(Last Updated On: )
رابرٹ لنڈ
مترجم: سلیم آغا قزلباش
کہتے ہیں کہ موسم گرما کی مخصوص آواز کیڑے مکوڑوں کی بھنبھناہٹ ہے، جب کہ موسم بہار کی امتیازی آواز طیور کی زمزمہ پردازی! عجیب بات ہے کہ لفظ ’کیڑا‘ ہم تک بدصورتی کے مفہوم کو منتقل کرتا ہے۔ ہم مکڑیوں کے متعلق غور کرتے ہیں کیونکہ بیشتر لوگ نازیوں سے بھی اتنے تو خوف زدہ نہیں ہیں جتنے کہ ان سے۔ ہم کھٹملوں اور پسوؤں کے بارے میں سوچتے ہیں جو اپنی غیر شائستگی کی بنا پر کمینے لوگوں کے مذاق کا نشانہ بنتے ہیں، جب کہ نفیس لوگ ان کے ذکر اذکار سے پہلوتہی کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ہم کالے بھونروں کے بارے میں سوچتے ہیں کہ جب وہ اچانک باورچی خانہ کی بتی کے روشن ہونے پر تیزی سے سرسراہٹ پیدا کرتے ہوئے پناہ گاہوں کی طرف بھاگ اٹھتے ہیں … کالے بھونرے (جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے) اول تو وہ بھونرے ہی نہیں ہیں اور دوئم ان کا رنگ بھی سیہ نہیں ہے۔ ایسی خواتین بھی ہیں جو ان میں سے کسی ایک مخلوق کا محض نام لینے پر برا سا منہ بنا لیں گی۔ ہم میں سے وہ لوگ جنھوں نے کم از کم مکڑیوں اور کالے بھونروں کے خلاف … اس قسم کی کراہت کو کبھی محسوس نہ کیا ہو، اس چیز کو سمجھ نہیں پاتے اور سوچتے ہیں کہ یہ کس حد تک خلاف فطرت ہے۔ کیا یہ چیز کچھ لوگوں میں پیدائشی طور پر ہوتی ہے، چوہوں سے خوف زدہ ہو کر بے ہوش ہو جانے والی پرانی عادت کی طرح جو محض اخذ کردہ ہے؟ جب میں نے کالے بھونرے کو دیوار کے نیچے غائب ہونے کی کوشش میں بلی کا تر نوالہ بنتے ہوئے دیکھا… تو اس کیفیت سے قریب ترین ہونے کا لمحہ کراہت کے اسی احساس پر مشتمل تھا۔ اسی قبیل کی اور بھی متعدد رینگنے والی مخلوقات کا وجود ہے جو غلاظت کی اولاد ہونے کی حیثیت میں اس قدر بدنام ہیں اور ان کا لمس اتنا خوفناک ہے کہ ہم قدرتی طور پر ان سے پرے ہٹ جاتے ہیں۔ برنز Burns کسی خاتون کے بالوں میں رینگنے والی جوؤں پر مسرت کا اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن ہم سے کوئی بھی طمانیت قلب کے ساتھ جوؤں کی نوع کا سامنا نہیں کر سکتا، چاہے وہ خنزیروں کی پشت پرہی کیوں نہ ہوں۔ سائنس دان اس بات کو نہیں مانتے کہ جوؤں کو غلاظت سے کوئی خطرہ ہے، بلکہ وہ تو بلا شبہ غلاظت ہی میں پھلتی پھولتی ہیں۔ پسوؤں کے خلاف ہماری برافروختگی کاسبب بھی یہی ہے کہ ہم انھیں غلاظت سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ ڈان نے ایک ایسی خاتون کو ایک نظم لکھ کر بھیجی جسے اسی پسونے کاٹا تھا، جس کا وہ خود بھی نشانہ بنا تھا… اور کہا کہ یہ معقول سبب ہے کہ وہ خاتون اسے وصل کی اجازت عطا کر دے۔ یہ اس وقت بھی اور آج بھی ایک لغو نظم شمار ہوتی ہے۔ محبت چاہے وہ دل پھینک کثیر الازدواجی قسم ہی کی کیوں نہ ہو اسے ایسے تصورات کی مدد سے بیان نہیں ہونا چاہیے۔ فقط بدصورتی کی پر شباب بدعت کے زیرسایہ ہونے کے دوران ہی کوئی شاعر ایسی ریا کارانہ بات کہہ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پسوجست بھرنے کی شکتی کے حوالے سے قابل ذکرہے اوراعتبار سے قریب قریب محب عالم ہونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود اسے آدمی کے دل یا تصور میں جگہ نہیں مل سکی ہے۔ ایسے بے شمار لوگ بھی گزرے ہیں جو پسوؤں کے معاملے میں بے اعتنائی برتتے تھے، البتہ ایسے افراد کا وجود عنقا ہے جو ان سے محبت کرتے ہوں۔ تاہم اگر میری یادداشت مجھے دھوکا نہیں دے رہی تو چندبرس قبل کا قصہ ہے کہ ایک مشہور و معروف فرانسیسی قیدی نے ایک پسو پال کر اور کرتب بازی کا مظاہرہ کرنے کے قابل بنا کر اپنے بندی خانہ کی کوفت کو بھلانے کی کوشش کی تھی۔ پوری دنیا کے لیے پسو فقط نفرت انگیز جھلاہٹ کی ترجمانی کرتا ہے۔ مسٹر ڈبلیو بی یٹس نے اپنی شاعری میں اسے ایک ایسے منظوم چٹکلے میں پیش کیا ہے جس کا مخاطب ایک ایسا شاعر ہے جس نے یہ چاہا تھا کہ میں برے شاعروں (جو اس کے اور میرے مقلدین ہیں) کی تعریف و توصیف کروں:
تم کہتے ہو کہ میں نے ہمیشہ دوسروں کے کہے یا گائے ہوئے کی تعریف کی ہے
خیر یہ تو دانش مندی کا تقاضا تھا
مگر مجھے بتاؤ
کہاں ہے ایسا کوئی سگ آوارہ
جس نے کبھی اپنے پسوؤں کی ستائش کی ہو؟
جب ہم بنی نوع انسان نیز اپنے سامنے موجود جانوروں کے اس دکھ کے بارے میں سوچتے ہیں … (اگر دکھ موزوں لفظ ہے تو) جو انھوں نے کیڑے مکوڑوں کے ہاتھوں جھیلا ہے تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ کافی حد تک قابل معافی بات ہے کہ ایسی فقیر مخلوق کا منہ چڑایا جائے تاہم یہ بات دل کو لگتی ہے کہ وہ کیڑے مکوڑے جو آدمی کو زیادہ ضرر پہنچاتے ہیں، ان میں سے نہیں ہیں جو اسے بالعموم زیادہ دہشت زدہ کرتے ہیں۔ ایک خاتون بڑی حوصلہ مندی سے اپنی جگہ پر بیٹھی رہے گی جب کہ ایک بھڑ ہوا میں منڈلاتی ہوئی پہلے اس کی دائیں کنپٹی اور پھر بائیں کنپٹی کا معائنہ فرماتی ہے۔ مگر یہی خاتون ایک بے ضرر مکڑی سے ڈر کر ایک کوس تک بھاگتی چلی جائے گی جب کہ کوئی دوسری محترمہ گھوڑا مکھی کی موجودگی میں اپنے حواص بحال رکھے گی، لیکن ایک معصوم پتنگے کو دیکھتے ہی کانپ اٹھے گی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے خوف محض جسمانی خطرے کے احساس کے زائیدہ نہیں ہیں کیڑے مکوڑوں کا وجود بھی ہے جو ہمیں اس چیز کا احساس دلاتے ہیں کہ ہم خوف وہراس کی فضا کے حصار میں ہیں۔ ہم میں اکثر پتنگوں کے حوالے سے یہی محسوس کرتے ہیں۔ پتنگے حشرات الارض کے جہان کی بدروحیں ہیں۔ غالباً وہ انداز جس سے وہ بغیر اطلاع دیے، رات کے اندرسے پھڑپھڑاتے ہوئے آتے ہیں ہمیں خوف زدہ کر دیتا ہے۔ وہ ہماری روشن کھڑکیوں پریوں دستک دیتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے جیسے باہر کی تاریکی ہمیں کوئی پیغام بھیج رہی ہو۔ مزید یہ کہ پتنگوں کی ثابت قدمی اس دہشت کو فزوں تر کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ وہ ایک محکوم قوم سے زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں۔ وہ ایک ضدی زن بیوہ سے زیادہ ضدی ہوتے ہیں لیکن وہ سب سے زیادہ دہشت انگیزی کاسامان اس وقت پیدا کرتے ہیں جب ان کی پتلیاں روشنی کوچھوتے ہی لال انگارہ بن جاتی ہیں۔ ایسے میں انسان کو افریقہ کے کسی جنگل میں واقع مندر میں رات کو ادا کی جانے والی رسومات اور کالی دیوی کے (ماتھے) پر دہکتے ہوئے خوفناک ہیرے موتیوں کا خیال آتا ہے … وہ ہیرے موتی جنھیں کسی عاقبت نا اندیش سفید چمڑی والے کو چرانا ہوتا ہے تاکہ وہ بعد ازاں کسی سنسنی خیز ناول میں نسلی انتقام کا موضوع بن سکیں۔ میرا یہ احساس ہے کہ ایسی صورت میں اگر جسم کے رونگٹے اپنے آخری سروں تک بھی کھڑا ہو جائیں تو بھی وہ اس میں حق بجانب ہوں گے، گو میں جانتا ہوں کہ رونگٹے اس قسم کا کام انجام نہیں دیتے۔ میرے خیال میں پتنگے کی آنکھ کا نظارہ کرنا زیادہ تر لوگوں کے لیے ایک نا ممکن سی بات ہے۔
یہ ایک ایسا منظر ہے جسے انسان بھلا نہیں سکتا۔ بعینہٖ جیسے وہ ایک جلتے ہوئے مکان کو فراموش نہیں کر سکتا۔ پتنگوں کے بارے میں ہمارے احساسات جو بھی ہوں، یہ بات حیران کن ہے کہ ضعیف الاعتقادی نے پتنگے کو مرے ہوؤں کی دنیاسے اتنامنسلک نہیں کیا۔ جتنا کہ تتلیوں کو… کون کہتا ہے کہ گوبھی کی کاشت کرنے والا تتلیوں کے خلاف کوئی جذبۂ عداوت رکھتا ہے اور اس کے باوجود لوک کہانیوں میں پروانے کے بجائے تتلی کو بھوت پریت ایسا کردار تفویض کیا گیا ہے۔ آئرلینڈ میں ایک پادری کے بارے میں یہ روایت عام ہے کہ وہ اس بات پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا کہ انسانوں کی روحیں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن (اپنی رائے تبدیل کرنے کے بعد) اس نے اعلان کیا کہ جب وہ مرے گا تو اس کے بدن سے ایک جاندار ہستی اوپر کو اڑتی ہوئی دیکھی جا سکے گی… یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ اس کا تشکیک پر مبنی سابقہ رویہ غلط تھا چنانچہ جب وہ مرا تو ایک دلکش مخلوق برف ایسے چار سفید پروں کے ساتھ اس کے بدن میں سے اوپر کو اٹھی اور پھر اس کے سر کے گرد پھڑپھڑانے لگی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ اولین تتلی تھی جو آئر لینڈ میں دیکھی گئی تھی اور اب تمام بندگان خدا اس بات سے آگاہ ہیں کہ تتلیاں مرے ہوؤں کی ارواح ہیں جو اس لمحے کے انتظار میں ہوتی ہیں کہ کب انھیں ’اعراف‘ میں داخل ہونے کا اجازت نامہ حاصل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سلمان جزائر میں یہ ایک ریت ہوا کرتی تھی کہ جب کوئی قریب المرگ ہوتا تو اس کا یہ فرض ہوتا کہ وہ اعلان کرے کہ اس تتلی میں قلب ماہیت ہونے والی ہے، بعد ازاں جب اس کے اہل خانہ کا کسی تتلی سے واسطہ پڑتا تو وہ وضاحت کرتے کہ یہ ’پاپا ہیں‘ اور اس کی خدمت میں ایک عدد ناریل پیش کرتے۔ ایک انگریز گھرانے کے افراد اس قسم کے حالات و واقعات سے دو چار ہونے کی صورت میں غالباً یہ کہیں گے: ’’لیجئے کیلا پیش خدمت ہے۔‘‘ آسام کے کئی ایک قبائل میں مرے ہوؤں کے متعلق یہ مانا گیا ہے کہ ان کی مراجعت تتلیوں اور گھریلو مکھیوں کی شکل میں ہوتی ہے اور اس بنا پر کوئی بھی انھیں ہلاک نہیں کرتا۔ دوسری طرف ویسٹ فیلیا میں تتلیاں وہ کردار ادا کرتی ہیں جو دیگر ممالک میں قربانی کے بکرے کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ فروری میں سینٹ پیٹر والے دن کے موقع پر بھجن اور مذہبی رسم کے ساتھ اسے سر عام ملک بدر کیا جاتا ہے۔ دوسری جگہوں پر جیسے سیمویا میں (مجھے نہیں معلوم کہ کہاں سے مجھے یہ تمام حقائق دستیاب ہوئے ہیں، غالباً شاخ زریں (golden bough) میں سے ملے ہیں)… لوگ تتلی سے اس طرح خوف زدہ ہوتے ہیں جیسے کسی دیوتا سے اور تتلی کو پکڑنے کا مطلب فوری موت سے دوچار ہو جانے کا خطرہ مول لینے کے مترادف ہوتا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، پتنگا بھی شاید اس جیسی لاتعداد کہاوتوں میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، لیکن میرا اس سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ تاہم ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہوکہ بہت سی کہاوتوں میں پتنگے اور تتلی کا باہمی فرق واضح نہیں ہے۔ ہم میں سے بہت سوں کے لیے بظاہر ان دونوں کے باہمی فرق کو جان لینا کافی آسان ہے۔ مثال کے طور پر ولایتی تتلی ہمیشہ اپنے ڈنڈا نما سینگوں کی وجہ سے پہچانی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ امتیازی وصف تتلیوں کے باقی سارے خانوادے میں کار فرما نہیں ہے … یہ خانوادہ اس قدر بھرا پرا اور متنوع ہے کہ تیرہ ہزار انواع پہلے ہی ڈھونڈی جا چکی ہیں اور ماہرین حشرات الارض پر امید ہیں کہ کسی دن وہ ان سے دگنی تعداد سے بھی زیادہ کی درجہ بندی کر سکیں گے۔ ان جزائر میں بھی واقع ہم میں سے اکثر غالباً ایک پتنگے کی پہچان اس کے ڈنڈا نما سینگوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں کر پاتے۔ ہمارے لیے یہ ایک ایسی شے ہے جو رات کو پر فشاں ہوتی ہے اور ہمارے ملبوسات کو کتر کتر کر ان میں سوراخ پیدا کر دیتی ہے۔ تاہم اس سے ہم تمام حالات میں خوف زدہ نہیں ہیں۔ ہمارا ڈر ایک داخلی خوف ہے۔ شاعری میں ہمارے اس کے ساتھ خوش گوار روابط ہیں اور ہم اس سوچ سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ:
پتنگا ستارے کا آرزو مند ہے
