“تم کس کی اجازت سے نکلی تھی گھر سے اتنا بڑا رسک کس بل بوتے پر لیا ”
شاہ زر کا غصہ ساتویں آسمان کو پہنچا ہوا تھا
پری ڈر سے تڑتڑ کانپ رہی تھی شاہ زر اس وقت بلکل پہلے والا شاہ زر بن گیا تھا
“م م میرا دل گھبرا”
“چپ ایک دم چپ مجھے تمہاری کوئی بکواس نہیں سنی ” شاہ زر نے آگے بھر کر اس کے ہونٹوں پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر اسے مزید بولنے سے روکا
پری کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی آنکھوں سے آنسوں نکل کر شاہ زر کا ہاتھ بھگو رہے تھے اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا پر کھڑکی کے پاس آ کر کھڑکی کے دونوں پھٹ کھول دیے تازہ ہوا کے جھونکوں نے شاہ زر کے غصّے کو کچھ کم کیا
“پریشے مجھے مجبور مت کرو کے میں تم پر سختی کروں تم اس خوش فہمی میں مت رہنا کے میں نے تمہیں اس لیے تلاش کیا ہے کیونکہ مجھے تمہاری پروہ ہے نہیں پریشے مجھے تمہاری پروا نہیں ہے تم جب تک اس گھر میں ہو میری زمیداری ہو یہاں سے جانے کے بعد تم میری یاداشت میں بھی کھبی باقی نہیں رہو گی”
شاہ زر کے الفاظ پری کو اپنی توہین لگے
“آئندہ کھبی دل تنگ ہوا تو بتا دینا اونچی پہاڑی پر لے جاؤ گا وہاں سے کھود کر مر گپ جانا پھر کبھی تمہارا دل نہیں تنگ ہو گا “وہ کھڑکی کے سامنے سے ہٹ کر صوفے پر آ کر بیٹھ گیا پھر اپنے ہاتھ سے اپنی پیشانی دبائیں اس کے سر میں شدید قسم کا درد ہو رہا تھا وہ اس لڑکی کے لیے پریشان نہیں ہونا چاہتا تھا مگر وہ پریشان تھا اسے ایک لمحے کے لیے لگا تھا کہ وہ اپنی سب سے قیمتی چیز کھو چکا ہے پھر جب اس نے پری کو اپنے رو بہ رو دیکھا تو اس کا دل کیا وہ اسے اپنے باہوں میں اٹھا کر ساری دنیا سے چھپا لے پری کا اس کے سینے کے ساتھ لگ کر رونا اسے ابھی بھی اس کے آنسو اپنے دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے وہ دل کی بات کو سنے سے انکاری تھا اس نے دل کو ڈانٹ کر خاموش ہونے پر مجبور کر دیا تھا
پری کو اس کی خاموشی پریشان کر رہی تھی وہ ابھی تک ڈری ہوئی تھی کہی شاہ زر آج پھر اس پر ہاتھ نہ اٹھا لے شاہ زر نے گہری سانس لی پھر پری کی طرف رح موڑا
پری نے گھبرا کر نظریں چرا لی
“پری عورت کا اصلی مقام گھر ہوتا ہے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہے کوئی کوئی عورت تو اتنی بدنصیب ہوتی ہےکہ گھر بھی اس کے لیے پناہ گاہ سابت نہیں ہوتا اکیلی عورت کو یہ دنیا کھا جاتی ہے اس کی عزتوں کا جنازہ نکال دیتی ہے آج اگر تم اس عورت کے ہاتھ نہ لگتی کسی درندوں کے ہاتھ چڑ جاتی جو اپنی ہوس کی بھوک مٹا کر تمہیں کسی گہری کھائی میں پھینک دیتے وہاں تمھارا مردا وجود اپنے پر ہونے والے ظلم کا ماتم منا رہا ہوتا کیا کر لیتی تم پھر یہ زندگی خدا کی نعمت ہے اسے یوں اپنے ہاتھوں زایا مت کروں ” شاہ زر نے بہت نرمی سے اسے سمجھایا
“میں آئیندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی واقعی اک لمحے کے لیے مجھے لگا تھا میں اب کبھی واپس نہیں جا پاؤ گی میرے موبائل کی بیٹری ڈیٹ ہو گی تھی وہ عورت مجھے نہ ملتی تو میں اس وقت کہاں ہوتی یہ میں سوچنا بھی نہیں چاہتی پلیز مجھے معاف کر دے ” شاہ زر کی باتوں نے اسے حقیقت سے آشنا کروا دیا تھا وہ اپنے کیے پر خود ہی نادم تھی
