شادی کی پہلی رات اکثر مرد اپنی بیوی سے بہت سی باتیں کرتے ہیں بہت سی باتیں شعیر کرتے۔ اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک کی اچھی اچھی کہانیاں بنا کر سناتے ہیں۔۔
پھر ان سے کئی وعدے لیے جاتے ہیں۔۔ مثال کے طور۔ میرے والدین کی خدمت کرتا بہنوں کا خیال رکھنا۔ اور بہت سے باتیں ھوتی ہیں۔
میں اُن میں سے کوئی بھی بات آپ سے نہیں کروں گا۔۔
نا میں یہ کہوں گا میرے والدین کی خدمت کرنا۔۔
کیونکہ ہمارے مزہب میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ بہو ساس سسر کی خدمت کرے ہر جگہ لکھا ہے ماں باپ کی خدمت کروں ان سے پیار کرو ان کا خیال رکھو۔۔ تو میرے ماں باپ میری زمے داری ہیں نا کے آپ کی۔۔۔ ہاں اگر آپ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو گی خدمت کرو گی محبت رکھو گی تو اللہ تبارک تعالیٰ اس کا اجر آپ کو بےشمار دے گا۔۔ اور مجھے بھی خوشی هو گی۔۔
نہ کرو گی تو مجھے آپ سے کبھی کوئی شکایت نہیں هو گی۔۔
میں یہ نہیں کہتا میرے جوتے پالش کرو کپڑے دھو استری کرو کیونکہ آپ میری بیوی هو نوکر نہیں اس کے لیے نوکر رکھ سکتے ہیں۔۔
مجھے صرف آپ سے ایک چیز چاہیے اور وہ هے نماز کی پابندی اور گھر میں سکون۔۔۔
میں جانتا ہوں ایک لڑکی کے لیے مشکل ہوتا ہے شروع شروع میں ایک گھرچھوڑ دوسرے گھر میں( اجیسٹ) ہونا گھلنا ملنا۔۔ بہت سی چیزیں اس کے مزاج کے خلاف ھوتی هے۔۔ میں بس چاہتا ہوں یہاں کوئی چیز بری لگے وہاں آپ تحمل سے کام لیجیے گا۔۔۔ ان شاء الله میرے گھر والوں کو بہتر پائیں گی۔۔
قاسم علی منال کا ہاتھ پکڑ کر محبت سے کہہ رہا تھا۔
رہی میری زندگی کی کہانی تو اب آپ کا اور میرا زندگی بھر کا ساتھ ہے آہستہ آہستہ سب پتہ چلتا رہے گا۔۔ یہ نا ہو ابھی میں اپنی تعریف میں پہاڑ کھڑے کر دوں اور بعد میں آپ کو ویسا کچھ نظر نہ آئے۔۔ اس لیے بہتر ہے آپ خود جان جائیں کہ میں کیسا ہوں۔
اب آپ بھی کچھ بولیں گی کہ میں ہی بڑبڑ کرتا رہوں گا۔۔ قاسم علی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔۔
منال شرماتے ہوئے۔۔ اب میں کیا کہوں۔۔ مجھے بھی بہت لمبی چوڑی بات نہیں کرنی۔۔ آپ میرے عمل سے سمجھ جائیں گے سب اور رہی بات گھر میں سکون کی ۔۔ تو ان شاء الله آپ نہیں ہر کوئی تعریف کرے گا۔۔ منال نے آہستہ سے کہا۔۔
مجھے اپنی شریکِ حیات سے یہی امید تھی۔۔ اب میں دو نفل پڑھ لوں۔۔ تاکہ نئی زندگی کا آغاز اللّٰهُ کے بابرکت نام سے شروع کریں۔۔ منال بھی لہنگا سنبھالتے ہوئے اٹھنے لگی۔۔
آپ کہاں چلی۔۔ قاسم علی نے حیرت سے پوچھا۔۔
