ایان ہوش میں لوٹا تو اپنے بیڈ روم میں تھا، دائیں ہاتھ پر بینڈیج ہوئی تھی، سر پر بھی سفید پٹی بندھی ہوئی تھی۔
لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے وفا کی یاد آئی، گردن گھما کر بیڈ کی دوسری جانب دیکھا، چادر سلوٹوں سے پاک تھی۔
وہ عجلت میں اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا کمرے سے نکلا، پچھلی چوٹ تازہ ہو گئی تھی، اسکی چال میں لڑکڑاہٹ پھر سے آنے لگی تھی۔
” مام۔۔۔۔ڈیڈ۔”
ایان کمرے نکل کر بولا۔
رائنہ کمرے سے نکلیں۔
” کیا ہوا بیٹا۔؟”
رائنہ تیز قدموں سے اس تک آئیں اور اسکے رخسار پر ہاتھ رکھا۔
” مام وفا کہاں ہے؟”
عجب سے خوف کے زیر اثر بولا تھا۔
” ادھر بیٹھو۔”
راٙئنہ اسے تھامے صوفے تک لے آئیں۔
“مام مجھے بتائیں وفا کہاں ہے۔؟”
ایان جھنجھلا کر بولا، دل عجب دھڑک رہا تھا، بری خبر سے بچنے کے پرتول رہا تھا۔
” وفا کڈنیپ ہو گئی ہے، تمہارے ڈیڈ ہوری کوشش کر رہے ہیں۔”
رائنہ آہستگی سے بولی۔
ایان سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گیا، بے بسی سے آنکھوں میں آنسو عود آئے۔
” ایان۔!”
رائنہ اسے سینے سے لگا گئیں۔
اکاش ملک کی فاڑی پورچ میں رکی اور وہ سرعت سے چلتے ہوئے اندر آئے۔
” ایان تمہیں ہوش آگیا۔”
اکاش ملک خوشگوار حیرت سے بولے۔
” ڈیڈ وفا۔!”
ایان بھیگی پلکیں اٹھائے ہوئے تھا۔
” بیٹا سی سی ٹی وی فوٹیجز کی چیکنگ جاری ہے۔”
اکاش ملک سنجیدہ ہوئے۔
” پولیس ہوری کوشش کر رہی ہے۔”
اکاش ملک اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے، وہ ٹوٹا ہوا سا دکھائی دینے لگا تھا۔
” میں نے کہا تھا سیکورٹی رکھو ایان، لیکن تم نے میری بات ہی نہیں مانی۔”
اکاش ملک نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا۔
” ہاں بیٹا۔۔۔!! یہ تیسری دفعہ ہو گیا ہے، ہم تمہیں کھونا افورڈ نہیں کر سکتے۔”
رائنہ مدھم لہجے میں بولتیں اسکے بالوں کو سنوانے لگیں، ایان سر جھاکائے ہاتھوں کو گھور رہا تھا۔
“ٹھیک ہے۔”
ایان آہستگی سے بولا۔
” یکایک اسکے ذہن میں جھماکا ہوا۔
” ڈیڈ، مجھے اس گاڑی کا نمبر یاد ہے۔”
ایان جوش سے بولا، گویا بچہ نیا کھلونا مل جانے پر پرجوش ہے۔
” یہ تو بہت اچھی بات ہے۔”
اکاش ملک نے پسلیس کو کال کی اور گاڑی کا نمبر نوٹ کروا دیا۔
” سر باہر میڈیا کا رش لگا ہے۔”
اکاش ملک کا گارڈ اندر آیا تھا۔
” میں دیکھتا ہوں انہیں۔”
ایان اٹھتے ہوئے بولا اور ہاتھ سے سلوٹیں ہٹاتا باہر کی سمت چلنے لگا۔
اندرونی دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا، میڈکا گیٹ دھکیلتی اندر دوڑی آئی۔
” مسٹر ایان ملک آپ کی بیوی کو کس نے اغوا کیا۔؟”
” مسٹر ملک آپ پر یہ تیسرا حملہ ہے۔؟”
” مسٹر ملک کیا آپ کی بیوی کی کسی سے دشمنی ہے۔؟”
” کیا وفا ملک کی کڈنیپنگ اور بالاج نائک کے قتل کے پیچھے ایک ہی شخص ہے,¿”
رپوٹرز اندھا دھن بول رہے تھے۔
ایان نے سنجیدہ نظر سب پر ڈالی۔
بالاج نائک کی موت کا سن کر چند لمحے کو حیران ضرور ہوا تھا۔
