عرفان صدیقی کے نام
بالکل اسی جگہ، اسی پل پر کھڑے ہو کر میں نے اس دن سوچا تھا کہ خاموش اونٹوں کی قطار کے ساتھ رمضان کا قافلہ تھوڑی ہی دیر میں رخصت ہونے والا ہی۔ تین میل دور قصبے کی پرانی مسجدوں سے مغرب کی اذان کی آواز، راستے کی دھند میں لپٹے ہوئے گھنے درختوں میں کھوتی ہوئی، ہم تک آئے گی اور ہم آخری روزہ افطار کریں گے۔ پھر لڑکپن سے لے کر اب تک بیتے ہر برس کی طرح اس پل سے اتر کر بے داڑھی کے غلام ماموں کو امام بنا کر رمضان کی آخری مغرب ادا کریں گے اور ٹیلے پر چڑھ کر نہر کے اس پار کھڑے شیشم کے درختوں کے اوپر عید کا چاند دیکھیں گے اور چاند دیکھ کر ہمیشہ کی طرح اپنی اپنی بندوق سے ایک ایک فائر کر کے عید کا استقبال کریں گے۔ پھر ذبح کئے ہوئے پرندوں کے تھیلوں کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے، ٹھنڈی بندوقیں تھامے، ہم لوگ واپس ہوں گے۔ واپسی پر ریتیلے دگڑے پر چلتے چلتے، حامد اپنے کم زور ہاتھوں سے غلام ماموں کو بندوق تھما کر، مجھ سے لپٹ کر خوشامدی لہجے میں کہے گا۔
’’کل آپ نے عیدی میں پورا ایک روپیہ نہیں دیا تو آپ میرے سب سے اچھے بھائی جان نہیں ہوں گے۔‘‘
میں اس کی پتلی مریل گردن کو آہستہ سے پنجے میں دبا کر مصنوعی خفگی دکھاتے ہوئے کہوں گا، ’’تم اتنے تو کمزور ہو۔ اتنی سردی میں شکار کھیلنے کیوں آئے ہو؟‘‘
’’آپ بھی تو آتے ہیں‘‘ وہ ضدی لہجے میں جواب دے گا۔
’’ہم۔۔۔ ہم تو بڑے ہیں، بھئی! پھر ہم تو عید، بقر عید سے ایک دن پہلے شکار ضرور کھیلتے ہیں، مگر آپ کو یہ شوق ابھی سے کیوں سوار ہوا ہے۔ پہلے ذرا بڑے تو ہو جاؤ۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’نہیں، بھائی جان! بس مجھے اچھا لگتا ہے۔ دھائیں سے بندوق بولتی ہے۔ ہریل پھڑپھڑاتا ہوا نیچے گرتا ہے۔ ایں بھائی جان! اس کا وزن سچ مچ کم ہو جاتا ہے، اگر زمین پر گرنے سے پہلے نہ لپک لو تو؟‘‘ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر میری آنکھوں میں حیرت سے جھانکتے ہوئے پوچھے گا۔
لیکن۔۔۔ اس دن یہ سب کہاں ہوا تھا۔ میں جیسے ایک دم جاگ پڑا۔
میں نے سوچا:
اس دن بس سورج غروب ہی ہونے والا تھا اور پُل کی کمر بھر اونچی فصیل پر سب نے تھیلوں سے افطاری نکال کر رکھ لی تھی۔
اور نماز کے بعد، سب سے پہلے حامد نے دعا ختم کی تھی۔ وہ بھاگتا ہوا، ریت اڑاتا، جھاڑیوں سے الجھتا ہوا ٹیلے پر چڑھ گیا تھا۔ ہم لوگ بھی تیز تیز سانسوں کے ساتھ ٹیلے پر چڑھ گئے تھے۔ موسم صاف تھا۔ غلام ماموں نے اپنے بھاری بدن کی پروا بھی نہیں کی تھی۔ پھولتی ہوئی سانسوں کا بوجھ ہمارے کندھوں پر ڈال کر انھوں نے پوچھا تھا، ’’پچھلے سال کدھر دیکھا تھا؟‘‘
’’اُدھر!‘‘ عزیز بھائی کی آواز سن کر ہم سب نے نگاہیں ان کی انگلی کی سیدھ میں نہر کے اُس پار کھڑے شیشم کے درختوں کے اوپر آسمان پر دوڑائیں۔
وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔
نہر کے اُس پار، شیشموں کے اوپر، آسمان میں کچھ بھی نہیں تھا۔ کچھ پرندے واپسی کی پرواز کرتے ہوئے، ہمارے سامنے سے ہو کر نکلے۔ وہ پرندوں کی آخری قطار تھی کیوں کہ آسمان اب مٹیالا ہونے لگا تھا اور نہر کے پانی کی آواز میں گہری بے چین سرسراہٹیں بولنے لگی تھیں۔
’’موسم تو بالکل صاف ہے۔ چاند کیوں نہیں دکھائی دیتا؟‘‘ غلام ماموں نے بہت عجیب سی آواز میں کہا۔
’’چاند۔۔۔ کدھر ہے، بھائی جان؟‘‘ حامد میری کمر پکڑ کر مجھ سے قریب ہو گیا۔
’’عید تو کل ہونا ہی ہے۔ آج کا چاند تو تیسا تھا‘‘ جمال نے ہولے سے کہا تھا۔
’تھا‘ سُن کر میں نے اپنی ٹانگوں میں کپکپاہٹ محسوس کی، جیسے آج کا چاند ماضی کے گہرے پانیوں میں ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا ہو۔
چھوٹے سے ٹیلے پر کھڑے ہم پانچوں انسانوں کو مجید بھیّا کی آواز نے سہارا دیا، ’’ادھر بھی تو دیکھو! چاند ہر سال جگہ بدل دیتا ہے۔‘‘
مجید بھیّا اوپر نہیں آئے تھے۔
ٹیلے پر کھڑے کھڑے ہم نے حدِّ نظر تک پھیلے ہوئے منظر کو دیکھا۔ دور کھیتوں میں دھواں سا اُٹھ رہا تھا اور ان کے پیچھے اندھیرے میں سماتے ہوئے آم کے باغات تاریک ہوتے جا رہے تھے۔ درختوں کے سائے میں آہستہ آہستہ نہر بہہ رہی تھی۔ اُفق دھندلا ہو چکا تھا اور شیشموں کے اوپر آسمان میں کچھ بھی نہیں تھا اور کسی بھی طرف آسمان میں کچھ نہیں تھا۔
’’کیا نہیں دکھائی دیا؟‘‘ مجید بھیّا نے پوچھا تھا۔
اوپر کھڑے پانچوں انسانوں نے خوف کی لہروں کو اپنے بدن پر مکڑی کے جالوں کی طرح لپٹتا ہوا محسوس کیا۔ ہم سب کے دل بہت زور زور سے دھڑک رہے تھے جیسے کچھ ہونے والا ہے اور اسی لمحے سب نے سوچا کہ جس نے بھی مجید بھیّا کی بات کا جواب دیا اس کا دل پھٹ جائے گا۔ ہم سب خاموش تھے کہ غلام ماموں نے بڑی ہمّت کر کے کہا، ’’ایسا تو کبھی نہیں ہوتا تھا۔ کیا ہمارے یہاں بھی کچھ ہونے والا ہے؟‘‘
حامد نے میری کمر مضبوطی سے پکڑ لی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
’’ایسی باتیں مت کیجئے غلام ماموں! ہمارے ساتھ بچہ ہے، ڈر جائے گا۔ ہم لوگ گھر سے دور ہیں۔ گھر واپس چلئے!‘‘ میں نے بڑی مشکل سے کہا۔
اسی وقت ہوا ایک دم سے چل پڑی اور ہم لوگ ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔
اسی وقت جمال بولے تھے، ’’میاں نے پہلے ہی منع کیا تھا کہ رمضانوں میں شکار مت جایا کرو۔۔۔‘‘
پھر جیسے انھیں خیال آیا کہ اس جملے سے سب پر ان کا خوف ظاہر ہو گیا ہے۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ افطار کرنے کے بعد پیاس کی شدّت سے کوئی ایک دم نہر کی طرف بھاگے اور لڑکھڑا کر نہر میں گر پڑے اور ڈوب جائے۔ معلوم ہے! کتنی گہری ہے نہر؟‘‘