کیوں زندگی کا آغاز صرف آپ نے کرنا ہے میں نے نہیں۔۔ منال نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
جی جی کیوں نہیں۔۔ دونوں نے وضو کیا اور کمرے میں ایک ساتھ نفل ادا کیے۔۔ منال قاسم علی سے دو قدم پیچھے کھڑی تھی۔۔ نفل کی ادائیگی کے بعد قاسم نے کہا۔۔
جب میرے برابر جگہ خالی تھی تو آپ نے دو قدم پیچھے کیوں لیے۔۔
کیونکہ عورت مرد سے دوقدم پیچھے ہی اچھی لگتی ہے اور اس میں عورت کے لیے بہتری ہے۔۔ منال نے کہا۔۔
بہتری کیسی۔۔ قاسم علی نے منال کی بات میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا جانتا تو وہ بھی تھا مگر وہ اپنی بیوی کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔۔
عورت جب مرد کو اپنے سے برتری دیتی ہے تو اللّٰهُ خوش ہوتا ہے اور مرد کی زمیداری بڑھ جاتی ہے۔۔ پھر مرد دو قدم آگے راہ کر عورت کی حفاظت کرتا ہے ہر دکھ تکلیف اور پریشانی کو دوقدم پہلے ہی خود پہ لے لیتا ہے بیوی تک اس کی ہوا بھی نہیں آنے دیتا۔۔
اور اگر عورت برابر ھوگی تو سامنے سے آتا پتھر نہیں دیکھے گا کہ ماتھا کس کا ہے وہ لگ جائے گا پھر بیوی کے لگے یا شوہر کے
عورت پیچھے هو گی تو یقیناً وہ مرد کے ہی لگے گا عورت محفوظ رہے گی۔۔ اس لیے مجھے آپ سے دو قدم پیچھے ہی رہتا ہے۔۔۔۔
ماشاء اللہ بہت پیارے خیالات ہیں آپ کے۔۔ اور اگر کسی نے پیچھے سے وار کیا تو۔۔ قاسم علی سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے بولا۔۔
جب عورت پیچھے ہے تو وہ پیچھے راہ کر اپنے سہاگ کی حفاظت کرتی ہے دعاؤں سے وفاؤں سے اور اگر ضرورت پڑے تو ہتھیار سے بھی کیونکہ پیچھے رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کمزور ہے۔ وہ پیچھے راہ کر دفاع کرنا جانتی ہے۔۔ منال نے مصنوعی آنکھیں دیکھا کر کہا۔۔
ہاہاہاہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے سمجھ گیا آپ تھک گئی ہے۔ قاسم علی نے اٹھتے ہوئے اسے بھی ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور دونوں دوبارہ بیڈ پر آ گئے۔۔۔۔
___________________________
دوسرے دن کا آغاز فجر کی اذان کے ساتھ ہی هو گیا تھا نماز تلاوت کے بعد پھر سے گہما گہمی شروع ہو گئی تھی مہمانوں کے ناشتے ولیمے کی تیاری بارات کے آنے کی تیاری۔۔
قاسم علی اور منال بھی اسی وقت اٹھ گئے تھے کیونکہ اکلوتا بھائی تھا ساری مزےداری اسی کی تھی۔
ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوئے تو فرواہ کو غسل ہلدی وغیرہ شروع کی دیکھا تو فرواہ کو 102 بخار۔۔
اللّٰهُ میری توبہ ایک تو یہ لڑکی بہت ضدی ہے کل بھی اسے پینا ڈول دی تھی کہ اتنا روئے گی بیمار پڑ جائے گی دیکھ لیا وہی ہوا نا۔