” جی بلکل۔۔۔یہ مجھ پر تیسرا حملہ تھا، اور کیلگری کی پولیس انتہائی ناقص ہے، جو کبھی وقت پر نہیں پہنچ پاتی، مجھ پہ ہوئے اس تیسرے حملے کے بعد میں اس سوسائٹی میں خود کو ان سیو فیل کر رہا ہوں۔”
ایان قدرے سنجیدگی سے انتہائی سخت لہجے میں بول رہا تھا۔
” میری بیوی وفا کل سے کڈنیپ ہے اور پولیس ابھی تک لچھ نہیں کر پائی، کیا میں پولیس کو ناکارہ سمجھوں۔؟”
ایان ملک سوالیہ انداز میں بولا۔
” سر آپ کو کیا لگتا ہے کون ہے اس سب کے پیچھے۔؟”
ایک رپورٹر نے زبان کھولی۔
” نائک فیملی۔۔۔۔۔بالاج نائک اور شہروز نائک۔”
ایان نے سنجیدگک سے کہا۔
” پر بالاج نائک کو آج اونٹاریو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا ہے۔”
رپورٹر نے جواب دیا۔
” جو بھک ہو، یہ سب کچھ نائک خاندان کی پلاننگ ہے، وفا ملک سے نائک سافٹ وئیر کمپنی چھنینے کے لیے۔”
ایان نہایت سنجیدہ لگ رہا تھا، سب پر طائرانہ نگاہ ڈالی۔
” میں گورنمنٹ سے اپیل کرتا ہوں، ہولیس کو ڈیوٹی نبھانے کی تلقین کی جائے۔”
ایان کہتے ہوئے واپس پلٹ آیا۔
” مسٹر ملک کا کہنا ہے پولیس انکے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہی،ان کا مزید کہنا ہے وفا ملک کو کمپنی کے لیے کڈنیپ کیا گیا ہے، جبکہ بالاج نائک کی موت اس بات کی نفی کرتی ہے۔”
رپورٹرز اپنے اپنے کیمرے کے سامنے بعل رہے تھے۔
ایان لًکھڑاتا ہوا کمرے میں آگیا۔
” وفا پلیز کم بیک۔”
ایان بے بسی سے بولا تھا۔
” مجھے دعائے عبادت مانگنی چاہیے۔”
ایان واش روم کی طرف بڑھا، وضو بنایا اور جائے نماز بچھا لیا، لفظ دل میں ادا ہو رہے تھے، عنابی لب جامد تھے، البتہ سیاہ آنکھیں تواتر سے اشک پرو رہیں تھیں، جدائی سوہان روح ہوتی ہے۔
کئی لمحے میں خاموش فریادی بنا رہا، دل میں دعاوں کا ورد کرتے اسے رب کائنات کی رحمت پر یقین تھا، وہ بنا سنے ہی سب ٹھیک کر دے گا۔
” وفا میری زندگی کی واحد محبت ہے، اسکی حفاظت کیجے اللہ۔”
ایان ملک کے ضبط کا ہیمانہ چھلکا اور وہ بلک گیا تھا۔
” مجھے حق الیقین ہے، مجھے میری وفا مل جائے گی۔”
ایان پر یوین سا کہتا اٹھا اور بیڈ پر آگیا۔
موبائل اٹھایا تو وائس نوٹ کا میسیج تھا۔
ایان نے انگلی سے ٹیپ کیا۔
” ٹ۔۔۔ٹریے۔۔س دا لل۔۔۔۔لوکیشن۔۔۔ وفا ملک۔”
ایان نے یکلخت لو لوکیشن ٹریس کی اور باہر کی طرف بھاگا، گوکہ تکلیف نے آن جکڑا تھا۔
“ڈیڈ۔”
ایان چلایا تو اکاش ملک گاڑی سے نکل کر اندر کی طرف بھاگے، رائنہ دل پر ہاتھ رکھے گھبرائی ہوئی سی اسکی طرف بڑھیں۔
” ڈیڈ۔۔۔۔ ڈیڈ۔ وفا اونٹاریو میں ہے۔”
ایان بے ربطگی سے بولا۔
” کنفرم ہے ڈیڈ۔”
ایان نے وائس نوٹ اوپن کیا۔
اکاش ملک کا موبائل رنگ کرنے لگا۔
” ییس۔”
اکاش ملک موبائل کان سے لگاتے ہوئے بولے۔
” ییس ییس وی گاٹ دا ایگزیکٹ لوکیشن ان اونٹاریو۔”
اکاش ملک ایان کو ساتھ آنے کا اشارہ کیے باہر کی طرف بڑھے، فلحال وہ بزنس کو ٹائم نہیں دے پا رہے تھے۔
” مام پرے فار ہر۔”
