سرخ گلابوں سے سجی خوبصورت سیج پر سرخ بھاری کام سے سجے شرارے میں ملبوس انیس سالہ لڑکی پر پریوں سا روپ آیا تھا۔۔۔ ماں نے کئ بار نظر اتاری غرض یہ کہ جس آنکھ نے آج اسے دیکھا ان میں اس کے لئے ستائش تھی ۔۔۔
اس کی سکھیوں نے بھی خوب چھیڑا کے آج تو دولہے میاں کے ہوش اڑے ہی اڑے ۔۔۔۔
ایسا ہونا بھی تھا ۔۔۔۔۔۔مگر !!!! اس لڑکی کی باطنی حالت بالکل مختلف تھی اس کے دل میں نئی نویلی دولہن والے جذبات نہ تھے بلکہ اسکا ذہن تیزی سے کچھ سوچنے میں مگن تھا۔۔۔
ایک نتیجے پر پہنچ کر وہ اپنے بھاری کام سے مزین لہنگے کو سنبھالتی ہوئی کھڑی ہوئی اور تیزی سے سنگھار میز کے سامنے آئ۔۔۔۔۔۔ ایک نظر خود پر ڈالنے کے بعد اپنا زیور اتار کر سنگھار میز پر پٹخنے لگی جس کے نتیجے میں کچھ چوڑیاں زمین پر بکھر کر ٹوٹ گئی ۔۔۔۔۔
آہ !!!!!! انسان کا دل بھی تو ان کانچ کی چوڑیوں جتنا نازک ہوتا ہے ذرا سی چوٹ پر یونہی تو ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔۔۔۔ جیسا اس وقت شیشے کے سامنے کھڑی اس نازک سی لڑکی کے ساتھ ہوا تھا ”
خود کو سارے زیورات سے آزاد کروانے کے بعد باتھ روم کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔
کچھ وقت کے بعد وہ سادہ سے کاٹن کے گلابی لباس میں باہر آئ۔۔۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں سرخ شرارہ رول کی صورت میں پکڑا ہوا تھا جسے غصے سے ایک کونے میں پھینکنے کے بعد بستر کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔
سائیڈ ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھا کر بستر کی ایک سائیڈ بھگونے کے بعد اطمینان سے ہاتھ جھاڑتی ہوئی بستر کی دوسری جانب دراز ہو کر لائٹ آف کرکے کمفرٹر منہ تک لے لیا۔
جبکہ اس وسیع و عریض کمرے کے کونے میں پڑا ڈیزائنر لہنگا جسے کبھی پہننے کے وہ کبھی خواب دیکھتی تھی اپنی بے قدری پر آٹھ آنسو بہا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زوہا ۔۔۔۔ زوہا کہاں ہو میں کب سے آواز دے رہی ہوں”
“جی مماں آئ ابھی “۔۔۔
ستواں ناک ، بڑی بڑی شرارتی آنکھیں ، گلابی گال ، بھرے بھرے لب ، مناسب قد کی نازک سی لڑکی نے سیڑھیوں پر سے پھلانگنے کے سے اترتے ہوئے آواز لگائ۔
“آپ نے بلایا مماں” ۔۔۔۔۔ زوہا نے کیچن کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔
” کہاں تھی میں کب سے آواز دے رہی تھی یقینا لگی ہوگی اس موبائل میں اب جلدی سے سلاد بنائو پتا ہے ناں تمہارے بابا سلاد کے بغیر کھانا نہیں کھاتے”۔۔۔۔
نسرین بیگم نے اسے بولنے کا موقع دیئے بغیرخود ہی سوال جواب کرتے ہوئے اسے حکم دیا ساتھ ہی ان کے ہاتھ تیزی سے روٹی بنانے میں مصروف تھے ۔
ذوہا نے ان کی بات سن کر برے برے منہ بنا کر سلاد بنانا شروع کر دی۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ایک مردانہ بھاری آواز گونجی ۔۔
” زوہا ااااااااااا “۔۔۔۔
“بابا” ۔۔!