ہمیں یاد آتا ہے کہ یہ پروانوں کا وجود ہے کہ جس کے باعث رات کو پیلے رنگ کی یاسمن اتنی بھینی بھینی خوشبو سے ہم کنار ہوتی ہے۔ ہمارے اذہان میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوتی۔ جب ہم یہ پڑھتے ہیں:
اور جب سفید پتنگے پرواز کناں تھے
اور پروانوں ایسے ستارے ٹمٹما رہے تھے
تو میں نے بیری کا پھل ندی میں پھینکا
اور ایک ننھی منی چمکدار ٹراوٹ مچھلی پکڑ لی
کسی شخص نے کبھی مکڑیوں یا کنکھجوروں یا ہمارے کسی دوسرے پالتو دشمن کیڑوں کی شان میں گیت نہیں گایا ہے۔ پتنگا کیڑے مکوڑوں میں وہ واحد کیڑا ہے جو ہمیں بیک وقت اپنی خوبصورتی اور اپنی دہشت کی بنا پر متوجہ کرتا ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ پہلے کبھی کیڑے مکوڑوں کے اتنے زیادہ جتھے اس دیس میں دیکھے گئے ہوں گے جتنے کہ گزشتہ موسم بہارمیں۔ یہ واحد شکوہ ہے جو مجھے سورج سے کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ وہ کیڑے مکوڑوں کی بے محابا افزائش کرتا ہے، بلکہ وہ ان کی افزائش نسل ایک عیسائی کے مانند خاندانوں کی صورت میں نہیں بلکہ طاعون کی شکل میں کرتا ہے۔ محض کیڑے مکوڑوں کے وجود کا تصور ہی ہمیں خط استوا کے خطوں، ان کے نیلگوں آسمانوں اور پر تمازت سورجوں پر رشک کرنے سے باز رکھتا ہے۔ لہٰذا ٹڈیوں کے جم غفیر کا سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ انسان قطب شمالی پر جا کر رہے۔ ہم ترنتولا taruntula سے تو خوف زدہ رہتے ہیں مگر سی سی (tse, tse) مکھی کے لیے گوشۂ محبت بھی نہیں رکھتے۔ ہمارے اپنے ماحول کے حشرات الارض بہر طور قابل نفرت ہیں۔ مثلاً گھاس کے طوطے کے بارے میں میں کہا گیا ہے کہ وہ قاتل ہے۔ تاہم کن گوجر ایک مکمل ماں ہے، جب کہ دوسرے کیڑے مکوڑوں مثلاً بھنوروں کی وجہِ شہرت یہ ہے کہ وہ پدر کش ہیں۔ تاہم وہ خطرناک ہوں یا نہ ہوں، کیڑے مکوڑے بحیثیت مجموعی دق کرنے والے اور تباہ کن ضرور ہیں۔ سبز مکھی گلاب کے پھول کے اندربستیاں آباد کرتی ہے۔ ایک قرمزی کیڑا سیب کے پتوں تلے اپنا گھر بساتا ہے اور ایک اور بدمعاش جو شب دیجور کی طرح کالا ہے، لوبیے کے دانوں کے اوپر رقص کرتا ہے۔ اتنی بیماریاں تو انسانی جسم میں بھی نہیں ہیں جتنی کہ فقط ایک پھل دار درخت پر کیڑوں کی اقسام ہوتی ہیں۔ سیب جو پکنے سے پہلے گل سڑ جاتا ہے ایک کیڑے ہی کا شاخسانہ ہے اور اگر آلوچے سبزہو کر اور وقت معینہ سے پیشتر بیسیوں کی تعداد میں زمین پر آن گریں تو ایک بار پھر اس کاسبب ایک کیڑا ہی بنتا ہے جوان سب کے درمیان اپنی کار کردگی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ بارے جرمن جاسوسوں کا ذکر ہو جائے! اگر جرمن جاسوس (جاسوسی کا) سبق سیکھنے کی غرض سے حشرات الارض کی دنیا کی طرف رجوع کرتے تو شاید وہ اس طرح کے غیر مستعد اناڑی ثابت نہ ہوتے۔ ہم میں سے اکثر بیک وقت جاسوسوں اور کیڑے مکوڑوں سے ایک جیسی وجوہ کی بنا پر نفرت کرتے ہیں۔ ہم ان کا شمار ان ضرر رساں جانداروں میں کرتے ہیں جو ایسی جگہ دخل اندازی کے مرتکب ہوتے ہیں جہاں داخل ہونے کا انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا، جو ہمیں اپنا ہدف بناتے ہیں اور برائی کے سوا ہمیں کچھ نہیں دیتے۔ چنانچہ ہم ان کے مقابلے میں بے دردی کا مظاہرہ کرتے ہیں: ’’کیڑو مکوڑو۔‘‘ اور پھر ان کا قلع قمع کر دیتے ہیں۔ انسان کو کیڑا مکوڑا شمار کرنے کا مطلب ہمیشہ پشیمانی کے بغیر اس کے ساتھ سلوک روا رکھنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ یہ ایک خطرناک رویہ ہے اور زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ وہ انصاف کے برعکس جرم پر منتج ہو گا۔ میرا ایقان ہے کہ آج تک کوئی ایسی سلطنت معرض وجود میں نہیں آئی کہ جس کے کسی نہ کسی دور میں باغی عوام الناس کے نزدیک بچوں کا قتل عام اس بنیاد پر قابل معافی شمار کیا گیا ہو کہ ’’بچے جوئیں پیدا کرتے ہیں۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بظاہر بہت سے قدامت پسندوں کے نزدیک بالشویک کو نیست و نابود کرنا ایسا ہی حفظان صحت کا اصول ہے جیسا کہ مکھی کو نیست و نابود کرنا۔ حتیٰ کہ مکھیوں کے معاملے میں بھی، ہم میں سے زیادہ تران کی بیخ کنی میں پس و پیش کا اظہار کر سکتے ہیں ہم مکھیوں سے ہزار نفرت کریں اور ان کی کامل تباہی کے آرزو مند ہوں، ہم ہولے ہولے، ایک ایک پراور ایک ایک ٹانک کر کے، ان کو پرزہ پرزہ نہیں کر سکتے، جیسا کہ لا ابالی بچوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ مکھیوں کو ان لیس دار کاغذی ٹکڑوں پر آہستہ آہستہ موت کے حوالے ہوتے ہوئے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے، جن پر مکھیاں اپنی ٹانگیں گھسیٹتی گھسیٹتی مر کھپ جاتی ہیں … جو میری نظروں میں کمینگی پر مبنی بربریت ہے۔ ایک ممتاز ناول نگار کا کہنا ہے کہ مکھیوں کو کاغذ پر سے یکے بعد دیگرے اپنی ٹانگوں کو کھینچ کر آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھنا، یہاں تک کہ وہ اپنے فطری قد سے دگنی ہو جائیں، اس کا ایک دل پسند شغل ہے۔ مجھے اس کی اس بات پر یقین کرنے میں کبھی کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ ایک عجیب و غریب حقیقت ہے کہ مکھیوں کے معاملے میں پاسداری (اگر بالفرض اسے رحم دلی نہ بھی کہا جائے) کو عام گفتگو کی ملائمت کا میزان قرار دیا گیا ہے۔ کتنی ہی بارکسی مرے ہوئے شخص کی تعریف میں یہ سننے میں آیا ہے کہ: ’’اسے تو مکھی تک کو تکلیف پہچانا گوارا نہ تھا۔‘‘
