سال کی ابتدا سے ہی یہ بات زیر بحث تھی کہ اس بار محرم اور دسہرے کی تاریخیں ٹکرا رہی ہیں۔ لوگوں کو شبہ تھا کہ ضرور کچھ نہ کچھ تنازع کھڑا ہو گا۔ بات بھی تنازع کی تھی۔ فیصلہ چاند کے طلوع ہونے پر تھا اور جب محرم کا چاند طلوع ہوا تو ایسا لگا کہ عاشقین امام حسین کی تلواریں فضا میں لہرانے لگیں اور شری رام کے تیروں کی بارش سے آسمان ابر آلود ہو گیا۔ محرم کی پہلی تاریخ سے امام باڑے میں مجلس کا آغاز ہو گیا تھا اور رام لیلا میدان میں رام لیلا کھیلی جا رہی تھی۔ لوگ سینہ کو بی کر رہے تھے۔ واقعہ کربلا کی تاریخ دہرائی جا رہی تھی۔ ذاکر بیان کر رہا تھا:
’’اور پھر حسین ابن علیؓ اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ مکہ معظمہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے نانا حضورﷺ کے مزار مبارک سے رخصت چاہی۔ مدینہ اور مدینہ والوں کی محبت نے اجازت نہ دی لیکن سانحہ کربلا تقدیر میں رقم ہو چکا تھا۔ آہ و بُکا کے درمیان تاریخ کا ایک اہم باب قلم بند کرنے کے لیے حسین بن علیؓ نے کوچ فرمایا۔ عورتوں، بوڑھوں اور معصوم بچّوں کا یہ قافلہ راستے کی صعوبتیں برداشت کرتا ہوا دریائے فرات کے پاس خیمہ زن ہوا ……‘‘
دوسری طرف رام لیلا میدان میں اداکار رامائن کی کہانی پیش کر رہے تھے:
’’راجہ دشرتھ کے بیٹے شری رام نے راجہ جنک کی بیٹی سیتا کے سوئمبر میں وہ دھنش اُٹھا کر سیتا کو حاصل کر لیا تھا جسے بڑے بڑے بلوان ہلا نہیں سکے تھے۔ اور پھر ایک دن یہ بھی ہوا تھا کہ راجہ دشرتھ نے اپنے لخت جگر رام کو اپنی پتنی کیکئی کی خواہش کا لحاظ رکھتے ہوئے چودہ برس کے بن باس کا حکم دے دیا تھا۔ آگّیا کاری رام حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی نوبیاہتا پتنی کے ساتھ جنگل میں جا بسے اور اس قیام کے دوران حادثہ یہ ہوا کہ سیتا میّا کو لنکا کا راجہ راون اغوا کر کے لے گیا۔ اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے شری رام نے لنکا کی جانب کوچ کیا۔‘‘
واقعات جیسے جیسے دونوں طرف سے آگے بڑھ رہے تھے خدشات بڑھتے جا رہے تھے۔ ماضی کی خیرو شر کی اس جنگ کو دہرانے میں حال خطرے میں پڑ گیا تھا۔ یوں تو یہ خطرہ پورے ملک پر منڈلا رہا تھا لیکن چھوٹے شہروں میں خوف زیادہ تیزی سے پھیل رہا تھا۔ احمد گڑھ کے رئیس حاجی ابراہیم کی حویلی پر روزانہ دیر رات تک ان مسائل پر غور ہو رہا تھا کہ یوم عاشورہ پر تعزیوں کا جلوس کس طرح لال چوک تک پہنچے گا جہاں آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں اور میلا لگتا ہے۔ تمام شیعہ سنی علما اس مسئلے کے حل کے لیے یکجا ہو گئے تھے۔ بات کسی ایک فرقہ کی نہیں تھی۔ اسلام خطرے میں پڑ گیا تھا۔ حاجی ابراہیم اور مولانا کلب علی نے اعلان کر دیا تھا کہ چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو، تعزیوں کا جلوس اپنے طے شدہ راستوں سے ہی گزر کر لال چوک پہنچے گا۔ علی سینا کی تلواروں پر دھاریں چڑھائی جانے لگی تھیں۔ اور اسی جوش و خروش کے بیچ ایک شخص پوچھنے لگا:
