ھانی کا برا وقت شروع ہوگیا تھا۔۔یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ وہ لوگ اس پر یہ وقت لے آئے تھے۔۔جنت جو سی بی آئی کے لئے کام کرتی تھی ۔۔وہ فرار ہوچکی تھی اور ھانی پر یہ انکشاف بہت بھیانک طریقے سے ہوا تھا۔۔چونکہ اسکے اکائونٹس میں سے ساری رقم غائب تھی۔۔فیصل نے انکی قیادت میں ھانی کے بائیومیٹرک ، سکیورٹی سسٹم کی دھجیاں اڑا دیں تھی رہی سہی کسر جنت قدوسی نے پوری کردی تھی۔۔۔اسکے اکائونٹس کا دیوالیہ ہوگیا تھا۔۔اس نے فوری طور پر امریکی سفارتخانے سے مدد مانگی تھی۔۔جو شاید منظور ہوگئی تھی۔۔مگر اسکی بدقسمتی صرف اتنی تھی کہ وہ آئی ایس آئی کی نظروں میں آچکا تھا جو قبر تک اسکا پیچھا کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔
اور بھاگنے کی تیاری ہورہی ہے ؟ چھوڑو امریکہ ، افریقہ ، چلو تمہیں ناران کاغان کی وادیوں کی سیر کرواتے ہیں ۔۔ کیا کہتے ہو؟؟؟
وہ واشرام سے نکلا تھا۔۔اپنی پشت پر کسی کی آواز سن کر گنگ رہ گیا۔۔۔کرسی سے ٹیک لگائے پیر جھلاتا ہوا انتہائی اطمینان سے کہتا اسکا سکون غارت کرگیا ھانی بری طرح اچھل کر سیدھا ہوا ۔۔۔
آئی ایس آئی ۔۔!!! اس نے بے بسی سے دانت کچکچائے ۔۔
سہی پہچانا تم نے ؟ کسی چیز کی کمی ہو تو پوری کرنے کے لئے بندہ حاضر ہے ۔۔؟
بکواس بند کرو تم آخر کیا چاہتے ہو مجھ سے ؟
ابراہیم نے اسکی بے بسی کا مزہ لیتے ہوئے ہنس پڑا۔۔۔
روم سروس ۔۔؟؟؟ دروازہ بجنے پر وہ دونوں متوجہ ہوئے۔۔ جائو کھولو دروازہ ۔۔۔یہ سروس بہت ضروری ہے ۔۔! اسی اثنا میں دائم بھی اندر داخل ہوا اور دروازے اندر سے لاک کردیا ۔۔
بلاوا آگیا ہے بھئی ۔۔ یقین مانو بہت شاندار استقبال ہوگا تمہارا ۔۔ ہمہیں بہت وقتوں سے تمہارا انتظار تھا ۔۔ اسے دوسرا موقع دیئے بغیر وہ نشہ آور دوائیاں سونگھا کر اسے بے ہوش کر چکے تھے
تیزی سے ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے دونوں نے اسے بیڈ شیٹ میں لپیٹا اور سرونگ ٹرالی میں ڈال کر دھکیلتے ہوئے ہوٹل سے باہر نکل گئے ۔۔ لمحوں میں وہ دونوں ایک گاڑی میں داخل ہوئے اور منظر سے غائب ہوگئے ۔۔
____________________________________________
ہائے اللہ باجی آپ کو تو بہت تیز بخار ہے ۔۔آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ؟ کم از کم سوپ پی لیں ! میں آپ کو دوائی دے دیتی ہوں ۔۔۔
مجھے کچھ نہیں کھانا فیروزہ ۔۔ تم جائو یہاں سے
بے زاری سے کہتے ہوئے سر کشن پر گرالیا
فیروزہ ہمدردانہ نگاہ اس پر ڈال کر باہر نکل گئی ۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہاتھ پھر سے فون کی جانب بڑھنے لگا ۔۔ کل سے وہ لاتعداد مسیج اور کالز کر چکی تھی مگر دوسری جانب سے خاموشی چھائی تھی ۔۔۔
اس کٹھور دل کو اسکی خاک برابر پرواہ نہیں تھی ۔۔کل سے فون سوئچڈ آف آرہا تھا ۔۔لیکن اب بیل جا رہی تھی ۔۔ اک موہوم سی امید جاگی تھی ۔۔ وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی اور لب کاٹنے ہوئے فون کی اسکرین گھورنے لگی ۔۔ اور کال رسیو کرلی ۔۔۔
ابراہیم ۔۔ !!! وہ سسک پڑی ۔۔
مگر دوسری جانب چند پل کی خاموشی کے بعد کوئی بولا تھا ۔۔۔ کون؟؟؟
عمارا نے بے ساختہ فون کو گھورا ۔۔
تم کون ہو؟ اور ابراہیم کہاں ہے ؟
وہ غم و غصے سے جھلا اٹھی ۔۔۔
ابراہیم اپنی جاب پر ہے ۔۔ مختصر سا جواب آیا ۔۔
وہ جہاں کہیں بھی ہے میری بلا سے ۔۔ اس سے ابھی اور اسی وقت بات کروائو ورنہ میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی ۔۔۔عمارا کا دل کی فون میں گھس کر اس شخص کی گردن مروڑ دے ۔۔
محترمہ آپ سمجھ نہیں رہی ہیں ۔۔
تم سمجھ نہیں رہے ہو ۔۔ میں اسکی بیوی ہوں اور اس سے کہو مجھے اس سے بات کرنی ہے ۔۔شرافت سے ابراہیم کو فون دو اب ۔۔ وہ تحکم بھرے لہجے میں بولی ۔۔
چند پل کی خاموشی کے بعد قطعی لہجے میں جواب آیا تھا ۔۔
ہم آپ کی بات نہیں کروا سکتے ابراہیم سے ۔۔ وہ ابھی بزی ہے۔۔
بھاڑ میں جائو تم سب ۔۔ ابراہیم سے کہنا اپنی شکل نہ دکھائے مجھے دوبارہ ۔۔ بے وفا انسان !
اس نے کھری کھری سنا کر فون بند کردیا ۔۔۔ چہرے پر جذباتوں کی کھچڑی سی پکنے لگی ۔۔ وہ غم و غصہ ۔۔ ناراضگی ۔۔ شکوے سب ایک طرف رکھ ہاسپٹل کے لئے تیار ہونے لگی ۔۔طبیعت کا بوجھل پن کہیں غائب ہوگیا
فیروزہ اچھا سا ناشتہ بنائو میرے لئے !
بھاڑ میں جائیں سب۔۔ جب اسے میری پرواہ نہیں تو میں کیوں کروں ! اس نے ناک پھلاتے ہوئے دانت پیسے اور کپڑوں کا جوڑا لے کر واشروم میں جانے لگی ۔۔
____________________________________________
صبح دائم کی آنکھ جلدی کھل گئی تھی ۔۔۔ بوجھل دل کے ساتھ اس نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور گرد آلود کچن دیکھ کر وہ شدید کوفت کا شکار ہوا ۔۔
اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا ۔۔ لیکن خالی پیٹ وہ کوئی ٹیبلٹ نہیں کھا سکتا تھا۔۔ یہ بھی ایک مصیبت تھی
ابراہیم کا فون تھرتھرانے کی آواز پر متوجہ ہوا ۔۔حالانکہ وہ رات اسے پرسنل فون فوری طور پر بند کرنے کی تاکید کر چکا تھا۔۔
کون ؟؟؟ اس نے ایک نظر کسمساتے ابراہیم پر ڈالی اور فون اٹھا کر کان سے لگایا
تم کون ہو ؟ اور ابراہیم کہاں ہے ؟
نسوانی آواز تھی۔۔ کوئی لڑکی غرائی ۔۔
ابراہیم اپنی جاب پر ہے ۔۔ اس نے سرسری سی نگاہ ابراہیم پر ڈالی جو اب کنپٹیاں مسلتے ہوئے واشروم کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔دائم نے فون اسپیکر پر ڈال دیا
وہ جہاں کہیں بھی ہے میری بات کروائو اس سے ابھی اور اسی وقت ورنہ میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی !
