فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا
ہوا میں دھول تھی میں نے ہوا سے کچھ نہ کہا
وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بیت گیا
اسے گزار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا
یہ شعر دادا کے ہیں اور مجھے ان میں دادا کی پوری زندگی نظر آتی ہے۔ دادا نے زندگی جو ہمیں اب ان کے بعد زیادہ واضح اور طاقتور انداز سے نظر آتی ہے۔ دادا کسی سے کچھ نہیں کہتے تھے بس سنتے تھے۔ وہ ہم سب کی باتیں سنتے تھے۔ ہمیشہ خاموش اور مطمئن، مگر ان کا یہ اطمینان ان کی شاعری میں کہیں کہیں بکھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
خرام عمر ترا کام پائمالی ہے
مگر یہ دیکھ ترے زیرِ پا تو میں بھی ہوں
شاید اس لئے کہ ہم لوگ ہمیشہ جانے والوں کو ان کے گزرنے کے بعد محسوس یا یاد کرتے ہیں اور دادا تو بہت خاموشی سے اپنے راستے پر چلتے رہے۔ انہوں نے نہ اپنی آمد کا شور مچایا نہ اپنے جانے کی اطلاع دی۔ بس چپ چاپ سب کے سامنے سے گزرے اور یہاں تک کہ نظر آنا بند ہو گئے۔ مگر کچھ بات اس کے سوا بھی ہے، یہ سب کچھ بالکل ایسے نہیں ہوا۔ دادا کی خاموشی ان کی موجودگی میں بھی ہم سے باتیں کرتی تھی۔ اور اب ان کے بعد تو ہمارا حصہ بن گئی ہے۔ یہ حصہ ان لوگوں کا بھی ہے جن کے درمیان دادا نے بہت سال گزارے۔ اور یہ خاموشی ان لوگوں کے پاس بھی ہے جن کے پاس دادا نے ایک لمحہ بھی نہیں گزارا۔ مگر جن کے دکھوں میں دادا اس طرح شریک تھے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا تھا اور دادا خاموشی سے ان کے دکھوں کو ہم سب تک پہنچا کر کم کر دیا کرتے تھے۔
شارٹ سرکٹ سے اڑیں چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
جنگل میں اڑتی ہوئی تتلیاں اور جگنو، گاتے ہوئے پرندے اور درخت، ناچتے ہوئے طاؤس اور ہما رنگ برنگی مٹی اور آگ یہ ساری چیزیں دادا کی خاموشی سے لی گئی ہیں۔ دادا کی شاعری اصل میں ان کی خاموشی کا ایک حصہ ہے اور اس شاعری میں ہمیں خاموشی کے سارے سر ملتے ہیں۔ سارے رنگ نظر آتے ہیں اور ساری خوشبوئیں محسوس ہوتی ہیں۔ دادا کو اپنے اوپر پورا اعتماد تھا اور اس لیے انہوں نے اپنی خاموشی سے خود کو اس طرح بنایا کہ زندگی اور کائنات میں پھیلے ہوئے تمام منظر، سارے دکھ، ساری خوشیاں اور ایک ایک زندہ چیز کو اپنے اندر سمو لیا۔ محفوظ کر لیا۔ اور یہ سب کچھ دادا دوسروں کے لئے کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے لئے کچھ نہ رکھا، اپنی خاموشی تک ہمیں دے دی، وہ کہتے ہیں کہ:
چاند بھی اچھا ہے سورج بھی مگر
آپ رستے کا دیا بن جائیے
رستے کا دیا بھی تو بہت خاموشی سے جلتا ہے اور دادا کے لئے دئیے کی خاموشی ہی اصل زندگی کا سراغ تھی۔ وہ دئیے کی خاموشی سے اس کی روشنی میں سفر کرتے تھے، خاموشی کی کیفیت سے روشنی کی ابدیت تک دادا موجود ہیں، اور ہم موجود نہیں، ہم موجود ہیں اور دادا موجود نہیں۔ دادا اور ہم سب موجود ہیں۔ زندگی کی خاموشی آواز کی خاموشی، محبت کی خاموشی اور روشنی کی خاموشی۔ دادا کتنی خاموشیوں کی حفاظت محض اپنی خاموشی سے کر لیا کرتے تھے۔ دادا کتنی خاموشی سے کتنی خاموشیوں کو ہم تک پہنچا دیتے تھے۔
گرمیوں کی دوپہر کا ذکر ہے
ہم تھے گھر میں اور گھر تھا دھوپ میں
شاید ہم میں سے کوئی بھی اتنا بہادر نہیں کہ اتنے زیادہ دکھوں پر اپنی چیخ روک لے۔ اپنے دانت سختی سے ایک دوسرے پر جما لے اور اتنے زیادہ شور میں خاموش رہ کر بولتا رہے۔ دادا ہم سب سے زیادہ بہادر تھے، کبھی کبھی وہ اپنی خاموشی سے باہر نکلنا بھی چاہتے تھے تو نہیں نکل پاتے تھے:
