فاطمہ جانتی تھی کہ احسن انکار نہیں کرے گا کیونکہ وہ دوبارہ انکار کر کے احمد ماموں کے آگے برا نہیں بننا چاہتا تھا اس لیے وہ احسن سے بات کرنے کے بات رقیہ بیگم کے پاس عرضی لے کر گئ تھی
“امی پلیز ماموں کو انکار کر دیں میں راضی نہیں ہوں ” فاطمہ نے تو بنا کسی لگی لپٹی کے کہہ دیا تھا اس کے منہ سے یہ بات سن کر رقیہ بیگم آگ بگولہ ہو گئی تھیں
حالانکہ انہوں نے کبھی بھی اسے نہ ڈانٹا تھا لیکن یہ بات سن کر وہ اپنے غصے کو کنٹرول نہیں کر پائی تھیں
“یہ کیا بکواس کر رہی ہو فاطمہ ” رقیہ بیگم نے بے یقینی سے فاطمہ کو دیکھا
“امی سمجھنے کی کوشش کریں ،احسن خود اس شادی کے لیے راضی نہیں ہے خود تو وہ چپ ہے اوڑ مجھے برا بنا رہا ہے ” اس کی باتیں رقیہ بیگم کی سمجھ سے باہر تھیں
” چپ کرو فاطمہ مجھ سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے ، احمد بھائی سے احسن نے خود شادی کا کہا ہے اور سب سے بڑی بات اس نے مجھے آ کر خود رضا مندی دی ہے ” فاطمہ ان کی بات سن کر شاکڈ تھی یعنی کہ وہ ہر ایک کی نظر میں اچھا بن رہا تھا
فاطمہ اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت ہیں رکھتی تھی اس کے انکار سے تو کچھ ہونے والا نہیں تھا
“اب بہتر یہی ہے کہ تم چپ چاپ رضامندی ظاہر کر دو مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر تم انکار کیوں کر رہی ہو، کیا تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو فاطی ” رقیہ بیگم بھی آخر ایک ماں تھیں اس لے انہوں نہ اپنا لہجہ دھیما کرتے ہوئے پوچھا تو اس نے نا سمجھی سے ماں کی طرف دیکھا
” امی کونسی بات ؟اور آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں ”
“کیا تمہیں ۔۔کوئی اور تو۔۔۔ ” رقیہ بیگم کی بات ابھی ادھوری ہی تھی جب فاطمہ نے ٹوکتے ہوئے کہا
“امی آپ سوچ بھی کیسے سکتی ہیں ، افسوس اس بات کا ہے کہ آپ اپنی بیٹی کو پہچان ہی نہیں پائیں ، اگر یہ بات ہے تو جائیں ماموں کو کہہ دیں میں راضی ہوں اس نکاح کے لیے ” فاطمہ نے رخسار پر آئے ہوئے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کیا اور بنا ان کی بات سنے وہاں سے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد صاحب بہت خوش تھے کہ ان کے ارمان پورے ہونے جا رہے ہیں ، رقیہ بیگم اور امتیاز صاحب کو خوشی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی دکھ تھا کہ وہ لوگ اپنی بیٹی کی رخصتی اپنے گھر سے نہیں کر رہے تھے لیکن ہونا تو وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