خاتون بہت غصے میں معلوم ہورہی ہیں کہہ رہی ہیں سر پھاڑ دیں گی ۔۔
اس نے ابراہیم کو آگاہ کیا ۔۔
کس کا ؟ میرا یا تمہارا ؟ وہ ریلیکس انداز میں ٹاول سے منہ تپھتپاتا ہوا پوچھنے لگا ۔۔
محترمہ آپ سمجھ نہیں رہی ہیں. اس نے کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا
تم سمجھ نہیں رہے ہو میں اسکی بیوی ہوں اور اس سے کہو مجھے اس سے بات کرنی ہے ! شرافت سے فون دو ابراہیم کو !
عمارا کی تپی ہوئی آواز ابراہیم تک باآسانی پہنچی تھی ۔۔۔
دائم نے فون اسکی جانب بڑھایا
سوچ لو باس ۔۔ یہ گفتگو بہت طویل جائے گی ۔۔ تم تو واقف ہی ہوں گے خاتون خانہ سے ۔
ابراہیم نے اسکا بڑھا ہوا ہاتھ نظرانداز کرتے ہوئے غیر سنجیدگی سے کہا ۔۔ گویا وہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔
آپ کی بات نہیں ہوسکتی ابراہیم سے وہ ابھی بزی ہے ۔۔ دائم نے دو ٹوک کہہ دیا ۔۔
بھاڑ میں جائو تم سب کے سب ۔۔ ابراہیم سے کہنا مجھے اپنی شکل نہ دکھائے اب ۔۔ بے وفا انسان!
دائم نے قہقہہ لبوں پر روکا ۔۔ جبکے ابراہیم کی شکل دیکھنے والی تھی ۔۔
او خدا۔۔اتنی تفتیش؟اور تشویش؟ دائم کا سر چکرانے لگا
کیا دنیا کی ساری بیویاں اتنے ہی سوال کرتی ہیں ؟؟؟
وہ پوچھ بیٹھا ۔۔۔
ہاں بھائی ! تازی تازی بے عزتی کا اثر تھا ۔۔ وہ برا سا منہ بناتے ہوئے اسکے ہاتھ سے فون لینے لگا ۔۔
اگر پانچ سال پہلے کسی بھلے آدمی نے مجھے یہ بات بتا دی ہوتی تو آج میں طلاق شدہ نہ ہوتا !
کیا واقعی ؟؟؟ ابراہیم کو اسکی بڑبڑاہٹ سن کر صدمہ پہنچا تھا ۔۔ دائم نے بھنویں اچکاتے ہوئے تصدیق کی ۔۔۔ افسوس ہوا سن کر !
ہاں مجھے بھی ہوا تھا ۔۔ وہ دوبدو بولا ۔۔۔
خیر اب کیا ہوسکتا ہے۔۔ تو ایسا ہے باس اگر اس مشین سے کام لینا ہے تو اس میں کھانا ڈالنا پڑے گا ۔۔۔ اور کھانے کے لئے پیسے چاھیئے جو میرے پاس موجود نہیں !
تو کیا کہتے ہو ؟؟؟
ابراہیم کو سخت بھوک محسوس ہورہی تھی ۔۔
جیسے تمہیں ٹھیک لگے ، ہمیں آدھے تک مطلوبہ جگہ پہنچنا ہے اور ھانی کو لے جانے کے بندوبست بھی کرنا ہوگا ۔۔
ابراہیم سر ہلاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ چند ساعتوں بعد انہوں نے مقامی ہوٹل سے ناشتہ کیا ۔۔ اور مطلوبہ جگہ پہنچ گئے ۔۔ ھانی جوں کا توں پڑا تھا ۔۔
میری مانو تو اس سے یہیں نپٹ لو ۔۔کہاں اس غلاظت کے ڈھیر کو اٹھائے پروگے !
ابراہیم زہریلی نگاہوں سے اُسکے بد حواس وجود کو ٹٹولنے لگا ۔۔ جو دوائوں کے زیر اثر بے ہوش تھا ۔۔
اس کے ساتھ بہت سے حساب بے باک کرنے ہیں ابھی تو۔۔اور پھر جنرل بخشی کے آرڈرز ہیں۔۔وہی اس سے نپٹیں گے
وہ کہہ کر ایجنسی سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ ھانی کو بارڈر کے راستے سے نہیں لے جا سکتے تھے ۔۔۔ اسلئے انہیں ہوائی مدد کی ضرورت تھی۔۔۔ اس نے جنرل بخشی کو مدد کے متعلق آگاہ کرنے کے بعد فون بند کردیا ۔۔ اب مدد پہنچنے تک انہیں یہیں انتظار کرنا تھا ۔۔
____________________________________________
آج کرنل جاوید کی بیوی اور ان کے بیٹے میجر عون کی آمد اچانک ہی ہوئی تھی ۔۔ شاکرہ بیگم کو محسوس ہورہا تھا عون کا جھکائو تاشا کی طرف تھا ۔۔ لیکن اب ان کے سامنے تاشا کی اوجلول حرکتیں انہیں شرمندہ کیئے دے رہی تھی ۔۔ وہ بارہا اسے ٹوک چکی تھی لیکن وہ باتوں کی شوقین جانے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔۔ قصور دراصل تاشا کا بھی نہیں اب اسے کیا معلوم میجر اور اسکی والدہ کس مقصد کے تحت آئے ہیں ۔۔ شاکرہ بیگم نے نوال کو اشارہ کیا تو وہ اسے گھسیٹتی ہوئی اپنے ساتھ کچن میں لے گئی ۔۔۔ کیا مصیبت ہے ؟ اس نے جھنجھلا کر اپنا بازو چھڑایا
محترمہ اپنی زبان کو زرا لگام دو ورنہ مہمان جس مقصد کے تحت آئے ہیں وہ حسرت بن کر رہ جائے گی !
