خالی ذہن ،خالی دل ،ٹوٹےوجود کی کرچیوں کو سمیٹ کر وہ بھی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا ۔اور پھر کتنی ہی دیر بے مقصد ہاتھوں کی لکیروں کو گھورتا رہا ۔
وہ بدل گئی تھی ۔رتبے میں مرتبے میں مگر وہ آج بھی وہیں کھڑا تھا جہاں سے آغاز تعلق ہوا تھا بدلی تو صرف دل کی کیفیت تھی ۔فودیل زکی آج بھی وہیں تھا اس نے روفہ کو نہیں ٹھکرایا تھا شاید روفہ ہی خاموشی سی اس کو چھوڑ کر ٹھکرا گئی تھی ۔اگر آج بھی ان دونوں کا سامنا نا ہوا تو ؟؟؟ اس ” تو ” کے آگے جو جواب تھا وہ فودیل زکی کو ریت کے زروں کی مانند بکھیرنے کو کافی تھا ۔
اگر وہ اتفاقا اس کے سامنے نا آتی تو وہ کبھی اس کا چہرہ تک نا دیکھ پاتا ۔اس کی واپسی کے راستے اس نے اپنے ہاتھوں سے ہی بند کیے تھے ۔
فودیل کو یاد آیا ایک سال پہلے اس کے بی اے کا آخری ائیر تھا ۔اور یقینا وہ اپنے فائینل پیپرز کے ساتھ سی ایس ایس کی بھی تیاری کرتی تھی ۔تبھی ساری ساری رات جاگ کر کبھی بالکنی میں کبھی گارڈن میں بغیر موسم کی پرواہ کیے پڑھتی رہا کرتی تھی ۔
وہ تو یہ تک نا جانتا تھا بی اے میں اس کا میجر سیبجیکٹ کیا ہے موٹی موٹی کتابیں دیکھ کر وہ یہ بھی اندازہ نا لگا سکا کہ وہ ہیں کس چیز کی ۔۔
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اپنی بے خبری پر ہنسے تڑپے یا بے بسی محسوس کرے ۔۔
فون کی چنگاڑتی آواز اس کو سوچوں کے بھنور سے باہر لے کر آئی تھی ۔اور جو اطلاع اس کو دی گئی تھی اس پر فودیل کے دماغ نے کام کرنا بالکل بند کر دیا تھا
ہستپال کے کوریڈور میں ہائیسم اور عالم روہانسے چہرے فق رنگت لیے آئی یو سی کے باہر کھڑے تھے
فضا کو آج صبح ہاٹ اٹیک آیا تھا ۔وجہ کیا تھی یہ سب ہی جانتے تھے ۔آج تک فضا کی ساری بیماری کی وجہ جانے انجانے میں روفہ کی ذات ہی بنتی آئی تھی
فودیل شکستہ چال چلتا ہائیسم کے برابر آ کھڑا ہوا جس نے ایک کاٹ دار نظر اس پر ڈال کر منہ پھیر لیا جبکہ عالم نے اس پر نگاہ ڈالنا بھی گوارہ نہیں کیا ۔
تھوڑی ہی دیر میں نانا بھی ترتیل کو لے کر وہاں ہی آگئے تھے ۔ہر ایک کی زبان پر فضا کی خیریت کی دعا تھی ۔ڈاکٹرز نے مائینر اٹیک کا کہہ کر تسلی بھی دی تھی مگر ہائیسم اور عالم کو پھر بھی چین نا آیا تھا ۔
ترتیل نے ہائیسم کے کندھے پر جائے پناہ ڈھونڈی ۔۔وہ بہت ڈر چکی تھی ۔ماں کو تو کبھی دیکھا نا تھا مگر جو ماں جیسی تھی اس کو کھونے کی سکت نا تھی ۔
” وہ ٹھیک تو ہو جائیں گی نا ۔”
ترتیل نے کسی خدشے کے زیر اثر امید کی آنچ لیے پوچھا ۔۔
” ہونا پڑے گا ۔ورنہ ہمارے زندہ رہنے کا جواز ہی کیا رہ جائے گا ۔”
وہ یقینی اور بے یقینی کی کیفیت میں الجھ کر بولا ۔ تین عورتوں سے اس کو بے پناہ محبت تھی ایک پاس تھی تو دوسری دور ہو چکی تھی مگر تیسری کو کھونے کا حوصلہ اس میں قطعی نا تھا ۔
فودیل نے نانا کو دیکھا جو آہستہ آواز میں عالم کے ساتھ کھڑے ڈاکٹر سے کچھ بات کرنے میں مصروف تھے اس نے دیکھ کر نظر جھکا لی ۔
بھاری قدموں کی چاپ پر سب نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا ۔جہاں دور سے وہ حواس باختہ سی بھاگتی ہوئی آرہی تھی۔ پریشان سی اجڑی حالت بے پراوہ ڈوپٹا سارا ہوش بھلائے اس کے قریب سے قریب تر دوڑھی چلی آرہی تھی ۔فودیل اس کے تیکھے نقوش اور ہوا کے دوش سے اڑتے بالوں کو بے خودی کی کیفیت میں دیکھے گیا ۔
اس کے سامنے سے تین انچ کے فاصلے سے روفہ کے قدم آگے بڑھے تھے ۔سفید چادر کا سایہ فودیل کے چہرے پر مہربان ہوا تھا ۔یہ وہ خوشبو تھی جو وہ ہر رات اپنے بستر سے آتی محسوس کیا کرتا تھا ۔یہ خوبشو وہ تو دنیا کے مہنگی سے مہنگی کڑوروں خوبشووں میں بھی پہچاننے کی حس رکھتا تھا ۔
