معروف افسانہ نگاراور نظم گو شاعر پروفیسر حمید سہروردی سے ایک ملاقات
ملاقاتی: پروفیسر عبدالقادر اورنگ آبادی
پروفیسر عبدالقادر: پروفیسر حمید سہروردی صاحب نہایت معذرت کے ساتھ میں آپ سے کچھ تلخ وشیریں سوالات لے کر حاضر ہوا ہوں۔آپ اِجازت دیںگے تو میں اپنے سوالوں کا سلسلہ شروع کروں۔
پروفیسر حمید سہروردی: جی برادرم…
عبدالقادر: سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ کا رجحان ادب کی طرف کب ہوا؟
حمید سہروردی: میرا ادب کی طرف رجحان لڑکپن سے رہاہے۔ابن صفی،کرشن چندر اور جوگندرپال کے افسانوی ادب کو شوق واشتیاق سے پڑھا کرتاتھا۔مذکورہ فن کاروں کی فکشن تحریروں نے ادب کی طرف مائل کیا۔
عبدالقادر: آپ نے اورنگ آباد سے ایم اے(اُردو)اور ڈاکٹریٹ کیاتھا۔آپ جب اورنگ آباد تشریف لائے اُس زمانے میں رفعت نواز، الیاس فرحت،محمود شکیل اور رشید انور جیسے افسانہ نگار تھے۔آپ نے اُن کے طے شدہ راہوں کو چھوڑ کر جدید افسانے کا رُخ کیسے کیا؟
حمید سہروردی: اورنگ آباد آنے سے قبل ہی میں نے لکھنا شروع کیاتھا۔ میں جب بی اے کا طالب علم تھا میرے افسانے قومی سطح کے رسائل میں شائع ہوتے رہتے تھے۔میرے قیام اورنگ آباد کے دوران رفعت نواز،الیاس فرحت،محمود شکیل اور رشید انور کی صحبتیں میسر ہوئیں۔ میں مذکورہ افسانہ نگاروں سے اُن کے افسانے مختلف ادبی محافل میں سماعت کیا کرتاتھا۔ مراٹھواڑا کی فکشن تاریخ میں یہ افسانہ نگاراہم ہیں۔رفعت نواز افسانوں میں کرداروں کی پیش کش کے لیے اپنی مثال آپ تھے۔الیاس فرحت کے ہاں منٹو کے فن وفکر کا احساس ہوتاہے،جس کو انھوںنے اپنے طورپر برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ محمود شکیل کے افسانوں کو بھارت کے رسائل سے زیادہ پاکستان کے رسالے اہتمام سے شائع کیا کرتے تھے۔ان کے ہاں فضا سازی سے افسانوی تاثر گہراہے۔رشید انور کے میں بہت قریب رہا ہوں۔ان کے افسانے شوق وذوق سے پڑھا کرتاتھا۔رشید انور راست بیانیہ سے کام لیتے تھے۔ وہ انسانی ہمدردی اور درد مندی کے احساس کو شدید تر کردیتے تھے جوافسانے کی ماجرائی فضا میں متاثر کن ثابت ہوئے تھے۔
عبدالقادر: جدیدیت کی تھیوری آپ کے پاس تھی یا……..؟
حمیدسہروردی: جی نہیں میرے ہاں کوئی تھیوری نہیں تھی۔ میرے لکھنے سے قبل ہی جدیدیت وجود میں آچکی تھی۔
عبدالقادر: آپ پر ایک الزام یہ بھی عائد ہوتاہے کہ آپ پہلے علامتیں طے کر لیتے تھے اور پھر اُن علامتوں کے لحاظ سے افسانے کا پلاٹ تیار کرتے تھے۔ حقیقت کیاہے؟
حمیدسہروردی: یہ صرف الزام ہی الزام ہے۔افسانہ لکھنے کے دوران علامت خود بہ خود چلی آتی تھی۔
عبدالقادر: جدید افسانہ نگار بغیر سوچے سمجھے زبان کی توڑ پھوڑ پر کمر بستہ تھے۔آپ پر یہ بھی الزام ہے کہ آپ نے زبان کے ساتھ بہت زیادہ کھلواڑ کیا۔چناںچہ ممتاز ناقد سلیم شہزاد نے بھی آپ کی پہلی کتاب’’ریت ریت لفظ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی بات کی طرف اشارہ کیاہے؟
