(Last Updated On: )
سلیمان اریب کی شاعری میں نہ تو فن کارانہ صناعی ہے نہ ہی اس کی لفظیات حیرت پیدا ہیں لیکن اس کو آپ گہری نگاہ سے پڑھیں تو چپکے چپکے دل میں اترنے لگتی ہے۔ سلیمان اریب کے لہجے میں خلوص کی بے انتہا تپش ہے اور اظہارِ ذات کا کھلا ہوا آئینہ!
میں اریبؔ کو ایک انسانی عارف مانتا ہوں۔ انسانی عارف اور Humanist میں ایک بنیادی فرق ہے۔ ہیومنسٹ اخلاقیات اور سماجیات کی نگاہ سے انسانی مسائل کا مطالعہ کرتا ہے، درد سمجھتا ہے، درماں کی تلاش کرتا ہے۔ لیکن انسانی عارف کوئی فرشتہ صفت منعم نہیں ہے۔ وہ تو ایک عارف ہے جو ہر کردار میں خود کو پوشیدہ کرتا ہے پھر سوچتا ہے۔ کہ اس پر ایسی کیفیت کے کیا اثرات ہوں گے۔
اریبؔ ایک ایسی زندہ انا کا نام ہے جو شکستہ کشتی پر سوار ہے جو موت کے ساحل کا انتظار کر رہی ہے۔ ہر لمحے کو گنتی رہتی ہے کہ نہ جانے کون سا لمحہ اسے ساحل پر پہنچا سکے۔ اس فولاد کو ماحول، آب و ہوا اور صحت نے پگھلا کر سرخ کر دیا ہے۔ وہ کہتا رہتا ہے۔
کن حرفوں میں جان ہے میری
کن لفظوں پر دم نکلے گا
سوچ رہا ہوں
ابجد ساری یاد ہے مجھ کو
لیکن اس سے کیا ہوتا ہے
…… (آخری لفظ پہلی آواز)
موت نئی شاعری میں ابدیت کی علامت کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن سلیمان اریبؔ کی ’’موت‘‘ صرف جذب و نشہ میں ڈوبی ہوئی خاموشی ہی نہیں بلکہ ایسی موت ہے جو زندگی کے لمحہ لمحہ قتل سے انجام پاتی ہے۔ یہ موت انسان کے خالی اور بے معنی ہو جانے کے احساس سے روح پر طاری ہو جاتی ہے۔ اریبؔ چاہتے تھے کہ کاش موت اس کرب سے انھیں نجات دلا دے جسے وہ نئی زندگی میں دیکھتے اور محسوس کرتے تھے۔ انھیں عرفان تھا کہ نیا انسان اندر سے اتنا خالی ہو گیا ہے کہ چند حیوانی خصوصیات کے سوا نہ انسان کی مٹی میں وہ رس رہ گیا ہے نہ ہی رچاؤ۔ مذہب اور اصول کے نام پر قتل اور فسادات انسان کی آدم خوری کی بدترین مثال ہیں۔ آخر عقل اور سائنسی ماحول میں انسان اتنا زہریلا کیوں ہو گیا ہے۔ اس حالت میں اریبؔ خود کو رکھ کر سوچتے ہیں۔ ان کے پاس تہی دستی کے سوا کچھ نہیں؟ وہ مسیحا نہیں؟ بس چونک کر کہتے ہیں:
میں خود سے مایوس نہیں ہوں
انسان سے مایوس ہوں تھوڑا
آج ہی سارے اخباروں میں خبر چھپی ہے
اس دھرتی کے اک حصے
گجرات میں اس نے
میرے منھ پر تھوک دیا ہے
نظم کا کچھ ایسا لہجہ ہے کہ آپ کو یقین ہوتا ہے کہ جس سلیس تخلیق کو آپ پڑھ رہے ہیں وہ شعلہ ہے، صرف نظم ہی نہیں!
