شاید وہ مجھے جسم فروش سمجھ بیٹھا!
مجھے اِس بات کا دکھ تو نہیں تھا، تاہم حیرت ضرور تھی۔
اور اِسی حیرت کے زیر اثر، بیتتے لمحات میں مَیں ایک ایسے عمل کا حصہ ہوں، جو فطری ہونے کے باوجود غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے!
وہ شاید مجھے پیشہ وَر سمجھ بیٹھا مجھے دکھ تو نہیں، تاہم حیرت ضرور تھی!
کیا ویرانی سے بھرپور قبرستان میں، ایک قبر کے کتبے سے لگی بیٹھی عورت کسی بھی زاویے سے جسم فروش معلوم ہوتی ہے؟
خیر، وہ قصور وار نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ پیشہ وَر خواتین نے گاہکوں کی تلاش میں اب یہ طریق اپنا لیا ہو۔ شاید قبروں کے کتبے پر سر ٹکا لینا، اپنے پیشے سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے وضع کردہ نیا اشارہ ہو۔
اور ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو!
ویسے بھی جوانی سے ادھیڑ عمری کی جانب محو سفر، اچھے نین نقش والی عورت کو یوں تنہا قبرستان میں، کسی قبر سے لگا بیٹھا دیکھ کر انسان بھلا اور کیا سوچ سکتا ہے؟
دیگر لوگوں کی طرح میرے لیے بھی یوں، باقاعدگی سے قبرستان کا رخ کرنا خوش گوار تجربہ نہیں۔ خصوصاً جب میرا باپ فالج جیسی رذیل بیماری سے جُوجھ رہا ہو۔ تاہم میں مجبور ہوں!
اگر میرے بس میں ہوتا، تو میں اِس بے ہودہ عمل سے جان چھُڑا چکی ہوتی، اور گھٹتے بڑھتے لمحات اُس عورت کی صحبت میں گزارتی، جو میری ماں ہے۔ اور اپنے شوہر کے علاج کی غرض سے خود کو سلائی مشین کے ساتھ نتھی کر چکی ہے۔
لیکن اِس عمل کی انجام دہی یا اِسے ترک کرنا اب مزید میرے بس میں نہیں۔
اِس عمل کا آغاز قطعاً اُس روز نہیں ہوا، جب مجھے یہ اطلاع ملی تھی کہ قیوم نے ایک زہریلا سیال اپنے حلق میں انڈیل لیا ہے۔ بلکہ اِس کی شروعات تو قیوم کی خود کُشی کی کوشش کے تین روز بعد، اُس وقت ہوئی، جب اُسے لحد میں اتار کر اُس کے چاہنے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔
تب میں دیوانہ وار گھر سے نکلی۔ اور اُس کی تازہ، گلابی پتیوں سے ڈھکی، گیلی قبر پر جا بیٹھی۔
اور میں گذشتہ سات ماہ سے یہ عمل باقاعدگی سے انجام دے رہی ہوں۔ میں روز صبح قیوم کی قبر پر پہنچ جاتی ہوں۔ اور میری صبح کا آغاز طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے نتھی نہیں۔ نہ ہی اِس کا تعلق دن اور رات کے اختلاط — جسے چند افراد ملن بھی کہتے ہیں — سے ہے۔
یہ تو فقط شعوری احساس ہے!
جب مجھے احساس ہوتا کہ میں قیوم کی قبر سے دور ہوں، میں اُس وقت کو “صبح” خیال کرتی، چاہے میرے وجود پر اندھےرا چھایا ہو۔
اور یہ خیال کرتی کہ جس وقت میں نے اُس کی قبر سے اِس مقام تک کا سفر طے کیا ہو گا، جہاں میں اِس وقت موجود ہوں، وہ ضرور رات کے تاریک، مکروہ سیاہ لمحات رہے ہوں گے۔
سو جب جب صبح ہوتی — جب میں خود کو اُس کی قبر سے دور پاتی — میں دیوانہ وار اُس کی جانب دوڑ پڑتی۔
میری کہانی دنیا کی بھونڈی ترین کہانی ہے۔ یہ کائنات میں پائی جانے والی ترتیب پر سوال اٹھاتی ہے۔ اگر کائناتی ترتیب کے مداح، چند لمحات نکال کر میری کہانی پر غور کریں، تو اُنھیں بھونچکا رہ جانے کے لیے خاصا مواد مل جائے گا۔
جب قیوم میری محبت میں گرفتار ہوا، اُس وقت مجھے عدت سے اٹھے چند ہی ہفتے ہوئے تھے!