گھر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں ، بازار کے چکر ختم ہونے کو نہیں آ رہے تھے اور احسن یہ لانے لیجانے کی ڈیوٹی کو بخوبی نبھا رہا تھا ، فاطمہ گم سم بس ان تیاریوں کو ہی دیکھتی جس میں اس کی خوشی شامل نہیں تھی بات اس شادی پر راضی ہونے یا نہ ہونے کی نہیں تھی بلکہ دکھ تو یہ تھا کہ پہلے احسن نے انکار کیا تھا تو دوسری دفعہ وہ صرف احمد صاحب کے کہنے پر شادی کر رہا تھا ،اگر یہ بات نہ ہوتی تو شاید فاطمہ بھی راضی ہوتی ، لیکن نہیں ،کیونکہ احسن اس کے ساتھ اس کے خیال میں گیم کھیل رہا تھا ایسی گیم جس کے ٹرکس اسی کے پاس ہوتے ہیں اور وہ کسی کو بتاتا بھی نہیں اگر غلطی سے کوئی پتہ لگانے کی کوشش بھی کرے تو وہ گیم ڈیلیٹ بھی کر دیتا ہوتا ہے ،فاطمہ کی اپنی ہی لاجک تھی
________________
احسن کے تمام کزنز اور دور نزدیک کے سارے رشتے دار اکھٹے ہو چکے تھے ، گھر میں شادی کا مکمل سماں تھا ، سارے کزنز رات کو ڈھولک لے کر بیٹھ جاتے اور پھر یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی اور کہیں جا کر ہی برخاست ہوتی
ہال میں بیٹھی تمام لڑکیاں اپنے اپنے سائز کی چوریاں پہن پہن کر دیکھ رہی تھیں ، اور لڑکے منہ بسور کر ان پر تبصرہ کرتے کہ ان لوگوں کے لیے تو کوی چیز آئی ہی نہیں
احسن نے فاطمہ کو سب میں بیٹھے دیکھا تو وہی چلا آیا جس پر سب نے ہی شوخ سیٹیاں بجانا شروع کر دیں ، اور فاطمہ کو تو یہ ایک ڈرامے سے کم نہیں لگ رہا تھا
احسن نے ایک ڈبے سے گرین رنگ کی چوڑیاں اٹھائیں اور فاطمہ کا ہاتھ دھیرے سے پکڑا تو وہ گھبرا گئ اگر سب کی نظریں ان کی طرف نہ ہوتیں تو وہ کب کا اپنا بازو احسن سے چھڑوا چکی ہوتی ، اس لیے وہ چپ رہی کیونکہ اب ان میں تماشا لگانے سے تو وہ رہی
احسن نے بڑے آرام سے اس کے سفید دودھیا نرم و نازک سے بازو میں وہ چوڑیاں پہنا دی تھیں ، فاطمہ کو زبردستی سمائل دینا پڑی ، جس پر احسن نے ایک شعر داغا تو سارے کزنز ہو ہو کا نعرہ لگانے لگے
“کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا ” وہ ہولے سے گنگنایا تھا اور ایسا ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ سارے سن نہ پاتے ، فاطمہ یہ سب کچھ بہت برداشت اور تحمل سے ہضم کر پا رہی تھی ، اس نے جب غور کیا کہ اب کسی کا دھیان ان کی طرف نہیں تو آہستگی سے اپنا بازو چھڑوانے کی سعی کرنے لگی جو اب بھی احسن کے ہاتھ میں تھا ، اس نے تنبیہی نظروں سے اسے ایسا کرنے سے روکا جبک فاطمہ مزید تپ گئی تھی اور غصے سے اپنے دانت اس کے ہاتھ میں گاڑھ دیے ، جبکہ درد کی شدت سے بلبلاتے احسن نے اس کا بازو چھوڑ دیا تھا ، فاطمہ زور سے اپنا پاؤں زمین پر مارتی وہاں سے غائب ہو گئی اور احسن پیچھے بڑبڑاتا ہی رہ گیا تھا (جنگلی بلی کا خطاب وہ اسے دے چکا تھا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کا انتظام خوبصورتی کے ساتھ کیا گیا تھا ، رنگ برنگی روشنیاں ماحول کو بہترین بنا رہی تھیں ، ڈھول کی آواز فضا کو خوشگوار بنانے میں کافی تھی ، تمام لڑکیاں پیلے رنگ کے لباس میں ملبوس تھیں جبکہ لڑکے وائیٹ شلوار قمیض اور پیلے رنگ کے پٹکے گلوں میں پہنے بھنگڑے ڈال رہے تھے، فاطمہ کا دل قدرے بیزار تھا اسے ہر چیز ڈرامہ ہی لگ رہی تھی ،سب اسے بارہا تیار ہونے کا کہہ رہے تھے لیکن وہ ڈھیلی بن کے بیٹھی رہی اٹھی تو تب تھی جب احمد صاحب کمرے میں آئے تھے