سلیمان اریب اپنی کہانی نہیں کہتے، وہ اپنے بنائے ہوئے کرداروں کی کہانی کہتے ہیں جو اذیت پسند بھی ہیں، اذیت کے مخالف بھی۔ لیکن ان کرداروں میں بھی روح شاعری کی رہتی ہے۔
شاعر کی پہچان گم شدہ نہیں۔ لیکن اس میں کئی پہچانیں چھپی ہوئی ہیں، خود اریب کہتے ہیں:
تم کس سے ملنے آئے ہو
کس چہرے سے کام ہے تم کو
کن آنکھوں سے بات کرو گے
تم جو چہرہ دیکھ رہے ہو
اس میں ہیں کتنے ہی چہرے
جن کو لگائے میں پھرتا ہوں
تم کس سے ملنا چاہو گے؟
…… (تم کس سے ملنے آئے ہو)
انسان کو اگر مرکزِ کائنات سمجھ لیا جائے تو کائنات ایک ایسی بھیڑ کا نام ہے جس میں انسان کے فکر و خیالات کرب و انبساط کی کارفرمائی ہے۔ ہمارے مفروضات جنھیں ہم اعتقاد کا نام دیتے ہیں۔ مثبت نگاہ میں ایک ایسے مثالی کردار کی تشکیل کرتے ہیں جو کائنات کی بقاء کو مستحکم کرے۔ اگر ہم فلسفیانہ انداز میں یا بہ صورتِ دیگر واضح طور پر ان مفروضات کا اعلان نہ کریں تب بھی ہمارے اذہان اپنے پس منظر میں اس مثالی کردار کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
سلیمان اریب چوں کہ کوئی اخلاقی مصلح نہیں تھے اس لیے ان کو ان بنیادی مفروضات کا اعلان کرنے میں دل چسپی نہیں تھی۔ وہ ایک منفرد فن کار کی حیثیت سے ان حالات سے متاثر ہوتے ہیں جو اس مثالی کردار پر تیشہ زنی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا لاشعوری ارتعاش ہے جو فن کو ایک خاص زاویے میں پیش کرتا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سلیمان اریب کا سماج وادی تحریکات اور ترقی پسندی سے جو ابتدائی تعلق تھا وہ بے بنیاد مفروضہ رہبری اور مقصدیت کے منصوبے سے پاک ہو کر خالص انسانی ہو گیا تھا۔ کسی تحریک سے تعلق بہ ذاتِ خود قابلِ تنقیص نہیں ہوتا۔ بلکہ اس تعلق سے جو عملی تجربہ حاصل ہوتا ہے وہ فن کے نکھارنے میں کارآمد ہو سکتا ہے۔ لیکن فن اور فلسفے کو تحریک کا آرگن بنا کر پیش کرنا نامناسب ہے۔ ادب کا مقصد انسانی درد کا اظہار ہے۔ مگر انسانیت اخلاقیات اور سماجی انصاف کا بالراست سبق دینا ادب کو زیبا نہیں۔ سلیمان اریب کی آخری نظمیں ان کے فکری ٹھہراؤ اور ذہنی نشاۃ ثانیہ کی اچھی مثالیں ہیں۔ بہرحال وطن ہر فرد کا مامن ہوتا ہے کیوں کہ اس کے ذرے ذرے سے انسان اپنا تعلق قائم رکھتا ہے۔ وطن ہی بار بار امتحان بھی لیتا ہے۔ اس اختلاف کو سلیمان اریب بڑی خوب صورتی سے پیش کرتے ہیں۔
حیدرآباد ہی ذکر کرو
حیدرآباد ہے وطن میرا
حیدرآباد میرا گلشن ہے
………
حیدرآباد کا نہ ذکر کرو
حیدرآباد میرا مقتل ہے
حیدرآباد سب کا مدفن ہے
…… (میرا وطن)
حقیقت پسند نگاہ کچھ زیادہ ہی ظالم ہوتی ہے اور تعلقات اور بنیادی نظریات میں عجیب سی سختی پیدا کرتی ہے۔ اپنی ماں کی موت پر سلیمان اریب نے کس خوب صورتی سے کہا ہے:
ستّر سال بہت ہوتے ہیں
کون جییے، ستّر صدیوں تک
اپنے ہی کاندھوں پہ اٹھائے
اپنا لاشہ
کون پھرے ستّر لمحوں تک
ستّر سال بہت ہوتے ہیں!