” بابا ماما کو کیا ہو گیا ۔یہ سب میری وجہ سے ہوا نا ۔وہ مجھے کتنا کہتی تھیں کہ میں واپس آجاوں مگر میں نہیں آئی اس لیے ان کا دل جو مجھ میں اٹکا رہتا تھا وہ ہی کام کرنا بند کر گیا ۔”
وہ عالم کے سینے سے لگ کر بولی ۔اس کے نمناک لہجے پر فودیل کی نظروں میں لالی بڑھ گئی ۔جبڑے بھینجے وہ بس اس کی تڑپ کو برداشت کرنے پر ہی قادر تھا ۔اتنی ہمت بھی نا تھی کہ ہائیسم کی طرح اپنی بیوی کو حصار میں لے کر تسلی کے دو بول ہی کہہ دیتا ۔نانا اس کے بدلے تاثرات کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر کر وہ گئے ۔۔
” تم تو اتنی بے حس ہو کہ اپنے ماں باپ کی موت پر بھی نہیں روئی ۔تم سے اور کس چیز کی توقع کی جاسکتی ہے ۔”
روفہ کی خشک آنکھیں دیکھ کر اپنے ہی الفاظ کانوں میں گونجے ۔
” بھائی آپ جانتے ہیں روفہ کو پی بی اے ایفیکٹ تھا ۔”
روفہ کے جانے کے چھ ماہ بعد ایک دن ترتیل نے گارڈن میں اس کے پاس بیٹھ کر کہا تھا۔ وہ ٹھٹھک کر اس کی جانب دیکھنے لگا تھا
” یہ کب ۔۔۔ککک کب کی بات ہے ۔۔مطلب تم تمہیں کیسے پتا ۔”
اس نے خشک پڑتی زبان سے ٹوٹے بکھرے الفاظ میں پوچھا تھا ۔ایک اور الزام کا اضافہ اس کے خاتے میں لکھا چا چکا تھا ۔
” ہائیسم نے مجھے بتایا تھا جب ایک دن میں نے روفہ کی تعریف کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ بہت بہادر اور بڑے دل والی ہے کبھی میری طرح چھوٹی چھوٹی بات پر روتی نہیں تھی تو وہ بولے کہ میری بہن بھی انسان ہے جب تکلیف سکت کی حد سے بڑھ جائے تو مرد بھی روتا ہے مگر میری بہن کو اللہ نے قدرتی طور پر ہی اس صلاحیت سے محروم رکھا ہے ۔اور جو لوگ روتے نہیں ہیں وہ اندر سے ریت کے قلعے کی طرح ایک دن ڈھے جاتے ہیں ۔”
ترتیل کے الفاظ سن کر اس دن وہ کتنی ہی دیر کچھ بولنے کے قابل نا ہو سکا تھا ۔۔
” تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا ۔ماما جس کی وجہ سے ان حالوں کو پہنچی ہیں وہ انسان بڑی اچھی طرح اپنا جرم جانتا ہے ۔”
ہائیسم کی چنگاڑھتی آواز پر فودیل چونک کر حال میں لوٹ کر اس کی جانب دیکھنے لگا ۔وہ بھی خطرناک تیور لیے غصے کی شدت سے اس کی ہی جانب دیکھ رہا تھا
فودیل نے آہستہ سے نظریں پھیرلیں ۔ہائیسم کا شکوہ بجا تھا ۔۔روفہ نے سپاٹ چہرے سے ہائیسم کو مزید کچھ کہنے سے بعض رہنے کا اشارہ کیا ۔۔
” آپ آگئے دیکھیں ماما کو کیا ہو گیا ہے پلیز ڈاکٹر سے بات کریں ۔ابھی کل ہی تو وہ مجھ سے مل کر گئی تھیں ۔”
آواز کی سمت فودیل نے سر اٹھا کر دیکھا ۔جہاں روفہ ڈی ایس پی حیدر کے گلے لگی بول رہی تھی ۔اپنی بیوی کی حرکت پر فودیل بھونچکا ہی تو رہ گیا تھا ۔وہ لڑکی جو کسی غیر مرد کے سامنے ننگے سر نا آئے اب باپ بھائی اور شوہر کی موجودگی میں ایک غیر کے سینے سے لگی اپنے دکھ بانٹ رہی تھی ۔اس پر متضاد ہائیسم اور عالم حیدر سے اس کو حوصلہ دینے کا کہہ رہے تھے ۔
دانت کچکچائے مٹھیاں بھینجے وہ بس اپنے ابلتے ہوئے خون کو ٹھنڈا کرنے کے لیے رخ موڑ کر گہرے گہرے سانس بھرنے لگا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا اس ڈی ایس پی کے ساتھ ہائیسم کا جبڑا بھی توڑ دے جو بڑے سکون سے اپنی بہن کو دوسرے مرد کے سینے سے لگے دیکھ رہا تھا ۔اس منظر نے جیسے آنکھوں میں مرچیں سی بھر دی تھیں ۔
” ظفر یہ بہت رورہا ہے ۔شاید ماحول سے کبھرا گیا ہے ۔”
ایک تئیس چوبیس سالہ لڑکی جوکہ شاید حیدر کے سیکٹری کی بیوی تھی اپنی گود میں اٹھائے بچے کی طرف اشارہ کرکے بولی ۔ظفر بھی اپنی بیوی بچے سمیت وہاں آگیا تھا ۔
