(Last Updated On: )
اگلا دن سوچتی رہی وہ کس طرح عیان سے بات کرے کہ علیزے اس کی دوست ہمارے رشتے کو خراب کرنا چاہ رہی ہے ۔۔ پر موقع مل نہیں رہا تھا رات بھی دیر سے کمرے میں ایا تھا وہ سوچکی تھی ۔۔
صبح بھی علیزے ساتھ ساتھ تھی اور شام میں دونوں جلدی گھر اگۓ تھے ۔۔۔ اکیلے میں بات کرنے کا موقع دستیاب نہیں ہورہا تھا انشاء کو ۔۔۔
رات کے کھانے کے بعد وہ عیان کو کافی دینے اسٹڈی میں آئی ۔۔۔ اسے اکیلا دیکھ کر خوش ہوئی ۔۔۔ ابھی کچھ کہتی علیزے اگئی وہیں اور کہا۔۔۔
“میری کافی ۔۔۔
“ابھی لاتی ہوں ۔۔۔ انشاء سمجھی وہ اپنے کمرے میں پیۓ گی ۔۔۔ اب یہان لانے کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا ۔۔۔
“آج رات جاگتی رہوں گی جب تک عیان روم میں آۓ گا نہیں میں نہیں سونے والی ۔۔۔ اج تو بات کروں گی ضرور ۔۔۔
وہ بےصبری سے اس کا انتظار کرہی تھی ۔۔۔۔ رہا نہ گیا تو اسے دیکھنے آئی ۔۔۔۔
وہ ٹھر گئی ان کی بات سن کر ۔۔۔
“سنو کیا کسی کی دوسری بیوی بننا گناہ ہے جو یہ دنیا اسے گناہ بنادیتی ہے ۔۔
علیزے نے کرب سے کہا ۔۔۔
“گناہ تو نہیں ہے ۔۔۔ پر کیا کریں دنیا نہیں مانتی اسے جائز ۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
انشاء جو وہان عیان کو دیکھنے آئی تھی ۔۔۔ ان کی گفتگو سننے لگی ۔۔ کسی کی چھپ کر باتیں سننا بری بات ہے یہ جانتے ہوۓ بھی دل کی خواہش کو دبا نہ سکی اور خود کو سننے پر مجبور محسوس کررہی تھی ۔۔
“اور اگر میری خوشی اسی میں ہے تو تم کیوں انکار کررہے ہو اعتراض کا تو کوئی جواز نہیں ،جب پہلی بیوی کی مرضی بھی شامل ہے ۔۔۔ پھر کیوں انکار کررہے ہو تم ۔۔۔ پلیز مان جاؤ ۔۔۔
علیزے دھیمے لہجے میں اپنی بات کہے رہی جب کہ باہر کھڑی انشاء کے پیروں کے نیچے سے زمیں سرکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔
اب کچھ کہنے اور سننے کو رہا نہ تھا ۔۔۔۔ سب ختم ہوتا محسوس ہوا اسے ۔۔۔۔
اپنے لفظ اپنا مذاق اڑاتے ہوۓ محسوس ہوۓ ۔۔ ” کتنا فخریہ اسے کہتی تھی تم ، دوسری شادی کرلو اور اب سانس گھٹنے لگی تھی صرف سوچ کر ہی ۔۔۔اور جب وہ کرلے گا دوسری شادی تو کیا حالت ہوگی تمہاری ۔۔۔۔ انشاء نے خود سے کہا ۔۔۔
“اور واقعی جس دن میں نے دوسری شادی کرلی اس دن سب سے زیادہ تم پچھتاؤگی ۔۔۔
ایک ایک قدم قدم بھاری ہورہا تھا ۔۔۔۔ دل تھا کہ گہرائیوں میں ڈوبتا جارہا تھا ۔۔۔
“تین دفعہ سے زیادہ تم مجھے دوسری شادی کا کہے چکی ہو انشاء ، اب اگے تم سے اجازت لینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔۔ کیونکہ اجازت تم دے چکی ہو ۔۔۔
