خالد ملک ساحل (ہمبرگ، جرمنی )
بے مزا تھی جو بد مزا کر دی
زندگی آپ نے سزا کر دی
ایک پردا تھا دوستی کیا تھی
باتوں باتوں میں ناروا کر دی
تو نے وعدہ کیا تھا جس دن کا
دل نے اس شام انتہا کر دی
تیرے حصے کا انتظار کیا
پھر نمازِ وفا ادا کر دی
دیکھ کر بھی مجھے نہیں دیکھا
گویا رشتے کی ابتدا کر دی
تیرے وعدے تری امانت ہیں
پر، وہ تصویر جو چھپا کر دی
آج بھی شوق ہے جلانے کا
تو نے تحریر بھی جلا کر دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقاش کے لیے
اچھے لمحے سنبھال کر رکھنا
سارے رشتے سنبھال کر رکھنا
دل کی دنیا عجیب دنیا ہے
دل کو دل سے سنبھال کر رکھنا
راحت جسم و جاں سے بہتر ہے
سچے سجدے سنبھال کر رکھنا
ہاتھ کے ہاتھ رزق چلتا ہے
سب کے حصے سنبھال کر رکھنا
منزلوں پر یقین مت کرنا
اپنے رستے سنبھال کر رکھنا
آسماں کی زبان سادہ ہے
اپنے لہجے سنبھال کر رکھنا
میری عزت ہی میری دولت ہے
میرے بچے سنبھال کر رکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دن، مہینے، سال بھی، مدت نہیں رہی
دل جانتا ہے ،پیار میں شدت نہیں رہی
خانہ بدوش آ گئے شہروں کے درمیاں
مجنوں کو بھی مکان سے وحشت نہیں رہی
خود کو اٹھا کے راہ میں رکھا ہے کھول کر
دیکھو تو میری زات میں غربت نہیں رہی
میں نے بڑے وقار سے دنیا کو تج دیا
کس نے کہا تھا عشق میں عزت نہیں رہی
اک عالم خیال میں بسنے لگا ہوں میں
اس عالم وجود سے نسبت نہیں رہی
جی بھر کے اس جہان میں زندہ رہا ہوں میں
اب دل کو سرکشی کی بھی حسرت نہیں رہی
اس کنج بے نشان میں ساحل، سکوں تو ہے
لیکن یہ مسئلہ ہے کہ شہرت نہیں رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی طلب تھی زندگی، میں نے کہا جہان بھی
کس کو خبر تھی بے خبر مانگے گا آسمان بھی
ساری دعائیں بھول کر میں نے شکست مان لی
گھر تو بنا نہیں مگر، خالی نہ ہو مکان بھی
جل کر جو خاک ہو گئے ،ان کو ہوا نہ لے اڑے
میری ادا کی شان کا کچھ تو رہے نشان بھی
کوئی نہیں ہے باوفا، کوئی نہیں ہے باصفا
غیروں سے کیا گلہ کریں، اچھا ہے خاندان بھی
حرص و ہوس نے چھین لی سارے جہاں کی روشنی
کوئی نہیں ہے زائقہ خالی ہے پاندان بھی
میں نے دعائے خیر میں اس کو بھی ساتھ لے لیا
دیکھا تو اس کے ہاتھ میں،ترکش بھی تھا کمان بھی
خالد ملک جو آگ تھا، ساحل ہوا تو خاک ہے
شعر و سخن نے چھین لی اس کے بدن سے جان بھی