وہ چادر سنبھالتی تیزی سے مارکیٹ کی طرف بڑھی تھی نور نے بھاگ کر شان اور علی کو بتایا تو وہ اس کے پیچھے نکلے تھے لیکن وہ تو ٹرین کی رفتار سے بھاگ رہی تھی
دوکان کے سامنے پہنچ کر اسنے یاتھوں میں پتھر بھرے تھے۔۔۔
آج تو گئے یہ غلط جگہ پنگا لے لیا ہے بچو۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی چادر میں پتھر ڈالنے کا عمل کر رہی تھی
جب اپنا کام پورا ہوا تو اس نے دوکان کی طرف قدم بڑھائے تھے آج یقیناً اسکا دماغ گھومنے والا تھا۔۔۔۔
دوکان کے باہر ان باپ بیٹوں کے نام کی تختی دیکھ اسکا دماغ بھنایا تھا
اوئے باہر نکل تو میرے باپ کی دوکان پر قبضہ کرتا ہے۔۔۔
بولنے سے پہلے اس نے دو پتھر دوکان کے شٹر کے پاس مارے تھے
دل پھر بھی نہیں بھرا تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر دوکان کے اندر مارا۔۔۔
دوکاندار پتھر کی آواز پر جلدی سے باہر نکلا تھا جہاں وہ پتھر ہاتھوں میں بھرے اسے گھور رہی تھی
پاگل پاگل ہے کیا جو پتھر مار رہی میری دوکان پر۔۔۔۔۔۔ وہ بھڑکا
تیری دوکان؟؟؟ وہ استہزایہ ہنسی تھی ہاہاہاہا اچھا تیری دوکان ہے نا اچھا پھر اب بتاتی ہوں میں ٹھیک سے۔۔۔بولنے کے ساتھ ساتھ اس نے دوکان کے اندر ایک ایک کر کے پتھر پھینکنے شروع کئے تو دوکاندار شور کرنے لگا آس پاس کے دوکاندار تو مزے سے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے مجال تھی جو کوئی آگے بڑھ کر اسے روکتا یا معاملہ جاننے کی کوشش کرتا۔۔
علی جو اسکے پیچھے نکلا تھا اسے یہ کرتے دیکھ اسپیڈ پکڑی تھی
اوئے آنسہ رک رک۔۔۔ علی نے بھاگ کر اس کے ہاتھ سے پتھر پھینکے
چھوڑ بھائی مجھے۔۔۔وہ غصے سے پاگل ہورہی تھی اس کی ہمت کیسی ہوئی میری دوکان کا اپنا کہنے کی۔۔۔۔
تیری دوکان کہاں سے آگئی تیرا باپ خرید کر گیا ہے کیا اپنی دوکان کی حالت پر وہ آدمی اچھا خاصہ بھڑکا تھا یہ جاننے کے باوجود کہ دوکان تو واقعی اسکے باپ کی تھی
نہیں تو تیرے باپ کی ہے بے شرم قابض میری دوکان ہے یہ تیری ہمت بھی کیسے ہوئی کرایہ نا دینے کی ہاں۔۔۔کمر پر ہاتھ رکھے وہ لڑاکا عورتوں کی طرح بولی تھی
اور کرایے کی بات پر وہ ایک دم سٹپٹایا تھا
کیا ہوا بیٹا کیوں شور کر رہی ہو؟؟؟؟ تبھی ایک انکل اسکے پاس آئے تھے اور ان کے پوچھنے پر اس نے ایک خونخوار نظر اس دوکان پر کھڑے شخص پر ڈالی
میں شور کر رہی ؟؟؟ یہ آدمی ہماری دوکان پر کرایہ دار ہے آج ماں آئی کرائے کے لئے تو بولا نہیں ملے گا بھول جاؤ یتیم کا مال ہے تو مال مفت ہوا نا جس کا دل کیا ہاتھ صاف کرلیا۔۔۔۔
یہ ہماری دوکان۔۔۔اس آدمی کے بیٹے سے آگے بڑھ کر بولنا چاہا تو اس نے اسے بھی چپ کروایا تھا
چپ کمینے بلکل چپ۔۔۔۔ اس سے پہلےوہ بات مکمل کرتا اس نے اسے آنکھیں دکھائیں تھیں۔۔۔
تیری اتنی اوقات ہے کہ یہ دوکان خرید سکے ہاں میرے باپ کی دوکان ہے یہ اس کے خون پسینے کی کمائی سے بنائی گئی دوکان اور وہ مرا ہے لیکن میں نہیں بہت اچھے سے اپنی چیز لینا جانتی ہوں جو میرا ہے وہ کوئی لے نہیں سکتا مجھ سے اور جو نہیں دیتا اس سے چھین لیتی ہوں میں ڈرنے والوں میں سے کا خوموش بیٹھنے والوں میں سے نہیں میں آئی سمجھ ۔۔۔وہ غرائی
