایک پین اسکے آگے کرتے ہوئے کہا ۔۔اس پر سائن کرنا ہوگا تم نے ۔۔۔
سائن ۔۔۔۔۔؟وہ چونکتے ہوئے بولی ۔۔۔اچانک تابی کی بھنویں تن گئیں ۔۔
میں پاگل نظر آتی ہوں تمہیں ۔۔؟تم کیا سمجھتے ہو اس خالی کاغذ پر میرے دستخط کروا کر تم مجھے بلیک میل کرو گے ۔۔۔وہ کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
ٹھیک ہے مرضی ہے تمہاری ۔۔۔ویسے تم نے اچھی تدبیر دی ہے ۔۔لیکن میرے کسی کام کی نہیں ۔۔۔وہ مسکراہٹ چھپائے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
سنو ۔۔۔اچھا کیوں چاہئے میرے دستخط ۔۔۔؟ وہ پھر اسکے پیچھے لپکی ۔۔۔
راشن کارڈ بنوانا ہے تمہارا ۔۔۔وہ طنزیہ بولا ۔۔اگر بتانا ہوتا تو کرواتا ہی کیوں ۔۔۔؟
وہ سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ لمحے سوچنے لگی ۔۔
اچھا ۔۔۔لاؤ ۔۔۔لیکن اگر تم نے اسے فضول کاموں میں استمعال کیا ۔۔تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔وہ دستخط کرتے ہوئے پیپر اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی ۔۔
آہ ۔۔۔۔۔یہ تو وقت ہی بتاۓ گا ۔۔۔وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
۔***************۔
اتنی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔اپنا گھر ہے روز کہ آنا جانا تو لگا ہی رہے گا ۔۔۔
ارے نہیں خالہ ۔۔۔اب تو ہمارا رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا ہے ۔۔اب تو آپکا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھیں گے ۔۔مناہل نوشین کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے بولی ۔۔۔
مناہل بیٹا ۔۔خالو کی چائے آگے کرو ۔۔
جی ابا ۔۔۔
ویسے باسط ہے کہاں ۔۔۔پوچھو ذرا کب تک آئے گا ۔۔۔؟اماں نے کہا ۔۔۔
اماں بھائی آتے ہی ہوں گے ۔۔۔جب تک ہم چھت پر ٹہل کر آتے ہیں ۔۔چلو نوشین ۔۔۔وہ نوشین کو لے کر آگے بڑھ دی ۔۔۔
فرحان صاحب کے دو بچے تھے ۔۔باسط اور مناہل ۔۔
انکا اپنا کاروبار ہونے کی وجہ سے وہ بہت اچھی زندگی بسر کر رہے تھے ۔۔اچھی روٹی ۔۔کپڑا ۔۔اور خوبصورت سا اپنا گھر ۔۔۔
انکے اچھے گھرانے کو دیکھتے ہوئے قادر بخش ( خالو ) نے اپنی اکلوتی بیٹی کی مںگنی باسط کے ساتھ کردی ۔۔رشتہ تو بچپن سے طے تھا ۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے ۔۔
ایسے سجے ہوئے خوبصورت گھر اجھے بہت پسند ہیں ۔۔۔نوشین چھت پر گملوں میں رکھے پھولوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔۔
ہاں اب یہ گھر تمہارا ہی ہوا ۔۔۔مستقبل میں تم نے ہی انکا خیال رکھنا ہے ۔۔۔مناہل کے کہنے پر وہ جھینپی ۔۔۔
ویسے باسط کو تو پھول پسند نہیں ۔۔۔پھر اتنے سارے پھول ۔۔۔۔؟ نوشین نے کہا ۔۔
یہ سب میری فرمائش پر لگے ہیں ۔۔۔اور عنقریب بھائی کو بھی پھول پسند آنے والے ہیں ۔۔مناہل کی نظر دروازے پر کھڑے باسط پر جا اٹکی ۔۔
لیکن مجھے تو پھول بہت پسند ہے خاص کر گلاب کے ۔۔۔انکی خوشبو سے دل مہک سا جاتا ہے ۔۔۔وہ خوشبو کو اپنے نتھنوں میں اتارتے ہوئے بولی ۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔پر بھائی کو تو پھول پسند نہیں ۔۔پھر تم اپنی پسند بدلوگی یا بھائی کی پسند کا پاس رکھو گی ۔۔؟
میں خود کو نہیں بدلوں گی ۔۔البتہ ہاں ۔۔تمہارے بھائی کو ۔۔۔۔۔باسط کو دیکھتے ہی اسکی چلتی زبان کو بریک لگے ۔۔۔
اسکی کیفیت دیکھتے ہوئے مناہل ہنسی دباتی ہوئی وہاں سے چلی گئی ۔۔
منننا ہ ہل ۔۔۔باسط کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر وہ مناہل کو روک بھی نہ پائی ۔۔
۔***************۔
