مہمان آ چکے تھے۔ مسز یوسف، حرا اور وریشہ اس کے کمرے میں موجود تھیں۔ وہ ابھی تک ششدر تھی۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ خاص مہمان ڈاکٹر یوسف تھے۔ ان کا بیٹا، جس کی بوتیک، جوتوں اور لیدر جیکٹس کی برانڈ پورے ملک میں مشہور تھی، جس کے نام سے لا تعداد ہسپتال اور یتیم خانے کھل چکے تھے، سارا زمانہ اس کی عزت کرتا تھا، جس کا ذکر کرتے ہوئے اس کے ابا کا لہجہ اتنا محبت بھرا تھا، جس کو دیکھنے کے جستجو اس کے دل میں بھی بے ساختہ پیدا ہوئی تھی، جس نے اللہ کی خاطر خود کو سر سے پاؤں تک بدل لیا تھا، اس کا رشتہ آیا تھا ایک مڈل کلاس گھرانے کی لڑکی کے لئے، علیزہ شیخ کے لئے۔۔۔!
عائشہ آنٹی بہت پیار کرنے والی خاتون تھیں۔ حرا اور وریشہ بھی اسے بہت اچھی لگیں۔ وریشہ تو خاص کر بہت باتونی تھی۔
“میں نے ساری عادتیں علی بھائی سے ایڈاپٹ کی ہیں۔ ان کی باتوں سے سب کا موڈ سیٹ ہو جاتا یے۔” وریشہ چہک کر بولی تو حرا نے ناک سکوڑی۔
“ہاں! ساری الٹی سیدھی حرکتیں کرنے کا ٹھیکہ ان دونوں نے ہی لے رکھا ہے۔ فہد اور احمد بھائی کو بہت تنگ کرتے ہیں اور خاص کر مجھے۔۔۔” وہ اب فہد بھائی کے بجائے فہد ہی کہا کرتی تھی، اس کی بات جو طے ہو گئی تھی۔
“اوہ! تو احمد نام ہے ان کا۔” علیزہ نے سوچا، اسے بے اختیار ایک شخص یاد آیا تھا۔۔۔ “محمد احمد! یو؟” لمحے بھر کے لئے سرخ ٹی شرٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس، وہ وجود اس کی نظروں کے سامنے آیا تھا۔ اس نے فوراً اپنا سر جھٹکا جیسے اسے اپنے ذہن سے نکالنا چاہ رہی ہو۔
x———-x
“یار بھابھی تو اپنی شکل دکھا ہی نہیں رہیں۔ مجھ سے انتظار نہیں ہو رہا۔” فہد نے پہلو بدلا۔
“حد ہے فہد! ابھی سے بھابھی بنا لیا اور صبر کر لو تھوڑا۔ میں بھی تو سکون سے بیٹھا ہوں۔” احمد نے اکتا کر کہا۔
“یعنی شدت سے انتظار ہو رہا ہے۔ بہت خوش نصیب ہے یہ لڑکی، جو بھی ہے۔” اس نے تنگ کرنا چاہا۔ احمد نے افسوس سے سر ہلایا۔
“تھوڑی تو شرم کر لو۔ مجھے سکھاتے رہتے ہو تمیز، اپنے آپ کو دیکھو۔” فہد اس کے انداز پہ ہنس دیا۔
“بھائی آپ انتہائی ایکسپریشن لیس انسان ہیں۔ بندی خوش ہوتا ہے کہ اس کی شادی ہونے والی ہے، دل میں لٹو پھول رہے ہوتے ہیں اور آپ کو کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ دیکھا نہیں تھا فہد بھائی کو؟ جب انہیں پتہ چلا کہ حرا آپی اور ان کی شادی آپکی شادی کے ساتھ ہی ہو گی، تو کیسے اچھل رہے تھے یہ۔ تبھی تو ان سے انتظار نہیں ہو رہا۔۔۔ بھابھی سے کہوں گا آپ کی اچھی طرح خبر لیں۔” علی کی بات پر احمد کی ہنسی چھوٹ گئی۔ فہد نے دونوں کے گال نوچے۔
“علی کے بچے! بہت زبان چلتی ہے تمہاری، ہاں! میرا ذکر تو ہر بات میں ضروری ہوتا ہے ناں؟!”