بچے کے رونے کی آواز سے کوفت زدہ ہو کر وہ بس وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا ۔وہاں اس کی ضروت کسی کو بھی نا تھی یہاں تک کے اس کی سگی بہن کو بھی نہیں جس نے سلام لینے کا تکلف بھی نا کیا تھا ۔
” اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاو ۔میں تمہیں فون پر فضا کی خیریت کی اطلاع کردوں گا ۔یہاں اپنی بےزاریت دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے ”
نانا کی سخت تنبیہ پر وہ سر ہلاتا سیدھا ہو کر کھڑا ہو گیا نظریں بھٹک بھٹک کر روفہ اور حیدر کی جانب جا رہی تھیں جو کہ ایک دوسرے کے بہت قریب اب کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے ۔فودیل کے دید کی پیاس تو بجھ ہی نا رہی تھی ۔
بیضوی نرم گال سندور مانند نازک روئے کی نرماہٹ خود میں پوشیدہ کیے کٹاودار ہونٹ جھکی جھکی بھیگی اشکوں کو چھپاتی پلکیں جو قدرتی طور پر خم دار تھیں ۔اخروٹی رنگ کی متورم آنکھیں جن میں لالیاں گھل کر قیامت سا حشر برپا کر نے کو بے تاب تھیں ۔ تھوڑی پر پڑتا وہ گھڑا جس میں اس کا دل ڈوب جانے کو بےقرار تھا ۔وہ فدا نا ہوتا تو فنا ضرور ہو جاتا ۔
” ممم ، مم ،مم ”
” اسے مجھے دے دو ۔اور تم لوگ اب گھر جاو ۔یہاں آنے کی زحمت کی۔ اس کا بہت شکریہ ۔”
ظفر کی بیوی کی گود میں مچلتا بچہ روفہ کو مم ممم کہہ کر اس کے پاس جانے کو بےتاب تھا جس پر وہ دل و جان سے اس کو گود میں اٹھا کر ظفر اور اس کی بیوی کی مشکور ہو رہی تھی ۔جس پر وہ کچھ کہتے وہاں سے چلے گئے ۔
” میرا بیٹا ماما کی تو جان ہے ۔بس بس اتنا روتے ہیں ۔اب میں نے اٹھا لیا ہے نا اب بالکل چپ ۔”
اس ہی تین ماہ کے بچے کو گود میں خود سے لپٹائے روفہ پچکار کر چپ کروارہی تھی جس پر وہ رونا بھول کر ماں سے چپ کر ہائیسم کے گدگدانے پر مسکرانے لگا تھا ۔ہنسنے سے بالکل روفہ کی طرح کا گھڑا اس بچے کی تھوڑی پر بھی ہلکی ہی چھاپ دکھا کر مدعوم ہو گیا تھا ۔
فودیل کو اپنے اردگرد دھماکے سے ہوتے محسوس ہو رہے تھے ۔سناٹوں کے زد میں وہ جو سمجھنے کی کوشش میں تھا وہ اس وقت تو بالکل سمجھنا نہیں چاہتا تھا ۔ہاتھوں پیروں میں جیسے کوئی آہستہ آہستہ جان نکالنے لگا تھا ۔
روفہ ابھی تک اس کے نکاح میں تھی ان کا خلاء نہیں ہوا تھا تو کیا ؟؟ وہ بچہ ؟ دماغ بھک سے اڑ گیا تھا
ایک بہت بڑا سوالیہ نشان اپنی ماضی میں کی گئی غلطیوں کا تماچہ بن کر بھری محفل میں اس کے چہرے پر پڑا تھا ۔وہ اس کا بچہ تھا ۔روفہ کی گود میں کھکھلاتا اپنی ماں سے مشاہبت رکھتے بچے کی رگوں میں اس کا خون دوڑ رہا تھا ۔
اپنے قدموں پر کھڑے رہنے کی اس میں ہمت ہی کہاں بچی تھی ۔اگر پاس پڑی کرسی کا سہارا نا لیا ہوتا تو ضرور لڑکھڑا کر منہ کے بل گرتا ۔
مگر منہ کے بل تو وہ گر چکا تھا ۔قسمت کے ہیر پھیر نے خود کی نظروں میں مزید مجرم گردانا تھا ۔
اس کی اڑی رنگت اور ساکت وجود کو دیکھ کر نانا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
” وہ تمہارا ہی بیٹا ہے فادی ۔ہاشم فودیل زکی ۔”
بے یقینی سے اس نے نانا کی جانب دیکھا جنہوں نے اس کی شکایت کرتی نگاہوں سے نظریں چرائی تھیں ۔
” آپ جانتے تھے نانا ۔”
اس کی دھیمی سرسراتی آواز میں کتنے ہی شکوے نپہاں تھے ۔آنکھوں میں بے ساختہ نمی سی اتر رہی تھی ۔وہ ایک تین ماہ کے بچے کا باپ تھا اور پچھلے ایک سال سے انجان تھا ۔
نانا نے اس کے سوال پر محض اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔
” اور کون کون جانتا تھا اس بارے میں ۔؟؟”
اس کو اپنی ہی آوز اجنبی سی لگ رہی تھی ۔تلکیف صرف دل میں ہی نہیں پورے بدن میں محسوس ہو رہی تھی ۔