کیا ہے ۔۔۔حزی ۔۔۔تم اتنے بزی ہو گئے ہو کہ اپنے گھر والوں کو بھی بھول گئے ۔۔۔زرش نے صوفے پر آلتی پالتی مارتے ہوئے اس سے شکوہ کیا ۔۔
شرم کرو زری ۔۔۔پورے دس منٹ بڑا ہوں تم سے ۔۔۔اور تم ہو کہ کس لقب سے پکار رہی ہو مجھے ۔۔۔
دس منٹ ہی بڑ ے ہو دس سال تھوڑئی ۔۔۔۔وہ منہ بناتے ہوئے بولی ۔۔
اچھا بتاؤ نہ ۔۔ہمیں کب بلا رہے ہو وہاں ۔۔۔میں تو بہت اکسائیٹڈ ہوں ۔۔۔۔
جہاں بیٹھی ہو نہ وہیں بیٹھی رہو تو اچھی لگو گی ۔۔۔حزیفہ نے ڈانٹ دیا ۔۔
میں شکایت لگا دونگی تمہاری دیکھ لینا ۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس نے ٹھک سے کال بند کر دی ۔۔۔
شکر الحمدوللّه ۔۔کہتا ہوا وہ بستر میں چھپ گیا ۔۔۔
۔**************۔
وہ آس پاس کتابیں پھیلائے ۔۔پیپر کی تیاری کرنے میں مصروف تھی ۔۔مسلسل پڑھائی کرنے سے اسکا دل اکتا گیا تھا جبھی خود کو فیریش محسوس کرنے کے لئے اسنے موبائل استمعال کرنا چاہا ۔۔جہاں انسٹا گرام پر حدید نے پوسٹ کر کے سبھی کو ہنسا ڈالا تھا ۔۔
حال وی کوئی نئی
نال وی کوئی نئی
تشریح
ھذا من سنگل شدید شدید ۔۔
یہ دکھ کسی شادی شدہ سے پوچھو ۔۔۔کسی نے کمینٹ میں کہا ۔۔
ہاں بھائی سلام ہے ان لوگوں کو جو شادی شدہ ہو کر بھی کنوارے ہیں ۔۔مطلب بیوی سے دور ۔۔۔پردیسی ڈھولے ۔۔جسکے جواب میں حدید نے کہا ۔۔
ارے بھائی ۔۔۔جو پاس ہے انہوں نے کونسے تیر مار لئے ۔۔۔یہ کسی دوسرے کہ کمینٹ تھا ۔۔۔
جیسی تمہاری حرکتیں ہیں تم تاحیات یونہی رہو گے ۔۔تابی نے اسکو کمینٹ دیتے ہوئے فون بند کر کے سائیڈ پر رکھ لیا ۔۔۔اس سے بہتر ہے کہ میں پڑھائی ہی کروں ۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے دوبارہ کتاب کھول لی ۔۔
۔****************۔
سارا دن سوئے رہنے کے بعد ۔۔شام کو اسکی آنکھ کھلی ۔۔جبھی اسکو یاد آیا کہ پیپر کی تیاری کرنی ہے ۔۔جبھی اسنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بال سمیٹننا چاہے جبھی ہاتھ وہیں ساکن ہو گئے ۔۔
پتا نہیں وہ۔ کونسی لڑکیاں جو نیند سے اٹھ کر دونوں ہاتھوں سے بال سمیٹ کر کیچر میں قید کرتی ہیں میں تو اٹھ کر بالوں میں ہاتھ ڈالوں تو پانچ منٹ تک میرے ہاتھ بالوں میں پھنسے رہتے ہیں ۔۔۔وہ بڑبڑائی ۔۔۔یہ ہاتھ نکل کیوں نہیں رہے ۔۔۔امی ۔۔وہ روہانسی ہوتے ہوئے باھر کی جانب لپکی ۔۔۔
۔*****************۔
تابی اٹھ جاؤ ۔۔۔اور کتنا سوؤگی ۔۔۔اماں نے اسے جھنجھلاتے ہوئے کہا ۔۔
اٹھ جاؤ تابین ۔۔۔ورنہ ابھی چپیڑ آئے گی ۔۔مسلسل اسے اٹھانے کی وجہ سے اماں زچ ہونے لگیں ۔۔
کیا ہے اماں ۔۔۔دنیا جہاں کی امائیں ہیں وہ تو کبھی اپنے بچوں کو اس طرح سے نہیں اٹھاتیں جس طرح آپ اٹھاتی ہیں ۔۔۔۔وہ چڑتے ہوئے بولی ۔۔
دنیا جہاں کی بیٹیاں بھی تمہاری طرح آدھے دن چڑهے نہیں سوتیں ۔۔۔سارا دن کام کرتی ہیں گھر کو دیکھتی ہیں ۔۔کشیده کرتی ہیں ۔۔سارا باورچی خانہ سمبھالتی ہیں ۔۔ان سب کاموں کہ نام سنتے ہوئے میری بیٹی کو تو بخار چڑھ جاتا ہے ۔۔۔
اچھا تو لے آئیں نہ ان لڑکیوں کو بیٹی بنا کر ۔۔۔پتا نہیں ابا کو آپ میں کی نظر آیا ۔۔۔جو شادی کر کے لے آئے ۔۔۔وہ بھی منہ پھٹ کہاں پیچھے رہتی ۔۔
نہ تو جاؤ ۔۔۔جا کر کہو اپنے ابا سے نہیں دلہن بیہا لائیں ۔۔دیکھتی ہوں کس طرح وہ اس گھر کو سمبھالتی ہے جس طرح میں نے سمبھالا ۔۔۔اماں بھی غصے میں آگئیں ۔۔۔
ہائے ۔۔مجھے تو بڑا شوق ہے ابا کی شادی دیکھنے کا ۔۔۔میں تو خوب ڈانس کروں گی ۔۔وہ جھومتے ہوئے بولی ۔۔
آہ ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔بلی کو خواب میں چھچھڑے ۔۔۔۔حدید نے دروازے سے جھانکتے ہوئے لقمہ دیا ۔۔۔
۔**************۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...