خدیجہ بی بی بیٹی کا بخار میں تپتا ہوا وجود دیکھ کر بولی۔
رہنے دو امی مجھے جس حال میں ہوں آپ سب کو بڑی پرواہ
ہے میری چلو کرو جو کرنا ہے میرے ساتھ۔۔ فرواہ نقاہت اور نفرت کے ملے جلے جزبات میں بولی۔۔ اور آٹھ کر چلنے لگی۔۔
لو بھلا ہمیں اس کی پرواہ نہیں تو اور کس کو هے۔۔ ماں پیچھے سے بولی۔
ہممم بڑی پرواہ هے فرواہ زیر لب بڑبڑائی۔۔
ارے میرا بچہ کیوں اداس ھوتی هے تو کسی غیر کے گھر تھوڑی جا رہی ہے تیری ماسی هے ماں جیسی اور کتنی محبت بھی کرتی ہے جمیلہ تجھے۔۔ خدیجہ نے آگے بڑھ کر گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔
اماں میں نے کچھ کہا هے کوئی گلہ شکوہ کیا ہے۔۔ آپ سب کے فیصلے پر قائم ہوں نا پھر یہ آج تسلیاں کیوں دے رہی ہے۔۔ فرواہ چڑ کر بولی۔۔
بیٹا تجھے سمجھا رہی ہوں۔۔ تونے یہاں سے جانے کے ڈر سے بخار چڑھا لیا ہے۔۔ اتنا روئی هے ہمیں بھی تیری جدائی کا اتنا ہی دکھ هے مگر بتا کبھی کوئی بیٹی رہی ہے ماں باپ کے گھر۔۔ تیری ماں بھی آئی بھابھی آئی بہن گئی۔۔ بیٹا یہ دستور دنیا هے سب کو نبھانا هے۔ خدیجہ بی بی سمجھاتے ہوئے بولی۔
ٹھیک ہے اماں لاؤ گولی دو میں کھا کر نہا لیتی ہوں اتر جائے گا بخار فرواہ نے ماں کی تقریر سے تنگ آکر کہا۔
ماں نے پینا ڈول گولیاں دی اور اسے اپنے ہاتھوں نہلانے لگی۔۔
نہا کر باہر آئی تو سبھی لڑکیاں مل کر تیار کرنے لگی جن میں منال بھی شامل تھی۔
کیونکہ دونوں دلہنیں ایک ہی کمرے میں تیار ھو رہی تھیں۔ فرواہ کی بارات کے ساتھ ولیمہ بھی تھا اسی لیے منال خود فرواہ کو تیار کر رہی تھی۔۔
لال رنگ کا لہنگا فرواہ کے سرخ سفید رنگ پہ بہت خوب صورت لگ رہا تھا آنکھوں پہ ہلکے ہلکے شیڈز اس کی براؤن اداس آنکھوں کو بہت دلکش بنا رہے تھے ہونٹوں پر لال لپ سٹک مانو گلاب کی پنکھڑیاں لگ رہے تھے۔۔ بخار کی وجہ سے سرخ ھوتا چہرہ فرواہ کے روپ کو مزید نکھار رہا تھا۔۔
اور وہ کسی ربورٹ کی طرح جس طرف منال کرتی مڑ جاتی۔۔
فرواہ کیا بات ہے میری جان کیوں اداس ہو۔۔ منال نے اس کی اداسی محسوس کی تو پوچھا۔
بھابھی کے لہجے میں اتنی اپنائیت دیکھی تو فرواہ کا دل بھر آیا۔۔ اتنے دنوں سے جو ابال تھا دل میں کہ کوئی اپنا پوچھے میری اداسی کا سبب۔ اب جو پوچھا تو سارے بندھ ٹوٹ گئے۔
فرواہ مڑی اور منال سے لپٹ کر رونے لگی۔ وہ اتنی زور زور سے رو رہی تھی کہ سارے مہمان کمرے میں جمع ہو گئے۔۔
منَال اسے سمبھالنے لگی چپ کروانے لگی۔۔
فرواہ نے سارا میک اپ رو رو کر منال کے کپڑوں پہ لگا دیا۔۔
۔ فرواہ کا اس طرح رونا منال کو پریشان کر گیا۔۔
