فزا اسے دیکھتے ہی سمجھ گئی تھی کہ یہ شخص ہرگز ہرگز کبھی روس نہیں ہوسکتا کیونکہ روس تو اپنی پہچان آپ کی مثال تھا ۔۔
کیونکہ اسے تو ہمیشہ خود سے زیادہ دوسروں کی دکھ تکلیف،احساس کا خیال رہتا تھا جبکہ یہ منہ بولا روس تواسکی پرچھائی بھی نہیں تھا اور فزا یہ جان چکی تھی۔۔
فزا کے اندر آتے ہی گینگ اور تارا نے دھاوا بول دیا۔۔
کیا ہوا۔۔؟
واپس کیوں اگئی۔۔؟؟؟
فزا:
بس کام ہوگیا تو آگئی اور کیا کرتی ۔۔؟
پاپا کو بلانے جارہی ہوں اور تم بھی آجاؤ تم سے ایک ضروری بات شیئر کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔
فزا تارا کو مسکرا کر دیکھتی اندر کی جانب بڑھنے لگی کہ اچانک تارا نے اسے پیچھے سے آواز دیکر روک دیا۔۔
تارا :
فزا۔۔۔۔۔
کیا سچ میں تم نہیں جانتیں روس کون ہے۔۔؟
اس بار تارا کافی سیریئس موڈ میں تھی۔۔
فزا :
ہاں بابا سچ میں نہیں جانتی ۔۔کیوں ایسی بھی کیا بات کھ دی میں نے کہ تم یقین ہی نہیں کر پارہی ہو؟؟
تارا :
نہیں کچھ نہیں بس ۔۔
کبھی پالا نہیں پڑا نا ایسی محبت سے اس لیئے ۔۔تارا ابھی بھی کنفیوز ہی تھی۔۔
اچھا چلو تم بلا لاؤ پاپا کو ۔۔۔جاو ۔۔
تارا فزا کو کام یاد دلاتے ہوئے بولی۔۔
فزا :
ہاں ۔۔۔
ہاں صحیح ۔۔جارہی ہوں۔۔!
فزا چونک گئی اور پاپا کو بلانے چلی گئی۔۔
چاچا ،،پاپا آپ لوگ زرا باہر چلے جائیں ۔۔کوئی آیا ہے مدد کیلیے۔۔۔
فزا نے کھانے میں مصروف چاچا اور پاپا کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
چاچا :
کیا۔۔پتر کون آیا ہے؟؟
فزا: وہ شاید محل سے کوئی ایا ہے ۔۔۔بھٹک گئے تھے تو مدد کیلیئے آئے ہیں۔۔
آپ دیکھ لیں ۔۔کیا مدد کرسکتے اپ!
فزا کے یہ کہنے کی دیر تھی دونوں کھانا چھوڑ چھاڑ کر اٹھے اور باہر کی طرف لپکے۔۔۔
رک جا زرا منہ تو صاف کر لے ۔۔۔
پاپا نے چاچا کی کلاس لیتے ہوئے لتاڑا۔۔
چاچا:
ہاں ہاں۔۔۔رک ۔۔،
ارے پتر یہ پہلے بتانا چاہئیے تھا نا ۔۔
چلو کوئی بات نہیں یہ سب اٹھا کر رکھ دو۔۔۔
پاپا :
کچھ کھانے کیلیئے پونچھا یا نہیں۔۔۔؟؟
فزا:
سب پوچھ لیا بابا پر ہم غریبوں کی کٹیا میں کھانا کھانا کون پسند کرے گا۔۔۔
فزا نے تلخ مسکراہٹ لیئے بابا کی طرف دیکھاپھر گہری سانس بھر کر بولی۔۔
فزا:
پوچھا تھا۔۔۔
پوچھا تھا مگرانہوں نے کھ دیا ہے کہ وہ اپنی حویلی جاکر ہی کھانا کھائیں گے ۔۔
اپ بس انکی پروبلم سولو کردو ۔۔۔
کافی دیر ہوگئی ہے ویسے بھی۔۔۔!!!