’’حاجی جی عرب میں محرم کس طرح مناتے ہیں۔ کیا رسول اللہ بھی یوم عاشورہ کو تعزیوں کے ساتھ کربلا جاتے تھے؟‘‘
اور اس سوال پر تلوار یں بلند ہونے لگی تھیں۔ حاجی ابراہیم کڑک دار آواز میں چیخے:
’’کون ہے خنزیر کا تخم۔ نکالو حرام زادے کو یہاں سے۔ کافروں میں رہ رہ کر کافر ہو گیا ہے۔‘‘
حکم کی تعمیل ہوئی، لاتوں گھونسوں کی رفاقت میں معصوم سوالی کو باہر نکال دیا گیا۔ لوہا دوسری جانب بھی گرم تھا۔ ٹھاکر جسونت سنگھ کی ڈیوڑھی پنڈتوں کا گڑھ بنی ہوئی تھی۔ سب کا فیصلہ تھا کہ شری رام کی رتھ یاترا ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنے طے شدہ راستے سے گزر کر لال چوک پہنچے گی۔ جہاں راون، میگھ ناتھ اور کمبھ کرن کے پتلوں کو جلایا جائے گا، یہ شری رام کا دیس ہے، یہاں رام کا حق پہلے ہے۔ ہم اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، چاہے کچھ بھی ہو۔ رام سینا اپنے تیر کمانوں میں لگانے کے لئے تیار تھے۔ کسی ویکتیہ نے پنڈتوں سے سوال کیا:
’’کیوں پنڈت جی کیا راون کے مارے جانے کی تاریخ اور وقت آپ کو صحیح معلوم ہے۔ تھوڑا بہت آگے پیچھے کر لو گے تو کیا فرق پڑے گا؟‘‘
اس سوال پر ٹھاکر جسونت سنگھ گرجے:
’’کون ہے حرام کا جنا۔ کٹوؤں میں رہ کر ان کی بھاشا بولنے لگا ہے، نکالو سالے کو۔‘‘
آگّیا کا پالن کیا گیا۔ سوالی کو باہر پھینک دیا گیا۔
اس وقت کسی فرقہ کا آدمی سمجھوتہ کرنے یا جھکنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بات احساس برتری اور اَنا کی تھی۔ جس نے دونوں فرقوں کو خونریزی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ مسئلہ مذہب کا نہیں تھا۔ عقیدے اور رسم و رواج کا تھا۔ تعزیہ داری اسلام کا رُکن نہیں بلکہ تاریخ اسلام کے ایک واقعہ کو یاد کرنا ہے۔ رام کی فتح یا راون کی موت دھرم کا حصہ نہیں بلکہ رامائن کی کتھا کا جزو ہے۔
تعزیہ داری کے بغیر بھی اسلام کی سربلندی قائم رہے گی۔ رام لیلا کے نہ کھیلے جانے پر بھی رام کے اصول باقی رہیں گے۔ محرم کی آٹھ تاریخ آ چکی تھی۔ اعلان جنگ ہو چکا تھا۔ امام حسینؓ کی شہادت اور راون کی موت کا وقت قریب آ رہا تھا۔ امام باڑے کی مجلس اور رام لیلا میدان کی لیلا شباب پر تھی۔ ضلع انتظامیہ پریشان تھی کہ یوم عاشورہ پر کیا ہو گا۔