” ترتیل اور تمہارے علاوہ سب جانتے تھے ۔اور میں تمہیں بتا دوں مزید کوئی اور غلطی مت کرنا فودیل حیدر کو دیکھ کر اپنی بیوی پر شک کرکے مزید اپنے لیے کانٹے مت چن لینا وہ فضا کی دوست کا بیٹا ہونے کے ساتھ ہائیسم اور روفہ کا دودھ شریک بھائی بھی ہے ۔”
ان کے مزید انکشاف پر فودیل نے سپاٹ چہرے سے سب کو دیکھا ۔ترتیل کے تاثرات بھی اس سے کچھ کم نا تھے ۔جس کو ہائیسم آہستہ آواز میں کچھ سمجھا رہا تھا ۔
سب سے ہو کر آخر میں نظریں اپنی چھوٹی سی دنیا پر ٹک گئیں جہاں روفہ سوئے ہوئے ہاشم کو تھپک کر اس کا سر سہلا رہی تھی ۔
دل کی کیفیت پر قابو پائے ۔اپنے ٹوٹے وجود سمیت وہ ہوسپٹل سے نکلتا چلا گیا ۔روفہ کی نظروں نے اس کی پشت کا دور تک پیچھا کیا تھا ۔
پھر سر جھٹک کر اپنی سانسوں سے بھی انمول رتن کی پیشانی پر محبت سے بوسا دیا تھا ۔
” میرا بیٹا ۔میرا سب کچھ ۔۔”
دھیمی سی سرگوشی اس کی خود کی سماعت بھی نا سن پائی تھی ۔۔
لاونج میں آہستہ والیم سے ترتیل کوئی ڈرامہ دیکھنے کے ساتھ ہائیسم کو پوری طرح نظر انداز کرنے کی کوشش میں بھی تھی ۔ہائیسم جو پچھلے دو دن سے اسکو منانے کے ساتھ اس کی بے رخی برداشت کر رہا تھا اب حقیقتا تپ اٹھا تھا ۔تبھی ہاتھ میں پکڑا کش ترتیل کے منہ پر پھینک دیا ۔
” کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ ”
اس کی حرکت پر بوکھلا کر ترتیل چلا کر بولی ساتھ ہی اپنے ناخنوں سے اس کی بازو پر زور سے چٹکی کاٹی جس پر ہائیسم بلبلا اٹھا تھا ۔
” افف ۔۔جنگلی لڑکی ۔تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے دو دن سے منا رہا ہوں مگر میڈم مان ہی نہیں رہی ۔یار بتایا تو ہے وہ سب میں تمہیں نہیں بتا سکتا تھا ۔”
اب تو وہ دو دن سے ایک ہی بات کر کے جھنجھلا گیا تھا تب ہی بے زاریت سے بولا ۔۔ترتیل نے دانت کچکچا کر اس کو دیکھا ۔
” کیوں نہیں بتا سکتے تھے ۔آپ کو مجھ پر بھروسہ ہی نہیں ہے ۔اپنے بھتیجے کی پیدائیش پر میں نے افسوس نہیں کرنا تھا یقیقنا خوش ہی ہونا تھا ۔اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں پچھلے ایک سال سے میں نے بھائی سے کوئی بات نہیں کی ۔تو بھلا میں کیوں ہاشم کے بارے ان کو بتاتی ۔”
روہانسی ہو کر بولی ۔ساتھ ہی اس سے منہ بھی پھیر لیا ۔ہائیسم نے اپنی کنپٹی مسلی ۔۔
” تالی سویٹی دیکھو ۔اگر میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں تو اپنی بہن سے محبت کے ساتھ میں اس کے لیے پوزیسو بھی ہوں ۔اس معاملے میں تو میں خود اپنی ذات پر بھروسہ نہیں کرسکتا تھا کسی اور پر کیا کرتا ۔اور اس نے ہمیں دھمکی بھی دی تھی اگر کسی نے تم دونوں بھائی بہن کو بتایا تو وہ کہیں بھی چلی جائے گی ۔اور تمہیں ابھی روفہ کا پتا نہیں ہے وہ دھمکی دیتی نہیں ہے اس پر عمل بھی کرتی ہے ۔”
اپنے بازو کے حصار میں لے کر ایک ہاتھ اس کے گال پر رکھ کر نرمی سے سہلاتے ہوئے سمجھاتے ہوئے بولا ۔
” تو یعنی بھائی کی طرح وہ مجھے بھی پسند نہیں کرتی ۔مگر میں نے تو اس کے ساتھ کچھ برا نہیں کیا ”
ہائیسم کی بات سے اس کے دل پر چوٹ پڑی تھی ۔روفہ کے ساتھ تو تین تین رشتے تھے کزن نند اور بھابی ۔مگر کسی ایک رشتے کا مان بھی نہیں تھا ۔
” فودیل نے ہی تمہیں روفہ کی نظروں میں برا بنا دیا ۔ہر بات پر تو وہ یہ بولتا تھا صرف اپنی بہن کی وجہ سے اس نے روفہ سے شادی کی ہے ۔اگر تم اس کی جگہ ہوتی تو کیا تمہیں روفہ بری نا لگتی ۔؟؟ ”
ہائیسم کے سوال پر وہ کتنی ہی دیر چپ کی چپ ہی رہ گئی ۔کچھ بولتی بھی کیا اس کے اپنے بھائی نے کچھ بولنے کے قابل چھوڑا بھی نا تھا ۔
” میں اس سے معافی مانگ لوں گی ۔جبکہ مجھے تو پتا بھی نہیں کہ بھائی نے یہ سب کہہ کر اس کو ٹارچر کیا ۔۔”
