کشمالہ اٹھ جاؤ نا اب! زہرا نے اسے ہلا کر رکھ دیا لیکن مجال ہے جو اسے کوئی فرق پڑا ہو۔
تم ایسے نہیں اٹھو گی ابھی تمہارا انتظام کرتی ہوں زہرا نے بیڈ کہ پاس پڑا جگ اٹھایا اور سارا پانی اس پر گرا دیا
کشمالہ ایک فلک شگاف چیخ مار کر بیڈ سے اٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی زہرا گھبرا گئی۔ اتنے میں دادی اسکی آواز سن کر آ گئی کشمالہ انہیں دیکھتی ہی ان سے لپٹ کر بچوں کی طرح رونے لگی
ارے میری گڑیا بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے” دادی وہ پانی ۔۔۔میں ۔۔دادی مجے بچا لو”
زہرا کو کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن دادی سب سمج گئی ان ک چہرے پرایک رنگ آ کر گزرا
” زہرا بیٹا تم اکیلی ہی شاپنگ پر چلی جاؤ کشمالہ کی طبیعت ابھی ٹھیک نہیں یہ بعد میں خود ہی اپنی شوپنگ کر لے”
زہرا جی ٹھیک ہے کہ کر چلی گئی اور دادی کشمالہ کو دیکھ کر ایک افسردہ اہ بھر کر رہ گئی ماضی ک تکلیف دہ یادوں نے ان بوڑھی آنکھوں میں پانی بھر دیا
—————————————————-
“کیا ضرورت تھی انے کی اب بھی نہ اتی” زہرا نے اسے غصے سے گھورا جو ک ہاتھوں میں خوبصورت پھولوں کا گلدستہ لئے اپنی اونچی ہیل ک سینڈل سے ٹک ٹک کرتی آہستہ آہستہ آ رہی تھی
“سب پتا ہے مجے تمہاری چالاکیوں کا جلدی اتی تاکے تمہارے ساتھ مل کر کام کرواتی ہیں نا” کشمالہ نے اسکے ہاتھ میں گلدستہ پکڑاتے ہووے کہا
” ہاں تو دوست تو ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ کام آ سکیں”
میں آپکی دوست ہوں نوکر نہیں مس زہرا” کشمالہ اسے گھورتے ہووے بولی ۔
ارے کشمالہ بیٹا تم اتنی دیر سے کیوں آی نسیم بیگم نے اس سے پوچھ “ارے امی تا کہ اسے میرے ساتھ کام نہ کروانا پڑے ” زہرا نے مسکراتے ہووے کشمالہ کے الفاظ دوہراۓ نسیم بیگم نے زہرا کو گھورا زہرا کندھے اچکاتے ہوے باہر لان میں چلی گئی
آنٹی اگر کوئی کام ہو تو مجے بتایے گا نسیم بیگم نے کشمالہ کو پیار بھری نظروں سے دیکھا” بیٹا تم نے کہ دیا اتنا ہی کافی ہے بس تم ذرا زہرا پر نظر رکھنا کوئی گڑبڑ نہ کر دے آج اس ک پاپا ک بزنس پارٹنرز بھی ہے ہیں شائد کوئی کونٹریک سائن کریں اس لئے ذرا مستی کم کرنا تم لوگ” انہوں نے ساتھ میں اسے بھی تائید کی کیوں ک وہ جانتی تھی ک دونوں جب ملتی ہیں تو کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور کرتی ہیں۔ اس نے شرمنندگی سے جی اچھا کہا اور زہرا ک پاس لان میں آ گئی
—————————————————
“تم نے آنٹی ک سامنے وہ کیوں بولا” اسنے غصے سے زہرا سے پوچھا
ارے یار میں مذاق کر رہی تھی تم چھوٹی چوٹی باتوں پر ناراض کیوں ہو جاتی ہو
“بس میں تو ایسی ہی ہوں اب چونکے میں ناراض ہو گئی ہوں تو کوکا کولا پلاؤ اور مجے منا لو”
سوری اس وقت میں تمھیں نہیں منا سکتی کیوں ک کوکا کولا یہاں دستیاب نہی ہے اور مہمانوں کو چھوڑ کر میں کوکا کولا منگوانے نہی جا سکتی چپ کر ک یہ سلش پیو
“نہیں ! تم کتنی بری میزبان ہو اپنے مہمان کی فرمائش پوری کرو مجے کوکا کولا ہی پینی ہے بس” کشمالہ نے غصے سے کہا