ایسے کیسے چھینے گی یہ ہماری دوکان ہے دفاع ہو یہاں سے۔۔۔ وہ لڑکا بھی اسی کے انداز میں بولا تھا۔۔
تو تم کرایہ نہیں دوگے؟؟ اس نے انتہائی نرم لہجہ میں پوچھا تو علی اور شان نے ایک دوسرے کو دیکھا یعنی اب وقت آگیا تھا کہ وہ کچھ کرے وہ اس لئے علی وہاں سے کھسکا تھا اب اسے سامان بھی تو لا کر دینا تھا نا
نہیں دونگا جا جو کرنا ہے کرلے۔۔۔۔وہ آدمی بھی ڈھیٹ بنا تھا یہ جانے بغیر کے سامنے وہ سرپھیری کچھ بھی کرسکتی ہے
اچھا تو مطلب واقعی نہیں دوگے؟؟؟؟اس نگ آئی برو اچکا کر ایک بار پھر پوچھنا چاہا
بول دیا نا نہیں دونگا اب جا یہاں سے۔۔۔وہ ڈھیٹ ابن ڈھیٹ بنا تھا
اس نے ایک نظر سب کو دیکھا جو خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے غلط کو غلط بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی ہاں تماشہ دیکھنے کے لئے سب اپنا اپنا کام چھوڑے کھڑے تھے
تبھی علی واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں دو بڑے گیلن تھے
اس نے اشارہ کیا تو وہ دوکان کی طرف بڑھے تھے
اوئے کہا جارہے ہو ہٹو یہاں سے وہ آدمی ان دونوں کے بیچ دیوار بنا تھا
جبکہ وہ مزے سے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی
ارے ہٹو اب نا یہ دوکان تمہاری نا ہماری اسے ہٹا کر علی نے گیلن میں موجود پیٹرول کو دوکان میں ڈالنا شروع کیا
دیکھوں یہ نہیں کرو وہ آدمی ان سے گیلن چھیننے کے لئے آگے بڑھا لیکن شان نے اسے پکڑ لیا
دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے سے پہلے سوچنا تھا نا انکل جی۔۔۔وہ مزے سے بول کر اپنے کام میں مصروف ہوا تھا
دیکھو تم لوگ یہ ٹھیک نہیں کر رہے میں پولیس کو بلاؤں گا۔۔۔وہ اب دھمکی پر اتر آیا تھا
بلاؤ میں نہیں ڈرتی شوق سے بلاؤ اسنے چادر کے کونے سے چھالی نکال کر منہ میں ڈالی اور ایک طرف ہوکر تماشہ دیکھنے لگی
جہاں شان اور علی دوکان کے اندر پیٹرول ڈالنے میں مصروف تھے اور وہ صاحب اور انکا بیٹا ان کو روکنے میں۔۔۔
دیکھوں ہمارا لاکھوں کا سامان ہے اس میں سب برباد ہو جائے گا ۔۔۔۔علی کو ماچس نکالتا دیکھ وہ آدمی اس کے پاس آیا تھا اور اب اسکا انداز منت بھرا تھا
تو ہم کیا کریں ویسے بھی کسی کی دوکان پر قبضہ کروگے تو انجام تو بھگتوں گے نا میں کچھ نہیں کر سکتی اس نے کندھے اچکائے
علی اور شان نے دوکان کے اندر جا کر بھی پیٹرول ڈالنا چاہا لیکن اس لڑکے کی آواز پر رکے
ابا کیا کر رہے ہو لاکھوں کا مال جل جائے گا تو کیا ہوگا روکو انہیں۔۔۔۔۔
میں کیسے روکوں ؟؟؟ دیکھوں بیٹا یہ دوکان تمہاری ہے بس ہم کرایہ دینگے لیکن دیکھوں ہمارا سامان نہیں جلاؤ ان کے منت کرنے پر اس نے ان دونوں کو اشارہ کیا اور ایک پین اور پیپر منگوا کر اس پر کچھ لکھا
تم جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو غریبوں کا حق کھانے میں سب سے آگے ہوتے ہیں لیکن جب بات اپنے نقصان کی آئے تو گڑگڑاتے ہیں اگر تم یہ سمجھے تھے کہ ہمارا بھائی بڑا نہیں تو آسانی سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤ گے تو بھول جاؤ ابھی میں زندہ ہوں اپنے باپ کا بیٹا آئی سمجھ۔۔۔۔
