نیلم اور جہلم کے سنگم پر جو نیا ادبی مرکز وجود پذیر ہوا ہے اس کے تجمل کی گواہی ایک زمانہ دے رہا ہے ۔مظفرآباد نے بڑے بڑے ادبی مراکز کی توجہ کچھ اس شان سے اپنی طرف کر لی ہے کہ ’’مظفرآباد یاترا‘‘ سبھی کے لیے ایک سہانا خواب بن گیا ہے۔پچھلے کچھ عرصے میں یہاں معرکے کی ادبی تقریبات منعقد ہو چکی ہیں۔ یہ خطہ ایک شان دار ادبی روایت کا حامل ہے ۔روایت اپنے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ہر دور ایسے شانے تلاش کر لیتی ہے جو بھاری بوجھ اٹھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ احمد عطا اللہ کا شمار اس خطے کے ایسے ہی ’’آشفتہ سروں‘‘میں ہوتا ہے جن کی مقناطیسی شخصیت مرکزِ نگاہ ہے ۔احمد عطا اللہ بہت ہی منفرد اور تازہ کار شاعر ہے ۔اس کی شاعری کا استحسان کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن کشمیر کے ادبی منظر نامے پر ابھرنے والے نئے ستارے فرہاد احمد فگارؔ نے اپنے ایک تعلیمی سنگِ میل کو جس تُزک و احتشام کے ساتھ ادبی دستاویز کی صورت میں پیش کیا ہے اس کا ماجرا ہی الگ ہے۔فرہاد احمد فگارؔ جیسے افراد کا کسی معاشرے میں ہونا باعثِ برکت ہے۔اسے اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ وہ اپنی ذات سے بلند ہو کر سوچتا ہے ۔فرہاد زبان و بیان کے مسائل میں خصوصی دل چسپی لیتا ہے اس حوالے سے اس کی تحریریں خاص و عام میں مقبول ہیں ۔اس نے اعتراف وتحسین کے جو پیرائے اختیار کیے ہیں’’احمد عطا اللہ کی غزل گوئی‘‘ اس کی ایک نادِر مثال ہے ۔یہ کتاب احمد عطا اللہ کی شاعری کی تفہیم میں بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہے جس سے صرفِ نظر کرنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔فرہاد اپنی مِٹی کی خوش بو میں لپٹا ہوا شخص ہے وہ جہاں جاتا ہے یہ خوش بو اس کے ساتھ رہتی ہے۔ مشاہیرِ کشمیر کے کارناموں پر اس کی گہری نظر ہے ۔فرہاد بلند و بالا پہاڑوں سے جوئے شیر نکالنے میں لگا ہوا ہے ۔مجھے امید ہے کہ دودھ کی یہ نہر شہر تک آئے گی اور ضرور آئے گی۔
احمد حسین مجاہد
۳۱،مئی،۲۰۲۱ء
ایبٹ آباد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...