کس طرح وہ کمرے تک پہنچی صرف وہی جانتی تھی ۔۔۔ قدم قدم پر لڑکھڑائی تھی وہ ۔۔۔ جو اپنے ہاتھوں سے اپنے سہارے کو ٹھوکر مارتے ہیں نا ۔۔۔ پھر جب قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں تو خود کو خود ہی سنبھالنا پڑتا ہے ۔۔۔
“جب مجھے کرنی ہوگی دوسری شادی تو کرلوں گا ۔۔۔ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔
“چپ ہوجاؤ خدا کے لیۓ ۔۔۔۔ اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیۓ جس میں عیان کے کہے لفظوں کی بازگشت ہونے لگی تھی ۔۔۔ جو لفظ دکھ سے عیان کہتا تھا جسے وہ خود مجبور کرتی تھی دوسری شادی کا کہے کر ۔۔۔۔
اصل اذیت کیا تھی ۔۔۔ اج پتا چلا تھا ۔۔۔۔
“تو تمہیں ایمان کی یادوں کے ساتھ جینا تھا ۔۔۔ اب تم آزاد ہو ، جاؤ جی لو ان یادوں کو ۔۔۔ اندر سے ضمیر کی آواز کا آخری وار تھا وہ بےہوش ہوچکی تھی خود اذیتی میں ۔۔۔
انشاء کی انکھ کسی کی آواز سے کھلی ۔۔۔ کوئی اسے پیار سے پکار رہا تھا ۔۔۔ کوئی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا ۔۔۔ محبت بھرا انداز یہ لمس کسی اپنے کا تھا ۔۔۔
“باباجان ۔۔۔ بابا جان ۔۔۔ وہ سسک اٹھی ۔۔۔۔
“انشاء ۔۔ انشاء ۔۔۔ وہ اسے پکار رہا تھا ۔۔
اہستہ آہستہ انکھیں کھولی اس نے ۔۔۔ عیان کو اپنے پاس بیٹھا دیکھ کر حیران ہوئی ۔۔ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔
“کیا ہوا ۔۔۔ اس طرح کیوں بیڈ پر تم پڑی تھی ، کیا ہوا تھا ۔۔۔ کچھ ہوا ہے ۔۔۔
وہ دھیمے لہجے فکرمندی سے اسے دیکھتا اس کی سماعتوں میں میٹھا رس گھول رہا تھا ۔۔۔
وہ کئی لمحے ناسمجھی سے اسے دیکھتی رہی خالی نظروں کا احساس عیان کو بھی تڑپا گیا ۔۔۔
“کیا ہوا انشاء ۔۔۔ وہ ایک دم اس کے سینے سے لگی اور شدت سے روپڑی ۔۔۔
اب وہ فکرمند اور پریشان ہورہا تھا اس کے لیۓ ۔۔۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ریلکس اسے کررہا تھا ۔۔۔
“انشاء تم مجھ سے اپنے دل کی بات کرسکتی ہو ۔۔۔ میں جانتا ہوں اج ایمان کی سالگرہ کا دن ہے ، تم مجھ سے اس کی بات کرسکتی ہو ، اس طرح خود کو تکلیف نا دو ، جانتا ہوں باباجان یہان ہوتے تم دل کھول کے ان سے اپنے دل کی بات کرسکتی تھی ۔۔۔
اب کے ایک دم انشاء اس سے الگ ہوئی اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ جو خود ضبط کررہا تھا ۔۔۔
انشاء کو افسوس ہوا وہ واقعی بھول گئی تھی ۔۔۔ ” کیا واقعی میں بھولنے لگی ہوں ایمان کو ، جس نے ہمیشہ مان دیا تھا مجھے ۔۔۔ اپنے ہونے کا احساس دیتا رہا ۔۔۔
وہ اور شدت سے روپڑی اس کے گلے لگ کر ۔۔۔
عیان یہی سوچ سکا کہ وہ ایمان کی یاد میں رورہی تھی ۔۔ وہ اسے تسلی امیز لہجے میں کہنے لگا کہ ۔
