☜ماضی
ایک ہفتہ لندن میں گھومنے پھرمنے کے بعد اسکا دھیان کام کیطرف آیا۔دن بھر کام کر کے وہ رات کو گھر آتا تب بھی کمپیوٹر پر مصروف ہوجاتا۔خالی دماغ وسوسوں کا گھر ہوتا ہے یہی سوچ کر وہ خود کو مصروف رکھتا۔
بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کرتا تو ایک پری چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے آجاتا اور بے اختیار اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی کبھی کبھی وہ سوچتا اسکا نام کیا ہوگا پھر خود ہی نام سوچتا ریجیکٹ کرتا کبھی کبھی اسے خود پر ہنسی سی آجاتی کہ وہ اتنا میچور ہو کر ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔
وقت گزرتا جا رہا تھا جب ایک دن ذیشان اسے اپنی منگنی کا بتایا۔
مبارک ہو یار۔ تم تو بڑے تیز نکلے۔شاہزیب نے اسے شریر لہجے میں کہا
اپنی باری کا انتظار کرتا تو وہ فیری ہاتھ سے نکل جاتی آپ نے تو بوڑھے ہو کر شادی کرنی ہے۔ذیشان نے بھی اسی کے لہجے میں جواب دیا۔
ذیشان کی بات پر وہ کافی دیر قہقہہ لگاتا رہا
اچھا فیری کونسی؟ ہنسنے کی وجہ سے آنکھوں میں در آنے والی نمی صاف کرتے ہوۓ بولا۔
جس سے میری منگنی ہو گی ہاۓ بھیا بلکل سبز آنکھوں والی فیری کی طرح ہے آپ اسے دیکھیں گے نا تو مجھے داد دینگے۔ ذیشان نے فخریہ انداز سے کہا
چلو دیکھ لیتے ہیں۔”تمہاری فیری زیادہ پیاری ہے یا میری”آخری بات اسنے دل میں ادا کی۔
“اچھا آپ آئینگے نا۔پلیز بھیا آجائیں اپنوں کے ہوتے ہوۓ بھی آپ پردیس میں اکیلے دس از ناٹ فئیر”
میرا بھی بہت جی کر رہا ہے تمہاری منگنی کا فنکشن اٹینڈ کروں مگر نہیں آسکوں گا شادی پر ضرور آؤں گا پرومس۔ شاہزیب نے اسکی بات کاٹتے ہوۓ کہا وہ لندن میں اپنا کام مکمل کر کے ہمیشہ کے لیے پاکستان آنا چاہتا تھا۔
میں ناراض ہو جاؤں گا۔ ذیشان نے منہ بسورا
گفٹس بھیج دونگا۔شاہزیب نے آخری کوشش کی اسے منانے کی
بس آپ آجائیں اور کچھ نہیں چاہیے۔ذیشان اسکے آنے پر بضد تھا۔
شادی پر آؤنگا اگر اسطرح ناراض ہوۓ تو پھر کبھی نہیں آؤنگا۔
اوکے گڈ باۓ۔لائن کٹ گئی تھی وہ ریسیور ہاتھ میں پکڑے کافی دیر ایسے ہی بیٹھا رہا.