کیا مطلب ؟ تاشا نے آنکھیں پٹپٹائیں.۔
اتنی بھولی مت بنو جیسے تمہیں معلوم نہیں میجر عون تمہاری اول فول باتوں میں کیوں انٹرسٹ لے رہے ہیں صبح شام ! نوال نے اسے حیران کردیا تھا ۔۔ اور سوچنے پر مجبور بھی ۔۔
نہیں ایسا تو کچھ نہیں ! ایک لمحے میں اس سوچ کا اثر زائل ہوا اور وہ مزے سے کوفتوں کی جانب مائل ہوئی ۔۔۔ نوال بات سنو ؟ اس سے پہلے وہ تاشا کو کوئی جواب دیتی فاتح کی آواز پر چونک کر پلٹی ۔۔
جائو نوال بات سن لو ۔۔ تاشا کی شریر آواز پر وہ اسے گھورتی ہوئی کچن سے نکلی تھی ۔۔۔
میں تمہارے لئے کچھ لایا ہوں ۔۔
وہ پیکڈ ڈبہ اسکی طرف بڑھاتا ہوا بولا ۔۔
یہ کیا ہے ؟ اس نے چونک کر تھام لیا ۔۔۔
کھول کر دیکھو ۔۔ وہ مزے سے بیڈ براجمان ہوا ۔۔
فون ؟؟ لیکن مجھے اسکی ضرورت نہیں ہے میرے پاس آلریڈی فون ہے
اب سے تم یہی فون استعمال کرو گی ۔۔۔ اس میں میرے علاوہ گھر والوں کے نمبر ہیں ۔۔ اور مجھے لگتا ہے اتنا کافی ہے۔۔۔ وہ دھونس جمانے والے انداز میں بولا ۔۔
لیکن اگر مجھے کسی اور سے بات کرنی ہو تو ۔۔
کسی اور کون؟ زرا میں بھی تو جانوں ؟؟ وہ بغور دیکھتے ہوئے اسکی طرف بڑھا ۔۔
مطلب میری فرینڈز وغیرہ۔۔ وہ پزل سی ہونے لگی ۔۔
اسکی ضرورت نہیں ہے
کیوں ضرورت نہیں ہے ! اس نے احتجاج کیا
کیونکہ میں کہہ رہا ہوں ۔۔ وہ جتا کر بولا ۔۔
اگر میں نہ مانوں تو ! اسکے نقوش تنے
تو مجھے منوانے کے ایک سو ایک طریقے آتے ہیں ! وہ ذو معنی لہجے میں بولا ۔۔
یااللہ ۔۔یہ کہیں خواب تو نہیں ؟ کوئی اتنا کیسے بدل سکتا ہے فاتح۔۔کل تک تو تم کچھ اور ہی تھے اور آج اتنا کیسے بدل گئے۔۔ اس نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے تجسس سے پوچھا ۔۔
کیونکہ کل تک مجھے تم سے محبت نہیں ہوئی تھی ۔ پھر اچانک کچھ ایسا دہلا دینے والا انکشاف ہوا کہ میں نے سوچا کیوں نہ نوال سعید سے شادی کی جائے ۔۔
اس نے گویا احسان جتایا ۔۔
کیا مطلب؟؟ وہ ہتھے سے اکھڑی
مطلب یہ کہ تاشا نے تمہاری خاموش محبت کا پول کھول دیا تھا نا۔۔ وہ اسکے تپے چہرے سے حظ اٹھا کر بولا
بیڑا غرق ہو تمہارا تاشا ۔۔ مرجائو تم ۔۔
وہ دل ہی دل میں اسے ایک بار پھر کوسنے لگی ۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہوں ۔۔ کیا میں جھوٹ بول رہا ہو ۔۔
ہا۔۔ہاں تو مت کرتے مجھ سے شادی کس نے کہا تھا ۔۔
وہ ناک چڑھا کر بولی ۔۔
کیوں نہ کرتا اب تم اتنی بھی بری نہیں ہو ۔۔
وہ لب دباتے ہوئے بولا ۔۔
نوال نے زوردار مکہ اسکے سینے پر جڑ دیا ۔۔
بیوقوف لڑکی ۔۔اظہار محبت پر ایسا جواب کون دیتا ہے
وہ بلبلا کر رہ گیا ۔۔
ایسے اظہار محبت پر ایسا ہی جواب ملے گا ۔۔ وہ کھلکھلا کر کہتی چوکھٹ کے پار چلی گئی۔۔
___________________________________________
گاڑیوں کی غیر معمولی آمدورفت پر وہ دونوں بری طرح سے چونکے تھے ۔۔۔
انہیں کسی بھی وقت مدد کی کال ملنے پر یہاں سے نکلنا تھا ۔۔
کچھ تو گڑبڑ ہے باس ۔۔ تم ایک کام کرو اسے یہاں سے لے جائو یہاں سب میں سنبھال لوں گا ۔۔۔ا
براہیم کھڑکی سے ہٹ کر بولا تھا ۔۔
مثلا ؟ وہ الجھ گیا ۔۔
مثلا یہ کہ اسے لے جائو یہ نہ ہو کہ ہم مدد بھی گنوا دیں اور بعد میں اسکے ساتھ بہت مسلہ ہوجائے ہم اپنی جان بچائیں گے یاں اسکی۔۔
اور تم؟؟ دائم نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔
میرا اللہ مالک ہے وہ انتہائی پرسکون انداز میں بال برابر کرتا ہوا دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔ اس سے پہلے خطرہ بڑھ جائے میں اسے لے جاتا ہوں ۔۔وہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
اور سنو ۔۔ ؟؟ واپس مت آنا ۔۔وہ عجیب انداز میں بولا
دائم نے پلٹ کر اسے دیکھا اور جواب دیئے بغیر باہر نکل گیا ۔۔
___________________________________________
زندگی میں کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے کہ ایک لمحہ صدیوں کے برابر لگنے لگتا ہے ۔۔۔ایسا لمحہ جو صدیوں پر محیط ہو ۔۔اسکا دماغ سن ہوچکا تھا ۔۔ کان سننے کی سکت کھو چکے تھے ۔۔وہ کب پاکستان پہنچی کب اسے میڈیکل ابسرویشن میں رکھا گیا اسے کچھ خبر نہیں ہوئی ۔۔
جنرل بخشی اسے اپنے ساتھ مردہ خانے میں لے آئے تھے ۔۔۔ اسے کچھ سنائی اور دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔
اسکی نظروں کا محور تو سفید کپڑے میں لپٹا جان سے پیارا وجود تھا ۔۔ جسے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا چھوڑ کر گئی تھی ۔۔۔ پھر اچانک انہیں کیا ہوگیا ۔۔؟
بابا ۔۔ بابا ۔۔۔ وہ امید بھری نگاہوں سے انتہائی انداز میں انہیں پکارنے لگی ۔۔
آنکھیں کھولیں ۔۔ دیکھیں مجھے ۔۔میں ہوں ۔۔ آپ کی بیٹی ۔۔ پلیز آنکھیں کھولیں بابا ۔۔ اٹھیں نا ؟؟؟وہ بے جان وجود پڑے وجود کو جھنجھوڑنے لگی ۔۔
گلشن نے آگے بڑھ تھاما تھا ۔۔
گلشن تم اٹھائو انہیں ۔۔یہ کیوں نہیں اٹھ رہے ہیں ۔۔
یہ اب نہیں اٹھیں گے ۔۔ یہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے سو چکے ہیں ۔۔ گلشن انتہائی دکھ سے اسکی ابتر حالت دیکھی تھی ۔۔۔ وہ ان سے لپٹ کر بہت روئی تھی ۔۔بہت زیادہ
گلشن اسے سنبھالتے ہوئے ہلکان ہورہی تھی ۔۔انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے بعد انتہائی عزت اور احترام سے مٹی کے سپرد کردیا گیا ۔۔۔تدفین کے وقت کچھ چند رشتے داروں کے علاوہ صرف وہ اور گلشن تھی ۔۔۔ وہ غم سے نڈھال چہرہ لئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔ انہیں مٹی تلے دفن محسوس کرکے وہ خود کو بھی بے جان محسوس کرنے لگی ۔۔پاگلوں کی طرح قبر کی گیلی مٹی کو چومنے لگی ۔۔ سنبھالیں خود کو ۔۔ آپ ابھی بھی میڈیکل ابسرویشن ہیں آپ کی طبیعت بگڑ جائے گی ۔۔
