” بیا تمہیں اللہ کا واسطہ ہے پلیز جاو اور جا کر بات کرو عادل سے آج ہمارا لاسٹ ایگزیم ہے اسکے بعد ناجانے ہمیں یہ موقع ملے بھی یا نہیں ”
وہ ابھی پیپر دے کر فارغ ہی ہوئی تھیں اور پارکنگ میں کھڑی حمزہ کا انتظار کر رہی تھی جب افشاں عادل کو دیکھ گڑا گڑا کر اسکی منتیں کرنے لگی
” افشاں مجھے یہ سب نہیں پسند ، تم جانتی بھی اور زرا غور سے دیکھو وہ اس وقت کسی اور لڑکی کے ساتھ کھڑا ہے ”
بیا تپ کر بولی اسے افشاں کا ایک ایسے مرد کے لیے تڑپنا بہت ہی بے کار لگا ناجانے لوگ کیوں بے مروت لوگوں کے لیے مر مٹنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے جو لوگ انہیں چاہتے ہیں انکے رویے انہیں کتنی تکلیف دیتے ہیں
” بیا تم میری دوست ہو تو آج ثابت بھی کرو نہیں تو میں سچ میں سمجھوں گی کے تم خودغرض ہو صرف اپنی ایک بےکار سی انا کے لیے یہ سب کر رہی ہو ”
بیا نے اسے غور سے دیکھا جو اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اس سے دوستی کا ثبوت مانگ رہی تھی وہ کچھ دیر اسے غور سے دیکھتی رہی اوع پھر اگلے ہی لمحے اسکے قدموں کا رخ عادل کی طرف تھا
” عادل بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے ”
اسکا انداز اتنا پراعتماد تھا کے سامنے والا بولنے سے پہلے بھی اپنے الفاظ ترتیب دیتا تھا
” زہے نصیب آج تو بذات خود بیا انوار چل کر ہمارے پاس آئی ہیں ”
وہ پاس کھڑی لڑکی سے بات کرتے ہوئے کہہ رہا تھا جبکہ اسکا انداز بیا کو قطعی پسند نہیں آیا وہ موڑ کر جانے لگی
” ارے آہی گئی ہیں تو کیوں نا کچھ اچھی اچھی باتیں ہی کر لی جائیں ”
عادل نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا وہ یک دم پلٹی اس سے پہلے کے وہ عادل کی گرفت سے اپنا ہاتھ نکالتی حمزہ کی کرخت آواز نے اس کے حواس ہی مختل کر دیے
” تم یہاں اس شخص کے ساتھ کیا کر رہی ہو”
حمزہ نے اپنی خون رنگ آنکھوں سے پہلے بیا کو دیکھا اور پھر غصے سے عادل کی طرف بڑھ کر اس کا ہاتھ عادل کے ہاتھ سے کھینچا اور عادل کا گریبان تھام لیا
” بول زلیل انسان میری بیوی کے ساتھ کیا کررہا تھا اور اسکو ہاتھ بھی کیسے لگایا تو نے ”
اس نے جھٹکے سے اسے چھوڑا اور آپے سے باہر ہوتا ہوا وہ اس پر دھاڑا
” ارے مجھ پر کیوں غصہ ہو رہے ہو اپنی بیوی سے پوچھو یہ خود آئی تھی میرے پاس ”
حمزہ کا طاقت ور جھٹکا اس قدر پرزور تھا کے وہ نیچے جا گرا
اس کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ سن حمزہ نے جھٹکے سے پیچھے موڑ بیا کی طرف دیکھا اور اسکی آنکھوں کا سوال سمجھ بیا نے اپنے پاس کھڑی افشاں کی طرف دیکھا جو مسلسل آنسو بہا رہی تھی اور بیا سمجھ گئی “آزمائش”
حمزہ نے جب اسے خاموش دیکھا تو اس سے برداشت نا ہوا اس نے غصے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی کی طرف چل دیا پیچھے افشاں بھی روتی انکے پیچھے آئی جبکہ بیا تو خود کو تیار کر رہی تھی آنے والے امتحان کے لیے
حمزہ نے گاڑی کا دروازہ کھول اس پٹخنے کی سی انداز میں اندر دھکیلا بیا کے اس سارے وقت میں ایک اشک بھی نہیں بہا تھا
” اور تم بھی یہ رونا دھونا بند کرو اور اندر بیٹھو ”