“مجھ سے نہیں اللّٰہ سے معافی مانگوں اور اس کا شکر ادا کروں جس نے تمہاری عزت بچا لی اب تم جاؤ یہاں سے اور آئندہ ایسا کچھ کیا بھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ”
پری اٹھ کر جانے لگی اس کا دل واقعی میں اللّٰہ کا شکر ادا کر رہا تھا وہ ایک اجنبی جگہ پر اللّٰہ کے کرم سے محفوظ واپس لوٹ آئی تھی
“اور ہاں بوا سے کہنا میرے لیے بلک کافی اور سینڈوچ یہی بھیج دے اور ساتھ کوئی سکون کی دوائی بھی “وہ کہ کر واشروم میں چلا گیا
پری نے تشکر بھری نظر سے اس کے پشت کو دیکھا وہ شخص کیا تھا وہ کبھی بھی اسے سمجھ نہیں پائی تھی آج پری کے دل میں اس کا مقام اور اونچا ہو گیا تھا وہ شخص چاہے جانے کے قابل تھا اس نے پیھکی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے خالی کمرے کو دیکھا پھر باہر نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
ماضی
دن ایسے ہی بے کیف گزر رہے تھے اماں کو جب غصہ آتا وہ ثانیہ کو پیھٹ لیتی ثانیہ اپنا قصور ہی ڈھونڈتی رہ جاتی دن بھر نوکروں کی طرح کام کرتی پھر بھی اماں کے کہر سے نہ بچ پاتی اج پورے چار ماہ بعد اکرام واپس آ رہا تھا وہ بھی بہت مشکل سے وقت نکال کر نیا نیا کاروبار تھا اس لیے وہاں رہنا بھی ضروری تھا ثانیہ ہر غم بھول کر اکرام کی آنے کی خوشی میں کھانا بنا رہی تھی اج وہ بہت خوش تھی کچھ دنوں بعد اس کے گھر ننا مہمان بھی آ نے والا تھا ۔
اماں اکرام سے مل کر بہت خوش ہوئی
“ثانیہ بیٹا کہا ہو کہا دیکھو کون آیا ہے اس لڑکی کو کہا بھی ہے ان دونوں کچن میں مت گھسا کروں میں ہو کر لیا کروں گی مگر نہ بابا نہ آج کل کی لڑکیاں سنتی ہی کہا ہے”
اماں کے لہجے سے شہد تھپک رہا تھا
لاؤنچ کے باہر کھڑی ثانیہ دم سارے اماں کا بدلہ انداز سن رہی تھی اسے تو آج تک یاد نہیں پڑتا تھا اماں یا دانیال میں سے کسی نے اس سے اتنے آرام اور پیار سے بات کی ہو وہ تو خوش ہو گئی کہ چلو اماں بدل گئی ہے پھر جب تک اکرام یہاں رہا اماں واری صدقے ہوتی رہی البتہ دانیال ویسا ہی آکھڑا آکھڑا ہی رہا آج اکرام کی واپسی تھی آج صبح سے ثانیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اکرام نے ماں کو اس کا خیال رکھنے کو کہا خود کراچی چلا گیا ثانیہ کا دل رو رہ تھا کیا تھا وہ روک جاتا
پھر اللّٰہ نے شاہ زر کی صورت میں ایک خوبصورت تحفہ دیا
آج تیسرا دن تھا شاہ زر بہت صحت مند بچہ تھا ثانیہ اسے پا کر بہت خوش تھی
“کمبحت تین دن ہو گئے ابھی تک تم بیڈ توڑ رہی ہوں اٹھو جا کر گھر سنبھالوں بہت ہو گئی عیش عشرت “اماں جلادی موڈ میں واپس آ گئی تھی
ثانیہ حق دق رہ گی وہ بےوقوف سمجھی تھی اماں نے اسے قبول کر لیا تھا
“اماں آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے “وہ آہستگی سے گویا ہوئی
“او بی بی تم ذیادہ پھیلوں مت تم کیا سمجھی میں سب بھول کر تمہیں دل سے قبول کر چکی ہوں تم اس قابل نہیں ہو کہ تم اس گھر کی بہو کی حیثیت سے رہو آج نہیں تو کل اس گھر سے چلتا کروں گی سمجھی تم” وہ کہ کر آگے بڑھی اور ایک تھپڑ کمر پر رسید کیا بچاری بلبلا اٹھی
پھر وہی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ثانیہ کی ماں کئی بار آئی اسے کچھ دن ساتھ لے جانے اماں ہر بار اسے بےعزت کر دیتی