حمید سہروردی: جدیدیت تجربوں سے عبارت تھی۔ اس کے تحت تخلیق کردہ ادب میں مختلف تجربے ہوتے رہے۔جدید افسانے میں زبان وبیان،کردار اور ہیئت وتکنیک کی توڑ پھوڑ ہوتی رہی ہے۔ میں نے تجرباتی افسانے لکھے تھے۔
عبدالقادر: جدیدیت کے دور میں تنقید کے حوالوں میں آپ کا نام سرفہرست ہوا کرتاتھا۔آج تنقید کے حوالوں میں آپ کا نام کیوں نہیں آتا؟
حمیدسہروردی: عہدِ جدیدیت میں افسانہ تنقید کو عروج حاصل تھا۔بھارت کے ناقدین میں پروفیسر عتیق اللہ،مہدی جعفر اور سلیم شہزاد کا دم غنیمت ہے۔ تنقید پائوں پائوں چل رہی ہے۔ تنقید کے نام پر تاثراتی ،معلوماتی اور تعارفی مضامین سرسری پن کے ساتھ لکھے جارہے ہیں۔آج کا نثرنگار فن تنقید کی مبادیات اور روایات سے ناواقف ہے ۔بس ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ والی بات ہے۔
عبدالقادر: آپ پر الزام یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے بعد آنے والوں کو جدیدیت کی راہ دکھائی۔مثلاً نورالحسنین اور عارف خورشید ۔جب کہ یہ لوگ شروع میں تو آپ کے ہمرکاب رہے۔ لیکن بہت جلد انھوںنے اپنی پٹری بدل لی۔اس سلسلے میںآپ کیاکہیں گے؟
حمیدسہروردی: یہ الزام نہیں میرے بھائی یہ حقیقت ہے میں نے نئے لکھنے والوں کو جدید افسانے کی طرف راغب کیاتھا۔ مگر میرے بعد والی نسل نے توجہ نہیں دی۔عارف خورشید مرحوم اور نورالحسنین نے اپنے افسانوی سفر کے ابتدا میں جدید افسانے کی طرف متوجہ ہوئے۔ لیکن دونوںنے اپنے انداز کے افسانے لکھے اور خوب نام کمایا۔
عبدالقادر: جدیدیت ایک ادبی رجحان تھا یا تحریک اس پر روشنی ڈالیے؟
حمیدسہروردی: جدیدیت ایک ادبی رجحان تھا۔ شمس الرحمن فاروقی جدیدیت کو رجحان مانتے تھے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے جدیدیت کو تحریک سے موسوم کیا۔ ڈاکٹر وحید اختر نے جدیدیت کو ترقی پسند تحریک کی توسیع کہاتھا۔ لیکن جدیدیت رجحان ہے۔تحریک نہیں۔
عبدالقادر: جدیدیت کے ادیبوں پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انھوںنے بے معنی افسانے لکھ کر قاری کو افسانے سے بھگا دیاتھا۔ یہ الزام آپ پر بھی عائد ہوتاہے۔کیاآپ اس کی صفائی دیں گے؟
حمید سہروردی: جدیدیت نے ایک رجحان کے طورپر ادب میں گہرائی اور وسعت پیداکی۔افسانہ اور غزل کو عہدِ جدیدیت میں فروغ وتوسیع حاصل ہوئی۔ جدید افسانہ نگاروں نے تجرید،علامت،پیکر سازی،نئی لفظیات اور نئی تراکیب،اسطور نگاری اور اسراریت پر خاص توجہ دی تھی۔ اُردو قاری کا رجحان عام ادب اور میلوڈرامے کی طرف زیادہ ہے۔وہ جدید افسانے کی قرأت نہیں کرسکا اس لیے دور ہوگیا۔آج بھی فکشن تنقید جدید افسانہ نگاروں کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔
عبدالقادر: جدیدیت کو اس قدر جلد زوال کیوں آگیا؟
