اس ہی لمحے دروازے پہ دستک ہوئی وہ اپنی سوچوں میں گم دروازے تک گئی تو دروازہ کھلنے پہ وہ چہرہ سامنے آیا جس کا وہ وہاں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
وہ کسی بد مست بھینسے کی طرح گھر میں گھس آیا تھا۔
شکیل جسے وہ خواب میں دیکھ کر بھی ڈر جایا کرتی تھی وہ اس وقت اس کے گھر کے اندر موجود تھا۔۔۔
” آجا میری رانی جب بلایا ہے تو نخرے کیسے ؟؟ میں تو تجھے مان دے رہا تھا ملکہ بنا کے لے جا رہا تھا پر ایسے تو ایسے صحیح” وہ اپنے پیلے پیلے دانت نکالتے ہوئے بولا
حسینہ کی آواز خوف و دہشت سے بند ہو چکی تھی وہ چیخنا چاہتی تھی لیکن اس کے منہ سے آواز ہی نا نکلی۔۔
شکیل نے جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کے میز پہ رکھا اور اس کے قریب آنے لگا۔۔۔
حسینہ نے خوف سے آنکھیں بند کرلیں ۔ یکلخت شکیل کی چیخ بلند ہوئی ۔۔
اس نے آنکھیں کھول کے دیکھا تو جمال اس خبیث کی درگت بنا رہا تھا۔۔
"تیری اتنی ہمت ؟؟ میرے گھر تک تو پہنچا تو پہنچا کیسے؟؟ وہ اس کو پیٹتے ہوئے اس سے سوال بھی کررہا تھا۔۔
"مجھ سے کیا پوچھتے ہو اپنی بیوی سے پوچھو اس نے ہی یہاں کا پتہ بھیج کے مجھے بلوایا” وہ پھٹے ہوئے ہونٹ سے خون صاف کرتے ہوئے بولا۔۔
حسینہ کے اوپر تو یہ الزام سن کر آسمان ہی ٹوٹ پڑا۔۔
"یہ۔۔۔ جھوٹ ۔۔۔بول رہا۔۔۔ ہے”وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔۔
"نکل یہاں سے ورنہ پولیس کو بلواتا ہوں ” جمال نے اسے ایک لات رسید کرتے ہوئے باہر نکالا ۔۔
"میرے پیسے تو دو ۔ پانچ ہزار لیتی ہے اس نے یہ ہی کہا تھا” وہ اپنے پیسوں کی طرف چھپٹا
حسینہ سے ضبط کی طنابیں ہاتھ سے چھوٹ گئیں اس قدر گھناؤنے الزام اس کے سر رکھ دیئے گئے تھے۔۔
وہ وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئی اور اپنا منہ گھٹنوں میں چھپائے رونے لگی ۔۔۔
جمال نے اس پہ ایک نظر ڈالی اور گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔
وہ جو سوچ رہی تھی کہ وہ اسے دلاسہ دے گا اسے سنبھال لے گا لیکن اس کی خاموشی سے اسے خوف آنے لگا ۔۔۔
ان کا اب تک کسی بھی بات پہ اختلاف تک نا ہوا تھا جمال کی ناراضگی اس کے ہاتھ پاؤں پھلا رہی تھی۔۔
شام رات کا روپ بھرنے لگی لیکن جمال کا کچھ اتا پتا نا تھا وہ دوستوں کے ساتھ وقت گزاری چھوڑ چکا تھا اس لیے حسینہ کو اور بھی وحشت گھیر رہی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال سڑکیں ناپ ناپ کے جب تھک گیا تو گھر کی طرف چلنے لگا ۔ آج کے سارے منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے ۔۔
آنکھوں دیکھا جھٹلانا اور کانوں کا سنا اس سے بھلایا نہیں جارہا تھا لیکن حسینہ کا معصوم چہرہ اس کے شکوک و ابہام کو دور بھی کر رہا تھا۔۔۔
گزرتا وقت حسینہ کے ہاتھ پاؤں پھلا رہا تھا ۔ بچے بھی سو چکے تھے خدشات کا طوفان تھا جس میں وہ ڈول رہی تھی کنارے مل جانے کے بعد پھر سے موجوں کا سامنا اسے دہلا رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال جیسے ہی فلیٹ تک پہنچا ابھی وہ سیڑھیاں چڑھ ہی رہا تھا کہ ایک نشے میں جھومتے ہوئے شخص نے اسے روک لیا۔۔
"یہ فلیٹ نمبر 503 کہاں ہے ؟؟” وہ اس سے پتہ پوچھ رہا تھا
” کیوں پوچھ رہا ہے تو یہ پتہ؟؟ جمال نے اسے گریبان سے پکڑ لیا اس کی آنکھیں خوں رنگ ہو رہی تھی ۔۔
"یار گلے کیوں پڑ رہا ہے ؟؟ پتا بتا دو بس۔ سنا ہے بڑی قیامت شےء رہتی ہے ادھر ” وہ اپنا گریبان اس کے ہاتھوں سے چھڑانے لگا ۔۔
"میرا گھر ہے وہ بدذات ۔ میری بیوی کے لیے واہیات باتیں بکتا ہے ” جمال اس پہ پل پڑا اور مکے پہ مکا اس کے منہ پہ مارنے لگا ۔۔
وہ شخص خود کو بچانے کے لیے پورے زور و شور سے واویلا کرنے لگا جس سے لوگ وہاں جمع ہونے لگے ۔۔
انھوں نے بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کروایا تو جا کے اس شخص کی جان خلاصی ہوئی ۔۔۔
"کیا بات ہے میاں ؟؟ دن کے وقت بھی آپ کے گھر سے جھگڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں اور اب اس وقت یہ معاملہ” ایک معمر بزرگ نے اس سے استفسار کیا۔۔۔
جمال کے پاس بولنے کے لیے کچھ بھی نا تھا اپنی ذلت و ہزیمت کے بارے میں بتاتا بھی تو کیا ۔۔