سلیمان اریب کی شاعری ایک مکالمہ ہے۔ ایک ایسا مکالمہ جس میں شاعر اپنے مخاطب سے بالراست تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس مکالمے میں خود کلامی کا انداز اور اظہار کا جذبہ دونوں شریک ہیں۔ اکثر نظموں میں ایک یا ایک سے زیادہ کلیدی جملے ہوتے ہیں جس پر نظم کی اساس ہوتی ہے۔ یہ کلیدی جملے تیزابی اور تند ہوتے ہیں۔ مثلاً:
شراب پی کے یہ احساس مجھ کو ہوتا ہے
کہ جیسے میں ہی زمانے میں ایک قاتل ہوں
کچھ بھی نہیں اب زیست کا مقصد
کتوں کی خاطر جیتا ہوں
یہ تو میں خود ہوں وہ احمق جس کی
اپنی رسوائی میں تسکینِ انا ہوتی ہے
اسی طرح غزلوں میں بھی یکساں ماحول اور یکساں غنائیت ملتی ہے۔ ایک خالص کیفیت کے تحت ایک غزل صورت پذیر ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر نے غزل کہنے سے پہلے ایک یا دو اشعار اپنے وجدان سے تخلیق کیے ہوں پھر ان اشعار کی کیفیت سے متاثر ہو کر یا مرتعش ہو کر غزل مکمل کی ہو۔ اس وجہ سے اریب کی غزلوں میں ایک Prolonged یا طویل احساسی کیفیت ملتی ہے۔ مثلاً:
مٹتی ہوئی دنیا کا سماں دیکھ رہا ہوں
بیگانہ وش و نوحہ کناں دیکھ رہا ہوں
اس غزل کا ہر شعر اسی اندوہ میں مبتلا ہے۔ یہی انداز آپ غالب کے پاس بھی پائیں گے۔ غالبؔ کی اکثر غزلیں یکساں رجحان کی جداگانہ طور پر آئینہ دار ہوتی ہیں۔
اریبؔ کی غزلیں غنائیہ ہیں، عجیب سی بات ہے کہ جس شاعر کی نظمیں نثری اور پر مواد ہوں، اس کی غزلیں اس قدر غنائیہ ہوں اس رویے کے باوجود یہ غزلیں ذاتی تجربے کے سروا سے سرشار ہیں۔ اندازِ بیان کی تشنگی اور لفظیات کی سادگی کے باوجود معانی کا ایسا رچاؤ ہے کہ اشعار دل میں جگہ لے لیتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں ایک خصوصی تنظیم ہے۔ پہلے دو اشعار غنائیہ اور لوچ دار ہوتے ہیں اور پھر کیفیت کے ارتکاز میں مقطع تک ترقی ہوتی جاتی ہے۔ یہ غزلیں دو مختلف رجحانات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش بلکہ کشمکش میں ہیں ایک طرف کلاسیک کی خواب گوں اور خوش اسلوب روح ہے تو دوسری جانب نئی کرب ناک زندگی کا آتش فشاں، اریبؔ دونوں مسالک کو نبھانے میں محو تھے، نہ ہی کلاسیک کی دلکشی سے منھ پھیرنا چاہتے تھے اور نہ ہی نئی آواز سے پہلو تہی۔ ان کی غزلیں ان کی ذات سے بھی آلودہ ہیں اور تمناؤں سے بھی۔
دل کی بستی سے کبھی یوں نہ گزرتی تھی صبا
اب نہ پیغامبری ہے نہ کوئی نامہ بری
کے ساتھ ساتھ
رات کا کرب سمیٹے ہوئے اپنے دل میں
جھلملاتا ہے کہیں دور، چراغِ سحری
اریبؔ کی غزلوں میں ایک قسم کی شکستگی ملتی ہے۔ وہ کسی تھکے ہوئے مسافر کی طرح ہیں جس نے ماضی کی وادیوں میں سرخروئی اور بہادری کے ساتھ جنگ لڑی ہو۔ اور اب اس کے لیے امروز و فردا۔۔ ۔
دستِ امروز میں کل کی کوئی تحریر نہیں
خواب پھر خواب ہے ہر خواب کی تعبیر نہیں
کہاں کی منزلِ مقصود راستہ بھی نہیں
سفر میں ساتھ خدا بھی ہے اہرمن بھی ہے
ہزاروں خضر مرے ساتھ ہیں اندھیرے میں
بھٹک رہا ہوں کوئی روشنی تو دے مجھ کو
ماضی کے حسین مرغزاروں سے گذرا ہوا یہ سپاہی چیخ سے خاموشی تک پہنچ گیا ہے۔ خوباں کی ثنا خوانی کو کھلے دل سے رنگ و بو نہیں دے سکتا۔ ایک غم ناک انداز میں وہ اپنے ہم سفروں سے کہتا ہے۔
کہاں تک مجھ کو سلجھاتے رہو گے
بہت الجھی ہوئی میں زندگی ہوں
تھکن سے چور، تنہا، سوچ میں گم
میں پچھلی رات کی وہ چاندنی ہوں
مرا یہ حشر بھی ہونا تھا اک دن
کبھی اک چیخ تھا اب خامشی ہوں
اریبؔ کی نظموں اور غزلوں کے لب و لہجے سے یہ بات جھلکتی نظر آتی ہے کہ اکثر تخلیقات نصف شب کے اطراف تشکیل پاتی ہیں۔ خیر یہ تو ایک ذاتی اندازہ ہے۔
اریبؔ، مومنؔ کے مصرع ’’درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری‘‘ کی طرح بے پناہ قوت بن گیا ہے۔ ایسی قوت جو لبِ گویا کو اثر سے مالا مال کرتی ہے جو الفاظ کو نئی تراش عطا کرتی ہے۔
میں اریبؔ کی شاعری میں لفظیات اور ہیئت کی نیرنگی تلاش نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ اریب نے فن کو لبِ اظہار کی طرح استعمال کیا۔ احساس کے تعامل کے طور پر نہیں۔
٭٭٭
[’’برگِ آوارہ‘‘ ۱۹۷۴ء۔]
٭٭٭