“کل خیرات کروائی ہے ، قرآن کا ختمہ بھی کروائیں گے گھر پر ۔۔۔ مدرسے کے بچے آئیں گے قرآن پڑھنے ۔۔۔ تم روو مت اور کسی کے رونے سے وہ واپس نہیں آۓ گا ، جانے والوں کو دنیا کی فکر نہیں رہتی اور جو ان کے اپنے چاہنے والے ہوتے ہیں وہ ان کے لیۓ قرآن کا تحفہ بھیجتے ہیں یا کوئی ایسی نیکی کا کام کرتے ہیں ان کے نام سے جو ہمیشہ زندہ رہے ۔۔۔
عیان اسے پیار سے سمجھا رہا تھا ۔۔۔
وہ اس کے سینے سے لگی تھی ۔۔۔ کافی دیر بعد عیان نے اسے خود سے الگ کیا اور کہا ۔۔۔
“انشاء تم سونے لگی ہو کیا ۔۔۔ جانے کیوں عیان کو لگ رہا تھا پہلے جس طرح وہ بیڈ پر اڑی ترچھی لیٹی تھی وہ شاید بےہوش ہوئی ہو پر انشاء نے ایسا کوئی تاثر نہ دیا تھا اسے ۔۔۔ ابھی بھی اس لیۓ پوچھا تاکہ وہ اپنی تسلی کرسکے ۔۔۔
“ہممم ۔۔ مجھے۔۔۔ نیند ارہی ہے ۔۔۔ انشاء نے مدہوشی میں کہا وہ نیند کی وادی میں اتر چکی تھی ہر بات سے ہوکر بےفکر ۔۔۔
عیان نے اس کے ماتھے پر اپنا لمس چھوڑا ۔۔۔اسے بیڈ پر لٹانا چاہا خود سے الگ کرکے پر وہ اور مضبوطی سے اس سے جڑ گئی جیسے اسے خود سے جدا نہ کرنا چاہ رہی ہو ۔۔
” کاش یہ سب نیند کے بجاۓ ہوش میں کرتی تو شاید میں ہواؤں میں اڑنے لگتا ۔۔۔ عیان نے اسے خود سے لگائے ہوئے سوچا۔۔
وہ اس کے سینے سے لگی سورہی تھی وہ بھی اسے دیکھتا دیکھتا سوگیا ۔
@@@@@@
اگلا دن بےانتہا مصروف رہا کیونکہ گھر میں بھی مہمان ارہے تھے اور باہر بھی عیان خیر خیرات میں مصروف رہا ۔۔ عیان ایمان کے نام سے کئی جگہ پانی کے الیکٹرک کولر لگواۓ اور کھانے تقسیم کیۓ ۔۔۔ کئی گھروں میں راشن دیا ۔۔ جتنا یوسکا اس نے اپنے بھائی کے ایصال اور ثواب کے لیۓ کرتا رہا ۔۔
گھر میں قرآن خوانی تھی اس لیۓ انشاء زینب بی اور علیزے بھی مصروف تھی ۔۔۔
نازیہ بھابھی، مسز وحید اور ان کی دونوں بیٹیان بھی آئیں تھیں ۔۔۔
شام تک سب مہمان چلے گۓ ۔۔ صرف نازیہ بھابھی اور مسز وحید تھیں ۔۔۔
“ٹھیک ہے بیٹا اب میں چلتی ہوں ۔۔مسز وحید نے کہا ۔۔۔
“آنٹی ٹھر جاتیں تھوڑی دیر اور ۔۔۔ انشاء نے کہا نازیہ بھی اس کے پاس ہی کھڑی تھی ۔۔
“بیٹا گھر پر کچھ مہمانوں نے انا ہے ۔۔۔ تم آؤ کبھی۔۔۔ انہوں نے اسے پیار دیتے ہوۓ کہا ۔۔۔ ان کا انداز ممتا لیۓ ہوۓ تھا ۔
“تم میری بیٹی جیسی ہو جب اکیلےپن اور تنہائی کااحساس ہو اجانا ۔۔ ان کے خلوص پر جانے کیوں انشاء کی انکھ نم ہوئی ۔۔۔
“جی آنٹی ضرور آؤں گی ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔
مسز وحید انشاء اور نازیہ سے مل کر روانہ ہوئی ۔۔
“کیا بات ہے انشاء اج تم کچھ زیادہ ہی اداس ہو ۔۔ نازیہ نے تنہائی ملتے ہی پوچھا ۔۔۔
