کرتے ہیں ہم تم سے محبت
معلوم نھی کون سی والی
لیکین محبت ہے پہلی اور ادا ہے نرالی
پہلی ادا میں بہے پیار کو کیا نام دوں
بولو نھی حکم دو اور میں لبیک لبیک
ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مُعیز نے میسیج سینڈ کیا۔۔
لاریب کھانا کھا کر کمرے میں آگئ۔۔۔
آج کوئ بھی اُسکے ساتھ ٹیبل پر نھی تھا۔۔لیکین وہ ملازمہ ضرور تھی۔۔کمرے میں آکر اُس نے دوا لی اور لیٹ گئ نہ موبائل دیکھا نہ کُچھ اور بس آنکھیں موند لیں۔۔۔۔
کرب سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔۔
کبھی کبھی انسان بلاوجہ اُداس ہو جاتا ہے لیکینجس انسان کے پاس وجہ ہو کوئ اُس سے نھی پوچھتا پتا ہے کیوں ؟ کیوں کہ وہ اپنی آنکھوں میں اپنے چہرے پر ایک ایسا پردہ گرا لیتا ہے جیسے اِس پردے کے پیچھے ایک خالی میدان ہو سبزے سے بھڑا ہوا آنگن ہو۔۔ٹھنڈی ہوا ہو لیکین ایسا کچھ نھی ہوتا ایک میدان ہوتا ہے لیکین سورج کی تپش سا جلتا ہوا۔۔۔
اُس نے آہستہ سےچُکارا ماما جانی
اور آنسو گِر گۓ بند آنکھوں سے
دوبارہ بولی ماما جانی واپس آجائیں کسی روپ میں پھر دونوں ایک ساتھواپس جائیں گیں
لیکین اب کی بار موبائل بجنے لگ گیا
بے شک اچھے لوگوں کو اشارہ ملتا ہے
اُس نے آنکھیں کھولی اور فون اُٹھایا
نمبر تھا کوئ۔۔۔
لاریب ؛ ہیلو۔۔۔
جی جی اب تو آپ اُس نمبر کو جانتی ہوں گی اِسی لیے نیا نمبر لیا معیز بولا
لو جی ایک تو تمہے چین نھی نہ مجھے چین لینے دو گے۔۔۔لاریب تھوڑا سا غصے میں بولی۔۔
چین آجاۓ روح کو سکون مل جاۓ دھڑکنوں کو قرار آجاۓ اگر آپ کے نام کے آگے میرا نام آجاۓ
معیز اپنے شرارتی لہجے میں بولا
لاریب کے چہرے کا ایک رنگ گیا اعر دوسرا آیا
کیوں اُسے وہ شخص سچا لگ رہا تھا
وہ سمجھ نھی پا رہی تھی۔۔۔یا وہ اگر سمجھ جاتی تو اپنا آپ بھی کھو دیتی۔۔۔
لیکین اُس نے آواز نکالی اور بولی۔۔ایک احسان کردو گے
جی جی حُکم کریں میرے پر احسان کو گا
معیز بولا
ارے بئ مجھے آئندہ کال نہ کرنا میری زندگی آگے مشکل ہے اور اب اسے مزید تنگ نہ کرو۔۔۔
اور کال کٹ گئ۔۔لاریب کی طرف سے۔۔۔۔
*****************
نسرین بیگم صبح ہوتے ہی جیل پہنچی۔۔ایک وہی اکیلی تھی جو اپنے بیٹے کا ساتھ دینا چاہتی تھی۔۔۔۔
وہ سلاخوں کے پیچھے بند تھا۔۔ جیسے کسی جنگلی جانور کو کئیوں کا کون پینے کے بعد اپنی حراست میں لیا جاتا ہو۔۔جیسے اب اُس جنگلی کا پیٹ بھڑا ہو اور وہ مدتوں کا آرام فرمانا چاہتا ہو۔۔۔
نسرین تو اُسکی حالت دیکھ کر ہی ٹھٹک گئیں۔۔۔اور روتے روتے اپنے وکیل کو فون ملانے لگی۔۔۔
انس کو کسی بھی وجود کے آس پاس ہونے کا کوئ فرق نھی تھا۔۔۔۔کوئ بھی نھی۔۔۔۔
اُسے بھی اب مدتوں کا آرام چاہیے تھا۔۔۔
وہ اُس چیٹائ پر ٹانگیں اور بازو ایک کیے آنکھیں بند کیے لیٹا تھا اور خوف اُسکے چہرے پر واضع تھا اُس خوف میں بھی بھت سی لعنتیں اور بہت سی بددعائیں ساتھ تھیں۔۔۔۔
*****************
آریانہ نے خلیل کے لیے نور جہاں کی سہیلی کا ہاتھ مانگا ہوا تھا نور جہاں کی خواہش تھی کہ وہ صرف اور صرف شہر بانو کو اپنی بھابھی بناۓ جو کہ کم عمر اور خوبصورت تھی۔۔۔
خلیل کو نور جہاں کی خاطر سب منظور تھا۔۔۔اور اُس رات بد قسمتی یا خوش قسمتی
شہر بانو کو گھر سے اجازت نھی ملی اور وہ خود بھی آنا نھی چاہتی تھی وجہ یہی تھی کہ اب اُسکے ابا کو شک ہو گا کہ کہیں وہ خلیل کے چکروں میں پہلے سا نہ ہو۔۔۔۔
رشتہ نور جہاں کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔۔۔
لیکین باقاعدہ رسم باقی تھی۔۔۔
آریانہ رحیم اور خلیل کے ہمراہ اُن کے گھر پہنچی ۔۔۔۔
اور بات شروع کی۔۔۔
نور کی بہت خواہش تھی کہ وہ خلیل کے لیے صرف شہر بانو کو ہی چُنے اور سب نے اُس کی بات پر غور کیا تو ہنے کوئ بھی خامی نظر نھی آئ۔۔۔اپنی شہر بانو ہے ہی خوبیوں سے بڑی ہوئ۔۔آج آریانہ خوشی اور غمی کے ملے جُلے جزبات رچا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب نے ہامی بھڑی اور اگلے دو ہفتوں کے بعد کے جمعے کو نکاح رکھا گیا۔۔
شہر بانو نے خلیل کو کچن کے دروازے سے دیکھا تو خلیل کی نظر بھی پڑ ل گئ۔۔نظریں ملی تو لیکین دل نہ ملے۔۔۔
شہر بانو کو بھلے کوئ مسلٸہ نھی تھا لیکین خلیل کیا خلیل کے دل میں بھی یہی سب تھا کہ نھی شہر بانو پڑھ نہ سکی اور واپس کاموں میں لگ گئ۔۔۔۔
**********
وکیل نے جب ساری معلومات اکھٹی کی تو پہلے بھت پیسے مانگے اور نسرین نے کوئ اطراض نھی کیا پھر دیکھا تو ایک ایک تھانے سے ایک ایک رپورٹ ملنے لگ گئ کیس بہت نھی بلکہ بلا شبہ بہت زیادہ سنجیدہ تھا شائد ہی اُسکو پھانسی کی سزا نہ ملتی۔۔۔وکیل نے بھی بس ہاتھ جھاڑنے کی کوشش کی لیکین پیسوں کے لیے مان گیا۔۔۔اب آگے کی بات عدالتی تھی۔۔۔
**************************************