“بہت شوق ہے بیٹی کو گھر لے جانے کا تو لے جاؤ مگر یاد رکھنا یہ یہاں سے اکیلے جائے گی رہ سکتی ہے اپنے بچے کے بنا تو رہ لے مجھے کوئی اعتراز نہیں”
“نہیں بھابھی بس یہ دن کے لیے ہی کھبی کھبار آ جاتی ہے یہ بھی بہت ہے اللّٰہ اسے آپ کے گھر خوش رکھے ” ماں ثانیہ کے آنسو دیکھ کر بھی انجان بن گئی وہ اپنی بیٹی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہتی تھی
کاش ماں اس کے ان آنسو کے پیچھے وجہ جان جانتی تو شاید وہ ایسے جیتے جی کھبی نہ مرنے دیتی
اکرام تو اماں کی ہر بات آنکھیں بند کر کے مان لیتا تھا آخر کو اس کی ماں نے اس کی پسند کو اپنا مان جو لیا تھا اسے کھبی اپنی بیوی کے وہ آنسو نظر نہ آسکے جو اسے دیمک کی طرح اندار سے ختم کر رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صوفے پر چوکری مارے بیٹھی نظریں ٹی وی سکرین پر تھی اور دھیان کہی اور پہنچا ہوا تھا
“بوا بوا کہا ہے آپ ”
شاہ زر کی آواز پر وہ اپنے حسین خوابوں سے واپس لوٹی جہاں وہ شاہ زر کے ساتھ کسی باغ میں سیر کر رہی تھی پھر شاہ زر اسے جھولا جھلا رہا تھا اس نے اپنے خیال پر استغفار پڑا یہ محبت بھی نہ بندے کو کہی کا نہیں چھوڑتی
“بوا شاید پڑوس میں کسی دوست سے ملنے گئی ہے ” اس نے لاؤنچ سے ہی جواب دیا
شاہ زر نے مڑ کر اسے دیکھا
“ایک تو بوا بھی نہ ہر کسی سے سلام دعا کرنے پہنچ جاتی ہے ” وہ بڑبڑاتے ہوئے بولا
پری نے تعجب سے اس سر پہرے کو دیکھا پھر ٹی وی آف کر کے اس کے پاس آئی سر سے پاؤں تک اس کا جایزہ لیا وہ بلک شلوار قمیض میں ملبوس تھا قمیض کے بازوؤں ہمیشہ کی طرح فولڈ کیے ہوئے تھے ہاتھ پر قیمتی گھڑی تھی بال سٹائل سے سیٹ کیے گئے تھے
“یہ تم کیا میرا ایکسرا کرنے کھڑی ہو یوں آنکھیں پھاڑے میرا جایزہ لے رہی ہو ” شاہ زر نے اسے خشمگیں نظروں سے گھورا
پری شرمندہ ہوں گی
“وہ آپ کہی جا رہے ہے کیا آج آفس بھی نہیں گیے “اپنی پسمانی کم کرنے کے لیے غلط سوال کر گئی
“تم سے مطلب میں کہی جاؤ یا آؤ تم کون ہوتی ہوں مجھ سے پوچھنے والی ” ترخ کر جواب دیا
“بیوی ہوتی ہو آپ کی اور کون ہوں اپنی یاداشت ٹھیک کروا لے تو یاد رہے گا ” وہ صرف سوچ کر رہ گئی کہ کر اپنی شامت آپ نہیں بھولا سکتی تھی
“وہ میں تو بس ویسے ہی ! آپ کبھی اتنا تیار ہو کر کہی گئے نہیں نہ تو اس لیے ”
“ہاں ہاں اب نظر لگا لوں ”
“نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا ”
“بس کرو اپنے مطلب اپنے پاس رکھو میں کہا جا رہا ہوں کہا سے آ رہا ہوں اس کا حساب رکھنا چھوڑ دوں میری ماں بنے کی کوشش مت کروں” اس نے سخت الفاظ میں باور کروایا
“جی اچھا آئیندہ خیال رکھو گی ”
“اچھی بات ہے خیر بوا آئے انہیں بتا دینا گیسٹ روم اچھے سے صاف کر لے میری مہمان آ رہی ہے آج میرے ساتھ میں اسلام آباد جا رہا ہوں”
“آپ اسلام آباد کیوں جا رہے ہیں”
“تم نے پی رکھی ہے کیا میں اسلام آباد ڈیٹ مارنے جا رہا ہوں اب سمجھ آ گئی ہے بات آجاتی ہو فضول میں دماغ خراب کرنے ” اس نے بےزاری سے کہا اور خان بابا کو آواز دے کر گاڑی نکلنے کو کہا خود پری کو غصے سے گھورتا ہوا چلا گیا ” پاگل عورت”
