(Last Updated On: )
کہنے کو علاج اسکا زمانے نے کیا ہے
ہے درد عجب میراکہ جاتا نہیں پھر بھی
جس کے لئے رستوں پہ ہے قندیل جلائی
وہ روٹھ گیا ، لوٹ کے آتا نہیں پھر بھی
یوں قریہِ دل میں ہے خزاں ،چاہا بھی میں نے
میلہ جو ہر اک سو ہے ، لبھاتا نہیں پھربھی
جس نے گڑھا کھودا تھا وہی اس میں گراتھا
تھا شخص عجب ،سچ کوسجھاتا نہیں پھر بھی
اس قریہِ موعود میں،لاشوں کی مہک ہے
یہ خون ہے جو خون رلاتا نہیں پھر بھی
لشکر مرے دشمن کے ہر اک سو ہی کھڑے ہیں
کیوں کوئی مدد کو مری آتا نہیں پھر بھی
کچھ تو ہے تعلق کہ قدم روکتی ہے راہ
سوچا ہے بہت دھیان میںآ ّتا نہیں پھر بھی
اپنے ہی چراغوں نے جلاڈالامرا گھر
دل ان ہی چراغوں کو بجھاتا نہیں پھر بھی
چبھتی ہے خلش لہجہ و آواز کی اکثر
احساس مرا اسکو مٹاتا نہیں پھر بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