“نہیں ۔۔۔ انشاء نے سنبھل کر کہا ۔۔۔
” چلو تم کہتی ہو تو مان لیتی ہوں انشاء ۔۔ نازیہ نے کہا ۔۔۔ لمحے بھر کو رک کر دوبارہ کہا اس نے ۔۔۔
” ہر مسئلے پر خاموشی اختیار کرلینا مسئلے کا حل نہیں ہوتا کبھی کبھی کہنا بھی چاہیے اور کسی کی سن بھی لینی چاہیے ۔۔
وہ اسے کافی کچھ سمجھانا چاہتی تھیں ۔۔۔ پر موقع بھی تو ملے ۔۔۔ انشاء نے ان کی بات کے جواب میں کہا ۔۔۔
“اور نازیہ بھابھی کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہنا اور سننا دونوں رائیگان چلا جاتا ہے ۔۔۔ جب کوئی کچھ سننا چاہتا ہے تو ہم کچھ کہتے ہی نہیں ۔ اور جب ہم کہنا چاہتے ہیں تو کوئی سننے والا نہیں ہوتا ۔۔ اور اس طرح لفظ اپنے معنی کھو دیتے ہیں احساس بھی مر جاتا ہے ان لفظوں کا پھر کہنے کا کیا فائدہ ۔۔۔
انشاء کی بات پر نازیہ بھابھی اس کا چہرہ تکنے لگی ۔۔۔ سوچ میں پڑگئی کس طرح اسے سمجھاۓ جو اپنی قدر وقیمت نہیں جانتی ۔۔ خود کو بےمول سمجھ بیٹھی ہے ۔۔۔
” اور کچھ مجھ جیسے بھی بد نصیب ہوتے ہیں جو اپنے لیے خود ہی کھڈا کھو دیتے ہیں ۔۔۔ انشاء نے سوچا پر کہے نہ سکی ۔
احساس زیان انشاء کا بھڑنے لگا تھا ۔۔۔
“انشاء ۔۔ نازیہ بھابھی کی پکار پر وہ اپنی سوچ سے باہر نکلی ۔۔۔ اس سے پہلے نازیہ بھابھی کچھ اور کہتی اسی وقت ملازم نے آکر بتایا کہ “عمر صاحب بلا رہیں اپ کو ۔۔۔
“ٹھیک ہے چلتی ہوں پھر کبھی تفصیل میں بات کریں گے ۔۔۔ اپنا خیال رکھنا انشاء ۔۔۔ نازیہ نے اس کی ہلدی جیسی پڑتی رنگت کو دیکھ کر کہا ۔
“جی بھابھی ۔۔۔ انشاء نے گلے لگتے ہوۓ کہا ۔۔۔
انشاء ان کو دروازے تک چھوڑنے آئی جہان پہلے سے عمر عیان اور علیزے کھڑے تھے ۔
@@@@@@
کمرے میں گھٹن کا احساس ہوا تو گلاس وال کو ڈکھیلتی روم سے اٹیج ٹیرس پر اگئی یہ عیان کے کمرے کی خاصیت تھی یہان سے گارڈن کا ویوو بہت خوبصورت اتا تھا ۔۔۔ اب وہ گارڈن کا منظر دیکھنے لگی ۔۔۔
بہت خوبصورت تھا ان کے گھر کا گارڈن جس کا ویو دوکمروں سے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے ایک عیان اور دوسرا ایمان کے بیڈروم سے ۔۔۔ فینسی لائیٹس نے گارڈن کو حسین تریں بنایا ہوا تھا ۔۔۔
“جب تمہارا بے بی اجاۓ گا نا تو یہاں بہت سے پرندے وغیرہ رکھیں گے ایمان ۔۔۔ میں فارن سے منگواؤں گا ہر قسم کےبرڈس ۔ بچے بہت خوش ہوتے ہیں پرندوں کو دیکھ کر ۔۔۔
عیان نے یہ بات کہی تھی ایمان سے ۔ ۔ ایمان نے ہنستے ہوۓ کہا ۔۔۔
“پرندے ہی کیوں ہاتھی گھوڑا شیر سب رکھیں گے پورا زوو کھولیں گے بھائی ۔۔۔ پھر پانچ روپے ٹکٹ لگوائیں گے ۔۔ کمائی بھی ہوجاۓ گی مزے کے ساتھ ساتھ ۔۔