“اللّٰہ پوچھے آپ سے شاہ زر بیوی تو سنبھالی جاتی نہیں آپ سے اور گئے ہے ڈیٹ مارنے ” اس نے غصّے سے شاہ زر کی پشت کو گھورا
“تم یہ آہستہ آواز میں بدعائیں بعد میں دے دینا اتنی جلدی نہیں مرنے والا ہو میں ”
شاہ زر نے بنا مرے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے کہا
پری کا منہ کھولا رہ گیا ” مارے آپ کے دشمن نہیں نہیں آج کل آپ کی سب سے بڑی دشمن تو آپ کی نظر میں میں ہوں اللّٰہ نہ کرے ”
پورا ٹائم پری کا بے چینی میں گزرا اسے رہ رہ کر شاہ زر پر غصہ آ رہا تھا کیسے ہڈرھرمی سے اعتراف کر کے گیا تھا کے وہ ڈیٹ پر جا رہا ہے یہ محبت بھی کتنی عجیب ہوتی ہے جب کیسی سے ہو جائے تو اس میں لاکھ برائیاں سعی اس کی ساری برائیاں اچھائیاں لگنے لگتی ہے
ایک وقت تھا پری کو شاہ زر کے وجود سے بھی نفرت تھی وہ اس کی شکل زندگی بھر نہیں دیکھنا چاہتی تھی اور اب یہ وقت آ گیا تھا اس پر کے وہ اسے ڈانٹنے بےعزت کرے مگر پری کا دل کرتا وہ اس کے نظروں کے سامنے رہے وہ ظالم محبوب اسے اب ہر روپ میں خود سے بھر کر عزیز ہو گیا تھا وہ تھا تو پری کا وجود تھا اس کا دل تو شاہ زر کے ہونے سے دھڑاکتا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا دن وہ اس کا انتظار کرتی رہی آج کا دن ہی نہیں گزر رہا تھا اس نے اپنے ہاتھوں سے رات کا کھانا بنایا بریانی شاہ زر کو بےحد پسند تھی ساتھ شامی کباب چکن کڑاہی اور میٹھے میں رس ملائی بنائی آخر کو پہلی بار شاہ زر کا کوئی مہمان آ رہا تھا اس کی موجودگی میں ۔۔
وہ تیار ہو کر لان میں چلی آئی شام کا سوہنا موسم اور چائے کا کپ پری پر چھائی بےزاری کو کچھ کم کر گیا اتنے میں گاڑی بھی اندار آکر روکی شاہ زر گاڑی سے نکل کر گھوم کر دوسری طرف آیا گاڑی کا دروازہ کھولا پری منہ کھولے اس خوش قسمت مہمان کو دیکھ رہی تھی جس کے لیے شاہ زر صاحب نے خود فرنٹ دور کھولا تھا اتارنے والی ایک خوبصورت سی نازک سی لڑکی تھی جس نے جینز کے ساتھ شاٹ شرٹ پہن رکھی تھی بالوں کو پونی ٹیل کیا ہوا تھا
“ہائے اللہ یہ تو کسی لڑکی کو ساتھ لے آئے وہ بھی اتنی ماڈرن سی کہی شادی وادی تو نہیں کر آئے اس چڑیل کے ساتھ کہ کر تو گئے تھے وہ ڈیٹ مارنے جا رہے ہیں۔۔ آئے ہائے یہ کہی وہی تو نہیں جس کے ساتھ شاہ زر اس دن قہقہے لگا کر ہنس رہا تھا ” وہ خود سے ہی کہانیاں بنا رہی تھی
شاہ زر نے اسے دیکھ کر بھی اگنور کیا اور صنم کو ساتھ لے کر اندر چلا گیا ۔۔
پری بھی بھاگ کر اس کے پیچھے گئی اسے اس لڑکی سے ملنے کی جلدی تھی جس نے ایک پل میں ہی اس کا سوک چین تباہ کر دیا تھا وہ ایک دم کے ان دونوں کے سامنے آگئی شاہ زر بروقت نہ روکتا ٹکر ہونا پکا تھا
“آپ آگئے ” اس نے مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا اسی بےقراری سے کہا جیسے دونوں کے بہت خوش گوار تعلقات چل رہے ہوں
“ہائے میں پری شاہ زر کی وائف اور آپ کی تعریف” شاہ زر نے جن نظروں سے اسے دیکھا پری ہڑبڑا گئی
“اسلام علیکم تو آپ ہو پریشے آپ سے ملنے کا بہت شوق تھا مجھے اس شاہ زر کے بچے سے کہا بھی تھا میں نے جلدی چلو گھر مگر اسے تو سارے کام آج ہی ختم کرنے تھے ” اس نے گرم جوشی سے اس کا ہاتھ تھاما اور گلے لگایا