منگنی کے فنکشن پر وہ نہیں جا سکا تھا جسکی وجہ سے ذیشان نے اس سے بات چیت بند کر دی تھی مگر اسکی بھی اپنی ہی مجبوری تھی۔
مگر جب چھے ماہ بعد اس نے کریم یزدانی سے اسکی شادی کے بارے میں سنا تو اس نے واپسی کی تیاریاں شروع کر دی تھی۔سب کے لیے گفٹس وغیرہ لیے اور آخر میں اپنی فیری کے نام کا سونے کا خوبصورت سا لاکٹ لیا تھا۔
“میری قسمت میں ہوا تو ایک دن خود یہ تمہیں پہناؤں گا” اس نے مسکرا کر سوچا
جہاز کی سیٹ کنفرم نہ ہونے کیوجہ سے وہ اس دن پاکستان لوٹا جس دن ذیشان کی بارات تھی۔رات کے بارہ بجے ائیر پورٹ سے اسے لینے کریم یزدانی آۓ تھے۔وہ چھوٹے بچے کیطرح کافی دیر ان سے لپٹا رہا اتنے سالوں کے بعد باپ کی شفیق بانہیں جو نصیب ہوئی تھی۔گاڑی میں بیٹھ کر وہ کریم یزدانی سے گزرے لمحوں کی بہت سی باتیں کرتا رہا۔
۞۞
اگلے دن شام کو ولیمے کا فنکشن تھا اسکی آنکھ کھلی تو 3 بج رہے تھے وہ جلدی سے فریش ہو کر نیچے آیا۔لاؤنج میں ذیشان بیٹھا تھا
اسلام علیکم۔اس نے بلند آواز میں سلام کیا اور ذیشان کے رد عمل کے لیے خود کو تیار کیا مگر خلافِ معمول وہ گرم جوشی سے اس سے ملا۔
وعلیکم سلام۔میں بہت ناراض تھا آپ سے مگر اب آپ آگئے ہیں یہی میرے لیے اہم ہے۔ذیشان نے اس کیساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
باباجانی کہاں ہیں؟ شاہزیب نے کریم یزدانی کو وہاں نہ پاکر کہا
وہ ہال چلے گئے ہم آپ کے انتظار میں رک گئے۔ذیشان نے جواب دیا
بھابی نہیں نظر آرہی۔شاہزیب نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوۓ کہا
کمرے میں ہے ابھی بلا کر لاتا ہوں۔ذیشان اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا
میں کمرے میں ہی مل لونگا۔شاہزیب بھی اسکی پیروی میں اندر چلا گیا
کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے پاس دو لڑکیاں کھڑی شاید فنکشن کے لیے تیاری کر رہی تھی۔
بھیا اٹھ گئے ہیں مل لو۔ذیشان نے پاس جا کر کہا البتہ شاہزیب دروازے میں ہی کھڑا ہو گیا تھا۔
اپنی جانب آتی لڑکی کو وہ پہلی نظر میں ہی پہچان گیا تھا۔
یہ ایمل شاہ یعنی میری شریکِ حیات۔ ذیشان نے ایمل کو دیکھتے ہوۓ شریر لہجے میں کہا۔شاہزیب نے بمشکل دروازے کا سہارا لیا اسے ایمل کو دیکھ کر سو وولٹ کا جھٹکا لگا تھا وہ اتنے سالوں سے جسے ہمسفر بنانے کے خواب دیکھ رہا تھا وہ اسکی بھابی بن گئی تھی۔
رہ گئے نہ حیران۔اب منہ دکھائی دیں۔ذیشان نے اسے گم سم دیکھ کر کہا
ان کے شایانِ شان تو میرے پاس کچھ نہیں کچھ حقیر سے تحفے لایا ہوں وہ بجھوا دونگا۔ شاہزیب نے رک رک مشکل سے یہ الفاظ ادا کیے۔وہ اس پر ایک نظر ڈال کر دروازے سے ہی پلٹ گیا تھا۔
تیاری مکمل ہو گئی ہو تو چلیں۔ذیشان نے اسے مخاطب کیا
ہاں۔اس نے گھنیری پلکیں جھکا کر کہا ذیشان اس پر پیار بھری نظر ڈال کر باہر نکل گیا
۞۞
کمرے میں آکر وہ پہلے واش روم گیا اور چہرے پر یخ پانی کے چھینٹے مارے کچھ دیر وہ دل پر ہاتھ رکھ اسے قابو کرتا رہا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔
“اپنی باری کا انتظار کرتا تو فیری ہاتھ سے نکل جاتی” اسے ذیشان کی کہی بات یاد آئی شاید وہ سچ ہی کہہ رہا تھا۔