“فاطمہ بیٹے آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئے ، باہر سب لوگ مہندی کے لیے اکھٹے ہو چکے ہیں جلدی اٹھو بیٹا ،ہم انتظار کر رہے ہیں ” احمد صاحب کا پیار ہی تھا جو اسے ہر کام کرنے پر آمادہ کر رہا تھا ، چپ چاپ وہ اٹھی اور پیلے اور سبز کلر کے امتزاج کی فراک زیب تن کی ، ڈھیلی سی چٹیا کر کے وہ باہر آئی تو ارم جو احسن کی خالہ زاد تھی اس نے فاطمہ کی چٹیا میں موتیے کے پھول لگا دیے جو اس کے حسن کو اور نکھار رہے تھے ارم کے لاکھ کہنے پر بھی اس نے میک اپ نام کی کوئی چیز استعمال نہیں کی تھی یہ اس کی نیچرل بیوٹی ہی تھی جو مزید نکھر گئی تھی ،ہاتھوں میں گجرے ڈالے وہ بلکل خاموش سی لگ رہی تھی مگر چپ ۔۔
دوسری جانب دیکھیں تو احسن اپنے مردانہ رعب کی وجہ سے بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا ، وائیٹ شلوار قمیض اس پر بہت جچ رہی تھی ، پیشانی پہ بکھرے بال اس کی نشیلی آنکھیں مزید ابھار رہے تھے ، آنکھوں میں خمار لیے وہ اک عجیب سر شاری میں تھا ، لڑکیوں کے گھیرے میں آتی فاطمہ پر اس کی نظریں پڑیں تو وہ ساکت سا ہو گیا ، حالانکہ اس نے میک اپ بھی نہیں کیا تھا پھر بھی وہ اس کے دل میں اتر رہی تھی ، اس سے پہلے وہ اس کی سادگی پر نہیں مرا تھا جتنا آج اسے اپنا دل دھڑکتا محسوس ہوا تھا ، فاطمہ اسٹیج پر آئی تو اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا ، اگر اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ کبھی بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہ دیتی لیکن یہاں سب کی موجودگی میں اسے ایسا کرنا پڑا تھا احسن نے اپنی نظریں مشکل سے ہٹائی تھیں
باری باری سب لوگ ہی مہندی لگا رہے تھے ، جب سب فارغ ہو چکے تھے تو لڑکوں نے شور مچا دیا کہ دلہا دلہن نے تو ایک دوسرے کو مہندی لگائی ہی نہیں ،جس پر سب نے فاطمہ اور احسن کو مہندی لگانے کا کہا تھا ،احسن نے تھوڑی سی مہندی لے کر اسے فاطمہ کے ہاتھ پر رکھا اور پھر جب منہ میٹھا کروانے کی باری آئی تو فاطمہ نے سے آنکھ کے اشارے سے ایسا کرنے سے منع کیا جبکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اس کی بات مان لیتا ، احسن نے مٹھائی اس کےمنہ میں ڈالی تھی جو اسے زہر سے کم نہیں لگ رہی تھی ، اب فاطمہ کی باری تھی مہندی لگانے کے بعد وہ مٹھائی کھلانے پر آ ہی نہیں رہی تھی ، احسن نے آہستگی سے اس کا بازو پکڑا تھا اور اس کا ہاتھ اپنے لبوں تک لے آیا اور