(Last Updated On: )
کھدر سے بدلتے رہو پشمینہ ہمارا
دنیا کی طرح تنگ نہیں سینہ ہمارا
جیتے ہیں کہ ہوتی رہے امداد تمہاری
بے فائدہ لگتا ہے تمہیں جینا ہمارا
کاٹا ہے جلایا ہے ترے ہجر میں خود کو
خودسوزی نہ تھا پیشۂ پیشینہ ہمارا
آغازِ عداوت میں ہی گھبرا گئے تم تو
کیا ہو گا اگر دیکھ لیا کینہ ہمارا
حقدار زیادہ ہیں تو پھر شرط ہے پہلے
جو آئے سو لے جائے دلِ بینا ہمارا
دل ضربتِ ہجراں سے ادھر ٹوٹتا میرا
آئینے ادھر چیختے آئینہ ہمارا
نقشے ہیں کسی اور کے قبضے میں ہمارے
لے جاتا کوئی اور ہے گنجینہ ہمارا