فزا کھانا سمیٹتی انہیں تفصیل سے آگاہ کرنے لگی۔۔۔
چاچا:
چلو ٹھیک پتر ۔۔
ہم دیکھتے ہیں کیا ماجرہ ہے۔۔
کہتے کے ساتھ ہی بابا ،چاچا دونوں اڑن چھو ہوگئے اور فزا مسکراتی سر ہلا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
مجھے پتا نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے اسے کہیں تو دیکھا ہے ۔۔۔
فزا ٹہلتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی اور مسلسل یہی بات سوچے جارہی تھی۔۔
ارے ہاں۔۔
اسے تو میں نے وہ انجان لیپ ٹاپ پر دیکھا تھا ۔۔
کہیں یہ لیپ ٹاپ اسی کا تو نہیں۔۔؟؟
تصویر بھی تو اسی کی تھی پروفائل میں۔۔؟
فزا ایک دم چونک گئی اور جلدی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر اون کیا تو اسکے خدشے کی مکمل تصدیق ہوگئی۔۔۔
ہاں ۔۔
یہ ۔۔۔۔
یہ تو بالکل سیم وہی ہے ۔۔۔
جلدی سے جاکر یہ لیپ ٹاپ انکے حوالے کردیتی ہوں ۔۔
فزا نے جلدی سے لیپ ٹاپ صاف کیا اور اسے اٹھائےتیز تیزقدم اٹھاتی باہر کی طرف دوڑی۔۔۔
جہاں دلاور پاپا اور چاچا کا شکریہ ادا کررہا تھا انکی مدد کرنے کیلیئے اور اگلے ہی پل وہ جانے کیلیئے اپنے قدم آگے بڑھا چکے تھے۔۔۔
سنے رکیئے ۔۔
فزا ہانپتی ہوئی دور جاتے دلاور کو آواز دیتی رہ گئی مگر وہ کافی دور جا چکے تھے۔۔
تارا:
رہنے دے یار کیوں آواز لگارہی ہو۔۔
وہ تو چلے بھی گئے۔۔۔
تارا کہیں جانے کیلییے تیار کھڑی تھی۔۔۔
فزا:
کہیں جارہی ہو تارا؟؟
فزا نے اس کی تیاری نوٹ کی تو اخر پوچھ ہی لیا۔۔۔
تارا:
ہاں پارٹی ہے فرینڈز کے گھر ۔۔۔
یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟؟
تارا نے سرسری سی نظر لیپ ٹاپ پر دوڑاتے ہوئے سوال کیا۔۔
فزا :
کچھ خاص نہیں۔۔۔بس!
امانت ہے کسی کی ۔۔جنگل میں ملی تھی ۔۔
مجھے لگا یہ اسی بندے کی چیز ہے تو اس لیئے لیکر آئی تھی مگر یہ تو۔۔۔۔۔
فزا دور پہاڑی چڑھتے ان لوگوں کو دیکھنے لگی۔۔
تارا:
اب تو دیر ہوگئی۔۔یار
وہ آتی ہے نا ایک میڈم ۔۔۔۔۔
کیا نام ہے ہاں ماروی ۔۔۔۔بہت کھڑوس ہیں۔۔
محل سے ہی تو آتی ہے راؤنڈ لگانے تو اسے پکڑادینا لے جائیگی محل اپنی امانت۔۔۔
تارو۔۔اوئے۔۔شش۔۔
تارا کو کوئی بلانے لگا تو وہ فزا کو اشارہ کرتی باہر دوڑ پڑی۔۔
فزی ۔۔۔
سب لوگ جاچکے تھے پاپا،چاچا مدد کیلیئے گئے ہوئے تھے ۔۔
تارا فرینڈز میں بزی تھی تو فزا پلنگ پر آکر لیٹ گئی مگر اسکی سوچیں ابھی بھی وہی تانا بانا بن رہی تھیں۔۔۔
فزی۔۔۔
دوبارہ تیز آواز پر فزی چونک کر سیدھی ہوگئی۔۔۔
صورب سرہانے بیٹھاچاکلیٹ کھاتے ہوئے اپنا منہ بھر چکا تھا اور اس کے پاس بیٹھ کر اسے آوازیں دے رہا تھا۔۔
فزا نے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ کہیں گم ہوگئی۔۔
شش ۔۔چاکلیٹ ۔۔
صورب نے ریپر چاٹتے ہوئے گھوم کر اپنی پینٹ کی جیب اسکی طرف گھمائی۔۔
صورب:
کھینچو۔۔!نا۔۔۔
فزا کہیں اور سوچ میں گم تھی اور اسلیئےصورب کو کھانے میں ڈسٹربنس ہورہی تھی ۔۔
صورب:
فزی۔۔کیا سوچ رہی ہو!