گہری نظروں سے دیکھتا وہ اس کے ہاتھ سے مٹھائی کھا رہا تھا ، جبکہ اس نے واضح محسوس کیا تھا کہ فاطمہ کا ہاتھ کانپا ہے ، احسن نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ، فاطمہ کے دل کی حالت کچھ اور ہی پتہ دے رہی تھی ،اس نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا کیونکہ وہ اپنی حالت سے خود ہی بے خبر تھی دوسروں پر ظاہر نہیں کروانا چاہتی تھی ، رات کا کافی ٹائم ہو گیا تھا فاطمہ فوٹوگرافی سے تنگ آ چکی تھی احمد صاحب بھانپ گئے تھے اسی لیے انہوں نے جلدی جلدی سب کو سونے کا کہا اور فاطمہ کو بھی آرام کرنے کا مشورہ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔___________
فاطمہ تو ساری رات کروٹیں بدلتی رہی تھی اسے نیند آئی ہی نہیں تھی پتہ نہیں کونسا پہر تھا جب اس کی آنکھ لگی تھی جبکہ احسن رات گئے کزنز کی محفل برخاست کر کے سویا تھا ، اسے تو نیند اچھی ہی آنی تھی ، ظاہری بات ہے اس کے اندر کی خوشی اسے سکون دے رہی تھی اس لیے وہ باقی کی رات خوب جم کے سویا تھا ، سورج سوا نیزے پر تھا جب احسن کو احمد صاحب نے ڈانٹ کر اٹھایا تھا جبکہ فاطمہ صبح سات بجے کی اٹھ چکی تھی فنکشن رات کا تھا اس لیے وہ بھی کئیر فری تھا ، جیسے تیسے اٹھ کر وہ فریش ہوا تھا جہاں فاطمہ کو سب لڑکیاں پارلر لے گئی تھیں وہیں احسن کو بھی اس کے کزنز زبردستی سیلون لے گئے تھے ، انہوں نے باقاعدہ مقابلہ رکھا تھا کہ دیکھتے ہیں دلہن زیادہ پیاری لگتی ہے یا دلہا ؟
بحرحال وہ وقت بھی آ چکا تھا ،
فاطمہ ریڈ ،وائیٹ اور بلو کلر کے لہنگے میں خوبصورت زیور زیب تن کیے چہرے پر گھونگھٹ اوڑھے ہوئی تھی کیونکہ لڑکیوں نے دلہن کا چہرہ نہ دکھانے کا عہد کیا ہوا تھا ، احسن نے بلو کلر کی شیروانی پہنی ہوئی تھی جو اس کو سب سے الگ اور کسی ریاست کا شہزادہ ظاہر کروا رہی تھی ،فاطمہ نے گھونگھٹ نہیں اٹھایا تھا احسن اسی تگ دو میں تھا کہ وہ چہرہ دیکھے لیکن اس کی ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی
____________
رسمیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن احسن کے سب کزنز خاص طور پر لڑکوں نے شور مچایا کہ شیشہ دکھائی کی رسم ہونی چاہئیے لہذا نکاح کے فورا بعد وہ لوگ شیشہ لائے تھے جس میں سے دونوں دلہن اور دلہا نے ایک دوسرے کو دیکھنا تھا یہ صرف اور صرف اسی وجہ سے کیا گیا تاکہ احسن فاطمہ کو دیکھ سکے ، اس پر لڑکیوں نے کافی شور مچایا تھا لیکن کسی نے ایک نہ چلنے دی ، فاطمہ کو اپنا گھونگھٹ مارے بندھے اٹھانا پڑا تھا ، احسن کی اٹھی ہوئی پہلی نظر ہی ہٹنے نہیں پا رہی تھی وہ بنا آنکھ جھپکنے اسے دیکھے جا رہا تھا ، اس۔کی آنکھوں کی گہری سے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اس میں ڈوب ڈوب کر جیے گا ان آنکھوں نے ہی تو اسے کہیں کا نہ چھوڑا تھاب، انہی پر وہ فدا تھا ، جب وہ اپنی آنکھ جھپکتی تو احسن کو لگتا جیسے اس کی دنیا بدل رہی ہو اور ایک نئے رنگ میں تبدیل ہو جانے والی ہو ، فاطمہ نے بےرخی سے منہ پھیرا تھا جسے احسن برداشت نہیں کر پایا اس نے فاطمہ کا ہاتھ پکڑ لیا وہی ہاتھ جس میں اس کے نام کی مہندی لگی ہوئی تھی ،فاطمہ