“کچھ تو خیال کرو تم اس وقت پاپا کی بزنس پارٹی میں ہو انہوں نے ہم نوجوانوں ک لئے ہی یہ سلش رکھوائی ہے”
“جھوٹی وہ دیکھو وہ انکلے بھی پی رہی ہیں”
اف کشمالہ اب میں ان سے چھین تو نہیں سکتی نہ ک اپ جوان نہیں تو اپ نہیں پی سکتے
اچھا تم پی کر تو دیکھو” زہرا نے پھر کہا
کشمالہ نے غصے سے زہرا ک ہاتھ کو پرے کیا اور وہ سارا سلش پاس کھڑے جہانزیب ملک پر گر گیا جو کہ پاس کھڑا انکی باتوں سے محظوظ ہو رہا تھا
زہرا تو فوراً اندر بھاگ گئی
لیکن کشمالہ اپنی ہائی ہیل کی وجہ سے نہ بھاگ پائی اب جہانزیب ملک اسے ظالم ایگزامنر کی طرح گھور رہا تھا اب آخری حربہ یہ تھا ک الٹا اسے ہی ڈانٹا جائے
“اپ ذرا ہٹ کر نہی کرہا ہو سکتے تھے میری فوورٹ سلوش گرا دی”
ابھی جہانزیب ملک کوئی جواب دینے ہی والا تھا ک زہرا ک پاپا نے اسے بولا لیا اور وہ انکی طرف متوجہ ہو گیا کشمالہ نے موقعے سے فائدہ اٹھا کر اندر کی طرف آہستہ آہستہ قدم بڑھا دے لیکن اسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے موسلسل گھور رہا ہو اور وہ جانتی تھی ک گھورنے والا کون ہے۔
“کشمالہ پلیز تم اس سے معافی مانگ لو” زہرا نے اس سے التجا کی
ہرگز نہیں میں نے جان بوجھ کر تو نہیں نا گرایا تھا سلش کشمالہ نے مانے سے انکار کیا
کشمالہ تم اپنی غلطی کبھی تو مان لیا کرو زہرا نے غصے سے کہا
“جب میری غلطی ہوتی ہی نہیں تو مافی کیوں مانگوں میں تو کہتی ہوں غلطی تھی ہی اس کی وہ وہاں پر کھڑا ہی کیوں ہوا ”
زہرا غصے سے دانت پیس کر رہ گئی’ ٹھیک کہ رہی ہو کشمالہ بی بی اب دیکھتے ہیں جب مما پاپا کو پتا چلے گا تو وہ کیا کہتے ہیں” زہرا نے اسے ڈرایا “انہیں کون بتاے گا” کشمالہ نے لاپروائی سے کہا
وہ آپکے بیسٹ فرینڈ نہیں تھے جو اپ کی حرکتیں مما پاپا سے چھپائیں وہ میرے اور تمہارے پاپا ک نے بزنس پارٹنر تھے ابھی کچھ عرصہ پہلے امریکا سے آے ہیں جناب
اب کہ کشمالہ بھی ڈری یقیناً اب انہیں خوب ڈانٹ پڑے گی
تو چلو پھر جا کر معافی مانگ لو زہرا نے کہا
ابھی تک تو وہ جا چکے ہونگے” کشمالہ نے بہانا بنایا
نہیں وہ اندر ڈرائنگ روم میں ابھی اکیلے بیٹھے ہیں چلو او زہرا کہنے ک ساتھ ہی اسے ڈرائنگ کی طرف لے آی
چلو جاؤاندر زہرا نے دروازے ک سامنے کڑھے ہو کر کہا
“لیکن اگر اس نے ڈانٹا تو” کشمالہ ڈر رہی تھی
تم فکر نہ کرو ابھی میری غیرت زندہ ہے میں اپنے ہی گھر میں اپنی بیسٹ فرینڈ کو ڈانٹ نہیں پڑنے دوں گی” زہرا نے اسے ہمت دلائی
لیکن ۔۔ کشمالہ نے پھر کچھ کہنا چاہا
لیکن ویکن کچھ نہیں زہرا نے کہا اور ساتھ ہی اسے اندر کی طرف دکھا دے دیا
کشمالہ اپنی ہیل والی سنڈل کی وجہ سے توازن برقرار نہ رکھ سکی اور سیدھا سامنے صوفے پر بیٹھے جہانزیب ملک کے قدموں میں گر گئی
جہانزیب ملک کا یس صورت حال میں مونھ کھل گیا ایک لڑکی اسکے قدموں میں گری پڑی تھی اسے سمج نہ آیا ک اس موقه پر کیا کرے
ابھی جہانزیب اسے اٹھانے کے لئے کھڑا ہی ہوا تھا ک کشمالہ خودی اٹھ کھڑی ہوئی