افسوس سے بولتی ہائیسم کے کندھے پر سر ٹکا گئی ۔اس نے بھی اپنی گرفت اس پر سخت کرکے اپنے ہونٹ اس کے کالے خوشبودار بالوں پر رکھے ۔۔
” ویسے ہاشم پورا کا پورا روفہ جیسا ہے ۔بھائی پر تو زرا بھی نا گیا ۔”
اس کی کلائی پر پہنی گھڑی پر انگلی پھیرتی ہوئی اشتیاق سے بولی ۔۔
” اچھا ہے نا ۔تمہارے بھائی پر جاتا تو کسی کو اس پر پیار نہیں آنا تھا ۔میری بہن جیسا ہے اس لیے سب کا لاڈلا ہے ۔”
مصنوعی خفگی سے اس کے سینے پر مکا مار اس نے اپنی مسکراہٹ ہائیسم سے چھپائی ۔۔
” روفہ گھر نہیں آئے گی ؟؟ کیا اب بھی اسلام آباد واپس چلی جائے گی ۔؟؟”
اس کے سینے سے سر اٹھا کر سوالیہ انداز میں بولی ۔ہائیسم واپس اس کا سر اپنے سینے پر رکھ کر اس کے بالوں کی خوشبو سونگھنے لگا ۔
” نہیں ماما نے اپنی بیماری کا فائیدہ اٹھا کر اس کو کافی اموشنل بلیک میل کر لیا ہے ۔کل جیسے ہی ماما کو ڈیسچارج ملے گا وہ بھی ان کے ساتھ یہاں واپس آ جائے گی ”
دھیمی آواز میں اس کے بالوں کی نرماہٹ اپنی انگلیوں کے پوروں پر محسوس کرکے بےدیھانی سے بولا ۔
” وہ اسلام آباد میں اکیلی رہتی تھی کیا ۔؟؟”
اس کے دوبارہ سینے سے سر اٹھا کر سوال کرنے ہائیسم نے دانت کچکچا کر کاٹ دار نظروں سے اس کو گھورا ۔
” نہیں جلیس اور ہدا کے پاس رہتی تھی ۔اب دوبارہ کوئی سوال مت پوچھنا دو دن سے اتنی دور دور تھی اب بھی تمہیں ایک جگہ چین نہیں ہے ۔”
اس کو ڈپٹ کر دوبارہ سابقہ پوزیشن میں گیا ۔ترتیل منہ بسور کر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔
” مجھے نیند آرہی ہے ہائیسم کمرے میں چلیں ۔اور ہاں جب ہاشم اور روفہ آئیں گے تو مجھے پورا ایک ہفتہ ان کے ساتھ سونا ہے میں پہلے سے بتا رہی ہوں ۔”
اس کی اطلاع پر ہائیسم ہونق پن سے اس کے چہکنے کو دیکھ کر رہ گیا ۔پھر نفی میں سر ہلاتا ہوا اس کا بازو پکڑ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔
” کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔میرے ساتھ ہمارے کمرے میں ہی سونا ہے تمہیں ۔اب کوئی بحث نہیں ۔”
اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی دوٹوک لہجے میں کہہ کر چپ کروا دیا جس پر اس نے ناراضگی سے اپنا بازو چھڑا لیا ۔۔
” اب اس میں ناراضگی والی تو کوئی بات نہیں ہے یار ۔اپنا پلان خوشی سے بتا دیا میرا نہیں سوچا مجھے کیسے نیند آئے گی ۔اور اب تم اپنے بچوں سے کھیلنا ۔کیونکہ اب مجھے بھی پاپا بننا ہے ۔”
بے چارگی سے بولتا آخری میں شوخ پن سے معنی خیزی سے بولا ۔
ترتیل گلنار چہرے سمیت اس کی باہوں میں اپنا آپ چھپا گئی ۔۔
روفہ ہاشم سمیت گھر آچکی تھی ۔پورے گھر میں جشن بہار کا سا سماء تھا ۔ہاشم اور روفہ کو دیکھ کر فضا کی آدھی بیماری تو خود ہی ختم ہو گئی تھی ۔عالم اپنے لخت جگر کی اولاد کو گود میں بٹھائے فضا کے پہلو میں بیڈ پر بیٹھے اس کو فیڈر پلانے میں مصروف تھے ۔
فضا پر جیسے حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے ۔ایک جانا مانا سیاست دان ملیز کا مالک شخص جنہوں نے کبھی ہائیسم کو بھی پیار اور دو گھڑی کھیلنے کے علاوہ نا اٹھایا ہو اپنے نواسے پر قربان ہو رہا تھا۔
اصل سے زیادہ سود پیارا ہوتا ہے عالم نے بھی یہ مثال سچ ثابت کردی تھی ۔
سب ہی فضا اور عالم کے کمرے میں موجود تھے ۔جلیس اور ہدا بھی آئے ہوئے تھے ۔پورے سال بعد گھر میں اتنی رونق آئی تھی ۔
” روفہ یار میرے پاس کیوں نہیں آتا یہ ۔تمہاری اولاد بڑی احسان فراموش ہے قسم سے تمہارے پیپرز کے دوران میں اور میری بیوی اس کے لیے رات رات بھر جاگا کرتے تھے اور یہ ہے کہ ہمیں پھر بھی لفٹ نہیں کرواتا ۔”
جلیس کے شکوے پر اس کی ہنسی گونجی تھی ۔ترتیل بھی ہاشم سے پیار کرنے کے لیے عالم سے چپک کر بیٹھی تھی ۔