حاجی ابراہیم اور ٹھاکر جسونت سنگھ کہ جن کے خاندان کئی صدی سے برادرانہ انداز میں رہتے چلے آ رہے تھے۔ آج دونوں فرقوں کے سالار بن کر مقابل آ گئے تھے۔ احمد گڑھ میں گذشتہ پچاس سال میں ایک بھی فساد نہیں ہوا تھا۔ یہاں کا لال چوک گنگا جمنی مشترکہ تہذیب کا مرکز تھا کہ ہر سال تعزیوں کا جلوس یہاں آ کر ٹھہرتا تھا اور راون کا پتلا بھی یہیں جلایا جاتا تھا۔ لیکن یہ اتفاق کبھی نہیں ہوا تھا کہ یوم عاشورہ اور یوم ہلاکت راون ایک ہی دن ظہور میں آئے ہوں۔ صدیوں سے دونوں میلے لال چوک پر لگتے چلے آ رہے تھے۔ مسلمان شری رام کی رتھ یاترا میں شریک ہو کر میلے کا لطف اٹھاتے تھے اور ہندو تعزیوں کو سلام کر کے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن اس بار پُل تنگ تھا اور دونوں گروہوں کو جو کہ مخالف سمتوں سے آ رہے تھے ایک ہی وقت میں پُل پار کرنا تھا۔ پُل کے نیچے دریا کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ پورا شہر عجیب کشمکش اور خوف سے سہما ہوا تھا۔ خدشات بد سے بدترین ہوتے جا رہے تھے، کسی کو معلوم نہیں تھا، یوم عاشورہ اور رام چندر کی فتح کا جشن کس طرح منایا جائے گا۔ دہشت بازاروں، گلیوں اور گھروں سے ہوتی ہوئی دلوں میں پہنچ گئی تھی۔ ہر شخص حیران و پریشان تھا۔ لوگ احتیاطی اقدامات میں سرگرم تھے۔ مجسٹریٹ نے فورس کو ہمہ وقت الرٹ رہنے کا حکم دے دیا تھا۔ احمد گڑھ کا مجسٹریٹ دونوں فرقوں کے معزز لوگوں کو الگ الگ بُلا کر مشورے کر رہا تھا۔ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ مسئلہ کا حل صرف ایک تھا کہ دونوں جلوس اپنے اوقات میں تبدیلی کر لیں۔ اگر ایک جلوس قبل از دوپہر نکلے تو دوسرا بعد از دوپہر۔ لیکن صدیوں سے چلی آ رہی روایت کو بدلنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ محرم کی آٹھ تاریخ آ چکی تھی۔ حاجی ابراہیم کی حویلی اور ٹھاکر جسونت سنگھ کی ڈیوڑھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ امام باڑوں میں ذکر جاری تھا:
’’اور ابن زیاد نے حسین ابن علیؓ کے خاندان پر فرات کا پانی بند کر دیا۔ معصوم بچّے اور عورتیں پیاس سے بلکنے لگے۔ وہ صرف بہتّر افراد کی جماعت تھی اور مقابلے پر ایک لاکھ سے زیادہ مسلح سپاہ کھڑی تھی۔‘‘
دوران ذکر کسی نے کہا۔ ’’پہلے یوم عاشورہ کے جلوس کا فیصلہ کر لو۔ ورنہ ہمارا حشر بھی وہی ہو گا جو بہتر افراد کی جماعت کا ہوا تھا۔ ہمارے مقابل بھی مسلح سپاہ کھڑی ہے۔‘‘
اس بات پر حاضرین مجلس بھڑک اُٹھے۔
’’یہ کون بدتمیز ہے۔ کون منافق ہے۔ امام عالی مقام کی مجلس میں بزدلانہ باتیں۔‘‘
سینہ کوبی کرتے ہوئے افراد اس شخص پر ٹوٹ پڑے اور لہولہان کر کے اُسے مجلس سے باہر نکال دیا۔
رام لیلا میدان میں رام کی لیلا کھیلی جا رہی تھی۔ ’’رام ہنومان کی وانر سینا کے ساتھ لنکا نریش راون سے برسر پیکار تھے۔ میدان جنگ میں لکشمن نے زخم کھایا اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ اس بیچ ناظرین میں سے کسی نے کہا ’’پہلے رام کی رتھ یاترا کا فیصلہ کر لو پھر یہ ڈرامہ کرنا۔ کہیں ہم سب کا حال بھی لکشمن جیسا نہ ہو۔ ہمیں ہوش میں لانے کے لیے کوئی رام پیدا نہیں ہو گا۔‘‘
یہ الفاظ منہ سے نکلے تھے کہ حاضرین نے اس شخص پر دھاوا بول دیا۔