نے ہاتھ چھڑوانے کی اپنی کی سی سعی کی لیکن احسن کی گرفت مضبوط تھی ، فاطمہ نےاحسن کو گھورا تھا لیکن اس پر اثر نہیں ہوا تھا بلکہ وہ اسے گھورتے ہوئے اس قدر پیاری لگ رہی تھی کہ احسن کو اپنا دل اس کی آنکھوں میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا ، اگر شیشہ دکھائی کی رسم نہ ہوتی تو شاید اب تک یوں صبر سے بیٹھنا احسن کے لیے محال ہوتا
” چلو ارم بیٹا آپ فاطمہ کو کمرے میں چھوڑ آؤ بچی تھک گئی ہے ” احمد صاحب نے اندازہ لگا لیا تھا کہ فاطمہ سے اب بیٹھا نہیں جا رہا اس لیے انہوں نے ارم کو کہا تھا جبکہ وہ بھی ان کے کہنے پر فاطمہ کو اٹھاتی سنبھالتی روم تک لائی تھی ، اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو گلاب کے پھولوں کی مہک نے ان کا استقبال کیا تھا جبکہ فاطمہ حد درجے تک بیزار ہوئی تھی اس نے سرسری سی نظر کمرے میں دوڑائی تھی لیکن اس کی نظریں جیسے ہر چیز پر جم رہی تھیں یہ وہ احسن کا تو کمرہ لگ ہی نہیں رہا تھا ، کمرے میں پڑی ہر چیز اپنی قیمت کا منہ بولتا ثبوت تھی ہر جگہ پہ پھول بکھرے ہوئے تھے ریڈ کلر کا کارپٹ بھی گلاب کی پتیوں میں چھپ چکا تھا ، جبکہ جگہ جگہ پر موم بتیاں جل رہیں تھی خوبصورت اسٹائلش انداز میں شعلے نکالتی موم بتیاں ماحول کو بہت پرسکون بنا رہی تھیں بیڈ پر گلاب اور موتیے کے پھولوں کے گلدستے پڑے ہوئے تھے ارم کا تو منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا تھا ایسا ہی حال فاطمہ کا تھا لیکن اس نے کوئی تاثر نہیں دیا تھا اور اگنور کرتی خود ہی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی ،ارم بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی
” سچی فاطمہ تم بہت خوش قسمت ہو ، احسن بھائی جیسا دلہا قسمت والوں کو ہی ملتا ہے اور اوپر سے وہ تم سے محبت بھی تو بہت کرتے ہیں ” ارم کی بات اسے زرا بھی ہضم نہیں ہوئی تھی اس لیے دانت کچکچاتے ہوئے بولی تھی
” تمہیں کس نے بولا کہ احسن مجھ سے محبت کرتا ہے ”
“احسن بھائی نہ بھی بتائیں تو ان کی آنکھوں میں جو تم کو دیکھ کر دیپ جلتے ہیں انہی سے اندازہ ہو جاتا ہے ،بتانے کی ضرورت ہی نہیں ”
” یہ تو تم اس کی کزن ہو نا اس لیے سائیڈ لے رہی ہو ” فاطمہ نے تکیہ سے ٹیک لگاتے ہوئے قدرے آہستہ آواز میں کہا تھا تو ارم ہنس دی
