خجل ہوا تھا شرافت سے اپنی ڈر گیا تھا
کسی کی آنکھوں کا پانی وہاں اتر گیا تھا
یہ اور بات کہ تدفین میری اب ہوئی ہے
میں اپنے گھر میں کئی سال پہلے مر گیا تھا
یہ جسم بعد میں پہنچا ہوس کدے میں مرا
کہ پہلے خود مری نیت کو لے کے شر گیا تھا
یقیں نے پوچھ لیا اتنی دیر کیوں کر دی؟
گمان وقت کی سیڑھی سے جھٹ اتر گیا تھا
یہ حافظے کی نہیں، ہیں خطائیں ماضی کی
میں اس جگہ پہ تھا پہلے، تو پھر کدھر گیا تھا؟
تھی فیصلے کی گھڑی، مصلحت کہ قربانی؟
کسی کے ہاتھ بندھے تھے کسی کا سر گیا تھا
یہ وہ نہیں، کوئی صحرا گزید ہے شاید
اسے تو یاد نہیں کب وہ اپنے گھر گیا تھا
جب آہٹیں بنی دستک تو ایک ہی پل میں
بغیر آئینہ دیکھے کوئی سنور گیا تھا
یہ طے ہوا کہ منافق نہیں کوئی ہم میں
تو اَمن گاہ میں بارود کون بھر گیا تھا؟
ہزاروں آنکھیں سرِ راہ ملتی رہتی ہیں
وہ چلتی بس سے اچانک ہی کیوں اتر گیا تھا؟
میں بت بنا ہوا فٹ پاتھ پہ رہا دلشادؔ
وہ ایک لمحے کا منظر تھا جو گزر گیا تھا