شاہد رشید
شاہد رشید، ۲۱ جنوری ۱۹۵۲ کو پیدا ہوئے۔ تعلیمی اعتبار سے وہ بی ایس سی بی ایڈ کے علاوہ اردو میں ایم اے بھی ہیں۔ اردو ہائی اسکول وروڈ (ضلع امراؤتی) میں سائنس ٹیچر کے طور پر خدمات انجام دیں اور وہیں پرنسپل مقرر ہوئے۔ اس عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ ایک اسکول کے نگراں کی حیثیت سے بر سرِ کار ہیں۔
شاہد رشید نے سائنسی موضوعات کو شگفتگی کے ساتھ بے تکلفانہ انداز میں اپنے مضامین میں پیش کیا۔ ان کی کتاب ’’مکاشفات‘‘ ان تحریروں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے خالص طنزیہ و مزاحیہ مضامین بھی لکھے جو ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے۔ رابطہ: 9960309055
خیر خواہانِ قوم
شاہد رشید
ایک علم شناس بزرگ نے مجھ سے کہا۔ میاں ہمارے زمانے میں درس گاہوں سے بچّے انسان بن کر نکلتے تھے۔ آج باپ انسان کا بچّہ لا کر چھوڑتا ہے۔ لیکن دانش گاہوں سے بندر باہر نکلتے ہیں۔ پتہ نہیں مذکورہ بزرگ کی بات میں کتنی سچائی ہے لیکن یہ بات ببانگِ دہل کہی جا سکتی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں بچہ بجز علم کے عملی زندگی کا ہر ہنر سیکھتا ہے۔ مثلاً چاپلوسی، خود غرضی، رشوت خوری نا انصافی۔ غرض یہ کہ ہر وہ کام جو بچہ اپنے استادوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے خود اختیار کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بچہ آدمی کا باپ ہوتا ہے اس لیے ہر وہ چیز جس کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ضرور بالضرور اپنے تجربے میں لاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کا بچہ کاغذ کا سگریٹ بنا کر پی رہا تھا۔ اس کی ماں نے اس سے کہا۔ بیٹا بری بات ہے۔ سگریٹ نہیں پیتے۔ اس نے کہا لیکن ابّو تو پیتے ہیں۔ ماں نے سمجھایا بیٹا وہ بڑے ہیں۔ بچے نے کاغذ پھینکتے ہوئے کہا۔ اچھا تو میں بھی بڑا ہو جاؤں گا تو سگریٹ پیوں گا۔
عام طور پر درس گاہوں میں اساتذہ کے دو گروپ ہوتے ہیں ایک وہ جو پڑھاتے ہیں دوسرا گروپ وہ جو روایتی درس و تدریس کا سرے سے قائل ہی نہیں ہوتا۔ اول الذکر محنت فروخت کرتے ہیں یعنی پیدائشی مزدور ہوتے ہیں۔ ثانی الذکر ملازمت خریدتے ہیں۔ خریدار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی شئے کا اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔ کسی مائی کے لال میں ہمت نہیں کہ ان سے کام لے لے۔ اسٹاف روم میں بیٹھے ہوئے ایسے ہی ایک استاد کو شامت کے مارے ایک نگراں کار نے کہا۔ جناب کلاس میں جائیے۔ اسے منہ توڑ جواب ملا، ’نقد ساٹھ ہزار روپے کس لیے دیے ہیں؟ کلاس میں جانے کے؟ ‘بیچارہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ شکایت کرتا بھی تو کس سے؟ بھِڑ کے چھتّے کو چھیڑنے کی ہمت بھلا کون کرے گا۔ اگر آپ کو پرنسپل کی جی حضوری کرنا نہیں آیا تو شیخ سعدی کے ناخدا کے الفاظ میں تمھاری تو ساری زندگی بے کار ہے۔ سخت نادان ہیں وہ لوگ جو دنیا داری کو نہیں سمجھتے کولہو کے بیل کی طرح جتے رہنے والے استاد کیا جانیں۔ صاحب اقتدار کو خوش رکھنے کا ہنر ایسے استادوں سے طلباء و سرپرست دونوں نالاں رہتے ہیں۔ اس شارٹ کٹ کے زمانے میں موٹی موٹی کتابیں پڑھنے اور پڑھانے والے بے وقوف نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارے ایک استاد اکیس نمبری کہلاتے ہیں۔ آپ نے چھے نمبری، چوبیس نمبری اور بتیس نمبری تو سنا ہو گا۔ لیکن شاید اکیس نمبری سے نا آشنا ہوں۔ یہ صاحب اکیس سوالات کے جوابات(Twenty One Question setطلباء کو رٹا کر پاس کروانے کا ٹھیکہ لیتے ہیں۔ آج تو نتیجہ دیکھا جاتا ہے۔ پرنسپل خوش کہ اس کی سرکاری خیرات پر آنچ نہیں آئی۔ سرپرست مطمئن کہ بچّہ پاس ہو گیا۔ اب زبان سکھا کر شیکسپیر یا غالبؔ تو بچّوں کو بنانا نہیں ہے رزلٹ دیکھنا چاہییے انتظامیہ کو گرانٹ لینا ہے۔ حکومت کو دینا ہے۔ بچوں کو پاس ہونا ہے اور سرپرستوں کو انھیں پاس کروانا ہے۔ ایسے ہی قوم کے ہم درد اساتذہ کو راشٹر پتی ایوارڈ دیا جانا چاہئے۔ یہ صاحبان قوم پر احسان کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ جب تک قوم کے یہ سیاہ سپوت قوم میں زندہ رہیں گے اپنی روشنائی سے قوم کو سرفراز کرتے رہیں گے۔ جاگیے صاحبان جاگیے۔ اب بھی اگر آپ نے ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکایا تو