“آخر ایسا میرے ساتھ ہی کیوں؟ماں کے علاوہ جس عورت کو حد سے زیادہ سوچا چاہا اسے کیسے کھو دوں میں کس طرح کسی اور کا ہونے دوں” بیڈ پر بیٹھ کر اسنے دونوں ہاتھوں میں سر گرا لیا۔
“وہ تمہارے بھائی کی بیوی ہے” دماغ نے کہا
“وہ تمہاری محبت ہے تم کیسے اپنی محبت سے دستبردار ہو سکتے ہو” دل نے بھی دہائی دی
“جان سے پیارا بھائی جو تم سے بہت محبت کرتا ہے” دماغ نے ایک اور دلیل دی
“تم بھی تو اسے چاہتے ہو کیا تم اسکو کسی اور کیساتھ دیکھ پاؤ گے؟” دل و دماغ کی جنگ جاری تھی۔وہ ولیمہ اٹینڈ کرنے کے قابل نہیں تھا اس لیے اس نے سائڈ دراز سے دو نیند کی گولیاں لی اور پانی کیساتھ نگل گیا۔
آج پہلی بار اس نے سلیپنگ پلز لی تھی ورنہ وہ خیالوں میں رہنا پسند کرتا تھا تھوڑی ہی دیر بعد اس پر غنودگی طاری ہو گئی اور وہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔
۞۞
وہ لاؤنج میں ٹی وی آن کر کے بیٹھی تھی بظاہر تو اسکی نظر ٹی وی اسکرین پر تھی مگر دماغ کہیں اور تھا وہ رات کو شاہزیب کی ڈائری پر کسی لڑکی کا نام دیکھ کر پریشان تھی۔شاہزیب اسکی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا تمام فرائض باخوبی پورے کر رہا تھا مگر اس سب کے علاوہ بیوی شوہر کا پیار اور توجہ بھی چاہتی ہے جو وہ رابی کو دینے سے قاصر تھا۔
کن خیالات میں گم ہو بیٹا؟ کئی بار پکارنے پر جب وہ نہ بولی تو کریم یزدانی نے اسکے پاس آکر کہا
جی بابا۔ انکی آواز پر وہ سوچوں کی دنیا سے باہر آئی۔
کوئی مسٔلہ ہے بیٹا؟ انہوں نے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔ جب سے شاہزیب نے مکمل طور پر بزنس سنبھالا تھا وہ گھر پر یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے کبھی کبھار ہی آفس چکر لگا لیتے تھے۔
نہیں تو۔ اس نے نظریں چراتے ہوۓ کہا
اچھا پھر دو کپ چاۓ بنا کر میرے کمرے میں آجاؤ۔
وہ اسے چاۓ کا کہہ کر کمرے کیطرف چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ چاۓ لے انکے کمرے میں آگئی۔
اب بتاؤ کیوں پریشان ہو؟ انہوں نے چاۓ کا کپ اس سے لے کر پہلا سپ لیتے ہوۓ کہا
نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی
پھر منہ پر بارہ کیوں بجے ہوۓ ہیں؟ انہوں نے اسکا چہرہ غور سے دیکھتا ہوۓ کہا
دیکھو بیٹھا میں جانتا ہوں تم شاہ کی وجہ سے پریشان ہو وہ سنجیدہ مزاج ہے اور اسکی طبیعت میں ذرا رعب ہے مگر دل کا برا نہیں ہے تم جوں جوں اس کو جانو گی تمہارے دل میں اس کے لیے پیار بڑھتا جاۓ گا۔ انہوں نے چاۓ کا دوسرا سپ لیتے ہوۓ کہا
میں جانتی ہوں وہ بہت اچھے ہیں۔رابی نے نظریں جھکاۓ کہا
ہوں۔ کریم یزدانی نے چاۓ کا آخری گھونٹ بھرا اور کپ سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ کہا
“اسکی زندگی میں بہت سے زخم ہیں تلخیاں ہیں وہ کم گو اور حساس دل انسان ہے۔ مرنا پسند کرے گا مگر دل کی بات کسی کو نہیں بتاۓ گا۔ اسکی سرد مہری سے پریشان مت ہونا مجھے امید ہے تمہارے سنگ وہ بدل جاۓ گا بس کبھی اسکی طرف سے دل برا مت کرنا۔ وہ اسے نصیحتیں کر رہے تھے