” انمول لوگ ہر ایرے غیرے کو لفٹ کرواتے بھی نہیں ہیں بیٹا جی ۔”
یہ کہنے والا ہائیسم تھا ۔جس پر فضا نے اس کو ایک تھپڑ دیکھایا ۔۔ہدا کی ہنسی بے ساختہ تھی جو صوفے پر روفہ کے ساتھ بیٹھی موبائل پر اس کو کچھ دیکھا رہی تھی ۔
” روفہ دیکھ لو یہ کیا کہہ رہا تھا ۔”
جلیس کی شکایت پر روفہ نے آنکھیں گھمائیں ۔اسلام آباد میں بھی وہ ایسے ہی سب کا دل لگا کر رکھتا تھا جب بھی فضا عالم یا ہائیسم میں سے کوئی اس سے ملنے آتا تھا ۔
” تو میں کیا تمہاری امی جی ہوں ۔جو مجھے بتا رہے ہو ماما سے رابطہ کرو ۔”
اس کے ہاتھ جھلا کر کہنے پر جلیس نے صوفے سے کشن اٹھا اٹھا کر اس کے منہ پر مارا ۔جو کہ نشانا چوکنے پر ہدا کے سر پر لگا تھا ۔۔ایک پل تو وہ کسی کو کچھ سمجھ ہی نا آیا ۔ہدا تخلیق کے عمل سے گزر رہی تھی تبھی سب ہی شاک کی کیفیت میں ہدا کو دیکھنے لگے ۔۔
” بیڑہ غرق ہو جلیس ۔آپ نے میرا موبائل توڑ دیا ۔”
کشن اس کا تو کچھ نا بگاڑ پایا البتہ اس کا نیو ماڈل کا آئی فون ضرور چکنا چور ہو گیا ۔۔
اس کے یوں بولنے پر سب کی سانس میں سانس آئی جبکہ جلیس خفت سے سب سے نظریں بچا کر منہ پر ہاتھ پھیر کر اس کو وارننگ دینا نہیں بھولا تھا ۔
ہدا بھی سر جھٹک کر اس کی دھمکی کو کسی خاطر میں نا لائی تھی بس بڑبڑا کر اپنے برباد ہوئے فون کو جوڑنے کی کوشش میں تھی ۔وہ دونوں یوں ہی ٹام جیری بنے رہتے تھے ۔ہدا کی چلتی زبان جلیس کی گھوریوں پر بھی بند نا ہوتی تھی ۔
” جلیس کچھ عقل کرو ۔حالت ہے اسکی تمہاری مستیاں برداشت کرنے کی ۔آرام سے بیٹھو ۔نہیں تو ہدا کو اپنے پاس ہی رکھ لوں گی ۔رہنا پھر اکیلے وہاں ۔”
فضا کے ڈپٹنے پر وہ بھی شرافت سے سیدھا ہو کر بیٹھا تھا ۔۔
” ویسے مجھے اپنی دوست کے قابل ہونے پر کوئی شک نہیں ہے ۔جس نے تمہیں نچا کر رکھ دیا ہے وہ کسی کو بھی قابو رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔”
روفہ کی سرگوشی پر جلیس نے مسکراہٹ ضبط کر اس کے سر پر ہلکی سی چپ لگائی جس پر اس کا مکا کھا کر وہ کراہ کر رہ گیا ۔
” چاچو دیکھیں روفہ کی طرح اس کے بال اور آنکھیں براون نہیں ہیں باقی تو سارا کا سارا روفہ جیسا ہے ہیں نا ”
کافی دیر غور و فکر کرنے کے بعد ترتیل نے یہ نتیجہ نکالا تھا جس پر عالم نے مسکرا کر ترتیل کو خود سے لگایا ۔۔
” ہاں یہ تو ہے ۔آپ اسے اٹھاو گی نہیں آخر کو پھوپھو ہونے کے ساتھ ممانی بھی ہو اس کی ۔”
پھوپھو لفظ پر روفہ نے سختی سے اپنے لب ایک دوسرے میں پیوست کرکے سپاٹ نظروں سے ہائیسم کو دیکھا جس نے آنکھوں سے ہی ترتیل کے حوالے سے دل بڑا کرنے کی التجا کی تھی ۔وہ بھی سر ہوا میں مار کر ہدا کی طرف متوجہ ہوئی جو اب جلیس سے نئے موبائل کی فرمائیش کر رہی تھی ۔
” پر چاچو یہ تو آتا ہی نہیں ہے کسی کے پاس ۔اور اب تو دودھ بھی پی رہا ہے اب تو بالکل نہیں آئے گا ۔”
اس کے تبصرے پر ہائیسم نے بھنویں اچکا کر اس کا تفصیل سے جائیزہ لیا جو پرپل سٹائیلش کپڑوں میں دلکش اور تروتازہ لگ رہی تھی ۔
” ہاں یہ میرے اور روفہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں جاتا ۔اس کو بس اپنے نانا اور ماما کی گود اچھی لگتی ہے ۔ہے نا ہاشم شہزادے ”
ان کے گدگدانے پر وہ فیڈر منہ سے نکال کر ہنسنے لگا تھا ۔۔ہائیسم نے سیٹی مار کر ہاشم کو اپنی طرف متوجہ کیا جس پر وہ کبوتر کی طرح گردن گما گما کر اس کو ڈھونڈنے لگا۔۔
” اوئے گڈے اپنے ماموں کے پاس نہیں آنا ۔آپ کے جلیس ماموں کافی نکما ہیں لیکن میں اس کے بالکل برعکس ہینڈسم ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق بھی ہوں آپکی ماما کا فیوریٹ بھائی بھی ہوں ۔”