“صنم مل لیا تو چلو فریش ہو جاؤ پتا نہیں اتنا پڑھ لکھ کر بھی تمیز اور تہذیب کچھ لوگوں کو چھو کر بھی نہیں گزری ہوتی آ جاتے ہے کالی بلی کی طرح راستہ روکنے جاہلوں کی طرح ” شاہ زر نے گہرا طنز کیا
پری پہلوں بدل کر رہ گئی
“او ایم سوری مجھے یوں اچانک سے آپ کے سامنے نہیں آنا چاہیے تھا ” اس نے راستے سے ہٹ کر کہا
“او کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو کیا بچوں کی طرح لڑ رہے ہوں تم شاہ زر میری اتنی کیوٹ سی دوست سے ”
“اچھا صنم پہلے تم یہ دیسائڈ کر لوں میں تمہارا دوست ہو یہ اگر یہ تو میری طرف سے خدا خافظ ” وہ بچوں کی طرح روٹھ کر وہاں سے چلا گیا
” سوری پری مائنڈ مت کرنا یہ یونیورسٹی کے زمانے سے ایسا ہی پوزیسیو ہے میری اور اپنی دوستی کے درمیان کیسی تیسرے کو برداشت نہیں کرتا تھا میں شاہ زر کو دیکھ آو کہی مجھے سچ مچ گھر سے نہ نکال لے ” اس نے پری کا گال تھپکا پری سے مسکرایا بھی نہیں گیا وہ کہ کر شاہ زر کے پیچھے گئی
پری وہی کھڑی شاہ زر کے الفاظ پر غور کر رہی تھی آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر زمین پر اپنی بےقدری کا ماتم منا رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“وہ جو میں نہ رہوں گی تو تم کیا کروں گے
زرے زرے میں مجھے تم تلاش کروں گے
بہت سی باتیں ان سمجھ سی اور ہاتئں ہوتی ہے
جب سمجھوں گے تم تو میرا خیال کروں گے
یہ کس نے کہا کہ پیار میں وفا نہیں عدی
ایک بار جو دل سے چاہیں گئے تو سدا کریں گے ”
وہ پوری رات ٹھیک سے نہیں سو پائی تھی شاہ زر کا رویہ دن بہ دن بد سے بتر ہو رہا تھا رات بہت دیر سے اسے نیند آئے تھی وہ جب رات کو کھانا زہر مار کر کے اوپر کمرے میں آ رہی تھی کہ اسے ڈرائنگ روم سے صنم اور شاہ زر کی باتوں کی آواز آ رہی تھی وہ دل مسور کر رہ گئی پھر بیڈ پر کروٹ پر کروٹ بدلتی رہی پر رہ رہ کر اسے صنم اور شاہ زر کا خیال آ رہا تھا صبح کافی دیر سے آنکھ کھولیں وہ فریش ہو کر نیچے آئی وہاں شاہ زر اور صنم کو دیکھ کر منہ تک گڑوا ہو گیا وہ تو سوچ کر آئی تھی کہ اب تک وہ دونوں ناشتے سے فارغ ہو گیے ہو گے
“او او پریشے ! بہت اچھے ٹائم پر آئی ہو میں اور شاہ زر بھی ابھی ناشتہ شروع ہی کرنے والے تھے “اس نے خوش اخلاقی سے کہا
“مجھے لگا میں ہی شاید آج کچھ لیٹ ہو گئی ہوں مگر یہاں تو آپ لوگ بھی لیٹ ہی ہوئے ہوں ” پری نے مسکرا کر کہا دل تو کر رہا تھا سامنے پڑی گرم گرم کافی اس خوبصورت لڑکی پر انڈیل دے مگر ہائے رہ قسمت
“ہاں میں اور شاہ زر رات کافی دیر تک جاگے رہے ہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کرتے رہے ٹائم کا پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔۔ مگر تم تو جلدی سونے چلی گئی تھی پھر آج لیٹ کیوں ہوئی ”
“بس مجھے رات نیند ہی ٹھیک سے نہیں آئی ” منحوس ماری میرے شاہ زر کو مجھ سے چھین کر تو بتاؤں یہ خوبصورت منہ توڑ کر نہ رکھ دیا میرا نام بھی پریشے شاہ زر نہیں ہوں گا اس دانت پیس کر صنم کو دیکھا جو اب شاہ زر کی کسی بات پر ہنس رہی تھی
شاہ زر نے پری کو مکمل طور پر اگنور کیا ہوا تھا پری کے دل کو کچھ ہوا
“بیٹھوں نا پری ابھی تک کیوں کھڑی ہو او ناشتہ کروں ”