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو جلا تو میں بھی ہوں
ہم باہر کے لوگ بھی کتنی عجیب طرح سے اپنے افسوس یا خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہر بات ہمیشہ ادھوری رہتی ہے۔ ہر چیز ناممکن۔ لیکن ایک ڈرامے کا مکالمہ ہے:
’’مرنے والے کی خاموشی زندہ رہ جانے والوں کو مجرم سمجھنے کے لئے کافی ہوتی ہے‘‘
کاش ایسا ہو سکتا مگر ایسا نہیں۔ ہم لوگوں کو مجرم تصور کرنے کے لئے بلکہ ثابت کرنے کے لئے کتنی خاموشیاں اور درکار ہوں گی۔ اس وقت تو پتا نہیں۔ شاید ان گنت، مگر نہیں جرم تو کبھی ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا یا شاید جرم پہلی ہی بار میں ثابت ہو جاتا ہے۔ اچھے مجرم بھی تو ہمیشہ خاموش رہتے ہیں۔ مگر مسئلہ اس سے زیادہ سنگین ہے، یا شاید ہمیشہ کی طرح سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اور اسی ٹھیک ٹھاک زندگی میں ہم اپنے طور پر پوری طرح اداس ہیں۔ اداسی کو طاری رہنے دیتے ہیں۔ اور ایک بار پھر خاموشی کی طرف آتے ہیں۔ ایک بار پھر دادا کی خاموشی سے باتیں کرتے ہیں۔ دادا کی خود اعتمادی ہمیں تسلی دینے اور حوصلہ بخشنے کے لئے کافی ہے۔ دادا کی خاموشی کی بنیاد اسی اعتماد اور بہادری پر ہے جو آج بھی ہماری کسی سند کی محتاج نہیں۔ ان کی شاعری، ان کی بہادری اور ان کی شجاعت کو تمغوں یا حسنِ کارکردگی کے میڈلوں سے نہیں ناپا جا سکتا۔ دادا کو کسی قسم کی سجاوٹ کے سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت نہیں، وہ اپنی شاعری سے مطمئن تھے، انہیں اپنی فتح کے بارے میں معلوم تھا، انہیں خاموشی کی عظمت اور طاقت کا احساس تھا۔ اسی خاموشی کے باعث ان کی شاعری بھی عظمت اور قوت سے بھرپور ہے اور اس کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی دادا کو کبھی فکر نہیں ہوئی۔
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
فخر و اعتماد کا یہ اظہار صرف اور صرف شاعر ہی کر سکتا ہے (شاعر سے مراد ہر شعر لکھنے والا نہیں)۔ کامیاب اور مکمل، بہادر اور فتح مند، باخبر اور خاموش، اداس اور پر اعتماد، ہم جانتے ہیں شاعر اس کے علاوہ بھی خصوصیات اور صفات کے مالک ہوتے ہیں مگر تکمیل بہت کم لوگوں کی قسمت میں ہوتی ہے۔ دادا کی قسمت بہت کم لوگوں جیسی تھی، ان کی خاموشی کی طرح، جی چاہتا کہ اپنے محترم دوست ’’حادی اعظم‘‘ کا ایک شعر دادا کی خاموشی کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر یاد کروں
تلاش میری اگر کوئی کر سکے تو کرے
میں کوہسار کے پردوں میں کانِ گوہر ہوں
اب ہم اس کان کو کبھی نہ پا سکیں گے۔ جس کا دروازہ مدتوں ہمارے سامنے کھلا رہا۔ مگر ہم لوگ تو کانوں کو ڈائنامائٹ کے مسلسل دھماکوں یا کدالوں کی بے شمار ظالمانہ ضربوں سے دریافت کرنے کے عادی ہیں۔ سو اب بھی یہی کر رہے ہیں۔ پہاڑوں کی خاموشی اور مضبوطی کی حامل کان دراصل اس کا دل ہوتی ہے اور ہم لوگ تو صرف دلوں کی تجارت ہی جانتے ہیں۔ چاہے وہ خاموش ہوں یا دھڑکتے ہوئے۔ ہم تو اپنے دلوں کی خاموشی یا دھڑکنوں کا اندازہ کئے بغیر انہیں بھی اس سفاک تجارت میں شامل کر دیتے ہیں۔ شاید اس لئے اب ہمیں کسی کے خاموش ہو جانے یا بولتے رہنے میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ اور فرق تو ہمیں کسی بھی شے کا نہیں ہوتا چاہے وہ بول رہی ہو یا خاموش۔ اور خاموشی بہت عجیب کیفیت ہے اور یہ عجیب کیفیت ہم سے دور ہو گئی ہے۔ ہم سے بچھڑ گئی ہے۔ خاموشی جو دادا کی زندگی تھی، جو ان کی شاعری ہے دادا کی شاعری خاموشی کا مکمل اظہار ہے۔ زندگی کا اعلان ہے۔ اور یہ اعلان ہم ہر آن سن رہے ہیں۔ اپنی خاموشی میں، اپنی زندگی میں ہمیں، کل ہمیں دادا سے دور نہیں ہونے دے گا۔ خاموشی کو ہمارے پاس رکھے گا۔ خاموشی جو ہمیں خوفزدہ کرتی ہے۔ اگر چیزیں بھی اس خاموشی کے بحر میں گرفتار ہوں تو خوف کی مقدار بہت زیادہ ہو جاتی ہے مگر دادا کی بہادری انہیں اس خوف سے الگ رکھتی ہے، وہ چیزوں کو خاموش دیکھتے ہیں اور خاموشی کے اس بحر سے اپنے ذریعہ آزاد ہو جاتے ہیں:
گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا
میں دیا بن کے جھلملائے گیا
لوگوں کے برعکس دادا ہر سحر اور مشکل کا مقابلہ اپنی خاموشی یعنی اپنے آپ سے کرتے ہیں۔
میں تو ہر موسم بہار کے ساتھ
ایک ہی جسم سے نبھائے گیا
اور اسی خاموشی میں ان کا دکھ بھی ہے، ان کے غم بھی جو ہمیں معلوم نہ ہو سکے۔
دل کی ویرانیاں چھپانے کو
جتنے شوکیس تھے سجائے گیا
دادا کے دکھ ان کی خاموشی تھے اور یہ خاموشی ان کی زندگی، ان کی شاعری اسی خاموشی سے معمور ہے۔ حسن، محبت، جنگ، ہار جیت، رنگ، روشنی، ہوا، پانی، غرض سب کچھ ہے جو اس خاموشی سے پھوٹتا ہے اور ہم تک آتا ہے۔ اور ہمیں بہا کر لے جاتا ہے۔ مگر اب بھی ہم اس سے انکار کرتے ہیں اور باہر نکل کر کہتے ہیں کہ ’’نہیں‘‘۔
ہم خاموشی کی فتح سے خوفزدہ ہیں۔
ہم ایک بہادر آدمی کے رحم اور اس کی مہربانی سے بچنا چاہتے ہیں۔ ہم خاموش فاتح کی ابدی مسکراہٹ سے ڈرتے ہیں۔ ہم ڈرتے ہیں مگر وہ جری وہ بہادر تو اب ہر بیعت سے بے نیاز ہے۔ ہر بغاوت سے ہمیشہ ہمیشہ کو مطمئن اور آزاد کہ اس کی جنگ مال غنیمت یا دشمن کے سروں کے مینار نہیں، بلکہ صرف شہر سے آزادی سے، سکون سے، اور خاموشی سے گزرنے کے لئے تھی۔ مگر ہم تو ہر راستے پر جا بجا اصولوں کی حکمرانی اور رکاوٹوں کی دیواریں کھڑی کرنے کے عادی ہیں۔
دادا نے کچھ نہیں کہا اور خاموشی سے گزر گئے، اپنے چاہنے والوں کو اعتماد اور غرورِ فتح دے کے۔ اپنے لوگوں سے خاموشی سے بچھڑنا بہت حوصلے کی بات ہے۔ اور دادا اسی حوصلے سے بنے ہوئے تھے۔
سکھ اتنے کم ہوتے ہیں کہ آدمی کو ان کے بارے میں کچھ کہنے کی مہلت بہت کم ملتی ہے۔ مگر دادا نے دکھوں کی زیادتی میں اپنے دکھوں کو دوسروں کے دکھوں سے بدل کر انہیں اور بڑھا لیا۔
دکھوں کی زیادتی پر خاموش رہنے والے دادا، اب بھی رہتے ہیں، یہیں ہمارے قریب یا ہمارے درمیان یا ہمارے اندر۔ اپنے چاہنے والوں میں۔ تمام شوکیس سجے ہوئے، بھرے ہوئے چھوڑ کر ہمارے لئے دادا ابدی نیند سو گئے۔ شوکیس جو خاموش ہیں اور دکھائی دیتے ہیں، ہم جو خاموش ہیں اور ہمارے آنسو جو دکھائی دیتے ہیں، ان دکھوں کی نشانی کے طور پر جو ہمارے دلوں کو زخمی کر رہے ہیں۔ ہماری آنکھیں بھی سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ سوچ رہی ہیں۔ اس خاموشی کے بارے میں جو دادا سے پہلے اور بعد اور ہمیشہ سے محیط ہے۔ اس خاموشی کے بارے میں جو دادا کی شاعری اور زندگی کا اعلان ہے۔ اس دکھ کے بارے میں جو ہمیں دکھی کرتا ہے اور یاد کر رہی ہیں اس شخص کو جو کبھی دکھی نہیں ہوا۔
دادا کا ایک شعر بہت یاد آتا ہے، لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے لئے لکھا تھا۔ یہ شعر دادا کو کس طرح ظاہر کرتا ہے، ان کی خاموشی، ان کی زندگی کو کس طرح بیان کرتا ہے، شاید ہم کبھی نہ بھول سکیں۔
کوئی گھائل زمیں کی آنکھوں میں
نیند کی کونپلیں بچھائے گیا
٭٭٭