فزا کو متوجہ نا دیکھ کر صورب خاموشی سے پاس بیٹھ گیا۔۔۔
فزا :
جاؤ پہلے اچھے سے ہاتھ دھو کر اوو۔۔!
فزا نے صورب کو گھورا تو وہ چھلانگ لگاتے ہوئے بھاگ گیا اور اگلے ہی پل دروازے میں نمودار ہوا۔۔۔
فزا:
ٹھیک سے دھوئے ہیں یا نہیں۔۔۔؟؟
صورب:
ہاں نا صابن سے رگڑ رگڑ کر دھوتا ہوں ۔۔۔تم کیوں چپ ہو؟صورب پاس آکر بیٹھ گیا اور کھوجتی نظروں سے فزا کا چہرہ پڑھنے لگا۔۔
فزا:
کچھ نہیں۔۔۔
یہ بتاؤ تمہارے پاس روس کی کوئی فوٹو ہے؟؟فزا نے آخر پوچھ ہی لیا۔۔۔
صورب:
او ۔۔۔ایسے بولو نا ۔۔۔
میرے پاس نہیں ہے مگر میں نے چاچا کے پاس دیکھی ہے فوٹو۔۔۔
وہ کھنچواتے رہتے ہیں نا روس کے ساتھ وہاں اسٹیڈیم جاکر۔۔۔
صورب نے اسکی مشکل آسان
کرتے ہوئے جواب دیا۔۔
بڑی مشکل ا کھڑی ہوئی تھی مگر کام تو کرنا ہی تھا۔۔۔
فزا:
اچھا چلو ٹھیک ہے میں تمہیں کچھ کھانے کو دیتی ہوں ۔۔کیا کھاوگے؟؟
فزا صورب کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی اب اسے انتظار تھا تو صرف پاپا اور چاچا کے گھر لوٹنے کا۔۔۔
اخر وہ بھی کب تک انجان رہتی اس مسیحا سے جسے وہ دل سے پسند بھی کرتی تھی اور اب اسے احساس تھا کہ پہچان ہونا کتنا ضروری ہے۔۔۔
فزا:
چاچا ۔۔؟؟
صورب جلدی سے بول پڑا:
چاچو فزی کو وہ فوٹو دکھائیں نا جو آپ نے اسٹیڈیم میں کھنچوائی تھی۔۔
صورب نے اپنی فزی کو اٹکتے دیکھا تو اسکا ساتھ دیکر اسکی مشکل آسان کردی۔۔
چاچا:
ارے ہاں۔۔پتر ۔۔(چاچا جی ایک دم نہال ہوگئے)..
کیا بات ہے اس تصویر کی۔۔۔
چاچا نے جیب سے والٹ نکالتے ہوئے آگے لگی تصویر کو بوسہ دیتے ہوئے سر ہلایا۔۔۔
ہاتھ میں۔۔۔ہاتھ میں!!