اس کی چھٹی ہس نے اسے بتا دیا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔۔ وہ مزید پوچھنا چاہتی تھی مگر کمرے میں رش دیکھ کر خاموش رہی۔۔
فرواہ بھی سمبھل گئی کھل کر رونے سے دل کا کچھ بوجھ ہلکا ہوا۔۔ رو تو وہ کافی دنوں سے رہی تھی مگر دکھ میں اپنوں کے کندھے کی ضرورت بہت محسوس ھوتی هے اور اگر کوئی مخلص کندھا مل جائے تو بنا بتائے بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔
۔۔
فرواہ تو تھوڑی رلیکس هو گئی مگر منال اداس ہو گئی۔۔ اسے اپنی نند کی فکر ھونے لگی۔۔ وہ خود بھی ایک دن کی دولہن تھی کسی سے وجہ پوچھ نہیں سکتی تھی اور قاسم علی اس سے دور کاموں میں مصروف تھا۔۔
1بجے کے قریب بارات آ گئی اور نکاح هو گیا اور فرواہ مسزنعمان بن گئی۔
کھانا وغیرہ کے بعد رخصتی شام 5 بجے هو گئی۔۔ فرواہ روتی بلکتی اس گھر سے وداع هو گئی۔۔
نہ بھائی کو احساس ہوا اور نہ ماں باپ کو کے بیٹی کی خوشیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے زندگی بھر کے دکھ اس کی جھولی میں ڈال کر رخصت کر دیا ہے اور اپنے آپ کو الله تعالٰی کی نظر میں بہن کا گناہ گار بنا لیا ہے۔۔
لاکھ نمازیں پڑھو تلاوت کرو عمرے کرو یا حج۔۔ جب تک بہن معاف نہیں کرے گی تمہیں اس گناہ کی معافی نہیں مل سکتی۔۔ کیونکہ اللّٰهُ تبارک تعالیٰ کا فرمان ہے۔۔ میں حقوق اللّٰهُ تو معاف کر سکتا ہوں مگر حقوق العباد نہیں۔۔ وہ بندے کریں گے تو میں کروں گا۔۔۔ یاد رکھیے گا۔۔۔
_______________————–___________
شادی سے نمٹنے کے ایک ماہ بعد قاسم علی پھر سے پردیس چلا گیا۔۔ منال کبھی میکے تو کبھی سسرال میں راہ کر جدائی کے دن گزار ری تھی۔ پھر کچھ دن بعد اسے خوشخبری مل گئی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔۔ اب بچے کے آنے کی خوشی میں ایک سال کیسے بیت گیا اسے پتہ نہیں چلا قاسم علی کے جانے کے 8 ماہ بعد اللّٰهُ نے اسے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔۔
قاسم علی بہت خوش تھا وہ بھاگتا ہوا مسجد النبی میں گیا شکرانے کے نوافل ادا کیے روزے کی جالیاں پکڑ کر دیوانہ وار درودو سلام پیش کرنے لگا۔
یا نبی سلام عليك
یا رسول سلام عليك۔
یا حبیب سلام علیك
صلُواة الله عليك
الصلوۃوالسلام علیِكْ ياسیدی يا راحت العـاشقین
الصلوۃوالسلام علیِكْ يا سیدی یا مرادالمـشتاقین
الصلوۃوالسلام علیِكْ يا سیدی یا سیدالمـرسلیـن
الصلوۃوالسلام علیِكْ يا سیدی یا شفیـع المـذنبین
الصلوۃ و السلام علیك یاسیدی یا رسول الله
وعلیٰ آلکـــــ واصحابکـــــ ياسیدی یا حبیب الله
يَا نَبِي سَلاَم عَلَيْكَ ۔ يَا رَسُول سَلاَم عَلَيْكَ