ہمارا خاندان متوسط گھرانے سے غریب گھرانے کا سفر سرعت سے طے کر رہا تھا۔ اور میں نوکری کی تلاش میں تھی۔ میں ہی گھر کا واحد سہارا تھی۔ اور جس اسپتال میں بہ طور ری سیپشنسٹ میں نے درخواست دی، قیوم وہاں ایڈمن آفیسر تھا۔
ہمیشہ خوش و خرم رہنے والا وہ ہنس مکھ اور ملن سار نوجوان خواہش مند تھا کہ اُس سے جُڑا ہر شخص، ہمہ وقت زندگی کی توانائی سے ہانپتا رہے۔
اُس وقت تک میں مسکرانا ترک کر چکی تھی۔ اور اِسی چیز نے اُسے متوجہ کیا۔ اُس کی حیران آنکھوں میں سوال تھا، بھلا اتنی خوب صورت لڑکی مسرتوں سے کنارہ کش کیوں ہوئی؟
وہ میری کہانی سننے کا خواہش مند تھا، اور میں نے اُسے اپنی کہانی سنائی۔ روایتی طریق کے عین مطابق، یعنی آنسوﺅں اور ہچکیوں کے ساتھ، خود ترسی کی قوت کے زیر اثر!
میں نے اُسے بتایا، اپنی خوب صورتی کے سبب مجھے کبھی دماغ استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ہر جگہ میرا پُر تپاک استقبال کیا جاتا۔ گھر، اسکول، تقریبات، الغرض ہر مقام پر میں مرکز نگاہ بن جاتی۔ گو کہ میں ایک متوسط طبقے کی لڑکی تھی، تاہم درمیانے درجے کے لوگوں کی توجہ نے مجھے اپنی نظروں میں خاص، افسانوی، بلکہ اساطیری بنا دیا تھا۔ اور پھر خاص انسان کی حیثیت سے میں نے عمومی خوابوں اور درمیانے درجے کے سپنوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
اور یہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔
میں نے اپنے سپنے وسیع، گہرے اور روشن کر لیے۔ اور یہ کوشش میرے لیے سم قاتل ثابت ہوئی!
متوسط طبقے کے متوسط طریق کے مطابق میری شادی کا معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے ماں باپ کے لیے گمبھیر شکل اختیار کرتا گیا۔
نہ جانے کیوں، اُس موقعے پر میری خوب صورتی کام نہیں آئی۔
بالآخر اُنھوں نے فیصلہ کیا، اور مجھے “بدائی” کی راہ پر ڈال دیا گیا۔
ارمانوں کی اُس رات جب گھونگھٹ اٹھانے والا مجھے اپنے باپ سے سات سال چھوٹا اور اپنا چچا سے دو سال بڑا لگا۔ میری چیخ نکل گئی۔
اُس رات میری خوب صورتی کو جس خوب صورتی سے خراج تحسین پیش کیا گیا، اُسے الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے کبھی ممکن نہیں رہا۔ اور پھر یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوا، بلکہ گزرے پلوں کے ساتھ گہرا، اور مزید گہرا ہوتا گیا۔
بیتی راتوں نے میرے شعور کو زخمی کر دیا۔ اور میری روح بے چہرگی کی اذیت کا شکار ہو گئی۔
میرے والدین نے عین متوسط طبقے کے والدین کے مانند مجھے برداشت کرنے اور حالات سے سمجھوتا کرنے کی نصیحت کی۔ اور میں ایسا کر بھی رہی تھی کہ نہ جانے کیوں، میرے باپ سے سات سال چھوٹے اور میرے چچا سے دو سال بڑے لگنے والے میرے شوہر نے مجھے طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا!
مجھ پر الزام تھا کہ میرا کردار صحیح نہیں۔ اور میں دوسرے مردوں میں دل چسپی لیتی ہوں۔
یہ سوچ کر کہ شاید چند افراد (مثلاً میرا ضعیف العمر شوہر) مجھے مجھ سے زیادہ جانتے ہوں — اور اُن باتوں کا علم رکھتے ہیں، جن سے میں لاعلم ہوں — میں نے خاموشی سے الزام قبول کر لیا!