اس کے چھوٹے سے ہاتھ کو نرمی سے پکڑ کر جھکے ہی ہائیسم اس کے ساتھ رازو نیاز کرنے لگا جس کو غور سے سننے کے بعد آخر میں ہاشم نے اس کی بڑھی ہوئی خوبصورت شیو اپنی انگلیوں سے کھینچ ڈالی ۔ہائیسم اس اچانک حملے پر بلبلا کر رہ گیا ۔۔
” اور جھوٹ بول کر میری برائیاں کرو میرے بھانجے نے اپنے پیارے ماموں کے خلاف سخت الفاظ کا بدلہ لیا ہے آپ سے ۔”
جلیس کی تو جیسے عید ہو گئی تھی بس نا چل رہا تھا ہاشم کو چوم ڈالتا مگر وہ اس کے پاس کسی صورت نہیں آتا تھا ۔۔
” اس کو جوڑ کر دیں یا پھر نیا لا کر دیں ۔۔”
ہدا نے اس کی کمر میم دھموکا جڑ کر اپنے طرف متوجہ کیا جس پر سب ہنس پڑے ۔جلیس کا بس نا چل رہا تھا اس کے بال کھینچ لیتا جو سب کے سامنے اس کی عزت افزائی کرنے پر تلی ہوئی تھی پر ستم یہ کہ اس کی حالت کے پیش نظر وہ اس کو کچھ کہہ بھی نا سکتا تھا ۔۔
” لائیں بابا اس کو مجھے دیں ۔سونے کا ٹائیم ہو گیا ہے اس کا ۔تبھی بے چین ہو رہا ہے ۔”
ہاشم کے رونے پر روفہ نے آگے بڑھ کر اس کو گود میں لیا جس پر ترتیل نے روہانسی شکل سے ہائیسم کی طرف دیکھا وہ ابھی ہاشم کے ساتھ اور کھیلنا چاہتی تھی ۔۔
” سویٹی صبح کھیل لینا ابھی اس کو سونا ہے نا اتنا چھوٹا ہے وہ ۔تمہارے پاس تو آتا بھی نہیں ہے چلو ہم بھی چلیں کافی رات ہو گئی ہے ماما کو ریسٹ بھی کرنا ہے ۔”
فضا تو سب کو دیکھتے دیکھتے دوائی کے زیر اثر غنودگی میں چلی گئی تھیں ۔۔جبکہ ترتیل کا چہرہ اتر گیا تھا ۔ہدا اور جلیس اب بھی لڑنے میں مصروف تھے ۔۔
روفہ کے جانے کے بعد باقی سب بھی باری باری ان کے آرام کی غرض سے اپنے کمروں میں چلے گئے ۔
کافی دیر چینل کے ہیڈ کواٹر میں فودیل یوں ہی بے مقصد بیٹھا رہا تھا ۔گھر جانے کی ہمت فل حال اس میں مفقود تھی ۔روفہ کے گھر آنے کی خبر اس کو نانا کے ذریعے پتا چل چکی تھی ۔ایک ہی دن اتنے جھٹکے لگے تھے سنبھلنے میں تھوڑا وقت تو درقاد تھا ہی ۔۔
دو بجے کا وقت تھا یقینا سب ہی اس وقت تک اپنے اپنے کمروں میں سو چکے تھے ۔کیونکہ پورے گھر میں اندھیرے کے ساتھ سناٹا بھی ہر سو پھیلا ہوا تھا ۔
آہستہ آہستہ قدموں سے لاونج پار کرکے گلاس ڈور دھکیل کر سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔
کتنا دلشنین منظر ہوگا اگر دروازہ کھولنے کے بعد اس کی چھوٹی سی دنیا کمرے میں ہی موجود ہو ۔
دل یوں ہی خوش فہم ہو رہا تھا ۔اور دل کی اس بےجا خواہش پر فل حال وہ خود پر ضبط کے پہرائے بٹھانے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔۔
روفہ کے کمرے کے سامنے سے گزرنے کا مرحلہ کس قدر صبرآزما تھا یہ بس اس کا دل ہی جنتا تھا ۔کچھ دیر تک حسرت سے اس کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر شکستہ چال سے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
مگر دروازہ کھولنے پر وہی وحشت زدہ خاموشی اس کے استقبال کے لیے باہیں پھلائے کھڑی تھی ۔کتنی ہی دیر پچھلے ایک سال کی طرح بیڈ کے خالی بستر کو تکنے کے بعد سارے کمرے کی لائیٹ چلا دیں ۔۔
باتھ روم سے فریش ہو کر یوں ہی بے دم سا ہوکر بیڈ پر دھیڑ ہو کر روفہ کا تکیہ خود میں بھینج لیا ۔
گھڑی کی ٹک ٹک پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔مگر اس کی نظریں پورے کمرے میں لگی روفہ کی تصویروں پر جمیں تھیں ۔۔جس کو فودیل اس کی غیر موجودگی میں اپنے کمرے کی زینت بنا چکا تھا ۔
روفہ سے دیھان ہٹنے کے بعد ذہن کے پردے پر ہاشم کا معصوم بے رعیا عکس جھلملایا ۔
” ہاشم ۔۔ہاشم فودیل زکی ۔۔میرا بیٹا ۔۔میرا خون ۔۔نہیں ہمارا بیٹا ۔۔ میری روفہ کے وجود سے جنم لینے والا ہاشم ۔۔فودیل اور روفہ کا بیٹا ۔۔”