اور یہ سارے جو تماشہ دیکھ رہے ہے نا ان پر لعنت ہے کہ کوئی ہمارے حق میں نہیں بولا شرم سے ڈوب مرو سارے۔۔۔اس نے اس آدمی کے ساتھ باقی سب کو بھی گھسیٹا تو وہ سب کھسیانے بن گئے
اور تم اس کاغذ پر سائن کرو اور آج ابھی اسی وقت کرایے کی رقم دو اس کے غصے میں بولنے پر وہ جلدی سے کرایا لایا تھا شاید قبضہ کرنے میں کمزور تھے یا ڈرپوک کہ اس سے ڈر رہے تھے اور پانی اور پیٹرول میں فرق نہیں کرسکے لیکن اسکا تو فائدہ ہی ہوا تھا
اور یہ کاغذ ہے کہ بہت جلد دوکان خالی کروگے اور ہاں جب تک نہیں مل جاتی دوسری جگہ تب تک وقت پر کرایا گھر آکر دوگے کرو سائن اس کے بولنے پر سب کی موجودگی میں ان سے سائن لے کر وہ پر سکون ہوئی تو شان اور علی کو اشارہ کرتے باہر کی جانب بڑھی جہاں باہر نور ہانپتے ہوئے آرہی تھی
چل میرا بچہ واپس چل فلم ختم ہوگئی اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
چل میرا پتر جلدی کر ویسے ہی تو ہمیشہ لیٹ کر دیتا ہے۔۔حاشر اس کے پاس آیا تھا جو اپنی تیاری میں مصروف تھا
تو جا گاڑی نکال میں آرہا ہوں۔۔ خود پر پرفیوم چھڑکتے اس نے چابی اٹھائی تھی
اوئے میں ڈائیونگ کرونگا آج۔۔ حاشر نے اسکے ارادہ بھانپا تو فوراً چلایا تھا
ابے او بہرہ نہیں ہو میں جو فضول میں چیخ رہا ہے۔۔اسکی چیز پر ابراہیم نے اسے ایک چھپ رسید کی تھی۔
ہاں تو میں چلاؤ گا گاڑی تیرا کوئی بھروسہ نہیں کہیں بھی گاڑی ٹھوک دے شادی کرنے سے پہلے میں اوپر نہیں جانا چاہتا۔۔۔۔
میرا بچہ تو یہ بتا تجھ سے شادی کرے گی کون جو تو شادی کے خواب دیکھ رہا ہے۔۔۔اس نے مزے سے کہتے والے جیب میں ڈالا تھا
مجھے بھی پہلے یہی لگتا تھا کہ مجھے کوئی نہیں ملنے والی لیکن جب تیرے جیسے کو مل سکتی ہے تو میں تو پھر بھی اچھا بھلا ہینڈسم ہوں۔۔۔ اس نے بھی حساب برابر کیا تھا۔۔
ہینڈسم تو خیر تو کہیں سے نہیں لگتا اور جو تو لگتا ہے وہ بتا دیا اگر تو سن کر فوت ہوجائے گا
لے کمینے فٹے منہ تیرا حاشر نے اسے دونوں ہاتھوں سے محبت کی سوغات دی تھی
دیکھ تو جلنا چھوڑ دے ویسے ہی عجیب تیری شکل اوپر سے جل جل کر ہیبت ناک بنتا جارہا ہے تو۔۔
ابراہیم ابھی بھی باز نہیں آرہا تھا
چل کوئی نہیں میرا بچہ تو بول جتنا مرضی بول بس آج آفس پیدل آنے کے لیے تیار رہ یہ کہہ کر وہ چابی اس سے چھینتا بھاگا تھا
اوئے حاشر کمینے چابی دے۔۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا
نہیں دونگا اب تو آ بیٹا دھکے کھاتے ہوئے وہ دور سے کہتا سیڑھیاں پھلانگتا نیچے اتر گیا وہ جلدی سے اوپر آیا گھر لاک کر کے باہر آیا لیکن وہ غائب تھا
اللّٰہ پوچھے تجھے حاشر وہ پریشان سا کھڑا ہوگیا
اچھی بھلی اس کی زندگی تھی پتا نہیں کیا شوق چڑھا تھا یہاں آنے کا
وہ اندر کی طرف بڑھا تاکہ کیب بلا سکے لیکن تبھی ہارن کی آواز پر پلٹا جہاں حاشر کھڑا دانت دکھا رہا تھا
مرتا کیوں نہیں ہے تو وہ اسنے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا
تجھے ساتھ لے کر مرو گا میری جان۔۔۔وہ مزے سے بولا
قسمت ہی خراب تھی میری جو تجھ سے دوستی ہوئی۔۔۔
اس کی بات پر حاشر کا چھت پھاڑ قہقہ گونجا تھا