(Last Updated On: )
خلیل الرحمن چشتی صاحب ایک نفیس، دین پرست علوم، دین و دنیا سے بہرہ ور اور با اصول شخصیت کے مالک ہیں۔ ان سے میری ملاقات ایک دینی مجلس میں ہوئی۔ ان کی گفتگو سے ادبی ذوق روشنی کی طرح مترشح تھا اور اسی کی دل کشی ذہنی طور پر میرے لیے وجہ شناخت بنی۔
جب مجھے اس بات کی اطلاع ملی کہ خلیل صاحب نے ایک شعری مجموعہ مکمل کر کے پیش کر دیا ہے، تو یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ ان کا ادبی ذوق نظری ہی نہیں، عملی بھی ہے اور یہ کہ وہ مستقل شاعر ہیں کتاب کا نام معلوم ہوا کہ ’’مصحف دوراں‘‘ ہے۔ گویا اس دورِ ظلمات میں ایک نئے مصحفِ ادب کے آنے کی خبر ملی۔ کتاب دیکھی تو عمدہ گٹ اپ میں قابلِ ذکر شاعری ملی۔ پہلی نگاہ میں جو تاثرات قائم ہوئے وہ پیش ہیں۔
نظریاتی ادب انشراحِ ذات کا ایک پابند وسیلہ ہے، جس میں فرد کے جذبات اس کے عقائد و مفروضات سے منعطف ہو کر ایک خاص زاویے سے مرسل الیہ تک پہنچتے ہیں یہ عقائد و مفروضات چاہے سماجی و سماجیاتی نوعیت کے ہوں کہ دینی اقدار پر مرکوز ہوں، انعطاف کا عمل ان کے عمق اور واسطے کی حدت سے ترسیل کی قوت کا اشاریہ ہوتا ہے۔
اگر ہم اسلامی ادب یعنی دینی عقیدہ سے مملو نظریاتی شاعری کو منتخب کریں تو ماضی قریب میں اس کی بہت سی کامیاب مثالیں ملیں گی۔ اہم ترین اقبال کا کلامِ حکیمانہ ہے، جو کلام اللہ اور احادیث شریفہ کی روشنی میں عصری مسلم مسائل کو مروجہ عالمی فکر و فلسفہ کے تناظر میں طاقت ور زبان و بیان میں بلند آہنگ اور خطیبانہ لب و لہجہ میں پیش کرتا ہے۔ یہ ایک طرح سے شاعری سبق آموزی اور تصوف کا امتزاج بھی ہے۔
اس کے علاوہ وہ اتنی ہی اہم مثالوں میں حالی اور شبلی کے ادبیت سے پر کلام ہیں جو کہ درسِ اخلاقیات اور اذنِ عمل کو متوازن طور پر پیش کرتے ہیں۔ سرمدی اور معرفت سے بھرپور کلام کے لیے آسی غازی پوری، اصغر گونڈوی اور امجد حیدرآبادی کی مثالیں قابلِ ذکر ہیں جو استعاراتی اور عشقیہ پس منظر میں عشقِ حقیقی سے لبریز ہیں۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ظفر علی خان، ماہر القادری، حفیظ جالندھری اور ہم عصر دور میں عبدالعزیز خالد، عمیق حنفی، مظفر وارثی، والی آسی، عامر عثمانی اور نعیم صدیقی کا ذکر بھی اس نوع کے شاعروں میں اہم ہے۔
خلیل چشتی نے ایک بہت دشوار راہ کو اختیار کیا ہے اور اس میں ایک منفرد انداز پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری عرفانِ مسلک اور اس کی ہمہ رنگی، عشقِ خدا و رسولؐ کی گہرائی اور گیرائی، خطابات و موعظت کا منصبی طمطراق، زبان اور اس کی تہہ در تہہ وسعتیں ان تمام مقامات و منازل سفر سے یک گونہ متاثر ہوتے ہوئے خلوصِ اظہار کو مقدم سمجھتی ہے، اس طرح سے ان کی شاعری اپنی طور سے ایک جداگانہ شناخت پیدا کرتی ہے۔
مسلم دنیا کی تاریخ، علماء اہلِ فضل و ادب اور شعرا سے آبادو سیراب ہے، اس میں گزشتہ چودہ سو برسوں میں چار سو برس اردو کے بھی ہیں۔ وہ عظیم دینی شخصیات جو اردو کے افق پر نمودار ہوئیں ان میں سے بیش تر ادبی و شعری میادین میں فعال تھیں۔ یہ شخصیات بلاشبہ بلند عبقریت کی حامل تھیں فی الوقت ان کے ناموں کا تذکرہ منظور نہیں لیکن دین اور ادب کے درمیان جو قریبی تعلق ہے اس کی نشان دہی مناسب محسوس ہوتی ہے۔
خلیل الرحمن چشتی نے اپنی شاعری کے بارے میں صراحت کر دی ہے کہ:
نہ کوئی ایہام کی ہے صنعت، نہ کوئی ابہام کی ہے لعنت
بہت ہی سادہ سا ڈھنگ ہے اک، خلیل چشتی کی شاعری کا