اب جاؤ بیٹا۔ کریم یزدانی نے اسے جانے کی اجازت دی وہ کپ اٹھا کر کمرے سے باہر نکلی اسے امید تھی کریم یزدانی شاہزیب کی گزشتہ زندگی کے بارے میں بھی کوئی بات کرینگے مگر ان کی باتوں میں سے وہ صرف اتنا ہی اندازہ لگا سکی کہ وہ بہت سے دکھ جھیل چکا ہے جنکی جلن اسکی آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہے۔
___________
رات کو شاہزیب آیا تو رابی نے اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا وہ زیان کیساتھ ہی خود کو مصروف ظاہر کرتی رہی کوئی بھی عورت اپنے اور شوہر کے بیچ کسی دوسری عورت کو برداشت نہیں کرسکتی چاہے جتنی بھی صابر و شاکر کیوں نہ ہو اسکے دل میں جلن ضرور ہوتی ہے اور وہی جلن اس وقت رابی کے دل میں بھی تھی۔
رات کے کھانے کے بعد وہ زیان کو سلانے اسکے کمرے میں چلی گئی جب واپس اپنے کمرے میں لوٹی تو شاہزیب کمرے میں نہیں تھا اسے غصہ تو بہت آیا مگر وہ ضبط کرتی رہی نئی نویلی دلہن کو اپنے شوہر کا وقت اور پیار چاہیے ہوتا ہے وہ تو ہنی مون پر بھی کہیں نہیں گئے تھے کریم یزدانی نے شاہزیب کو بہت منایا مگر وہ زیان کو ساتھ لے جانے پر بضد تھا اور زیان جاتا تو اسکی پڑھائی کا حرج ہوتا۔
اچانک ہی اسے ٹیرس پر شاہزیب کا ہیولہ سا نظر آیا وہ ٹیرس کیطرف بڑھی اور اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی ہو گئی وہ نہ جانے سگار کیساتھ کونسے غم سلگا رہا تھا ایک سگریٹ ختم کر کے اسنے دوسرا سلگا کر ہونٹوں۔کیساتھ لگایا تبھی رابی آگے بڑھی اور جھٹکے سے اسکے ہاتھ سے سگریٹ لے لی۔
وہ آنکھیں پھاڑے اسے حیرنگی سے دیکھ رہا تھا وہ اسکی آمد سے قطعی بے خبر تھا۔وہ خود بھی اپنی دیدہ دلیری پر عش عش کر اٹھی۔
اسکی زیادتی نقصان دہ ہے اور آپ مسلسل اسکا استعمال کر رہے ہیں۔ اس نے اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا۔
پہلے مجبوری تھی اب عادت بن چکی ہے۔شاہزیب نے آہستگی سے کہا
آہ۔
اس نے سگریٹ نیچے پھینکا جو سلگ سلگ کر اسکی ہتھیلی جھلسا گیا تھا وہ ہتھیلی مسلنے لگی۔شاہزیب نے آگے بڑھ کر اسکی ہتھیلی سامنے کی جس پر سرخ نشان پڑ گیا تھا۔
کیا ضرورت تھی اسے ہاتھ میں رکھنے کی۔ شاہزیب نے اسے سخت نظروں سے گھورا
وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے میں لایا اور اسکی ہتھیلی پر مرہم لگایا بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔آگ کی جلن یا درد کی وجہ سے نہیں شاہزیب کی ذرا سی فکر کیوجہ سے۔ اسکی ماں کے علاوہ کس نے اتنی فکر کی تھی۔ایک بار ماموں کے گھر گرم تیل سے اسکی انگلی جل گئی تھی وہ جلن کی وجہ سے پوری رات سو نہ سکی۔کون مرہم رکھتا اسکے زخم پر؟ پھر بھی وہ گھر کا سارا کام خود ہی سمیٹتی رہی۔
زیادہ درد ہو رہا ہے؟ وہ اسکے رونے پر گھبرا گیا
اس نے نفی میں سر ہلایا
تو پھر رو کیوں رہی ہیں؟ اسکے آنسو شاہزیب کو ڈسٹرب کر رہے تھے۔
اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے اور پھر اپنی بے اختیاری پر غصہ بھی بہت آیا۔
آرام کریں۔شاہزیب اسکے پاس سے اٹھنے لگا تھا جب رابی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
پلیز کہیں مت جائیں۔وہ پہلے اسکے روکنے پر کچھ دیر ہونق بنا اسے دیکھتا رہا پھر واپس اسی کے پاس بیٹھ گیا