مجید بھیّا نیچے سے اوپر آتے ہوئے مسلسل ہمیں تک رہے تھے جیسے ہماری تلاش کرتی ہوئی آنکھوں میں انھوں نے ساری تحریر پڑھ لی ہو۔
میں نے حامد کو مضبوطی سے پکڑ کر اس کی پیٹھ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تھپتھپائی تھی اور مجید بھیّا نے سیدھے کھڑے ہو کر شیشموں کے اوپر دیکھا تھا۔ دیکھتے رہے تھے۔ پھر انھوں نے ہم سب کو دیکھا تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کو دیر تک دیکھتے رہے تھے۔
اور اسی وقت نہر کے پانی میں کوئی مچھلی تڑپ کر اُچھلی تھی۔ حامد اور زیادہ سہم گیا تھا اور پھر۔۔۔ اچانک چلّایا تھا۔
’’وہ کیا! ارے!ارے!‘‘
’’کیا بات ہے، حامد میاں؟ کیا ہے؟ بولو بیٹے!‘‘ غلام ماموں گھبرا کر بولے تھے، ’’کیا چاند دکھائی دیا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ نہیں! اوپر نہیں۔ نہر کے اُدھر، شیشموں کے نیچے دیکھئے۔ دو پیڑوں کے بیچ میں ایک گھر سا بنا ہوا ہے‘‘ حامد بھرّائی ہوئی آواز میں چلّایا تھا۔
ہم نے اُدھر دیکھا، اور جب ہم نے حامد کی بتائی ہوئی جگہ پر غور سے دیکھا تھا۔۔۔ تو۔۔۔ وہ منظر۔۔۔ اُف!
اس وقت ہوائیں تیز ہوئیں اور ہمارے ڈھانچوں سے ٹکرائیں۔ ہمارے ڈھانچے ساکت کھڑے رہے اور ہڈیاں آپس میں ٹکرا ٹکرا کر بجنے لگیں۔ آنکھوں کے حلقے اتنے پھیل گئے کہ آنکھیں بند ہونا بھول گئیں۔ سانسیں خاموش ہو گئیں۔ پورے ماحول پر اندھیرے میں لپٹا ہوا وہ خوف مسلّط ہو گیا تھا جو زندگی کے کئی برس ایک ساتھ کھا گیا۔ پھر بے ہوش حامد کو کاندھے پر لادے ہوئے جب ہم قصبے میں داخل ہوئے تو عشا کی نماز ہو چکی تھی۔ سڑک کی لالٹین کی دھندلی روشنی میں، دو دو چار چار کی ٹکڑیوں میں کھڑے ہوئے لوگ بڑے فکر مند لگ رہے تھے۔ وہ سب ہمیں بہت اجنبی لگ رہے تھے۔ پورا قصبہ ایک بے سکون اداسی میں ڈوبا ہوا آہستہ آہستہ سرگوشیاں کر رہا تھا۔
ایک لالٹین کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم نے سنا تھا۔۔۔
’’ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ تیسا بھی نظر نہ آیا ہو۔‘‘
’’کل عید تو ہو گی کہ نہیں؟‘‘
’’وہ تو ہو گی ہی۔۔۔ لیکن ذرا سوچو! کیسی عجیب بات ہے کہ۔۔۔‘‘
چھوٹی بازار کے نکّڑ پر کھڑے شریف چچا لوگوں کو آہستہ آہستہ ایسی آواز میں سمجھا رہے تھے، جو ان کی اپنی آواز نہیں تھی۔
’’ایک بار تو انھوں نے چاند کے دو ٹکڑے کئے۔ پھر ایک دن جب مولا علی کی نماز قضا ہو گئی تو سورج۔۔۔‘‘
’’پر چچا! مجھے تو لگے کہ حج پر جو خون بہا ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے۔‘‘
’’اجی! ہم سب آپس میں ہی کٹے پڑ رہے ہیں۔‘‘
سب کی آوازیں جاڑے کی ہواؤں کے ساتھ بکھر رہی تھیں۔ ٹوٹ رہی تھیں۔