“ایسی بات نہیں ہے فاطمہ ، تم سے یہ بات میں صبح پوچھوں گی پھر بتانا کہ میں صحیح کہہ رہی تھی کہ غلط ” ارم نے زو معنی لفظوں میں کہا تو فاطمہ نے نا سمجھی سے پہلے اس کی طرف دیکھا جب کچھ دماغ میں پڑا تو تپ گئی لیکن ارم پہ اپنا غصہ نکالنے سے بہتر تھا وہ چپ ہی رہتی ،
احسن کو دروازے پر سب نے روک رکھا تھا ٹائم کافی ہو گیا تھا لیکن کزنز جان ہی نہیں چھوڑ رہے تھے
“یار بس بھی کر دو اب کیوں مجھے لٹکانے کا ارادہ ہے ” احسن نے مسکین سا بنایا تھا جبکہ اس کی بات پر سب نے قہقہہ لگایا تھا اور جب تک سارے پیسے نکلوا نہیں لیے تھے تب تک اسے جانے نہیں دیا تھا ،ارم ابھی روم میں ہی تھی جب احسن عجلت میں ہی کمرے میں داخل ہوا ، ارم اور فاطمہ نے تحیر سے ایک دوسرے کو دیکھا
” کیوں بھائی آپ نے مجھے لاگ دینا ہے کیا ” ارم نے چٹکلا چھوڑا تو احسن کو تپ چڑھی
” کچھ خدا کا خوف کرو یار مجھے لگتا ہے سارے جہاں کے بھوکے ہمارے گھر میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں ” احسن نے پھولوں والا ہار ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور خود فاطمہ کے پاس ہی بیٹھ گیا ،فاطمہ حد درجہ بیزار ہوئی تھی
” تو پھر کیا پریم کہانی سنانی ہے مجھے ؟،حیرت ہے بھئی” ارم اٹھنے لگی تو احسن نے پھر روک لیا
” مجھے یہ بتاؤ فاطمہ کو تیار کس نے کیا ہے ؟”
“کیوں آپ کیوں انویسٹیگیشن کر رہے ہیں ؟”
” مجھے بھی تو پتہ چلے کہ اچھی خاصی شکل کس نے بگاڑی ہے ” اس کی بات پر دونوں ہی چیخیں تھیں جبکہ احسن نے بھنویں اچکاتے ہوئے فاطمہ کو دیکھا جیسے کہ تمہیں بڑا فرق پڑا ؟
ارم نے فاطمہ کا دوپٹہ اتار دیا تھا
“اب دیکھیں میک اپ زرا غور سے ، آپ کو تو کوئی چیز پسند ہی نہیں ہے ” ارم کو اب احسن نے جانے کا اشارہ کیا تھا
“بس اسی لیے مجھے روک رہے تھے ”
“ہاں مہربانی ہے تمہاری اب جاؤ ” احسن کے کہنے پر ارم نے تاسف سے سر ہلایا اور دروازہ کھولتی باہر چلی گئی جبکہ فاطمہ یہی سوچ رہی تھی کہ ارم جائے تو ہی وہ چینج کرے ، سو اس کے جانے کے فورا بعد ہی وہ بھی چینج کرنے اٹھ کر چلی گئی احسن نے روکا نہیں تھا جبکہ وہ حیران تھی چینج کر کے آئی تو بلیک اینڈ بلو کلر کے خوبصورت سوٹ میں ملبوس تھی بال کھلے ہوئے تھے میک سے چہرا مبرا تھا ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑی وہ اپنے بالوں میں چٹیا کر رہی تھی جب اس نے اپنے پیچھے احسن کا عکس دیکھا ،فاطمہ نے چٹیا کر کے بالوں میں کیچر لگایا اور اٹھ کر جانے ہی لگی تھی جب احسن نے اس اس کی کمر سے پکڑ کر اپنے نزدیک کیا اور اپنی تھوڑی اس کے کندھے پر ٹکائی فاطمہ کا دل ہول رہا تھا
“چھوڑیں مجھے آپ ” فاطمہ نے زرا سی مزاحمت کی تھی لیکن احسن نے اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اپنے لب اس کے کانوں کے پاس کیے