اپ ٹھیک تو ہیں” جہانزیب نے پوچھا
اتنے میں پیچھے سے زہرا آ گئی جو ک باہر کھڑی کشمالہ کا کارنامہ دیکھ رہی تھی
وہ یہ اپ سے معافی مانگنے آی تھی زہرا نے جلدی سے بتایا کشمالہ سے تو شرمندگی ک مارے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا
جہانزیب نے بمشکل خود کو قہقہ لگانے سے روکا اور کشمالہ کو دیکھتے ہووے بھرپور مسکراہٹ ک ساتھ جی کوئی بات نہیں کہا
کشمالہ سے مزید وہاں روکنا مشکل ہو گیا وہ آہستہ آہستہ چلتی وہاں سے نکل گئی کیوں ک جلدی کا انجام دیکھ چکی تھی زہرا بھی جہانزیب کو شکریہ کہ کر اس ک ساتھ ہی چلی گئی
جہانزیب پھر سے صوفے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا ک کتنی عجیب لڑکی ہے پہلے غلطی کر ک مانتی نہیں ہے اور الزام اگلے بندے پر ڈال دیتی ہے اور پھر بعد میں اتنا شرمندہ ہوتی ہے ک پاؤں پڑ کر مافی مانگتی ہے
کشمالہ اب بس بھی کرو زہرا اسے چپ کرا کرا کہ تھک گئی تھی مگر اس ک آنسو روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے کشمالہ تھوڑی سی بےعزتی ہی تو ہوئی ہے کشمالہ نے اسے گھورا اچھا ٹھیک ہے مانا ک تھوڑی زیادہ ہی ہوئی ہے پر اب کمزکم مما پاپا ک ہاتوں تو نہی ہو گی نا زہرا نے اسے سمجھایا یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے تم نے ہی مجے پیچھے سے دکھا دیا تھا جا تو رہی تھی میں مافی مانگنے پھر کیا ضرورت تھی کہ اپنے ان موٹے موٹے گوریلا جیسے ہاتھوں سے مجھ ننھی سی جان کو دکھا دینے کی کشمالہ نے اپنا سارا غصہ اسی پر نکالا پر نا جی وہ دوست ہی کیا جو چپ چاپ باتیں سن لے تمھیں کس نے کہا تھا کہ ہیل والی سینڈل پہن کر مٹق مٹق کر چلو زہرا نے بھی اب ک غصے سے کہا ہاں ہاں ساری غلطی ہی میری ہے ابھی کوئی کسر رہ گئی ہے تو بتاؤ تمہارے بھی پاؤں پڑ جاؤں کشمالہ نے غصے سے اسے گھورتے ہووے کہا لیکن کشمالہ کی بات پر زہرا کی ہنسی چھوٹ گئی زہرا کو ہنستا دیکھ کشمالہ بھی مسکرانے لگی
ابو اپکا نام سلیمان ہے تو اپنے میرا نام حیا کیوں نہیں رکھا کشمالہ گلا کرتے ہوے بولی بیٹا میرے نام سے آپکے نام کا کیا تعلق میں سمجھا نہیں سلیمان صاحب نے پوچھا پھر میں بھی ہی سلیمان ہوتی اور مجے بھی جہاں سکندر ملتا لیکن ابو اپ نہیں سمجیں گے وہ بڑبراتے ہوے بولی ابو نہ سن سکے ابو اپ مجے حیا بولیا کریں نا اس دفہ کشمالہ ذرا اونچی آواز سے بولی اور فرمائش ظاہر کی دادی نے موداخلت ضروری سمجی اتنا اچھا نام مینے تیرا رکھا ہے کشمالہ پھر تونے کیوں حیا حیا کی رٹ لگائی ہوئی ہے دادی صفاتی نام بھی تو ہوتے ہیں نا کیوں کہ مجھ میں شرم و حیا کوٹ کوٹ کر بھری ہے اس لئے اپ سب مجے حیا بولیں گے اچھا تو پھر ٹھیک ہے کشمالہ کو دادی ک جلدی مان جانے پر حیرت ہوئی شرم بیٹا جی ذرا جلدی سے اٹھو اور مجے دوائی دے دو ٹائم ہو گیا ہے نا دوائی کا ابو کا قہقہ بلند تھا ارے سلیمان بیٹا ہنسنے کی کیا بات ہے حیا کہوں یا شرم ایک ہی بات ہوئی نا اور شرم بیٹا واقعی شرمندہ ہو گئی وہ سوچ رہی تھی ک دادی کی کوئی اور حس سہی سے کام کرے یا نہ کرے حس مزہ ابھی بھی ٹھیک کام کرتی ہے