ایان نے ماں کے ہاتھ تھامے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” نائک خاندان کے لیے ایک اور بری خبر۔۔۔۔۔۔۔۔
اینکر نے اپنے مخصوص انداز میں سنسنی پھیلائی۔
” بالاج چینز آف ہوٹلز کے اونر مسٹر بالاج نائک کو اونٹاریو کے ایک پرائیویٹ اپارٹمنٹ کے قریب قتل کر دیا گیا۔”
اینکر کی باتیں اسکے دل و دماغ پر ہتھوڑے بن کر برس رہیں تھیں۔
” ڈیڈ آپ خود غرض ہیں”
بالاج نائک کا جملہ اسے جھنجھوڑنے لگا تھا۔
” یہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔۔۔۔”
شہروز نائک چیختے ہوئے چیزیں زمین پر پٹخنے لگا، کوٹ اتار کر زمین پر پٹخا اور کنپٹی مسلی۔
” اہم ذرائع سے خبر ملی ہے کہ وہ اپارٹمنٹ شہروز نائک کی پہلی بیوی مس شیریں جہاں کے نام ہے۔”
اینکر مسلسل بولتی جا رہی تھی۔
” شیریں حہاں اونٹاریو کے بزنس مین کی بیٹی اور نائک خاندان کی بہو تھیں، انکی ایک چینز آف ہوٹلز اونٹاریومیں بھی ہے، جو وہ اپنے بھائی رئیس خان کے نام کر چکیں تھیں۔”
اینکر مسلسل بول رہی تھی۔
” ایک اور راز سے پردہ اٹھاتی چلوں، کیلگری میں موجعد بالاج ہوٹل چینز شہروز نائک نے زبردستی ہتھائی اور شیریں جہاں کو قتل کر دیا۔”
اینکر موضوع سے ہٹ کر شیریں جہاں پر آگئی تھی۔
شہروز نائک نے اچنبھے سے سکرین کو دیکھا۔
” اتنے راز کون کرید گیا۔”
بدنامی کا ڈر ، امیج مٹی میں مل جانے کا ڈر لیے وہ سر تھام کر رہ گیا۔
” نو و و ووووووووو۔”
ایل ای ڈی کھینچ کر دیوار سر زمین پر پٹخ دی۔
” بالاج سو رہا تھا،مجھے شور نہیں کرنا۔”
شہروز نائک یکا یک انگلی ہونٹوں پر رکھے بیٹھ گیا۔
پولیس کے سائرن ہر غصے سے دندناتا ہوا کمرے سے نکلا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا پیلس سے باہر نکل آیا۔
” ہے چپ۔”
شہروز نائک سب کو چپ کروا رہا تھا۔
” میرا بیٹا سو رہا ہے۔”
بلآخر وہ دھاڑا۔
” یہ آپکے بیٹے کی ڈیڈ باڈی۔”
پولیس آفیسر آگے بڑھا تھا۔
” یو چیپ، یو باسٹرڈ۔”
شہروز نائک آفیسر پر جھپٹا۔
” آر یو میڈ۔”
آفیسر غرایا۔
” میرا بیٹا سو رہا ہے۔”
شہروز نائک واپس اندر چلا گیا۔
” نائک پیلس میں کوئی بھی شخص بالاج نائک کی باڈی ریسیو کرنے کو نہیں تھا۔
پولیس اسے واپس لے گئی اور آخری رسومات ادا کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایان بے قرار دکھائی دے رہا تھا۔
” ڈیڈ بالاج نائک قتل ہو گیا، شپروز نائک کلیگری میں ہے تو وفا کو کڈنیپ کس نے کیا، بالاج نے مجھے کیوں بتایا ۔؟”
ایان الجھ گیا تھا۔
اسکا موبائل رنگ کر رہا تھا۔
ساریہ نائک کی کال تھی، ایان نے ریسیو کر کے موبائل کان سے لگا لیا۔
” وفا کا کچھ پتہ چلا۔؟”
ساریہ نائک کی پریشانی اسکے لہجے سے عیاں تھی۔
” اونٹاریو میں ہے، بالاج نائک کی ڈیتھ کے سپاٹ پر۔”
ایان سنجیدگی سے پریشان کن لہجے میں بولا۔
” شزا دو دن سے کیلگری میں نہیں ہے، اسکی حرکتوں پر نظر رکھو ایان۔”
ساریہ نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔
” واٹ۔۔۔شزا نائک۔”