حمزہ نے روتی ہوئی افشاں کو ڈانٹا افشاں کے بیٹھنے کے بعد وہ خود بھی گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور گاڑی سٹارٹ کی بیا نے اسکی گاڑی کی رفتار سے ہی اندازہ کر لیا کے وہ سخت غصے میں ہے مگر وہ بولی کچھ نہیں حمزہ کے غصے سے بھنچے ہوئے جبڑے دیکھ اسکی ہمت ہی نہیں ہوئی کے وہ کچھ بولتی
*********************
حمزہ اسکے ہاتھ پکڑے اپنے پورشن میں داخل ہوا جہاں سب موجود تھی آج مہندی کی رسم تھی گھر میں چہل پہل تھی مگر اس وقت یہاں تائی اماں ،دادو اور اسکی ماں ہی موجود تھے حمزہ نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا وہ نیچے فرش پر جا گری اس نے سوچا بھی نہیں تھا کے آج کے دن اسکے ساتھ یہ سب ہو گا
” حمزہ کیا کر رہے ہو یہ کیا طریقہ بچی کو لگ جاتی تو ”
دادو اپنی ویل چئیر گھسیٹ کر اس تک آئیں جہاں وہ نیچے بیٹھی اپنی چھلی ہوئی کہنی پکڑے ڈبڈائی نظروں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی جن کی آنکھوں سے ایک تواتر سے آنسو بہہ رہے تھے
” دادو زرا پوچھیں اپنی لاڈلی سے کے یہ پڑھائی کے بہانے کیا گل کھلا رہی ہے میں نے امی کی بات پر کبھی یقین نہیں کیا لیکن آج اپنی آنکھوں سے سب دیکھا ہے تو کیسے جھٹلا دوں اسکی تو شرم حیا سب ختم ہو گئی ہے یہ جانتی بھی ہے کے یہ بدقسمتی سے مجھ سے جڑی ہی پھر بھی اپنی اس خوبصورتی کے جال میں ناجانے کتنوں کو پھنسا رکھا ہے ”
وہ جو بول رہا تھا وہ لفظ نہیں تھے ننگی تلواریں تھی جس سے بیا لہو لہان ہو رہی تھی وہ آج اپنی زبان نہیں بول رہا تھا وہ آج اپنی ماں کی زبان بول رہا تھا
” چپ ہو جاؤ حمزہ کیا اول فول بک رہے ہو یہ تو سوچو جس کے بارے میں بول رہے ہو وہ تمہاری ہی بیوی ہے ”
دادو روتے ہوئے بولیں کیونکہ امینہ میں تو اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ اسے اپنی بیٹی کے بارے میں یہ مغلظات بکنے سے روک پاتی وہ تو بس روتے ہوئے خاموش تماشائی بنی سب دیکھ رہی تھی جیسے یہ سب انکی بیٹی کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ ہو رہا ہے چپ تو جب بھی رہتی تھیں جب انوار زندہ تھے مگر اب تو جیسے زبان ہی دنیا والوں نے کاٹ ڈالی تھی
” اماں میرا بیٹا کیوں چپ کرے میں تو شروع سے ہی کہتی تھی کے اس لڑکی کے لچھن اچھے نہیں ہیں اللہ نے زرا سے خوبصورتی کیا دے دی اس نے تو سوچ لیا کے کیوں نے اسکا فائدہ اٹھایا جائے اور بس لگ گئی مردوں کو رجھانے”
راہیلہ کی زبان کو تو آج جیسے سب کچھ بولنے کا لائیسنس مل گیا تھا تو وہ کیوں چپ کرتی ہو گئی شروع اور بیا کے کردار کو اکھیڑ کر رکھ دیا
” بڑی بہو کچھ تو شرم کرو تمہاری اپنی بھی بیٹی ہے کیوں کسی اور کی بیٹی پر اس طرح کے گھٹیا الزام لگا رہی ہو”
دادو نے اونچی آواز میں بہو کو کہا شاید اسطرح وہ خاموش ہو جائے مگر وہ تو شاید آج کسی کی بھی سنے والے نہیں تھی کیونکہ انکا مقصد ہی اور تھا
” بس سب نے جتنا بولنا تھا بول لیا یہ عورت اس قابل نہیں ہے کے اسے حمزہ عمران کا نام ملے ”
سب حمزہ کی بھاری آواز پر خاموش ہو گیے اور اسکی طرف دیکھا جس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا وہ ایک لمحے کو روک بیا کی آنکھوں میں دیکھنے لگا بیا ایک دم ہوش میں آئی اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا حمزہ نے بھی ضبط کی آخری حدود کو چھوتے ہوئے بولنا شروع کیا
” میں حمزہ عمران اپنے ہوش و حواس میں……….”