“نہیں آپ لوگ کرے میرا اپنا ہی گھر ہے میں کر ہی لوں گی آپ اس گھر کی مہمان ہے نا “اس نے مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا
“صنم تم آرام سے ناشتہ کروں کچھ لوگوں کو عادت ہوتی ہے زبردستی آوروں کی چیزوں پر قابض ہونے کی اس کی تو خیر سے خاندانی عادت ہے قبضہ کرنے کی ”
شاہ زر نے بریڈ پر مکھن لگاتے ہوئے سراسری لہجے میں کہا
پری کے سر پر لگی تلوں پر بجھی
“زرا بتانا پسند کریں گے کہ آخر اس طنز کے پیچھے کی وجہ ”
“میں کسی کو جواب دہ نہیں ہوں پری صاحبہ مگر تمہیں بتانا پسند کروں گا کہ تم اور تمہارا باپ کو لوگوں کی چیزوں پر قبضہ کرنے کا بہت شوق ہے تمہارے باپ نے میرے حصے کی جائداد پر قبضہ کر لیا اور اس کی بیٹی اب میرے گھر پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے ” اس نے سراسری لہجے میں کہ کہا
“میرے پاپا نے ایسا کچھ نہیں کیا آپ کے پاس وہ پاپا کے ہی محنت کا نتیجہ ہے” پری نے غصے میں کہا
“یہ سب جو میرے پاس ہے نا اگر تم یہ سمجھ رہی ہوں کہ یہ تمہارے باپ کی دی ہوئی خیرات ہے نہ تو بہت غلط خیال ہے تمہارا تمہارے باپ کی دولت پر لاکھ بار لعنت بھیجتا ہوں میں سمجھی ! یہ سب کچھ میری ماں کی نشانی ہے ان کے نام کی جائداد میں تمہارے باپ کی طرح لوگوں کی چیزوں پر قبضہ کرنے والا مرد نہیں ہو ” وہ کہ کر کرسی دھکیل کر اٹھا صنم نے ان دونوں کو باری باری دیکھا دونوں کے چہرے ضبط کے مراحل سے گزر رہے تھے شاہ زر بنا اور کچھ کہے باہر نکال گیا صنم نے پری کو دیکھا جو اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی اتنی تذلیل اتنی نفرت وہ بھی ایک انجانی لڑکی کے سامنے اس نے نفرت سے سامنے بیٹھی صنم کو دیکھا
“پری ریلکس وہ بس کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو جاتا ہے تم اس کی باتوں کو اتنا سیریس نے لیا کر آؤ بیٹھو ناشتہ کروں ” صنم نے اپنائیت سے کہا
پری نے ایک نظر اسے دیکھا اور بنا کچھ کہے بھاگ کر سیڑھیاں طے کی ۔۔ آج جو کچھ بھی ہوا وہ برداشت کر لیتی اگر وہاں صنم موجود نہ ہوتی تو ایک باہر کی لڑکی کے سامنے شاہ زر نے اسے دو کوری کا نہیں چھوڑا تھا وہ کب اس گھر پر قبضہ کرنا چاہتی تھی اتنی غلط سوچ تھی شاہ زر کی اس کے بارے میں وہ آج جان پائی تھی کہ شاہ زر کو پنا ناممکن ہے اب شاہ زر کے دل میں نفرت جڑ پکڑ کر بیٹھی تھی وہ چاہ کر بھی اس نفرت کے جڑ نہیں کاٹ سکتی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ زر دوسرے دن صنم کو لے کر چلا گیا پورا دن وہ لوگ گومتے رہے شاپنگ کی شام کو دیر سے گھر لوٹے
پری نے کل کا پورا دن کمرے میں بند رہ کر گزارا تھا مگر یہ ظالم بھوک اچھے اچھوں کو دن میں تارے دیکھا دیتی ہے کہا اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ شاہ زر کے گھر کا ایک دانہ بھی اب نہیں کھائی گی اب کچن میں سٹول پر بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی
“میں نے کون سا ہاتھ جوڑے تھے ہٹلر کے سامنے کے مجھے گھر میں رکھ لوں نہ رکھتا میرے شوہر کی کمائی ہے رج کر کھاؤ گی اس کے بعد اس منحوس ماری کا بھی تو کچھ سوچنا ہے ایسے ہی تو اسے اپنے ہٹلر پر قبضہ کرنے نہیں دے سکتی نا بہت آئی مجھے افر کرنے والی بیٹھ کر ناشتہ کر لوں۔ مسٹر ہٹلر صاحب ایسے اگنور کر رہے ہیں مجھے پہلے کوئی بات تو کر ہی لیتے تھے ۔۔۔ اللّٰہ پوچھے صنم تم سے کیڑے پڑے کسی اور کے مجازی خدا کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے شرم تو نہ آئی تمہیں ” وہ بڑبڑتے ہوئے باہر لان میں آ کر بیٹھ گئی اسے رہ رہ کر صنم کے یہاں رہنے پر غصہ آ رہا تھا نہ وہ آتی نہ شاہ زر یوں بدلتے