گلشن مجھے چھوڑ دو ۔۔ مجھے یہاں رہنے دو پلیززز ۔۔ مجھے ان سے بہت ساری باتیں کرنی ہے۔۔
وہ سسک سسک کر رونے لگی ۔۔ گلشن انتہائی بے بسی سے اسکے قریب بیٹھ گئی۔۔
___________________________________________
ابراہیم انتہائی مطمئن انداز میں ریوالور کی گولیاں چیک رہا تھا ۔۔۔ جو چند باقی رہ گئیں تھی ۔۔اس نے اپنی سروائول کِٹ بھی دائم کو دے دی تھی۔۔۔مسلسل چلتی گولیوں اور آوازوں کو نظرانداز کیئے وہ یہ سوچ رہا تھا کہ یہاں سے باہر کیسے نکلا جائے ۔۔ چونکہ روسی اسپیشل فورسز کے لوگ اسے پکڑنے کی خاطر کسی بھی وقت بلڈنگ کو دھماکے خیز مواد سے اڑا سکتے تھے ۔۔ اس نے جیب ٹٹولی ۔۔ اور لائٹر کو دیکھ کر لاشعوری طور پر مسکرایا ۔۔۔
سگریٹ کا خالی پیکٹ جو دائم پھینک کر گیا تھا اسے سلگا کر فائر الارم کے قریب ٹکا دیا ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں دھواں کے بعث الارم نے پوری بلڈنگ میں شور برپا کردیا تھا ۔۔۔ جسکی وجہ سے باہر لوگوں میں ہلچل مچ گئی تھی اور اسے بھاگنے کا موقع مل گیا ۔۔ وہ بھاگتا ہوا ٹاپ فلور پر جانے لگا ۔۔ اسکے پیچھے روسی فوج کے نمائندے گرائونڈ فلور پر پھیل گئے ۔۔۔ وہ اوپر آکر بری طرح سے پھنس گیا تھا ۔۔. اب نہ نیچے جا سکتا تھا ۔۔۔ نہ ہی یہاں سے کہیں اور اسکے لئے بہتر تھا وہ ٹھنڈے دماغ سے ان لوگوں کو ہینڈل کرے ۔۔ حتی کہ وہ لوگ اس تک پہنچ گئے ۔۔
اس نے ایک نظر نیچے دیکھا ۔۔ فوسز کے خطرناک کتے بھیانک طریقے سے بھونکتے ہوئے اسکی ہڈیاں نوچنے کو بے تاب تھے۔۔ وہ نیچے نہیں کود سکتا تھا ۔۔ اسی لمحے مقابل عمارت کے شیشے پر چمکتی ایک سرخ رنگ کی لائٹ نے اسکی توجہ کھینچی ۔۔ گویا وہ اسے اپنی واپسی کا سائن دینا چاہ رہا تھا
ارے یار۔۔ تمہیں منع بھی کیا تھا مت آنا ۔۔ وہ اندر تک جھنجھلا گیا ۔۔اور سوچنے لگا کہ اب اسے دائم تک کیسے پہنچنا ہے ۔۔
ہینڈس اپ ۔۔وہ فوجی نمائندوں کے نشانے پر آگیا تھا
میں خود کش حملہ آور ہوں اگر تم نے گولی چلائی تو سب ساتھ میں مارے جائیں گے ۔۔۔
وہ سب گڑبڑا کر ایک دوسرے دیکھنے لگے ۔۔
میری بس اتنی دراخواست ہے نیچے میرا ایک ساتھی چھپا ہوا ہے اگر تم اسے جانے دو تو میں سرینڈر کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔ وہ آسانی سے اسکے جھانسے میں آنے والے نہیں تھے اتنا تو اسے یقین تھا ۔۔ سو اسے لائٹر نکلنا پڑا ۔۔ وہ سب راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہوگئے جب کہ وہ ان کے نشانے پر آگے آگے چلنے لگا ۔۔گرائونڈ فلور کے اسی کمرے کے پاس رک گیا تھا جہاں سے وہ ابھی بھاگا تھا۔۔
تبھی اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا ۔۔
جو اس قدر شدید تھا کہ کمرے کا دروزہ چور چور ہو چکا تھا ۔۔ سب بکھر کر اِدھر اُدھر جا گرے۔۔ جب تک وہ اسکی چال کو سمجھتے وہ کھڑکی سے باہر کود گیا ۔۔۔ سڑک پر برق رفتاری سے بھاگتی گاڑی کے پیچھے اندھا دھند فائرنگ کرتے وہ بھی بھاگنے لگے ۔۔ گویا قبر تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔۔
تم واپس کیوں آئے میں نے تمہیں منع بھی کیا تھا ۔۔ تمہارے پاس اچھا خاصا موقع تھا ۔۔
مجھے دراصل تمہاری بیوی کا خیال آگیا تھا۔۔وہ تم جیسا سرپھرا انسان ڈیسرو نہیں کرتی تھی ویسے ناانصافی ہوئی میرے ساتھ۔۔۔دائم نے اس پر جتایا
ہونہہ اسکا بھی کچھ ایسا ہی خیال تھا کہ میں اسے ڈیسرو نہیں کرتا وہ بے چینی سے پہلو بدلنے لگا ۔۔
کوئی بات نہیں اگر آج زندہ رہے تو ایڈجسٹ کرلینا ایک دوسرے کے ۔۔ وہ اسکے تکیلف زدہ چہرے کو دیکھ کر بولا ۔۔ اور مڑ کر ان بن بلائے مہمانوں کو دیکھا جو شاید انکا گھر تک ساتھ دینے والے تھے ۔۔
سیٹ بیلٹ باندھ لو ۔۔ اس نے اسپیڈ بڑھا دی تھی ۔۔
میں سیدھا نہیں بیٹھ سکتا ۔۔
وہ درد سے کراہتا ہوا ڈیش بورڈ پر جھک گیا ۔۔
کیا مطلب ؟ ٹھیک تو ہو ؟؟ تم explosion کے وقت وہاں تھے ؟؟ دائم گنگ رہ گیا ۔۔
وہ لوگ میرے قدموں پر قدم اٹھا رہے تھے اسلئے میں اپنی مدد نہیں کر سکا ۔۔ وہ تکلیف کے بعث آہستگی سے بولا ۔۔ لعنت ہو ۔۔ دائم غم و غصے سے بڑابڑایا تھا ۔۔ دھماکے کی شدت سے اسکی ریڑھ کی ہڈی بری طرح متاثر ہوئی تھی ۔۔ جسکے بعث وہ نہ تو بیٹھ پارہا تھا نہ ہی اس پوزیشن میں تھا کہ چل سکے ۔۔ دائم انتہائی تاسف سے اسکے تکلیف زدہ چہرے کو دیکھا ۔۔
ٹھیک ہو نا تم ؟؟ وہ نہ جانے کیا جاننا چاہتا تھا ۔۔
ہاں ۔۔۔ تم کیوں پوچھ رہے ہو ، وہ بمشکل سیدھا ہوکر سیٹ سے سر ٹکاتے ہوئے بولا ۔۔
سیٹ بیلٹ باندھ لو ۔۔ ہمارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں ۔۔ ہمیں صرف بارڈر کے قریب پہنچنا ہے ۔۔اس نے سر ہلاتے ہوئے سیٹ بیلٹ باندھ لیا تھا ۔۔۔ دائم نے اسپیڈ بڑھا دی تھی ۔۔
سنو ؟ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔ اس نے تکلیف کے بعث دانت پیستے ہوئے کہا
کیوں ؟ دائم نے زرا کی زرا اس پر نظر ڈالی
کیونکہ مجھے لگتا ہے دل کی بات کہہ دینی چاہیئے شاید میرا وقت قریب آرہا ہے اگر آج میں مرجائوں تو میری بیوی سے کہنا میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں ۔۔
اسکے لبوں پر زخمی سے مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی
یار اب میں تمہاری بیوی سے اظہار محبت کرتا اچھا تو نہیں لگوں گا ، تم ایک کام کرو ایک رقعے پر سب لکھ دو
دائم نے ماحول کی کشیدگی کو کم کرنا چاہا۔۔