میری سہیلیوں کا خیال تھا کہ میرا سابق شوہر میری خوب صورتی سے سمجھوتا نہیں کر پایا۔
میں نے یہ الزام بھی قبول کر لیا!
اُس واقعے کے چند روز بعد، جسے متوسط طبقے میں سانحہ تصور کیا جاتا ہے، میرے شوہر سے سات سال بڑے میرے والد پر فالج کا منحوس حملہ ہوا، جس کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھے ہی قصور وار ٹھہرایا گیا۔
یوں ہم نے متوسط گھرانے سے غریب گھرانے تک کا سفر، روشنی کی رفتار سے طے کیا۔ یوں گھر میں فاقے رینگنے لگے، یوں میں نے مسکرانے سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اور سنجیدگی کا برت رکھ لیا۔
یہ پوری کہانی، کئی ہچکیوں کے بعد اختتام پذیر ہوئی، اور اُس کے کئی الفاظ آنسوﺅں سے بھیگ گئے!
میری نیت میں کھوٹ نہیں تھا، میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے دکھ کو اتنی ہی شدید سے محسوس کرے، جتنی شدت سے میں کرتی ہوں، تاہم اُس نے ایسا ہی کیا، نہ جانے کیوں؟
ہنس مکھ ایڈمن آفیسر اور خوب صورت ری سیپشنسٹ کے درمیان قائم ہونے والے جذباتی تعلقات کا چرچا اُس چھوٹے سے اسپتال میں یوں ہوا، جیسے جسمانی تعلقات کا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے اس کی پروا نہیں تھی۔ قیوم کی ملن ساری میرے زخم تیزی سے بھر رہی تھی۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے حرکت میں تھے، تاہم اُس حرکت کی سمت کا تعین میں کوشش کے باوجود نہیں کر پائی۔
اور ایک روز اُس نے میرا ہاتھ اپنا ہاتھوں میں تھاما۔ اور مجھے — طلاق نامی طوق ندامت سمیت — ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تھامنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔
وہ احساس عجیب تھا، میں اُسے لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔
وہ میرے، غریبی میں لُتھڑے، خستہ حال گھر بھی آیا۔ میرے بیمار اور وحشت زدہ والدین سے ملا۔ اور اُن کے سامنے، ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
میرے والدین بھی عجیب احساس میں مبتلا تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ خوش تھے۔ اور میرا یہ اندازہ بے سبب نہیں
قیوم کے ہمارے گھر آنے کے ایک روز بعد، جب میں اپنے سابق شوہر سے سات سال بڑے اپنے والد کے ہم راہ اُن کے ڈاکٹر سے ملی، تو سفید کوٹ میں ملبوس اُس شخص نے مجھے یہ خوش خبری سنا کر حیران کر دیا کہ میرے والد کے فالج زدہ جسم میں تیزی سے بہتری آ رہی ہے۔
میں عجیب و غریب کیفیت سے گزر رہی تھی، جسے عرف عام میں محبت کہا جاتا ہے۔ ہم خوشی کی توقع کر رہے تھے، اور منتظر تھے کہ کب قیوم اپنے گھر والوں کے ساتھ ہمارے بکھرے ہوئے گھر آتا ہے۔
ہم امیدوں میں گھرے، انتظار کر رہے تھے۔
گو کہ قیوم کبھی ہمارے گھر نہیں آیا، لیکن وہ انتظار طویل ثابت نہیں ہوا۔ چند ہی روز بعد مجھے اطلاع ملی کہ اس نے خود کُشی کی کوشش کی ہے۔ اور یہ کوشش بڑی حد تک کارگر ثابت ہوئی ہے کہ وہ ایک بڑے اسپتال کے انتہائی نگہ داشت وارڈ میں پہنچ چکا ہے۔
یہ کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں تھا۔ معاملہ فہمی کے فقدان کے باوجود میں معاملے کی گہرائی تک بہ آسانی پہنچ گئی۔ ایک طلاق یافتہ، انتہائی خوب صورت لڑکی قیوم کی والدہ کے لیے نا قابل قبول تھی۔ اُنھوں نے انکار کر دیا، اور قیوم نے خود کُشی کر لی۔
خودکشی کی وہ کوشش کاری تھی۔ وہ ایک بڑے اسپتال کے انتہائی نگہ داشت کے وارڈ میں تھا۔
اپنی منحوس خوب صورتی کے ساتھ، محبت کے زیر اثر، میں اُس سے ملنے اُس بڑے اسپتال تک گئی، جہاں میرا اُس کی والدہ سے سامنا ہوا، جو نفرت سے حلق تک بھرئی ہوئی تھیں، تاہم وہ قصوروار نہیں تھیں۔ اگر میں اُن کی جگہ ہوتی، تو میری کیفیت بھی اُن ہی سی ہوتی۔
ہنس مکھ قیوم کی، ممتا کے وحشی دکھ سے تڑپتی والدہ نے عین انسانوں سا رد عمل ظاہر کیا۔ اُنھوں نے مجھے صلواتیں سنائیں، گالیاں دیں۔ اور بد دعاؤں سے نوازا۔
اُن کا رد عمل اُن کے انسان ہونے کا ثبوت تھا!
