ہم دیکھتے، سنتے، چھوتے، سونگھتے، چکھتے ہیں لیکن اصل چیز ان کے معنی ہیں۔ مثال کے طور پر، دماغ کا ایک حصہ پرائمری ویژوئل کارٹیکس ہے جس کا کام بصری دنیا کے بنیادی فیچر محسوس کرنا ہے۔ روشنی اور تاریکی، جگہ، لکیر، کونہ ۔۔۔ لیکن یہ سب ڈیٹا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ جس شخص، جگہ یا شے کو دیکھ رہے ہیں، وہ کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟ یہ ایسوسی ایشن ہے۔
اگر آپ ایک سائن بورڈ پڑھتے ہیں جس پر لکھا ہے کہ “گاڑی کھڑی کرنا منع ہے”۔ یہ الفاظ آنکھ میں عکس بناتے ہیں۔ لیکن اس کا پیغام اپنے معنی اس وقت دیتا ہے جب یہ انفارمیشن آنکھ سے ویژوئل کورٹیکس اور پھر ایسوسی ایشن کورٹیکس تک جائے جہاں پر اس کی شناخت ہو، حروف اور الفاظ کی شناخت ہو۔ لیکن یہ تو ابھی صرف ابتدا ہے۔ یہ انفارمیشن ایسوسی ایشن کے دوسرے علاقوں تک جائی گی۔ یہ الفاظ، ان کے ساتھ منسلک یادداشت، جذبات اور آپ کی ذاتی یادداشت شامل ہو گی۔ دوسری موصول ہونے والی انفارمیشن کے سیلاب میں شامل ہو گی اور اس سے انہیں اضافی مطلب ملیں گے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ اس سائن بورڈ کی وجہ سے اپنا کوئی فیصلہ بدل لیں یا پھر ہو سکتا ہے کہ اسے نظرانداز کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو بھی دوسرے جانوروں کی اندرونی سوچ کے بارے میں فرسٹ ہینڈ علم تو نہیں لیکن جو سائنسدان ان پر تحقیق کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ وہ تجریدی تصورات بنانے میں اچھے نہیں ہیں۔
سائنسدان یہ دکھا سکتے ہیں کہ کئی جانور ریاضی کے سادہ مسائل حل کر سکتے ہیں۔ لیکن چاند کے “مدار” کو بیضوی کے تصور کے ساتھ منسلک کرنا؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ایسوسی ایشن نیورون ہمیں سوچ اور تصورات کا موقع دیتے ہیں۔ ہم محض ردِعمل نہیں دیتے۔ ہماری اچھوتی سوچ میں یہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ذہن کے گوشوں میں پڑی انفارمیشن کو ملانا اور پھر نئے طریقوں سے تبدیل کر دینا ان کی کارستانی ہے اور یہ ہماری نت نئی سوچوں کی جڑ ہے۔
اور یہ ہمیں واپس ڈیفالٹ موڈ کی طرف لاتا ہے۔ “جب آپ کا ذہن آرام کی حالت میں ہے تو اس میں سوچیں اچھل رہی ہیں۔ ایسوی ایشن کورٹیکس پس منظر میں کام کر رہا ہے۔ یہ اس وقت ہے جب آپ کی توجہ کسی طرف مرکوز نہیں۔ لیکن اگر آپ ایسا کام کر رہے ہیں جو زیادہ توجہ نہیں لیتا (مثال کے طور پر سست رفتار سیر کرنا یا نہانا) تو اسے اپنا کام کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے اور یہ وہ وجہ ہے کہ اس وقت میں ذہن میں نئے آئیڈیا زیادہ آسانی سے تخلیق پاتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوروسائنس میں کسی چیز کو بہتر سمجھنے کا طریقہ ایسے لوگوں کو سٹڈی کرنا ہے جن کیلئے وہ چیز خراب ہو گئی ہو۔ ایک مشہور کیس ایک مریضہ “ج” کا ہے۔ فرنٹل لوب میں سٹروک ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنا ڈیفالٹ موڈ کچھ عرصہ کیلئے کھو بیٹھیں۔
سٹروک کے بعد وہ بستر پر خاموشی سے لیکن چوکس لیٹی رہتی تھیں۔ بات کا جواب دیتی تھیں اور ہدایات پر ردِ عمل دیتی تھیں۔ لیکن چونکہ ان کے ذہن کا اندرونی مکالمہ خاموش ہو گیا تھا تو ان کے ذہن میں کچھ بھی نہیں آتا تھا۔
اگر ڈاکٹر پوچھے کہ “کیا آپ کو ہسپتال کا کھانا پسند آیا؟” تو ان کا جواب یہ ہو سکتا تھا کہ “زیادہ اچھا نہیں ہے”۔ عام طور پر نارمل شخص اس سے آگے بھی کچھ کہتا ہے۔ مثال کے طور پر، “ایک بار گھر جاؤں تو بریانی اڑاؤں گا”، یا “میرے دفتر کی کینٹین سے پھر بھی بہتر ہی ہے”۔ لیکن ایسی بات کرنے کیلئے ہمیں ذہن میں کئی الگ چیزوں کے درمیان تعلقات بنانے پڑتے ہیں۔ یہ گفتگو ہمارے ارد گرد کے ماحول سے نہیں آتی، کسی چیز کا ردِ عمل نہیں ہے۔ یہ ہماری شخصیت کا اظہار ہے اور ان کے لئے ہمیں اپنے اندر دیکھنا پڑتا ہے۔ ج کے لئے ایسی سوچ ممکن نہ رہی تھی۔ وہ نئے خیالات تخلیق نہیں کر سکتی تھیں۔ اس لئے ان کی گفتگو کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی۔
جب ج صحتیاب ہو گئیں اور ان سے پوچھا گیا کہ وہ بیماری کے دوران سوالات کے جواب دینے کے علاوہ کوئی اور بات کیوں نہیں کرتی تھیں؟ ان کا جواب تھا کہ وہ اس لئے نہیں بولتی تھیں کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ ان کا ذہن خالی تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...