ابراہیم قہقہہ لگاکر ہنس پڑا ۔۔ روسی فوجی مسلسل جنونی انداز میں ان پر حاوی ہونے کوشش کر رہے تھے ۔۔ وہ لوگ ویرانے میں اتر کر بڑے بڑے پتھروں کی اوٹ میں ہوگئے ۔۔آرمی کے ہائی پروفائل یونٹ (SSG) کے کمانڈوز ان کی مدد کو آئے تھے ۔۔۔ وہ مقابلے بازی چھوڑ کر ابراہیم کو سہاردے کر ایئر بیس میں داخل ہونے لگا ۔۔ جسے فوری طبعی امداد کی ضرورت تھی ۔۔۔ کمانڈوز روسی نمائندوں کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد انہیں شام کی سرحد سے لے اڑے ۔۔ وہ بے بسی ہاتھ ملتے رہ گئے ۔۔ یوں ان کی زندگی کا یہ باب تمام ہوا
___________________________________________
چند دن بعد ۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو تم ۔۔؟ اسے کارٹون میں سامان بھرتے دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔
شفٹنگ کی تیاری ۔۔ بھئی بہت رہ لیا تمہارے گھر ۔۔ ویسے بھی اب تم واپس آگئے ہو ۔۔ وہ ٹیپ لگا کر کارٹون مفقل کرتے ہوئے بولی۔۔
تم اپنی ڈائری بھول گئی شاید ۔۔ شفق کے حرکت کرتے تھم گئے ۔۔ اس نے پلٹ کر دائم کا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے ڈائری لینی چاہی جس پر دائم کی گرفت بہت سخت تھی۔۔
تم نے بتایا نہیں مجھے کبھی ۔۔ ؟ دائم کا ارادہ اسے شرمندہ کرنے کا نہیں تھا ۔۔ وہ بس جاننا چاہتا تھا ۔۔
کس بارے میں ؟ اس نے لاشعوری طور پر نظریں چرالیں ۔۔ جیسے چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو ۔۔۔
دائم نے طویل سانس لے کر اپنے سوالات خود ہی مسترد کردئیے ۔۔کیونکہ اسے دوستی قائم رکھنی تھی۔۔اگر شفق نے نہیں بتایا تو اسے بھی پوچھنا نہیں چاہیئے تھا ۔۔مبادہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو کھونے سے ڈرتے تھے ۔۔
یہی کہ منصور نے تمہیں پرپوز کیا ہے ۔۔
اوہ ہاں ۔۔ میں تمہیں بتانے ہی والی تھی ۔۔ کیسا لگتا ہے تمہیں منصور ؟؟
تمہیں کیسا لگتا ہے ؟ دائم نے الٹا سوال اسے جڑ دیا
اچھا ہے ۔۔ وہ مختصر سا بولی
پھر کیا جواب دیا تم نے؟
میں نے ہاں کردی ۔۔
وہ آہستگی سے بولی
میں خوش ہو تمہارے لئے ۔۔ وہ مہربان مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے بولا ۔۔ شفق بھی مسکرادی
تم بتائو ؟ تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ کیا اب کبھی شادی نہیں کروگے ؟ وہ اب الماری سے کپڑے نکال کر بیگ میں ٹھونسنے لگی ۔۔
ارادہ تو ہے لیکن ۔۔
لیکن ؟ کیا ؟ وہ خوشگوار حیرت سے پلٹ کر پوچھنے لگی
پتا نہیں وہ کیسا ری ایکٹ کرے گی ۔۔
اسکی مسکین صورت شفق کو ہنسنے پر مجبور کرگئی ۔۔ یقین نہیں ہورہا یہ تم ہو ۔۔ بخدا بڑے ڈرپوک واقع ہوئے ہو ۔۔
ایسی بات نہیں ہے ۔۔وہ پولیس والی ہے اور سنا ہے کہ پولیس والوں کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی ۔۔
ہاہاہاہاہاہا وہ سن کر بھرپور انداز میں ہنسی ۔۔
پرپوز کر ڈالو میرے دوست اس سے پہلے لڑکی ہاتھ سے نکل جائے ۔۔ اور فکر مت کرو وہ تمہیں منع کر ہی نہیں پائے گی ۔۔تم ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہو ۔۔ شفق نے اسکا کندھا تھپتھپا کر فخریہ کہا
ٹھیک ہے تمہارے کہنے پر یہ رسک بھی لے لیتا ہوں ۔۔
وہ مانتا ہی بنا
ایک بار ایزی سے بھی پوچھ لینا محترمہ کی ناک بہت اونچی ہے یہ نہ ہو روز گھر میں تمہاری بیوی اور بیٹی کے بیچ معرکہ لوگوں کی دلچسپی کا بعث بنے
وہ لب دباتے ہوئے بولی
اب تم مجھے ڈرائو تو مت ۔۔ وہ گھور کر بولا ۔۔
ڈرا نہیں رہی حقیقت سے آشنا کروا رہی ہوں
وہ شریر ہوئی ۔۔۔
ایسی حقیقت سے میں لاعلم ہی بھلا ۔۔ وہ تیز لہجے میں کہتا باہر نکل گیا.۔۔ شفق نے مسکرا کر سر جھٹکا اور منصور کو میسیج کرنے لگی ۔۔
________________________________________
دھیرے دھیرے دوائوں سے غنودگی کا اثر زائل ہونے لگا ۔۔تو اسکا زہن بیدار ہوا۔۔ عمارا اسکے سینے پر سر رکھے آنسو بہارہی تھی ۔۔
ارے یار ۔۔ ! ایک تو تم روتی بہت ہو ۔۔ وہ شرٹ پر نمی محسوس کرتا ہوا بڑبڑایا ۔۔ عمارا نے آنسوئوں سے لبریز نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔
نظروں سے نگلنے کا ارادہ ہے کیا ؟ وہ اسکی خفا خفا نگاہوں کی تاب نہ لا کر ناک چڑھاتے ہوئے بولا ۔۔
تم نے تو جیسے مجھے تنگ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے ۔۔بد تمیز کہیں کے اس نے طیش میں آکر زوردار مکہ سینے پر جڑدیا ۔۔
مارو گی کیا ظالم ۔۔ وہ درد سے بلبلا اٹھا ۔۔۔
کیوں گئے تھے ؟ بنا بتائے ؟ مجھے انفارم بھی نہیں کیا ۔۔نہ کوئی میسیج نہ کوئی کال ۔۔ ایک بیہودہ سا لیٹر چھوڑ گئے ۔۔ جب میں نے کہہ دیا تھا مجھے تمہارے رہنا ہے ۔۔ پھر تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی میری بات ۔۔
پے در پے مکے برساتے ہوئے وہ بہت دنوں کا غبار نکالنے لگی ۔۔کس قدر ازیت میں مبتلا رہی تھی وہ ۔۔
موت کے منہ سے واپس آیا ہوں ظالم لڑکی ۔۔لیکن تمہارے دل میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں ۔۔
ابراہیم درد سے دہرا ہونے لگا ۔۔
تمہیں رحم آیا تھا مجھ پر ! وہ اسے گھور کر بولی ۔۔
اچھا نا یار ۔۔کچھ باتیں بتانے کی نہیں ہوتی ! اس لئے نہیں بتایا ۔۔ وہ ہنوز غیر سنجیدگی سے بولا ۔۔
تمہیں اگر کچھ ہوجاتا تو ۔۔ وہ سسک پڑی ۔۔
ابراہیم اسکی صورت دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔
سچ بتائوں تو مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا۔۔مگر تمہاری دعائیں رنگ لے آئیں۔۔تم نے دعا کی تھی میرے لئے؟؟ اسکے گرد بازو حمائل کرکے اسے اپنے ساتھ لگالیا ۔۔
اس نےاثبات میں سرہلایا۔۔
ویسے تم یہاں کیسے پہنچی ؟
یہ میرا ہاسپٹل ہے جناب ۔۔
عمارا کی پیش گوئی پر اس نے اطراف میں نظر گھمائی ۔۔ اچھا ۔۔ تو پھر یہ بتا دو کہ میں یہاں کیسے پہنچا ؟ اسے حقیقتا کچھ یاد نہیں آرہا تھا ۔۔
تمہارے جنرل تمہیں یہاں ہاسپٹلائز کرواکے گئے تھے ۔۔ تمہاری بیک میں سیرئیس انجری آئی ہے !