” مجھے پتہ تھا تم چینج کر لو گی میں نے اس لیے ارم کو روکا تھا کیونکہ اس کی موجودگی میں تم چینج کرنے والی تو تھی نہیںاس لیے میں نے اسے روکا تاکہ دیکھ سکوں کہ تم میرے لیے دلہن بنی کیسی لگتی ہو ” احسن نے اس کا رخ اپنی جانب کیا تاکہ اس کے تاثرات دیکھ سکے ،
اس نے اپنی گہری کالی آنکھوں کو اس کی آنکھوں میں منعکس کیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر تھوڑا اور نزدیک کیا
“اور یقین مانو مجھے تم یوں زیادہ پیاری لگ رہی ہو ” احسن نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی تھی فاطمہ کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا لیکن جلد ہی اس نے اپنا رخ موڑ دیا تھا اور بیڈ پر جا کر لیٹ گئی
احسن کے لبوں پر مسکراہٹ تھی ،اس نے اسے ڈسٹرب نہیں کیا تھا اور چپ چاپ اپنی جگہ پر لیٹ گیا فاطمہ نے اپنی سانسوں کو ترتیب دیتے ہوئے شکر کیا اور سکون سے آنکھیں موند لیں جب انتہائی کان کے قریب اس اس کی سرگوشی سنائی دی ، ایسا کرتے ہوئے احسن کے لب اس کے کان کی لو سی ٹچ ہو رہے تھے
” یہ دو فٹ کا فاصلہ بھی کبھی طے ہو ہی جائے گا میرے لیے تو اتنا کافی ہے کہ تم میرے بلکل پاس ہو ” احسن نہ اس کا چہرہ اپنی جانب کیا تو اسنے کسی ڈر سے آنکھیں میچ لیں جبکہ احسن نے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھ دیے تھے ، اور اس کے بال سنوارتے ہوئے اپنی جگہ پر دوبارہ لیٹ گیا رخ اسی کی طرف تھا جس کے رخسار دہک رہے تھے احسن نے ہاتھ بڑھا کر اس کے گال پر ہاتھ رکھا تو ہولے سے ہنس دیا اور اپنی آنکھیں بند کر دیں دوسری جانب فاطمہ سوچ رہی تھی کہ وہ مزاحمت کیوں نہ کر سکی تھی شاید کہیں نہ کہیں وہ بھی اس کے بارے میں سوچ رہی تھی پھر وہ اپنے خیالوں کو جھٹکتی نیند کی وادیوں میں گم ہو ہی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کب احسن کی نیند ٹوٹی تھی گھڑی کی طرف دیکھا تو دس بجے ہوئے تھے اٹھنے لگا تھا تو اس کی نظر فاطمہ کی چوٹی پر پڑی جو بستر پر آڑھی ترچھی سی پڑی تھی بال نکل کر ماتھے پر نکل رہے
احسن مسحور سا ہو گیا تھا بلکل معصوم سی لگتی تھی وہ سوئی ہوئے، احسن پہلے خود فریش ہوا تھا تیار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فاطمہ کو بھی آوازیں دے رہا تھا جو نہ جانے کتنی گہری نیند میں تھی جب فاطمہ پھد نہ اٹھی تو اس نے گیلے ہاتھ لے جا کر فاطمہ کے چہرے پر پھیرے تو وہ ڈسٹرب ہوئی تھی اسے پہلے لگا تھا کہ ماما ہے لیکن پھر خیال آیا تو ایک جھٹکے سے اٹھی اور خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو پاس ہی بیٹھی تھی
” کب سے آواذیں دے رہا ہوں لیکن تم اٹھ ہی نہیں رہی تھی اب اٹھ کر تیار ہو جاؤ جلدی سے ” احسن نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اٹھانا چاہا لیکن وہ اس کا ہاتھ جھٹک گئی تھی۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...