آپ وعدہ کریں آئندہ سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ وہ اسکی ذرا سی توجہ پاکر اس سے باتیں منوا رہی تھی۔عورت ایسی ہی ہوتی ہے کسی کی ذرا سی محبت اور توجہ پاکر اس سے بہت سی امیدیں اور مان وابستہ کر لیتی ہے۔
حالانکہ یہ وعدہ آپکو کرنا چاہیے۔شاہزیب نے اسکی جلی ہوئی ہتھیلی کو دیکھ کر کہا
پلیز مذاق مت کریں وعدہ کریں مجھ سے۔ رابی نے آنکھوں میں آنسو سموتے ہوۓ کہا شاہزیب اسکی اس تبدیلی پر حیران ہوۓ بغیر نہ رہ سکا یہ شاید اسی کے نرم لہجے کا نتیجہ تھا۔
آپ کے سامنے سگریٹ ہاتھ میں نہیں لونگا۔شاہزیب نے اسکا مان نہیں توڑا
اس نے مسکرا کر اسکے کندھے سے سر ٹکایا تھا اور شاہزیب کو کریم یزدانی کی بات یاد آئی تھی۔
“شادی کر کے تمہیں اس حول سے باہر آنے پڑے گا بیویاں خود سے بیگانگی برداشت نہیں کرتی۔وہ انسان کو راہِ راست پر لانے کے تمام گُن جانتی ہیں” آخری جملہ انہوں نے ہنستے ہوۓ شریر لہجے میں کہا تھا ان کی بات یاد کر کے وہ بھی ہولے سے مسکرا دیا۔
۞۞
صبح خلافِ معمول اسکی آنکھ دیر سے کھلی۔شاور لے کر وہ زیان کے روم کیطرف بڑھی اور اسے اسکول کے لیے ریڈی کیا جب تک نازو جو گھر کی ملازمہ تھی اس نے ناشتہ بھی لگا دیا۔ ناشتے کی ٹیبل پر کریم یزدانی رابی اور زیان ہی موجود تھے۔
وہ اپنے ساتھ ساتھ زیان کو بھی ناشتہ کروا رہی تھی۔
شاہ نہیں اٹھا؟ کریم یزدانی نے اخبار کی سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہوۓ پوچھا۔
نہیں میں جگاتی ہوں ابھی۔ اس نے بریڈ کا ٹکڑا زیان کے منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا۔
رہنے دو آج میں ہی چکر لگا لیتا ہوں آفس کا کتنے دنوں سے ارادہ باندھ رہا تھا۔ وہ کرسی چھوڑ کر تیار ہونے کے لیے اپنے کمرے کیطرف بڑھے۔
زیان کو اسکول اور کریم یزدانی کو آفس کے لیے روانہ کر کے وہ اپنے کمرے میں آگئی۔
شاہ زیب ابھی بستر میں ہی دبکا ہوا تھا۔رابی اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی اور کافی دیر اسکے چہرے کے ہر نقش کو اپنے اندر اتارتی رہی۔
شاہ صاحب۔ اٹھیں نا۔ اس نے دھیمے سے اسے بلایا
وہ سنی ان سنی کرتا آنکھوں پر بازو رکھ کر سو گیا
اٹھیں نا بابا بھی آفس چلے گئے ہیں۔ اس نے پھر آواز دی۔
سونے دو یار جاؤ اپنا کام کرو۔ وہ نیند سے بوجھل آواز میں گویا ہوا۔
نہیں میں اکیلی بور ہو رہی ہوں آپ اٹھ جائیں۔ اس نے آنکھوں سے اسکا بازو ہٹایا۔
کیا ہے یار سونے کیوں نہیں دیتی۔اس نے سخت لہجے میں ڈانٹتے ہوۓ کہا ٹی وی لگا لو مجھے آرام کرنے دو۔ وہ غصے سے کہہ کر کروٹ بدل کر سو گیا وہ لب کاٹتی آنکھوں میں آنسو بھر کر لاؤنج میں آگئی۔
اسکے جانے کے بعد وہ اٹھا ” بابا جان کو بہت جلدی تھی شادی کی سکون غارت کر دیا میرا” وہ بڑبڑاتے ہوۓ واشروم کیطرف بڑھا۔
فریش ہو کر نیچے آیا تو وہ لاؤنج میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی اسے دیکھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔وہ لاؤنج میں بیٹھ کر اسی اخبار کی ورق گردانی کرنے لگا جو کچھ دیر پہلے کریم یزدانی پڑھ رہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد رابی اسکے پاس ناشتے کی ٹرے لے کر آئی اور اسکے لیے ٹیبل پر ناشتہ لگایا۔