صورب نے چاچا سے تصویر لیکر فزی کے سامنے لہرائی جس میں پاپا اور چاچا پوز لیئے کھڑے تھے اور بیچ میں جگہ تو دکھائی دے رہی تھی مگر وہاں کوئی کھڑا دکھائی نہیں دیا۔۔
چاچا یہ تصویر ۔۔۔؟؟
فزا اٹکی۔۔۔
چاچا:
ہاں پتر روس کے ساتھ کھنچوائی تھی ۔۔۔
ارے کتنا بی با بچہ ہے میرا تو دل شاد ہوجاتا اسے دیکھ کر صدقے۔۔۔
مگر تصویر میں تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔۔
فزادوبارہ اٹکی۔۔
چاچا:
ہاں تو پتر ہوا یہ کہ روس پتر تو تصویر کھنچوارہاتھا ہمارے ساتھ تو یہ تمہارے پاپا جی نے فرمائش کردی کہ پتر اپنے اصلی روپ میں ہمارے ساتھ فوٹو کھنچواو۔۔۔
اب بیچارے کااتا سا منہ نکل آیا تھا مگر پھر اس نے سانپ بن کر ہی فوٹو کھنچوائی تھی یہ دیکھ یہ رہا۔۔۔
چاچا نے ایک بلیک ڈوٹ پر انگلی رکھتے ہوئے فزا کو دکھانے کی کوشش کی جہاں صرف اندھیرے کے علاؤہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔
صورب ہنس رہا تھا اور پہلی بار فزا کو کسی کیلیئے اتنا دیوانہ ہونا برا لگا تھا۔۔۔
فزا:
ایسا بھی کیا پاگل پن کے سانپ کے ساتھ تصویر کھنچوائی تو کچھ دکھے بھی نا۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی۔۔
فزا اندر ہی اندر جلنے بھننے لگی۔۔
پتر سب خیریت تو ہے نا۔۔؟
چاچا نے فزا کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
جی جی بالکل سب ٹھیک ہے۔۔۔
فزا نے چاچا کو جواب دیکر وہاں سے کھسکنا ہی بہتر جانا۔۔
تارا:
کیا ۔۔۔؟؟؟
تمہارے ساتھ ؟؟
اس پہاڑ پر نیور۔۔۔
تارا حلق پھاڑ کر چلائی۔۔
تمہارا تو دماغ خراب ہے۔۔۔ایسی بھی کیا آفت ا پڑی ہے جو روس سے ملنا اتناضروری ہے؟
تارا بھنناتے ہوئے کرلائی۔۔۔
فزا:
بس یہ بتاؤ چل رہی ہومیرے ساتھ یا نہیں۔۔؟؟
فزا نے فیصلہ کن انداز اختیار کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
تارا:
افکورس۔۔۔
بالکل بھی نہیں ۔۔!
تارااسے منہ چڑاتے ہوئے بولی۔۔
کہاں ہے وہ پیار کی دیوی جو ایسے تو بڑے تم پر پھول نچھاور کیئے دکھائی دیتی ہے اور جب کام کا وقت آتا ہے تو غائب ہوجاتی ہیں محترمہ ۔۔
میں نہیں پسنے والی ان سب چکروں میں۔۔
بلاؤ اپنی اس چمچی کو اور کرو اس کے ساتھ جاکر سیر سپاٹے۔۔
بیہ :کسی نے مجھے یاد کیا۔؟؟
بیہ اچانک نمودار ہوئی۔۔
تارا:
ہاں ابھی شیطان کا ذکر ہوا نہیں کہ ٹپک پڑیں محترمہ۔۔
تارا بڑبڑائی۔۔۔
دونوں کی آپس میں بالکل نہیں بنتی تھی۔۔۔
بیہ:
ویسے تم نے کچھ بھی کہا ہو۔۔
مجھے پتا ہے برائی ہی کررہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
بیہ تارا کے قریب پہنچ کر سرگوشی میں بولی تو تارا اسے غصیلی نظروں سے گھورنے لگی اور اس سے پہلے کہ باقاعدہ فائرنگ کا آغاز ہوجاتا ۔۔۔
فزا درمیان میں کود پڑی۔۔۔
چپ ہو جاؤ تم دونوں یہ بتاؤ میرے ساتھ پہاڑی پر کون جائیگا؟؟؟؟
او ئے۔۔
شکورے۔۔۔!
ہرش نے پاس سے ناچتے مٹکتے شکور کو گزرتے دیکھا تو ذہریلا انداز لیئے اسے روک لیا۔۔
ہرش:
کہا ں جارہا ہے۔۔؟؟
اور اتنا خوش کس بات پر ہے۔۔!!؟
اسپرنگ فٹ ہوگئے ہیں کیا پاؤں میں۔۔!
ہرش نے شکورے پر کڑی نظر رکھتے ہوئے اسے جانچا جو ہر اینگل سے مچلا جارہا تھا اگر ہرش کی جگہ کوئی اور ہوتا تو قہقہہ لگائے بغیر نہیں رہ پاتا مگر یہ تو ہرش تھا۔۔۔
بات ہی کچھ ایسی ہے جی۔۔۔
شکورا اپنا صافہ مروڑتے ہوئے شرمایا۔۔
ہرش:
کیا بات؟؟
وہ جی اپنے روس جی کیلیئے رشتہ آیا ہے۔۔شکور نے مسکراتے ہوئے ہرش کے سر پر بم پھوڑا۔۔۔
ہرش:
کیا ۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟
ایک اور خوشی۔۔۔!!!
ہرش نے خود پر قابو رکھتے ہوئے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