ایان کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
” تو بالاج کو بھی اسی نے قتل کیا ہوگا۔”
ایان کو سمجھ آنے لگا تھا۔
” تم لوگوں کو سیکرٹلی جانا چاہیے، اسے پتہ چلا تو وہ شفٹ کر جائے گی۔”
ساریہ نے ہدایت دی اور فون بند کر دیا۔
اکاش ملک نے ہولیس لے زریعے مقامی پولیس کو آگاہ کیا۔
لوکیٹڈ اپارٹمنٹ پر پہنچے تو اپارٹمنٹ بلکل خالی اور سیل تھا۔
“ڈیم اٹ۔”
ایان نے زخمی ہاتھ گاڑی کے بونٹ پر مارا تو خوب پٹی کو سرخی میں رنگنے لگا۔
اونٹاریو نہایت خوبصورت تھا، لیک ن ایان ملک کی نگاہیں، ہر خوبصورتی سے بے بہر ہو گئیں تھیں۔
اسے احساس ہوا تھا، تلاش انسان کو کس تکلیف دہ سفر سے گزارتی ہے، کیسے وفا نے زندگی کے بیس سال ایک انسان کی تلاش اور انتظار میں گزارے، کیوں وہ اتنی سنجیدہ مزاج ہے۔
کسی کی تکلیف، تب تک تکلیف نہیں لگتی، جب تک وہ خود پر نہ بیت جائے۔
ایان اتنہائی بے بس محسوس کر رہا تھا، جب اسکی نظر بیسمنٹ ڈور پر پڑی۔
” ڈیڈ بیسمنٹ بھی چیک کروائیں۔”
ایان اکاش ملک کی طرف بڑھا جو ارد گرد کے اپارٹمنٹس کی چھان بین کروا رہے تھے۔
” ہاں، اسی طرف بڑھ رہے ہیں، تم فکر مت کرو اار شزا نائک کی لاسٹ لوکیشن چیک کرواو۔”
اکاش ملک نے کہا تو ایان نے پرائیویٹلی اسکی لوکیشن ٹریس کروائی۔
” ڈیڈ۔۔۔۔ انجینرنگ کالج کیلگری کی ہے لوکیشن اس وقت ”
ایان کا دماغ کام کرنا چھوڑ رہا تھا، وہ بے حد پریشان تھا۔
” ولیم انجینرنگ کالج میں شزا نائک کو دیکھو تو۔”
ایان نے ولیم کو بھیجا اور پولیس کی طرف متوجہ ہوا۔
پورا علاقہ سیل کر دیا گیا تھا۔
ساریہ کی پھر سے کال آنے لگی تھی۔
” ییس۔”
ایان فون کان سے لگائے بولا۔
” شہروز نائک دماغی توازن کھو بیٹھا ہے۔”
ساریہ نے اطلاع دی۔
” اوکے۔”
ایان نے کہا اور فون بند کر دیا، پولیس شزا نائک کی تلاش میں سرگرداں ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” خیام ہمیں اللہ نے خوبصورت بیٹی دی ہے۔”
ساریہ نائک کے میسیجز آ رہے تھے، خیام جواب نہیں دے پا رہا تھا۔
ساریہ نے تصویر بھیجی تھی، بچی بلکل ساریہ جیسی تھی۔
” خیام میں اسکا نام وفا رکھوں گی۔”
” خیام آپ کب آئیں گے اہنی شہزادی کو دیکھنے۔”
” خیام آپ باتطکیوں نہیں کر رہے۔”
” خیام میں پاکستان آ جاؤں گی۔”
” خیام سب خیریت تو ہے۔”
” خیام میرا دل گھبراتا ہے،آپ کو کھو نا دوں۔”
ساریہ نائک کے انگنت میسیجز۔
خیام نے گہرا سانس خارج کیا اور نمبر بند کر دیا، وہ ساریہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔
وہ خود کو اسکی خوشیوں کا قاتل سمجھنے لگا تھا۔
اسی کشمکش میں دو سال گزر گیے، خیام نہ واپس جا سکا نہ ساریہ کو بتا سکا۔
لقمان نائک ساریہ کو لیے پاکستان آگئے۔
خیام انہیں دیکھے بے حد شرمندہ تھا۔
‘ تم سے یہ امید نہیں تھی خیام۔”
لقمان نائک دروازے پر ہی ثمینہ کو دیکھ کر خیام پر داڑھے۔
” آپ اندر تو آئیے۔”
خیام گڑبڑا کر بولا تھا، ساریہ کاٹو تو لہو نہیں کی تصویر بن گئی۔
” ساریہ میری بات سنیں، میں آپ کو سب کلیر کردوں گا۔”