وہ اونچی آواز میں بول رہا تھا جب بیا ایک جھٹ سے اٹھ اسکی طرف بڑھی اور اس کا گریبان تھام لیا
” بس خاموش ہو جاو حمزہ ایک لفظ اور مت بولنا ورنہ کفارے کے لیے تمہارے پاس کچھ نہیں بچے گا ”
وہ چیخ رہی تھی اور اس کی آواز اس قدر بھاری ہو رہی تھی کی تائی کو بھی ایک لمحے اس کے اس روپ سے خوف محسوس ہوا وہ بھلا کب اسطرح سے بولتی تھی
بیا کے ہاتھوں میں لرزش تھی جسے حمزہ صاف محسوس کر رہا تھا مگر وہ اس کے سامنے مظبوط بنی کھڑی تھی
” تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو تم خود کیا ہو ہاں ……….”
بیا نے اسے کے سینے ہر ہاتھ مار اسے جھٹکا دیا
” تم خود کیا ہو حمزہ بتاو مجھے تم خود کیا ہو سنی سنائی باتوں پر اور وہ سچ جو تم جانتے ہی نہیں صرف آدھا ادھورا دیکھ لینے پر اپنی بیوی پر بہتان لگا رہے ہو کیوں حمزہ کیوں ”
وہ اسکے سینے پر ہی سر رکھ پھوٹ پھوٹ کر رو دی وہ اسکا محرم تھا اسکی پہلی محبت ہاں اسکی پہلی اور پاکیزہ محبت جس نے تین سال پہلے بیا کے دل پر دستک دی تھی جب وہ اسکے نصیب کے ساتھ جوڑا گیا تھا تو وہ کیوں نا اپنے محرم سے محبت کرتی مگر آج اسکی محبت نے ہی اسے سب کے سامنے رسوا کر دیا تھا اور وہ جو سب کے سامنے مظبوط ہونے کا دعویٰ کرتی تھی آج اسکا بھرم ٹوٹ گیا تھا اسکی محبت نے ہی اسے خاک کر دیا تھا
~خاک کیے تو نے سب خواب~
~ریزہ ریزہ ہو گئی میری زات~
حمزہ کو اسکے آنسو دل پر گرتے ہوئے محسوس ہوئے اس نے اسے بانہوں میں بھینچ لیا ناجانے کس احساس کے تحت مگر وہ اسے ایسے ہی اپنے حصار میں قید رکھنا چاہتا تھا
“دادو…………”
بیا اسکا سہارا پاتے ہی اور زور سے رونے لگی یہاں تک کے اسکی ہچکیاں بندھ گئی حمزہ نے نامحسوس انداز میں اس کے سر پر اپنے لب رکھ دیے وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیر اسے خاموش کروا رہا تھا جب افشاں کی چیخ گونجی دادو ویل چیئر سے نیچے گر گئی تھی بیا اسکی آواز پر اپنا رونا بھول دادو کی طرف بڑھی سب ہی جلدی جلدی ان تک آئے اور انہیں ہوسپٹل لے کر گئے
********************
” آپ کے پیشنٹ نے بہت زیادہ ٹینشن لی ہے جسکی وجہ سے انکا بی پی بہت زیادہ شوٹ کر گیا ہے یہ تو اچھا ہوا کے آپ انہیں صیح وقت پر لے آئے ورنہ ان کی برین ہیمبرج ہوسکتا تھا اب اللہ کے کرم سے وہ بہتر ہیں بس کوشش کریں کے وہ کوئی ٹینشن نا لیں ”
ڈاکٹر نے انہیں پیشہ وارنہ انداز میں انہیں آگاہ کیا
حمزہ ڈاکٹر سے بات کرکے روم میں داخل ہوا جہاں امینہ اسکی دادو کے سرہانے بیٹھی تسبح کر رہی تھی اور بیا انکا ہاتھ تھامے گال سے لگئے بیٹھی تھی حمزہ نے غور سے اسے دیکھا جو نرمی تھوڑی دیر پہلے اسکے دل میں بیا کے لیے تھی وہ پھر کہیں جا سوئی تھی