داستاں تک نہیں رہے گی داستانوں میں
ہم نے ایک جگہ بورڈ لگا دیکھا۔ جلدی کیجیے گیا وقت ہاتھ آتا نہیں۔ تھوک کا دام چلّر کا کام ہم نے اپنے دوست سے پوچھا۔ یہ شیخ کالو صاحب کے پڑوس میں کیا فروخت ہوتا ہے۔ پہلے تو ٹال گئے لیکن ہمارے مزید استفسار پر ہنس کر کہنے لگے۔ اجی صاحب کوئی بیوپاری ان کے پڑوس میں نہیں ہے بلکہ یہ بورڈ انھیں کے گھر پر لگا ہے۔ اب بچے اور ان کے سرپرست کہاں۔ ہر ممتحن کے گھر نمبرات بڑھانے کے لیے جائیں گے۔ اس لیے یہ صاحب معمولی مشاہرہ پر یہ کام انجام دے لیتے ہیں۔ کام نہ ہونے کی صورت میں مشاہرہ واپس کرنے کی کیا گیارنٹی ہوتی ہے۔
ہمارے ایک وظیفہ یاب دوست ہم سے ملنے آئے۔ زندگی میں انھوں نے کبھی بے نفع کام نہیں کیا، اگر کبھی انھوں نے ایک کپ چائے بھی پلا دی تو ہم سوچتے ہیں کہ اب یہ اپنا کوئی کام ہم سے نکلوانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران طلباء و طالبات کو ربڑ سے لے کر درسی کتب تک اور یہاں تک کہ نمبرات بھی فروخت کیے ہیں۔ خیر صاحب ہمارے یہ دوست ہم سے صلاح مانگنے آئے تھے کہنے لگے۔ ہم ایک سیاسی پارٹی کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔ ہمارے مزید دریافت کرنے پر کہنے لگے ہماری پارٹی اگر بر سرِ اقتدار آ گئی تو ہم حسبِ ذیل سفارشات منظور کریں گے۔
(اسکول اور کالجوں کے امتحان میں شرکت کے لیے لا زمی حاضری کا کالا قانون ختم کیا جائے گا۔)
(درس گاہوں میں وقت پر آنے کی پابندی ختم کی جائے گی۔)
(ٹیکسٹ بُک بیورو)ختم کیا جائے گا اور سرکاری سطح پر اکیس سوالات میں پاس ہونے کی کنجی شائع کی جائے گی۔
(امتحان میں ہر طالبِ علم کو Logarithmکی طرح جوابات بھی مہیا کیے جائیں گے۔)
(ممتحن کو نمبرات بڑھانے کی فیس ادا کرنے کے لیے ہر طالبِ علم کو بلا سودی قرض دیا جائے گا۔)
(اساتذہ کو کام کروانے کے لیے (Leave Travelling Concession) دیا جائے گا۔)
(اسی طریقے سے پاس ہونے والے نوجوانوں کو ملازمت کی گیارنٹی دی جائے گی۔)
(ملازمت کے خواہش مند نوجوانوں کو ملازمت حاصل کرنے کے لیے آسان قسطوں پر یک مشت رقم فراہم کی جائے گی)
ہم نے کہا۔ آپ کی پارٹی کا دستور بہت اچھا ہے لیکن اگر آپ ہماری ایک سفارش مان لیں تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ نہ صرف ہم آپ کی پارٹی کے ممبر بن جائیں گے بلکہ ممبر سازی کا کام بھی کریں گے ان کے اثبات پر ہم نے کہا: ’آج کل کھلے بازار کا زمانہ ہے۔ معاشیات کا اصول یہ ہے کہ ملک کی ترقی مکمل مسابقت میں پوشیدہ ہے۔ آپ بھی مکمل مسابقت کے حمایتی بن جائیے۔ ‘کہنے لگے، ’اس سے تمھاری کیا مراد ہے؟ ‘ہم نے سمجھایا: ’دیکھیے آج کل ملازمتوں میں گلا کاٹ مسابقت(Cut throat Competition)ہو رہا ہے۔ کم سے کم آپ کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ملازمتوں میں بھی مکمل مسابقت ہونی چاہیے اس لیے خالی آسامیوں کو نیلام کیاکیجئے تاکہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق نیلام میں بولی بول سکے۔ ہماری پارٹی کھلے بازار کی حمایتی ہو گی۔ چپکے چپکے خطیر رقم لے کر ملازمت دینے کے ہم خلاف ہیں۔ نیلام میں بڑھ چڑھ کر بولی بولنے والے ہی کو ملازمت دی جائے۔ ہماری حکومت مساوات کی علم بردار ہو گی۔
‘اس تجویز پر ہمارے دوست کی باچھیں کھل گئیں۔ واہ۔ واہ کیا نکتہ اخذ کیا ہے۔ چلو اب جلدی سے اس کا نام بھی تجویز کر دو ہم نے کہا اس کا نام خدائی خدمت گار رکھیے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اگر ہماری پارٹی کے منثور سے اتفاق رکھتے ہیں تو اس کے ممبر بن جائیے۔