يَا حَبِيْب سَلاَم عَلَيْكَ ۔ صَلَوَاتُ الله عَلَيْكَ
صَلَّی اللّهُ عَلٰی حَبِیْبِهٖ سیّدنا مُحَمَّــدٍ وَّآلِـهٖ وصحبهٖ وبارك وَسَلَّمْ
وہ بلند آواز میں پڑھے جا رہا تھا اور عاشقوں کا ٹولا ساتھ جھوم رہا تھا۔۔ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آیا تو پھر بیٹے کا چہرہ دیکھا۔
دادا دادی منال سب بے حد خوش تھے۔۔ قاسم علی نے کچھ نام لکھ کر بھیجے کے ان میں جو مرضی رکھ لیں مجھے تو حماد پسند ہے آگے آپ کی مرضی۔۔
سب کو حماد ہی پسند آیا اس لئے بچے کا نام محمد حماد قاسم رکھا گیا۔۔
اسی سال چھوٹی دونوں بہنوں کے بھی اچھے رشتے مل گئے اور ماں باپ ان کے فرائض سے بھی آزاد هو گئے۔۔بہنیں اپنے گھر کی ہوئی تو قاسم نے منال کا فیملی ویزہ لگوا کر پاس بولا لیا۔۔ اور ماں باپ کو بھی۔۔
لیکن ماں باپ مستقبل وہاں راہ نہیں سکتے تھے وہ سال میں چھ ماہ وہاں رہتے اور چھ ماہ پاکستان بیٹیوں کے ساتھ۔۔
قاسم علی نے اس دوران 3 حج اور ان گنت عمرے کیے ساتھ ہی منال اور ماں باپ بچے بھی
سال سال کے وقفے سے 3 بیٹے اللّٰهُ نے عطا کیے تینوں نے چھوٹی عمر میں حج عمرے کر لیے اور اللّٰهُ کے گھر کی زیارت بھی۔۔ وہ ماشاءاللہ دن میں پانچ بار نبی کے گھر کی زیارت کرتے تھے۔ درود سلام پیش کرتے۔۔
قاسم علی کی پوری کوشش ہوتی کے وہ کبھی کسی کا دل نہ دکھائے ماں باپ اس سے خوش تھے۔ بیوی خوش تھی۔۔
قاسم علی نے قرآن پاک حفظ نہیں کیا تھا مگر اس نے کچھ سورتیں زبانی یاد کر لی تھی۔۔ جیسے یسین رحمان مزمل۔ ملک اور چھوٹی چھوٹی صورتیں۔
وہ جس استاد سے قرآن پاک یاد کر رہا تھا اس نے اسے ایک بار کہا۔ کہ سورت ملک ہمارے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کو بہت محبوب تھی روز رات کو پڑھ کر سوتے تھے۔
بس پھر کیا وہ دن اور آج کا دن قاسم علی نے کبھی سورت ملک کا ناغہ نہیں کیا وہ اٹھتے بیٹھتے چاند دیکھتے سورت ملک ضرور پڑھتا۔۔
اسے سعودی عرب میں 14 سال ھو گئے تھے۔۔ اس دوران اس نے لاہور میں عالی شان گھر بنوایا۔۔ کچھ پلاٹ زمین بچوں کے نام خریدی۔
اس کے دوست نے لاہور شہر میں اچھرو میں دوکانیں بنائی۔ پھر اچانک گھریلو وجوہات کی بنا پر انہیں فروخت کرنے لگا۔۔
مگر اس کی دوکانوں کا کوئی بھی معاوضہ مناسب نہیں دے رہا تھا کیونکہ سب کو پتہ تھا اس کی مجبوری ہے بیچے گا۔ تبھی لوگ فائدہ اٹھا رہے تھے۔۔
اس نے قاسم علی سے اپنا دکھ شعیر کیا۔ قاسم علی نے دوست کی مدد کرنی چاہی اور جس قیمت پر وہ دوکانیں بیچنا چاہتا تھا قاسم علی 20 ہزار زیادہ دے کر خرید لی۔۔
اور کرائے پر دے دی۔۔ اور کرایہ چاروں بہنوں کو ہر ماہ تقسیم کر دیتا۔۔