” حمزہ بچے ادھر آو ”
دادو نے ہلکے سے ہاتھ کو جنبش دے کر اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا
وہ قدم قدم چلتا انکے پاس آ کر رک گیا
” وعدہ کرو تم کل بیا کو اپنے ساتھ رخصت کرواو گے بیٹا یہ دادی کی خواہش نہیں التجا سمجھ لو ”
وہ روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر اس سے کہہ رہی تھیں اور بیا کا سر اور جھک گیا اسے رونا آرہا تھا کے کیا وہ اتنی ارزاں ہے کے دادو اس شخص کے آگے ہاتھ جوڑ رہی ہیں ایک بے حس شخص کے آگے
” دادو یہ آپ کیا کر رہی ہیں آپ جو کہیں گی………..”
وہ بول رہا تھا جب راہیلہ بیگم نے اسے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کروا دیا
” تم خاموش ہو جاو حمزہ تم کیوں ایک گری ہوئی لڑکی سے شادی کرو گے میرا بیٹا ہی کیوں قربانی دے ایسے لڑکی کے لیے جس کے ناجانے کتنے لڑکوں کے ساتھ تعلق ہیں ”
بیا نے انکی بات پر تڑپ کر جھکا سر اٹھا کر حمزہ کی طرف دیکھا کے شاید وہ کچھ بولے اس کے دفاع میں کچھ کہے مگر وہ خاموش تھا بلکل رات کی گہری خاموشی کی طرح
” امی آپ چپ کر جائیں جیسا دادو کہیں گی ویسا ہی ہو گا اور دادو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کل بیا میرے ساتھ رحصت ہوگی ”
اس نے ماں کو خاموش کروا کر دادی کو تسلی دی مگر جس کو اس اسکے سہارے کی ضرورت تھی اس نے تو اس بے سہارا کر دیا تھا
” میں نے ڈاکٹر سے بات کی ہے وہ آپ کو آج ہی ڈسچارج دے دیں گے آپ بس خود کو مظبوط کریں ہم گھر جارہے ہیں میں زرا ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں ”
یہ کہتے ساتھ ہی وہ باہر نکل گیا اور بیا لاشعوری طور پر اتنی دیر تک دروازے کو تکتی رہی جہاں سے وہ گیا تھا
******************
” جاو افشاں چھوڑ کے آو اسے بھائی کے کمرے میں یہاں جتنی دیر بیٹھے گی لوگوں نے باتیں ہی کرنی ہیں ”
راہیلہ نے چبھتے لہجے میں بیٹی کو کہا انہوں نے آج ثابت کردیا تھا کے وہ ایک سفاک عورت ہیں جنہیں کسی دوسرے کے احساسات کی کوئی پرواہ نہیں آج سارے فنکشن میں انہوں نے سب کے سامنے بیا کے کردار کو کرچی کرچی کر دیا تھا اب سب ہی باتیں بنا رہے تھے
انہوں نے سب کے سامنے یہ باتیں کی کے کل میرے بیٹے نے اسی کسی اور لڑکے کے ساتھ پکڑا تھا اب خاندان کی عزت رکھنے کے لیے میرے بیٹے نے اس سے شادی کر لی ورنہ کون ہے جو ایسی لڑکی کو اپنائے گا یہ کہہ انہوں بیا کے کردار کی تو دھجیاں اڑا دیں اور خود سب سے داد وصول کی کے انکا ظرف کتنا بڑا ہے جو ایک ایسی لڑکی کو بہو بنا لیا
وہ آج کی انہی سوچوں میں گم تھی جب افشاں نے اسے بیڈ پر بیٹھایا وہ چونک کر ہوش کی دنیا میں لوٹی