خیام ساریہ کی طرف بڑھا، اتنے پروٹوکول کے ساتھ آئے لقمان نائک کو دیکھنے محلہ جمع ہو گیا۔
سعید صاحب چھڑی کے سہارے گیٹ تک آئے۔
” ڈیڈ پلیز میری بات سن لیں۔”
خیام منت بھرے لہحے میں بولا جب ساریہ نائک کا ہاتھ گھوما اور خیام کے رخسار پر گہرا نشان چھوڑ گیا۔
لوگ اتنی حسین لڑکی دیکھ کر حیران تھے، ثمینہ منہ پر ہاتھ رکھے حیرت سے ساریہ کو دیکھ رہی تھی۔
” آئی ہیٹ یو خیام۔”
ساریہ متواتر روتے ہوئے دھاڑی تھی،اسکی قہر برساتی نظریں خیام کو چیر رہیں تھیں۔
” یہ سب مجبوری میں ہوا ساریی، میں شرمندہ ہوں بہت۔”
خیام ساریہ کی طرف بڑھا۔
پیچھے کھڑی ملازمہ کی گود میں دو سالہ وفا تھی۔
” اپنی بیٹی سنبھالو اور آج کے بعد کیلگری کا رخ کیا تو ٹکڑے کردوں گا۔”
لقمان نائک گرجدار آواز میں بولے اور ملازمہ کے ہاتھوں سے وفا کھینچ کر خیام کی طرف اچھال دی۔
خیام نے آگے بڑھ کر وفا کو تھام لیا، جو رونے لگی تھی۔
” ڈیڈ وفا۔”
ساریہ نائک رونے لگی تھی۔
” چلو ساریہ۔”
لقمان نائک اسے کھینچتے ہوئے گاڑی کی طرف لے گئے۔
” ساریہ مجھےطایک موقع دو پلیز۔”
خیام ساریہ کے پیچھےتھا۔
” میری بچی ڈیڈ ”
ساریہ رو رہی تھی۔
کقمان نائک نے ادے گاڑی میں پٹخا اور گاڑیاں گلی سے نکل گئیں۔
لوگ حیرت سے چہ مگوئیاں کرنے لگے تھے، سعید صاحب خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے تھے۔
انہیں احساس ہوا تھا، بیٹی کی خوشیوں میں بیٹے کی خوشیاں برباد کر گیے ہیں۔
خیام وفا کو لیے کمرے میں آگیا۔
وفا اجنبیوں کے بیچ بلک رہی تھی۔
خیام سر تھامے رو رہا تھا، اسی تماشے اور زلت کے ڈر سے وہ جا نہیں پایا تھا۔
جو زلت مقدر میں ہو مل کر رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسمنٹ تک پہنچتے ہی فائرنگ سے دروازے کا لاک توڑا گیا اور پولیس اندر داخل ہوئی۔
” سٹاپ اٹ، آئی شوٹ ہر۔”
شزا کی دھاڑ پر پولیس رک گئی۔
ایان انکی طرف بڑھا۔
” دور رہو ہم سے، ورنہ۔”
شزا نائک وفا ملک کو جھٹکتی ہوئی بولی، وفا کی زخمی کنپٹی پر پسٹل کی ضرب سے وہ کراہ کر رہ گئی۔
ایان رک گیا تھا۔
شارپ شوٹر پولیس آفیسر نے شزا نائک کے ہاتھ کا نشانہ باندھا، پسٹل دور جا گرا، شزا بھاگ کر پسٹل کی طرف بڑھی۔
ایان نے وفا کو تھام لیا۔
شزا گن لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔
پعلیس پیچھے ہٹتی گئی۔
وی باہر آگئی تھی، چہرے پر خوف جھلکنے لگا تھا، دل بری طرح گھبرانے لگا تھا، شاید ہار کا ڈر تھا۔
ہاتھ کپکپایا اور گولی پولیس آفیسر کے بازو میں پیوست ہوگئی۔
پولیس کی طرف سے برنلا فائرنگ امیرزادی شزا نائک کے نازک وجود کے چیتھڑے اڑا گئی۔
برائی کا انت ہو گیا تھا۔
ایان وفا کو سہارا دیے بیسمنٹ سے باہر لایا، ساریہ نائک پروٹوکول کے ہمراہ سیلڈ علاقے میں پہنچ چکی تھی۔
شزا نائک کے وجود کو دیکھتی وہ منہ پر ہاتھ رکھے سسک دی۔
نائک خاندان کا باب بند ہو گیا تھا۔
۔
۔
۔ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...