اس کی بات پر بےساختہ عیان نے اس کے پینٹھ پر دھموکا مارا اور کہا ۔۔۔
“سدھر جاؤ باپ بننے والے ہو ۔۔
“میں سدھر گیا تو یہ گھر خاموش کی نظر ہوجاۓ گا بھائی ۔۔ ایمان نے عیان سے کہا ۔۔
انشاء ان کی گفتگو پر مسکرا رہی تھی ۔۔
انکھوں میں جلن سی ہوئی ، کتنی یادیں تھیں ایمان کے دم سے ۔۔۔
“شاید واقعی میں ایمان کی وجہ سے عیان کو وہ مقام نہیں دے پارہی جو اس کا جائز حق ہے ۔۔۔ حساب کرنے بیٹھوں گی تو ساری غلطیان بھی میری ہونگی اور سبب الزام بھی میرے ذمے ہونگے ۔۔۔
ابھی اسی کشمکش میں تھی انشاء کہ علیزے اور عیان گارڈن میں آتے ہوۓ نظر آۓ اسے ۔۔۔ وہ ان دونوں کو بغور دیکھنے لگی ۔۔۔
“کتنے مکمل لگتے ہیں وہ دونوں ایک ساتھ ، ہنستے مسکراتے ۔۔۔ کیا یہ سب میں دے سکی ہوں عیان کو ۔۔ میں نے تو سواۓ غم تکلیف اور اذیت کے کچھ نہیں دیا عیان کو ۔۔۔ پھر مجھے کونسا حق ہے جو اسے روکوں اگر وہ اپنی خوشی چاہاتا ہے ۔۔۔ اس کی خوشیوں میں مجھے رکاوٹ نہیں بننا چاہیۓ ۔۔۔۔
اس نے دکھ سے سوچا ان کو دیکھتے ہوۓ ۔۔۔
“پھر تمہارا کیا ہوگا انشاء ۔۔۔ اندر سے آواز آئی ۔۔۔ اندر کی آواز کو دبا کر اس نے سوچا۔۔۔
“اس گھر سے مجھے بہت کچھ ملا ہے ۔۔۔ اب میرا بھی فرض میں بھی کچھ کرسکوں اس گھر کے لیۓ ۔۔۔
وہ خودترسی کا شکار ہوکر جانے کیا سوچے جارہی تھی ۔۔۔ اپنے دل کو جھوٹی تسلیان دے رہی تھی ۔۔۔ خود سے کیۓ کئی اعتراف اب بھی باقی تھے جن کو وہ کر نہیں رہی تھی یا کرنے سے بھاگ رہی تھی ۔۔۔
پر وقت ہی جانتا تھا وہ اَن کہے اعترافات جو اس کے اور عیان کے بیچ تھے وہ ہونگے بھی یا نہیں ۔۔۔ یا ہر بار کی طرح انشاء اپنے سہی موقع ضائع کردے گی ۔۔۔ یہ وقت ہی بتاۓ گا ۔۔۔
قسمت دور کھڑی اس لڑکی کی سادگی پے مسکرا اٹھی اور محبت اپنے ہونے پر ، جھٹلانے پر ، ناراض تھا اس لڑکی سے ۔۔۔۔
@@@@@@@@
اگلی صبح وہ تیار ہورہی تھی ۔۔۔ عیان حیران ہوا ۔۔۔
“کہیں جارہی ہو انشاء ۔۔ عیان نے پوچھا ۔۔
“فریحہ آنٹی کی طرف ۔۔۔ بالوں کو برش کرتے ہوۓ اس نے کہا ۔۔۔ وہ پنک وائیٹ کلر کمبینیشن ڈریس میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔
“خیریت ۔۔۔ عیان نے حیرت سے پوچھا کیونکہ گھر سے وہ کم ہی باہر نکلا کرتی تھی ۔۔۔
“بس ویسے ہی دل چاہا رہا تھا ۔.. انشاء نے لہجے کو سرسری بناتے ہوۓ کہا ۔۔
وہ خاموش ہوگیا ۔۔۔
جب دونوں ایک ساتھ کمرے سے باہر نکلے تو ایک دم وہ گرنے لگی اگر بروقت عیان نا تھامتا وہ زمیں بوس ہوتی ۔
“دھیان سے انشاء کیا ہوا ۔۔۔ عیان نے فکر سے کہا ۔
“کچھ نہیں شاید دوپٹا پاؤں میں اگیا تھا ۔ انشاء نے اپنا سرمسلتے ہوۓ کہا ۔۔
“پر مجھے لگا تم کو چکر ایا تھا شاید ۔ عیان نے کہا ۔