یہ احساس کتنا انوکھا تھا ،اچھوتا، ایک وجود اس کے جسم کا حصہ بن چکا تھا ۔وہ اب ایک شوہر نہیں رہا تھا باپ کے رتبے پر فائیز ہو چکا تھا ۔
اور وہ اولاد تو اور بھی پیاری ہوتی ہے جو آپ کے محبوب کے جسم کا حصہ بھی ہو ۔وہ روفہ کے بدن سے پیدا ہوا تھا فودیل کو کیونکر اس سے محبت نا ہوتی ۔
مزید خود پر ضبط کرنا اب اس کے بس سے باہر تھا تبھی تکیے کو اس کی جگہ پر رکھ کر سلیپرز پہن کر باہر نکلا ۔اس کا رخ روفہ کے کمرے کی جانب تھا
احتیاط سے کمرے کا دروازہ کھول کر دبے قدموں بنا چاپ پیدا کیے اندر داخل ہوا ۔۔
کمرے میں نیم اندھیرا تھا ۔وائیٹ اور ٹی پنک کلر کے امتزاج والے کمرے کے بیچوں بیچ گول شیپ کے بیڈ پر روفہ اور ہاشم سوئے ہوئے تھے ۔
فودیل کتنی ہی دیر اس منظر میں کھویا رہا ۔اس خوبصورت مکمل منظر نے اس کی آنکھوں کو ہی نہیں قدموں کو بھی جکڑ لیا تھا ۔۔
بیڈ پر روفہ اپنے کھلے براون بالوں سمیت بے سودھ گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھی جو کہ پورے تکیے پر پھیلے ہوئے تھے ایک ہاتھ اپنے پیٹ پر جبکہ دوسرا ہاشم کے پیٹ پر رکھا ہوا تھا ۔
ہاشم کے سونے کے سٹائیل پر بے ساختہ مسکراہٹ اس کے عنابی باریک ہونٹوں کو چھو گئی ۔۔
روفہ کے پیٹ پر اپنا سر رکھے ایک ہاتھ اپنی ماں کے ہاتھ پر رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس کی قمیض کو جکڑ رکھا تھا ۔
ایک دوسرے سے چپک کر سوئے ان دونوں کے وجود کو نا تو کسی کا ہوش تھا نا ہی کسی تیسرے کی ضروت محسوس ہو رہی تھی ۔۔وہ ماں بیٹا جیسے ایک دوسرے کے لیے بالکل کافی اور مکمل تھے ۔
وہ دونوں تو ایک دوسرے کے لیے مکمل تھے مگر فودیل ان کے بغیر یقینا ادھورا تھا ۔۔
تبھی آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ روفہ کی بائیں جانب بچی تھوڑی سی جگہ پر بیٹھ کر یک ٹک اس کے چہرے کے نقش کو حفظ کرنے لگا ۔۔
آہستہ سے اخروٹی بند آنکھوں پر گرے بالوں کو اپنی انگلی سے پیچھے کیا ۔اور جھک کر اس کی پیشانی پر اپنے جلتے سلگتے ہونٹ رکھ دیئے ۔
” تیرے ان ہونٹوں کے صدقے ساری خوشیاں وار دوں ۔۔”
اپنی بائیں ہاتھ کی انگلی کی پشت سے اس کے کٹاودار ملائیم نازک ہونٹوں پر انگلی پھیر کر اس کے کان پر جھک کر سرگوشی کی ۔۔
ساتھ ہی اس کی تھوڑی کے خم کو احتیاط سے چوم لیا ۔اس خم کو دیکھ کر تو ہمیشہ اس کا دل اس کی بناوٹ میں ڈوب جاتا تھا ۔۔
” مجھے ہمارے بیٹے کا انمول سب سے قمیتی تحفہ دینے کا بے حد شکریہ ۔میں نے آج تک تمہیں کچھ نہیں دیا مگر تم نے مجھے ہمارا بیٹا دے کر زمین سے آسمان پر بیٹھا دیا ۔۔”
اس کے گال کو ہاتھ کی پشت سے سہلا کر ہلکی آواز میں بڑبڑایا ۔۔
وہاں سے اٹھ کر بیڈ کی دوسری جانب آکر روفہ کے دائیں جانب ہاشم کے قریب بیٹھا ۔۔
” شہزادے بیٹے آپ تو بالکل میری روفہ جیسے ہو ۔تھوڑا سا تو مجھ پر چلے جاتے ۔”
اس کے نقش کو غور سے دیکھ کر مسکرا کر آہستہ سے بولا جہاں نیند میں وہ فیڈر کو پینے کے انداز میں ہونٹ ہلا رہا تھا ۔۔اس کے نیند میں کی جانی والی پیاری حرکت پر جھک کر آہستہ سے اس کے ناک کو چوم کر دونوں رخساروں پر بوسا دیا ۔
” آج تو میرا دل کر رہا ہے دونوں ماں بیٹے کو بوسے دے دے کر کھا جاوں ۔۔”
اپنی بات پر خود ہی مسکرا دیا ۔۔
ان دونوں کے قریب ہی بیڈ سے کہنی ٹکا کر ہاتھ پر سر رکھ کر دونوں کو سوتا ہوا دیکھنے لگا ۔پھر کچھ یاد آنے پر اپنا موبائل نکال کر ان کی دھیڑوں تصاویر کھینچی ۔۔
” جلدی سے دونوں میرے ویران کمرے کو آباد کر دو اب تو کمرے میں اکیلے جانے کے خیال سے ہی میرا دل بےزار ہو رہا ہے ۔”
دل ہی دل میں دونوں سے خاموش التجا کر کے مسکرا کر اپنی کائینات کو دیکھنے لگا ۔۔۔