حمیدسہروردی: جدیدیت ہو یا کوئی تحریک یا رجحان،اُس کی زندگی دیر پا نہیں ہوتی۔ہر کمال کو زوال ہے۔
عبدالقادر: آپ کا شمار شمس الرحمن فاروقی کے رسالے’’شب خون‘‘ کے تواتر سے لکھنے والوں میں ہوتاہے۔ لیکن جب انھوںنے اپنے رسالے کا ضخیم انتخاب شائع کیا تو آپ کو شامل نہیں کیا۔اسے ادبی بد دیانتی کہیں گے یا پھر رسالے کی مقبولیت کے لیے آپ کا استحصال کیا گیا؟
حمیدسہروردی: کوئی بھی انتخاب کامل نہیں ہوتا۔پتا نہیں کیوں مرتبِ انتخاب کی نظر محمود ہاشمی،خورشید احمد جامی،شاذ تمکنت،وقار خلیل،اقبال متین،عزیز قیسی،سکندر علی وجد،خلیل مامون،صلاح الدین پرویز،شاہ حسین نہری،پروفیسر صادق،رئوف خیر، خمار قریشی اور خاکسار پر نہ پڑسکی۔ لطف کی بات تو یہ ہے شب خون کے پہلے مدیرِ شہیر ڈاکٹر سید اعجاز حسین بھی چالیس سالہ انتخاب سے دور رہے۔
میرے نزدیک ادبی بد دیانتی اور مقبولیت کے لیے استحصال کیاگیا کہنا غلط ہوگا۔ کسی بھی رسالے یا کتاب میں کسی فن کار کی شمولیت اور عدم شمولیت کا مجاز مرتب ہوتاہے۔ سوال یہ ہے کہ چار دہائیوں کی تخلیقات پر مشتمل شب خون کے انتخاب کا ردِ عمل ادبی صحافت اور اُردو معاشرہ میں کہاں تک ہوا۔
عبدالقادر: آپ کے معاصرین میں حسین الحق،علی امام نقوی،شفق،عبدالصمد اور انور خان نے ناولیں بھی لکھیں جب کہ موضوعی سطح پر ناول لکھنے کے لیے مہاراشٹر اور کرناٹک کی فضازیادہ زرخیز تھی۔آپ نے ناول کیوں نہیں لکھا؟
حمیدسہروردی: میری ناول کی طرف توجہ نہیں رہی۔
عبدالقادر: دنیا کی نظر میں آپ ایک ذہین افسانہ نگار سمجھے جاتے ہیں لیکن جب ادب کا مزاج بدلا تو آپ اپنے قریبی ساتھی قمر احسن کی طرح خاموش ہوگئے؟
حمیدسہروردی: میں نے اپنے حصے کا ادب لکھ دیا۔ صحت مند ادب پر دھند چھانے کی وجہ سے میں نے خاموشی اختیار کرلی۔قمر احسن نے توجہ انگیز فکشن تخلیق کرنے کے بعد ادب اور ادبی دنیا سے منہ موڑلیا۔
عبدالقادر: آپ کی دوستی ناقد عتیق اللہ اور ڈاکٹر صاد ق سے بھی گہری ہے۔ اس کے باوجود انھوںنے آپ پر کوئی مضمون کیوں نہیں لکھا؟
حمید سہروردی: پروفیسر عتیق اللہ صاحب نے باضابطہ کوئی مضمون تو نہیں لکھا۔ مگر افسانہ اور شاعری تنقید میں میراذکر احسن انداز سے کیاہے۔ میرے افسانے’’روشن لمحوں کی سوغات‘‘ کا تجزیہ پروفیسر صاحب نے کیاتھا اور میری نظموں کی کتاب’’شش جہت آگ‘‘ کا پس ورق تحریر کیا۔پروفیسر صادق ایک ہمہ دان فن کار اور بے پنا ہ مصروف ترین شخص ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیں گے۔
عبدالقادر: آپ کے بعد دکن میں وہ کون سے افسانہ نگار اور شاعر ہیں جن پر آپ فخر کرسکتے ہیں؟
حمید سہروردی: پروفیسر عبدالقادر صاحب آپ نے بہت مشکل سوال کیا۔ فوری طورپر چند نام ذہن میں ہیں۔ بیگ احساس اور عارف خورشید نے سفرِ آخرت اختیار کیا۔ نورالحسنین ،قمر جمالی،عظیم راہی،منظوروقار،محمود شاہد،سمیرا حیدر،کو ثر پروین ،رئوف صادق،سلیم محی الدین، فاروق شکیل،سید اقبال خسروقادری،مقبول احمد مقبول، سردار سلیم،صابر،اسد ثنائی،صادق کرمانی،محبوب خان اصغر، اخترصادق، اطیب اعجاز،محمد یوسف رحیم بیدری وغیرہم۔