وہ آہستگی سے بولی ۔۔
مطلب میں اب چل پھر نہیں سکتا ؟
وہ خطرناک حد تک صاف گو تھا ۔۔
عمارا تڑپ اٹھی ۔۔
ایسے کیوں کہہ رہے ہو ۔۔ تم ریکور کرلو گے ڈاکٹرز شیور ہیں ۔۔ابراہیم ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا
پلیز اماں کو فلحال کچھ مت بتایا ۔۔
اسے صرف ان کی پرواہ تھی ۔۔ عمارا نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟
اسے اپنی طرف بغور دیکھتا پاکر چونک کر پوچھا ۔۔
تم سوچ بھی نہیں سکتے تم میرے کیا معنی رکھتے ہو ۔۔ تمہارے پیچھے میں نے کتنی دعائیں مانگیں تمہاری سلامتی کے لئے ۔۔ آنسو لڑھک کر اسکی گالوں سے بہنے لگے۔۔اسنے بے کس سی ہوکر اسکی پیشانی پر جلتے ہوئے ہونٹ رکھ دیئے ۔۔ابراہیم کے لبوں پر ایک سحر انگیز مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی ۔۔ ایسا اظہار محبت پانے کی خاطر تو وہ سو بار خطرات میں کود سکتا تھا
اچھا یہ بتائو احسان صاحب کب آئیں گے ؟ وہ رازداری سے پوچھنے لگا ۔۔
کیوں ؟ وہ چونکی
ان سے رخصتی کی بات کرنی ہے میں اور انتظار نہیں کرسکتا ! وہ پٹری سے اترا ۔۔
پہلے ٹھیک تو ہوجائو ۔۔عمارا نے اسے بہلانا چاہا
تمہارا مطلب ہے کہ میں بیمار ہوں؟ وہ برامانتے ہوئے بولا
عمارا اسکی بے نیازی پر عش عش کر اٹھی ۔۔
________________________________________
انہی دنوں میں سے ایک دن تھا جب وہ صبح آفس کے لئے نکل رہی تھی غیر معمولی طور پر آج لیٹ تھی ۔۔ وہ رات بھر کیس پر کام کرتی رہی تھی ۔۔ فون کی گھنٹی بجنے پر اس نے اٹھا کر کان سے لگایا اور چھوٹتے ہی بول پڑی ۔۔
ہاں گلشن ؟
گلشن تو ویران ہوچکا ہے آپ کے جانے کے بعد !
اک مانوس سی آواز اسکی دھڑکنیں ساکت کر گئی تھی ۔۔
آج لگ بھگ دو مہینے گزر چکے تھے ۔۔ اور اس بے مروت کو اب یاد آئی تھی ۔۔
تو میں کیا کروں ؟ انداز میں یک دم ناراضگی عود آئی ۔۔کیسی ہیں آپ؟ وہ اپنائیت سے پوچھنے لگا
جیسی تھی ۔۔ اس نے ٹکا سا جواب دیا
کیا پولیس والے ہمیشہ ایسے ہی بات کرتے ہیں۔۔اکھڑے اکھڑے لہجے میں انتہائی معصومیت سے دریافت کیاگیا
ہاں ہم ایسے بات کرتے ہیں ! وہ دوبدو بولی ۔۔
اچھا مل سکتی ہیں ؟ ایک بہت ضروری کرنا تھی ۔۔
دائم نے تمہید باندھی
جو بھی کہنا ہے یہیں کہہ دیں ! میرے پاس وقت نہیں ہے اس جانے اتنا غصہ کیوں آرہا تھا
وہ آپ کو بتانا تھا کہ میری بیٹی کو آپ بہت پسند آئیں ہیں ۔۔ تو ایسا کیا کروں کہ آپ اسکی والدہ محترم بننے کے لئے جھٹ پٹ تیار ہوجائیں ۔۔ کیونکہ ہم خاصے بے صبرے لوگ ہیں۔۔ اتنے غیر متوقع اظہار پر پل بھر کو اسکی دھڑکنیں مشتعل ہونے لگیں ۔۔
نایا ؟ آپ سن رہی ہیں نا؟ دیکھیں میری ایک بیٹی ہے جو خاصی شرارتی ہے ۔۔میری جاب بھی اچھی ہے ۔۔ اچھا خاصا کماتا ہوں ۔۔ کھانا بھی اچھا بنا لیتا ہوں ۔۔
اور ؟ وہ لاشعوری طور پر لب دباتے ہوئے بولی
میں خود بھی بھلا آدمی ہوں آپ خوش رہیں گی میرے ساتھ ! نایا کی بے ساختہ ہنسی چھوٹی ۔۔۔
اگر میں خوش نہ رہی تو ؟ اس نے جاننا چاہا
تو جو ضروری ہوا کر لیں گے ۔۔اب دوسری بار بھی کوئی لڑکی لعن طعن کرکے چلتی بنے گی تو خاصی بے عزتی والی بات ہوگی ! وہ آہ بھرتے ہوئے بولا ۔۔
نایا کھلکھلا لگا کر ہنس پڑی۔۔
میں سوچوں گی اس بارے میں ۔۔ فلحال آفس کے لئے لیٹ ہورہی ہو ۔۔ اس نے سنجیدگی سے کہہ کر کال کاٹی اور فائلیں سمیٹ کر مسکراتی ہوئی خارجی دروازہ عبور کر گئی ۔۔
یہ کیا بھئی؟؟ پاپا آپ نے تو انہیں ٹھیک سے پرپوز ہی نہیں کیا ! وہ ناک چڑھا کر بولی
عزت دار لوگ ایسے ہی پرپوز کرتے ہیں ۔۔
دائم نے اسے گھرکا
لیکن منصور نے شفق کو flower کے ساتھ پرپوز کیا تھا پاپا ۔۔ ایزی نے سر پکڑ لیا ۔۔
اب اس عمر میں تمہارا باپ پھول لے کر لڑکیوں کے پیچھے جاتا ہوا اچھا لگے گا ؟؟؟
But you’re still handsome
اس نے دہائی دی
خوبصورت لڑکیا ہینڈسم لڑکوں کو ہی ذلیل کرتی ہیں ! وہ سبزیاں پین میں ڈالنے لگا ۔۔۔
لیکن شفق نے تو منصور کو ذلیل نہیں کیا ۔۔ وہ بال کی کھال نکالنے بیٹھ گئی تھی
ایزی تم یہ شفق نامہ بند کردو یار ۔۔ اسکی شادی ہوگئی ہے اسے جینے دو !