کشمالہ، کشمالہ! زہرا چلاتے ہوے کمرے میں داخل ہوئی
کشمالہ اپنا پسندیدہ کام کر رہی تھی اس لئے زہرا کی موداخلت بری لگی
کیا ہے ؟ اپنے گھر تمھیں چین نہیں ہے کیا کشمالہ اسے گھورتے ہووے بولی
ٹھیک ہے چلی جاتی ہوں تمھیں تو مجھ سے زیادہ یہ ناول عزیز ہے نا زہرا دکھی ہوتے ہووے بولی
جب پتا ہے تو پوچھ کیوں رہی ہو کشمالہ نے پھر سے ناول اٹھا کر مونھ کے سامنے کر لیا
کوئی اور ہوتا تو ضرور شرمندہ ہو کر چلا جاتا پر دوست چونکے ایسی عزت افزائی محسوس نہیں کرتے سو زہرا نے بھی شرمندہ ہو کر جانے کی بجاے اگے بڑھ کر اس ک ہاتھ سے جنّت ک پتے ناول لے لیا
جواباً کشمالہ نے خونخار نظروں سے گھورا
اچھا اب گھورو نہیں یہ دیکھو میں تمہارے لئے کیا لائی ہوں زہرا نے اس ک ہاتھ میں گلابی رنگ کا ایک خوبصورت کارڈ پکڑا دیا
لیکن آج تو میری سالگرہ نہیں ہے کشمالہ نے کارڈ پر ایک نظر ڈال کر اس سے کہا
یار پڑھو تو زہرا نے اس سے کہا
ااچھا کشمالہ اونچی آواز مے پڑھنے لگی پیاری کشمالہ آج تمھیں الله کا خوب شکر ادا کرنا چائیے کیوں ک آج ہی ک دن مجھ جیسی سمجھدار اور وفادار دوست تمہاری زندگی میں ای جب سے تم سے دوستی ہوئی تب سے میں نے کسی اور لڑکی کو اس نظر سے نہیں دیکھا آج ہماری دوستی کو پورے پانچ سال ہو گیے ہیں پہلی دفع ہم تمہارے گھر پر ملے تھے جب میرے اور تمہارے پاپا نے بزنس پارٹنر بنے کی خوشی میں پارٹی دی تھی تب تم سے دوستی میں نے صرف اس لئے کی تھی کہ تمھیں بھی ناول پڑھنے کا شوق تھا لیکن آہستہ آہستہ تم میری سب سے اچھی دوست بن گئی
میرے بس میں ہوتا تو رکھ لیتی تجھے اپنے دل میں چھپا کر
کہ تجھے سب دیکھتے ہیں اور مجھ سے یہ دیکھا نہیں جاتا
صرف تمہاری دوست زہرا
کشمالہ کو کارڈ بہت پسند آیا اور زہرا کا اظہار بھی لیکن دوست ک مونھ پر ہی اسکی تعریف کی جائے تو دوست کے شوخا ہونے کا ڈر رہتا ہے سو کشمالہ نے بھی تعریف کرنا ضروری نہیں سمجا لیکن وہ جانتی تھی ک زہرا اسکے چہرے سے ہی یہ بات جان چکی ہے کہ اسے یہ کارڈ بہت پسند آیا
“اف یہ کسی لوفرانہ شاعری کی ہے تم نے جیسے میں تمہاری محبوبہ ہوں جسے تم دنیا کی نظروں سے چھپا لینا چاہتی ہو”کشمالہ نے شرارتی لہجے میں کہا پھر زہرا ک کچھ بولنے سے پہلے ہی فرمائش کر دی
اچھا کارڈ دیا ہے تو گفٹ بھی تو دو ”
ہم یہاں شادی کی سالگرہ نہیں منا رہے جو تم یوں بیویوں کی طرح گفت مانگ رہی ہو دوستی کی سالگرہ تھی بس
اچھا اب تمہاری باری ہے میں نے تمھیں کارڈ دیا تم مجھے ٹریٹ دو زہرا نے کہتے ساتھ ہی فرمائش کی
اچھا ٹھیک ہے آج لنچ باہر کرتے ہیں کشمالہ نے کہا
ٹھیک ہے پھر ابھی اٹھو پہلے تھوڑی شوپنگ کریں گے پھر لنچ پھر میرے گھر مووی دیکھے گے زہرا نے پلان ترتیب دیا
ٹھیک ہے میں تیار ہوتی ہوں تم جا کر دادی سے اجازت لے لو تب تک
دونو ایک ساتھ ہی اٹھ گئی
—————————————————-
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...