“نہیں تو ۔۔انشاء نے نفی کرتے ہوۓ کہا ۔۔ پھر سنبھل کر چلنے لگی ۔۔ وہ سہی تھا پر اس نے بتانا مناسب نہ سمجھا ورنہ وہ اسے جانے نہ دیتا ۔۔۔
“تم شام میں چلو تو میں تمہیں خود آنٹی سے ملوانے لے چلوں ۔۔ عیان نے کچھ سوچ کر کہا ۔۔۔
“نہیں مجھے ابھی جانا ہے ۔۔۔ انشاء نے ضدی لہجے میں کہا ۔
“اوکے ۔ کس کے ساتھ جاؤ گی ۔۔۔
“آپ کے ساتھ اور کس کے ساتھ ۔۔ اتنا کہے کر وہ ڈائینگ پر بیٹھ گئی ۔۔۔
“کیسی ہو انشاء ۔۔ علیزے نے ہوچھا بیٹھتے ہوۓ جو ابھی آئی تھی ڈائینگ پر ۔۔
“ٹھیک اور تم ۔۔ اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوگئی انشاء ۔
“میں بھی ٹھیک ۔۔۔ علیزے اسے ایک نظر دیکھ کر دوبارہ اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہوگئی ۔
انشاء باہر نکلی اپنا پرس لے کر تو عیان کی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر علیزے بیٹھی تھی ۔۔۔
“کہیں جارہی ہو تم ۔۔ علیزے نے حیرت سے پوچھا۔ انشاء نے نے اس کی بات کو اگنور کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ “عیان کہان ہے ۔۔۔
“اندر گیا ہے فائل لینے ۔۔ علیزے نے کہا ۔۔۔
“شاید میں زینب بی کے پاس تھی اس لیۓ دیکھا نہیں عیان کو اندر ۔۔۔ انشاء نے سوچا اور پیچھے کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔۔۔
” مجھے لگا تھا کہ تم کہو گی کہ تمہارا حق ہے آگے بیٹھنے کا عیان کے ساتھ ۔۔
” میں نے خود اپنی جگہ چھوڑی ہے ورنہ تمہیں کہان اتنا حق ہے کہ تم میری جگہ لے سکو ۔ انشاء نے بےلچک لہجے میں کہا۔۔
” یہ تو بالکل ٹھیک کہا تم نے ۔۔ اگر آج کہتی بھی سہی تو اپنی جگہ میں چھوڑنے والی نہیں ہوں ۔۔۔ کیونکہ میں انشاء نہیں علیزے ہوں علیزے ۔۔ جو اپنا حق تو بالکل نہیں چھوڑتی ۔۔۔
“فی الحال تم حق پر نہیں ہو ۔۔۔ انشاء نے اس ڈھیٹ لڑکی کو شرمندہ کرنا چاہا ۔۔۔
علیزے ایک دم مسکرائی اور کہا ۔۔۔
” سہی کہا تم نے ۔۔ فی الحال حق نہیں ہے پر بہت جلد سارے حق وصول کروں گی ۔۔۔ پورے حق سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھوں گی عیان کے ساتھ ، تم چاہا کر بھی کچھ نہیں کرہاؤگی ۔۔۔
اس نے کسی بھی لہجے میں کہا ہو پر انشاء کو اس کا لہجہ زہرخند لگا ۔۔۔
“ویسے مجھے تم سے یہ امید نہ تھی انشاء ، اس رات چھپ کر ہماری باتیں سن بھی رہی تھیں اور دبے پاؤں چلی بھی گئی افسوس تم تو حق پر ہوتے ہوۓ اپنا حق نا استعمال کرپائی تف ہے تم پر افسوس ۔۔۔
علیزے ذرہ بھی شرمندہ نہ ہوئی تھی الٹا ڈھٹائی سے ہنس رہی تھی ۔۔۔
اب کے علیزے کی بات پر وہ شاک ہوکر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