خیر، اپنے چند خیرخواہوں اور مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد —جو میری خوب صورتی سے ششدر رہ گئے تھے — اُنھوں نے انتہائی نگہ داشت وارڈ میں زیر علاج، جُزوی طور پر مرے ہوئے اپنے بیٹے کے کان میں یہ خوش خبری، انتہائی کراہت کے ساتھ انڈیل دی کہ وہ اُس کے ساتھ میرا نکاح کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وہاں موجود ششدر گواہوں کے مطابق جب یہ عمل انجام دیا گیا، جُزوی طور پر مرے ہوئے قیوم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اُس مسکراہٹ نے قیوم کو جنم دینے والی اور پرورش کرنے والی کو خاصی امید دی۔ وہ بھی مسکرا دی، لیکن وہ مسکراہٹ عارضی ثابت ہوئی۔
خودکشی کی کوشش کے ٹھیک تین روز بعد قیوم دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اور میں اُس کی تازہ، خوش بودار قبر پر جا بیٹھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ میرا بیمار باپ غربت اور بدنامی جیسے عوارض کے سبب مزید بیمار ہو گیا ہے۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ بیوگی کا عذاب سہنے والی میری ماں نے اپنے سانسوں کو سلائی مشین سے باندھ لیا ہے میں اُس کی تازہ قبر پر جا بیٹھی!
اور پھر باقاعدگی سے بیٹھنے لگی۔ اپنی دل کَشی سے بے پروا اور بیتتے پلوں سے ماوراء ہو کر۔ صبح اور شب سے آزاد ہو کر۔
یہ جانتے ہوئے کہ گھر میں بیماری اور بے کاری اژدہا منہ کھولے گھوم رہا ہے۔
اور پھر ایک روز، قبرستان آنے والا ایک شخص مجھے جسم فروش سمجھ بیٹھا!
مجھے اِس بات کا دُکھ تو نہیں تھا، تاہم حیرت ضرور تھی
کیا ویرانی سے بھرپور قبرستان میں، ایک قبر کے کتبے سے لگی بیٹھی عورت کسی بھی زاویے سے جسم فروش معلوم ہوتی؟
کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ مجھے پچھل پیری، چڑیل یا مُردوں کی ہڈیاں جمع کرنے والی منحوس جادوگرنی تصور کر لیتا۔ یا مجھے فقط ایک کفن چور سمجھ کر خاموشی سے چل دیتا۔ لیکن میرے باپ سے چند سال بڑے اُس شخص نے نوٹوں سے بھری اپنی جیب کی جانب اشارہ کر کے مجھے حیرت کا ایک خبیث جھٹکا دیا۔
مجھے دُکھ تو نہیں تھا، لیکن حیرت ضرور تھی۔
اور میں اُس کے ساتھ چل دی۔
فقط خبیث حیرت کے زیر اثر، یا شاید گھر میں رینگتے کرب کے اژدہے کی پھنکار کے زیر اثر!
تاہم مجھے اِس بات کا دکھ نہیں تھا
ہاں، حیرت ضرور تھی۔