زوہا سب کام چھوڑ چھاڑ آواز کی جانب لپکی ۔۔۔
“زوہا آرام سے” ۔۔ نسرین بیگم نے پیچھے سے ہانک لگائ ۔۔۔۔
“بابا میری آئیسکریم لائے آپ ؟؟؟” ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے خوشی سے لائونج میں موجود اپنے باپ کے گلے لگتے ہوئے پوچھا ؟؟؟؟
“سوری بیٹا وہ تو میں لانا بھول گیا “۔۔۔۔۔
اظہار صاحب نے افسردہ منہ بناتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔۔
“میں آپ سے بات نہیں کروں گی” ۔۔۔۔ ناراضگی سے کہتی زوہا صوفے پر بیٹھی۔۔۔۔۔
“آہ پھر تو جو آئیسکریم میں لایا وہ ساری اذان کی”۔
آپ بھی سوچ سوچ رہے ہونگے جان نہ پہچان کس کے گھر لے آئی۔۔۔۔ میں آپکو تو چلیں تعارف کے لئے تھوڑی زحمت کریں اور دوبارہ باہر چلیں ۔۔۔۔۔
یہ جو دو منزلہ عمارت آپ دیکھ رہے ہیں اس پر ضیاءالدین (مرحوم ) کا نام جلی حروف میں درج ہے۔۔۔ اس گھر میں ان کے دو بیٹے رہائش پذیر ہیں ۔
بڑے بیٹے انوار صاحب اور چھوٹے اظہار صاحب ۔
انوار صاحب کی تین اولادیں ہیں ۔۔۔
سب سے بڑے پچیس سالہ فائز جو اپنی میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آجکل ہائوس جاب میں بزی ہیں ۔
ان سے چھوٹے اکیس سالہ مائز یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ۔
اور سب سے چھوٹی اٹھارہ سالہ رمشا جو کہ آجکل بارھویں کے امتحان دے کر فارغ ہونے کے بعد میڈیکل کالج میں داخلے کی تیاری کر رہی تھی ۔
اظہار صاحب کی دو اولادیں ہیں۔۔۔۔
سب سے بڑی زوہا جو کہ رمشا ہی کی ہم عمر ہے اور اس کے ساتھ ہی داخلے کی تیاری کر رہی تھی اور دونوں میں خوب گاڑھی چھنتی ہے۔۔۔۔۔
اور اس سے چھوٹا اذان جو کہ میٹرک کا طالبعلم ہے ۔
نسرین بیگم اور عائلہ بیگم ( انوار صاحب کی زوجہ ) میں روائتی دیورانی جیٹھانی والہ رشتہ نہ تھا۔۔۔۔
یہ ایک خوشحال متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والہ گھرانہ تھا جہاں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی ان کے جینے کی وجہ تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسرین رات کے دو بجے کچن میں پانی پینے جا رہی تھی ۔۔کہ انہوں نے دیکھا کہ زوہا کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی ۔
انہوں نے اس کے کمرے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو زوہا پڑھنے میں مصروف تھی ۔
” زوہا بیٹا سو جائو رات بہت ہو گئی اب ۔”
” نہیں مماں مجھے پڑھنا ہے آپکو پتا ہے ناں میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے کومپیٹیشن کتنا ٹف ہو گیا ہے ۔ اور ڈاکٹر بننا میری زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے تو اسے پورا کرنے کے لئے میں کچھ بھی کروں گی ۔ ”
“بیٹا آپ کی بات ٹھیک ہے پر خود کو تھکائو مت ورنہ بیمار پڑ جائو گی تو کام کیسے چلے گا ۔”
” اچھا میری پیاری مماں پریشان نہ ہوں بس پندرہ منٹ اور پھر سورہی ہوں میں ۔ ”
“چلو بس پندرہ منٹ اور پھر سو جانا”۔۔۔۔۔۔
نسرین بیگم اسے ہدایت کرتے ہوئے چلی گئیں ۔۔۔۔۔۔
ان کے جانے بعد اس نے باقی بچا ہوا کام نبٹایا اور اپنی کتابیں سمیٹ کر سونے کے لئے لیٹ گئی ۔
مستقبل کے سنہرے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے وہ نجانے کب نیند کی وادی میں اتر گئی ۔