” بیا مجھے معاف کردو مجھے نہیں پتا تھا کے بھائی آجائیں گے اور اتنا سب ہو جائے گا میں امی کے رویے کی تم سے معافی مانگتی ہوں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا سب کے سامنے تمہاری اتنی بے عزتی ، میں کیا کروں بیا تم ہی مجھے بتاو میں بھائی کو کیسے بتاوں عادل لے بارے میں وہ تو میری جان ہی لے لیں گے ”
وہ بول رہی تھی اور بیا اسے دیکھ رہی تھی کے اتنا سب ہو جانے کے بعد بھی وہ اسی سے پوچھ رہی ہے کے وہ کیا کرے
” تم فکر مت کرو افشی میں تم سے دوستی کا کوئی امتحان نہیں مانگوں گی میں تم سے نہیں کہوں گی کے تم حمزہ کو سب سچ بتاو لیکن ہاں میں اب تمہارے لیے اور کچھ نہیں کر سکتی میرے کندھے بہت کمزور ہو گیے ہیں یہ اور بوجھ نہیں سہار سکتے بس تم اب مجھ سے دوستی کا کوئی اور ثبوت مت مانگنا ”
بیا بلکل مدھم آواز میں بول رہی تھی آنکھیں تو جیسے بلکل ویران ہو گئی تھیں ان میں خوشی تو کیا غم کے آنسو بھی نہیں تھے ہاں مگر لبوں پر مسکان تھی زندگی سے تھکی ہوئی مسکان
” بیا تم بہت اچھی ہو بہت زیادہ اپنی اس نادان دوست کو معاف کردو ”
افشاں نے اسکے آگے ہاتھ جوڑ دیے جنہیں بیا نے مسکراتے ہوئے الگ کر دیا
” میں اتنی بھی اچھی نہیں ہوں افشی مجھ سے معافی مانگ کر مجھے ایک اور کٹھن سفر پر مت بھیجو مجھے نہیں معلوم کے میں تمہیں معاف کر پاوں گی کے نہیں کیونکہ میں اچھی نہیں ہوں میں بلکل بھی اچھی نہیں ہوں ”
بیا نے اسکے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا آنکھیں خود پر ضبط کرنے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں
” ٹھیک ہے بیا تم سہی کہہ رہی ہو مجھے تمہیں اور امتحان میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے تم آرام کرو میں تھوڑی دیر میں بھائی کو بھیجتی ہوں ”
یہ کہتے ساتھ ہی وہ کمرے سے نکل گئی
بیا کے چہرے پر ایک تلخ تاثر ابھرا وہ سوچ رہی تھی بھلا حمزہ کیوں اسکی شکل دیکھنا چاہے گا جب اس نے اسے اپنی صفائی میں ہی کچھ بولنے کا موقع نہیں دیا تو بھلا وہ اب کیوں چاہے گا کے بیا اسکا انتظار کرے یہ سوچ آتے ہی اس نے بیڈ پر پیچھے ٹیک لگا لی اور آنکھیں بند کرلی ناجانے کتنے لمبے اور کٹھن سفر کی تھکن تھی کے لیٹتے ہی اس پر نیند غالب آگئی
حمزہ رات کے ڈیڑھ بجے کمرے میں داخل ہوا تو پہلی ہی نظر بیا پر پڑی وہ خاموش قدموں سے اس تک آیا وہ حسن کی ملکہ شاید سو رہی تھی حمزہ نے غور سے اسے دیکھا ڈوپٹہ اس کے سر سے سرک کر کندھے پر جھول رہا تھا اور بال جو شاید جوڑے میں مقید تھے وہ اسکے اسطرح لیٹنے سے کھول کر ایک سایڈ پر سیاہ آبشار کا منظر پیش کر رہے تھے اسکے تیکھے نکوش کو میک اپ نے اور نکھار دیاتھا
” بیا …………..”