سنو۔ وہ واپس کچن کی طرف مڑنے لگی تھی جب شاہزیب نے اسے روکا
جی۔ وہ اسکی طرف مڑی
ناشتہ کیا ہے آپ نے۔ وہ بریڈ پر جیم لگاتے ہوۓ بولا
جی کر لیا۔وہ واپس مڑنے لگی تھی جب شاہزیب نے اسے اپنی طرف بلایا۔
جی۔ وہ اسکے پاس آکر بولی
بیٹھو اور میرے ساتھ ناشتہ کرو۔ شاہزیب نے اسکا ہاتھ پکڑ اسے اپنے ساتھ بٹھایا۔
اسکے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی شاہزیب نے اسے اپنے ساتھ ناشتہ کروایا۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر رویا مت کرو۔وہ اسے نرمی سے کہہ رہا تھا اور سر جھکاۓ سن رہی تھی وہ تو صابر و شاکر تھی پھر نہ جانے کیوں شاہزیب کی ذرا سی ڈانٹ پر اسکے آنسو امڈ آتے تھے۔
اچھا میں تیار ہو کر آفس جا رہا ہوں تم ٹی وی ہے اسٹڈی ہے وہاں وقت گزار لیا کرو بور کیوں ہوتی ہو۔وہ اسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتا کمرے کیطرف چلا گیا۔یکدم ہی رابی کا دل اسکا آفس جانے کا سن کر اداس ہو گیا تھا۔ جو لوگ دل میں بس جائیں یا بسنے لگتے ہیں پھر جی چاہتا ہے وہ ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہیں ہمارے آس پاس اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں اور شاید رابی کے دل میں بھی شاہزیب بس گیا تھا یہ اداسی بے جا نہ تھی۔
۞۞
☜ماضی
جب اسکی آنکھ کھلی تو دن چڑھ گیا تھا وہ نہ جانے کتنے گھنٹے سوتا رہا۔لگاتار سونے کی وجہ سے اسکے آنکھوں کے پپوٹے سوج گئے تھے۔وہ فریش ہو کر نیچے آیا۔
لاؤنج میں بیٹھے وہ تینوں کسی بات پر قہقہہ لگا رہے تھے اسے دیکھ کر سب کی ہنسی کو بریک لگا۔
بھیا آپ تو مجھ سے بات نہ کرنا۔ کل آپکی وجہ سے مجھے دوستوں کے سامنے اسقدر سبکی ہوئی سبھی کہہ رہے تھے تمہارے بڑے بھیا نظر نہیں آرہے اب میں انہیں کیا کہتا وہ اندر کمرے میں خراٹے لے رہے ہیں۔ذیشان نان اسٹاپ شروع ہو گیا تھا ایمل نے اسے آنکھ کے اشارے سے مزید بولنے سے منع کیا
بس ذرا طبیعت خراب تھی میری۔رئیلی سوری وہ اسکے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولے۔ایمل ذیشان کے ساتھ والے صوفے پر براجمان تھی اور کریم یزدانی بالکل سامنے۔
اوہ کیا ہوا بھیا؟ اس نے شاہزیب کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا “آپکو تو ٹمریچر ہو رہا ہے” اس نے ہاتھوں کی گرماہٹ محسوس کر کے کہا
نہیں بس ذرا سا سر درد۔
شاہ اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔ کریم یزدانی نے بھی اسکے چہرے کا جائزہ لیتے ہوۓ کہا
نہیں ٹیبلیٹ لونگا تو آرام آجاۓ گا اتنا لمبا چوڑا مسٔلہ نہیں ہے۔ شاہزیب نے ذیشان سے ہاتھ چھڑواتے ہوۓ کہا
انکل سہی کہہ رہے ہیں بھیا۔ایمل پہلی بار اس سے براہ راست مخاطب تھی۔
میڈیسن لونگا آرام آجاۓ گا۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی
اچھا میں خانساماں سے آپ کے لیے کھانے کا کہتی ہوں وہ اٹھ کر کچن کیطرف بڑھی جبکہ ذیشان شاہزیب کا ہولے ہولے سر دبا رہا تھا۔
۞۞
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...