“آہ لیکن کون جانے کہ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اس نازک سی لڑکی کو کن کن راستوں سے گزرنا پڑے گا ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھااااااااہ ۔۔۔۔۔۔ گولی کی تیز آواز اس خاموش جنگل کی خاموشی کو چیرتے ہوئے درختوں پر موجود پرندوں جو کہ اس شور سے نامانوس تھے کو ان کے گھونسلوں سے اڑا گئی تھی ۔
“واہ سائیں واہ آپ سے اچھا نشانہ اس پورے گائوں میں تو کیا آس پاس کے کے کسی گائوں میں کوئی نہیں لگا سکتا ۔” بخشو نے ہاتھ جوڑ کر خوشامدی انداز اپنایا ۔
اس سنہری آنکھوں والے شہزادے کے گہری مونچھوں تلے دبے عنابی لب مسکرائے تھے ایسے تعریفی جملے سننے کا وہ عادی تھا ۔
چھ فٹ سے نکلتا قد ، کسرتی جسم ، لمبی مغرور سی ناک ، عنابی لب ، سنہری آنکھیں وہ ایسا تھا جو ایک بار دیکھے دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو جائے ۔
وائٹ کاٹن کے کلف لگے سوٹ میں اس کا سراپا نمایاں تھا جس کو سندھی اجرک نے چار چاند لگا دیئے تھے
“سائیں آگے کا کیا ارادہ ہے ؟؟ ”
بخشو نے داور سے پوچھا ۔۔
“اللہ ڈنو سے کہو گاڑی تیار کرے حویلی کے لئے”۔۔۔۔
داور نے ہاتھ میں پہنی ہوئی قیمتی گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
“جو حکم سائیں” ۔
بخشو ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوا پلٹ گیا ۔۔۔۔
گاڑی کے حویلی میں جا کر رکتے ہی ایک ملازم بھاگتا ہوا آیا اور داور کی جانب کا دروازہ کھولا ایک شان سے وہ شہزادہ گاڑی سے اتر کر آگے بڑھا ۔۔۔۔۔
راستے میں آنے والے ملازموں کے سلام کے جواب سر کے اشارے سے دیتا ہوا حویلی میں داخل ہوا اور سیدھا اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔
دستک دے کر اندر داخل ہوا جہاں ایک ادھیڑ عمر کی عورت بیڈ کرائون سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ داور ان کو سلام کرتا ہوا ان کے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا کر ان کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
ان خاتون کی آنکھوں کی چمک داور کو دیکھ کر بڑھ گئی انہوں نے اس کے سلام کا جواب دے کر آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چوما ۔
” کیسی ہیں اماں سائیں آپ ؟؟”
داور نے پوچھا ۔۔۔۔
“وہ عورت کیسی ہو سکتی ہے جسکا جوان بیٹا ہوتے ہوئے بھی وہ پوتا پوتی بھی نہیں کھلا سکتی “۔۔۔۔
گلزار بیگم نے ناراضگی سے بھرپور لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔۔
” او میری پیاری اماں سائیں ہو جائیگی شادی بھی اتنی بھی کیا جلدی ہے “۔
داور نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کو ٹالتے ہوئے کہا ۔
“یہ جلدی ہے تو پھر دیر کیا ہوگی ۔” گلزار بیگم نے کہا ۔ “بتیس کا ہو گیا اب کیا بوڑھا ہو کر شادی کرے گا ۔”
آج ایسا لگ رہا تھا گلزار بیگم اس سے ہاں کرواکے ہی مانیں گی ۔
“اچھا اماں سائیں کرلوں گا بس تھوڑا سا ٹائم اور ۔۔۔۔۔”
” بس اب اور کوئی ٹائم نہیں ۔۔ ”
گلزار بیگم نے اس کی بات کاٹ کر بولی ۔۔
” اماں سائیں بس تھوڑا سا ٹائم اور جہاں اتنا ٹائم دیا وہاں تھوڑا سا اور ۔۔۔ ”
داور بولا ۔۔
“ٹھیک ہے چھ ماہ بس چھ ماہ کا ٹائم ہے تمہارے پاس۔ اسکے بعد میں تمہاری ایک نہیں سنوں گی۔ ” گلزار بیگم حتمی انداز میں بولی ۔
داور نے ان کے ہاتھ چومے اور کہا ۔۔۔۔۔!!!!!!