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو مکھیوں کو ضرر پہچانے کے مرتکب ہوتے ہیں تو ہم تاریخ میں ان کی تذلیل و تشہیر کرتے رہتے ہیں مثلاً ہم نے ڈومی شین (domitian) کی سفاکی کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ سٹیونیس (suetenius) ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ اپنے عہد سلطنت کے ابتدائی ایام میں وہ بلا ناغہ گھنٹوں کسی گوشۂ تنہائی میں مکھیوں کو دبوچنے اور ایک تیز دھار قلم سے انھیں نشانہ بنانے کے سوا اور کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ نتیجتاً جب کسی نے ایک مرتبہ استفسار کیا کہ آیا سیزر کے ساتھ وہاں کوئی اور بھی موجود تھا تو والی بس کرسپس کا بذلہ سنجی سے مملو جواب تھا کہ ’’ایک مکھی تک نہیں۔‘‘ اور جیسے کہ ہم میں سے بیشتر ڈومیشین کے مقابلے میں مکھی کے حمایتی ہیں، اسی طرح ہم میں سے اکثر مکڑی کے مقابلے میں مکھی ہی کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہمیں مکھی کی حالت زار پر رحم آتا ہے جیسے وہ (اگر یہ تصور قابل قبول ہے تو) محض ایک زیر عتاب کتیا ہو۔ ادنیٰ نوعیت کی گومگو والی کیفیات میں سے سب سے زیادہ اذیت ناک کیفیت جس کا انسانیت کے علمبردار کوسامنا کرنا پڑتا ہے، یہ ہے کہ آیا وہ مکڑی کے جالے کو برباد کرے اور یوں امکانی حد تک مکڑی کو بھوکوں مار دے یا اس کے عنکبوت کو اسی حالت میں چھوڑ دے اور یوں سینکڑوں مکھیوں کی ہلاکت کا باعث بن جائے۔ میں ایک عرصہ سے اس قسم کے معاملات میں فطرت کو اس کی کار کردگی کے ضمن میں آزاد چھوڑ کر مطمئن ہو چکا ہوں …
…میں یہ نہیں کہتا کہ میں فطرت کو اس کی جملہ کار روائیوں کے سلسلے میں پسند کرتا ہوں۔ تاہم میں اس بات کو تسلیم کر کے مطمئن ہو جاتا ہوں کہ غالباً اس کی وجہ اس سلسلے کے حقائق سے میری لاعلمی ہے۔ جب کہ دوسری طرف فطرت میں تباہ و برباد کرنے کے دو عوامل ایسے بھی ہیں جو مجھے اظہار اختلاف پر مائل نہیں کرتے بلکہ الٹا مجھے محظوظ کرتے ہیں۔ ان میں ایک اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب تھرش (یورپ کا ایک خوش الحان پرندہ (طوطی) ایک گھونگے کو کھا جاتا ہے۔ اس کے خول کو ایک پتھر کے اوپر زور دار ضربوں سے بار بار مار کر… میں نے گھونگے کے نقطۂ نظر سے اس حادثے کے متعلق کبھی غور و خوض نہیں کیا۔ پتھر پر گرنے کی کھٹاکھٹ کو سنتے ہوئے میں یوں محسوس کرتا ہوں جیسے یہ کوئی راگ ہو۔ اگلے روز میں نے اسی طرح کی خوشی کی ایک سبک لہر محسوس کی، جب میں نے ایک چتی دار خوبصورت چڑیا کو دو سیبوں کے درمیان ایک قسم کے رس چوسنے والے کیڑے کو اطمینان سے کھاتے ہوئے دیکھا جو پھل کو کترتے ہوئے اس کے اندر اتر رہا تھا۔ چتی دار چڑیا، تتلی اور مدھ مکھی… ایسی مخلوقات کو کون پا بہ زنجیر کر سکتا ہے۔
ایسے کیڑے مکوڑے بھی ہیں جو لازماً سانپ سے قبل باغ عدن میں موجود ہوں گے۔ ان دنوں دیگر حشرات الارض کے دیوتا بلیزی بب(bleezebub) کی کوئی خطرناک شکتی ابھی روئے زمین پر کار فرما نہیں تھی، جب تمام پھول اتنے ہی عجیب تھے جتنے کہ کیڑے مکوڑے اور تمام کیڑے مکوڑے اتنے ہی خوبصورت تھے جتنے کہ پھول!
٭٭٭