___________———-______________——–
دوسری طرف جب فرواہ بیاہ کر نعمان کے گھر گئی پہلی رات ہی نعمان نے اسے اس کی جگہ بتا دی۔۔
وہ دولہن بنی بیڈ پر بیٹھی تھی جب نعمان کمرے میں داخل ہوا۔۔ وہ ازل سے بدتمیز انسان آتے ہی اسے دھکا دے کر لیٹ گیا۔۔ وہ تھوڑا کسک کر بیٹھی رہی بخار مزید تیز ھو گیا تھا۔۔ اسے بیٹھے بیٹھے چکر آنے لگے۔۔
2 3 گھنٹے بیٹھنے کے بعد لیٹنے لگی کہ نعمان اٹھ گیا
وہ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بے دردی سے اس کا منہ پکڑ کر بولا۔۔ نیند آ گئی تجھے۔۔ آج کیوں آکڑ نہیں دیکھا رہی اج بھی دو نا مجھے دھکا۔۔ اس دن تو بڑی شیر بن رہی تھی۔۔۔ کہا تھا نا تو میری پراپرٹی ہے تجھے جیسے چاہوں استعمال کروں۔۔
اس نے فرواہ کا منہ اتنی زور سے پکڑ ہوا تھا کہ گال درد کرنے لگے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔
رو رو جتنا رو سکتی ہے رو کیونکہ یہ ہی تیری زندگی هے۔۔ اس دن مجھے خوش کر دیتی تو آج تو خوش ہوتی مگر نہیں میں اس سے دکھی ہوں اب ساری زندگی تو دکھی هو۔۔ نعمان نفرت سے کہنے لگا۔۔
فرواہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔ وہ خود کو چھڑانے کے لیے تھوڑا سا ہلی تو۔۔ نعمان نے بے دردی سے اس کا دوپٹہ اتار کر بیڈ سے نیچے پھینک دیا۔۔
دوپٹے کو کافی پنیں لگی ہوئی تھی جو اس کے بالوں میں لگی ہوئی تھی فرواہ کے بال بھی دوپٹے سے ساتھ بکھر گئے اور بری طرح سر سے اکھڑ گئے۔ اس کی درد کی وجہ سے چیخ نکل گئی۔ اس کی بلند ہوتی آواز نعمان کو پسند نہیں آئی اس نے دوسرے لمحے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا۔
بخار کی وجہ سے پہلے برا حال تھا اوپر سے یہ سب۔۔ فرواہ پیچھے کو گری اور بےہوش هو گئی۔۔
نعمان نے اسے اٹھایا مگر وہ ایک طرف کو لوڑک گئی۔
وہ گھبرا گیا فورن بھاگتا ہوا باہر نکلا اور ماں کو بولا نے لگا۔
امی امی یہ دیکھو فرواہ کو کیا ہوا ہے۔۔
ماں باپ اور جو بھی رشتے دار موجود تھے آواز سے اٹھ گئے اور بھاگ کر دولہن کے کمرے میں جمع ہو گئے۔۔
۔ ارے یہ تو بخار میں تپ رہی ہے اتنا تیز بخار ہے اسے تو۔۔
جا بھاگ کر جا وہ محلے والے ڈاکٹر کو بولا لا۔۔اس کی ماں نے فرواہ کے ماتھے کو چھوا تو کہنے لگی۔۔
امی اس وقت۔ نعمان نے بےزاری سے گھڑی دیکھ کر کہا۔۔
ہاں اس وقت اور کوئی چارہ نہیں۔۔۔ دن چڑھنے والا ہے اس کے گھر سے بھائی بھابھی آتے ہونگے ناشتہ لے کر۔۔ اس کی ماں نے کہا۔
خالا کی محبتیں ختم ہو گئی اب صرف ڈر تھا تو اس کے گھر والوں کا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...