“جیسے پہلے تو شاہ زر پری پری ہی کرتا رہتا تھا نہ ” ہاہاہا اپنے خیال پر خود ہی ہنسی آئی
دن سے شام ہو گئی شاہ زر اور صنم کے آنے کا نام و نشان نہیں تھا پری جل جل کر راکھ ہونے کو تھی گاڑی کی ہان سن کر کچھ سکون ملا وہ اس وقت لاؤنچ میں بیٹھی ٹی وی پر سرچنگ کر رہی تھی صنم اس کے پاس ہی چلی آئی پری اسے دیکھ کر پھر سے ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہو گئی جیسے اس سے بھر کر اور کوئی کام ضروری نہیں ہو
“کیسی ہوں پری آج میں اور شاہ بہت تھک گئے ہیں تم سو رہی تھی میں تو تمہیں جاگنے آ رہی تھی شاہ نے کہا وہ سو رہی ہے مت جگاؤ اس لیے ” اس نے اپنائیت سے کہا
“آپ مجھے کیوں بتا رہی ہے اچھا کیا آپ نے مجھے نہیں جگایا مجھے کوئی شوق بھی نہیں تھا ایسی جگہوں پر اپنوں کے ساتھ ہی جانے میں مزا آتا ہے ” پری نے جل بون کر جواب دیا شاہ زر بھی وہی آ کر بیٹھ گیا تھا
“آ گے ہیں موصوف اپنی صنم کے پیچھے پیچھے جیسے کوئی ان کی صنم کو اغوا ہی نہ کر لے ” اس نے دل میں سوچا اس کے چہرے پر بےزاری صاف دکھائی دے رہی تھی اس نے چپ کر شاہ زر کو دیکھا جو ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہو گیا شاہ زر نے آج بلو شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی بازوں فولڈ کیے ہوئے تھے پری نے ہمیشہ سے ہی شاہ زر کو ایسے ہی قمیض کے بازوؤں فولڈ ہی دیکھے تھے وہ آج بھی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا پری نے دل میں ماشاءاللہ کہا
“اچھا چھوڑوں پری یہ دیکھو میں نے تمہارے لئے یہ شال لائی ہے ” اس نے پاس پڑے شاپر سے ایک خوبصورت سا کشمیری شال نکالا جس پر خوبصورت کڑہی ہوئی تھی پری نے ایک نظر صنم کو دیکھا جس نے آج جینز کے ساتھ کرتا پہن رکھا تھا بالوں کو آج کھولا چھوڑا تھا وہ واقعی کیسی کی بھی ڈریم گرل ہو سکتی تھی پری نے اس کے ہاتھ سے شال لینے کی بھی زحمت نہیں کی
“شکریہ مگر پلیز مانیڈ مت کیجئے گا میں کسی سے بھی کچھ بھی یوں ہی نہیں لے لیتی آپ شاہ زر کی دوست ہے اس کے لیے ہی لیتی کچھ تو اچھا تھا خواہ مخواہ آپ نے زحمت کی ” اس نے بد تمیزی سے جواب دیا صنم کو نظر انداز کر کے پھر سے ٹی وی سکرین پر نظریں جما دی
صنم بچاری حیران پریشان پری کو دیکھتی رہ گئی
“صنم تم سے کس نے کہا تھا اس جاہل لڑکی کے لیے کچھ لوں تم شاید جانتی نہیں ہو کچھ لوگ پیار اور خلوص کے قابل نہیں ہوتے ”
شاہ زر غصّے سے پری کو دیکھا
“ہاں ہوں میں جاہل نہیں ہے مجھے بات کرنے کی تمیز نہ پیار اور خلوص کی زبان سمجھ آتی ہے مجھے آپ کون سا پڑھ لکھ کر بہت مہذب انسان بن گئے جب سے یہ آپ کی سو کولڈ مہمان آئی ہے آپ مجھے بے عزت پر بے عزت کر رہے ہوں ۔۔ کریں یہ آپ سے دعا سلام میرے ساتھ کیوں فری ہو رہی ہے یہ جب مجھے نہیں پسند سب حیر کچھ لوگوں کو اچھا بنے کی عادت ہوتی ہے آوروں کے سامنے غلطی ان کی بھی نہیں ہے ”