وہ سوئزلینڈ میں ہوگی نا اس وقت ! ایزی نے حسرت گالوں پر ہاتھ جمائے ۔۔دائم اسے دیکھ کر رہ گیا ۔۔ جب سے وہ منصور کے ساتھ ہنی مون کے لئے گئی ۔۔ ایزی ہزاروں بار اسے فون کرچکی تھی ۔۔ بھلا ہو منصور کا جس نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔ورنہ اسے جھیلنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی ۔۔
آپ بھی ہنی مون پر سوئزلینڈ جائو گے ۔۔ ؟؟ وہ منمنائی ۔۔ ظاہر ہے ۔۔ وہ شرارتا مسکرایا
میں بھی جائوں گی وہ فورا بولی
نہیں ۔۔ ہنی مون پر صرف دلہن کے ساتھ جاتے ہیں !
وہ شریر ہوا
تو میں کب دلہن بنوں گی ؟ وہ سوئٹزرلینڈ جانے کے بھرپور ایکسائٹد تھی
کبھی نہیں ! وہ یکدم بولا
لیکن شفق کہتی ہے ہر لڑکی کو ایک نہ دن دلہن بننا ہوتا ہے ! وہ ناک چڑھانے لگی
تم نہیں بنو گی نا ۔۔ تم میرے ساتھ رہو گی ہمیشہ ۔۔ وہ مسکرا تے ہوئے اسے چھیڑنے لگا ۔۔
this is not fair papa …
وہ روہانسی ہونے لگی ۔۔ دائم قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔
مجھے سب سے پہلے تمہارے لئے ایک ہنڈسم لڑکا ڈھونڈنا ہوگا ۔۔ پھر ہی تمہیں دلہن بنایا جا سکتا ہے نا ۔۔ اب منصور ہی دیکھ لو ! شفق کتنی اچھی لگتی ہے اسکے ساتھ ۔۔ وہ رسان سے بولا
علی بھی تو ہینڈسم ہے ! اس نے جیسے یاد دلایا
علی ؟وہ بالوں کی دکان؟ واقعی ؟ وہ برا منہ بناتے ہوئے بولا
پاپا ۔۔ ہی از مائے فرینڈ ! وہ برا مان گئی ۔۔
دائم مسکرا کر نفی میں سر جھٹکا اور اسکی پلیٹ میں کھانا چننے لگا
________________________________________
آج دو ہفتے گزرنے کے بعد انکی رخصتی کے ساتھ ہی شزانہ اور یوسف کی انگیجمنٹ کا فنکشن منعقد کیا گیا تھا ۔۔البتہ میجر عون کے گھر والے شادی ارادہ رکھتے تھے ۔۔جسے جلد ہی عملی جامہ پہنایا جانا تھا ۔۔ یوسف نے بھی فلحال منگنی پر زور دیا تھا ۔۔ ابراہیم پہلے سے قدرے بہتر تھا ۔۔ مگر بلکل احتیاط نہیں برت رہا تھا ۔۔عمارا اسکے لئے بیحد پریشان تھی ۔۔ریڑھ کی ہڈی کا مسلہ تھا کوئی معمولی بات نہ تھی ۔۔۔فاتح اور نوال ہنی مون کے لئے جانا چاہتے تھے مگر انکی رخصتی کی خاطر اردہ ملتوی کردیا تھا ۔۔
اتنے دل جلے عاشق والے ایکسپریشن کیوں دے رہے ہو ؟ مسکرا ہی دو خیر سے لو میرج کے بعد رخصتی ہورہی ہے ۔۔ عون نے اسکی سڑی ہوئی شکل پر چوٹ کی ۔۔۔
بک مت اس وقت شدید تکلیف سے دوچار ہوں ورنہ تجھے بتاتا ! وہ واقعی تکلیف میں تھا ۔۔ مگر ماحول کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے کسی پر جتا نہیں سکتا تھا ۔۔
تو صبر کر لیتے بے صبرے انسان ۔۔ عون نے اسے گھرکا
تیرے ارادے بھی مجھے کچھ ایسے ہی لگ رہے ہیں ۔۔ ابراہیم کا اشارہ تاشا اور اسکے رشتے والی بات جانب تھا ۔۔ ہاں وہ بس۔۔۔ اچھی لگی تھی پہلی نظر میں ۔۔
عون کھسیا کر بولا۔۔ ابراہیم کی غیر موجودگی میں وہ رشتہ لے کر آئے تھے ۔۔ اسے معلوم ہونے پر وہ عون سے سخت ناراض تھا ۔۔
بہنیں سب کو اچھی لگتیں ہیں ۔۔
اوئے ۔۔ بہن ہوگی تیری ۔۔ وہ فورا بولا تھا ۔۔
تم بھی بہن ہی سمجھو اسکو ۔۔ ابراہیم نے دو ٹوک کہا ۔۔ یار۔۔۔ عوج اپنی سی شکل لے کر رہ گیا ۔۔
میں سینیِئر ہوں تمہارا ۔۔ میری بات حکم کا درجہ رکھتی ہے تمہارے لئے ! عون نے رعب ڈالنا چاہا ۔۔
میں بھی سینیئر ہوں اس گھر میں ۔۔میری بات بھی حکم کا درجہ رکھتی اس گھر میں ۔۔
وہ ابراہیم ہی کیا جو کسی رعب تلے دب جائے ۔۔
یار میں خوش رکھوں گا تمہاری بہن کو۔۔ قسم سے
عون التجائیہ گویا ہوا ۔۔
اسکی شکل دیکھ کر ابراہیم کی بے ساختہ ہسنی چھوٹی ۔۔۔ عون نے سکون کا سانس لیا ورنہ تو ابراہیم نے اسے ڈرا دیا تھا ۔۔۔
چلو نکلو اب مجھے اکیلے میں اپنی بیوی کی تعریف کرنی ہے ! عون جان دار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔ ابراہیم بھی مسکراتے ہوئے اسٹیج کی جانب مڑ گیا ۔۔
______________________________________
| تین مہینے بعد |
وہ نایا اور دائم کے نکاح کی تصاویر دیکھ رہا تھا ۔۔جو اس نے چپکے سے نکالی تھیں ۔۔ وہ دونوں اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے تھے اور شاید ‘اس’ باب کو بھلا چکے ہوں گے ۔۔شاید انہیں یاد بھی نہ ہو کہ کبھی کسی فیصل نامی شخص کے ساتھ انہوں نے کام کیا تھا ۔۔لیکن اس اک باب نے فیصل کی پوری زندگی بدل دی تھی ۔۔ ‘آفیسر ‘ اور کیپٹن’ اسکی زندگی کا اہم حصہ بن گئے تھے ۔۔ اسکے لئے فیملی کی طرح تھے۔۔آج پھر سے ایک بار ان کی شادی کی تصاویر دیکھتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگیا تھا ۔۔ اسکا شدت سے دل چاہا وہ اک بار پھر شام کی گلیوں میں لوٹ جائے ۔۔ دو ہفتوں پر مشتمل کسی مشن کا پھر سے آغاز ہو ۔۔ قدرت پھر سے اک بار اسے اپنے ‘کیپٹن ‘ اور ‘آفیسر’ کے مل کر کام کرنے کا موقع دے ۔۔ مگر یہ کہاں ممکن تھا ۔۔ یہ تو ناممکن ۔۔
گزرا وقت لوٹ کر نہیں آتا ۔۔بلکے حیسن یادوں کی اک لڑی انسان کے ہاتھوں میں تھما جاتا ہے ۔۔
وہ انہیں بہت یاد کرتا تھا ۔۔ حتی کہ انہیں فالو بھی کرتا تھا۔۔ جسکی انہیں خبر تک نہیں تھی ۔۔ہر وہ کام جو وہ وطن کے لئے سر انجام دے چکے ہو ۔۔ چاہے وہ کتنا ہی عظیم ہو ۔۔ انہیں اپنے سینے میں دفن کرلینا تھا ۔۔ انہیں اشتہار لگانے کی اجازت نہیں تھی ۔۔ فیصل نے بھی اپنے دل میں زندگی کا یہ حسین باب دفن کرلیا تھا ۔۔اُن دونوں کی محبت اسکے دل کے ایک کونے میں ہمیشہ رہنے والی تھی ۔۔ فیصل؟؟
ہوں ہاں ؟؟ اس نے تصویر فورا سے پہلے تکیے کے نیچے سرکائی ۔۔
چائے ٹھنڈی ہوگئی ہے ۔۔ تم کہاں گم ہو ؟ آیت کو تعجب ہوا ۔۔۔
کہیں نہیں بس ! وہ اداسی سے مسکرایا ۔۔.