“ہاں تو آپ ہیں ناں آل ٹائم فیورٹ!” اس نے مسکا لگایا۔۔۔۔ بڑے اپنی باتوں میں لگے تھے اور وہ تینوں بور ہو رہے تھے۔
“سنا ہے بہت مزے دار کھانا بناتی ہیں وہ۔۔۔” فہد نے احمد سے کہا تو علی بول پڑا، “وہ تو بھائی کے لئے ہو گا۔ آپ کو حرا آپی کے علاوہ کسی کے ہاتھ کا کہاں پسند آتا ہے؟”
“تم تو چپ کرو! میں اسے تنگ کرنا چاہ رہا ہوں اور تم میرے پیچھے پڑے ہو.” فہد تپ کر بولا تو دونوں بھائی ہنس دیے۔
اتنے میں دروازہ کھلا اور وہ عائشہ بیگم، حرا اور وریشہ کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔ احمد کے ذہن میں ماما کے الفاظ گونج رہے تھے، “علیزہ شیخ! بہت پیاری بیٹی ہے ماشاءاللہ! پروفیسر ہادی کی اکلوتی بیٹی، بہت صابر و شاکر، نیک اور پاکباز۔ اس کی امی کا تین سال پہلے انتقال ہو گیا تھا، تمہیں یاد ہو گا۔۔۔۔ اس نے ہر مشکل کا سامنا کیا، کبھی شکایت نہیں کی۔ تنگی میں بھی بہت خوشی خوشی زندگی گزاری ہے اس نے۔ بہت لائق اور ذہین ہے۔ تمہارا ہاتھ بٹا سکتی ہے بزنس میں، بالکل تمہارے ٹائپ کی ہے۔”
گلابی فراک اور چوری دار پاجامے میں ملبوس،سلیقے سے دوپٹہ لپیٹے، ہلکے پھلکے میک اپ میں وہ لڑکی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ وہ سر جھکائے چلی آ رہی تھی۔ ماما نے اسے احمد کے سامنے والے صوفے پہ بٹھا دیا۔
وہ چاہ کر بھی اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا۔ ایک خواب کی سی کیفیت اس پر طاری تھی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زندگی اس پر یوں مہربان ہو گی۔ اس کے ادھورے خوابوں کی تکمیل کا وقت تھا۔ خدا نے اس کی بن مانگی دعائیں قبول کر لی تھیں، اس کی محبت اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ خوشی، حیرت، بے یقینی، وہ اس احساس کو کیا نام دیتا؟ لمحوں کا کھیل تھا اور اس تہی دامن کی جھولی خوشیوں سے بھر دی گئی تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ خدا اس لڑکی کو یوں اس کے سامنے کھڑا کر دے گا۔ وہ معصوم سی شکل والی پیاری سی لڑکی، جو اجنبی ہو کر بھی اس کے لئے اجنبی نہیں تھی، اس کی آنکھوں کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔ وہ جتنا شکر ادا کرتا کم تھا۔ قدرت کے کھیل بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔۔۔۔
ملن کی گھڑی کے حسن کو اپنے اندر سموتا آسمان ، کاتب تقدیر کے حسین فیصلوں پر جھوم اٹھا تھا۔ دلوں کے راز داں نے دونوں کی تقدیریں خوبصورتی سے ملا دی تھیں۔۔۔
اس لڑکی نے پہلی دفعہ نظر اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے شخص جو دیکھا، وقت وہیں تھم گیا۔۔۔ علیزہ شیخ بے یقینی سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس سے اس کی ملاقات صرف دو مرتبہ ہوئی تھی اور وہ اس کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔اس کی نظریں اس کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں، وہ اسی اجنبی شخص کا شناسا سا چہرہ تھا۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس نے ماضی کا سفر طے کیا۔۔۔۔ اس کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی، “محمد احمد!”۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
‘ بے شک اللہ ہی بہترین کارساز ہے۔’
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...