باقی لوگ اس کی خاموشی پہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے ۔۔
جمال ان کے بیچ سے نکل کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ عورتیں کھڑکیوں اور دروازوں میں سے اسے جھانک رہی تھی ۔۔
"اچھا ہوا بروقت ہم نے اپنے بچے اس کے پاس سے ہٹا لیے” داہنی طرف سے اسے آواز آئی
"ہاں بہن ٹھیک کہتی ہو ” کسی دوسری نے بھی ہاں میں ہاں ملائی
یہ سیسہ پگھلی آوازیں جمال کی سماعت کو زہر آلود کر رہی تھیں وہ مٹھیاں بھینچے اوپر کی طرف چڑھتا رہا ۔۔۔
اپنے دروازے پہ پہنچ کر اس نے دستک دی تو حسینہ نے تیزی سے دروازہ کھولا ۔۔
جمال کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہونے لگے ۔۔۔
"کیا ہوتا رہا ہے یہاں میرے جانے کے بعد ؟؟ وہ دھیمے لیکن سخت لہجے میں بولا ۔۔
"کیا ہوگا.. بس گھر کے ..کام کاج” وہ ٹہر ٹہر کے بولی ۔۔
"کس کی اجازت سے لوگوں کے بچے آتے رہے یہاں” اس نے نظر اٹھا کہ سوال کیا تو حسینہ کو اس کی نظر میں بے گانگی دہلانے لگی ۔۔
"ٹیوشن کے لیے آتے تھے بچے” اس نے جواب دیا۔۔
"اور کون کون آتا رہا ہے یہاں؟ وہ سختی سے پوچھ رہا تھا ۔۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ؟؟ اس نے سراسیمگی سے پوچھا
میں کیسی باتیں کرریا ہوں ؟؟ لوگ مجھے روک کہ مجھ سے میرے گھر کا پتا پوچھ رہے ہیں اور تم کہتی ہو کہ کیسی باتیں کر رہا ہوں میں ؟؟ وہ اسے بازوؤں سے پکڑ کر ہذیانی انداز میں چیخنے لگا۔۔
حسینہ دم بخود اس سے خود کو چھڑائے پیچھے ہٹنے لگی اور دیوار سے جا لگی ۔۔۔
اپنی صفائی میں ایک بھی لفظ کہنا اس کی عفت و پاکیزگی کی تذلیل تھی ۔۔۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی جو کل تک اس پہ پروانہ وار نثار تھا آج اس کی نظروں میں اس کے لیے پہچان تک نا تھی۔۔۔
جمال اپنے کپڑے ایک بیگ میں بھرتا جارہا تھا اپنی ساری چیزیں سمیٹتے ہوئے نا اس کے ہاتھ کانپے نا اس عورت کو بے سہارا چھوڑنے پہ اس کے ضمیر نے ملامت کی ۔۔
وہ اپنے تئیں اسے قصور وار مان چکا تھا حسینہ خاموشی سے اسے یہ سب کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی اپنی بدنصیبی پہ اسے شبہ تو تھا لیکن وقت اس قدر کاری وار کر جائے گا اس بات کا اسے ابھی بھی یقین نہیں تھا۔۔۔
جمال نے کمرے سے نکلتے ہوئے اس پہ ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی وہاں کوئی بھی احساس اس کے چہرے پہ رقم نہیں تھا ۔۔۔
اس کا دل حسینہ کی بے گناہی کی گواہی دے رہا تھا لیکن دماغ دیکھے ہوئے مناظر پہ یقین کرنے کو کہہ رہا تھا وہ اسی ادھیڑ بن میں دروازے تک پہنچا تو ایک مخبوط الحواس شخص دستک کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا ۔۔
"یہ حسینہ یہاں ہی رہتی ہے؟؟ اس کے منہ سے شراب کے بھپکے اٹھ رہے تھے ۔۔
جمال نے مٹھیاں بھینچ لیں لیکن اسے مارے بنا صرف دھکا دیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا پیچھے اسے دروازہ بند ہونے کی آواز ائی پر اس نے پلٹ کے نا دیکھا۔۔۔
آنسوؤں کی دھند تھی جو بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے چادر تان رہی تھی وہ بھاگتے ہوئے وہاں سے نکلا ۔۔
تھوڑی دور جا کہ وہ سر جھکائے بس اسٹاپ پہ جاکے بیٹھ گیا ۔۔۔
اپنی محبت و اعتبار کا خون اس کا جگر چھلنی کررہا تھا وہ سر جھکائے رو رہا تھا جب ایک گاڑی عین اس کے سامنے آکر رکی ۔۔
"یہاں اسوقت کیا کر رہے ہو؟؟” اپنے ڈیڈ کی آواز پہ اس نے نظر اٹھائی۔۔
"میں کچھ نہیں پوچھوں گا جہ کیا ہوا بس یہ کہوں گا کہ گھر چلو ” وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولے ۔۔
جمال نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا وہ وہاں سے اٹھا اور گاڑی کا دروازہ کھول کے اندر بیٹھ گیا۔۔۔
اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ان کا بھی دل دکھا لیکن اولاد کی بہتری کے لیے ان کے کھیلے ہوئے کھیل کی کامیابی ان کے اطمینان کا بھی باعث تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری
ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں "میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے کہنے لگے یہ طرزِ...