کہیں تو ہو ۔۔ مگر یہاں نہیں ہو ۔۔ کیا ہوا ؟ کوئی بات ہوئی ہے کیا؟ تم جب سے اسلام آباد سے واپس آئے ہو کہیں کھو گئے ہو ۔۔؟ وہ پہلے والا شوخ ،چنچل،اور خوش مزاج فیصل تو کہیں دکھائی نہیں دے رہا ؟
تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے ۔۔ میں میچیور ہوگیا ہوں ۔۔ باقاعدگی سے آفس جانے لگا ہوں ۔۔ وہ سادگی سے بولا تھا مگر آیت کو اسکے الفاظ اندر تک اترتے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔ وہ یاس سے گویا ہوئی
اپنی اسلام آباد والی جاب کو مس کر رہے ہو ؟
بہت ۔۔ وہ افسردگی سے مسکرایا
تو دوبارہ جوائن کرلو ؟ اسکی لاعلمی پر وہ ہلکا سا ہنسا ۔۔ مگر کہا کچھ نہیں ۔۔ وہ کئی ثانیے اسے دیکھتی رہی ۔۔ اسکے فائنل ہونے میں ایک مہینہ باقی تھا اسکے بعد ان کا نکاح تھا ۔۔
تم بہت بدل گئے ہو فیصل !
بدلائو اچھا ہوتا ہے آیت ۔۔ وہ مسکرا کر بولا
آیت کو اسکی کھوکھلی مسکراہٹ اندر تک دہلا گئی ۔۔ وہ سب چاہتے تھے فیصل بدل جائے ۔۔ وہ زندگی کے معاملات کو لیکر سیرئیں ہوجائے ۔۔ اب جب وہ سیرئیس ہوگیا تھا تو اسے بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اداس ہے ۔۔ وہ کچھ چھپا رہا ہے ۔۔کسی دکھ کو دبا رہا ہے
اسکی اداس آنکھیں سب بیاں کرتی تھی۔۔اسکی ہنسی میں کھلکھاہٹ تھی۔۔نہ ہی مسکراہٹ میں وہ پہلے سی بے ساختگی۔۔ آیت نے سر جھٹک کر خاموشی سے چائے سے بھرا کپ لیا اور ایک نظر لیپ ٹاپ کی اسکرین سے امڈتی روشنی میں اسکی سنجیدہ صورت پر ڈال کر باہر نکل گئی ۔۔
______________________________________
Las vegas ۔
وہ تیز تیز قدموں سے چلتی طویل راہداریوں کو عبور کرنے کے آخری مراحل میں تھی ۔۔کہ اچانک ایک کمرے سے کسی نے کلائی تھام کر اسے اندر کھینچ لیا ۔۔۔وہ بوکھلا کر گئی
ہیپی اینورسری ۔۔۔ انتہائی دلفریب انداز میں اسکے کان کے قریب گنگنایا ۔۔ وہ دھڑکنیں سنبھالتی ہوئی تنے نقوشوں کے ساتھ پلٹی ۔۔
تم ؟؟؟ یہاں کیا کر رہے ہو؟؟
ڈیوٹی۔۔۔ دائم مئودبانہ گویا ہوا
یہ ڈیوٹی کر رہے ہو؟ اس نے توجہ دلائی
یہ بھی تو میری ڈیوٹی کا ایک حصہ ہے !
وہ جتا کر کہتا فاصلہ سمیٹ کر نزدیک ترین ہوا ۔۔۔
پندرہ دن سے غائب ہو ؟ گھر کب آرہی ہو ۔۔ میں تمہیں مس کر رہاہو ؟؟ وہ بوجھل آواز میں بولا ۔۔ نایا مشن پر تھی ۔۔جبکے وہ فارن منسٹر کی وزٹنگ ٹیم کے سکیورٹی کیپٹن کی حیثیت سے چند روزہ دورے پر آیا تھا ۔۔
شاید پندرہ دن اور لگیں ۔۔ اس نے جھوٹ گھڑا
یہ تو زیادتی ہے ۔۔ اس نے مسکین صورت بنائی
کوئی زیادتی نہیں ہے ۔۔ جاب ہے یہ ! وہ شریر ہوئی
یہ کیسی ظالم جاب ہے یار ۔۔جو ہم دونوں کو ملنے نہیں دے رہی وہ دلگیری سے بولا ۔۔ نایا نے بمشکل لب دبائے
کیپٹن یہاں معاملہ بگڑ گیا ۔۔ جلد پہنچیں ! اسے پیغام موصول ہوا ۔۔
یار تم لوگ تھوڑی دیر سنبھال نہیں سکتے ۔۔ یہاں میرا معاملہ بگڑ رہا ہے ! وہ جل کر بولا تھا۔۔
لاسٹ وارننگ دے رہا ہوں۔۔ چند دن سے زیادہ نہیں ہونے چاہیئے ! ورنہ بہت برا پیش آئونگا ۔۔ وہ وارن کرتا ہوا بولا ۔۔
جائو یہاں سے ورنہ کوئی دیکھ لے گا ! وہ مسکراتے ہوئے اسے باہر دھکیلنے لگی ۔۔ جاتے جاتے اسے شرارت سوجھی تھی ۔۔ اسکے جوڑے میں مقید بالوں کو کاندھوں پر بکھیرگیا ۔۔ نایا خوشمگین نگاہوں سے اسکی پشت کو گھورا تھا۔۔ اور پھر سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے بال لپیٹنے لگی ۔۔ اسکے سنگ زندگی بہت خوبصورت ہوگئی تھی ۔۔
_________________ ختم شد _________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...