پری بھی سارے لحاظ بھول کر شاہ زر کے سامنے بدتمیزی سے گویا ہوئی
صنم سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس کے بارے میں پری اتنا غلط سوچ رکھتی ہے وہ تو یہاں صرف پری کو دیکھنے آئی تھی شاہ زر کو کنوئنس کرنے آئی تھی کہ وہ اس رشتے کو اب دل سے قبول کر لے پری تو اس کے لیے اتنا زہر دل میں دبائے بیٹھی تھی
“اینف پری اپنی زبان کو قابو میں رکھو ورنہ ۔۔۔”
“ورنہ کیا شاہ زر صاحب پھر سے مارے گے مجھے پھر سے ہاتھ اٹھائے گئے مجھ پر اس کے علاؤہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں آپ ” پری نے اس کی بات کاٹ کر تلحی سے کہا
شاہ زر اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا اس کا دل کر رہا تھا وہ سامنے کھڑی اس زبان دراز لڑکی کی زبان کاٹ دے اس نے ایک شرمندہ نظر صنم پر ڈالی جو خود پر ضبط کیے وہاں بیٹھی تھی شاہ زر نے اٹھ کر وہ شال اس کے ہاتھ سے لی
“یہ شال تم اس بے مروت لڑکی کے لیے لائی تھی نہ اس شال کی تو ایسی کی تیسی ” وہ کہ کر غصّے سے لاؤنچ سے نکل کر کچن میں گیا پری اور صنم نے اسے جاتے دیکھا
کچھ لمحوں بعد کچن سے دھواں نکلتا نظر آیا صنم بھاگ کر کچن پہنچیں پری بھی ہوش میں آئی وہ جب وہاں گی شال آگ میں جل رہی تھی
“یہ کیا کر لیا تم نے شاہ زر ” صنم نے بے بسی سے پہلے شال کو دیکھا پھر شاہ زر کو جس کا چہرہ آگ کی روشنی میں اور لال لگ رہا تھا وہ اس وقت بہت غصّے میں تھا پری ڈر کر وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی شاہ زر نے آگے بڑھ کر پری کو ہاتھ سے پکڑ کر آگ کے پاس لایا
“آئندہ کھبی میرے ذاتی معلومات میں بولی نہ تو یہی انجام تمہارا بھی کر دوں گا ۔ تمہیں میں نے اپنی زندگی میں ایک قدم آگے بڑھنے نہیں دیا تم کس رشتے کی بنیاد پر اتنا بکواس کر رہی تھی ابھی تین لفظ کہے تو وہ بے نام سا رشتہ ایک سیکنڈ میں ختم کر لوں گا ۔۔ تم اس خوش فہمی سے نکل آؤ پریشے دانیال کے شاہ زر کھبی تمہیں اپنے وجود کا حصہ بھی بنائے گا مجھے کل بھی تم سے نفرت تھی مجھے آج بھی تم سے نفرت ہے اور آنے والے ہر لمحے میں مجھے تم سے اس سے بھی بڑھ کر نفرت رہے گئی ۔۔ آج جو تم نے کیا وہ بہت ذیادہ تھا اسے تمہاری پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں اگلی بار اس شال کی جگہ خود کو یہاں پاؤ گی ”
وہ تلحی سے بولا اور اس کا ہاتھ چھوڑ کر صنم کی طرف مڑا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ باہر لے گیا
پری وہاں ہی کھڑی رہ گئی آنسو کا نا روکنے والا سلسلہ پھر سے جاری ہو گیا تھا
“کیوں آخر کیوں اللّٰہ جی میرے ساتھ ہی ایسا ہو رہا ہے میں آپ کی گہنگار بندی ہوں معاف کر دے مجھے میں شاہ زر کے ساتھ کسی اور کو برداشت نہیں کر پا رہی مجھے صبر عطا کر میرے مولا میرا دل پھٹ جائے گا مجھ سے نہیں برداشت ہوتا اب شاہ زر کا رویہ مجھے اس بے نام محبت نے کہی کا نہیں چھوڑا میں اب خود کو اور نہیں گرا سکتی مجھے یہاں سے اب جانا ہی ہوں گا کچھ رشتوں کی قمست میں ملن لکھی ہی نہیں ہوتی وہ پا کر بھی خالی دامن رہ جاتے ہیں میں بھی آج خالی ہاتھ خالی دامن رہ میرے مولا مجھے صبر عطا کرنا ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...