عبدالقادر: آپ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ بلکہ میں سمجھتا ہوں یہ حقیقت ہے کہ آپ بہت عمدہ استاد رہے ہیں۔لیکن آپ پر الزام ہے کہ آپ نے نئی نسل کی جس طرح آبیاری کرنا چاہیے تھی وہ نہیں کی۔ پھر وہ مراٹھواڑا کا علاقہ ہو یا کرناٹک کا آپ کیا کہتے ہیں اس سلسلے میں؟
حمیدسہروردی: یہ الزام بے بنیاد ہے۔طلبہ کو میں نے لکھنے پڑھنے اور رسائل وکتب خرید کر پڑھنے کی طرف راغب کیا۔ لیکن ان میں تخلیقی ادب کی جانب دلچسپی کم کم ہی رہی۔ نثر نگاری کی طرف طالب علموں کا میدان تھا۔آج بھی چند ایک طلبہ نثر کے میدان میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔
عبدالقادر: آج کل شعرا کی تعداد زیادہ ہے یا ناقدین کی۔تخلیق کار کم کم ہیں اس کی وجہ کیاہے؟
حمید سہروردی: جی ہاں آپ نے درست فرمایا۔شعرا کی بہتات ہے۔ناقدین کہاں ہیں۔وہ تو نثر نگار ہیں۔تخلیقی ادب اور تخلیق کار غائب ہوچکے ہیں۔
عبدالقادر: آپ نے افسانہ نگاری اور نظم گوئی کے علاوہ جوگندر پال پرایک کتاب لکھی۔آپ کا دھیان اس طرف کیوں گیا،کیا آپ کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر اعتبار کم کم ہونے لگا تھا؟
حمیدرسہروردی: جوگندرپال کے فکر وفن سے میں بے حد متاثر رہاہوں۔میں نے ’’جوگندرپال: شخصیت اورافسانوی فن‘‘ پر ڈاکٹریٹ کیاتھا۔ کتاب ’’جوگندر پال:دید ونادید‘‘کے لیے پی ایچ ڈی کے مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے جوگندر پال کے فن کے تناظرمیں افسانوی اور غیر افسانوی ادب میں نئے عناوین پر لکھنے کی سعی کی۔ میری یہ کتاب جوگندرپال کے تخلیقی سرگرمیوں کا ایک مطالعہ بھی ہے اور فنی وفکری امکانات کی تلاش بھی۔
عبدالقادر: پروفیسر حمید سہروردی صاحب کہنے والے خواہ کچھ کہیں لیکن جدیدیت نے نئی نسل کوایک نئی زبان دی۔ان کی سوچ بدلی۔افسانے کو نئے افق عطا کیے اوران میں آپ بھی پوری طرح شامل ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم آپ پر فخر کرتے ہیں کہ اُس زمانے میں اس علاقے کے واحد افسانہ نگار تھے جس نے پوری جدیددنیا سے نہ صرف آنکھیں چار کیں بلکہ سارے یادگار افسانے بھی لکھے جنھیں قاری آج بھی پسندکرتاہے۔ مثلاً عقب کا دروازہ،کربلا بہت دور ہے،روشن لمحوں کی سوغات،سفید پرندے،شاہ جو کی چاندنی اور زمین کی گم شدگی،خواب در خواب…..
میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے میرے تیکھے اور تُرش سوالوں کا جواب بڑے صبر سے دیا۔ یہ سوالات جیسے بھی ہوں لیکن اس کی وجہ سے آپ کے متعلق جو افواہیں گردش کرتی ہیں اس کو ایک جواب مل گیا۔ میںآپ کا ایک بار پھر شکریہ اداکرتاہوں۔
حمیدسہروردی: بہت بہت شکریہ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...