اس لیے ان کی شاعری میں یوں تو ہلکے پھلکے طور پر شعر و بیان کی صنعتیں اور ان کا حسن دخیل ہو جاتا ہے لیکن شعوری طور پر ان سے احتراز کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً جو کلام منظر پر آیا ہے وہ پیش تر واحد متکلم میں گفتگو کی شکل رکھتا ہے جس میں حاضر وہ ساری دنیا ہے جو شاعر سے غالباً اکتسابِ رشد کی منتظر ہے اور شاعر عام مقام سے بلند ہو کر اپنے سامع کو مستفید کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ شاید یہی ان کے مجموعہ کی وجہ تسمیہ ہو کر شاعر اپنے مخاطب پر ایک مصحف اتار رہا ہے جو اسے نئے دور کی ہمہ رنگیوں میں با ہوش رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
اس مجموعۂ کلام میں نظمیں، غزلیں، قطعات، مثنوی نما طویل نظم اور نعتیں سب کچھ ہیں اور یہ اس طرح شاعر کے کئی اصناف پر طبع آزمائی کی دلیل ہیں۔
ان کی نظموں میں خیر و شر کا تضاد و تصادم، قدیم و جدید کا تقابل، شرق و غرب کا امتیاز اسلام سے وابستگی کا اظہار اور ثنا خوانیِ رسولؐ اہم موضوعات ہیں۔ خلیل کی شاعری مختلف الالوان اور استعاراتی نہیں بلکہ بیانات کی با وزن طور سے ترسیل پر مبنی ہے۔ یہی ان کا اسلوب ہے، مثال کے طور پر:
ذرہ ذرہ صحرا ہے
قطرہ قطرہ دریا ہے
حرف حرف دفتر ہے
گفتگو کا لشکر ہے
چشمکِ حریفانہ!
گفتگو کیے جانا!
(گفتگو ضروری ہے)
یا پھر:
نہ نوابی ہے ان میں
نہ ہی تانا شہی ہے
نہ غزہ ہے نسب کا
نہ شان برتری ہے
نہ ہی جاگیرداری ہے
نہ ہی شہزادگی ہے
نہ جھوٹی شان اس میں
نہ کوئی تاؤ ہی ہے
امیری میں غریبی
غریبی شان کی ہے
(وحیِ مغربی)
کچھ نظموں میں سادہ و سہل پیرایہ میں قرآنی آیت یا کسی حدیث کا شعری تاثر پیش کیا گیا ہے مثلاً ان کی نظم لباس جو بیوی اور لباس دونوں ہی کی خصوصیات کو ایک دوسرے میں آمیزش کر کے اپنے متعین نتیجہ پر پہنچتی ہے۔
انھوں نے نعت میں لسانی یا بیانی تخصیص نہیں دکھائی ہے مثلاً ان کے یہ شعر نعت کی سر زمیں میں انمل سے لگتے ہیں:
لوگ وہ اب نہیں رہے اور زباں بدل گئی
بولو سماجیات سے، بولو معاشیات سے
مردِ جری ہو تم میاں جنگل کی سوچتے ہو کیوں
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے نپٹو تو کائنات سے
(حضورؐ)
خلیل صاحب کی غزلوں میں ہوش کی زیریں رو اور شاعرانہ تحتِ شعور کے تلازمہ سے کئی خوب صورت شعر تخلیق ہوئے ہیں، مگر لگتا ہے کہ جب بھی شاعر نے پاسبان عقل سے تھوڑی نظر بچائی ہے خوب صورت شعر وارد ہوا ہے آپ بھی محظوظ ہوں:
مرے غم کے کنارے تم کھڑے ہو
پہ گہرائی کا اندازہ نہیں ہے
میں جتنا پاس جاتا ہوں وہ اتنے دور ہوتے ہیں
اڑائیں فاختائیں کتنی نا دانستہ، دانستہ
کچھ فکر کرو دن کی میاں رات ہے کتنی
دنیائے ہوس کیش کی اوقات ہے کتنی
تعاقب میں سورج کے نکلا جو میں
تو کچھ اور تاریکیاں بڑھ گئیں
سماجیاتی موضوعات پر ان کی جو نظمیں ہیں، ان پر اظہار رائے کرنے کی میں کوئی وجہ نہیں پاتا۔ اس لیے کہ عوام ان کے بلاواسطہ مخاطب ہیں اور نظمیں واضح لفظیات پر مستوی ہیں۔ میں خلیل الرحمن چشتی صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ چکی کی مشقت، امت کے لیے رہ شناسی اور دوسری مصروفیات کے باوجود انھوں نے ادبی ذوق کو زندہ و تازہ کار رکھا اور ایک قابلِ ذکر شعری مجموعہ پیش کیا۔ جس پر ادبی حلقوں میں ضرور بحث ہو گی اور اس مضمون کو ان کے ہی شعر پر ختم کرتا ہوں کہ:
نگری نگری شور مچا ہے صحرا صحرا گونج اٹھی ہے
چشتی جی نے لکھی غزل یا آئینے پر پتھر ٹوٹا
٭٭٭