ہم اندھیری سڑکوں پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ تکان سے ہم لوگ بوجھل ہو چکے تھے۔ بے ڈھنگے پن سے بندوقیں اٹھائے گھر کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم لوگ صرف یہ سوچ رہے تھے کہ جس وقت ہم گھر کے اندر داخل ہوں گے تو کیا گھر والے ہمیں اجنبی تو نہیں سمجھیں گے۔
موڑ پر کسی نے بہت سرگوشیوں والے انداز میں اپنے پاس کھڑے شخص سے کہا تھا، ’’دیکھو! میں نے اسی دن کتاب میں دکھایا تھا کہ جب چودھویں صدی۔۔۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘‘
’’آج تو بدلی بھی نہیں تھی۔‘‘
پھر ہم لوگ اپنے اپنے گھروں میں یوں داخل ہوئے جیسے نئی بستیوں میں آ رہے ہوں جہاں کی زبان ہمارے لئے اجنبی ہو۔ جب بہت دیر کے بعد ہم لوگ اپنے اپنے حواس میں آئے تو جو کچھ گزرا تھا سب کو بتایا لیکن وہ منظر بتاتے وقت مجھے پھر ایسا لگا جیسے میرے بدن کا گوشت گلنے ہی والا ہے اور ہڈیاں ٹکرا ٹکرا کر بجنے ہی والی ہیں۔ سب نے مجھے خاموش کر دیا تھا۔
دوسرے دن عید کی نماز پڑھتے وقت یوں محسوس ہوا جیسے کسی کی نمازِ جنازہ ادا کر رہے ہوں۔ پھیکی پھیکی مسکراہٹوں کے ساتھ لوگوں سے گلے مل کر ہم سب نے شریف چچا کو پورا واقعہ سنایا تھا۔ سب کچھ سن کر وہ چپ ہو گئے تھے۔ وہ بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے تھے اور جب ان کی خاموشی بھی ڈراؤنی لگنے لگی تو غلام ماموں نے کہا تھا، ’’شریف چچا! تم تو پرانے شکاری ہو۔ برسوں نہر پر شکار کھیل چکے ہو۔ تم تو مچھلی کا شکار بھی کھیلتے تھے۔ تم بتاؤ! کیا شیشم والی پائنتی میں کوئی ہے؟‘‘
’’صرف ایک دفعہ۔۔۔ مجھے وہاں کچھ نظر آیا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب نور الدین کو لڑائی کی وجہ سے عرب کی نوکری چھوڑ کر آنا پڑا تھا۔ اس نے آنے کے دوسرے ہی دن مجھ سے کہا تھا کہ ابّا! اب ہم لوگ یہیں کوئی کام کریں گے۔ اگر نہر کے درختوں کا ٹھیکا لے لو تو آرا مشین لگا کر کام شروع کر دیا جائے۔ تو میں اور نور الدین، دونوں نہر کے درخت دیکھنے گئے تھے۔ ہم لوگ جب شیشمیں دیکھ کر واپس آ رہے تھے تو پُل پر آ کر نور الدین نے کہا تھا کہ اس پُل سے لے کر دوسرے پُل تک ساری شیشموں کا ٹھیکا کتنے میں ملے گا، کچھ اندازہ ہے ابّا؟ تو میں نے اندازہ کرنے کے لئے جب مڑ کر شیشموں کی پائتی کی طرف دیکھا تو۔۔۔ تو اس دن جو کچھ مجھے نظر آیا، وہ بتاتے ہوئے مجھے آج بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔ میں نے آج تک نور الدین کو بھی نہیں بتایا۔ لیکن مجھے نور الدین نے بتا دیا تھا اور تمھیں یقین نہیں آئے گا، جو نور الدین نے دیکھا، وہ میں نے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے کچھ اور دیکھا تھا۔‘‘