اس نے اسے پکارا مگر وہ خاموش لیٹی رہی وہ اسکے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا اسکے نظر ایک دفعہ پھر اسکے دمکتے چہرے پر ٹہر گئی اس نے دیکھا کے اس کا ٹیکا آڑے لیٹنے کی وجی سے ایک سایڈ پر لڑھک گیا ہے حمزہ نے بے ساختہ ہی ہاتھ بڑھا کر اسکے ٹیکے کو سیدھا کیا اور ایک جھٹکے سے واپس ہاتھ کھینچ لیا اسکے چہرے کی نرمی نے آہستہ آہستہ اب غصہ اختیار کرلیا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر بیا کا بازو دبوچا اور اسے کھینچ کر کھڑا کیا
” اٹھو تم ہم سب کی نیندیں حرام کر کے تم کیسے اتنی پرسکون ہو کر سو سکتی ہو تمہاری جرات بھی کیسے ہوئی اپنا یہ گھٹیا وجود لے کر میرے بیڈ ہر لیٹنے کے میں تو تمہیں اپنی زندگی میں نا برداشت کروں کجا کے تم میری چیزوں پر اپنا حق جتاو یہ تو میں دادو کی وجہ سے مجبور ہو گیا ورنہ میں تم جیسی لڑکی سے کبھی شادی نا کرتا ”
وہ نیچی آواز میں دبے دبے غصے سے بول رہا تھا مگر بیا اسکے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ سمجھ گئی کے اسے بیا کا اسکے بیڈ پر سونا ناگوار گزرا ہے اسے تکلیف تو ہوئی کے اس بےحس شخص کو بتائے کی سنی سونائی باتوں پر اور ادھے ادھورے سچ پر اس طرح ایمان لانے کے بجائے وہ ایک دفعہ اسکی بات کیوں نہیں سن لیتا اس کے لفظوں پر یقین کیوں نہیں کرتا مگر جب وہ بولی تو صرف اتنا
” مگر حمزہ میں کہاں سوؤں پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
بیا نے اسکی گرفت سے اپنا بازو نکالا کیونکہ اسکی جارحانہ گرفت اسے تکلیف دے رہی تھی
” میرے بلا سے بھاڑ میں جاو مگر میرے بیڈ پر تم نہیں لیٹو گی ”
یہ کہتے ہی وہ کب بورڈ کی طرف گیا اپنا ایزی سوٹ نکال اس نے ایک نظر ساکت کھڑی بیا پر ڈالی اور واشروم میں گھس گیا
وہ تقریباً دس منٹ بعد باتھ لے کر آیا تو نظر صوفے پر لیٹی بیا پر پڑی اس نے کپڑے بدلنے کی زحمت نہیں کی تھی ہاں البتہ جیولری اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دی تھی وہ چھوٹے سے صوفے پر اڑھی ترچھی لیٹی ہوئی تھی حمزہ کو ناجانے کیوں اسکی اس حرکت پر اور غصہ آیا مگر وہ غصے پر کنٹرول کرتا آرام سے آکر بیڈ پر لیٹ گیا اس نے آنکھیں بند کی تو بیا کا دلہن بنا سراپا اسکی نظروں میں آ سمایا ہونٹو پر مبہم سا تبسم کھلا وہ اسی طرح نیند کی وادی میں گم ہو گیا
******************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...