’’مارو سالے کو۔ دشمن کی زبان بولتا ہے۔ ہیجڑے کی اولاد۔‘‘
زخمی حالت میں اس شخص کو رام لیلا میدان سے باہر پھینک دیا۔
امام باڑے سے نکلا ہوا خون سے لت پت آدمی جب حاجی ابراہیم کی حویلی کے سامنے سے گزرا تو اُسے دیکھ کر حویلی میں جمع افراد مشتعل ہو گئے۔ اب معاملہ برداشت سے باہر ہے۔ حملہ پہلے اُدھر سے ہوا ہے۔ نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر۔ یا علی۔ یا حسین۔‘‘ تلواریں اور نیزے فضا میں لہرانے لگے۔
رام لیلا میدان سے نکلا گھائل ویکتیہ جب ٹھاکر جسونت سنگھ کی ڈیوڑھی کے قریب آیا تو اس کی حالت دیکھ کر ڈیوڑھی میں موجود لوگ اُتے جت (مشتعل) ہو گئے۔
’’رام کی دھرتی پر یہ اَتیاچار (ظلم) اب برداشت نہیں ہو گا۔ حملہ پہلے اُدھر سے ہوا ہے۔ ہر ہر مہادیو۔ جے شری رام۔ جے ہنومان۔‘‘
محرم اور دسہرے کی آٹھویں تاریخ ہی قتل کی رات بن گئی۔ تعزیوں کی بے حرمتی کی گئی۔ راون میگھ ناتھ اور کمبھ کرن کے پتلے قبل از وقت جلا دیئے گئے۔ پورا شہر آگ کی لپیٹ میں تھا۔ سڑکوں پر لا وارث لاشیں نظر آنے لگی تھیں، احمد گڑھ کربلا اور لنکا کا میدان جنگ بن گیا اور پھر مجسٹریٹ نے کرفیو کا اعلان کر دیا، پورے شہر میں فوج پھیل گئی۔ چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ امام باڑے کا ذاکر شہید ہو گیا۔ رام لیلا میں اداکاری کے جوہر دکھانے والا رام مارا گیا۔
نو تاریخ گزر گئی۔ یوم عاشورہ آ گیا۔ رام کا وجے دوس آ گیا، لیکن لال چوک خالی تھا، کسی سمت سے کوئی جلوس نہیں آیا۔ فوج کے دو ٹرک لاشوں کو لے کر ٹھیک اُس وقت لال چوک میں پہنچے کہ جب تعزیوں کے دفنانے کی رسم ادا ہوتی ہے اور راون کے پتلے کو جلایا جاتا ہے۔ ایک ایک کر کے لاشوں کو اُتارا گیا اور فوج کی نگرانی میں ان افراد کی لاشوں کو دفنا دیا گیا کہ جنہیں تعزیوں کے دفنانے کی رسم ادا کرنی تھی اور اُن لوگوں کی لاشوں کو نذر آتش کر دیا گیا کہ جنہیں راون کو جلانا تھا۔ یوم عاشورہ اور یوم ہلاکت راون بہت پُر سکون انداز میں گزر گیا۔ حاجی ابراہیم اور ٹھاکر جسونت سنگھ حسبِ روایت دیوان خانے میں بیٹھے شربت کا گلاس ہاتھ میں لئے اطمینان بخش لہجہ میں یہ باتیں کر رہے تھے:
’’اب یہ مسئلہ کھڑا نہیں ہو گا ٹھاکر صاحب۔ اس لیے کہ آئندہ سال چاند دس دن پہلے دکھائی دے گا۔‘‘
دروازے کے قریب کھڑا نوکر پاس آ کر زمین پر بیٹھتے ہوئے بولا:
’’صاب جی مسلا کیسا؟ اب کی بار کے تہوار تو یادگار تہوار ہوئے۔‘‘
حاجی ابراہیم اور ٹھاکر جسونت نے نوکر کو گھُور کر دیکھا، وہ بولتا رہا:
’’ہاں صاحب جی، اب کی بار تو لوگ امام حسین کی طرح شہید ہوئے اور تعزیوں کی جگہ آدمی دفن ہوئے اور ہاں صاب جی لنکا کی طرح احمد گڑھ جلا۔ سچ مچ کا تہوار تو اب کی بار ہی ہوا۔‘‘
حاجی ابراہیم اور ٹھاکر جسونت سنگھ ایک لفظ نہ بول سکے اور نوکر بولتا رہا۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...