شکریہ اماں سائیں اب بھوک لگ رہی ہے۔ چلیں کھانا کھائیں ۔۔”
” ہاں میں کھانا لگواتی ہوں تم فریش ہو کر آجائو ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مماں میں اوپر رمشا سے نوٹس لے کر آ رہی ہوں ”
زوہا رمشا بیگم کو بتا کر اوپر چلی آئی ۔
اوپر پہنچ کر اس نے رمشا کو دو تین آوازیں لگائی کوئی جواب نہ پا کر وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھی کہ سامنے سے عجلت میں آتے فائز سے زوردار تصادم ہوا جس کے نتیجے میں وہ زمین بوس ہوتی جاتی کہ فائز نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا ۔
وہ دونوں ہاتھ اس کی کمر کے گرد باندھے مدہوش سا اس کے چہرے کو تک رہا تھا ۔
کہ زوہا کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی۔۔۔۔۔۔۔
“فائز بھائی چھوڑیں مجھے ”
“یار بھائی بولنا لازمی ہے ؟؟؟؟”
جھنجھلا کر گویا ہوا ۔۔۔
“کیوں فائز بھائی رمشا بھی تو آپکو بھائی ہی بولتی ہے کیا آپ میں آپکے لئے رمشا جیسی نہیں ہوں ۔۔۔۔”
“ارے تم میرے لئے کیا ہو اور کیا نہیں اس بات کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھو فلحال یہ بتائو آج اس چاند نے ہمارے گھر کا رخ کیسے کر لیا ”
فائز نے پوچھا ۔۔۔۔
” ارے ہاں وہ فائز بھائی میں وہ رمشا سے نوٹس لینے آئی تھی کہاں ہی وہ ؟؟؟؟”
زوہا نے پہلے سر پر ہاتھ مار کر اسکے سوال کا جواب دیا پھر اس سے سوال کیا ۔۔۔۔۔۔
” رمشا اور مماں تو مارکیٹ گئے ہیں ۔۔۔ ”
فائز نے بتایا ۔۔۔۔۔۔
“چلو پھر میں چلوں رمشا آئے گی تو پھر لے جائوں گی نوٹس”
یہ کہہ کر وہ جانے لگی ابھی وہ مڑی ہی تھی کہ فائز نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب موڑا اور تھوڑا قریب ہو کر گھمبیر لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
” کبھی گھڑی دو گھڑی ہم سے بھی بات کر لیا کرو ۔۔”
زوہا نے گھبرا اس سے ہاتھ چھوڑایا
” وہ مماں مجھے آواز دے رہی ہیں۔۔۔۔۔”
یہ کہہ کر تقریبا بھاگتے ہوئے نیچے چلی گئی
پیچھے کھڑے فائز نے مسکرا کر بالوں میں ہاتھ پھیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہا نیچے آ کر بغیر ادھر ادھر دیکھے سیدھی اپنے کمرے میں چلی آئی دروازہ بند کر کے اس سے ٹیک لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگی
وہ بچی نہیں تھی جو فائز کی نظروں میں مچلتے پیغام کو نہ پڑھ پائے پر وہ فلحال ان چیزوں سے دور رہنا چاہتی تھی ۔۔۔
حواس تھوڑے بحال ہونے پر وہ بیڈ پر آ کر بیٹھ کر اپنی بکس کھول کر پڑھنے لگی کیونکہ جو بھی تھا اس کی پہلی ترجیح اس کے خواب ہی تھے ۔۔۔۔
“پر کون جانے آگے جا کر زندگی اس کے لئے کیا سوغات لانے والی تھی ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...